مالا نور کے کہنے پر مان تو گئی مگر اسے معلوم تھا کہ احمد کے ساتھ لمحات گزارنا کس قدر کٹھن تجربہ ہو گا۔ وہی احمد جسے وہ برسوں پہلے بھلا چکی تھی پھر سے آزمائش بن کر اس کے سامنے آ کھڑا ہوا تھا۔ وہ محبت جسے حیدر کے عشق میں اس نے الوداع کر دیا تھا اب پھر سے سوالیہ نشان بن کر اس کے سامنے کھڑی تھی۔ لیکن اب کی بار مالا میں ہمت نہیں تھی کہ پھر سے کسی امتحان سے گزر سکے۔ اسکی زندگی تو پہلے ہی اک پل صراط تھی ۔ جہاں ایک ایک قدم چلنا اس کے لیے مشکل تھا۔ ہر لمحے یہی دھڑکا لگا رہتا کہ نجانے کب اسکا توازن برقرار نہ رہ پائے اور پاؤں پھسل جائے۔
“کیا ہے مالا تیار ہو جاؤ نا۔۔ایک تو تم نے قسم کھا لی ہے کہ احمد کو زچ کرنے کے چکر میں میرا دماغ بھی گھما کر چھوڑو گی۔ لیٹ ہو کر کچھ نہیں ہونے والا سوائے اس کے کہ مجھے تم پر غصہ آ جائے گا۔ وہ بچارہ احمد تو ایک گھنٹہ کیا تین گھنٹے بھی تمہارا انتظار کر لے گا۔ لہذا پلیز جلدی کرو۔ شاباش۔ ”
نور نے مالا کو تقریبا ڈانٹتے ہوئے اسکی الماری سے سوٹ نکال کر اسے پکڑایا۔ مالا اسے گھورتی ہوئی سوٹ لے کر واش روم جانے کیلیے پلٹی تاکہ تیار ہو کر آ سکے۔
“ایسے کیا گھور رہی ہو۔ سچ کہہ رہی ہوں”
نور نے پیچھے سے لقمہ دیا۔
” نور۔۔تم بولنے سے باز نہیں آؤ گی کیا۔ ”
مالا نے زچ ہو کر ٹوکا۔ نور بھی کہاں ہار ماننے والی تھی۔
“نہیں ”
“اچھا بابا۔ تم جیتی میں ہاری۔ اب تیار ہونے دو گی کہ نہیں ”
مالا کی بات سن کر نور کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ پھیل گئی۔ “گڈ گرل”
مالا تقریباً بیس منٹ بعد نکلی۔ ہلکے سبز رنگ کے سوٹ پر ہلکی سی گلابی لپ اسٹک لگائے وہ کافی بہتر نظر آ رہی تھی۔
“شکر ہے۔ تمہیں بھی کچھ احساس ہوا۔.دیکھو تو چہرے پر رونق آ گئی ہے تمہارے۔ کیا جاتا ہے اگر روز منہ دھونے کا تکلف کر لیا کرو”
نور نے کہا تو مالا مسکرا دی۔
“اور یہ بال یہاں سے ایسے پن اپ کرو۔ نور نےاسکی لٹ اٹھا کر پیچھے کی طرف لے جا کر ایک پن لگا دی۔ ” “واؤ یو آر لکنگ گریٹ”
نور نے کہا تو مالا کے چہرے پر اچانک ایک اداسی سی چھا گئی۔
“کیوں نور؟ کیوں کر رہی ہو یہ سب”
“میری جان تاکہ تم پھر سے مسکرا سکو”
“لیکن تم اچھی طرح جانتی ہو کہ ایسا کچھ بھی ممکن نہیں ۔ کیوں وہ خواب دیکھ رہی ہو جن کی تعبیر ممکن نہیں ”
“مالا زندگی کب کیا رنگ دکھائے۔ ہم کیا جانیں؟ایسے ہی ایک دن احمد چلا گیا تھا۔ ایسے ہی بنا چاہے حیدر تمہاری زندگی میں آ گیا تھا۔ اور ایسے ہی کسی روز تمہارا دامن محبت سے خالی ہو گیا. تو کیا پتہ پھر کسی دن تمہارے دل کے آنگن میں بہار آجائے۔ ”
