یونیورسٹی سے باہر نکل کر جب وہ اپنی گاڑی کی طرف چلانے لگا تو اس کی نظر سڑک کنارے پر بیٹھی ہوئی ایک عورت پر پڑی جو کہ دور سے ہی حسین کو معلوم ہو کہ وہ رو رہی ہے اس نے سوچ کہ وہ مشکل میں ھے مجھے اس کی مدد کرنی چاہیے۔۔ یہی سوچ کر حسین تیز رفتار سے اس کی طرف قدم بڑھانے لگا۔۔۔۔
وہ اس عورت کے پاس پہنچا تو وہ سچ میں رو رہی تھی۔۔
حسین بولا۔
آنٹی کیا ھوا آپ اس طرح رو کیوں رہی ہیں آپ ٹھیک تو ہیں نہ۔۔ وہ عورت کچھ نہیں بولی۔۔
بس روئی جا رہی تھی۔۔
کوئی پریشانی ھے تو پلیز مجھے بتائیے میں آپ کی مدد کرتا ہوں۔۔
بیٹا!!!
میرا بیٹا ہسپتال میں ھے زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا ہے۔۔ اور ڈاکٹر اس کا علاج نہیں کر رہے۔۔
کیوں علاج کیوں نہیں کر رہے۔۔
میں غریب عورت ہوں علاج کے پیسے نہیں ہیں میرے پاس۔۔ جب کہ ڈاکٹر نے دو لاکھ مانگ لیا ھے۔۔
آنٹی میں آپ کو پیسے دیتا ہوں۔۔ اللہ ھے نہ آپ کی مدد کرنے کے لیے پھر آپ کیوں پریشان ھوتی ہیں۔۔ اللہ سب ٹھیک کرے گا۔۔
حسین نے اپنی جیب میں سے پیسے نکال کر اس عورت کی طرف بڑھے۔۔
کس ہسپتال میں داخل ھے آپ کا بیٹا میں آپ کے ساتھ چلتا ھوں۔۔۔۔
حسین نے جلدی سے اپنے ایک ڈاکٹر دوست کو فون کیا اور اس کو گاڑی بھجوانے کا کہا۔۔
اس نے اس عورت کو کہا آنٹی آپ چلے میں بس کچھ ہی دیر میں آپ کے پاس ہسپتال میں آتا ہوں۔۔
اللہ تمہیں ہمیشہ خوش رکھے اللہ تیرے دل کی ہر مرد پوری کر دے وہ عورت اس کو بے شمار خوشیاں کی دعائیں دیتی ہوئی چلی گئی۔۔
حسین دل میں آمین بولا کر اپنی گاڑی کی طرف واپسی مڑ گیا۔۔
اس کے ساتھ گھر سے دانش بھی آیا تھا پر وہ باہر ہی گاڑی میں اس کا انتظار کر رہا تھا۔۔
حسین اپنی گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر نڈھال سا اکر بیٹھا گیا تھا۔۔
جب کہ دانش اسے گاڑی ڈرائیور کرنے سے روک رہا تھا
کچھ وہ اداس تھا اور کچھ وہ اس عورت کے بیٹے کی وجہ سے پریشان تھا۔۔
تم اترو میں گاڑی ڈرائیور کروں گا۔
۔
یار میں کر لو گا۔۔
کچھ خبر ہے گھر والے تمہاری وجہ سے پریشان ہیں اور آنٹی سے بھی صبح سے بات نہیں کی تم نے۔۔
یار میں امی کو فون کرتا رہا ہوں پر وہ بند جا رہا تھا۔۔
چلو ہٹو میں ڈرائیور کرتا ہوں۔۔ حسین اٹھ کر دوسری جانب کی سیٹ پر بیٹھ گیا۔۔۔
جب حسین یونیورسٹی سے باہر آیا تھا تو تب ہی مناہل باہر آئی تھی۔۔
