سلمہ اور شیبی کینیڈا کےکالج میں ملے تھے گو کہ سلمہ بہت امیر گھرانے سے تعلق نہیں رکھتی تھی پر کہتے ہیں نا پیار اندھا ہوتا ہے اور کچھ عرصے میں ہی شیبی کو اس سے محبت ہو گئی پر شادی کے لئے سلمہ نے یہ شرط رکھی کہ پہلے وہ اپنی پہلی بیوی کو طلاق دے اور یہ بات سیدھا سیدھا اپنے بابا سے بول دے کہ وہ ملیحہ سے نہیں بلکہ سلمہ سے محبت کرتا ہے ,شیبی کا دل تو نہیں مان رہا تھا کہ اپنے بابا کا دکھائے پر دل کے ہاتھوں مجبور ہو کے اس نے سلمہ سے کورٹ میرج کر کے یہ انتہائی قدم بھی اٹھا ہی لیا جس کے نتیجے میں اس نے اپنے جان سے پیارے بابا اور معصوم سی ملیحہ کو بھی کھو دیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنی کل کائنات اپنے بابا اور معصوم سی ملیحہ کی موت سے شیبی کو بڑا دھچکا تو لگا پر وقتی طور پر اپنی پسند کی لڑکی کے ساتھ نے اسے سب کچھ بھلا دیا تھا۔ننھی سی جان علایا کو اس نے شروع دن سے ہی نوکروں کے حوالے کر دیا تھا اور گھر کی ملازمہ ہی اس کی دیکھ بھال کرتی تھی
خود شیبی نے اپنی دوسری بیوی سلمہ بیگم کے ڈر سے کبھی علایا کو وقت ہی نہیں دیا وقت گزرنے لگا اور شیبی کے ہاں دو بچے پیدا ہوئےاور وہ ان میں گم ہو کے علایا کو بلکل ہی بھول گیا وقت کے ساتھ ساتھ سلمہ بیگم کے پیار میں بھی کمی آنے لگی اور وہ شیبی کو بس پیسہ کمانے کی مشین سمجھنے لگیں تب شیبی کو پتہ چلا کے اس نے اپنے بابا اور ملیحہ کی صورت میں اپنا سب کچھ کھودیا ہے بچے جوان ہو گئے اور لوگ شیبی کو سیٹھ شہاب الدین کے نام سے جاننے لگے ان کے بابا سیٹھ محی الدین نے اپنے بیٹے کے لئے ایک بڑا کاروبار چھوڑا تھا جسے انکے بعد سیٹھ شہاب الدین نے بہت اچھے سے سنبھال لیا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سلمہ بیگم کے والدین انکے بچپن میں ہی فوت ہو گئے تھے ان سے چھوٹا انکا ایک بھائی سبحان اکرم تھا جن کو شادی کے بعد سیٹھ شہاب الدین نے اپنے ہی پاس رکھ لیا تھا جیسے ہی اسکی تعلیم مکمل ہوئی تو اسے سلمہ بیگم کے کہنے پر سیٹھ شہا ب الدین نے اپنے ساتھ اپنے آفس میں رکھ لیا ۔۔
المیر ملک سیٹھ شہاب الدین کے بچپن کے دوست ملک ابراہیم کا اکلوتا بیٹا تھا
جو اپنی تعلیم مکمل کر کے کچھ عرصہ پہلے ہی انگلینڈ سے لوٹا تھا اور سیٹھ شہاب الدین کے کہنے پر ملک ابراہیم نے اسے سیٹھ صاحب کے آفس بھیج دیا تھا ۔المیر کے کہنے پر سیٹھ صاحب نے آفس میں کسی سے بھی المیر کا تعارف نہیں کروایا تھا کیونکہ پچھلے کچھ عرصے میں کاروبار میں لگاتار نقصان ہو رہا تھا اور سیٹھ صاحب کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کے ان سب کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے اس بات کا ذکر جب انہوں نے ملک ابراہیم سے کیا تو انہوں نے مشورہ دیا کہ انکے بیٹے المیر ملک کو اپنے ساتھ آفس لے جاؤ وہ بہت سمجھ دار ہے وہ خود ہی نقصان کی وجہ ڈھونڈ لے گا پر کسی کا کو یہ نا بتانا کہ وہ تمہارے دوست کا بیٹا ہے بلکہ سب سے یہ ہی کہنا کہ یہ جاب کے لئے آیا اک غریب لڑکا ہے اور اس کا تعلق اک گاؤں سے ہے تاکہ کسی کو اس پے شک نا ہو
