یونیورسٹی سے تھکی تھکی سی ۔۔ وہ ابھی ابھی پہنچی تھی ۔۔ اور آتے ہی بیڈ پہ لیٹی تھی ۔۔
آج کل مخصوص سی خوشبو ۔۔ جو اسے اپنے حصار میں ہمیشہ لیے رکھتی ۔۔۔ اور پھر کچھ دیر میں ہی ۔۔ اس پہ نیند کو غلبہ آنے لگتا ۔۔۔ یا وہ کھوئی کھوئی سی بیٹھی رہتی ۔۔
بار بار ادھر ادھر دیکھنے کی کوشش کی تھی اس نے کلاس میں ۔۔ اسے کوئی نظر نہ آتا لیکن ایک حصار سا اسے اپنے گرد حائل محسوس ہوتا ۔۔۔
” ایلا ۔۔۔۔۔ ”
مدھم سے سرگوشی ہوئی تھی ۔۔ اور وہ چونک کے ادھر ادھر دیکھنے لگی ۔۔
” میں تم میں ہوں ۔۔ مجھے محسوس کرو ۔۔۔ ”
پھر سے سرگوشی ہوئی تھی ۔۔ ساتھ سانسوں کا شور اسے محسوس ہوا تھا ۔۔۔ اپنے کان کی لو پہ ۔۔۔
وہ خوفزدہ ہو کے ۔۔۔ بیڈ سے اترنا چاہ رہی تھی ۔۔ لیکن جیسے اس کا وجود بھاری ہو رہا تھا ۔۔۔
” ک ۔۔۔ کون ۔۔ ؟؟”
پسینے کی ننھی بوندیں اس کے ماتھے پہ آئی تھی ۔۔ وجود بھاری ہو رہی تھا ۔۔۔
ہیزل براؤن آنکھوں میں خوف کی پرچھائیاں تھی ۔۔
سفید و گلابی رنگت پہ ۔۔۔ اس کے گلابی لب کپکپا رہے تھے ۔۔
حصار بڑھتا جا رہا تھا ۔۔۔
سانسوں کا شور قریب تر ہو رہا تھا ۔۔
اور مبہم سی خوشبو ۔۔ اسے اپنی لپیٹ میں لے رہی تھی ۔۔۔
اس کے براؤن بالوں کی خوشبو کو ۔۔ اس نے اپنی سانسوں میں اتارا تھا ۔۔
” بہنام ۔۔۔۔ ”
” ب ۔۔۔ بہنام ک ۔۔ کون ؟؟”
وہ ادھر ادھر نظریں دوڑاتی پوچھنے لگی ۔۔
” مجھے تو بلا رہی تھی تم ۔۔ ”
سرگوشی اب کان کی لو پہ تھی ۔۔
ایلا پہ جیسے اس کا سحر چھانے لگا ۔۔ تبھی سانسیں بھی بکھری پڑی رہی تھی ۔۔
” کب ؟؟”
” یاد کرو ۔۔ جب تم کہہ رہی تھی کہ میں تمہارے پاس آؤں ۔۔ اور ۔۔۔۔ پھر میری نظریں تم پہ رک گئی ۔۔ اور پھر جیسے پل ٹھہر سے گئے۔ ۔ میری سانسیں جیسے الجھنے لگی ۔۔ میری دھڑکنیں جیسے بےتاب ہونے لگی ۔۔ تمہاری چاہ مجھے مدہوش کرنے لگی ۔۔ اور میں تمہارے سحر میں جکڑتا گیا ۔۔۔ ”
وہ مدہوش سا ۔۔ مدھم لہجے میں کہہ رہا تھا ۔۔
ایلا کی دھڑکنیں منتشر ہو رہی تھی ۔۔۔ اس کا لہجہ جیسے جلا رہا تھا اسے ۔۔۔ تپش سی محسوس ہونے لگی تھی اسے اپنے وجود پہ ۔۔۔
” مجھے تم سے محبت ہونے لگی ۔۔ اور میں پاگل ہو گیا تمہاری محبت میں ۔۔ ”
مدھم لمس اس کی گردن پہ ۔۔ اسے محسوس ہو رہے تھے ۔۔ ایلا چونک کے پھر سے ادھر ادھر دیکھنے لگی ۔۔
” تم ۔۔۔ تم کون ہو؟؟”
اس کا ڈر اب زائل ہو رہا تھا ۔۔ وہ اسے دیکھنا چاہتی تھی اب ۔۔
بہنام گہرا مسکرایا تھا ۔۔
” بہنام ۔۔۔ ”
اس کی سرگوشی پہ ۔۔ ایلس نے چونک کے اپنی اٹکتی سانس خارج کی تھی ۔۔
” ک۔۔۔ کہاں ہو ؟؟”
” تمہارے بےحد قریب ۔۔۔ ”
وہ پھر سے سرگوشی کر رہا تھا ۔۔ ساتھ ہی اپنا مبہم لمس بھی ۔۔۔ ایلا کے کندھے پہ چھوڑا تھا ۔۔
جس سے وہ کسمساتی دور ہونا چاہ رہی تھی ۔۔
