“لیکن میں اچھا شوہر نہیں ہوں۔” وہ بس یہ سوچ کر ہی رہ گیا تھا۔ کہہ نہیں سکا تھا، کہہ سکتا ہی نہیں تھا۔ اسے یہ رشتہ مرتے دم تک نبھانا تھا۔
کھانا نہایت خوشگوار ماحول میں کھایا گیا تھا۔ چائے کا دور چلنا تھا۔ جب ہادی نے اچانک سے موتیا سے چائے کی فرمائش کی تھی۔
” ارے ارے۔۔۔ ابھی تو اس کے ہاتھوں کی مہندی بھی پھیکی نہیں پڑی، ابھی سے گھر کے کام۔۔۔” سعدیہ نے اسے اٹھنے سے روکا۔ ہادی کہہ رہا تھا کہ وہ جائے اور سعدیہ جانے نہیں دے رہی تھیں۔ موتیا دونوں کے درمیان سینڈوچ بن گئی تھی۔
“بھئی پہلے اس کا ہاتھ میٹھے میں ڈلواؤں گی، پھر جا کر کوئی کام کرے گی۔” سعدیہ نے اسے بٹھایا۔
“ہم معتداء کے ہاتھ کی چائے ہی پی لیتے ہیں، میٹھا سمجھ کر۔” عدی نے گفتگو میں حصہ لیا۔
“معتداء۔! آپ چائے میں شکر چمچ کی بجائے اپنے ہاتھ سے ڈالیے گا، ماما جان کی شرط پوری ہو جائے گی میٹھے میں ہاتھ ڈلوانے والی۔” عدی کی بات پہ ابراهيم اور ہادی کا قہقہہ بے ساختہ تھا۔ خود سعدیہ بھی مسکرائے بنا رہ نہیں سکی تھیں۔
“عدی تم۔۔۔ تم کیا جانو ان رسموں کو۔” سعدیہ نے مصنوعی خفگی سے کہا۔ موتیا نے جانے میں ہی عافیت سمجھی۔ سعدیہ کو اب ہادی کے جانے کی خبر دینا تھی، اور وہ سب کے سامنے رونا نہیں چاہتی تھی۔
“میں رسموں کو نہیں جانتا ماما جان۔! میں بس یہ جانتا ہوں کہ جانے سے پہلے بیوی کے ہاتھ کی چائے پینا ہادی کا بنیادی حق بنتا ہے۔” بات کا آغاز بالآخر ہو ہی چکا تھا۔
“کیا مطلب ہے تمھارا؟؟؟ جانے سے پہلے؟” سعدیہ کا ماتھا ٹھنکا۔ ابراهيم محض گلا کھنکار کر رہ گئے، ہادی چپ بیٹھا خالی پلیٹ میں چمچ ہلا رہا تھا۔
“کہاں جا رہے ہو ہادی۔؟” انھوں نے براہ راست اسی سے پوچھا۔
“میرے آفیسر کی کال آئی تھی۔ کل واپس جانا ہے۔” اس نے بتایا
“ابھی شادی کو دن ہی کتنے ہوئے ہیں ہادی اور۔۔۔ تم کہہ نہیں سکتے تھے کہ چھٹی پہ ہوں، شادی ہوئی ہے ابھی۔؟!” وہ ایک دم سے غصے سے پھٹ پڑی تھیں۔
“اس کی نوکری ہی ایسی ہے سعدیہ، کیوں پریشان ہو رہی ہو۔؟” ابراهيم نے انھیں پرسکون رہنے کا کہا تھا اور یہی غلطی ہوئی تھی۔
“میں نے تو نہیں کہا تھا کہ فوج میں جائے، گھر بار کی پروا نہ کرے۔ ماں باپ یا بیوی کی فکر نہ کرے۔۔ چلو میری خیر ہے لیکن اس کا کیا قصور ہے جسے دو دن پہلے ہی بیاہ کر لایا ہے۔”
“میں نے تو کہا تھا آپ سے ماما جان کہ مجھے ابھی۔۔۔”
“تم دونوں بھائیوں نے ناک میں دم کر رکھا ہے میرے۔!” سعدیہ نے گھبرا کر اس کی بات کاٹی مبادا وہ باپ اور بھائی کے سامنے سب بول ہی دے۔ ہادی بے چارگی سے عدی کو دیکھ رہا تھا۔
“ماما جان! جب بھی ہادی نے جانا ہوتا ہے آپ کو ہو کیا جاتا ہے؟” آخرکار عدی میدان میں کود ہی پڑا تھا۔
