’خیال مرحوم خط لکھنے کے شوقین تھے۔ سفر ہو یا قیام۔۔ ۔ یا علالت، ہر حال میں اپنے دوستوں، ملنے والوں، عزیزوں کے خطوں کا جواب بہت جلد اور بڑے خلوص سے دیا کرتے تھے۔ خط کا جواب نہ دینا وہ ایک طرح کا اخلاقی جرم سمجھتے تھے۔ ان خطوں میں بھی وہ انشا پردازی کا کمال دکھاتے۔ مناسب اور مختصر القاب، نپے تلے الفاظ، فقروں میں اختصار اور زبان کا لطف۔ یہ تمام خصوصیتیں ان کے خطوط میں ہوتیں۔ ان کے علاوہ خوشخطی کا بہ طور خاص لحاظ رکھتے۔ خطوط عموماً نفیس اور صاف ستھرے کاغذ پر لکھے جاتے۔ حروف ایسے نستعلیق ہوتے کہ معمولی پڑھا لکھا بھی سہولت سے پڑھ لیتا۔‘ (یہ فسانہ زلف دراز کا، 42)
خیال نے بھی لکھا ہے کہ وہ عموماً اپنی علالت کے با وجود خطوں کے جواب دیا کرتے تھے اور اپنے احباب و متعلقین کو خط لکھنے کی تاکید بھی کرتے تھے۔ محمد مسلم عظیم آبادی کو لکھے مکتوب مؤرخہ 29 جنوری 1920ء میں ان کے الفاظ ہیں کہ آپ میری عادت سے باخبر ہیں کہ جس حالت میں ہوں جواب خط ضرور دے دیتا ہوں۔ ’اصلاح‘(سیوان)، ’صدائے عام‘ (پٹنہ)، ’ندیم‘ (گیا)، ’نقوش‘ (لاہور)، ’نیرنگ خیال‘ (لاہور)، ’جادو‘ (ڈھاکہ)، ’ادب‘ (لکھنؤ) میں ان کے بعض خطوط شائع ہو چکے ہیں۔ نقی احمد ارشاد نے بھی چند اہم خطوط اپنی کتاب میں شامل کیے ہیں۔ کچھ خطوط جلیل قدوائی نے بھی شائع کیے ہیں۔ حمید عظیم آبادی کے نام لکھے ان کے زیادہ تر خطوط، بقول نقی احمد ارشاد، ’جام جم‘(سکھر، پاکستان)اور ’ندیم‘ میں شائع ہوئے۔ شاد کے نام بھی بے شمار مکاتیب لکھے گئے تھے لیکن سوا ایک کے سب ضائع ہو گئے۔ ان میں سے جتنے بھی خطوط موجود ہیں ان کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ خیال اردو سے بے لوث محبت کرتے تھے، ان کے یہاں تحقیق و تفتیش کا مادہ موجود تھا، اور وہ ہمیشہ علمی سرگرمیوں میں ہی مصروف رہے۔ کسی بھی شخص کا معاملہ ہو یا کوئی بھی علمی یا ادبی مسئلہ، انھوں نے سنی سنائی باتوں اور غیر مصدقہ روایتوں پہ کم ہی یقین کیا۔ ان کے خطوط میں سیاسی معاملات کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ ان میں خیال کی لسانی و ادبی دلچسپیوں کے مرقعے موجود ہیں۔ زیادہ تر مکتوبات کا تعلق ادبی موضوعات سے ہے جن میں یا تو استفسارات کا جواب دیا گیا ہے، یا استفسارات ہیں، یا غلط فہمیوں کا ازالہ ہے۔ چند خطوط ایسے ہیں جن میں خیال نے اپنے ادبی عزائم کا اظہار کرتے ہوئے مکتوب الیہ کو اپنا ہمنوا بنانے کی کوشش کی ہے۔ کچھ خطوط معاصرین کے بارے میں خیال کی بے لاگ رایوں کو پیش کرتے ہیں۔ ان میں متعلقہ عہد کے معاشرتی، ادبی، تاریخی اور مذہبی معاملات کا امتزاج ملتا ہے، اور کچھ ذاتی نوعیت کے ہیں جن میں خانگی حالات کی تصویر کشی، مالی مشکلات کا ذکر یا مالی تعاون کی فکر، گرتی ہوئی صحت، زمانہ کی ناقدریوں کا شکوہ موجود ہے۔ وہیں ابتدائی زمانوں کے خطوط میں معاشرتی اصلاح کے لئے فکرمند نظر آتے ہیں۔ ان خطوط میں چند ایسے ہیں جن کی اشاعت ’اصلاح‘ میں ہوئی تھی۔
نومبر 1901ء کے مکتوب بنام مدیر ’اصلاح‘ میں لکھتے ہیں کہ:
’میں نے نہایت افسوس کے ساتھ سنا کہ آپ نے زندہ در گور قوم کی بدولت کیا زحمتیں اٹھائیں اور رسالہ کے اخراجات اور خصوصاً کمبخت باقیات کے ہاتھوں کتنا آپ زیر بار ہوئے! اور نیز اشاعت رسالہ کے لئے کافی رقم آپ کو اب تک نہیں ملتی! اس روز سے مجھے عجب طرح کا خلجان ہے اور اسی ادھیڑ بن میں ہوں کہ کسی طرح اس رسالہ کو فروغ اور موجودہ زحمتوں سے نجات ہو۔۔ ۔ میں کہہ سکتا ہوں کہ ’اصلاح‘ کا ماہواری خرچ ہر گز تیس روپے سے زیادہ نہیں ہے۔ پھر کیا یہ نالائق قوم اب اس قابل بھی نہ رہی کہ چند آدمی مل کر بھی اس خرچ کو اپنے ذمہ کر لیں؟ اور رسالہ بہ آب و تاب بغیر کسی خرخشے کے شائع ہوا کرے۔ تیس روپے ماہواری کا خرچ میں نے جو انداز کیا ہے غالباً ٹھیک ہو گا۔ ایسی حالت میں اگر کل ۵۱ آدمی ایسے چنے جائیں جو صرف دو دو روپیہ ماہوار دے سکیں تو ہمارے خیال میں نہایت آسانی کے ساتھ رسالہ شائع ہو سکتا ہے۔ اور یہ فاضل جو رقم آئے وہ اڈیٹر کا حق ہو سکتی ہے اور وہ جان دے کر کوشش بھی کر سکتا ہے۔۔ ۔ میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ دو روپیہ ماہواری اس مفید کام کے لئے میں خود دوں گا اور ایک اپنا ہی سا آدمی اور بھی حاضر کر دوں گا۔ اب آپ کو کل ۳۱ آدمیوں کی فکر کرنی ہو گی جو میرے خیال میں نا ممکن نہیں ہے۔ دو روپیہ مہینہ ایسی رقم نہیں کہ کوئی صاحب استطاعت مکث کر سکے۔ اگر یہ میری رائے پسند ہو تو فکر کیجیے اور کامیابی کی کوشش فرمائیے۔‘ (قابل قدر خط 1319ھ مطابق 1901ء، 180-81)