نور نے کہا تو مالا نے تڑپ کر جواب دیا
“نور تم جانتی ہو۔ میرے جیتے جی میں حیدر کےسوا کبھی کسی کی نہیں ہو سکتی۔ پھر کیوں کر رہی ہو یہ لاحاصل کوشش۔ مجھے عجیب سا لگ رہا ہے۔ احمد کے دل میں کہیں تم کوئی امید نہ جگا دو پاگل لڑکی اور مجھے ایک بار پھر بے وفا ہو جانے پر مجبور نہ ہو جانا پڑے۔ ”
“ایسا کچھ نہیں ہو گا۔ تم بے فکر رہو۔ میں بس چاہتی ہوں کہ ہم کچھ وقت بیتے ماضی سے چند خوشگوار لمحات پھر سے چرا لیں۔ ہم نے ایک ساتھ کتنا اچھا وقت بھی گزارا ہے۔ تو کیا ضروری ہے کہ برے وقت کو ہی یاد رکھا جائے۔ پلیز وہ سب بھول جاؤ۔۔بس یہ یاد رکھو کہ احمد ہمارا دوست ہے۔ اور بس۔ ”
نور نے مالا کے گال پر پیار سے چٹکی کاٹی اور اس کے گلے میں بانہیں ڈال کر اسے باہر کی طرف لے جانے لگی۔نور نے پکنک کیلیے شہر سے باہر ریزورٹ چنا۔ جہاں وہ سکون کے ساتھ پورا دن گزار سکتے تھے۔ احمد جیسے انکا ہی منتظر تھا۔
مالا نے احمد کو دیکھ کر سلام تک کرنا مناسب نہ سمجھا۔ اسے خود پر حیرت ہو رہی تھی۔ کہ وہ نور کی بات مان کر کیوں آئی۔
اندر جا کر وہ تینوں ریزورٹ میں ہی بنے ایک ریسٹورنٹ میں موجود صوفے پر بیٹھ گئے۔ درمیان میں میز تھی۔ احمد میز کے ایک طرف اور مالا اور نور دوسری طرف بیٹھ گئے۔ احمد گہری نظروں سے مالا کا جائزہ لے رہا تھا۔ مگر مالا اسے مسلسل اگنور کر رہی تھی۔
نور نے گفتگو کا سلسلہ شروع کیا ۔ کافی دیر وہ اور احمد پرانی باتیں دہراتے رہے ۔ اچھے دنوں کی باتیں جب وہ صرف دوست ہوا کرتے تھے اور یونیورسٹی لائف کو خوب انجوائے کیا کرتے تھے ۔
نور اور احمد کی گفتگو میں قہقہے اور وہ سب پرانی باتیں سننا مالا کو بھی اچھا لگ رہا تھا۔ مگر اس کا چہرہ بالکل سپاٹ تھا۔ وہ کسی بات پر مسکرا بھی نہیں رہی تھی۔
احمد نے ایک دو بار اسے دیکھا۔مگر مالا کو اپنے ناخنوں کے ساتھ کھیلتے دیکھا تو نظر ادھر ادھر کر لی۔ وہ جانتا تھا کہ مالا انکی باتوں میں شامل نہیں ہو گی۔
تبھی نور نے اچانک کہا “بائے گاڈ احمد اگر تم بھاگ نہ جاتے نہ تو میں ہی تم سے شادی کر لیتی۔ مگر تم تو ایسے گم ہوئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ ناٹ فئیر”
دو لمحے کیلیے سکوت رہا پھر احمد نے کھنکناتی ہوئی آواز میں کہا “ارے مجھے کیا پتہ تھا کہ کوئی میری محبت میں پور پور ڈوبا ہوا ہے۔ ہم تو بس بے آبرو ہو کر کوچہِ جاناں سے نکل گئے تھے”