“وہ پہلا فوجی نہیں ہے جس کی شادی ہوئی ہے اور نہ پہلا فوجی ہی ہے جو شادی کے دو دن بعد ڈیوٹی پہ جا رہا ہے۔” عدی نے پانی کا گلاس ان کے ہاتھ میں دیتے ہوئے بات جاری رکھی تھی:
“آپ ایک بہادر فوجی کی ماں ہیں، دل کو مضبوط کیجیے۔”
“تم کیا جانو کہ ایک ماں کے دل پہ کیا گزرتی ہے۔” سعدیہ نے ایک گھونٹ پانی پی کر گلاس میز پہ رکھا اور تیکھے لہجے میں بیٹے کو جواب دیا تھا۔
“جی بالکل۔! وہ بھی مائیں ہی ہوتی تھیں جو خود اپنے اکلوتے بیٹوں کو تلواریں دے کر میدان جنگ میں بھیجا کرتی تھیں۔” عدی کو شروع سے ہی خواتین کے یہ میلو ڈرامے الجھن میں مبتلا کرتے تھے۔ اب بھی یہی تو ہوا تھا۔ سعدیہ کے بس رونے کی ہی کمی رہ گئی تھی۔
“لگتا ہے اب چائے بھی نہیں ملے گی۔” عدی نے بلند آواز میں تبصرہ کیا موتیا نے سن کر جلدی سے نم آنکھیں صاف کیں۔
“چلو بھئی ہادی! تم چل کر آرام کرو، ان عورتوں کا بس خدا ہی حافظ ہے۔ ان کا بس چلے تو ہم مردوں کو چوڑیاں پہنا کر گھر بیٹھنے پہ مجبور کر دیں۔” سعدیہ آنکھیں کھولے بیٹے کی گوہر افشانیاں سن رہی تھیں شوہر کو دیکھا تو وہ بھی اس کے حامی نظر آئے تھے۔ دریں اثنا موتیا چائے لے آئی تھی۔ سعدیہ نے اسے کچھ نہ کہا اس کی آنکھوں میں نمی وہ دور سے ہی دیکھ چکی تھیں۔
چائے کا ایک گھونٹ بھر کر، عدی نے پیالی رکھی، اور “میں ابھی آیا” کہہ کر چلا گیا، سب حیران تھے کہ آج اسے کیا ہوا؟ وہ کھانے کی میز سے ایسے اٹھتا نہیں تھا۔ وہ چند ہی لمحوں میں واپس آیا اور ایک چھوٹا سا جیولری باکس موتیا کو دیا تھا۔
“یہ لیں معتداء!”
“یہ کیا ہے عدی بھائی؟!” اس نے ہاتھ نہیں بڑھایا تھا۔
“ماما جان کی یہ رسم کہ میٹھے میں ہاتھ ڈلوانا، میں جانتا تھا۔ اسی دن کے لیے لیا تھا۔” موتیا نے شکریہ کہہ کر بکس لیا تھا۔ سعدیہ کو اس لمحے عدی پہ بےتحاشا پیار آیا تھا جو بظاہر ان رسموں کو اہمیت نہیں دیتا تھا لیکن خیال رکھتا تھا۔ دونوں کی ماں بیٹے کی نظریں باہم ملی تھیں۔ ان کی نگاہوں میں اس فعل پہ پسندیدگی تھی، اس نے مسکراتے ہوئے سر کو ہلکا سا خم کیا تھا۔ ماحول پہ طاری سوگواریت کچھ دیر کے لیے کم ہو گئی تھی۔
**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔**
اس روز رات گئے تک ہادی نے سب کو وہیں ہال کمرے میں بٹھائے رکھا تھا۔ باری باری سب نے اسے جانے اور آرام کرنے کا کہا تھا لیکن وہ آج کسی کی بات ماننے پہ آمادہ نظر نہیں آتا تھا۔ نجانے کون سا خیال اس کے دل میں سمایا تھا۔ کہ نہ باتیں ختم ہو رہی تھیں نہ ان سب کو دیکھنے سے آنکھیں ہی سیر ہو پا رہی تھیں۔ اس نے صبح سات بجے نکلنا تھا۔
“کچھ دیر سو جاؤ ہادی! ایک لمبا سفر کرنا ہے کل۔” ابراهيم کے کہنے پر مجبور ہو کر وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