المیر کو جب سیٹھ صاحب نے دیکھا تو ان کے دل میں اک خواہش پیدا ہوئی جس کا اظہار انہوں نے ملک ابراہیم سے بلا جھجک کردیا دراصل انکو المیر اپنی بیٹی علایا کے لئے بہت پسند آیا تھا اور ملک ابراہیم بھی اس دوستی کو رشتے داری میں بدلنے کی خواہش رکھتے تھے انہیں دنوں المیر ملک کو پتہ چلا کہ سبحان اکرم ہی ہے جو آفس میں پیسے کا ہیر پھیر کرتا ہے اور انکی بیٹی علایا کو اغواء کرنے کا گھٹیا پلان بنائے بیٹھا ہے وہیں سیٹھ شہاب الدین اور ملک ابراہیم نے مل کر سوچا کہ اس سے پہلے سبحان اکرم کوئی چال چلے وہ خود ہی علایا کو اغواء کرنے کا ڈرامہ رچائیں گے اور علایا سے المیر کا نکاح کردیں گے اور صحیح وقت آنے پر علایا کو سب کچھ سچ سچ بتا دیں گے اور یہی ساری بات آج کھانا کھاتے ہوئے سیٹھ صاحب نے جب علایا کو بتائی کہ میرو ہی اسکا شوہر المیر ملک ہے جسے وہ خوفزدہ ہونے کی وجہ سے نکاح کے وقت دیکھ نہیں پائی تھی تو علایا کے چہرے پر خوشی اور ناراضگی کے ملے جلے تاثرات تھے ۔
میرو پہلے ہی کسی کام کا بہانہ کر کے وہاں سے جا چکا تھا تاکہ سیٹھ صاحب ساری بات علایا کو آرام سے بتا سکیں۔ چلو بیٹا گھر چلیں سیٹھ صاحب کے کہنے پر علایا اٹھ کھڑی ہوئی اور اس کمرے سے نکل کر اپنے بابا کے ساتھ گھر آ گئی پر اسکا دل اسی ٹوٹے پھوٹے کچے سے کمرے میں اسکے ساتھ لڈو کھیلتے اس سے باتیں کرتے اور بات بات پر اسے ہنسانے والے میرو میں رہ گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علایا گھر آئی تو کسی نے یہ پوچھنے کی زحمت نہ کی کہ وہ اتنے دن کہاں تھی کسی کو ویسے بھی اسکی پرواہ ہی کہاں تھی سیٹھ صاحب نے اسے ابھی کسی کو کچھ بتانے سے منع کیا تھا ۔آج علایا کو گھر آئے دو دن ہو گئے تھے اور جب سے وہ گھر آئی تھی اسکا کسی چیز میں دل ہی نہیں لگ رہا تھا اسے وہ مہربان بار بار یاد آ رہا تھا جو اسے جینا سکھا کے خود اسے بھول گیا تھا ۔علایا نے ذہن پر زور دیا تو اسے یاد آیا کہ جب نکاح خواں نے اس سے پوچھا تھا کہ المیر ملک ولد ملک ابراہیم قبول ہے تب وہ غائب دماغی سے انکی ہاں میں ہاں ملاتی رہی تھی کچھ وہ ڈر ہی اتنا گئی تھی کہ اسے غور کرنے کا موقع ہی نا ملا کہ اسکے شوہر کا نام المیر ہے اور اس کے ساتھ گھنٹوں باتیں کرنے والے انسان کا نام میرو ۔۔۔۔وہ دونوں اک ہی شخص کے نام ہیں وہ کیوں سمجھ نہیں پائی تھی یہ سوچ کر اب اسے اپنی بیوقوفی پر غصہ آرہا تھا اور اپنی قسمت پر رشک کہ اسکی قسمت میں اتنا اچھا اور رحم دل انسان لکھا تھا ۔
علایا انہیں سوچوں میں گم تھی کہ اچانک اس کے موبائل پر اک انجان نمبر سے کال آئی جو اس نے بنا دیکھے ہی اٹینڈ کرکے موبائل کان سے لگا لیا
کیسی ہیں مسز المیر ملک دوسری جانب کوئی گھمبیر لہجے میں بولا علایا پہلے تو پہچان نہیں پائی ۔۔۔
کون ؟؟؟ علایا نے حیران ہو کر پوچھا !