“کوچہِ جاناں” یہ لفظ مالا کے ذہن پر ہتھوڑے کیطرح لگا۔ اس نے اضطراب میں اپنی انگلیاں بھینچ لیں۔ احمد نے نوٹس کیا مگر نظر چرا ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ ”
تبھی نور قہقہہ لگا کر بولی “اچھا ویسے گئے کہاں تھے؟ ”
“یہ راز صرف خاص افراد کیلیے ہے۔ اور اس راز کو بتانے کی آفر بھی بس ایک کو ہی تھی۔ ” احمد نے کہا تو نور اچانک بولی “اچھا نہیں بتانا تو مت بتاؤ۔ مجھے کوئی شوق بھی نہیں ہے جاننے کا۔ اپنے خاص افراد کو ہی بتانا ۔ میں تو ذرا واش روم سے ہو کر آئی۔ تم دونوں باتیں کرو۔ واپس آتی ہوں تو پھر آرڈر دیں گے کچھ کھانے کا”
نور اٹھی اور سامنے دروازے کی طرف چل دی۔ دروازے سے نکل کر کوریڈور سے ہوتے ہوئے بائیں طرف واش روم تھا۔
نور کے دروازے سے اوجھل ہوتے ہی مالا جیسے اس کے جانے کا انتظار کر رہی تھی۔ مالا سیدھی ہو کر بیٹھی اور سخت لہجے میں بولی
“تم خود کو کیا سمجھتے ہو؟ تم کوئی ہیرو ہو کسی فلم کے؟ یا کوئی سپر مین ہو۔ ایسی اوچھی حرکتیں کر کے تم کیا ثابت کرنا چاہتے ہو؟ تمہیں کیا لگتاہے کہ سب دھل جائے گا؟ ماضی بدل جائے گا؟ گزرا وقت واپس آ جائے گا یا میں تمہیں معاف کر دوں گی؟ یا کہیں غلطی سے ایسا تو نہیں لگ رہا تمہیں کہ میں واپس تمہارے پاس محبت کیلیے جھولی پھیلائے آ جاؤں گی۔ ”
مالا ایک ہی سانس میں بولتی گئی۔ احمد اسکی بات بغور سنتا رہا۔ اور پھر بس اتنا ہی کہا “ایسا کچھ نہیں ہے۔ تم غلط سمجھ رہی ہو”
“میں کیا سمجھ رہی ہوں یہ تم مجھ پر چھوڑ دو۔ تم بس میری زندگی سے دور رہو۔ اور یہ کیا تم نے ہوا بنا رکھا ہے۔ بتاؤ مجھے کہاں گئے تھے تم ۔ آج یہ بھی سن لیتی ہوں تم سے۔ کہیں تم یہ کہانی سنانے ہی میرے پیچھے تو نہیں آئے۔ چلو پھر سناؤ تاکہ میں بھی سمجھ سکوں کہ محترم غائب کہاں ہوئے تھے۔ ”مالا روانی میں کہتی ہی گئی۔
احمد گہری سانس لے کر بولا “مالا تم یہ کہانی تب ہی سننا جب تم خود دل سے میری بات سننے کو تیار ہو۔ فی الحال تم غصے میں ہو۔ لہذا ہم اس ٹاپک پر بات نہیں کرتے۔ مگر تم تسلی رکھو میں ہرگز ہرگز تمہارا دل دکھانے یا تمہیں چوٹ پہنچانے نہیں آیا۔ لیکن اگر ایسا ہوا ہے تو میں واقعی تم سے معذرت چاہتا ہوں۔ ”
اتنے میں نور آ گئی۔ مالا نے احمد کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔
“چلو بھئی کھانا آرڈر کرتے ہیں۔ بہت زور سے بھوک لگی ہے” نور نےآتے ہی کہا تو احمد نے مینو اٹھا لیا۔ باقی کا دن انہوں نے ریزورٹ میں گھومتے پھرتے گزارا۔ مالا نے ان دونوں کی کسی گفتگو میں کوئی خاص حصہ نہ لیا۔