“اپنا خیال رکھنا موتیا! اور مجھے معاف کر دینا۔ میں تمھارا کوئی حق ادا نہ کر پایا۔” موتیا سمجھ سکتی تھی اس کا اشارہ کس جانب تھا۔ وہ کچھ نہ کہہ پائی البتہ آنکھوں کی نمی اور ہونٹوں پہ دبی ہلکی سی مسکراہٹ گواہ تھی کہ وہ اس سے ناراض ہی نہیں تھی تو معافی کا کیا سوال؟” وہ سب سے مل کر عدی کی گاڑی میں بیٹھا، عدی اسے چھوڑنے اڈے تک جا رہا تھا۔
“ماما جان تو کہتی تھیں کہ تم بہت رونا دھونا مچاتے ہو۔” وہ شرارت سے کہہ رہا تھا۔
“آپ پاس نہ ہوتے تو شاید۔۔۔” وہ بھی شرارت سے گویا ہوا تھا۔ باقی راستہ دونوں کے درمیان کوئی گفتگو نہیں ہوئی تھی۔
سامان وغیرہ رکھا جا چکا تھا۔ ہادی کے سوار ہونے ہی کی دیر تھی۔
“بھائی۔!” وہ عدی سے لپٹ گیا ایسے کہ الگ ہونے کو دل ہی نہ چاہ رہا ہو۔ اس کا دل عجیب سے احساسات کا شکار تھا۔ یوں جیسے پھر کبھی گلے لگنے کو یہ سینہ میسر نہیں ہو گا۔
“میرے بعد موتیا کا خیال رکھیے گا۔” وہ کہہ کر اس کی اگلی بات سنے بنا گاڑی میں چڑھ گیا تھا۔ عدی نے اس بات کو یوں اچانک چلے جانے پہ محمول کیا تھا۔
دن ایسے ہی گزرتے جا رہے تھے۔ دو تین دن کے وقفے سے ہادی کا فون بھی آ جاتا تھا۔ عدی کے وہی روز و شب تھے۔ گھر سے ہسپتال، ہسپتال سے گھر۔۔۔ کبھی کبھی جم بھی چلا جاتا تھا۔ سعدیہ کو اب باتیں کرنے، تنہائی بانٹنے کے لیے ساتھی مل گیا تھا۔
21 جنوری کا وہ دن بظاہر عام دنوں کی طرح کا ایک عام سا دن ہی تھا لیکن ابراهيم لاج کے مکین اس سے ناواقف تھے کہ آج کا یہ دن ان کی زندگیوں میں ہمیشہ کے لیے امر ہو جائے گا۔ وہی کہر اور دھند میں لپٹا سورج، تپش تو کیا پہنچاتا، روشنی بھی ملگجی سی تھی۔ دن چڑھ گیا تھا۔ لان میں دھوپ بکھری تھی۔ سعدیہ اور موتیا دھوپ سے لطف اندوز ہونے وہیں کرسیوں پہ بیٹھی تھیں۔ ابراهيم آج گھر ہی تھے، جب عدی کی گاڑی مرکزی دروازے سے اندر داخل ہوئی تھی۔
“السلام علیکم! بابا جان گھر پہ ہیں؟” وہ وہیں چلا آیا۔ میز پہ رکھے خشک میوہ جات کی پلیٹ سے اخروٹ اور پستے کے چند ٹکڑے اٹھاتے سعدیہ سے سوال کیا۔
“وعليكم السلام! آج تم خلاف معمول جلدی کیسے آ گئے؟” دن کے دو بج رہے تھے
“بابا جان سے کچھ کام تھا۔ کیسی ہیں معتداء؟ روئے سخن اس کی جانب کیا۔ اسے ہمیشہ ہی اپنا اصل نام بڑا اجنبی سا لگتا تھا۔ سوائے عدی کے کسی نے اسے معتداء کہہ کر نہیں بلایا تھا۔
“میں ٹھیک ہوں عدی بھائی۔!” اس نے آہستگی سے جواب دیا۔ وہ ان دونوں کو چھوڑ کر ابراھیم کے کمرے طرف بڑھ گیا۔
“بابا جان۔!” اس نے دستک دی اور اندر داخل ہوا تھا۔ وہ شاید واش روم میں تھے۔ اس نے کمرے میں قدم رکھا ہی تھا کہ میز پہ دھرا ان کا فون بجنے لگا تھا۔
“آپ کا فون ہے بابا جان!” سکرین پہ کوئی ان جان نمبر جگمگا رہا تھا۔
“بلا جھجک فون اٹھا لو، بھلا میری کب کوئی سہیلی مجھے فون کرے گی جو راز داری برتوں۔” ان کی بات سن کر عدی نے ہنستے ہوئے کال اوکے کی تھی۔
“السلام علیکم!”
