مالا کا رنگ احمد کی باتیں سن کر کچھ اور زرد ہو گیا تھا۔ اسے اپنی قسمت کی کم مائیگی کا یقین ہو گیا۔ ورنہ اس طرح احمد اسکی زندگی سے نہ جاتا۔ اور اگر قسمت نے حیدر کو اسکا نصیب چن ہی لیا تھا تو پھر آج اس کی کلائیاں سونی کیوں تھیں؟
“مالا ایک بات پوچھوں اگر تم برا نہ مانو تو؟ ”
احمد نے جھجکتے ہوئے پوچھا۔ اسے ڈر تھا کہ کہیں مالا کو اس کا سوال برا نہ لگ جائے۔
“پوچھو احمد۔ آج ہم سب کچھ کہنے سننے کیلیے ہی یہاں ہیں۔ اسکے بعد شاید یہ موقع دوبارہ نہ آئے”
مالا کی بات سن کر احمد کے دل میں ٹھیس سی اٹھی ۔ مگر اس کا چہرہ سپاٹ تھا “مالا تم نے میرا انتظار کیوں نہیں کیا؟ ”
“انتظار نہیں کیا؟ یہ تم مردوں کے نزدیک ساری عمر کا جوگ لینے کو انتظار کہتے ہیں؟ تمہیں کہاں کہاں نہیں ڈھونڈا۔ہر جگہ دھکے کھائے۔ پولیس، تھانے، کورٹ تک میں حاضری دی۔
اور محض ایک فون کال کر کے مجھے تمہیں بھلا دینے کو کہا گیا۔ وہ مالا تو میرے دل کو تمہارے دل سے جوڑتی تھی نا پھر کسی غیر کو موقع کیسے ملا اسے اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنے کا۔ اور سر بازار تمہارے گھر والوں نے مجھ پر ہی انگلی اٹھا دی کہ تم میرا برا سایہ پڑنے کی وجہ سے غائب ہو گئے ہو۔ پولیس تک میرے گھر آ گئی۔۔۔۔۔تمہارا اور میرا تعلق ڈھونڈنے ۔ کیا تم سمجھ سکتے ہو کہ پولیس جب جوان بیٹی کا کسی آدمی سے رشتہ پوچھتی ہے تو اس تعلق کی ایک جائز سند ہونا کتنا ضروری ہے۔ جو کم از کم اس وقت میرے پاس نہیں تھی۔ تم نہیں جانتے کہ مجھ پر کیا بیتی۔ میری کتنی دعائیں قبولیت کی منتظر رہ گئیں۔ کتنے لمحے آس کی نظر ہو گئے۔ اور جب تم نہیں تھے تب حیدر نے مجھے سہارا دیا۔ میری کھوئی ہوئی مسکراہٹ واپس لانے والا مسیحا تھا وہ۔۔ میرے ہر درد کی دوا بن گیا۔ میری دعائیں رد نہیں گئیں احمد۔۔۔جو دعائیں میں نے تمہارے لیے مانگی تھیں وہ حیدر کی صورت میں پوری ہو گئیں۔ ”
جذبات کی شدت سے مالا کا گلا رندھ گیا۔
“حیدر کہاں ہے مالا؟ ”
احمد کے اس اچانک سوال پر مالا کے چہرے پر درد آ کر ٹھہر گیا جسے احمد نے فورا” محسوس کیا۔
“نامعلوم افراد اٹھا لے گئے” ۔۔۔مالا نے ٹوٹا پھوٹا سا جواب دیا۔
“تین سال سے تلاش کرنے کے باوجود کوئی سرا ہاتھ نہیں آرہا۔ ٹارگٹ کڈنیپنگ ہوئی تھی۔ آخری اطلاعات کے مطابق اغواءکار حیدر کو علاقہ غیر لے گئے ہیں۔مگر نہ تو کبھی تاوان کیلیے کوئی کال آئی نہ ہی اسکے بعد کوئی سراغ ٹریس ہو سکا”
“اوہ آئی ایم سوری فار دیٹ۔۔رئیلی سوری” احمد کو یہ سن کر دھچکا لگا۔
“ڈونٹ بی۔۔بلکہ تم سے بات کر کے تو میرے دل میں ایک امید جاگ گئی ہے ۔ہو سکتا ہے وہ بھی کسی دن تمہاری طرح آ کھڑا ہو جائے میرے سامنے اور کہے کہ۔۔۔ مالا میں اٹھایا نہیں لے جایا گیا تھا”.
