“مالا بیٹا آج یونی ورسٹی سےجلدی واپس آ جانا۔ گھر میں کچھ ضروری مہمان آ رہے ہیں۔ ”
مالا کی والدہ نے کہا تو مالا کا دل بیٹھ گیا۔
سارا دن یونیورسٹی میں بے چینی سی غالب رہی۔ سر بھی نجانے کیا پڑھاتے رہے۔ نوٹس کاپی کرنے کی بجائے وہ سارے صحفے پر احمد کا نام لکھتی رہی۔ اسے احمد لکھنے سے طمانیت کا احساس ہو رہا تھا۔ جیسے ہر بار نام لکھنے پر احمد اس کے دل کے پاس آ کر سرگوشی کرتا کہ مالا تم صرف میری ہو اور میں تمہارا۔
گھر واپسی پر ایک ایک قدم من بھر کا ہو رہا تھا۔ مالا کا دل چاہ رہا تھا کہ بھاگ جائے۔
گھر میں داخل ہوتے ہی اسکا حوصلہ جواب دے گیا۔ وہ اپنے کمرے کی طرف بھاگی اور رو دی۔
تھوڑی دیر میں اسکی امی نے دستک دی۔ مالا نے جلدی سے ٹشو پیپر سے آنکھیں صاف کیں اور شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر پونی بنانے کی ایکٹینگ کرنے لگی ۔
اسکی والدہ نے اندر جھانکا اور کہا مالا بیٹا جلدی سے تیار ہو جاؤ ۔ مہمان بس آنے ہی والے ہیں۔
وہ شاید تیاریوں میں مصروف تھیں اسلیے انہوں نے مالا کی حالت پر زیادہ دھیان نہیں دیا۔ وہ دروازہ بند کر کے چلی گئیں تو مالا بیڈ پر یوں تھک کر بیٹھ گئی جیسے صدیوں کی مسافت طے کر کے آئی ہو۔
*** **** ****
تیار ہو کر مالا نے ہلکے پیلے رنگ کا سوٹ زیب تن کیا جو امی نے پہلے ہی استری کروا کے اسکی الماری کے کنڈے پر لٹکایا ہوا تھا۔ اسکا کھلتا رنگ پیلے رنگ کی دمک سے اور بھی کھل جاتا تھا۔
تیار ہو کر وہ وہیں بیڈ پر بیٹھ گئی۔ اور ناخنوں سے بیڈ شیٹ پر بنے پرنٹ کو کھرچنے لگی۔
تھوڑی ہی دیر میں اسکی امی کمرے میں آئیں اور اسے ساتھ چلنے کا کہا۔
مالا اٹھی ہی تھی کہ ایک سوچ اس کے ذہن میں لہرائی “تو آج جناب چائے لے کر جائیں گی”
اسے لگا احمد نے سرگوشی کی ہے۔ اس نے فورا گھبرا کر ادھر ادھر دیکھا مگر اس کے اور امی کے علاوہ وہاں کوئی نہیں تھا۔ مالا کی ایک دھڑکن جیسے چھوٹ گئی ۔ دل بوجھل ہو گیا اور ایک عجیب سی ٹیس اس نے اپنے پورے جسم میں محسوس کی۔ اس کے منہ سے بے اختیار سرگوشی نکلی۔۔۔”یا اللہ مدد”
مالا کی امی نے مالا کی طرف دیکھا۔ ایک سیکنڈ کو رکیں۔ اور پھر اسے گلے سے لگا لیا “میری بچی بہت بہادر ہے۔ خود کو سنبھالو بیٹا۔ میں اور اللہ تعالی ہر وقت آپ کے ساتھ ہیں۔ میری بچی یہ سب میں آپ کی خوشی لوٹانے کیلیے ہی کر رہی ہوں۔ ”
“کیسی خوشی امی۔۔۔احمد کے بغیر کیسی خوشی؟ ” وہ کہنا چاہتی تھی مگر الفاظ اسکے حلق میں ہی اٹک گئے۔ وہ چپ چاپ کمال کا ضبط لیے ڈرائنگ روم میں چلی آئی۔