میں وہی جس کے بنا آپ اکثر اداس رہتی ہیں جو آپ کو ایک
دن نا دِکھے تو آپ رونے لگتی ہیں ۔
اک بات کہوں اب تو اِدھر بھی یہی حال ہے آپ دو دن سے نہیں دِکھی اور دلِ نادان تڑپ رہا ہے بتائیں اس دل کا کیا کروں آ جائیں نا بیگم صاحبہ اب دلہن بن کر اپنے میرو کے غریب خانے پر دوسری جانب بولنے والے نے جب میرو کا نام لیا تو علایا کو سمجھ آئی کہ کال پر میرو ہے ۔
اففففف یہ میرو کو کیا ہو گیا یہ کیسے بات کر رہے ہیں مجھ سے علایا کی دل کی دھڑکنیں اک دم سے بے ترتیب ہوئیں اور جب اسے کچھ نا سمجھ آئی تو اس نے کال کاٹ کر موبائل ہی آف کر دیا ۔۔۔۔
عصر کی اذان ہوئی تو نماز کے بعد دعا مانگتے ہوئے علایا کی آنکھیں بھیگ گئ۔ بہت دیر سے ہی سہی پر اسکے بابا کا شفقت بھرا ہاتھ اسکے سر پر آیا اور اتنا اچھا جیون ساتھی ملا وہ یوں ہی اپنے رب کا شکر ادا کرتی آنسو بہا رہی تھی کہ اس نے اپنے کمرے کے باہر سے کوئ بات کرتا سنائ دیا اس نے دعا مانگ کر جائے نماز اٹھایا اور کمرے کے اندر سے ہی دروازے کے پاس جا کر باہر سے آتی آواز غور سے سننے لگی۔ غور سے سننے پر اسے پتہ چلا کہ باہر سبحان اکرم کسی سے فون پر کہہ رہا تھا کہ “لڑکی کا خاص خیال رکھنا بھاگنے نہ پائے اتنی مشکل سے اغوا کیا ہے، بھاگ گئ تو میرا سارا پلین چوپٹ ہوجائے گا۔ میں ابھی آتا ہوں وہاں پھر آگے کی پلینگ کرتے ہیں۔” کہتا ہوا سبحان اکرم باہر کی جانب چل دیا۔
“اگر سبحان اکرم مجھے اغوا کرنا چاہتا تھا اور مجھے اغوا نہیں کر پایا تو پھر کس لڑکی کی بات کررہا ہے۔۔ کس کو اغوا کیا ہے اس نے آخر” علایا سوچتی ہوئ تیزی سے اپنی چادر پکڑ کے سبحان اکرم کے پیچھے لپکی۔ سبحان اکرم گاڑی لیکر نکل چکا تھا علایا نے جلدی سے ایک رکشہ ڈرائیور کو سبحان اکرم کی گاڑی کا پیچھا کرنے کا بول کر جلدی سے رکشے میں بیٹھ گئ ۔ سبحان اکرم نے جنگل نما راستے پر گاڑی لا کر روک دی۔۔ علایا نے بھی کچھ فاصلے پر رکشہ رکوایا اور ڈرائیور کو انتظار کرنے کا بول کر دبے پاؤں اسی ٹوٹے پھوٹے گھر میں گھس گئ جہاں ابھی دو منٹ پہلے سبحان اکرم داخل ہوا تھا۔ دروازہ پہلے سے کھلا تھا شاید وہ اسے بند کرنا بھول گیا تھا علایا دبے پاؤں اندر آئ تو دائیں طرف کے کمرے سے سبحان اکرم کی آواز آئ
