وہ تاریخی اہمیت کا حامل ایک عام دن تھا۔
صبح کا آغاز موبائل چھن جانے جیسے عمومی اور ’’بے ضرر‘‘ واقعے سے ہوا۔
دفتر پہنچ کر میں نے تیز پتی والی چائے پی، اور سانحے پر خداوند خدا کا شکر ادا کیا۔
شام ڈھلے، گھر لوٹتے سمے پُراسرارسرگوشیوں کی ہدایت پر نالے والی گلی لے لی۔ کچرا کنڈی کے پاس ایک نشئی بیٹھا تھا۔
’’لمحہ¿ موجود زندہ باد!‘‘اس نے نعرہ لگایا۔ میں نے اسے نظرانداز کر دیا۔
میں ایک لاابالی شخص کی طرح ہنستا کھیلتا، گیت گاتا گلی سے گزر رہا تھا کہ ایک قدیم آواز نے دبوچ لیا۔
’’سالو، جانتے ہو میں کون ہوں ؟ مکّو دادا ہوں میں ۔ مکّو دادا!‘‘
کیسی دھار تھی۔ اس آواز نے میری بے ساختگی کو قتل کر ڈالا۔ میں پلٹا۔
وہایک ہجوم تھا۔ چند لڑکے۔ ایک کے ہاتھ میں بلا۔ ایک کے گیند۔ دو خالی ہاتھپر وہ آواز کے ماخذ نہیں تھے۔ اُس کا ماخذ تو وہ دھان پان شخص تھا، جس کیبڑی اور بوڑھی آنکھوں میں وحشت تھی۔ اور خشک بالوں میں گنگا بہتی تھی۔ اورمنہ سے کف اڑاتا تھا۔
وہغصیل اور خستہ حال شخص مکّو تھا مکّو دادا۔ جس نے مارشل لا کے آخری دنوںمیں پانچ افراد کو چھرا گھونپ کر علاقے میں سنسنی پھیلا دی تھی۔ چندے کےڈبے سے پیسے چرائے تھے۔ تین پولیس اہلکاروں کے سر پر مٹکے پھوڑ دیے تھے۔کئی نوجوانوں کی رگوں میں ہیروئن کا نشہ گھولا۔ ایک بچے کو جنسی ہوس کانشانہ بنانے کا الزام بھی اُس پر عاید کیا جاتا تھا۔
تووہ مکّو بدمعاش تھا۔ اور اس کی آنکھیں شعلے اگل رہی تھیں ۔ ’’ سالو، تمھیںکہا بھی تھا کہ یہاں دوبارہ قدم مت رکھنا۔ ماؤں بہنوں کو تاڑتے ہو۔حرامیو!‘‘
لڑکے سراسمیہ اور ناراض دکھائی دیتے۔ ایک کے ہاتھ میں بلا۔ ایک کے گیند۔ دو خالی ہاتھ۔
وہ تاریخی اور لازوال دن تھا،
وہ سرگوشیوں بھری دنیا تھی،
میرے قدم جھنڈ کی سمت بڑھتے تھے،
اور ماضی ذہن کے پردے پر منعکس ہوتا تھا۔
٭٭
ابھی مارشل لا نہیں لگا تھا۔ نو گیارہ کا سانحہ کچھ دور تھا۔
یہاُن دنوں کی کھٹکھٹاہٹ ہے، جب سردی، گرمی، دونوں بھاتے۔ موسم خزاں ، موسمبہار ایک سا لطف دیتے۔ ایک روپے میں سموسا مل جاتا، دو روپے میں چاٹ۔
ہم ابھی بچے تھے۔ ایک چھوٹی سی، تاریک اور سیلن زدہ عمارت میں زیر تعلیم تھے۔ اور اپنی استانیوں سے محبت کیا کرتے تھے۔
اُسیزندہ اور شوخ زمانے میں پہلی بار میرا مکّو دادا سے سامنا ہوا۔ گو میںمنٹو کے افسانے اور معتزلہ کی تاریخ پڑھ چکا تھا، مگر نہیں جانتا تھا کہ یہشخص ایکLiving Legend ہے۔ ’’ذاتی اساطیر‘‘ رکھتا ہے۔