مالا کی آواز گلے میں ہی رندھ گئی۔ احمد نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ جسے مالا نے چھڑانے کی کوشش نہیں کی۔
“تم واقعی ایک بہادر لڑکی ہو مالا۔ہم بے شک آج ساتھ نہیں مگر کم از کم کبھی دوست تو تھے۔تم مجھ پر بھروسہ کر سکتی ہو”
مالا نے ایک نظر اٹھا کر احمد کو دیکھا۔ احمد اسکی نگاہوں میں چھپے پیغام کو نہ پڑھ سکا۔ نجانے بظاہر نازک سی نظر آتی اس آہنی حوصلے والی لڑکی کی آنکھوں میں غصہ تھا ، کرب یا پھر بے بسی۔ اسکی نظروں سے گھبرا کر اس نے صفائی دینا مناسب سمجھا “مالا میرا غلط مطلب نہ لینا۔ میں تمہیں ایک بات اور بھی بتانا چاہتا ہوں۔ میری منگنی ہو چکی ہے۔ زندگی کے اس سفر پر جب آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا تو تم نظر آ گئیں۔ یہ تمہیں اس لیے بتا رہا ہوں کہ کہیں تم یہ نہ سمجھو کہ میں کسی غلط نیت یا ارادے سے تمہارے پاس آیا ہوں ۔ میں خود کو تمہارا مجرم سمجھتا ہوں اسی لیے تمہیں دیکھتے ہی میرا ضمیر پھر سے مجھے ملامت کرنے لگا۔ اور میں تمہارے پاس کھچا چلا آیا کہ کاش میں تمہیں بتا سکوں کہ میں نے سب کچھ جان بوجھ کر نہیں کیا”
احمد کی بات جاری تھی۔ مالا خالی خالی نظروں سے اسے دیکھے جا رہی تھی۔ اسکے سارے الفاظ اسکی زندگی میں موجود رنگوں کی طرح کھو گئے۔
“کیا تم پوچھو گی نہیں ۔ میری منگیتر کا نام؟ ”
مالا نے احمد کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑا لیا مگر کچھ نہیں کہا۔
“سبیکا.. وہی میری منگیتر ہے ”
احمد کی اس بات پر جیسے کسی نے مالا کے کانوں میں انگارے بھر دیے ہوں۔۔اس کو دھچکا سا لگا۔ جس لڑکی کی وجہ سے وہ دونوں دور ہوئے تھے۔ وہی لڑکی احمد نے اپنے لیے چن لی تھی۔ اسکے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ آ گئی۔ مگر اس نے ابھی بھی ایک لفظ نہ کہا۔ کہتی بھی کیا۔؟
اس مرد ذات کا کیا بھروسہ؟ ۔۔دینے پر آئے تو جان بھی دے دے۔۔۔ تتلیوں سے رنگ چرا کر مانگ میں بھر دے۔۔کلیوں سے خوشبو چرا کر پہلو کو مہکا دے۔۔۔آسمان سے تارے لا کر جھولی میں ڈال دے۔۔۔ سارے نرم جذبوں کا فخر اور مان آنکھوں میں بھر دے اور لینے پر آئے تو آخری ہچکی میں چھپی دیدار کی آس کو بھی جھٹلا دے۔۔۔
“میرا خیال ہے ہم نے کافی باتیں کر لی ہیں۔ اب چلنا چاہیے ”
مالا ایک جھٹکے سے اٹھی اور بغیر کچھ کہے باہر نکل گئی۔
احمد وہیں بیٹھا رہا۔ اسے اندازہ تھا کہ مالا کو سب سچ بتا دینا جتنا مشکل ہو گا اس سے زیادہ مشکل مالا کے لیے اس سچ کو سہنا ہو گا۔ مگر یہ تو ہونا ہی تھا۔ان کی زندگی میں جو ہو چکا تھا اس کو نہ احمد جھٹلا سکتا تھا نہ ہی مالا۔