’اصلاح‘ میں ہی ان کے مضمون ’نا مہذب خیرات‘ کی اشاعت کے رد عمل میں چند تحریریں شائع ہوئی تھیں۔ ان میں خیال کے خلاف تلخ لہجے استعمال کیے گئے تھے۔ وہ فروری 1902ء میں رسالے کے مدیر کو لکھتے ہیں کہ کسے امید تھی کہ یہ مدت کا بند پانی حرکت کر کے آپ سے آپ چورس ہونے کی فکر کرے گا اور اپنی راہ نکال لینے پر آمادہ ہو گا! گو بہت سے بد عقیدہ اب تک اسے سراب ہی خیال کریں تو کریں لیکن میں تو اسے پانی ہی جانتا اور اسے ’آب کُر‘ سے تشبیہ دے کر اپنی پیاسی شہید قوم کے لاشہ کو اس میں شست و شو کی تاکید کرنے والوں میں ہوں:
’شکر ہے پانی تو بہہ نکلا، گو ٹیڑھی راہ چلا۔ اب ’اصلاح‘ کا کام ہے اسے سیدھی راہ چلانا اور مصفا کر کے اس ’آب کر‘ کو ایسا کر دکھانا کہ علم آب کے ماہرین بھی صاف بول اٹھیں کہ یہ آلائشوں سے پاک مصفا نتھرا ہوا پانی ہے۔ خوردبین بھی عاجز آ جائیں اور ڈھونڈے کوئی کیڑا نہ پا سکیں۔ ہاں، اس وقت ہم پھولوں نہ سمائیں اور ایسے ’آب کر‘ کو چشمۂ کوثر پر بھی ترجیح دے دیں۔ اور تعجب ہمارا تو روشن ہے! ایک مجھ پر کیا، جس جس روشن فطرت نے اس مضمون عالی کو پڑھا ہو گا اور خصوصاً جبکہ عالی مضمون کے مقدس مضمون نگار کا اسم مبارک دیکھا ہو گا تو کچھ دیر ہی کو سہی تعجب تو ضرور ہو گیا ہو گا اور پہلی نظر میں تو اسے یقین نہ آیا ہو گا کہ کسی مولوی صاحب کے قلم مقدس سے یہ مضمون ٹپکا ہے! وہ جو کچھ ہوا اور جیسا کچھ ہو میری خوشی اور تعجب دونوں ہی حق بجانب ہے۔ میرے مضمون پر جھلا جھلا کر گو متعدد اعتراض فرمائے گئے ہیں اور بے حد رنجشیں ظاہر کی گئی ہیں حتی کہ چھپے پردے میں کافر تک بنایا گیا اور گویا چراغ پھونک کر میں گھورا گیا ہوں۔ لیکن میں ان سب باتوں کو فال نیک جانتا اور بہت خوش ہوتا ہوں!‘ (مکتوب سلاست اسلوب 1320ھ مطابق 1902ء، 291-92)
بعد ازاں فرماتے ہیں کہ ان کے مضمون کا ماحصل صرف اس قدر تھا اور ہے کہ یہ خیراتیں جو اس قدر بے ترتیب اور نا مہذبی کے ساتھ دی جاتی ہیں وہ بند کر دی جائیں اور ایسا ایک اعلی اصول قائم ہو کہ جس کی بنا پر قوم کو فی الحقیقت جس کی ضرورت ہے اور جس چیز کی وہ مستحق ہے، وہ چیز اس کے لئے فراہم کر کے ذلت قومی دور کی جائے، نہ کہ گداگروں کی فوج کھڑی کی جائے۔
مدرسہ مشارع الشرائع، لکھنؤ (تاسیس 20 فروری 1890ء) کے سکریٹری حکیم سید فضل علی کے نام 24 دسمبر 1903ء کے ایک خط (1904، 7-8) میں خیال نے مدرسہ کے نظم و نسق کے سلسلے میں سولہ استفسارات کیے تھے۔ ان میں یہ سوالات بھی تھے کہ سنی طلبہ بھی مدرسہ میں پڑھتے ہیں یا نہیں یا وہ خود نہیں آتے؟ اس قسم کی اجازت مدرسہ میں ہے یا نہیں؟ مدرسہ کے طلبہ عربی اور مذہبی زبان کے ساتھ انگریزی زبان کی تعلیم حاصل کرنے کا کوئی طریقہ سیکھتے ہیں یا نہیں؟ کوئی طریقہ ایسا ہے کہ نہیں کہ جو طلبہ فاضل ہو کر نکلیں وہ تکمیل علوم کے لئے یا زبان حاصل کرنے کی غرض سے حجاز و عراق وظیفے پا کر جا سکیں؟
ابتدائی زمانوں کے خطوط سے دو ایسے اقتباسات ملاحظہ کیجیے جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اوائل عمری سے ہی خیال ہندوستانی مسلمانوں کے لیے کس طرح فکر مند رہا کرتے تھے۔
’ایسی قومیں کس طرح زندہ رہ سکتی ہیں اور اس مقابلہ کی دنیا میں زندہ رہنے کا انھیں کیا حق حاصل ہے؟ مجلسیں کیجیے، خوب کانفرنسیں کیجیے، حاصل؟ قوم کی ذہنیت جب تک نہ بدلے، بہ رب کعبہ، نہ کچھ ہوا ہے اور نہ آگے کبھی کچھ ہو گا۔ مسلمانوں اور خصوصاً شیعوں کو مرنا ہے اور وہ مریں گے۔ ہم کو صرف اپنے اشتہار سے غرض ہے اور یہ مجلسیں اور کانفرنسیں ہمارے لئے کھلے ہوئے اور بہترین بزار ہیں جہاں اپنے تصنیف کردہ قصائد پڑھے جائیں اور داد لی جائے، اور بس!‘ (مقالات و مکتوبات نصیر حسین خیال، 231)