ہم میٹرک کا نصاب چاٹتے تھے۔ اور انٹرویل کا گھنٹا بجنے کے بعد ظہور میں آنے والی دنیا، ہماری دنیا تھی۔
اسکول کے باہر ایک تنگ گلی تھی۔ وہ ہماری ریاست تھی۔ ٹھیلوں پتھاروں کے باعث وہ سکڑ جاتی، پر ہم جگہ نکال لیتے۔
اس روز ہم کرکٹ سے دل بہلا رہے تھے۔
سرماتھا۔ بلا میرے ہاتھ میں تھا۔ گیند باز المعروف ناصر کالیا نہ جانے کس باتپر خفا تھا۔اس نے باﺅنسر سے حملہ کیا۔ میں نے ہُک کھیلا۔ گیند ساتھ والےمکان کی چھت پر غائب ہو گئی۔
مجھےمغلظات بکنے کے بعد مکان کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا۔ چند لحظے بعد ایک پٹکھلا۔ غلیظ پردہ لہرایا۔ ایک نچلے متوسط طبقے کی عورت برآمد ہوئی۔
مذاکرات کے لیے اصولی طور پر مجھے آگے آنا تھا کہ میں ڈیل کارنیگی کو پڑھ چکا تھا، مگر غفور المعروف غفی چلبلا بازی لے گیا۔
’’خالہ۔ تمھاری چھت پر گیند آئی ہے۔‘‘
مجھےاُس کا اندازِ گفتگو ایک آنکھ نہیں بھایا، میں ہوتا، تو کہتا: ’’محترمہ،زحمت نہ تو ہو ذرا دیکھیں ، ہماری گیند غلطی سے آپ کی چھت پر چلی گئی۔‘‘
عورت چلبلے کے لہجے سے آشنا تھی کہ وہ بے ساختہ اور خوش بیاں معلوم ہوتا تھا کہ اُس کے بچے اُسے ایسے ہی مخاطب کیا کرتے تھے۔
اُس نے ہمیں چھت پر چڑھنے کی اجازت دے دی۔
میںاور کالیا کوئی عذر پیش کرنے کی بابت سوچ ہی رہے تھے کہ چلبلا گیس کےمیٹر، دیوار میں بنے مشکوک گڑھوں اور اِسی طرح کی کچھ اور سہولیات کےسہارے، مانند لنگور، دیوار پر چڑھ گیا۔ اور زرّافے جیسی گردن استعمال میںلاتے ہوئے ٹین کی چھت پر گیند تلاش کرنے لگا۔
تواب چلبلا دیوار پر لٹکا تھا۔ میں اور کالیا اُسے دیکھ کر بغلیں بجا رہےتھے، مسعود المعروف ابو اور فیصل المعروف سنیل شیٹھی بھی ہمارے رقص مسرتمیں شامل ہو گئے۔
اور تب اُس جادوئی لمحے کا جنم ہوا، جو تا حیات میرے ذہن پر چسپاں رہنے والا تھا۔
دھڑ سے دروازہ کھلا روشنی ہوئی پردہ سلوموشن میں لہرایا ڈرامائی موسیقی سنائی دی۔
وہ ایک آدمی تھا۔ بڑی بڑی آنکھوں میں غضب کا جلال۔ بکھرے بالوں میں لاتعلقی۔ رنگ سیاہ مائل سنہری۔
’’ابے سالے۔‘‘ یہ وہ تاریخی جملہ تھا، جس نے اُس طلسماتی لمحے کو سبوتاژ کر کے مزید جادوئی کر دیا۔
وہ کسی عظیم سورما کے مانند، بھیم کے مانند، ڈنڈا لیے مکان سے باہر آیا اور اس نے مگدر لہرایا اور اردگرد خندقیں پیدا ہو گئیں ۔