” سنو اب سیٹھ شہاب ادین کو فون کر کے تاوان کا مطالبہ کرو ویسے بھی بڈھا اتنے پیسے دبا کر بیٹھا کچھ پیسے نکال لے گا تو مر نہیں جائے گا۔” علایا جو باہر کھڑی انکی باتیں سن رہی تھی اسکے لیئے اپنے بابا کے خلاف اتنی گری ہوئ باتیں سننا مشکل ہوگیا۔ یہ وہی سبحان اکرم تھا جنھیں سیٹھ صاحب نے بیٹوں کی طرح پالا تھا اور آج وہی انسان انکے بارے میں اتنی گری ہوئ باتیں کر رہا تھا۔ علایا کے دماغ نے کام کیا اور بائیں طرف بنے کمرے کی طرف دیکھا جسکی کنڈی باہر سے لگی تھی اسنے جلدی سے آگے بڑھ کے اس کنڈی کو کھولا اور اندر داخل ہوئ تو اندر کا منظر اسے حیران کرنے کیلیئے کافی تھا۔ سامنے اسکی بہن رمشا رسییوں سے بندھی تھی۔ “اففف میرے خدا! یہ انسان اتنا بھی گر سکتا ہے میں تو چلو سوتیلی ہوں پر مشا تو اسکی سگی بھانجی ہے اسنے پیسے کیلیئے اپنے ہی گھر کی عزت کو اغوا کروالیا” یہ سب سوچ کر علایا کا دماغ گھوم گیا۔ اس نے آگے بڑھ کر جلدی سے رمشا کے ہاتھ کھولے اور نیم بے ہوشی سی مشا کو سہارا دے کر باہر لے ائ اور باہر نکلتے ہوئے علایا نے ایک عقلمندی کا کام کیا کہ واپس اس کمرے کی کنڈی لگا دی تاکہ فوراً ان غنڈون کو شک نہ ہو کہ یہاں کوئ آیا تھا۔ مشا کو سہارا دیئے تیز تیز قدموں سے چلتی علایا رکشے تک آئ اور اس کو جلدی واپس چلنے کو بول کر بیٹھ گئ۔ رمشا کو اس نے اپنے کندھے سے لگا کر بٹھا لیا تھا کیونکہ نازک سی رمشا اتنے دن بندھے رہنے سے بہت گھبرا گئ اور مشا جو اب تک چپ تھی پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔ “کیا ہوا مشا؟ گھبراؤ نہیں ہم وہاں سے نکل آئے ہیں گھر بھی آنے والا ہے۔” علایا اتنے بڑے دل کی مالک تھی کہ آج اپنی اس بہن کو نہ صرف بچا کے لائ تھی بلکہ چپ بھی کروا رہی تھی۔ اتنی دیر میں گھر آگیا اور دونوں بہنیں گھر میں داخل ہوئیں تو سلمہ بیگم لان میں بیٹھی ہی مل گئیں۔ مشا بھاگتی ہوئ ماں کے پاس گئ اور انکے گلے لگ کر خوب روئ۔
“کیا ہوا میری جان تم کہاں تھی اتنے دن سے اور رو کیوں رہی ہو؟ کیا تمہیں کسی نے کچھ کہا ہے؟ سلمہ بیگم نے پاس کھڑی علایا کو ناگواری سے دیکھ کر کہا اور علایا انکی ناگواری کو محسوس کرتے ہوئے اپنے کمرے میں چلی گئ۔ رمشا نے انکو روتے ہوئے بتایا کہ اسکے ساتھ کیا ہوا اور کس نے اسکی جان بچائ۔
******♡♡♡♡♡******
سبحان اکرم گھر آیا تو اس کو ویلکم کرنے کے لیئے سامنے لان میں پولیس بیٹھی تھی اور سب گھر کے افراد بھی لان میں ہی بیٹھے تھے سبحان اکرم گھر میں داخل ہوتے ہی ٹھٹھک گیا۔ “خیریت ہے ہمارے گھر پولیس کیوں آئی ہے سبحان اکرم نے خود کر نارمل دیکھانے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے کہا ۔
“آپ سے خاص ملاقات کے لیئے آئے ہیں ہم۔” انسپیکٹر نے آگے بڑھ کر اسے ہتھکڑی پہناتے ہوئے کہا ۔
“کیا بدتمیزی ہے یہ کس جرم میں گرفتار کر رہے ہیں مجھے” بولتے ہوئے سبحان اکرم کی زبان بھی اسکا ساتھ نہیں دے رہی تھی ۔