مگر وہاں پہنچ کر اسکی حیرت کی انتہاء نہ رہی۔ وہ تو سمجھ رہی تھی کہ رشتے کیلیے لڑکا اور اسکے گھر والے آئے ہوں گے۔
اس نے کچھ نہ سمجھ آنے والے انداز میں اپنی امی کیطرف دیکھا تو انہوں نے دھیمی آواز میں بس اتنا ہی کہا “مجھے امید ہے۔ہماری بیٹی کو ہمارا فیصلہ پسند آئے گا۔ ”
مالا اندر داخل ہوئی۔ اس نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ میں یوں دبا رکھا تھا جیسے کوئی بہت اپنا کسی کو پناہ میں لے لے۔ اسکے چہرے سے اضطراب صاف ظاہر تھا۔ تبھی اسے خوش آمدید کرنے کیلیے وہ صوفے سے اٹھ کھڑا ہوا۔
“اسلام علیکم”
“وعلیکم اسلام”
ایسی رعب دار آواز مالا نے پہلے کم ہی سنی تھی۔
مالا نے ایک نظر اٹھا کر دیکھا۔۔۔کیا بھرپور شخصیت تھی۔
اسے دیکھ کر ایک مکمل اور جامد شخصیت کا احساس ہوتا تھا۔ چھ فٹ سے نکلتا قد، چوڑے شانے، سلیقے سے بنائے گئے بال، چہرے پر جچتی داڑھی اور نظر میں حیا کے ساتھ اپنائیت۔
مالا نے گھبرا کر نیچے دیکھنا شروع کر دیا۔ وہ جتنا بھی مکمل ہو وہ احمد تو نہیں ہے نا۔ وہ احمد ہو بھی نہیں سکتا۔ احمد کے علاوہ وہ کسی دوسرے کے بارے میں نہیں سوچ سکتی تھی۔ تبھی وہ اس سے مخاطب ہوا
“میرا نام حیدر شاہ ہے”
مالا بدستور نیچے دیکھ رہی تھی “اگر آپ برا نہ منائیں تو بیٹھ جائیے تاکہ آرام سے بات ہو سکے”
اس نے کہا تو مالا میکانکی انداز میں بیٹھ گئی۔ یوں لگ رہا تھا جیسے مالا مہمان ہو اور وہ میزبان۔ اس نے اپنی بات جاری رکھی “وہ دراصل آنٹی چاہتی تھیں کہ میں پہلے آپ سے مل لوں۔ مجھے معلوم ہے آپ کو بھی عجیب لگ رہا ہو گا۔ مگر آنٹی آپ کو میرے ساتھ کہیں باہر بھیجنے پر راضی نہیں تھیں اور بات آگے بڑھانے سے پہلے آپ سے ملنا بھی ضروری تھا۔ اسلیے میں یہاں چلا آیا۔ امید ہے آپ نے برا نہیں منایا ہو گا”
مالا خاموش رہی۔ “امید ہے آپ کو برا نہیں لگا”
اس نے دوبارہ کہا تو مالا نے بے اختیار اپنا منہ دونوں ہاتھوں میں چھپا لیا اور رونے لگی۔ وہ اچانک ہی مالا کی اس حرکت پر ششدر رہ گیا۔ “دیکھیے آپ روئیں نہیں ۔ میں معافی چاہتا ہوں اگر میری کوئی بات آپ کو بری لگی ہے تو”
مگر مالااٹھی اور اندر کمرے کیطرف بھاگ گئی۔ وہ حیران و پریشان اسے جاتا دیکھتا رہا۔
اگلے دو دن تک مالا اپنے کمرے میں ہی بند رہی۔اسے نہ کھانے کا ہوش تھا نہ پینے کا۔ اسکی امی کئی دفعہ کمرے میں آئیں مگر ہر دفعہ اس سے بات کیے بغیر ہی واپس چلی گئیں۔ وہ اسکی حالت کو دیکھتے ہوئے اسے سنبھلنے کا وقت دینا چاہتی تھیں۔