واپسی پر مالا اس قدر تھک چکی تھی کہ گھر پہنچتے ہی بستر پر گر گئی۔ تبھی اس نے ایک خواب دیکھا۔ اس نے دیکھا کہ حیدر ایک چٹیل پہاڑ پر کھڑا اسے اپنی طرف بلا رہا تھا۔ اور وہ پسینے میں شرابور ہانپتی ہوئی پہاڑ پر چڑھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ بالآخر وہ چوٹی تک پہنچتی ہے مگر حیدر ایک جانب اشارہ کر کے پہاڑ کی دوسری جانب موجود کھائی میں چھلانگ لگا دیتا ہےاور مالا زور سے چیختی ہے “حیدر”
اس کے ساتھ ہی اسکی آنکھ کھل گئی۔ اسکا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ اور سارا جسم پسینے میں شرابور تھا۔ خواب میں جس جانب حیدر نے اشارہ کیا تھا وہاں مالا نے احمد کو کھڑے دیکھا۔
مالا اس عجیب سے خواب کو لے کر پریشان ہو گئی۔ باقی کی ساری رات اس نے کانٹوں پر گزاری۔ صبح ہوتے ہی اس نے احمد کا نمبر ملایا۔ وہی بارہ سال پہلے والا نمبر جسے مالا اپنی لسٹ میں بلاک کر چکی تھی۔ مگر آج برسوں بعد وہی نمبر پھر سے اسکی موبائل سکرین پر جگمگا رہا تھا ۔
فون احمد نے ہی اٹھایا ۔ مالا جلدی سے بس اتنا بولی “آج مجھے کیفے بلانکا میں ملنا۔ میں تین بجے تمہارا انتظار کروں گی۔ میں اکیلی ہی ہوں گی۔ ” اتنا کہہ کر مالا نے فون بند کر دیا۔
احمد تھوڑی دیر حیرت سے فون دیکھتا رہا ۔پھر خوشی سے کمبل پھینک کر کھڑا ہو گیا۔ آج اسکی برسوں پرانی مراد پوری ہو گئی تھی ۔مالا کو پورا یقین تھا کہ حیدر نے اسے خواب میں کچھ بتانے کی کوشش کی ہے۔ ہمیشہ سے ایسی ہی وہمی اور جنوں پریوں کی کہانیوں پر یقین رکھنے والی بیوقوف سی لڑکی تھی وہ۔ اور اسی لیے اس نے فون پر احمد کو ملنے کا کہا کیونکہ خواب میں حیدر نے احمد کی طرف اشارہ کیا تھا۔
کیفے بلانکا شہر کا ایک مشہور پوش ریسٹورنٹ تھا۔ جہاں داخل ہونے کیلیے ممبر شپ کارڈ دکھانا ضروری شرط تھی۔ عام لوگ کارڈ دکھائے بغیر اندر داخل نہیں ہو سکتے تھے ۔ ممبرز ہونے کی اسی سختی کی وجہ سے یہاں دوپہر کے تین بجے رش کم ہوتا۔ جبکہ باقی ریسٹورنٹ آفس لنچ بریک کی وجہ سے کچھا کھچ بھرے ہوتے۔ مالا کو اس ریسٹورنٹ کی ممبر شپ حیدر نے اسکی سالگرہ پر بطور تحفہ دی تھی۔
مالا ریسٹورنٹ پہنچی۔ اس نے اندر داخل ہونے سے پہلے کاؤنٹر پر احمد کی معلومات دیں کہ اسے اس کا مہمان ہونے کی وجہ سے اندر آنے دیا جائے ۔ اندر جا کر تھوڑی ہی دیر گزری ہو گی کہ مالا نے احمد کو داخل ہوتے دیکھا ۔
احمد نے بھی مالا کو دیکھ لیا اور اسکے پاس چلا آیا۔
“اسلام علیکم! کیا کہوں یقین ہی نہیں آ رہا کہ تم نے بلایا ہے” احمد نے کہا تو مالا نے جواباً بس “وعلیکم اسلام” ہی کہا۔