“کیا میں محمد ابراهيم صاحب سے بات کر رہا ہوں؟” دوسری جانب کسی مرد کی بھاری آواز گونجی تھی۔
“عدی ابراهيم! محمد ابراهيم کا بڑا بیٹا۔۔” اس نے تعارف کروایا۔
“آپ کو مبارک ہو عدی ابراهيم۔! آپ کے بھائی ہادی ابراھیم نے پاک وطن کی خاطر لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا ہے۔” بہت مضبوط اعصاب کا مالک ہونے کے باوجود بھی عدی کے قدم اس خبر کو سنتے ہی ڈگمگا گئے تھے۔ وہ دیوار کا سہارا نہ لے چکا ہوتا تو یقیناً لڑکھڑا کر گر ہی جاتا۔
“کک۔۔ کب ہوا یہ؟” اسے اپنی ہی آواز کسی گہری کھائی سے نکلتی محسوس ہوئی تھی۔
“حوصلے اور صبر سے کام لیجیے عدی ابراهيم! شہیدوں کے باپ اور بھائیوں کو بہت صبر و ہمت کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔” عدی انھیں کیا بتاتا کہ وہ کس قدر مضبوط اعصاب کا مالک تھا۔ لیکن تھا تو انسان ہی، بھائی کے دنیا سے رخصت ہونے کی خبر سن کر دل کی ایک دھڑکن مس تو ہوئی تھی۔
“کل صبح دس بجے اس کی میت گھر پہنچ جائے گی۔ فی امان اللہ السلام علیکم۔” فون بند ہو چکا تھا۔ لیکن وہ ابھی تک فون کان سے لگائے بےحس و حركت کھڑا تھا۔ ابراهيم باہر آئے تو اسے یوں کھڑا دیکھ کر ٹھٹھک گئے۔
“عدی! کیا ہوا بیٹا!؟” انھوں نے اس کا کندھا ہلایا۔ وہ اپنے خیال سے چونکا۔ ویران آنکھوں سے باپ کو دیکھا۔ فون میز پہ رکھا اور انھیں لیے بیڈ پہ بیٹھا۔
“بابا جان۔! ہمارا ہادی۔۔” بہت مضبوط سہی، پتھر دل سہی، لیکن کہاں سے لاتا وہ حوصلہ، وہ برداشت اور وہ ضبط جو ایک باپ کو اس کے جوان بیٹے کی موت کی خبر سنا سکتا۔
“کیا ہوا ہادی کو؟” ان کا دل بےچین ہو اٹھا۔
“وہ اب نہیں رہا۔ آپ کو مبارک ہو بابا جان! آپ ایک شہید بیٹے کے باپ ہیں۔”بالآخر ایک ہی سانس میں اس نے سب کہہ دیا تھا۔ وہ کتنی ہی دیر کچھ بول نہیں پائے تھے۔ دل کسی نے مٹھی میں جکڑ لیا تھا، گویائی سلب ہو گئی تھی۔
“ہمارا ہادی۔۔۔!” انھوں نے بے یقینی سے عدی کو دیکھا۔
“صبح ہی تو اس سے بات ہوئی تھی، بالکل ٹھیک تو تھا۔۔”
“ہادی اب نہیں رہا بابا جان!” اس نے ان کے ہاتھوں پہ زور سے دباؤ ڈالا۔
“اس نے جام شہادت نوش کر لیا۔” ضبط گریہ سے اس کی آنکھیں سرخ ہو گئی تھیں۔
“یا اللہ۔!” انھوں نے ایک طویل اور گہری سانس بھری تھی۔ گویا آنے والے وقت کے لیے صبر، برداشت اور حوصلہ اپنے اندر جمع کر رہے ہوں۔
ٹھیک کہا تھا اس آدمی نے فون پر کہ “شہیدوں کے باپ اور بھائیوں کو بہت صبر و ہمت کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے”
“بابا جان۔!” عدی نے ان کا کندھا ہلایا۔ ساکت وجود میں جنبش ہوئی تھی انھوں نے دعا کے لیے ہاتھ بلند کیے تھے۔