” نظر کیوں نہیں آ رہے مجھے ۔۔ ؟؟”
وہ ادھر ادھر ہوا میں اپنے ہاتھ چلاتی کہنے لگی ۔۔
” دیکھنا چاہتی ہو مجھے ؟؟”
اس کے سوال پہ ۔۔ ایلا اثبات میں سر ہلانے لگی ۔۔
” ڈر جاؤ گی شاید ؟؟”
وہ گہرا مسکرا دیا تھا ۔۔
” مجھے ڈر نہیں لگتا ۔۔۔ مجھے خوف محسوس نہیں ہوتا ۔۔ تمہارا مجھے ڈرانے کا پلان غلط ہی ثابت ہو رہا ۔۔ ”
اور وہ مدھم سا ہنس دیا تھا ۔۔
” میں تمہیں ڈرا نہیں رہا ایلا ۔۔ محبت کرنا چاہ رہا ہوں ۔۔ ”
اسے اپنے کندھے پہ ۔۔ پھر سے لمس محسوس ہوا تھا ۔۔ جیسے اس نے اپنی ٹھوڑی ٹکائی ہو اسکے نازک کندھے پہ۔ ۔
” میں تمہیں دیکھ کیوں نہیں سکتی ؟؟”
وہ اپنا کندھا کسی نادیدہ چیز کی دسترس سے چراتی کہنے لگی ۔۔
” کیونکہ میں پری زاد ہوں ۔۔ ”
اس کا بوجھل لہجہ بےحد دھیما تھا ۔۔ کہ ایلا بوکھلا کے بیڈ سے نیچے اتری تھی ۔۔۔
” مم ۔۔۔۔ ”
اس سے پہلے وہ چلاتی ۔۔۔ کوئی اسے دیوار سے پن کر گیا تھا ۔۔
وہ ادھر ادھر دیکھتی ۔۔ خود کو چھڑانے کی کوشش کرنے لگی اس دسترس سے ۔۔
لیکن کچھ دیر میں ہی ۔۔ وہ ایلا کے وجود سے دور ہٹا تھا ۔۔ اور پھر وہ خوشبو کا حصار بھی گم ہو گیا تھا ۔۔
گہرے سانس لیتی ۔۔ وہ خوفزدہ نظروں سے ۔۔ کمرے کا جائزہ لینے لگی ۔۔ لیکن وہ خوشبو اب اس کے آس پاس نہیں تھی ۔۔
تبھی بھاگتی ہوئی ۔۔ دروازہ کھول کے کمرے سے باہر نکلی تھی ۔۔
” تم آگ ہو بہنام اور وہ موم ہے ۔۔۔ تم ختم کر دو گیں اسے ۔۔ بھسم ہو کے پگھل جائے گی وہ ۔۔ ”
وہ ایک ساحرہ ( جادوگرنی ) تھی ۔۔ اس کا نام ژاویلا تھا ۔۔ جو بہنام کو پسند کرتی تھی ۔۔
اور اب کچھ عرصے سے ۔۔ اسے ایک انسان کے عشق میں پاگل ہو کے ۔۔ تڑپتے دیکھ کے ۔۔ وہ بھی پاگل ہو رہی تھی ۔۔۔
” تم اس انسان کے نہیں ہوسکتے ۔۔ ”
وہ پھر سے بولی تھی ۔۔ بہنام نے ایک خاموش نظر اس پہ ڈالی تھی ۔۔
” تم آگ ہو آگ ۔۔ سب کو راکھ کر دینے کی طاقت ہے تم میں ۔۔ اور وہ مٹی ہے ۔۔ مٹی سے بنی ہے ۔۔ اس کی کیا اوقات کہ وہ تمہارے مقابل آئے۔ ۔ تم مجھ سے عشق کرو ۔۔۔ ”
بہنام دھیمے سے مسکرایا تھا ۔۔
” تم بھی تو انسان ہو ۔۔ مٹی سے بنی ہوئی ۔۔ ”
” میں ساحرہ ہوں ۔۔ ژاویلا ہوں ۔۔ میں انسان کو اپنے دسترس میں کر سکتی ہوں ۔۔۔ ”
وہ دانت پیستی کہہ رہی تھی ۔۔ جبکہ بہنام ہنس پڑا تھا ۔۔
” اور میں جن زاد ہوں ۔۔ بہنام ہوں ۔۔ مجھے اس انسان سے محبت ہو گئی ہے ۔۔ عشق کے شعلوں میں تڑپ رہا ہوں میں ۔۔ اور میں اسے پا لوں گا ۔۔ اپنے عشق کی تڑپ میں ۔۔ اسے بوند بوند پاگل کردوں گا ۔۔ ”
بہنام کی آنکھوں میں ۔۔ اس کے ذکر پہ محبت سی ٹھہری تھی ۔۔
” وہ تم سے محبت کھبی نہیں کرے گی ۔۔ وہ انسان سے محبت کرے گی۔۔ ایک جن زاد سے وہ کیوں محبت کر کے اپنا آپ برباد کرے گی ۔..”