’جہالت بھی کام کی چیز ہے۔ اس سے رواج مذہب قائم رہتا، اور یہ دلوں کو ایک گونہ سکون میں رکھتا اور خیالی خوشیوں میں انسان مست رہتا اور عورت نما مردوں اور نابالغ دماغوں میں خوش نام ہوتا اور بڑا مذہبی آدمی سمجھا جاتا ہے۔ اس لئے جب تک کافی مطالعہ کا وقت نہ ہو ان چیزوں کو بھول کر اپنا ظاہری ٹھاٹ قائم رکھنا چاہیے۔ ساکھ بندھی رہے اور جہلا میں خوش نامی کا یہی (دیمک خوردہ) اپنے دل کو خوش رکھنے کا یہی ایک مزیدار نسخہ ہے۔۔ ۔ اسلام اور مسلمانوں کی تباہی کا باعث قرآن کی تفسیریں ہیں اور اہل اسلام کی تاریخیں۔ ان دونوں کی زیادہ تر بنیاد روایتوں پر ہے، اور روایتیں مشتبہ۔ اس لئے یہ دونوں چیزیں ایسی نہ رہیں کہ ایک معقول آدمی بے چون و چرا انھیں قبول کر لے۔۔ ۔۔ یاد رکھیے، قرآن کریم اس کے قبل کی کتابوں کو سمجھے اور مختلف تاریخوں پر نظر کیے بغیر آسانی سے سمجھ میں نہیں آ سکتا۔ عموماً مفسرین اگلی کتابوں سے بے خبر، قدیم تاریخ دنیا سے نا بلد، محاورات حجاز اور خصوصاً لب و لہجۂ خاندان ہاشم و مطّلب سے لا علم، پھر ان غیر عرب مفسرین و مترجمین کا کیا بھروسا جو ترکستان و توران میں بیٹھ کر تیسری صدی ہجری میں اس وقت کلام الٰہی کے سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش فرماتے ہیں جب کہ حجاز بٹ چکا، زبان حجاز بدل چکی اور خاندان رسالت محو ہو چکا تھا۔‘ (248)
مجتبیٰ حسین کو ایک خط میں یوں سمجھاتے ہیں:
’دوسرے کیا کرتے ہیں ان کی تقلید ہمارے لئے ضروری نہیں۔ ہم کو صرف یہ دیکھنا ہے اور ایمانداری سے یہ طے کرنا ہے کہ اس معاملہ میں ہمارا کیا کام، یعنی ہمارا کیا فرض ہے۔ اس طرح ہر ایسے شخص کو جو ان معاملات میں اقدام کرنا چاہتا، یا اقدام کر چکا ہو، ایمانداری کے ساتھ جانچنا بھی ہمارا فرض ہے کہ اس کلام و بیان کا وہ واقعی اہل بھی ہے یا نہیں؟ ہم نے اس معاملہ میں تساہل سے کام لیا تو سامعین کی بربادی کے ہم باعث و ذمہ دار ہیں۔ اور اس کی سزا ہو گی اور ضرور۔‘ (248)
علی گڑھ کالج کے کلبوں میں رسم پردہ سے متعلق ہونے والی بحثوں سے متعلق اصلاح میں شائع مولوی سید حیدر حسین کے ایک مضمون کے رد عمل میں ان کے نام لکھے خط میں انھوں نے علی گڑھ کالج اور محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس وغیرہ کے سلسلے میں اس زمانے کے تعلیمیافتہ مسلمانوں کے درمیان کی فرقہ بندیوں اور اسی سے وابستہ شیعہ سنی تنازعات کی جس سخت لہجے میں مخالفت کی ہے وہ ان کی کشادہ ذہنی اور دور رسی کا واضح ثبوت ہے۔
’علی گڑھ کالج اس بڑے انسٹی ٹیوشن کا نام ہے جسے ملک و قوم کی متفقہ کوشش نے قائم کر کے اس درجہ تک لا پہنچایا ہے اور اس لئے ہر فرد قوم پر اس کی اصلاح و نگرانی فرض عینی ہے۔ علی گڑھ پارٹی صرف اس جماعت کا نام ہے جو ایسے واجب القدر انسٹی ٹیوشن کی ہمدرد و ترقی خواہ ہے۔ محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس وہ بڑی جماعت مسلمانوں کی ہے جو ہر سال ملک کے ایک حصہ میں اپنی نشست کر کے مسلمانوں کے تعلیمی مسئلوں پر غور کرتی اور بعد بحث و مباحثہ کسی امر کو اختیار کرنے پر متوجہ ہوتی ہے۔ یہ کچھ ضرور نہیں کہ خاص کالج میں جو امور قرار پا جائیں، علی گڑھ پارٹی بھی اسے خواہ مخواہ قبول کر لے یا ان امور کی ذمہ دار قرار دی جائے۔ اسی طرح یہ بھی ضرور نہیں کہ محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کی ہر رائے علی گڑھ کالج یا علی گڑھ پارٹی کے سر تھوپی جائے بلکہ یہ تینوں تین الگ چیزیں ہیں اور ایک کا ذمہ دار دوسرے کو ٹھیرانا نا واقفیت یا انصاف سے الگ جانا ہے۔
اس زمانہ میں بھی ایسے بہت سے لوگ ہیں گو ان کی تعداد روز بروز کم ہوتی جاتی ہے جو علی گڑھ کالج سے خواہ مخواہ بغض و عداوت رکھتے اور صرف اپنی شہرت و ناموری اور کاغذی دنیا میں نام نکالنے کی غرض سے اختلاف کی جگہ مخالفت پر آستین چڑھائے ہوئے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو خدا کی نعمتوں کے شکریہ سے درگذر کر کے کفران نعمت کرتے اور مذہب کو بیچ میں آڑ رکھ کر خود غرضی کا شکار کھیلتے اور اس اسلوب سے اپنی قوم کو رسوا اور خلق میں بدنام کیا کرتے ہیں۔‘ (نمیقۂ دوستانہ بنام مولوی سید حیدر حسین 1322ھ مطابق 1903ء، 26-27)