“یا اللہ! تیرا شکر ہے۔ میرے بیٹے کی شہادت کو قبول فرمانا مولا۔! اور مجھے آزمائش کے ان لمحات میں ثابت قدم رکھنا۔”
“آمیــــن” عدی نے بھی بلند آواز سے کہا تھا۔ بہت سے آنسو ان کا چہرہ بھگو گئے تھے۔
“اپنی ماں کو تم ہی بتانا عدی۔! مجھ میں اتنا حوصلہ نہیں ہے کہ۔۔”
“بابا جان میں۔۔۔!” وہ کہہ نہیں پایا کہ اس سے اتنے کڑے ضبط کی توقع بھی مت رکھیے۔ دل اس کا بھی اتنا ہی دکھ میں تھا جتنا کہ ان کا۔ ہادی اسے بھی اتنا ہی پیارا تھا جتنا انھیں تھا۔
عدی اٹھ کھڑا ہوا۔ ابراھیم کا ایک بیٹا قربان ہو چکا تھا اور دوسرے سے انھوں نے ضبط و برداشت کی بہت بڑی قربانی مانگ لی تھی۔
“ماما جان۔!” سعدیہ ہال کمرے میں آ چکی تھیں۔ موتیا چائے بنا رہی تھی۔
“کہو بیٹا!” وہ جو ٹی وی چلانے لگی تھیں، ریموٹ رکھ کر اس کی طرف متوجہ ہو گئیں۔
“کیا دیکھنے لگی تھیں؟ دیکھیے نا!” کچھ تھا اس کے انداز میں وہ کھٹک گئیں۔ اس کا چہرہ کچھ الگ ہی داستان سنا رہا تھا۔
“کیا ہوا عدی؟ سب۔۔۔ سب ٹھیک تو ہے۔؟”
“ماما جان۔!” عدی ان کے ہاتھ پکڑ کر بیٹھا۔ دل میں ہمت اور ذہن میں الفاظ ترتیب دینے لگا تھا۔
“ماما جان۔۔۔!” اس کی آواز بیٹھنے لگی تھی۔
“عدی! کچھ تو بولو۔۔ میرا دل گھبرا رہا ہے اب۔” انھوں نے بےچینی سے کہا۔ اپنے ہاتھ چھڑانے چاہے، لیکن گرفت مضبوط تھی۔ موتیا بھی ان کی بےچین سی آواز سن کر گھبرا کر وہیں آ گئی۔ وہ بھول گئی کہ دودھ ابلنے ہی والا تھا۔ ابراھیم بھی کمرے سے نکل آئے اور موتیا کے پاس کھڑے ہوئے، آخر کو اسے بھی تو سہارا درکار تھا۔
“ہادی۔۔ ماما جان۔۔!” اپنے پر تاثیر الفاظ سے لوگوں کے دل جیت لینے والے عدی کو آج اپنی ماں کے لیے الفاظ نہیں مل رہے تھے۔
“ہادی۔۔۔!؟ کیا ہوا ہادی کو؟” ماں تھیں، دل کی بےچینی نے گھیرا۔ پتا نہیں کیوں آنکھوں میں ڈھیروں پانی جمع ہوا تھا۔ ایک بیٹا نظروں سے دور تھا اور دوسرا پاس ہو کر بھی آنسوؤں کی دھندلاہٹ میں دور محسوس ہونے لگا تھا۔
“آپ کو پتا ہے ماما جان! وہ مائیں عظیم ہوتی ہیں جن کے بیٹے پاک سرزمین کے لیے کچھ کر گزرتے ہیں۔ ایسی عظیم ماؤں کے حوصلے بھی عظیم ہوتے ہیں۔”
“عدی۔! بتاتے کیوں نہیں کہ کیا ہوا ہادی کو؟” ان کا ضبط جواب دے گیا تھا۔ لیکن عدی کہاں سے لاتا ضبط۔۔ اس نے پلٹ کر ابراھیم کو دیکھا، موتیا سے جان بوجھ کر نگاہیں چرا گیا تھا۔ ابراھیم نے سر ہلا کر اسے حوصلہ دیا تھا۔
