ایمن روم میں آ کر بیڈ پہ بیٹھتے ہوئے تاسف سے ماما کے رویے پر افسوس کرنے لگی
خیر ماما میں آپ کو مانا کر رہو گئی
ایک پختہ ارادہ کے ساتھ بیگ سٹڈی ٹیبل پہ رکھتی وہ واش روم گھس گئی
کپڑے بدل کر باہر نکلی ،
ادھر مغرب کی آذان ہونے لگی
وضو کیا
مصلہ ہاتھ میں لیے روم کا دروازہ بند کرنے ہی لگی تھی
بابا آتے دکھائی دیے
ایمن بیٹا ،
جی بابا
بیٹا میں نماز پڑھ کے چپل کباب لیتا آوں گا تم جلدی جلدی روٹیا ں بنا لینا نہایت پیار سے بولے تھے
جی بابا ٹھیک ہے میں بنا لوں گئی ،چہرے پہ
مسکرائٹ سجائے بہت آداب سے جواب دیا
**********************”*”*”**””*************
نماز کے پڑھ کے ایمن نے کیچن کا رخ کیا
وہ اتنی تیزی سے کام کر رہی تھی ،کہ اسے علم ہی نہ ہوا بابا کب آئے
بس بابا پانچ منٹ اور ، التجائیہ لہجے میں گویا ہوئی
چلو جلدی جلدی کرو ، ورنہ یہ ٹھنڈے ہو جانے گئے پھر کوئی مزہ نہیں آئے گا کباب کیچن سلیپ پہ رکھتے ہوئے بولے
ایمن جتنی جلدی کر سکتی تھی کر رہی تھی
واقعہ ہی ٹھیک پانچ منٹ بعد ڈاہنگ ٹیبل پہ سب لگا رہی تھی
آجاو سب ،
کھانا اچھے ماحول میں کھایا گیا
کھانا ختم کرتے ہی سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہو گئے
*****************************************”””””
جہانگیر ٹی وی دیکھنے لگے ،ایمن بھی ساتھ بیٹھ گئی
کافی دیر ٹی وی پہ شو دیکھتے رہے ایک خاموشی کا سناٹا چھایا ہوا تھا ،
عیشا کی آذان ہونے لگی ،
چلو بیٹا نماز پڑھ لو میں بھی پڑھ آوں ، ٹی وی بند کرتے اٹھتے ہوئے بولے
جی بابا ،
ایمن بھی اپنے روم میں چلی گئی
نماز پڑھنے کے بعد نیچے آئی تا کہ چائے بنا لے
اپنا، ماما اور بابا کو مگ ٹرے میں رکھتی وہ اوپری منزل کی طرف بڑھ گئی
اپنا مگ اپنے روم میں رکھ کے ماما اور بابا کے کمرے کا رخ کیا
دروازہ تھوڑا سا کھلا ہوا تھا ، جس سے آوزیں صاف سنائی دی رہی تھی
اس سے پہلے دروازہ کھولتی اندر جاتی بابا کی آواز پہ روک گئی
بابا اتنی اونچی اور غصہ سے کیوں بول رہے ہیں
خدا کا خوف کرو،شمائلہ بیگم ،وہ غصیلے لہجہ میں بولے
کس بات کا کروں میں خوف انتہائی اطمینانیت سے شمائلہ بیگم بولی
وہ بیٹی ہے تمہاری،وہ بھی سب سے بڑی ،تمہارا روز مرہ کا رویہ اب بڑھتا جا رہا ہے ،پریشانی کے عالم میں گویا ہوئے
اس کی وجہ بھی وہ خود ہے
ایمن کے پاوں کسی انہونی نے جکڑ لیے تھے
کیا وجہ ہے ہاں آج بتاو ذرا مجھے بھی تو پتہ چلے
حقارت سے شمائلہ بیگم منہ دوسری طرف موڑ گئی