انھوں نے لکھا ہے کہ علی گڑھ کالج ایسا قابل قدر انسٹی ٹیوشن ہے جس نے مسلمانوں کو اتنے فائدے بخشے ہیں جس کے مقابلہ میں ہندوستان کی کسی ایک چیز نے بھی اب تک نہیں بخشے اور اس وجہ سے وہ اس قابل ہے کہ ہم اس کی تائید پر کمربستہ ہوں نہ کہ مخالفت کرتے رہیں۔ کون سی چیز دنیا کی ایسی ہے جو معیوب نہیں اور جس میں اصلاح کی گنجائش نہیں۔ انسانوں کی بنائی ہوئی ہر شے کمزور ہوا ہی کرتی ہے لیکن اس کے درست کرنے والے بھی انسان ہی ہوا کرتے ہیں جو ایک زمانہ میں جا کر اپنی متفقہ کوشش سے اصلاح پذیر امروں کو درست کر لیتے ہیں۔ وہ اپنے فرقہ کے ان اصحاب کو جو علی گڑھ سے بدظن ہو چکے تھے یا ہونے لگے تھے، ان الفاظ میں سمجھاتے ہیں:
’علی گڑھ کالج بھی خاطیوں کا بنایا ہوا ہے اور اس لئے بہت سی خطائیں اس کی واضح اور روشن ہیں مگر وہ امور اصلاح طلب ہیں اور جن کی اصلاحیں ہمارے ہی ہاتھوں میں ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ٹھنڈے دلوں سے ان پر غور کریں اور قابل اصلاح امور بغیر طعنہ و تشنیع کے پیش کریں۔
کچھ دن پہلے بیشک ہمارے فرقہ نے بھی ایک خاص حصہ اس کالج میں لیا تھا لیکن محسن الملک کے سکریٹری ہوتے وہ خیال اس کا بدل گیا۔ بیشک محسن الملک اگر صرف سنی المذہب ہوتے تو ہمیں بہت زیادہ اختلاف کی وجہ نہ تھی۔ لیکن ’آیات بینات‘کے مصنف سے ہمیں ایک خاص وجہ اختلاف کی ہے۔ میں اسے مانتا اور میں اسی خیال کا ایک فرد ہوں۔ مگر سمجھنا چاہیے کہ ذاتیات اور چیزیں ہیں اور قوم کی خدمات کچھ اور ہی ہیں۔ محسن الملک سے اختلاف بحیثیت مصنف ’آیات بینات‘ اور شے ہے اور بحیثیت سکریٹری کالج اختلاف شے دیگر! دیکھنا اور غور کرنا چاہیے کہ ’وہ کافر سہی بلکہ اکفر ‘لیکن جو نظام اس کے سپرد کیا گیا اسے اس نے کس طرح برتا اور اس میں تعصب مذہبی کی بو بھی پائی گئی یا نہیں؟ ان امور پر غور کرنے کے بعد اختلاف کیا جائے تو سر آنکھوں پر۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ بفرض محال اس نے خیانت بھی کی تو خواہ مخواہ ہم اپنی ’چیز‘ سے درگذر کیوں کریں اور اسے سرے سے چھوڑ دینے پر آمادہ کیوں ہو جائیں۔ اگر ایک مختار ہماری جائداد کا خازن ٹھہر جائے تو اس کے معنی یہ نہیں کہ اس مختار کی عداوت میں ہم اپنی جائداد سے ہاتھ دھو بیٹھیں، اور چن چن کر اسی میں عیب نکالیں۔ (28-29)
خیال کے قیام حیدرآباد کے زمانہ میں مولانا شروانی سرکار آصفیہ میں صدر الصدور تھے۔ پہلے مکتوب کی اشاعت مئی 1925ء میں ہوئی تھی۔ اس مکتوب کے ساتھ مدیر کا ایک نوٹ بھی شامل ہے۔ اس سے بھی اپنے عصر میں خیال کی قدر و قیمت اور ان کے مرتبے کا علم ہوتا ہے۔ اس مکتوب سے ہی اس شمارہ کی ابتدا بھی ہوتی ہے۔ اس کا ابتدائی حصہ ملاحظہ فرمائیں۔
’جادو، ڈھاکہ بابت ماہ مئی سنہ 1925ء۔ نمبر ۷ جلد ۳۔
نواب نصیر حسین خیال کا خط نواب صدر یار جنگ کے نام
فقید الامثال نواب خیال پر جادو کی سحر کاری آخر موثر ہوئی اور اب جادو کے برحق ہونے پر جو شبہ کرے وہ کافر۔‘ (نواب نصیر حسین خیال کا خط نواب صدر یار جنگ کے نام، 1)
مدیر نے مزید لکھا ہے کہ’ انجمن اردو کی طرف سے میر حسن اور میر تقی کے نایاب تذکرہ شعرائے ریختہ شائع ہوئے اور دونوں پر صاحب السیف و القلم علامہ شروانی نے فرصت نکال کر مقدمہ تحریر فرمایا۔ …‘ خیال نے اس مقدمہ کے ایک بیان پر یہ مکتوب لکھا تھا جو ’جادو‘ کے اٹھارہ صفحوں پہ محیط ہے۔ پھر اسی رسالہ میں اگست 1925ء کے شمارہ میں نواب صدر یار جنگ کا مکتوب چھ صفحوں پہ شائع کیا گیا۔ اس کا عنوان ہے: ’کھلی چٹھی کا جواب: خدمت شریف جناب نصیر حسین خان صاحب خیال‘۔ اس کے بعد اکتوبر کے شمارے میں بھی خیال کا ایک طویل مکتوب شامل اشاعت ہے۔ در اصل میر انیس کے اس دعویٰ، پانچویں پشت ہے شبیر کی مداحی میں … کی مخالفت، اور ان کے خاندان کی ادبی روایتوں کے سلسلے میں اس مقدمہ میں جو بیانات رقم کیے گئے تھے، خیال نے ان کی گرفت کی ہے۔ ’جادو‘ میں شائع خطوط باضابطہ مضامین کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان مکتوبات میں پیش کی گئیں خیال کی آرا در اصل وہی بنیادی نکات ہیں جنھیں وہ بار بار اپنی تحریروں اور تقریروں میں پیش کرتے رہے ہیں۔ انھوں نے مستحکم تاریخی اور خاندانی روایتوں کی روشنی میں ہمیشہ ہی انیس کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف کیا ہے۔ مضامین ’حالات انیس‘ اور ’فردوسی اور انیس‘ بھی اس کی مثالیں ہیں۔ متذکرہ مکاتیب میں انھوں نے جس نکتہ کی وضاحت کی ہے وہ چند برسوں کے بعد ان کے مضمون ’ہماری شاعری‘ میں بھی موضوع بحث بنا ہے۔ فرماتے ہیں کہ
’انیس کے پردادا میر ضاحک سے مرثیہ گوئی کا آغاز ہوا۔ پھر ان کے صاحبزادے میر حسن نے مرثیے کہے۔ میر خلیق کی مرثیہ گوئی محتاج بیان نہیں۔ اس خاندان میں میر انیس وہ چوتھے بزرگوار ہیں جنھوں نے مرثیہ کے ذریعے سے اخلاق کا درس دیا۔ اس پر وہ فخر کرتے اور اپنے ایک صاحبزادے میر عسکری رئیس کی زبان سے فرماتے ہیں:
عمر گزری ہے اسی دشت کی سیاحی میں
پانچویں پشت ہے شبیر کی مداحی میں
رئیس اس دشت کے پانچویں سیاح ہیں۔ عمر گزری ہے، اس سے مراد خاندان کی عمر ہے نہ کہ کسی ایک فرد کی۔ یعنی اس مداحی میں ہمارے خانوادے کی عمریں صرف ہو گئیں۔‘ (ہماری شاعری، 28)
18 مئی، 1931ء کے مکتوب بنام پروفیسر سید مسعود حسن رضوی ادیب میں بھی اس خط کا ذکر ملتا ہے جس سے خیال کے پیش کردہ استدلال کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔
’جادو کے وہ نمبر جن میں مصرع پشت کے متعلق بحث ہے، حسب فرمائش بھیجتا ہوں۔ اس سلسلے کا پہلا خط ملاحظہ کر کے دوسرا ملاحظہ کیا جائے۔ افسوس کہ شروانی صاحب کا جواب یہاں موجود نہیں۔ اسے دیکھے بغیر جواب الجواب کے ملاحظہ میں مزہ نہ آئے گا۔ مگر خیر، ان کے خط کے بعض اقتباسات کچھ مدد دیں گے۔ شروانی صاحب نے طول کلام کے علاوہ چونکہ اپنے جواب میں شوخیِ تحریر سے کام لیا تھا اس لئے جواب الجواب میں ان کے لب و لہجہ کی تقلید کی گئی تا کہ ان پر روشن ہو جائے کہ دوسروں کو بھی بولنا اور منہ چڑانا نہیں بلکہ کچھ آنا آتا ہے۔‘ (نصیر حسین خاں خیال کے خطوط 1957، 477)
اس مکتوب میں خیال نے مرثیہ گوئی کے ضمن میں میر انیس اور ان کے خاندان کے اصحاب فن کی خدمات کی تفصیل پیش کرتے ہوئے مولانا حبیب الرحمن شروانی کے بیان کو غلط ثابت کیا ہے۔ پروفیسر ادیب کے نام لکھے خط میں متعلقہ مکتوب کے رد عمل میں مولانا شروانی کے مکتوب اور پھر اس کے جواب میں خیال کے مکتوب کا ذکر بھی ہے۔ یہ ایک ایسا موضوع تھا جس پر اظہار خیال کے لئے خیال خود کو سب سے معتبر مانتے تھے۔ اس مکتوب میں دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ خیال اپنی زبان سے بھی متنوع اسلوب نگارش پہ اپنی قدرت کا اقرار کر رہے ہیں۔ ان مکتوبات کا حوالہ سید آغا اشہر لکھنوی کے نام لکھے خیال کے مراسلوں میں بھی موجود ہے۔ شاد کے نام ایک خط میں خیال نے صنف مرثیہ کی اہمیت اور انیس کی عظمت کے ذکر کے دوران لکھا تھا کہ
’شاعری کی جتنی قسمیں کی جائیں اور اس پر جو کچھ لکھا جائے وہ واردات قلبی و جذبات اصلی کے تحت میں ہو گا۔ یہ واردات و جذبات مختلف طرق و اسباب سے ایک اہم نتیجہ بن کر قلب انسان پر وارد ہوتے ہیں۔ یہ نتائج اگر کسی عشق (یعنی توجۂ قلبی)کے ذریعہ پیدا ہوئے تو خالص ہیں، اور یہی خلوص معشوق کو حاضر و ناظر کر دیتا ہے اور عاشق اس سے ہم کلامی کا شرف تک حاصل کرنے لگتا ہے۔ ایسے خالص عشق کا بہترین نمونہ رِگ وید ہیں، پھر حضرت موسیؑ کی اول سے آخر تک کی زندگی، حضرت عیسیؑ کے متعدد واقعات و واردات، اور پھر حضرت محمد رسول اللہؐ کے غار حرا سے لے کر رحلت تک سلسلہ وار حالات و مشاہدات، اور قرآن کریم کے شاعرانہ یعنی فطری و اصلی ارشادات۔