احمد کے بیٹھتے ہی ویٹر آ گیا۔ مالا نے اسے سینڈوچ اور کافی کا آرڈر دیا۔ پھر وہ احمد کیطرف متوجہ ہوئی۔
“میں تم سے سننا چاہتی ہوں کہ تم کہاں گئے تھے؟ ”
مالا کا سوال سن کر احمد سنجیدہ ہو گیا۔ “مالا میں تمہیں سب بتانے کو تیار ہوں۔ مگر یاد رکھنا یہ میں صرف تمہیں بتا رہا ہوں۔ وہ بھی صرف اسلیے کیونکہ میں تمہارا مجرم ہوں۔ لیکن میں بتانے سے پہلے یہ جاننا چاہوں گا کہ تمہیں اچانک یہ جاننے کا خیال کیوں آیا۔ کہیں یہ تمہارا غصہ یا جذباتی پن تو نہیں ۔ ”
“نہیں بس یوں سمجھو کہ میں یہ سب حیدر کیلیے کر رہی ہوں۔”
مالا نے کہا تو احمد نے اس کا چہرہ پڑھنے کی کوشش کی۔ احمد کو لگا کہ وہ بس جلدی سے اسکی گمشدگی کے بارے میں جاننا چاہتی ہے۔ تبھی احمد نےکہا
” تمہیں یاد ہے میرے بارے میں یونیورسٹی میں کیا مشہور تھا۔کہ میں ایک ایجنٹ ہوں۔مالا میں سچ مچ ایک ایجنٹ ہی ہوں. اور میرا کام میرے وطن اور اسکے رازوں کی حفاظت کرنا یے۔مجھے اٹھایا نہیں ۔ لے جایا گیا تھا”
مالا نے اسے ایسے دیکھا جیسے اسے احمد کی بات پر رتی بھر بھی یقین نہ آیا ہو۔
“شاید تمہیں میری بات کا یقین نہیں آرہا مگر میں سچ کہہ رہا ہوں۔ مالا ہم جان دے دیتے ہیں مگر کسی پر یہ راز ظاہر نہیں کرتے۔ اور جانتی ہو تمہیں یہ بتا کر میں نے اپنی جان کو خطرے میں ڈال لیا ہے۔”
“تمہیں کیا لگتا ہے کہ میں پاگل ہوں جو تمہاری بات کا یقین کر لوں گی۔ اور اگر ایسی بات ہے تو تم نے مجھے تب تو کبھی نہیں بتایا تھا۔ پھر اب اس سب کو بتانے کا مقصد؟ ” مالا کی آواز سے بےیقینی صاف ظاہر تھی۔
“مالا مجھے اندازہ نہیں تھا کہ میرا ایک سال غائب رہنا ہماری زندگیوں میں اتنا کچھ بدل دے گا۔ مگر جب احساس ہوا تو مجھے لگا کہ میری زندگی تمہاری ہی امانت ہے۔ کم از کم تمہیں اس بات کا پتہ ہونا چاہیے کہ میں کہاں گیا تھا۔ میں نے ناسمجھی بلکہ یوں کہو مصلحتاً خاموش رہ کر ایک لڑکی کی زندگی خراب کر دی۔”
“حیدر کے ساتھ میری زندگی خراب نہیں ہوئی احمد۔ ” مالا نے سختی سے کہا تو احمد نے جواب دیا “بہرحال وہ تمہاری خوش قسمتی تھی کہ تمہیں ایک اچھا جیون ساتھی مل گیا۔ مگر ایک سال تمہیں جو سہنا پڑا اس کے لیے میں معذرت خواہ اور شرمندہ ہوں۔”
ہونہہ۔۔مالا نے سر جھٹکا۔ احمد نے بات کا سلسلہ جاری رکھا۔
“مالا تمہیں یاد ہو گا کہ ان دنوں مذہبی منافرت اپنے عروج پر تھی ۔ یونیورسٹی میں بھی ایک آدھ ہنگامہ ہو چکا تھا۔ چند شر پسند عناصر نے ہماری یونیورسٹی میں دہشت گردی کا ایک بڑا منصوبہ بنا رکھا تھا۔ انکے ٹارگٹ کے مطابق کم از کم سو سے دو سو لوگ یونیورسٹی میں محض تصادم کے دوران مار دیے جاتے۔ اور اسی مقصد لیے یونیورسٹی میں فرقہ واریت کو ہوا دی جا رہی تھی۔ ”