ان دو دنوں میں جتنا شدت سے مالا نے احمد کو یاد کیا۔ اتنی شدت سے کوئی کسی کو پکارے تو حاضری محبوب پر فرض ہو جاتی ہے ۔ مگر احمد؟ احمد کہاں تھا؟
اچانک مالا کو اس اجنبی فون کال کے بارے میں یاد آ گیا۔
مالا کے دل میں وسوسے سر اٹھانے لگے۔ اسے طرح طرح کے شکوک و شبہات نے گھیر لیا۔ اس لڑکی کو کیسے پتہ تھا اس مالا کے بارے میں؟ وہ لڑکی کون تھی؟ وہ مالا کو کیسے جانتی تھی؟ ہو نہ ہو وہ لڑکی احمد کے بارے میں ضرور کچھ جانتی تھی ۔شاید مالا سے بھی زیادہ۔ جبھی تو اسے احمد کے دیے گئے اس تحفے کے بارے میں بھی معلوم تھا۔
احمد نے تو کبھی اس سے کسی لڑکی کے بارے میں ذکر نہیں کیا تھا۔ وہ اپنے اور مالا کے درمیان کی گئی کسی بات کے بارے میں کسی دوسرے کو کیسے بتا سکتا تھا۔
ان سب سوچوں کے ساتھ ہی مالا کی سوچ نے اپنا پہلا رخ بدلا۔
عشق کے ان گنت رنگوں میں ایک رنگ محبوب پر اعتبار کا بھی ہے۔ محبوب سے شکایت ہونے لگے تو رنگ پھیکے پڑنے لگتے ہیں۔ عشق میں تو بڑی سے بڑی باتوں پر بھی دل بہل جاتا ہے۔ سنبھل جاتا ہے ،خود کو سمجھا لیتا ہے۔ مگر کبھی کبھی ذرا سی چوٹ اتنی گہری دراڑ ڈال دیتی ہے کہ گہرے عکس بھی دھندلا جاتے ہیں ۔شک محبوب کیلیے سب سے مشکل امتحان ہے۔ بہت کم تیراک اس دلدل سے اٹھ کر نکل سکے ہیں۔
مالا پر بھی یہ امتحان آنا تھا۔ سو آ کر رہا۔ احمد کے بغیر نازک سی مالا کیسے لڑ پاتی کسی بھی میدان میں۔ پھر چاہے وہ شک کا اژدھام ہی کیوں نہ ہو
“میں اس دن کیلیے بہت معذرت چاہتی ہوں”
ریسٹورنٹ میں بیٹھتے ہی مالا نے کہا تو اس نے جوابا مسکرا کر دیکھا “کوئی بات نہیں۔ ”
“کیا آپ وجہ جاننا چاہیں گے میرے رویے کی؟ ”
“نہیں ۔ میرے خیال میں ہر انسان مختلف حالات سے گزرتا ہے اور اسکا رویہ ان حالات کا مرہون منت ہوتا ہے۔ہمیں کسی کے ایسے رویے کو نہیں چھیڑنا چاہیے جن لمحات میں اس نے خود کو بے بس اور کمزور محسوس کیا۔. یہی کافی ہے کہ آپ نے خود سے جنگ جیت کر فاتح کیطرح اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے معافی مانگ لی ”
وہ اسی رعب دار آواز میں ٹھہر ٹھہر کر بولتا گیا تو مالا کے پاس جیسے الفاظ کا ذخیرہ ختم ہو گیا۔
تھوڑی دیر ایک سکوت سا طاری رہا۔ ادھر ان دونوں کے درمیان خاموشی کا تبادلہ ہو رہا تھا اور ادھر کاتب کچھ نئے صحفات مرتب کر رہا تھا۔ انکی زندگی کی کہانی انکے بس میں نہیں تھی۔ وہ تو بس مہرے تھے۔ چال تو کوئی اور چل رہا تھا۔ وہی جو ہر شے کا مالک ہے۔ جو ہمیں پوری آزادی دینے کے باوجود ڈور اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے۔ ہم سب اسی کی کٹھ پتلیاں ہیں۔