“ہادی شہید ہو گیا ماما جان!” اس کی گرفت سے اپنے ہاتھ چھڑانے کی مزاحمت انھوں نے یکدم ترک کر دی۔ عدی نے خود ہی ان کے ہاتھ چھوڑ دیے تھے۔ دوسری جانب موتیا نے دونوں ہاتھ منھ پہ رکھ کر اپنی چیخ پہ قابو پانے کی کوشش کی تھی۔ چولہے پہ رکھا دودھ ابل ابل کر فرش کو بھگونے لگا تھا۔
“ہادی شہید۔۔۔۔” سعدیہ کی پھٹی پھٹی نگاہیں عدی کے چہرے سے ہوتیں ابراھیم اور پھر موتیا پہ جا ٹھہری تھیں۔
“تم جھوٹ بول رہے ہو عدی۔! کہہ دو کہ یہ سب جھوٹ ہے۔” انھوں نے اس کا کندھا ہلایا
“ماما جان۔! حوصلے سے کام۔۔۔”
“کہاں سے لاؤں حوصلہ عدی۔!؟” عدی کی بات ادھوری رہ گئی۔
“نہیں ہے مجھ میں حوصلہ، نہیں ہوں میں عظیم ماں، نہیں لینی مجھے یہ عظمت۔” انھوں نے پاس بیٹھے عدی کو پرے دھکیلا،۔۔ عدی اس لمحے صدمے اور حیرت کی ملی جلی کیفیات کا شکار ہوا تھا۔
“میں نے کبھی نہیں چاہا تھا کہ وہ فوج میں جائے، میں نے کبھی نہیں چاہا تھا کہ یوں بھری جوانی میں، وہ مجھے چھوڑ کر چلا جائے گا۔” سعدیہ اپنے جذبات پہ قابو نہیں رکھ پا رہی تھیں۔
“ماما جان آپ۔۔!” اس نے انھیں سنبھالنا چاہا تھا۔ لیکن سعدیہ نے اس کے ہاتھ جھٹک دیے تھے۔
“تمھیں کیا پتا عدی کہ جب کوئی اپنا دنیا سے جاتا ہے۔ تو دل پہ کیا گزرتی ہے؟” عدی کو لگا جیسے کسی نے بہت زور سے اس کے چہرے پہ طمانچہ دے مارا ہو۔ تو کیا انھیں یہ خبر دینے کا مطلب یہ ہوا کہ ہادی سے اس کا کوئی رشتہ نہیں تھا؟ وہ اس کا کچھ نہیں لگتا تھا۔ وہ ایک دم اٹھ کھڑا ہوا سرخ آنکھیں سرخ چہرہ لیے۔ ابراھیم کو مخاطب کیا۔
“بابا جان! میں قبرستان جاتا ہوں، آپ باقی سب کو اطلاع دیجیے۔ صبح دس بجے اس کی میت۔۔۔۔” آنسو الفاظ پہ غالب آنے لگے تو وہ وہاں مزید نہیں ٹھہرا تھا۔ ابراھیم اسے روکنے یا اس کے پیچھے جانے کا سوچتے ہی رہ گئے۔ موتیا بھاگ کر سعدیہ کے پاس آئی تھی اور پھر دونوں نے ایک دوسرے سے لپٹی تھیں تو نہ آنسو قابو میں رہے تھے اور نہ آہیں۔ ابراھیم فون لے کر چپ چاپ باہر نکل آئے تسلی، دلاسے اور صبر کا کوئی لفظ ان دونوں پہ کارگر نہیں ہونے والا تھا۔ صبر تو آتے آتے ہی آنا تھا اور بےشک صبر اللہ ہی انسان کے دل میں ڈالتا ہے۔
انھیں عدی کی فکر لاحق تھی۔ جو انتہائی تکلیف دہ کیفیت میں گھر سے نکلا تھا۔ بھائی کے گزرنے کا غم اور اس پہ ماں کی باتوں نے اسے بری طرح تکلیف دی تھی۔ ابراھیم کو حد درجہ تاسف نے گھیر لیا تھا۔ عدی کو اپنے تاثرات چھپائے رکھنے میں ملکہ حاصل تھا۔ لیکن شاید آج لگنے والا دھچکا وہ بھی فوری طور پر برداشت نہیں کر سکا تھا یہی وجہ تھی کہ وہ اپنے احساسات چھپا نہیں پایا تھا۔
**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔**
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...