مالا اسکی باتیں یوں سن رہی تھی جیسے وہ کسی دوسری دنیا کا باشندہ ہو۔مالا کی آنکھوں میں بے یقینی دیکھ کر احمد کو ذرا بھی حیرانی نہیں ہوئی۔ اسے مالا سے اسی رویے کی توقع تھی۔ “مالا میں سمجھ سکتا ہوں کہ تمہارے لیے یہ بات سمجھنا مشکل ہو گا مگر میرا ایک ایک حرف سچ ہے”
“احمد مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ تم کیا کہہ رہے ہو۔ ” مالا نے حیرت و پریشانی کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ کہا تو احمد اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔ وہ جانتا تھا کہ مالا کے لیے یہ سب کچھ ہضم کرنا اتنا آسان نہیں ہو گا۔
“مالا میں تمہیں شروع سے سمجھاتا ہوں۔ میں ایک خفیہ ادارے میں کام کرتا ہوں۔ میرا کام دہشت گرد عناصر پر نظر رکھنا اور انکی کسی بھی ممکنہ حرکت کی اطلاع آگے دینا ہے تاکہ بروقت کاروائی کر کے کسی بھی نقصان سے بچا جا سکے ۔ تمہیں یونیورسٹی میں وہ سنہرے سے بالوں والا لڑکا یاد ہے جس کو سب مذاق سے گولڈن ایگل کہتے تھے؟ ”
مالا نے اثبات میں سر ہلایا۔ اسے یاد تھا کہ وہ لڑکا اپنے بالوں کی وجہ سے ہی مشہور تھا۔ اس کے سر کے بال سنہرے تھے۔ جب کہ رنگت ایشیائی ہونے کی وجہ سے سنہرے بال اسکی شخصیت کا کچھ عجیب سا تاثر دیتے تھے۔ بظاہر وہ ایک عام اور شرمیلا لڑکا تھا جس کی باقی ساتھیوں سے کچھ خاص سلام دعا نہیں تھی۔ مگر اپنے بالوں کے رنگ کی وجہ سے ہی ہر ایک کی توجہ کا مرکز بنتا تھا۔
“مالا وہ ہماری یونیورسٹی میں دہشتگردوں کا آلہ کار تھا۔ جیسے میرا کام ملکی مفاد میں خبر آگے پہنچانا تھا ویسے ہی اسکا کام دہشت گردوں کیلیے مخبری کرنا تھا”
مالا کو حیرت کا ایک اور جھٹکا لگا۔ “وہ گولڈن ایگل؟ یقین نہیں آرہا ۔احمد یہ تم کیسی باتیں کر رہے ہو۔ ”
احمد نے اپنی بات جاری رکھی۔ ” اس دن یونیورسٹی میں ایک بہت بڑے ہنگامے کی پلاننگ کی جا چکی تھی۔ اور مجھے نہ صرف اس بارے میں پتہ چل چکا تھا۔ بلکہ کوریڈور سے گزرتے ہوئے اتفاقاً میں نے اس گولڈن ایگل کو ایک مشکوک آدمی کے ساتھ گفتگو کرتے بھی دیکھ لیا تھا۔ میں نے مزید کوشش کی اور پتہ لگایا تو مجھ پر حیرت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا کہ جس آدمی کو میں ایک سال سے دہشت گردوں کے آلہ کار کے طور پر تلاش کر رہا تھا وہ کوئی اور نہیں گولڈن ایگل ہی تھا”.