میں اور کالیا دم دبا کر بھاگ نکلے۔ مڑ کر دیکھا، چلبلا عین ہمارے پیچھے تھا۔ انتہائی مطمئن اور مسرور۔
اورمکان کے دروازے پر وہ کھڑا تھا۔ ہاتھ میں ڈنڈا لیے۔ ڈنڈا، جو مثل مگدرتھا۔ جو اس کا ہتھیار تھا۔ اُس دیوتاؤں سے جلال والے کی پشت پر ایک پردہلہرا رہا تھا۔ وہ عورت کھڑی تھی، جسے چلبلے نے خالہ کہہ کر پکارا تھا۔
اُسیسہ پہر کالیے نے مجھے مکّو دادا کے لازوال کارناموں سے آگاہ کیا۔ البتہبچے کے ساتھ جنسی زیادتی والا قصہ گول کر گیا۔ اُس کا خیال تھا، اِن باتوںکے لیے ابھی میں بہت چھوٹا ہوں ۔
مجھےیاد ہے، مکّو کی دل دہلانے دینے والی کہانیاں سناتے سمے وہ بے طرح ہنس رہاتھا، جس سے مجھے گمان گزرا کہ وہ بدمعاش کا مذاق اڑا رہا ہے۔
وقتحسین وقت، برق رفتار وقت، الکس سے گزرتا رہا۔ سموسے کی قیمت ایک روپے ہیرہی۔ چاٹ چٹ پٹی تھی۔ ہمارا اور استانیوں کا پریم سمبندھ اب اٹوٹ تھا۔
اُنہی دنوں ایک پکی پکائی، گندمی رنگت والی، انتہائی گھریلو عورت نے ’’نئیمس‘‘ کے طور پر انٹری ماری۔ اور ہمیں اسلامیات اور مطالعۂ پاکستان جیسے اہمترین مضامین پڑھانے کا قومی و مذہبی فریضہ سنبھالا۔
وہاس حد تک عام اور اپنی اپنی تھی کہ چند لڑکیاں از راہ مذاق اُسے امّی کہنےلگیں ، جس پر وہ شرما جاتی۔ مسعود ابو کے مطابق مسکراتے سمے وہ اپنا پیٹایک خاص ادا سے چھوتی۔
ایکدن امّی نے انٹرویل میں — وہ مقدس وقفہ جب ہم روٹی شُکر کر کے توڑتے، اوربانٹ کر کھاتے— ہمیں اپنے گھر سے کھانا لانے کی شریفانہ ہدایت کی۔
ہم نے شُکر کیا۔
جباُس نے پتا بتایا، تو ہم انکشاف کے حصار میں آ گئے۔ انکشاف کہ وہ ہر صبحاُسی گھر سے برآمد ہوتی تھی، جس سے مکّو درآمد ہوتا تھا۔ شاید وہ اس کی ہمشیرہ تھی۔
توہمگذشتہ واقعے کی چٹختی یادوں سے لدے، کھلکھلاتے، ہنہناتے اس مکان کی سمتبڑھنے لگے، جس کی دیوار پر آج بھی چلبلے کے جوتوں کے نشان ثبت تھے۔
دروازہ بجایا گیا۔ وہ کھلا۔ ایک بچی۔ معصوم بچی۔
’’مس کا کھانا۔ ہی ہی ہی!‘‘ کالیے کا بھونڈا پن عروج پر تھا۔
بچیغائب ہو گئی۔ہم منتظر رہے۔ اور پھر ہواؤں کا رخ تبدیل ہوا۔ خشک پتے— سرخ،چنار کے پتے— مشرق سے ظاہر ہوئے۔ بادل امنڈ کر آئے۔ پرندوں کے جھنڈ دیکھےگئے۔ اور دروازہ کھلا۔
’’ابے کیا ہے؟‘‘ ایک مکروہ اور زندہ آواز۔
وہ ہی، یقینی طور پر۔
’’جی کھانا ہی ہی ہی۔‘‘ کالیا، یقینی طور پر۔