حسین ابن علیؓ اصل اسی عشق کے متعلم اور بعد کو معلم ثابت ہوئے۔ ان کا معشوق بھی موسیؑ و عیسیؑ اور محمد رسول اللہؐ کا معشوق تھا، اور ان کے آگے ہمیشہ حاضر و ناظر رہا۔ اس خلوص کے وہ نتائج تھے جو کربلا کی جنگ میں ظاہر ہوئے، اور پھر واردات قلب اور جذبۂ صحیح، جو شاعری کی جان ہیں، کا انکشاف و اظہار ہونے لگا۔ کسی ہیرو، محبوب اور ممدوح کے ذکر خیر میں سے اگر یہ واردات و جذبات نکال دیے جائیں تو وہ نظم ہو یا نثر ہو، شاعری سے معریٰ و اَن نیچرل (غیر فطری) ہو گی اور اس لئے مہمل سمجھی جائے گی۔
انیس نے اس نکتہ کو سمجھا اور اپنے ہیرو کے بیان و ذکر میں سب سے زیادہ زور اسی پر دیا اور اصل شاعری کے مفہوم و مطلب کو عیاں کر دیا۔ شاعری کی یہ وہ معراج ہے جو دنیا کی کسی اور نظم میں خاطر خواہ طور پر نظر نہیں آتی۔ اور اس لئے، انیس کا مقابلہ کسی شاعر سے درست نہیں۔ اور یہی وہ شاعری ہے جسے جناب نے مقدس (یعنی اصلی و فطری) شاعری کا صحیح لقب دیا ہے۔‘ (ارشاد 1981، 188-89)
محمد مسلم عظیم آبادی کے نام ایک مکتوب میں خیال نے راسخ کے سلسلے میں بعض اہم امور کی جانب نشاندہی کی ہے۔ مکتوب مورخہ 12 مئی 1919ء میں فرماتے ہیں:
’آپ کی محبت کی وہ یادگار (راسخ عظیم آبادی، مطبوعہ الناظر، لکھنؤ) ملی۔ ممنون ہوا۔ مضمون دل لگا کر پڑھا۔ حق یہ ہے کہ آپ نے اردو پر، مذاق صحیح پر، پھر اپنے صوبہ و شہر پر احسان کیا ہے۔ میں آپ سے متفق ہوں کہ راسخ کا درجہ میر سے کم نہیں، بلکہ بعض اعتبار سے کچھ بڑھا ہوا ہے، اور اس ضمن میں آپ نے جو کچھ تحریر کیا ہے وہ ہرگز طرفداری و مبالغہ نہیں ہے۔ تمہید میں جو کچھ آپ کے جلے دل سے نکلا اسے بھی ایک حد تک جائز سمجھتا ہوں۔ لیکن آزاد یا کسی اور کے متعلق آپ کے سے اہل علم کے قلم کا اتنا بے قابو ہو جانا درست نہیں۔ بلا شبہ آزاد نے سہل انگاری سے کام لیا اور اس پر ایراد ضروری تھی۔ مگر آپ (معاف کریں) ضرورت سے زیادہ دوڑ گئے ہیں۔‘ (نصیر حسین خاں خیال کے خطوط 1957، 472)
یہاں ایک دلچسپ اور کار آمد بحث بھی چھیڑی گئی ہے جس کی کڑی ’جادو‘ میں شائع مکتوب سے جڑی ہے۔ ان دونوں مکتوبات میں انھوں نے جس طرح انیس اور راسخ کی شاعرانہ عظمت کا بیان کیا ہے وہ ادب و ثقافت پر ان کی گہری نظر ہی نہیں، ان کے تنقیدی شعور کا آئینہ دار بھی ہے۔ اس مکتوب میں بھی انھوں نے اپنے محبوب موضوع کی روشنی میں ان خیالات کو پیش کیا ہے جو بعد میں تفصیل کے ساتھ ’مغل اور اردو‘ میں منظر عام پر آئے۔ عظیم آباد کی لسانی و ادبی رفعتوں کے بیان کے ساتھ مختلف مراکز میں اردو کے اردو بننے کا ذکر بھی موجود ہے۔
’غرض راسخ کے ذکر میں عظیم آباد کی زبان کا ذکر بھی ضروری ہے۔ … سعادت علی خان کے وقت تک وہاں (لکھنؤ)کی زبان وہی تھی جو کاکوری، موہان، بہرائچ اور محمود آباد میں رائج ہے۔ عمدۃ الملکی مکتب کا اثر فیض آباد پر پڑا۔ اس لیئے کہ انجام کے بعد صفدر جنگی و سالار جنگی اردو کے اسکول اور دفتر کو(بوجہ دوستی عمد ۃ الملک)فیض آباد اٹھا لائے۔ شاہ حاتم وغیرہ دلی میں عمدۃ الملک کے ملازم اور اردو کے دفتر میں کلرک تھے۔ ان پر زبان کا اثر پڑتا رہا۔ اور اس وجہ سے ان کے شاگردوں کی زبان بھی درست ہوئی۔ اس دفتر کے لوگوں میں میر ضاحک، اور آتش کے چچا اور ماموں صفدر جنگیوں کے ساتھ فیض آباد آئے اور اردو کا دفتر اب وہاں قائم ہو گیا۔ میر حسن (صاحب مثنوی)نے اسی دفتر اور نوابان فیض آباد کے محلوں میں پرورش پائی۔ میر خلیق وہیں پلے۔ میر انیس کی خالہ گھسیٹی بیگم نواب بہو بیگم صاحبہ کی مصاحب تھیں، اور میر انیس اسی محل میں بڑے ہوئے۔ اتنے اتار چڑھاؤ کے بعد انیس کی زبان ایسی ہوئی ہے، اور اسے نوٹ کر لیجیے کہ انیس کے قبل تک لکھنؤ کی زبان وہی تھی جو ناسخ و دبیر کے ہاں مستعمل ہے۔ یہ انیس کے گھر اور عمدۃ الملکی اسکول کا صدقہ تھا کہ لکھنؤ کی زبان اس پایہ کو پہنچ گئی۔
عظیم آباد پر لکھنؤ کی زبان کا کوئی معتد بہ اثر کبھی نہیں پڑا۔ وہاں کے بعض شعرا مصحفی کے البتہ شاگرد ہوئے، اور آپ کے ہاں کے اکثر شعرا نے اپنے شاگردوں کو ناسخ وغیرہ کے مقابلے کے لئے تیار کیا اور وہاں بھیجا ہے یعنی اس وقت تک لکھنؤ کی شاعری و زبان عظیم آبادیوں کے لئے سند نہ تھی۔‘ (474-75)