**********************************
پھر کچھ تاسف کے بعد بولی ،آپ بھول سکتے ہیں میں نہیں بولی اور نہ کبھی بولوں گئی
آخر پتہ تو چلے کیا کیا ہے اس نے اب جہانگیر کافی پریشان ہو گئے تھے آواز میں واضح لڑکڑاہٹ محوس ہو رہی تھی
**************** *********************************
آج سے سترہ سال پہلے جب وہ صرف چھ سال کی تھی بھول گِے ہیں آپ وہ دن ؟
میں سمجھا نہیں کیا ہوا تھا اس دن؟ کافی حیرانی سے بولے
استہزائیہ ہنسی لیے شمائلہ بیگم پھر سے بولنے لگی
اس لڑکی کی وجہ سے سب کے سامنے میری جو انسلٹ ہوئی تھی میں کبھی نہیں بھول سکتی
میں ماں تھی میری بات نہیں مانی
میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا ہے صاف صاف بات کرو پہلیاں مت بجھاو ،درشتگی سے بولے
میرے ساتھ جاتی تھی نہ سکول ،غلطی سے میں اسے سٹک(ڈنڈا) مارا تھا مجھے کیا پتہ تھا یہ کھڑی ہو جائے گئی ،اور ڈنڈا اسکی آنکھ میں لگ جائے گا
میں بھی تب پریشان ہو گئی تھی اسکا اتنا خون نکلتا دیکھ کر ،
چوٹ اسکی آنکھ میں لگی تھی ،ڈنڈا اندر کے آنکھ لگا تھا
میں ڈاکڑ کے پاس لیکر گئی ،پٹی کروائی ،چیزیں لے کے دی ،اتنا بہلایا سمجھایا ، اپنے بابا اور دادا کو نہ بتانا
مگر جب گھر آئی تو آتے ہی باپ سے لیپٹتے ہی رونے لگی
اور جب باپ نے پوچھا تو صاف بتادیا میں نے مارا ہے
سب کے سامنے میری اتنی بے عزتی ہوئی
اور آپ نے کیا کیا ،؟جانتے ہیں
آپ نے اس کی وجہ سے کہا کہ جاو چلی جاو میں تمہیں طلاق بھیج دوں گا
سب کے سامنے اس نے مجھے ظالم ،سفاک بنا دیا
سب نے کتنی باتیں کی تھی مجھے
حقارت،نفرت واضح تھی
،
ایمن باہر ساکن ہو چکی تھی ،
جانے کے لیے مڑی جب پھر سے شمائلہ بیگم بولی ،
اور دوسری بات یہ میری بات آج بھی نہیں مانتی
جہانگیر صدمے سے پاگل ہو رہے تھے
اب بھی آپ کے بھائی بہن آئے تو یہ آگے ہو کہ سب کو چائے کھانا دیتی ہے
کون ہوتی ہے یہ ، یہ سن کرنے والی ؟میں تو کسی کو منہ نہ لگاوں اور یہ سب کے سامنے مجھے شرمندہ کروا دیتی ہے
آتے ہیں وہ لوگ ،بیٹھے اور دفعہ ہوں ،یہ ان کی خدمتیں کرتی ہے
نفرت ہے مجھ اس سے ، بہت ہوا بیگم،
اللہ سے ڈرو ،،وہ بیٹی ہے
اس سے جب غلطی ہوئی ،تب وہ جانتی ہی نہیں تھی کچھ
ایمن کمرے کہ طرف بھاگی تھی چائے وہیں گر گئ
کمرے میں جاتے ہی دروازہ بند کرتی وہ وہیں بیٹھتی گئی
سانس آ رہا تھا مگر ،
گلے میں اٹکا آنسوں کا گولہ باہر نہیں آ رہا تھا
کتنی دیر وہ شل ہوتے وجود کو سمٹتے ایک ہی حالت میں بیٹھی رہی
اسکا وجود بے جان ہونے لگا تھا ،سانسیں اٹکنے لگی تھی