بہنام نے اپنی سرخ ہوتی آنکھوں سے اسے دیکھا تھا ۔۔ اور پھر آگے بڑھ کے ۔۔ اس کا جبڑا اپنی مٹھی میں بھینچا تھا ۔۔
” اسے مجھ سے ہی محبت ہوگی ۔۔ مجھ سے ۔۔ بہنام سے ۔۔ اپنے اور اس کے بیچ آنے والے ہر ذی روح کو بھسم کر دوں گا میں ۔۔ ”
ژاویلا اپنا آپ چھڑا کے ہنسنے لگی ۔۔۔
” اپنے عشق کے آگ میں ۔۔ ایلا کو بھسم کردو گیں۔ ۔۔ میں ناممکن بنا دوں گی ۔۔ اس کا تم سے محبت کرنا ۔۔ اس کے دل تک تمہارے عشق کی آنچ میں کھبی پہنچنے نہیں دوں گی ۔۔۔ تمہاری محبت پہ میرا حق ہے ۔۔ اور میں اسے چھین لوں گی تم سے ۔۔ ”
ہوا کے جھونکے کی تیزی سے ۔۔ وہ ژاویلا تک پہنچا تھا ۔۔ اپنا بھاری ہاتھ ۔۔ اس کے سینے پہ رکھ کے ۔۔ وہ جیسے ژاویلا کی سانسیں روکنے لگا ۔۔
وہ غم و غصے سے ۔۔ زرد پڑتی اسے دیکھ رہی تھی ۔۔ جب جھٹکے سے ۔۔ بہنام نے اسے دور کر دیا خود سے اور وہ دیوار سے جا لگی تھی ۔۔
” تم جادوگرنی ہو بس ۔۔ اور میں پری زاد ہوں ۔۔ مجھ سے زیادہ طاقتور نہیں ہو تم ۔۔۔ میرے راستے سے دور رہو تم ۔۔ ”
وہ غرایا تھا ۔۔ جبکہ ژاویلا اپنی سانسیں بحال کرتی ۔۔ اسے غیض و غضب سے دیکھ رہی تھی ۔۔۔ جب وہ غائب ہو گیا ۔۔۔
” نہیں بہنام نہیں ۔۔ تم میرے ہو صرف میرے ۔۔ ”
ژاویلا دانت پیستی غرائی تھی ۔۔
” مجھے نہیں کرنی کسی کاوش سے شادی مما پلیز ۔۔۔”
ڈنر کرتے ہوئے ۔۔ اس نے منہ بنا کے کہا تھا ۔۔ جبکہ زینیہ اور خلیل بہزاد نے گھور کے ۔۔ اپنی سر چڑھی بیٹی کو دیکھا تھا ۔۔
اور عائش نے اپنی ہنسی دبائی تھی ۔۔
” کیوں نہیں کرنی شادی ۔ ؟؟ کزن ہے وہ تمہارا ۔۔۔”
زینیہ نے جھڑکا تھا اسے ۔۔
” ہاں تو ؟؟ میرے بہت سے کزنز ہیں سب سے شادی کر لوں ؟؟”
ایلا کا منہ بن گیا تھا ۔۔
” بہت سر چڑھ گئی ہے یہ لڑکی ۔۔ دیکھ رہے ہیں آپ خلیل ۔۔ آپ بات کر رہے ہیں یا میں اپنے طریقے سے بات کروں ؟؟”
اب رخ خلیل کی طرف ہوا تھا ان کا ۔۔ جبکہ وہ ہلکا سا مسکرائے تھے ۔۔۔
” آپ کا اندازِ گفتگو دیکھ لیا ہم نے ۔۔ کچھ نہیں بن پایا ۔۔۔ ہم خود بات کریں گے ۔..”