’’چلو بھاگو سالو۔‘‘ اس نے اپنے ٹریڈ مارک انداز میں ہمیں مخاطب کیا۔ ہمیں خوشی ہوئی۔ شاید ہم اس کی توقع کر رہے تھے۔
’’ماؤں بہنوں کو چھیڑتے ہو۔ نکل لو۔‘‘
ہم نکل لیے۔ واپس آ کر پورا واقعہ امّی کو گوش گزار کیا۔ امّی مایوس نظر آئیں ۔
دوسریاستانی نے، جو قطعی امّی جیسی نہیں تھی، بلکہ ماڈرن اور شوخ اور قابل محبتتھی، مجھے دس روپے کا نوٹ تھمایا۔ ’’سنو لڑکے، سموسے لے آؤ۔‘‘
’’یس مس۔‘‘ میں نے نوٹ لیتے ہوئے فوجیوں کے سے انداز میں کہا۔
وہ پری وش مسکرائی۔ ’’دس سموسے۔ اور دس روپے واپس۔ سمجھے؟‘‘
کنوارے قہقہوں سے اسٹاف روم بھر گیا۔ میں نے بھونچکا رہ جانے کا بھونڈا تجربہ کیا۔
امیرالمومنین بننے کا سپنا ابھی ٹوٹا نہیں ہے، البتہ جلد ٹوٹنے کو ہے۔ پڑوس میں خلیفہ چنا جا چکا ہے۔ ایٹمی دھماکے ہو چکے ہیں ۔
ہمارا دڑبے نما اسکول، ایک چھوٹا سا دڑبے نما اسکول ہے۔ وہاں گھٹن اور تاریکی اور سیلن ہے، جو ہمیں بھاتی ہے۔
وہایک گنجان، غریب اور سیاست زدہ بستی کی تنگ سی گلی میں واقع ہے۔ گلی جوپتھاروں اور ٹھیلوں سے بھری رہتی۔ کھانے کے وقفے میں وہاں کنوارے لڑکوں اورباکرہ لڑکیوں کا ظہور ہوتا۔ وہ خود کو روئے زمین کی عقل مند ترین مخلوقخیال کرتے۔ اور وہ گلی، خود کو روئے زمین کی خوش قسمت ترین گلی۔
انٹرویلکے دوران اسکول کے مرکزی دروازے سے پندرہ قدم بائیں ، اور پندرہ قدم دائیںگن کر، چند تگڑے لڑکوں کو کھڑا کر دیا جاتا، جو ہوتے تو چوکی دار، مگر خودکوCustodian کہہ کر متعارف کرواتے۔
اُستنگ سی گلی میں ہمارے لیے خاصی کشادگی تھی۔ ہم مرکزی دروازے کی بائیں جانبپندرہ قدم گنتے، پھر اُن میں پانچ قدم مزید جوڑ دیتے۔ اور یوں اپنی بیٹھکتک پہنچ جاتے۔
یہ مکّو دادا کا علاقہ تھا۔
اُسکے خستہ حال مکان کے باہر ادھڑا ہوا چبوترا تھا، جس پر بیٹھنا یار دوستوںکو تو گوارا تھا، مگر مجھے نہیں کہ یہ سراسر بد تہذیبی کے زمرے میں آتا۔البتہ اس چبوترے کے کونے میں ایک بڑا سا پتھر، جو کبھی کبھی پوری ایک چٹانکا التباس پیدا کرتا، دھرا تھا۔ پتھر حیران کن حد تک ہموار تھا۔ وہ چبوترےکا سب سے اونچا مقام تھا۔ اس تخت کے مانند، جس پر کبھی شہزادے بیٹھا کرتےتھے۔ اور وہیں بیٹھے بیٹھے رفع حاجت کیا کرتے۔
تو وہ ہمارا تخت تھا۔ وہ ہماری دنیا تھی۔
بیٹھنےسے قبل پھونک مار کر کہ قوی الجثہ پتھر سے مٹی اڑانا باقاعدہ ایک رسم تھی۔کبھی کبھار وہاں ہمیں پانی گرنے کی، جھرنوں کی آواز سے مشابہ، مشکوکآوازیں سنائی دیتیں ۔ پُراسرار طور پر تعفن پھیل جاتا۔