’نقوش‘ میں برسوں قبل یہ خط مکاتیب نمبر اور پھر ادب عالیہ نمبر میں بھی شائع ہوا تھا۔ مکاتیب نمبر میں خیال کے دس خطوط شامل ہیں۔ ان میں سے چار کے علاوہ سبھی علمی و ادبی موضوعات پر لکھے گئے ہیں۔ ارشاد نے جو خطوط اپنی کتاب میں شامل کیے ہیں وہ ذاتی بھی ہیں اور ادبی بھی۔ ’ندیم‘ نے بھی خیال کے علمی و ادبی مذاق کا خیال رکھا ہے۔ خیال کے خطوط سے ان کی ادبی سرگرمیوں، اور شوق و جستجو کی ایک اور مثال ملاحظہ کیجیے:
’میں مرثیہ گویان ہند کا ایک تذکرہ مرتب کرنے کی فکر و کوشش کر رہا ہوں۔ چونکہ جناب غفران مآب مولوی سید فرزند احمد صاحب مغفور نے بھی مرثیے کہے تھے اس لحاظ سے ان مرحوم کا ذکر خیر بھی اس تذکرے میں ضرور واجب ہے۔ میں نے کوشش کی مگر ان جناب کا کوئی مرثیہ مجھے اب تک نہیں مل سکا…آپ کے ذریعہ سے اگر پرانے مراثی کہیں سے مل سکیں تو ان کے حاصل کرنے کی فکر کیجیے اور اپنے دادا صاحب (صفیر بلگرامی) مرحوم کے مراثی میں سے دو ایک بھی مل سکیں تو مجھے فوراً ً بھیجیے … جو تعلقات ان مرحوم کو ہم لوگوں کے ساتھ رہے ہیں اس کا اقتضا یہ ہے کہ میرے قلم سے ان کے صحیح و ضروری حالات نکلیں … مرحوم نے ایک تذکرہ بھی تالیف کیا تھا جس کا نام ہے جلوۂ خضر۔ مجھے اس کی بیحد ضرورت ہے۔ کسی طرح اس کو بھی فراہم کر کے مجھے بھیجیے۔‘ (مکتوب بنام سید وصی احمد بلگرامی، 224)
شاد عظیم آبادی، سید وصی احمد بلگرامی، حمید عظیم آبادی، مسلم عظیم آبادی، صدر یار جنگ، آغا اشہر لکھنوی، مہاراجہ کشن پرشاد شاد، سر راس مسعود، پروفیسر مسعود حسین رضوی ادیب، مرزا محمد عسکری یا ’ندیم‘، ’جادو‘ اور دیگر رسائل کے مدیر کے نام لکھے مکتوبات سے خیال کی ادبی دلچسپیوں کا علم ہوتا ہے اور یہ واقفیت بھی ہوتی ہے کہ ان اصحاب کے درمیان شعر و ادب کے کسی نہ کسی پہلو اور دیگر علمی معاملات پر ہی خط و کتابت ہوتی تھی۔ مثلاً مولوی حمید عظیم آبادی کے نام ایک خط میں شاد کے سلسلے میں لکھتے ہیں کہ وہ سوا غزل کے کسی اور صنف نظم کے مالک نہ تھے۔ حمید عظیم آبادی شاد کی تخلیقات کا انتخاب شائع کرنا چاہتے تھے لیکن اس سے متعلق خیال نے انھیں یہ مشورہ دیا تھا کہ ان کی کوئی چیز از قسم مثنوی و رباعیات و مسدس وغیرہ شائع ہی نہ کی جائے۔ اور یہ ممکن نہ ہو تو پھر بہت احتیاط اور سخت گیری کے بعد ان کا کلام چھا پا جائے۔
ان تمام مکاتیب کا ایک اہم وصف یہ ہے کہ ان میں موضوع اور مکتوب الیہ کی مناسبت سے زبان و بیان کا استعمال کیا گیا ہے۔ ان میں سنجیدگی اور علمی وقار بھی ہے، شوخی و بذلہ سنجی بھی۔ وہیں کچھ خطوط ایسے بھی ہیں جن میں خیال کی انانیت صاف جھلکتی ہے۔ بعض خطوط طویل ہیں۔ ایسے خطوں میں کسی نہ کسی ادبی، علمی یا معاشرتی موضوع پر گفتگو کی گئی ہے یا کسی کتاب کی اغلاط کو گرفت میں لیا گیا ہے۔ ان میں خیال کی شخصیت کے جو آثار نظر آتے ہیں ان کی بنا پر وہ ایسے فعال اور ہمدرد ادب دوست رہنما کی شکل میں بھی نظر آتے ہیں جس نے اپنی پوری زندگی اردو کی بے لوث خدمت کے لئے وقف کر دی۔ صاف گوئی ان کا شیوہ تھا۔ وہ شعر و ادب میں زبان کی درستگی کے ساتھ ہی اخلاقی اقدار کی پابندی کو لازم مانتے تھے، اور اس ذہنی رجحان کے واضح اثرات ان مکاتیب میں بھی پائے جا تے ہیں۔
خیال کے دستیاب مکتوبات میں عموماً علمی موضوعات پر ہی بحث ملتی ہے۔ ان خطوط میں بھی موضوع و موقع و محل کی مناسبت اور مکتوب الیہ کی شخصیت کے لحاظ سے اسلوب نگارش کی جولانیاں نظر آتی ہیں۔ ان میں سے بعض خطوط ذاتی نوعیت کے بھی ہیں۔ مجموعی طور پہ ان خطوط میں سادگی، روانی اور سلاست کے ساتھ ساتھ شگفتگی اور کہیں کہیں مزاح کے عناصر بھی سموئے ہوئے ہیں۔ جب اپنے دوستوں کو خط لکھتے ہیں تو ان خطوط کی زبان اور اسلوب میں شوخی اور بذلہ سنجی اپنے شباب پہ نظر آتی ہے۔ شائق احمد عثمانی کو شائقی کہہ کر مخاطب کرتے تھے تو میر عنایت حسین امداد کو استاد کہہ کر۔ سید علمدار حسین واسطی کے نام خطوں میں انھیں مکرم و مخدوم لکھا کرتے تھے جبکہ مرزا محمد عسکری لکھنوی کو جناب مخدوم اشفاقکم۔ سر راس مسعود کے نام خطوں کا آغاز مائی ڈیر مسعود سے ہوا کرتا تھا، وہیں مہاراجا کشن پرشاد شاد کو مائی ڈیر مہاراجا یمین السلطنت بہادر لکھا کرتے تھے۔