وہ مبہم سی خوشبو اسے اپنے آس پاس سے آتی محسوس ہو رہی تھی ۔۔
” ایلا ۔۔۔ ”
سرگوشی ہوئی تھی اور دل میں بےچینیاں کروٹ لینے لگی اپنے کمرے میں جانے کے لئے ۔۔
وہ چور نظروں سے سب کو دیکھ رہی تھی ۔۔ جیسے کوئی چوری تو نہیں پکڑ گیا اس کی ۔۔۔
وہ نہ جانے کیوں خوفزدہ نہیں تھی ۔۔ اسے خوف نہیں محسوس ہو رہا تھا ۔۔ اس لمس سے ۔۔ ان سرگوشیوں سے ۔۔ بلکہ اس کو اپنے وجود میں بےچینیاں بڑھتی محسوس ہوتی ۔۔
” ایلا ۔۔۔۔ ”
پھر سے سرگوشی ہوئی تھی ۔۔ اور وہ بوکھلا کے اپنی جگہ سے کھڑی ہوئی تھی ۔۔
” گڈ نائٹ ۔۔۔ ”
” کہاں جا رہی ہو تم ایلا؟”
زینیہ کی غصے بھری آواز گونجی تھی ۔۔ وہ مڑ کے انھیں دیکھنے لگی ۔۔
” مجھے نیند آ رہی ہے ۔۔ ”
جبکہ زینیہ حیرت سے اس کی آنکھوں کو دیکھ رہی تھی ۔۔
” تمہاری آنکھیں کیوں سرخ ہو رہی ہے ؟؟”
یہ تو ان بےچینیوں کا سحر تھا جو اسے اپنی طرف کھینچ رہا تھا ۔۔ تبھی اس کی آنکھیں سرخی مائل ہو رہی تھی ۔۔
” نیند کی وجہ سے ۔۔ ”
اس کی آواز بھی بوجھل ہو رہی تھی ۔۔ جیسے اب سکت نہیں رہی ۔۔ اور یہ سب اس پہ بہنام کی وجہ سے ہو رہا تھا ۔۔
لیکن وہ بےخبر تھی اس بات سے ۔۔
” کتنے سوال کریں گی مما آپ بھی ۔۔ جاؤ ایلا ریسٹ کرو جا کے ۔۔ ”
عائش نے جیسے اس کی مشکل آسان کر دی تھی ۔۔۔ تبھی وہ بھاگتی ہوئی سیڑھیوں کی طرف گئی تھی ۔۔ جبکہ خلیل نے آنکھوں کے اشارے سے ۔۔ اسے پرسکون رہنے کو کہا تھا ۔۔ اور زینیہ ایک خفگی بھری نظر ڈال کے رہ گئی ان دونوں پہ ۔۔ کہ ایلا اپنے خالہ زاد کے لئے انکار کر چکی تھی ۔۔ اور اسے غصہ آ رہا تھا اس بات پہ ۔۔
وہ جیسے ہی بیڈ روم میں آئی ۔۔ تو وہاں نیم تاریکی تھی ۔۔۔ اس کی آنکھیں حیرت سے پھیلی تھی ۔۔
جب اپنے روم میں ستاروں کی بارش دیکھی تھی اس نے ۔۔۔
پورا کمرا ستاروں سے بھرا ہوا تھا ۔۔۔
” یہ کیا ۔۔۔ ”
وہ تیزی سے باہر جانے کے لئے مڑی تھی دروازے کے ہینڈل پہ ہاتھ رکھا ہی تھا ۔۔ جب اپنے ہاتھ پہ ۔۔ اسے بھاری ہاتھ کا احساس ہوا ۔۔۔
دھڑکتے دل کے ساتھ ۔۔ اس نے نظریں دوڑائی تھی ۔۔ لیکن کوئی نہیں تھا ۔۔
وہی مبہم سی خوشبو اسے پھر سے اپنے حصار میں لے رہی تھی ۔۔
” Don’t go please .. Ella ”
لہجہ بوجھل تھا ۔۔
” بھوت کو انگلش بھی آتی ہے ؟؟”
وہ سب بھول کے حیرت سے مڑی تھی ۔۔۔ اور نظریں پھر سے گرد گھومنے لگی ۔۔۔
” بھوت کو بہت کچھ آتا ہے ”
شرارتی سا لہجہ تھا ۔۔
اپنے ہاتھ پہ پھر سے لمس محسوس ہو رہا تھا اسے ۔۔ تو تیزی سے پیچھے ہوئی تھی ۔۔
کلائی جیسے جل رہی تھی ۔۔
” یہ ستارے تمہارے قدموں میں بچھنا چاہ رہے ہیں ۔۔ ”
ایلا گہرا سانس لیتی ۔۔ اپنے قدموں کے نیچے بچھتے ستاروں کو دیکھ رہی تھی ۔۔
” تم کون ہو ؟؟ ”
وہی تکرار سوال ۔۔
” تم یہ پوچھو کہ تم کون ہو؟؟”
بہنام کی آواز اسے سنائی دی تھی ۔..