وہ سب دیکھ رہی تھی اس کا اس عورت سے بات کرنا اس کی وجہ سے خود پریشان ھو جانا اس کی مدد کرنا سب کچھ دیکھ رہی تھی۔۔ اور جب وہ گاڑی میں بیٹھ تھا کتنا نڈھال اور کمزور لگ رہا تھا۔۔ چونکہ وہ سامنے ہی تھی۔۔ ان کی طرف وہ پشت کر کے کھڑی ہو گئی۔۔
اپنی باتوں میں معروف ان دونوں نے بھی اس پر توجہ نہیں دی۔۔ حسین تمہیں معلوم ہے آج یونیورسٹی میں مناہل بھی موجود تھی۔۔
دانش کی اس بات پر مناہل کی دھڑکنیں نہ نجانے کیوں تیز ہو گئیں کہ حسین جانے کیا جواب دے۔۔ وہ تو زہر ہے اس سے بہت خفا تھا۔۔۔
اس نے دھڑتے دل کے ساتھ سن وہ بڑے گھمبیر لہجے میں کہا رہا تھا۔۔
ہاں دیکھتا رہا ہوں میں اس کو۔۔
یار ویسے تو وہ لڑکی بہت ظالم ہے پر اپنا کام بہت لگن سے کرتی ہے۔۔ اس اپنے کام سے بہت لگاؤ ہے۔
ایک دن بہت اچھی ڈاکٹر بننے گئی۔۔
اب ہسپتال چلو وہ آنٹی انتظار کر رہی ہوں گئیں۔۔
ساتھ مناہل اپنی جگہ سن سی کھڑی سوچ رہی تھی کہ اسے یاد نہیں پڑتا کہ وہ بھولے سے بھی اس کے سامنے گئی ھو۔۔ پھر اس نے میرا یہ روپ کہا سے دیکھ لیا۔۔
اپنے بارے میں اس کی اچھی رائے سن کرنجانے کیوں اک عجب طرح کا احساس ہو رہا تھا وہ خوش ہو رہی تھی۔ جسے وہ کوئی نام نہ دے سکی اور خود حسین کا یہ روپ تو بالکل نیا اور خوبصورت تھا وہ تو اس کو لاپروا کھنڑرا منچلا سا نوجوان سمجھتی تھی جو زندگی کو کبھی سنجیدہ نہیں لے سکتا تھا۔۔ مگر وہ تو بہت مختلف تھا اندر سے کتنا پریشان تھے ایک انجان اجنبی عورت کے بیٹے کے لیے۔۔ اس کی زندگی بھی اسے کتنی پیاری تھی۔۔
مناہل جب سے گھر آئی تھی مسلسل حسین کے بارے میں سوچ رہی تھی اسماء اور ولید کی شادی کے سارے سین اور پھر اس کا یونیورسٹی آنے کے سین اس کی باتیں سب نطروں میں گھوم رہی تھیں۔
وہ اس کے پروپوزل کو ٹھکرا کر عجیب سی کیفیت میں مبتلا تھی نجانے اسے واقعی حسین کا خیال تھا یا ان سب لوگوں کا جو یہ چاہتے تھے کہ یہ رشتہ ھو جائے۔۔ مگر وہ خود اپنی سوچ کے نگر میں کہیں بھی حسین کو نہیں پاتی تھی۔۔ حتی کہ اس نے کبھی اس کے بارے میں سوچا تک نہیں تھا۔۔ جب وہ شخص اسے پسند ہی نہیں تو اس کے بارے میں سوچنا فضول تھا۔۔ لیکن اب ایسا کیا ہو گیا تھا کہ وہ مسلسل اسے ہی سوچ رہی تھی تو اسے عجیب سا لگ رہا تھا۔۔ لیکن ایسا بھی تو ہو سکتا ہے کہ حسین کو چونکہ معلوم تھا کہ مَیں اس یونیورسٹی میں ھوں تو اس نے مجھے ہی امپرلیس کرنے کے لیے یہ۔۔۔۔۔۔
روشنی کے سفر میں اچانک تارک موڑ آ گیا وہ الجھ سی گئی یہ وہم اس کے دماغ میں سے چپک کر رہ گیا کہ کہیں یہ سب حسین نے اسے دکھانے کے لیے تو نہیں کیا اور۔۔۔۔