“مگر تم غائب کیوں ہو گئے ؟”
مالا نے الجھے انداز میں سوال کیا تو احمد نے کہا ” جیسے مجھے معلوم ہو گیا تھا کہ گولڈن ایگل دہشت گردوں کا آلہ کار ہے ویسے ہی اسے بھی معلوم ہو گیا تھا کہ میں کون ہوں اور یہ کہ میں نے اس کے بارے میں معلومات اکٹھی کر لی ہیں۔ ایسے میں میری گمشدگی کا ڈرامہ رچا کر خفیہ اداروں نے مجھے منظر عام سے غائب کر دیا۔ میں دوسرے پراجیکٹس پر خفیہ کام کرنے لگا۔ دہشت گردوں کو بھی یہی تاثر دیا گیا کہ مجھے نامعلوم افراد اٹھا کر لے گئے ہیں۔ ہماری یونیورسٹی میں تو ان کی کوشش ناکام بنا دی گئی تھی اور انکے سارے ساتھی پکڑے گئے۔مگر ظاہر ہے وہ مجھے نظر انداز نہیں کر سکتے تھے۔ میری گمشدگی سے انہوں نے یہی سمجھا کہ شاید میں کسی اور دشمن کی نذر ہو گیا۔ انکی اسی بےخبری کا فائدہ اٹھا کر ہی تو انکو دھر لیا گیا تھا”
احمد ہر بات مالا کو تفصیل سے بتا دینے کیلیے تیار ہو کر آیا تھا۔ آج وہ اپنے دل سے ہر بوجھ اتار پھینکنا چاہتا تھا۔
“مگر مجھے فون کرنے والی لڑکی کون تھی؟ اور اسے کیسے معلوم ہوا مالا کے بارے میں؟ ”مالا نے ہچکچاتے ہوئے سوال کیا۔
“وہ سبیکا تھی۔ میرے ساتھ ایک دوسرے پراجیکٹ پر کام کر رہی تھی۔ اکثر ہم اکٹھے بیٹھتے تھے تو میں اس سے تمہاری باتیں کیا کرتا تھا۔ وہ تمہارے بارے میں بہت پوچھا کرتی تھی مثلا” کہ تم کیسی دکھتی ہو؟ یا ہم دونوں کا رشتہ کتنا گہرا ہے۔ میں اسے ایک لڑکی کی معمول کی باتیں اور تجسس سمجھتا تھا۔ مگر مجھے احساس ہی نہیں ہوا کہ وہ میری محبت میں گرفتار تھی۔ اس دن جب تم نے مجھے گیٹ پر چلے جانے کا کہا اور کال کے بارے میں بتایا تو میں حیران ہو گیا۔ تمہارے اس طرح کے رویے سے میں بری طرح ٹوٹ چکا تھا۔ اور ایسے میں انسان کسی ایسے دوست کا کندھا تلاش کرتا ہے جو آپ کا غم بانٹ سکے اور آپ کا رازدار ہو۔ میں سبیکا کے پاس چلا گیا۔ نجانے کتنی ہی دیر میں رو کر دل ہلکا کرتا رہا۔ تبھی سبیکا نے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھا۔ میں نے اسے ایک دوست کی تسلی سمجھا مگر اسکے ضرورت سے زیادہ ہمدردانہ رویے پر میں نے اسے دھکا دے کر پیچھے کیا تو وہ پھٹ پڑی اور چلائی کہ تم مجھے کبھی نہیں ملو گی کیونکہ اس نے تمہیں فون کیا تھا کہ تم مالا کو بھول جاؤ۔ اور تم واقعی بھول گئیں مالا”
احمد کی باتیں سن کر مالا کا سر چکرا رہا تھا۔ افف خدایا یہ زندگی کا کیسا موڑ تھا کہ وہ ان سب باتوں کا یقین کر لے تب بھی وقت کی ڈور جو ہاتھ سے پھسل چکی تھی اب اسے واپس لانا ناممکن تھا۔
کیا سب محض غلط فہمیوں کی نذر ہو گیا؟ یا جذباتیت کی؟ لیکن جو بھی گزر چکا تھا اب اس کو تقدیر کا لکھا سمجھ کر قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ بھی تو نہیں تھا۔
زندگی نے انکی راہیں ایسے جدا کی تھیں کہ انہیں احساس تک نہ ہوا کہ کیسا ستم ہو گیا۔
اور آج جب وقت کے چہرے سے دھول اڑی تو مالا اور احمد کو اس میں اپنی خستہ لکیروں کیساتھ گرد آلود ہاتھ نظر آ رہے تھے۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...