” میں ؟؟ میں ایلا ہوں ”
پریشانی سے ادھر ادھر ہوا میں اپنا ہاتھ لہراتے ۔۔۔ اس نے جواب دیا تھا ۔۔
” نو ۔۔ تم میری بیوی ہو ”
اس کے جواب پہ ۔۔ ایلا بدک کے پیچھے ہٹنا چاہ رہی تھی ۔۔
جب کھینچ کے اسے اپنے سینے سے لگایا تھا ۔۔۔ پرحدت سانسیں ۔۔ ایلا کو اپنے چہرے پہ محسوس ہونے لگی ۔۔
تبھی وہ پھڑپھڑانے لگی ۔۔ خود کو چھڑانے کے لیے ۔۔۔
” لیو می ۔۔۔ ”
” نہیں چھوڑ سکتا ۔۔ بیوی ہو تم میری ۔۔ ”
لہجہ بھاری اور پرسکون تھا ۔۔
” کون سی بیوی ؟؟ لیو می ”
ایلا چلائی تھی ۔۔۔
” تم سو رہی تھی ۔۔ تمہیں یاد بھی نہیں ہوگا جب میں تمہیں اپنے ساتھ لے گیا تھا ۔۔ اپنی دنیا میں ۔۔ اور تمہیں اپنا بنا گیا ۔..”
ایلا کو اپنا سکون غارت ہوتا محسوس ہو رہا تھا ۔۔۔
” میں نہیں۔ ہوں تمہاری بیوی ۔۔ میں ایلا ہوں ۔۔ لیو می ۔۔ ”
وہ غصے سے پھنکاری تھی ۔۔ جب اپنے لبوں پہ اسے نرمی سے انگوٹھا پھیرنے کا احساس ہوا تھا ۔۔۔ اور وہ جیسے ساکت ہو گئی تھی ۔۔
اور پھر پرحدت لمس اپنے کان کی لو پہ اسے احساس ہوا تھا ۔۔
” بہت جلد ہم آمنے سامنے ہوگیں۔ ۔ تم مجھ سے الگ نہیں ہو ۔۔۔ ہشششششش ”
اور پھر اچانک سب غائب ہوگیا تھا ۔۔ حصار بھی ٹوٹ گیا تھا ۔۔ خوشبو بھی مدھم پڑ گئی تھی ۔۔ اور کمرے میں جو ستاروں کی بارش تھی ۔۔ وہ بھی رک گئی تھی اب کمرا روشن تھا ۔۔
وہ ادھر ادھر دیکھ رہی تھی ۔۔
” ک۔۔۔ کہاں ہو ؟؟”
اس نے گہرا سانس لیا تھا ۔۔ اب کوئی احساس نہیں تھا ۔۔۔ کوئی مبہم خوشبو نہیں تھی ۔۔
” ب۔۔۔ بہنام ”
اس نے پھر سے آواز دی تھی ۔۔۔ کھڑکی سے ہوا کا شور اندر آیا تھا ۔۔ کھڑکیوں پہ پڑے پردے لہرانے لگے تھے ۔۔۔
وہ سانس روکے سب دیکھ رہی تھی ۔۔۔
” ایلا ۔۔۔ ”
ہوا کے شور کے ساتھ ۔۔ اس کے نام کی سرگوشی ہوئی تھی ۔۔ اور پھر جیسے ہوا کی لہروں پہ ۔۔ سفید پھولوں کی بارش اندر آئی تھی ۔۔ اور پورا کمرا مہکا گئی تھی ۔۔ اور کچھ پھول کراؤن سا بن کے ۔۔ اس کے کھلے لمبے بالوں میں جذب ہوئے تھے ۔۔۔
” ایلا ۔۔۔ ”
پھر سے سرگوشی ہوئی تھی ۔۔ اور اپنے بیک پہ ۔۔ انگلیوں کی نرم سرسراہٹ اس نے محسوس کی تھی ۔۔۔
ہوا کی لہروں کا شور سا ہے ۔۔
پھولوں کے بارش کی مہکار سی ہے ۔۔
بہنام کا جنونی سا عشق ہو تم ۔۔
اور
میری موم سی محبت ایلا ہو تم ۔۔ !!