“اپنی ہی بھانجی کو اغواء کرنے کے جرم میں اریسٹ کر رہے ہیں ہم آپکو سبحان اکرم صاحب۔”
“یہ جھوٹ ہے میں اپنی بھانجی کو اغواء کیسے کر سکتا ہوں میں تو علایا۔۔۔۔۔۔۔” گھبراہٹ میں اس کے منہ سے سچ نکل گیا ۔
سلمہ بیگم جو کب سے خود پہ ضبط کیئے کھڑیں تھیں آگے بڑھیں اور روتے ہوئے اپنے اکلوتے بھائی کے منہ پر زناٹے دار تھپڑ مار کر بولیں
“تم کو میں نے بھائی سے بڑھ کر اولاد کی طرح پالا اور تم اتنا گر گئے کہ اپنی ہی بھانجی کو غنڈوں سے اغواء کروا لیا آستین کے سانپ ہو تم تمھیں تو اپنی بہن کے گھر کی عزت کا خیال تک نہ آیا ۔
بتاؤ کس چیز کی کمی رہنے دی تھی میں نے تم کو جو تم اتنا گر گئے” غصے اور غم کی شدت سے سلمہ بیگم کی آواز پھٹ رہی تھی ۔
“آپی سنیں اگر آپ کو سچ پتہ چل ہی گیا ہے تو یہ بھی سن لیں کہ میں نے تو علایا کو اغواء کروایا تھا مجھے نہیں پتہ کے میرے بھیجے ہوئے غنڈے علایا کی بجائے رمشاء کو اغواء کر کے لے گئے کیونکہ میں نے اب تک شکل ہی نہیں دیکھی تھی کمرے میں جا کر اب تک میں یہی سمجھتا رہا کہ علایا ہے ہماری قید میں مجھے معاف کر دیں پلیز آپی مجھ سے غلطی ہو گئی میں لالچ میں آگیا تھا۔”
بس سبحان بس میرا ہی گناہ ہے میں ہی خطا کار ہوں پہلے میری خود غرضی نے اس معصوم بچی سے اس کی ماں چھین لی اور پھر میں نے کبھی اسے بچپن سے لے کر اب تک ماں کا پیار نہیں دیا میں نے ہمیشہ رمشاء اور علایا میں فرق کیا اور آج اسی بچی نے میری بیٹی کو بچایا موت کے منہ سے۔۔۔۔ لے جائیں انسپیکٹر صاحب اسکو یہاں سے میں اس کی شکل تک نہیں دیکھنا چاہتی۔” سلمہ بیگم نے چلا کر کہا ۔ پولیس روتے گڑگڑاتے معافیاں مانگتے سبحان اکرم کو اپنے ساتھ لے گئی ۔اور سلمہ بیگم شدت غم سے نڈھال ہو کر وہیں زمین پر بیٹھ گئیں ۔علایا نے انکی حالت دیکھی تو فورًا آگے بڑھ کر انہیں تھام لیا۔
“”مجھے معاف کردو بیٹا میں جانتی ہوں میں معافی کے قابل نہیں پر میرا اللّہ جانتا ہے میرے آنسو ندامت کے آنسو ہیں اللّہ کا واسطہ مجھے معاف کردو معاف کردو معاف کردو۔۔۔”
آج سلمہ بیگم کو اپنی کی ہوئیں زیادتیوں کا احساس ہو رہا تھا اور وہ نہ صرف اپنے کیے پر شرمندہ تھیں بلکہ سچے دل سے معافی بھی مانگ رہی تھیں ۔علایا اک بڑے دل کی مالک ماں کی بیٹی تھی اس کا دل بھی ملیحہ کی طرح صاف تھا۔
سلمہ بیگم کے اک بار معافی مانگنے پر ہی اسکا دل پگھل گیا اور اس نے انکو اللّہ کے نام پر معاف کر دیا۔ ”
آنٹی پلیز آپ ہاتھ مت جوڑیں آپ مجھ سے بڑی ہیں مجھے شرمندہ مت کریں پلیز آپ اپنے کیئے پر شرمندہ ہیں اور جب انسان اپنے کیئے پر سچے دل سے شرمندہ ہو تو اللّہ بھی معاف کر دیتا ہے میں تو پھر انسان ہوں میں نے آپ کو معاف کیا۔”۔