پھرعقدہ کھلا کہ یہ دراصل گٹر ہے، جو مکّو کے مکان کی سیوریج لائن سے جڑا ہے۔اندر ہونے والی کارروائیاں ہی پانی گرنے کا شور اور تعفن پیدا کرتی ہیں ۔
توایک دفعہ کا ذکر ہے۔ ہم دوست وہاں ، اسی تخت پر، شہزادوں کے مانند براجمانتھے۔ اور اس واقعے کو بیتے، جب مکّو نے چلبلے پر مگدر سے حملہ کیا تھا،خاصا وقت بیت گیا تھا۔ اور بہت سی بارشیں ہو چکی تھیں ۔ اور ہم اکھڑ اورپُر اعتماد ہو گئے تھے۔
توہم تخت پر بیٹھے قہقہے لگا رہے تھے۔ میرا معصومانہ قہقہہ سب سے بُلند اورپُر قوت تھا۔ ناصر کالیا، مسعود ابو اور غفور چلبلا میرے پھیپھڑوں کامقابلہ کرنے میں ناکامی کے بعد اوچھی حرکتوں پر اتر آئے۔
چلبلا ایک ٹانگ پر کھڑا ہو گیا، اور بھیک مانگنے لگا۔ کالیے نے جنسی اشارے کیے۔ ابو چار ٹانگوں پر چلتے ہوئے فحش آوازیں نکالنے لگا۔
اچھا خاصا تماشا لگ گیا۔ گلی کی باکراہیں اور کنوارے ہماری سمت متوجہ ہوئے، اور پاس آ کر کھڑے ہو گئے۔
وہ تالیاں بجا کر، نعرے لگا کر سورماﺅں کی حوصلہ افزائی کرنے لگے۔ اس حوصلہ افزائی نے سورماﺅں کو مزید اوچھا کر دیا۔
عجیب، پراسرار طوفان بدتمیزی برپا تھا۔
اورتب مجھے یاد ہے، اچھی طرح ٹھیک تب وہ علامات ظاہر ہوئیں ، جو میں اپنیننگی آنکھ سے پہلے بھی دیکھ چکا تھا۔ ہواؤں کا رخ بدلنا، سیاہ گھٹائیں ،خشک پتے، زرد تتلیاں ، پروں کی پھڑپھڑاہٹ
وہ ہی دروازہ، جس کے پیچھے ایک بوسیدہ غلیظ پردہ تھا، دھڑ سے کھلا۔ مکّو چھلانگ مار کر باہر آگیا۔
اُسے دیکھ کر ہمارے مسخرے پن کو بریک لگ گئے۔
اور وہ دہاڑا۔ ’’سالو، کتنی بار منع کیا ہے۔ یہاں مائیں بہنیں رہتی ہیں ۔ حرامیو‘‘
وہآگے بڑھا۔ ہم پیچھے ہٹے، مگر چلبلا وہیں کھڑا رہا کہ اب وہ بھاگنے کو تیارنہیں تھا کہ اب وہ بڑا ہو گیا تھا، اور مہینے میں ایک بار زیر ناف بال صافکیا کرتا تھا۔
’’سالو‘‘ اور اس نے اپنا مگدر گھمایا۔
وہ منظر سلو موشن میں تھا۔ مکّو نے چُلبلے کو گریبان سے پکڑ لیا۔
’’تجھے تو میں وہاں پہنچا دوں ‘‘ کف اڑاتے ہوئے اس عقوبت خانے تذکرہ کیا، جو ایک سیاسی جماعت کے دفتر کے طور پر مشہور تھا۔
چلبلا متاثر نہیں ہوا کہ اُس کے چاچے، مامے، پھپھے، خالو، بھائی، بہن؛ سب اسی سیاسی جماعت سے وابستہ تھے۔
اسنے مکّو کو زور سے دھکا دیا۔ بدمعاش کا خستہ حال بدن دھکے کی شدت برداشتنہیں کرسکا۔ اور ہم نے ایکLiving Legend کو زمین پر پڑا دیکھا۔