مالا نے کچھ توقف کے بعد نیچے دیکھتے ہوئے بولنا شروع کیا
“دیکھیں میں آپ سے کوئی بھی جھوٹ نہیں بولنا چاہتی ۔ بے شک بعض سچ مصلحت کے پردے میں ہی اچھے لگتے ہیں مگر اب جب آپ مجھے لے کر کوئی نیا رشتہ بنانا چاہتے ہیں تو میں آپ کو اتنا بتا دینا چاہتی ہوں کہ آپ کو لے کر میرے دل میں کوئی جذبہ نہیں ۔ ”
مالا نے نظریں اٹھائیں تو اسکی نگاہوں کو اپنے چہرے کا طواف کرتے دیکھا۔ وہ زیر لب مسکرا رہا تھا۔
“تو آپ کا کیا خیال ہے کہ میں یہ امید باندھے بیٹھا ہوں کہ جس لڑکی سے میری ایک ملاقات وہ بھی فقط چند ہی منٹ کی ہوئی تھی۔۔۔وہ لڑکی میری محبت میں پور پور ڈوب چکی ہو گی؟ ”
مالا سے اس سوال کا کچھ جواب نہ بن پڑا۔ وہ جز بز سی ہو گئی۔
تبھی اس نے مزید بات جاری رکھتے ہوئے کہا “دیکھیے! میں کوئی بہت شاعر قسم کا آدمی نہیں کہ آپ سے چاند تارے توڑ لانے کا وعدہ کر لوں مگر اگر آپ چلنے پر آمادہ ہوں تو یہ وعدہ ضرور کرتا ہوں کہ آپ کو سمجھنے کی کوشش کروں گا۔ اور خود کو بھی آپ کیلیے سہل بناؤں گا۔ مجھے یقین ہے زندگی ضرور حسین ہو جائے گی۔ ”
مالا نے سر جھکا لیا۔ خاموشی نیم رضامندی ہوتی ہے۔ مگر مالا ڈول رہی تھی۔ دو کشتیوں کے درمیان ۔ اسے کسی ایک کو چننا تھا۔ اس نئے سفر پر چلنے کیلیے پرانے راستوں کو خیر آباد کہنا تھا۔ اور ابھی اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ کوئی فیصلہ کر سکے۔
چلو مالا بیٹا آج بازار چلتے ہیں۔ تمہارا دل بھی بہل جائے گا۔ مالا کی امی یہ کہہ کر مالا کو زبردستی اپنے ساتھ لے گئیں۔
بازار میں گھومتے ہوئے ان کی نظر احمد کی والدہ پر پڑی ۔ انہوں نے بھی مالا کو دیکھ لیا۔ مگر پہچان کا کوئی تاثر نہیں دیا۔ مالا بے اختیار انکی طرف بڑھی۔
“اسلام علیکم آنٹی۔ کیسی ہیں آپ؟ ”
مگر انہوں نے مالا کے سلام کا جواب دینے کے بجائے منہ دوسری طرف کر لیا۔ مالا کچھ نہ سمجھنے والے انداز میں دوبارہ بولی “کیا ہوا آنٹی؟ میں مالا ہوں۔ احمد کی دوست”
احمد کے نام پر احمد کی والدہ نے تڑپ کر مالا کو دیکھا اور غصے سے بولیں “اپنی منحوس زبان سے نام بھی مت لینا میرے بیٹے کا۔ تمھارا برا سایہ میرے بچے کو نگل گیا۔ دور چلی جاؤ میری نظروں سے۔ اور آئندہ بھول کر بھی اپنی شکل مت دکھانا”
مالا اس سب کیلیے بالکل تیار نہیں تھی۔ وہ ایسا کیسے کہہ سکتی تھیں۔ مگر مزید کچھ سمجھنے سے پہلے ہی مالا چکرا کر گرنے لگی تو اسکی والدہ فورا اسکی طرف لپکیں اور اسے سہارا دیا “میری بچی”
مالا کی امی مالا کو سنبھالتی ہوئی اندر لائیں۔ وہ اپنی سیٹ سے اٹھ کھڑا ہوا۔