علایا اتنا کہہ کر وہاں سے اٹھ کر جانے لگی تو سلمہ بیگم نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے گلے سے لگا لیا اور مشاء اور ہادی بھی اس سے لپٹ گئے ۔
وہ جو ہمیشہ اپنوں کی محبت کو ترسی تھی آج اتنی ساری محبتوں کو اک ساتھ پا کر رو دی۔۔۔۔۔
رات کے کھانے کے بعد سب گھر والے بیٹھے رات کی چائے کے ساتھ گپ شپ کر رہے تھے تب سیٹھ شہاب الدین نے سلمہ بیگم کو مخاطب کر کے کہا سنئیے بیگم ۔۔۔
جی بولیں سرتاج سلمہ بیگم کے محبت بھرے انداز میں کہنے پر کافی عرصے کے بعد سیٹھ صاحب کو انکی محبت ہر بناوٹ سے پاک لگی “” آپکے اس انداز نے مجھے بات ہی بھلا دی کہ میں کیا بولنے والا تھا سیٹھ صاحب نے مسکرا کر کہا تو سلمہ بیگم جھینپ گئیں کیا ہو گیا آپکو سیٹھ بچے پاس ہی بیٹھے ہیں اور آپ بھی نا ۔۔۔
ارے بیگم شروع بھی تو آپ نے ہی کیا تھا سیٹھ صاحب نے شرارتاً کہا تو پاس بیٹھے تینوں بہن بھائی علایا رمشاء اور ہادی انکی پیار بھری نوک جھونک دیکھ کر مسکرا ئے بنا نا رہ سکے ۔چلیں بس اب بتا بھی دیں کے آپ کیا کہنے والے تھے سلمہ بیگم نے مسکرا کر پوچھا ۔ہاں یاد آیا وہ ملک ابراہیم کی بار بار کال آرہی ہے وہ رخصتی کا پوچھ رہے ہیں کیا بولوں انکو ؟؟؟گھر کے حالات بہتر ہونے کے بعد سیٹھ شہاب الدین نے علایا اور المیر کے نکاح کی بات گھر پر بتا دی تھی اور رخصتی کے معاملے پر سلمہ بیگم کا مشورہ مانگ رہے تھے ۔ارے واہ آپی کی رخصتی کتنا مزہ آئے گا مشاء نے خوشی سے نعرہ بلند کیا “جی سیٹھ صاحب آپ انکو اگلے ہفتے کا بول دیں میں مشاء اور علایا تب تک شاپنگ اور تیاریاں کر لیں سلمہ بیگم نے مسکرا کر کہا اپنی رخصتی کی بات سن کر علایا تو شرما کر لال ٹماٹر ہی ہو گئی
اگلے دن سیٹھ شہاب الدین اور سلمہ بیگم صبح فجر کی نماز ادا کر کے قبرستان آئے اور کافی دیر ملیحہ اور سیٹھ محی الدین کی قبر پر بیٹھے ان سے اپنے کئے کی رو رو کر معافی مانگتے رہے ۔ملیحہ مجھے معاف کردو میں نے تمہارے ساتھ بہت برا کیا اور تمہاری بیٹی کو بھی کبھی ماں کا پیار نہیں دے سکی پر اب وعدہ کرتی ہوں اسے اک ماں کی طرح اسے محبت اور عزت سے رخصت کروں گی کافی دیر اپنے کئے کی معافی مانگنے کے بعد دونوں میاں بیوی اس اطمنان کے ساتھ لوٹے کے بابا اور ملیحہ نے انکو معاف کر دیا ہوگا ۔