وہ افسوس ناک منظر تھا۔
قہقہے بلند ہوئے۔
Living Legend چھلانگ مار کر کھڑا ہو گیا۔ اوراس لمحے میرے کانوں نے وہ طلسماتی آواز سنی، جس نے ہنوز مجھے حصار میں لے رکھا ہے۔
وہ چاقو کھلنے کی آواز تھی۔
پورب، پچھم، اتر، دکن؛ ہر سو سراسیمگی اور ہیبت پھیل گئی۔ بندر جفتی کے عمل سے باز آئے۔ ہاتھی گوشت کھانے لگے۔
’’کیا کر رہے ہیں بھائی۔‘‘ ایک عورت ہجوم کو چیرتی آئی۔ اب وہ مکّو اور چلبلے کے درمیان کھڑی تھی۔
میں نے دیکھا۔ یہ وہی عورت تھی، جسے سب امّی کہا کرتے۔
کالیااور ابو نے آگے بڑھ کر چلبلے کو پکڑ لیا۔ اسے گھسیٹنے لگے۔ ان کی ناکامینے مجھے تحریک دی۔ ہماری بھرپور کوششوں کے طفیل چلبلا محفوظ علاقے میں پہنچگیا۔ مکّو بوسیدہ پردے کے پیچھے غائب ہو گیا۔
واقعہ گزر گیا۔
اس دوپہر چلبلا غصے سے پھنکارتا رہا۔ استانیاں اس پر اپنی اجلی محبت اچھالتی رہیں ۔
جاتے سمے اس نے انکشاف کیا کہ کل کا دن، مکّو کی زندگی کا آخری دن ہو گا۔
ہم ڈر گئے۔ خطرے کے پیش نظر چھٹی کے بعد ابو، ایک بڑے بھائی کی طرح، اُسے گھر چھوڑنے گیا۔
اگلےروز چلبلا نہیں آیا۔ دوسرے یا شاید تیسرے پیریڈ میں ابو نے، جو ہیڈ بوائےتھا، انکشاف کیا کہ وہ (چلبلا) شلوار قمیص میں ملبوس اپنے چاچے، مامے،پھپھے، خالو اور بھائیوں کے جھرمٹ میں ، پرنسپل صاحبہ کے کمرے میں دیکھاگیا ہے۔
مجھے خطرہ محسوس ہوا، مگر پھر یہ سوچ کر مطمئن ہو گیا کہ پرنسپل صاحبہ اپنی دراز میں ریوالور رکھا کرتی ہیں ۔
ابو نے یہ بھی بتایا کہHigh profile میٹنگ خاصی دیر جاری رہی، جس کے بعد چاچے، مامے چلبلے کو لیے گھر لوٹ گئے۔
’’اور جاتے سمے ان کے سر بلند تھے چال میں گستاخی تھی سینے پھولے ہوئے وہ فاتح معلوم ہوتے تھے۔‘‘ ابو نے کہا۔
انٹرویل سے کچھ لمحات قبل اسکول میں پُراسرار واقعات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
بتیاںخود بہ خود جلنے بجھنے لگیں ۔ سلفر کی بُو پھیل گئی۔ لنچ بکس سے سسکیاںسنائی دینے لگیں ۔ تختہ¿ سیاہ پر بے ربط لکیریں ظاہر ہوئیں ۔ اور لڑکیوں کوماہ واری شروع ہو گئی۔
پیچیدگیپھیلی، تو اسٹاف روم، جو ہماری کلاس سے چسپاں تھا، دھیرے دھیرے خالی ہونےلگا۔ ہیڈ بوائے اور ہیڈ گرل نے بھی ایک دوسرے کو چند ناقابل فہم اشارے کیے،اور اٹھ گئے۔
میں ان دونوں کا تعاقب کرتے ہوئے اسکول سے باہر آگیا۔