سبیکا کا نام سن کر مالا کے چہرے پر ایک لمحے کیلیے نظر آنے والے اس کرب کو احمد نے اپنے دل میں محسوس کیا۔
مالا کے ہوٹل سے نکل جانے کے بعد وہ بھی اٹھا اور باہر چل پڑا ۔
ریسٹورنٹ سے نکلتے ہی مالا کیلیے آنسو روکنا مشکل ہو گیا۔ اس نے بھی پلکوں کا باندھ کھول دیا۔ آنسوؤں کی لڑیاں اسکے گالوں سے نیچے بہتی جاتی تھیں۔ سارا منظر دھندلا سا رہا تھا۔ اس نے تیز تیز قدموں سے چلتے ہوئے پہلا ٹرن لیا تو بے اختیار ہی سامنے موجود پارک میں داخل ہو گئی۔ اسے خود کو سنبھالنے کیلیے تھوڑا وقت چاہیے تھا۔ وہیں پارک میں بنچ پر بیٹھے بیٹھے وہ ہر تھوڑی دیر کے بعد کلائی اٹھا کر اپنی آنکھوں کے پاس لاتی اور قمیض کیساتھ اپنے آنسو صاف کرتی۔ مگر ہر بار پھر اسکے گال آنسوؤں سے تر ہو جاتے۔
تبھی ایک مانوس آواز اسکے کانوں سے ٹکرائی “ہیلو”
اس نے سر اٹھا کر اوپر کیطرف دیکھا تبھی وہ بولا “ارے جب بھی آپ ملتی ہیں کہیں نہ کہیں یا اداس بیٹھی ہوتی ہیں یا رو رہی ہوتی ہیں۔ آپ کو تو کوئین آف ٹئیرز کا خطاب دے دینا چاہیے ۔ ویسے اتنے دنوں سے تھیں کہاں آپ اور آج یہاں گھر سے اتنے دور اس پارک میں کیسے؟اب وہاں اس پارک میں آپ کی بنچ خالی ہو گئی ہو گی۔ وہاں کوئی بیٹھ گیا تو۔۔آپ کو برا لگ جائے گا”
اجنبی اپنی دھن میں بولتا گیا۔
مالا خاموش رہی۔ تبھی اجنبی کو احساس ہوا کہ شاید وہ کچھ زیادہ ہی کہہ گیا ۔ “اوہ سوری شاید یہ صحیح وقت یا جگہ نہیں اس بات کیلئے ۔ بس آپ کو دیکھا تو خوشگوار حیرت کے ساتھ آپ کے پاس چلا آیا۔ اور آپ ہیں کہ بیٹھی رو رہی ہیں۔ ”
مالا نے پھر بھی کوئی جواب نہیں دیا “چلیں بات نہ کریں۔ مگر سن لیں۔ ہو سکتا ہے آپ کا موڈ کچھ بہتر ہو جائے۔ میرا نام حمزہ ہے ویسے۔ اور آج یہاں ایسے موجود ہوں کہ کچھ دوست میچ کھیلنے کیلئے اس پارک میں لے آئے۔ اور اب گھر ہی جا رہا تھا۔آپ نے جانا ہے تو آئیے آپ کو بھی ساتھ لے چلوں ”
“جی نہیں شکریہ”
مالا نے کہا تو اجنبی بولا”شکر ہے آپ نے کچھ کہا تو۔ ارے آپ مجھے ایسا ویسا مت سمجھیے۔ آپ یہاں غالبا اکیلی ہیں۔ اور تھوڑی ہی دیر میں شام ہو جائے گی تو اگر آپ مناسب سمجھیں تو مجھ پر اعتماد کر سکتی ہیں۔ باہر پارکنگ میں ہی میری گاڑی کھڑی یے۔ آئیے پلیز ”
مالا نے کچھ دیر کیلیے سوچا ۔ تھوڑی دیر اور رکتی تو اسے واقعی دیر ہو جاتی۔ کسی کو بتا کر بھی نہیں آئی تھی۔وہ اٹھی اور اس کے ساتھ چل دی۔
آپ کا نام تو میں نے پوچھا ہی نہیں… حمزہ نے کہا تو مالا نے لب ہلائے “مالا”.