اور بلآخر وہ دن بھی آ ہی گیا جب علایا شوخ ریڈ کلر کے لہنگے میں پرستان کی پری کی طرح سجی سنوری ریڈ کلر کے ہی کریب کے دوپٹے کا گھونگھٹ اوڑھے مشاء اور اپنی کزنز کے ساتھ دھیرے دھیرے چلتی ہوئی سٹیج تک آئی تو بڑوں کے احترام اور علایا کی محبت میں اٹھ کر کھڑا ہو گیا اور آگے بڑھ کر علایا کا ہاتھ تھام لیا اور اسے اپنے ساتھ سٹیج پر لا کر بٹھا دیا “” المیر کے نرم گرم ہاتھ میں ہاتھ دے کر علایا تو جیسے وائبریشن موڈ پر لگ گئی
میرو نے جب علایا کی گھبراہٹ دیکھی تو دھیرے سے اسکا ہاتھ چھوڑ دیا ۔بہت ساری دعاؤں اور محبت کے سائے میں علایا رخصت ہو کر ملک ہاؤس آگئی ۔
المیر کی کزنز چھیڑ چھاڑ کرتیں ہوئی ہنستی مسکراتی علایا کو المیر کے کمرے تک یہ کہہ کر چھوڑ گئیں کے اب آپ خود ہی جائیں اپنے کمرے میں ہمیں تو سخت نیند آرہی ہے ۔
اب المیر کے کمرے کے باہر کھڑی ٣لایا کے تو ہاتھ پاؤں پھول رہے اندر جانے سے اک عجیب سی جھجک محسوس ہو رہی تھی اسے کافی دیر اسی طرح کھڑے رہنے کے بعد علایا نے ہمت کر کے دروازہ کھولا اور ڈرتے ڈرتے اندر دا خل ہوگئی
جیسے ہی اس نے اندر قدم رکھا تو دروازہ خود بہ خود لاک ہو گیا اور کمرے میں ہر طرف گھپ اندھیرا دیکھ کر علایا کی تو جان ہی نکل گئی کیونکہ اسے اندھیرے سے بہت ڈر لگتا تھا ۔میرو کہاں ہیں آپ پلیز مجھ سے بات کریں مجھے اندھیرے سے بہت خوف آتا ہے علایا یوں ہی ڈری ڈری سی کھڑی تھی کے اک دم اچانک سے کمرے کی لائٹس آن ہوئیں تو علایا کمرے کا منظر دیکھ کر حیران رہ گئی کمرے میں ہر طرف گلاب کے پھولوں کے بیچ علایا اور میرو کی تصویریں تھیں جس میں کہیں وہ لڈو کھیلتے ہوئے چیٹنگ کرنے پر میرو سے جھگڑ رہی تھی تو کہیں میرو کے کسی لطیفے پر کھل کھلا کر ہنس رہی تھی علایا نے سوچا بھی نہیں تھا کہ المیر اس کا اس انداز میں ویلکم کرے گا علایا خوشی سے یوں ہی پورے کمرے کو دیکھ رہی تھی کے اچانک پیچھے سے کسی نے دھیرے سے اسے اپنے حصار میں لیا اور کان میں سرگوشی کی کیسا لگا آپکو میرا ویلکم کرنا علایا نے مڑ کر پیچھے دیکھا تو زیادہ دیر المیر کی جذبے لٹاتی آنکھوں میں دیکھ نہیں پائی اور اسکے چوڑے سینے میں سر چھپا کر بولی بہت اچھا بلکل آپ کی طرح اور میرو اس کی اس معصوم ادا پر مسکر کر رہ گیا اچھا سنیں میرو نے اس کے کان میں کہا ۔جی بولیں علایا نے یوں اسکے سینے منہ چھپائے ہوئے کہا کیونکہ میرو کی آنکھوں میں دیکھنا اس وقت اسے دنیا کا سب سے مشکل کام لگ رہا تھا ۔
وعدہ کریں آپ آج کے بعد کبھی نہیں روئیں گی اور ہمیشہ مسکراتی رہیں گی میرو نے محبت سے کہا۔
میں وعدہ کرتی ہوں کے ساری عمر آپکی ہر بات مانوں گی اب خوش ۔۔۔۔ علایا نے بچوں کی طرح سر ہلا کر کہا اور میرو اس کی اس معصومیت پر کھل کھلا کر ہنس دیا۔۔۔۔۔۔۔
ختم شد
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...