مکّو کے گھر کے پاس رش لگا تھا۔ وہاں سے گڑگڑانے، کسمسانے اور منمنانے کی آواز آ رہی تھی۔
میں آگے بڑھا۔ کہنیاں مار کر ہجوم میں جگہ بنائی۔
وہپرنسپل صاحبہ تھیں ۔ سخت غصے میں ۔ منہ سے جھاگ نکل رہے تھے۔ آنکھیں سرخ۔اُنھوں نے بچوں کی طرح انگلیوں کو ریوالور کی شکل دے رکھی تھی۔
اور اُن کے عین سامنے مکّو مکو دادا ایک اساطیری کردار؛ بھیگی بلی بنا کھڑا تھا۔ وہ مسکین اور پھٹے حال معلوم ہوتا تھا۔
’’باجی نہیں باجی ایسی کوئی بات نہیں میں تو میں‘‘
’’تمنے میرے اسٹوڈنٹ پر چاقو سے حملہ کیا۔‘‘ پرنسپل صاحبہ المعروف بوڑھی شیرنیدہاڑی۔ ’’تمھاری ہمت کیسے ہوئی۔ وہ بچہ یہاں پڑھنے آتا ہے۔‘‘
مجھےدُکھ ہوا۔ وہ غلط بیانی سے کام لے رہی تھیں ۔ چلبلا کبھی پڑھنے نہیں آیا،وہ ہمیشہ کہا کرتا تھا۔ ’’میں تو یہاں ٹائم پاس کرنے آتا ہوں ۔‘‘
’’نہیں باجی میں تو‘‘
’’اگر تم نے دوبارہ ایسی حرکت کی، تو میں پولیس بلوا لوں گی۔‘‘
’’ارے نہیں ہم تو شریف لوگ ہیں بال بچے دار۔ باجی آپ تو جانتی ہیں ۔‘‘ گڑگڑاہٹ۔ منمناہٹ۔
’’میں نے تمھیں بچا لیا، ورنہ وہ تمھیں گھسٹیتے ہوئے ندی والے اسکول لے جاتے۔‘‘
ندیوالا اسکول وہی عقوبت خانہ، جس کی بابت خیال کیا جاتا تھا کہ وہ ایک سیاسیجماعت کا دفتر ہے وہ ہی عقوبت خانہ، جہاں کل دوپہر مکّو چلبلے کو لے جانےکی دھمکی دے رہا تھا۔ اور آج
کیسی بلندی کیسی پستی!
’’نہیں باجی میں تو یہ تو میرے بچے ہیں میرے بچے۔‘‘
مکو آگے بڑھ کر کالیے سے لپٹ گیا۔ اس کا ماتھا چوما۔ گال چاٹا۔
کالیے نے اسے خود سے پرے دھکیل دیا۔
’’آیندہ مجھے کوئی شکایت ملی تو‘‘ پرنسپل صاحبہ۔
’’نہیں باجی آپ تو میری ماں ہو کوئی شکایت نہیں ملے گی۔ ہم شریف لوگ ہیں‘‘
اُسدن کے بعد میں نے پھر کبھی مکّو کو گلی میں جھاڑو لگاتے نہیں دیکھا۔ خودسے جُڑی اساطیر کم زور پڑتے ہی غائب ہو گیا۔ اس کی بہن کو اسکول سے فارغ کردیا گیا۔ ہم یہ قصّہ بھول کر پھر اسی چبوترے پر شہزادوں کے طرح بیٹھنےلگے۔
میٹرککا مرحلہ طے ہوا۔ اس گلی سے جُڑا رومانس اختتام کو پہنچا۔ وہاں کے قصّے،وہیں دفن ہو گئے۔ ہم آگے بڑھ گئے۔ دوست بھی اب کم کم ملنے لگے۔
سباپنی اپنی جنسی اور پیشہ ورانہ زندگی میں گم تھے ، اور دکھی تھے کہ تاریخیاہمیت کے حامل ایک عام سے دن کا ظہور ہوا۔ اور میرا ماضی میرے سامنے ناچنےلگا۔
’’سالو، جانتے ہو میں کون ہوں ؟ مکّو دادا ہوں میں ۔ مکو دادا!‘‘
آواز مجھے برسوں پیچھے لے گئی۔