“ارے آنٹی آپ۔ مجھے کہہ دیا ہوتا میں خود حاضر ہو جاتا”
حیدر نے کہتے ہوئے ان دونوں کیطرف دیکھا تو مالا کو دیکھ کر گھبرا گیا۔ مالا کی امی نے مالا کو بمشکل دونوں کندھوں سے سنبھال رکھا تھا۔ وہ کسی بھی لمحے گر سکتی تھی۔ حیدر فورا آگے بڑھا اور مالا کو سہارا دے کر بیڈ پر لٹا دیا۔
“انہیں کیا ہوا؟ ”
حیدر نے پوچھا تو مالا کی امی نے جواب دیا “بس بیٹا بازار میں خریداری کیلیے گھوم رہے تھے کہ مالا کو چکر آ گیا”
حیدر نے اسکا چیک اپ کیا۔ “خطرے کی کوئی بات نہیں ۔ بس کمزوری ہے۔ انہیں ڈرپ لگوا لیں۔ میں کچھ دوائیں لکھ دیتا ہوں۔ آپ باقاعدگی سے انہیں دے دیں۔ اور کچھ سپلیمنٹ بھی۔ ”
حیدر نے مالا کی امی کو کہا تو وہ جو انتہائی پریشان تھیں تھوڑی پرسکون ہو گئیں۔ انہوں نے جان بوجھ کر حیدر سے اصل بات چھپا لی۔
*** **** **** ***
اس دن کے بعد مالا مزید چپ چاپ رہنے لگی۔ اسکے والدین نے اسکی منگنی کچھ ہی دن میں حیدر کے ساتھ طے کر دی۔ حیدر مالا کو پہلے سے نہیں جانتا تھا اسلیے اسکی خاموشی کو اسکی شخصیت کا حصہ سمجھا۔
مالا نے نہ ہی باقی لڑکیوں کی طرح ہونے والے منگیتر سے کوئی توجہ چاہی نہ ہی اسکے چہرے پر قوسِ قزاح کا کوئی رنگ نظر آتا۔
حیدر خود بھی بہت چنچل طبعیت کا مالک نہیں تھا مگر بہرحال ہر انسان کی طرح نئے رشتے کو لے کر اس کے دل میں بھی کچھ جذبات پنپ اٹھے تھے ۔لیکن انکی آبیاری کرنے کے لیے مالا کی مسکراہٹ ندارد تھی۔
حیدر ایک سلجھا ہوا انسان تھا اور اس نے کبھی غیر ضروری حدود پار کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی تھی۔ مگر وہ مالا کو مزید جاننا چاہتا تھا۔ اس نے شاپنگ کے بہانے مالا کی والدہ سے مالا کو لے جانے کی اجازت چاہی ۔ جو اس بار اسے مل گئی۔
پورا آدھا گھنٹہ انتظار کے بعد مالا دروازے پر نظر آئی تو حیدر کے انتظار کو کچھ قرار آیا۔
حیدر نے فورا فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھول دیا۔ مالا اندر بیٹھ گئی۔ شوقِ دید کا یہ عالم تھا کہ حیدر مالا کو ٹکٹکی باندھے دیکھتا گیا۔ مالا نے اسکی طرف دیکھا اور کندھے اچکائے جیسے پوچھ رہی ہو “کیا ہوا؟ ”
حیدر نے نفی میں سر ہلایا اور مسکراتے ہوئے گاڑی اسٹارٹ کر دی۔
تھوڑا ہی آگے جا کر اس نے آڈیو پلئیر آن کر دیا اور گانے کے ساتھ اسی لے میں سیٹی بجانی شروع کر دی۔
مالا نے حیرت سے اسے دیکھا اور کہا “آپ گا لیتے کیا؟ ”
“کیوں میں نہیں گا سکتا؟ ”
اس نے مسکرا کر پوچھا تو مالا نے بے اختیار کہہ دیا “نہیں میرا مطلب ہے آپ ڈاکٹر ہیں نا تو مجھے لگا سڑے سے ہوں گے”