اس نے حسین کے ساتھ شادی سے انکار کر کے اچھا کیا ہے یا برا اس کیفیت سے وہ کھبی بھی چھٹکارا حاصل نہیں کر پائی۔۔ ڈھیر سارا وقت اس طرح گزر گیا حسین نے خود کو اپنی ماں اور بہنوں کی خوشی کی خاطر بالکل بدل کر رکھ دیا تھا۔۔ اس کی ماں کو اس کے قہقہے عزیز تھے
وہ اب پہلے سے زیادہ ہنسنے مسکرانے لگا تھا مگر سوائے دانش کے اس کی ہنسی کے پیچھے چھپے کرب کو یہ لوگ نہیں جانتے تھے۔۔
دوسری طرف مناہل کے بہت پروپوزل آ رہے تھے مگر وہ کوئی فیصلہ نہیں کر پاتی تو انکار کر دیتی تو سب لوگ الجھ پڑتے۔۔۔
مناہل آخر تم چاہتی کیا ہو۔۔
ہر اچھے رشتے سے انکار اچھا نہیں ھوتا۔۔
ایک وقت پر رشتے آتے ہیں اور یہ وقت گزر جائے تو پھر رشتوں کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔۔
وقت مزید آگے بڑھ جائے تو اسے وقت اور حالت خواہ کیسے ہی کیوں نہ کمپرومائز کرنا پڑتا ہے اور کمپرومائز وہ راستہ ہے جو مکمل طور پر خوشی کی طرف نہیں جاتا۔۔
آج وقت تمہارے ہاتھ میں ہے اور پھر کل تم وقت کے ہاتھ میں ھو گئی۔
عماد اچھا لڑکا ہے اور سب کو پسند ہے امی ابو کو بھی پسند ہے اس لیے پلیز تم۔۔!!!!
بھابھی کتنی دیر تک اسے سمجھاتی رہیں۔
حقیقت پر مبنی ان کی باتیں وہ سمجھ رہی تھی مگر جانے کیا بات تھی کہ وہ کوئی بھی فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی۔
پھر سب کے مجبور کرنے پر اور بہت سی باتیں سوچ کر اس نے ہاں تو کر دی مگر وہ شدتوں سے رو دی۔۔ حالانکہ رونے کی وجہ خود اس کی سمجھ میں نہیں آئی تھی۔۔ وہ خود سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ یہ بے کلی کیوں ہے۔۔ وہ پر سکون کیوں نہیں ہو جاتی اور وجہ بھی سمجھ نہیں آ رہی تھی۔۔۔۔
میں تنگ آ گئی ہو زرناب اس بےچینی سے بے قراری سے وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔۔
تمہاری یہ بے چینی بے قراری بے سبب نہیں ہے
اب اس وجہ کو تم تسلیم نہ کرو تو اور بات ہے تم یہ بات کیوں نہیں مان لیتی کے تم حسین کو چاہتی ہو۔۔ پسند کرتی ہو۔
مگر محض اپنی جھوٹی انا کی خاطر مسلسل انکار کر رہی ہو۔۔ تم اسے ٹھکرا کر پچھتا رہی ہو۔۔ یہ ہے تمہاری بے چینی کی وجہ بس۔۔
نہیں نہیں زرناب ایسا نہیں ہے تم کیوں اس شخص کو میرے حواسوں پر مسلط کرنا چاہتی ہو۔
مناہل چیخ کر بولی تو زرناب کھڑی ہو گئی۔۔
اسے جوس کا گلاس دیا جو بری طرح گہرے گہرے سانس لے کر زرناب سے زیادہ
خود کو یقین دلا رہی تھی کہ وہ حسین کو نہیں چاہتی
مناہل فرید!! میں اسے تم پر مسلط نہیں کر رہی!!!