“ؤاؤ کتنا اچھا نام ہے آپ کا۔ بالکل آپ کی طرح نازک اور نفیس”
حمزہ کے اس جملے پر مالا نے سر گھما کر اسے دیکھا۔ “ارے یہ کمپلیمنٹ ہے۔”مالا کے دیکھنے پر حمزہ نےمسکرا کر صفائی دی۔
مالا نے پہلی بار اسے گھور کر دیکھا۔ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا۔۔۔دونوں ہاتھوں سے سٹیرئنگ پکڑے اور بات کرتے وقت درمیانی انگلی اٹھاتا۔۔ حمزہ کچھ ایسا بھی برا نہیں تھا۔ اچھی خاصی جاذب نظر شخصیت تھی۔ گندمی رنگت اور الجھے سے بال جو غالبا میچ کھیلنے کے دوران بے ترتیب ہو گئے تھے۔ اسکے باوجود اسے وجیہہ نہ کہنا زیادتی تھی۔
مالا کے اسطرح بغور دیکھنے پر اس نے جوابا مالا کو دیکھ کر ابرو سے “کیا؟ ” کا اشارہ کیا تو مالا دوبارہ سر گھما کر باہر دیکھنے لگی۔
سڑک انکے ساتھ ہی تیز تیز چلتی جا رہی تھی۔ اچانک لال بتی جل اٹھی اور انہیں رکنا پڑا۔ تبھی مالا نے دیکھا کہ انکے ساتھ کھڑی گاڑی میں ڈرائیونگ سیٹ پر کوئی اور نہیں بلکہ احمد بیٹھا ہے۔ مالا نے چہرہ فورا سامنے کی طرف کر لیا۔ مگر احمد ان دونوں کی طرف نہ صرف دیکھ رہا تھا بلکہ بغور جائزہ بھی لے رہا تھا۔
“احمد کیا تم جانتے ہو کہ تم نے کیا حرکت کی ہے؟ اس لڑکی کو تم اتنا سب کچھ کیسے بتا سکتے ہو؟ ”
ٹیبل پر سامنے بیٹھے خاکی وردی میں ملبوس آفیسر نے احمد سے سوال کیا۔
“سر اٹ واز امپارٹنٹ”
“تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہو گیا۔ کم از کم مجھے تم سے یہ امید نہیں تھی۔ اتنا قابل آفیسر اور اتنا بڑا بلنڈر۔ پندرہ سالوں کی محنت کے بعد تم یہاں پہنچے ہو ۔ اور کس چکر میں پڑ گئے ہو؟ تم جیسے آفیسرز پر ہمیں ناز ہے۔ یہ مت بھولو کہ تمہاری زندگی اب صرف تمہاری اپنی نہیں اس ملک کی بھی امانت ہے۔ ”
آفیسر نے سنجیدگی سے کہا۔ احمد نے سر جھکا لیا “سر کچھ قرض ایسے ہوتے ہیں کہ انکو چکانے کے لیے جان کا نذرانہ بھی کم پڑ جاتا ہے۔ اور اس لڑکی کا قرض تھا مجھ پر۔ مجھے اس سے محبت تھی”
“واٹ نان سینس۔۔کیا رومانٹک ہیرو بننے بیٹھ گئے تم۔ تمہیں اس سے محبت تھی یا ابھی بھی ہے؟یہ مت بھولو کہ تم یہاں مشن پر آئے ہو۔ اپنے ماضی کے قرض چکانے نہیں ۔ اور تمہاری زندگی میں کسی کمزوری کی گنجائش ہرگز نہیں۔ایسا کر کے تم نے اپنے ساتھ ساتھ اس لڑکی کی زندگی بھی خطرے میں ڈال لی ہے۔اور اب تمہیں تاکید کی جارہی ہے کہ اس لڑکی سے دور رہنا”
“جی سر” احمد دھیمے لہجے میں بولا۔
“احمد وی آر واچنگ یو۔ بی کیرفل فار واٹ یو ڈو۔ ڈونٹ ٹرائے ٹو بھی اوور سمارٹ۔ مجنوں بننے کا وقت نہیں ہے ہمارے پاس ۔ تمہارے اور سبیکا کے پاس صرف ایک مہینہ ہے اس مشن کو کمپلیٹ کرنے کا۔ اسکے بعد یو ول بھی مووڈ بیک۔ گاٹ اٹ؟ ”
“یس سر”
“اور یاد رکھنا ہم ایک قابل آفیسر کسی فضول رومانی جذبے کے ہاتھوں نہیں کھونا چاہتے۔”