حیدر نے ایک قہقہہ لگایا اور بولا “کیوں ڈاکٹر انسان نہیں ہوتے کیا؟ ”
مالا شرمندہ سی ہو گئی “نہیں میرا مطلب وہ نہیں تھا”
“تو پھر کیا مطلب تھا” اس نے مالا کو جان بوجھ کر چھیڑا
“وہ میرا مطلب تھا کہ ڈاکٹر اتنا زیادہ پڑھتے ہوں گے تو انکو کیا پتہ ہوتا ہو گا موسیقی وغیرہ کا”
مالا نے اپنے تئیں وضاحت دی۔ حیدر بمشکل مسکراہٹ دبا کر بولا “ارے کسی انسان کی استھیٹک سینس کا اندازہ اسکے پروفیشن سے نہیں لگاتے۔ یوں تو آپ سمجھتی ہوں گی کہ مردہ خانے میں ڈیوٹی دینے والے لوگ زندگی میں کبھی مسکراتے ہی نہیں ہوں گے یا پھر کوئی استاد اگر سخت طبعیت ہے تو کبھی ہنستا نہیں ہو گا۔ ایسا نہیں ہے میڈم۔ اور آپ کی اطلاع کیلیے میں بہت اچھا گا لیتا ہوں۔ کبھی سناؤں گا آپ کو گانا۔ ”
حیدر نے کہا تو مالا چپ ہو گئی ۔ حیدر نے مزید بات سے بات نکالی “آپ کا بھی تو کوئی ٹیلنٹ ہو گا۔ پڑھائی کے علاوہ؟ ”
“جی میں بہت اچھی پینٹنگ بنا لیتی ہوں”
مالا نے کہا تو حیدر متاثر کن آواز میں بولا “پھر تو آپ سے پورٹریٹ بنوانا پڑے گا کسی دن۔ ”
مالا نے صرف سر ہلایا ۔
یونہی باتیں کرتے ہوئے بازار آ گیا۔ حیدر مالا کو کپڑوں کی ایک دکان میں لے گیا۔ اس نے مالا کو جامنی رنگ کا ایک سوٹ لے کر دیا۔ “میں چاہتا ہوں آپ میری طرف سے یہ تحفہ قبول کریں۔ جامنی رنگ آپ پر بہت جچے گا۔ ”
مالا نےشاپنگ بیگ اسکے ہاتھ سے پکڑ لیا اور صرف “شکریہ” بولی۔
حیدر اسے آیسکریم کھلانے پارلر بھی لے کر گیا. مالا کو چپ دیکھ کر حیدر نے اس سے پوچھا “کیا آپ یوں ہی چپ رہتی ہیں یا مجھے دیکھ کر آپ کی باتیں گم ہو جاتی ہیں۔ ”
“نہیں تو۔ بولتی تو ہوں۔ مگر لگتا ہے آپ بہت باتونی ہیں”
مالا نے جواباً کہا تو حیدر نے کہا “نہیں ۔ بالکل نہیں ۔ سچ کہوں تو بہت کم گو واقع ہوا ہوں مگر جب سے آپ سے ملاقات ہوئی ہے منہ کھلا کا کھلا رہ گیا ہے ایسے”
حیدر نے بات ختم کر کے منہ کھول کر دکھایا تو مالا نے دبی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا “اچھا چلیئے دیکھتے ہیں آپ کب تک بولتے ہیں؟ ”
تبھی ایک لمحہ چپ ہو کر حیدر نے سیدھا ہی پوچھ لیا “کیا آپ ہمارے بننے والے رشتے سے ناخوش ہیں؟ اگر ایسی کوئی بھی بات ہے تو یقین مانیے میں بالکل برا نہیں مانوں گا اور سب سے خود بات بھی کر لوں گا”
مالا نےاس بات پر نظر اٹھا کر اسے دیکھا۔ اسکے ذہن میں فورا ایک خیال کوندا۔ اور اس نے حیدر سے فیصلہ کن بات کرنے کا ارادہ کر لیا۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...