وہ تمہارے اندر موجود ہے وہ تمہارے دل کا مہمان بن چکا ہے اور اب۔۔
زرناب تو اسے اس کی بے چینی کی وجہ بتا کر چلی گئی اور مناہل اور زیادہ بے چین ہو گئی وہ اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرنا چاہتی تھی کہ وہ حسین کو چاہتی ہے
اس لیے سختی سے زہن کو جھٹکا اور عماد کے بارے میں سوچنے لگی۔۔ مگر پھر سوچ کی اوٹ سے جھانکتا ہوا حسین اپنی اہمیت جتا جاتا تو وہ گھبرا کر آنکھیں کھول دیتی۔۔۔
مناہل اس کو ٹھکرا چکی تھی اور اس کی واپسی کی کوئی امید نہیں تھی پھر کسی اور کے ہو جانے پر دل اتنا کیوں تڑپ رہا تھا۔۔ کیوں رو رہا تھا۔۔ جانے کب سے وہ خالی آنکھوں سے آسمان پر اڑتے پرندوں کو دیکھ رہا تھا۔۔۔
کب تک یوں گم صم رہو گے
۔ کچھ بولو اور اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر لو۔۔
حسین مڑا تو دانش کھڑا بول رہا تھا۔۔
اک زخمی سی مسکراہٹ اس کے لبوں پر پھیل گئی۔۔
نہیں دانش کھبی کبھی کچھ کہا دینے سے بوجھ کم ہونے کی بجائے بڑھ جاتا ہے۔۔
اللہ کرے وہ ہمیشہ خوش رہیے اور پھر ضروری تو نہیں جو ہم چاہتے ہیں وہ ہی حاصل کر لیں۔۔
یار ویسے کل رات بہت مزہ آیا سب دوستوں کے ساتھ۔۔ سامنے سے امی کو آتا دیکھ کر وہ بات کا رخ بدل گیا تھا۔ اور بن بات کے ہی قہقہے لگانے لگا گیا تھا۔۔ ماں مطمئن ہو گئی تھی اور یہ ہی وہ چاہتا تھا ماں اسے دعائیں دیتی آگے بڑھ گئیں تو دانش اس کا ہاتھ پکڑ کر باہر لے گیا۔۔
دو سال بعد۔۔
مناہل کی ہاوس جاب مکمل ہو گئی تھی۔۔ سو اب وہ سرکاری ہسپتال میں جاب کر رہی تھی۔۔
ڈاکٹر صاحبہ کوئی آپ سے ملنے آئے ہیں۔۔ آپا کی اطلاع کے مطابق اس نے دروازے کی جانب دیکھا تو دل دھڑک اٹھا سامنے سنجیدہ سا حسین کھڑا تھا وہ بے ساختہ ہی کھڑی ہو گئی۔۔
آپ!!! اسے یوں اچانک دیکھ کر خوشی ہوئی تھی یا حیرت وہ فیصلہ نہیں کر پائی۔۔
اسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔۔ جی ہم!!!
آپ اتنی حیران کیوں ھو رہی ہیں ارے۔۔ بھئی یہ ہاسپٹل ہے اور ہاسپٹل میں ڈاکٹر کے پاس کوئی بھی مریض آ سکتا ہے۔۔ لیکن میں مریض کی حیثیت سے نہیں آیا کیونکہ آپ کے پاس میرے درد کی دوا نہیں ہے۔۔
اس کی آواز دب سی گئی تو مناہل نے ایک نظر اس پر ڈالی کتنا مختلف لگ رہا تھا وہ لہجے کی کھنک اور آنکھوں کی شوخی کرنیں ماند پڑ گئیں تھیں۔۔ اسے اب دکھ سا ہونے لگا
اب اسے خود پر غصہ آنے لگا کہ اس کی وجہ سے ایک ہنستا مسکراتا انسان یوں دکھی ہو گیا تھا۔۔ اندر اک ملال کی لہر سی اٹھی تو اس نے آہستگی سے پکارا نجانے وہ کیا کہنا چاہ رہی تھی کہ حسین درمیان میں ہی بول پڑا۔۔
جی جانتا ہوں میں کہ فضول آدمی ہوں۔۔ شکر کیجیے کہ مجھے جیسے فضول آدمی سے شادی نہیں ہو رہی ورنہ تمام عمر خیر۔۔
وہ رک کر اس کو دیکھنے لگا کتنی عزیز تھی یہ اکھڑ لڑکی اسے۔۔
ارے بھئی!!! آپ پریشان نہ ہوں۔۔ میں تو آپ کو خوش خوشخبری دینے آیا ہوں کہ میں بھی شادی کر رہا ہوں ۔۔ اسنے اچانک کہا تو مناہل کا دل زور سے دھڑکا۔۔
اچھا پھر۔۔۔
اس نے خود پر قابو پاتے ھوئے دھرے سے کہا اور باہر دیکھنے لگی۔
حسین اس کی اس بے رحی پر بجھ سا گیا۔۔ لیکن وہ مناہل کی اندر کی کیفیت کو سمجھ نہیں پایا۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...