“یس سر”
احمد بدستور سر جھکائے کھڑا تھا۔
“یو مے گو ناؤ۔ اینڈ کنٹینیو یور ورک”
سرد لہجے میں دیے گئے حکم پر احمد نے اثبات میں سر ہلایا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔دروازے پر مسلسل بیل بجے جا رہی تھی۔ “ارے بابا کون ہے ؟ صبر نہیں ہوتا ایک تو لوگوں سے۔ بیل پر بیل دیے جاتے ہیں۔ ” مالا بڑبڑاتی ہوئی دروازہ کھولنے گئی۔ دروازہ کھولتے ہی وہ ٹھٹھک کر رک گئی۔ “تم؟ ”
احمد کا جواب آیا “ہاں میں”
“۔۔۔مگر تمہیں یہاں کا پتہ کس نے دیا؟ اوہ میں سمجھ گئی نور نے نا۔۔۔اس سے تو میں بعد میں نپٹوں گی۔ مگر میرا خیال ہے کہ تم سے میری آخری ملاقات ابھی دو دن پہلے ہی ہو چکی ہے۔ لہذا میرے گھر تک آنے کی کوئی خاص وجہ؟ اور یہ گارڈ نے تمہیں مین گیٹ سے اندر کیسے آنے دیا؟”
مالا نے سختی سے پوچھا تو احمد نے ملائمت سے جواب دیا “اسی سے پوچھ لینا ۔فی الحال اندر آنے کا نہیں کہو گی۔ تھوڑی دیر اکھٹے بیٹھ کر چائے پی لیں گے”
“نہیں۔۔بالکل نہیں ۔۔ بہتر ہو گا کہ تم واپس چلے جاؤ ” مالا نے سیدھا ہی کہہ دیا تو احمد جواباً مسکرایا “اچھا ایک گلاس پانی ہی پلا دو۔ یہیں دروازے پر کھڑے کھڑے ۔ پھر چلا جاتا ہوں”
مالا پانی لینے کے لیے مڑی۔ واپس آئی تو احمد دروازے پر نہیں تھا۔ اس نے حیرت سے اِدھر اُدھر دیکھا۔
کیا یہ محض اسکا وہم تھا؟ مگر احمد ابھی تو یہیں تھا۔ پھر کہاں گیا۔ اچھا ہے واپس چلا گیا ہو گیا۔ پتہ نہیں کیا سمجھ رہا ہے خود کو۔ ہمت کیسے ہوئی اس کی یہاں تک آنے کی؟ انہی سوچوں میں الجھی مالا حیرانی سے دروازہ بند کر کے واپس اندر آ گئی۔
شام کو تیار ہو کر مالا نور سے ملنے کیلیے نکلی۔ اس نے فون پر پہلے ہی نور کو بتا دیا تھا کہ وہ اس سے ملنے آنے والی ہے۔ اور اب جاکر نور سے اچھی خاصی لڑائی کرنے کا ارادہ تھا۔ اس بیوقوف نے احمد کو اس کے گھر کا پتہ کیوں دے دیا؟
باہر نکلتے ہوئے مالا نے بلاارادہ ہی گارڈ سے پوچھ لیا “خان تم نے ان صاحب کو اندر کیوں آنے دیا؟ بے شک کوئی خود کو میرا کتنا ہی قریبی کیوں نہ بتائے۔ اگر تم نے اسے پہلے میرے ساتھ نہیں دیکھا تو تم نے اسے اندر تک نہیں آنے دینا۔ یا پہلے انٹرکام پر مجھ سے پوچھ لینا”
مالا کے گھر کے مین دروازے سے اندر داخل ہونے کے بعد آگے جا کر دائیں مڑ کر گھر کے اندرونی اینٹرنس سے پہلے بھی بیل بجانی پڑتی تھی۔ یہ بیل عموما کام والی ماسی یا دودھ والا دیتے تھے یا وہ لوگ جن کا مالا سے براہ راست کوئی کام ہو۔ ورنہ مالی یا باہر کے کام کرنے والے ملازم باہر سے ہی کام کر کے چلے جاتے۔ ان ملازمین کو خان دیکھتا تھا جو ملازمین کا انچارج ہونے کے علاوہ ایک طرح سے انکا گارڈ بھی تھا ۔ اگر گھر میں کوئی کام نہ ہو تو خان دروازے کے ساتھ ملحقہ ایک چھوٹے سے کمرے میں چلا جاتااور وہیں بیٹھا رہتا۔خان کے اس چھوٹے سے کمرے میں پنکھا اور لیٹنے کیلیے بستر کی سہولت بھی موجود تھی۔