بھاری بوجھل سرگوشی پہ ۔۔ وہ ساکت سہ وہیں کھڑی رہی ۔۔
” یہ تم ٹھیک نہیں کر رہے بہنام ۔۔ یہ غلط ہے ۔۔ بہت غلط ہے ”
وہ اپنے خاص روم میں موجود غرا رہی تھی ۔۔ اس کے کالے ۔۔۔ سیاہ لمبے بال ۔۔ جو زمین کو چھو رہے تھے ۔۔۔ اور اس کی کاجل بھری سیاہ آنکھیں ۔۔۔ اور ہونٹوں پہ ڈارک میرون لپ اسٹک لگا ہوا تھا ۔۔
” مجھے تمہاری محبت چاہئیے ۔۔ تمہارا عشق میں ہوں ۔۔ میں اسے بھسم کردوں گی ۔۔۔ ”
دروازے پہ ہلکی دستک ہوئی تھی ۔۔
” آ جاؤ ۔۔ ”
وہ دروازے کی طرف متوجہ ہوتی بولی ۔۔ تو اس کا خاص بندہ کاھون اندر آیا تھا ۔۔
” کہو ؟”
” وہ لڑکی ایلا ۔۔ یونیورسٹی میں پڑھتی ہے ۔۔ اپنے پیرنٹس اور ایک بھائی کے ساتھ رہتی ہے ۔۔ ”
کاھون کے جواب پہ بھی وہ مطمئن نہیں ہوئی تھی ۔۔ تبھی ہاتھ اٹھاکے اسے روکا تھا ۔۔
” مجھے اس کے وجود کا کوئی حصہ چاہیے ۔۔ جس میں اس کی خوشبو بسی ہو ۔۔ یا جس سے میں اس کے وجود تک دسترس حاصل کر سکوں ۔۔”
آگ برساتا لہجہ تھا۔۔۔ جبکہ وہ اثبات میں سر ہلانے لگا ۔۔
” میں کوشش کروں گا کہ جلدی سے آپ تک پہنچا پاؤں ۔۔ ”
” کوشش نہیں کاھون ۔۔ یقینی بات کہو ۔۔ یقینی بات ۔۔۔ ”
ژاویلا نے اس کی بات کاٹی تھی ۔۔ اور وہ لب بھینچ گیا تھا ۔۔
” اس لڑکی کو میں پاگل بنا دوں گی ۔۔ اور پھر بھسم کردوں گی ۔۔ جس آگ کی دنیا میں بہنام اسے لے جانا چاہ رہا ہے ۔۔ اسی آگ میں اسے جلا دوں گی ۔۔ بہنام کے پہنچنے سے پہلے ہی ۔۔ جاؤ ”
ژاویلا اسے کہہ کے ۔۔ خود اپنے جادوئی قد آدم مرر کے سامنے جا کھڑی ہوئی تھی ۔۔۔
کاھون جا چکا تھا ۔۔۔ جبکہ اس مرر میں نظر آتے ایلا کے عکس کو دیکھ رہی تھی ۔۔
اس کی آنکھوں میں خاص چمک آئی تھی ۔۔
” میں ساحرہ ہوں ۔۔ جادوگرنی ہوں ۔۔ ایلا مت بھولو ۔۔ بہنام کے عشق کی آگ تم تک پہنچنے نہیں دوں گی ۔۔ بہنام میرا ہے ۔۔ تم جیسی عام لڑکی کا نہیں ۔۔ ”
اس کا لہجہ آگ برسا رہا تھا جبکہ کالی آنکھیں بےحد سرد تھی ۔۔