معاصر اہل قلم یا اصحاب علم سے مخاطب ہوتے تھے تو تکلفات میں بھی ظریفانہ مزاج کی حلاوت رہتی تھی۔ بزرگوں کو یا اصحاب اقتدار کو لکھتے تھے تو ان خطوط میں بلا کی سنجیدگی اور علمی معیار قائم رہتا تھا۔ انجم مانپوری کے نام ایک مکتوب میں لکھتے ہیں:
’ہاں، گیا والوں پر آتش دوزخ حرام ہے۔ مگر کلکتہ والوں پر وہ کب حلال ہے۔ آجکل یہاں تشریف لائیے تو معلوم ہو جائے۔ پسینہ میں یوں ڈوبتے ہیں کہ جہنم کی ایندھن بنے بھی تو اس کے سکھانے میں میاں مالک کے ہاتھ خشک ہو جائیں گے۔ جھڑی تو خیر، دونگڑے تک کو ترستے ہیں اور بی پھلگو اپنا پیٹ اونچا ہی نہیں کرتیں کہ ذرا ہنسیے، دل ٹھنڈا ہو اور ان کے پاس بیٹھ کر پکوان تلے جائیں، ان پر چڑھائے جائیں اور پھر و، ح، ج ذرا چھیڑے جائیں۔‘ (مکتوبات مشاہیر، 32)
کشمیر کی سیاحی کا ذکر سید مجتبیٰ حسین سے ان الفاظ میں کرتے ہیں:
’دس دن خوب خاک چھانی۔ 18 ہزار فیٹ تک اڑے۔ برف ٹھوکروں سے توڑی، گھوڑے کی نعلوں سے کچلی، اٹھے بیٹھے، کبھی اس پر کمبل بچھا کر ڈنڈ پیلے۔ دن بھر یہی مشغلے رہے۔ شام آئی تو خیموں میں گھسے۔ دستانے چڑھا چڑھا کر چھری کانٹے سے کھانے کھائے۔ پوستین، موزے، بوٹ، نمدی گاہ پہن پہن کر کمبلوں میں گھسے۔ اور یہ کچھ مبالغہ نہیں۔ اگلے سفر میں بنفشہ و یاسمن روندی تھی اور اب زعفران ان قدموں سے پائمال ہوئی مگر اس کشت نے ہنسایا کم اور رلایا زیادہ۔ کیونکہ ہماری بد کرداریوں کی بدولت خدا نے یہ جہنم ہم سے چھین لی اور اس قوم کو بخشی جو آج ہم کو کسی طرح سر اٹھانے نہیں دیتی۔‘ (مقالات و مکتوبات نصیر حسین خیال 1981، 210)
خیال نے خطوط میں جا بجا اپنے مضامین کا تذکرہ اور ان کے تحریر کیے جانے کے مقاصد کا ذکر بھی کیا ہے۔ اس سلسلے میں انجم مانپوری کے نام لکھے ایک مکتوب سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انھوں نے محض انشا پردازی کی غرض سے قلمکاری نہیں کی۔ وہ خط خیال کی ذہنی رو اور قوم کی اصلاح و فلاح کے معاملے میں ان کے ذہنی اضطراب کی نمائندگی بھی کرتا ہے۔
خیال کے کئی مکتوبات ایسے ہیں جن تک راقم السطور کی رسائی نہیں ہو سکی۔ انھوں نے سید مجتبی حسین کو اپنے ایک خط میں لکھا تھا کہ حیدرآباد، محلۂ قدیم رسالہ عبد اللہ میں ان کے ایک دوست سید منظر علی صاحب کی تحویل میں ان کے لکھے خطوط موجود ہیں۔ ان کے علاوہ سید محمد مسعود (ڈپٹی کلکٹر لہری)، میر ریاض علی صاحب ریاض (چاہ مہمان چوک، بنارس سیٹی)، خواجہ محمود اقبال صاحب وکیل (کندی گر ٹولہ، چوک، بنارس سیٹی) اور نواب میرزا مرتضی خاں (آنر ری مجسٹریٹ، کٹرہ ابو تراب خاں، لکھنؤ) اور فخر الدین محمد شمسی کے نام لکھے ان کے مکتوبات بھی ان حضرات کے پاس محفوظ ہیں۔ اگلے وقتوں کے ان اصحاب سے رابطے کی ظاہر ہے کہ اب کوئی صورت نہیں۔ یہ ممکن ہے کہ انھیں جاننے والے لوگ اگر کوشش کریں تو ان کے اہل خانہ سے اس سلسلے میں کوئی تعاون مل سکتا ہے۔ اسی طرح مہاراجا کشن پرشاد شاد کے نام لکھے ان کے تمام خطوط ابھی دستیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ رسالہ ’ادیب‘ الہ آباد کے مدیر میر حسیر عظیم آبادی نے خیال کے انشائیہ ’خالاؤں کا مارا آغا‘ کی دوسری قسط (مارچ 1913ء) کے ادارتی نوٹ میں لکھا تھا کہ خیال سے متعلق جتنے بھی خطوط انھیں موصول ہوئے تھے وہ سب انھوں نے خیال کو بھیج دیے تھے۔ ظاہر ہے کہ ان خطوط تک رسائی اب ممکن ہی نہیں۔ ممکن ہے کہ خیال کے صاحبزادے مرحوم امیر نواب کے اہل خانہ کے پاس کچھ کاغذات محفوظ ہوں لیکن اس کا علم ہنوز نہیں ہو سکا ہے۔
1933ء سے 1934ء کے دوران لکھے گئے زیادہ تر مکتوبات میں ایسی عبارتیں موجود ہیں جن سے علم ہوتا ہے کہ خیال تا حیات جن مقاصد کے حصول کے لئے سرگرداں رہے ان میں انھیں کامیابی نہیں ملی۔ لیکن ان مکتوبات اور ان کے مضامین میں ایسے کئی اشارے موجود ہیں جن پہ بعد میں ہمارے تنقید نگاروں اور محققوں نے بھی توجہ دی۔ مثال کے طور پہ سنسکرت شعریات سے اردو والوں کی دلچسپی ہی کافی ہے۔
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...