میں پلٹا۔
وہچند لڑکے تھے۔ ایک کے ہاتھ میں بلا۔ ایک کے گیند۔ دو خالی ہاتھ۔ اور ان کےسامنے ایک دھان پان شخص، جس کی آنکھیں بڑی اور بوڑھی تھیں ، اور بال خشک،کھڑا کف اڑا رہا تھا۔
وہ ایک اساطیری کردار تھا۔
اور میں اس مختصر سے ہجوم کی سمت بڑھا۔ ایک جانب دھان پان، خستہ حال مکّو۔ اور دوسری طرف چار نوجوان؛ باغی اور ڈرے ہوئے ۔
اور میں ہجوم کا حصہ بن گیا۔
مکّودادا نے نظر اٹھا کر مجھے دیکھا۔ شاید پہچان لیا۔ یا شاید نہیں پہچانا۔شاید مجھے وہ بچہ سمجھ بیٹھا، جس کے ساتھ زیادتی کرنے کا الزام اُس کیاساطیر کا حصہ تھا۔
وہجھٹپٹے کا وقت تھا۔ مخمصے کا وقت تھا۔ میں مکّو کے سامنے تھا۔ میں چارنوجوانوں کے سامنے تھا۔ اور آج صبح ہی میرا موبائل چھینا گیا تھا۔
میںلڑکوں کی طرف جھکا۔ چلایا۔ ’’بھاگ جاؤ یہاں سے گدھو۔ جانتے ہو کون ہے؟مکّو دادا ہے۔ سالو، ایک ہاتھ رکھ دیا، تو تمھاری ماں بہن ہو جائے گی۔‘‘
چاروں لڑکوں نے میری بات بے یقینی، بے زاری اور ناپسندیدگی سے سنی۔
میں نے مزید کہا۔ ’’چھے آدمیوں کو چھرا گھونپا تھا دادا نے۔ اب بھی چاقو پاس رکھتا ہے۔ دیکھنا ہے؟ دکھائے تمھیں اپنا چاقو؟‘‘
میرے لہجے میں رعب، غصہ اور التجا تھی۔ لڑکوں نے تینوں ہی پر ہم دردانہ غور کیا، اور دھیرے دھیرے کھسکنے لگے۔
جب وہ گلی کے نکڑ پر پہنچے، تو میں نے آواز لگائی۔ ’’سالو، آیندہ یہاں قدم مت رکھنا۔ یہ مکّو دادا کا علاقہ ہے۔‘‘
وہ چلے گئے۔
میں اور مکّو جھٹپٹے اور مخمصے کے درمیان ایک دوسرے کے پہلو میں کھڑے رہ گئے۔
وہ جادو بھرا لمحہ تھا۔
میں اس کی سمت مڑا۔ اور میرے چہرے پر ایک دوستانہ مسکراہٹ تھی کہ میں اس سے محبت کرتا تھا کہ وہ میرے بچپن کا انوکھا پن تھا۔
وہ ایک یاد تھا۔
ہواؤں نے رخ بدلا۔ ایک زرد تتلی منظر میں ظاہر ہوئی۔ ایک پرندہ ہمارے سروں پر پھڑپھڑا رہا تھا۔
مکّو دھیرے سے مسکرایا۔ آنکھوں میں احساس تشکر تھا۔
وہ چند ساعتیں صدیوں سی طویل اور پَلوں سی مختصر اور کائنات سی بے انت تھیں ۔
اچانک مکّو دادا نے پلکیں جھپکیں ۔
لمحۂ موجود لوٹ آیا۔ سردی یک دم بڑھ گئی۔ کہرا چھا گیا۔ اور کہرے کے درمیان اس کی آنکھیں شعلے اگل رہی تھیں ۔ وہ شیر کے مانند دہاڑا۔
’’ابے،یہاں کھڑا کھڑا کیا کر رہا۔ چل نکل یہاں سے۔ آیندہ دیکھا، تو تو ٹانگیںتوڑ دوں گا۔‘‘ آخری جملہ کہتے کہتے اُس کی آواز رندھ گئی۔
میں ڈر گیا۔ اور فوراً وہاں سے کھسک لیا۔
٭٭٭