جب گیٹ پر بیل ہوتی تو وہ بیل خان کے کمرے میں بجتی تھی۔انٹرکام بھی اسی کمرے میں تھا جو گھر کے اندر انٹرکام سے منسلک تھا۔ پھر جس کو خان اندر جانے دیتا وہ اندر جا کر بیل دیتا کیونکہ گھر کے رہائشی پورشن میں ہر ایک کو داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی۔ پہلے دن سے انکے گھر کا یہی اصول تھا۔مالا اور حیدر کے سپنوں کے اس محل میں بسنے کے بعد حیدر نے اپنے تئیں مالا کیلیے حفاظت کا پورا انتظام کیا تھا۔ اکثر مریض اسکا پتہ پوچھتے ہوئے علاج کیلیے اسکے گھر تک بھی آ جاتے تھے۔ ایسے میں وہ نہیں چاہتا تھا کہ جب وہ گھر پر نہ ہو تو مالا کو دروازہ کھولنے کی پریشانی یا اجنبی لوگوں کا کوئی خوف ستائے۔
“بی بی جی کس کو؟ میں نے تو کسی کو اندر نہیں آنے دیا۔ صبح سے کوئی آیا بھی نہیں ہے۔ بس وہ شیر علی آیا تھا۔ اس نے باہر سے ہی کیاری میں لگے کچھ پودوں کی گوڈی کی اور پھر میں نے اسے چلتا کیا۔اس کے علاوہ تو کوئی نہیں آیا. ”
خان نے حیرت سے کہا تو مالا کے چہرے پر تشویش کے سائے لہرانے لگے۔
“خان وہ جو ابھی دو گھنٹے پہلے ہی اندر آئے تھے ۔ میرے ایک پرانے دوست، انکی بات کر رہی ہوں۔ مجھے لگا انہوں نے تمہیں اپنا تعارف کرایا اور تم نے انہیں اندر بھیج دیا۔ تو میں تمہیں منع کرنے والی تھی کہ آئندہ ایسے کسی کو اندر نہ بھیجنا جب تک مجھے معلوم نہ ہو۔”
“بی بی جی آپ پتہ نہیں کیا بات کر رہی ہیں۔ میں تو سویا بھی نہیں کہ کہوں آنکھ لگ گئی تھی۔ میں نے تو کسی کو اندر نہیں بھیجا۔ ”
خان بھی اتنا ہی حیرت زدہ ہو گیا جتنا مالا پریشان ہوئی۔
“اچھا؟. چلو آئندہ دھیان رکھنا۔میں تھوڑی دیر میں آتی ہوں۔ذرا نور باجی سے ملنے جا رہی ہوں”
“جی بی بی جی۔ میرا سلام بھی دینا نور باجی کو. اور ان سے کہنا کہ اس بار آئیں گی تو خان انکے لیے اسپیشل پشاور کے مشہور چپلی کباب لے کر آئے گا۔”
نور کا آنا جانا زیادہ تھا۔ وہ اکثر خان سے آتے جاتے کوئی ہنسی مذاق کی بات کر لیا کرتی تھی۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی اسے جاتے ہوئے کہہ کر گئی تھی کہ اگلی دفعہ آؤں گی تو خان ذراچپلی کباب تو کھلانا۔ خان اسی بابت مالا سے بات کر رہا تھا۔
مالا نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلایا۔ “یا۔ “اچھا خان تمہارا پیغام اسے ضرور دے دوں گی۔ سن کر کل ہی چلی آئے گی۔”
مالا بظاہر مسکرا رہی تھی مگر اندر سے وہ اچھی خاصی پریشان ہو چکی تھی۔
اسی شش و پنج میں مالا نور کے گھر پہنچی۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...