سپیدہ سحر نمودار ہو چکا تھا۔ سیدن شاہ کی حویلی میں زندگی بیدار ہو چکی تھی۔ جبکہ خود سیدن شاہ کی رات اس کی آنکھوں میں کٹ گئی تھی۔ اسے نیند ہی نہیں آئی تھی۔ نیند کا تعلق تو سکون اور اطمینان سے ہوتا ہے۔ جب انسان بے سکون اور بے اطمینان ہو تو پھر نیند بھی عنقا ہو جاتی ہے۔ وہ حد درجہ بے چین تھا۔ اس کی بے چینی میں خوف زیادہ شامل تھا۔ وہ آج تک خود کو طاقتور سمجھتا چلا آ رہا تھا، کسی میں مزاحمت کرنے کی جرأت نہیں تھی۔ اس صبح وہ خود کو قدرے کمزور محسوس کرنے لگا تھا۔ اس کی دوررس نگاہیں بہت ساری ہلچل دیکھ رہی تھیں۔ پہلی بار اسے لگا جیسے اس نے غلط فیصلہ کر لیا ہو۔ ورنہ حکم دینے ہوئے اس نے سوچا بھی نہیں تھا۔ وہ جو کہتا تھا، ہوجاتا تھا۔
گزشتہ شام وہ بہت خوش تھا۔ مریدین کی اچھی خاصی تعداد آئی ہوئی تھی اور معمول سے زیادہ نذر نیاز پیش کی گئی تھی۔ اس دوران پیراں دتہ بھی ہاتھ باندھے ایک طرف کھڑا رہا تھا۔ جب مریدین چلے گئے اور سیدن شاہ اٹھ کر اپنے کمرہ خاص میں آ گیا تو اس نے پیراں دتہ سے کہا۔
’’پیراں دتہ۔۔۔ تمہیں معلوم ہے کہ سالانہ عرس قریب آ رہا ہے۔ اس کی تیاریوں کے بارے میں کچھ کیا ہے کہ نہیں؟‘‘
’’وہ تو پیر سائیں جیسا آپ کہیں گے،ویسا ہی ہو جائے گا لیکن۔۔۔ ‘‘ وہ کہتے کہتے رک گیا۔
’’کیا بات ہے، تم خاموش کیوں ہو گئے ہو؟‘‘ سیدن شاہ نے چونکتے ہوئے کہا ۔
’’پیر سائیں۔۔۔ بات یہ ہے کہ آج جتنے مرید آ رہے ہیں۔ کیا سالانہ عرس تک یہ رہیں گے؟‘‘ اس نے جھجکتے ہوئے ادب سے کہا۔
’’کیا بکواس کر رہا ہے تو۔۔۔ کیا ہو گیا ہے؟‘‘ سیدن شاہ نے غصے سے پوچھا۔
’’پیر سائیں۔۔۔ حالات خراب ہوتے چلے جا رہے ہیں اور آپ اس پر توجہ نہیں دے رہے ہیں۔‘‘ اس نے کھل کر پھر بھی نہیں کہا تو سیدن شاہ کی تیوریوں پر بل پڑ گئے۔
’’کیسے۔۔۔ کیسے حالات خراب ہو گئے ہیں اور میں کیا توجہ نہیں دے رہا ہوں؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’پیرسائیں۔۔۔ مجھے نہیں معلوم کہ آپ اب تک علی کے معاملے میں خاموش کیوں ہیں۔ ہر آنے والے دن کے ساتھ لوگ اس کی جانب رجوع کرتے چلے جا رہے ہیں۔ کیا آپ کے علم میں یہ بات نہیں ہے پیر سائیں کہ اس ویرانے میں علی نے کنواں کھدوا لیا ہے۔ جہاں سے پانی میٹھا نکلا ہے۔ یہاں کے جاہل لوگ یہ اس کی کرامت سمجھ رہے ہیں۔ کچی بستی کے لوگ اب ٹوبے سے نہیں، وہاں اس کنویں سے پانی بھرنے جاتے ہیں۔ دن بدن وہاں میلہ لگتا چلا جا رہا ہے۔‘‘ پیراں دتے نے بڑے گمبھیر انداز میں کہا تو سیدن شاہ مسکرا دیا اور بولا۔
’’بس اتنی سی بات۔‘‘
’’بات یہیں تک محدود نہیں ہے پیر سائیں۔۔۔ خان محمد پوری طرح کھل کر اس کی مدد کرنے لگا ہے۔ آپ جو کہہ رہے تھے کہ پتہ کریں اس کے پیچھے کون ہے تووہ خاں محمد تھا۔ اس سے پہلے کہ لوگوں کو معلوم ہو۔۔۔‘‘ پیراں دتے نے کہنا چاہا لیکن سیدن شاہ نے اسے ٹوک دیا اور بڑے تحمل سے کہا۔
’’مجھے اندازہ تو پہلے ہی تھا کہ اس کے پیچھے خان محمد ہی ہو سکتا ہے۔ وہی اس علاقے میں سر اٹھا رہا ہے۔ اب کھل کر وہ سامنے آ گیا ہے تو کیا ہوا۔ اچھا ہے لوگوں کو معلوم ہو جائے۔ میں اسی وقت کا انتظار کر رہا ہوں۔‘‘
’’پیر سائیں۔۔۔ آپ اب بھی انتظار کر رہے ہیں جبکہ۔۔۔‘‘
’’ہاں پیراں دتہ۔۔۔ ہاں، جب میں علی کو یہاں سے ذلیل و رسوا کر کے نکالوں گا نا تو اس وقت جتنے لوگ بھی اسے جانتے ہوں گے وہ ہی عبرت پکڑیں گے۔ لازمی بات ہے کہ جب علی پر ہمارا عذاب نازل ہو گا تو خان محمد درمیان میں آئے گا۔ تب اس کا پتہ بھی صاف کر دیں گے۔ پورے علاقے کو معلوم ہونا چاہیے کہ جو بھی ہمارے سامنے سر اٹھاتا ہے، اس کا انجام برا ہوتا ہے۔‘‘ سیدن شاہ نے دانت پیستے ہوئے کہا۔
’’آپ کا حکم سر آنکھوں پر سائیں، لیکن اس کی و جہ سے وہ لوگ بھی، جو کیڑے مکوڑوں کی سی حیثیت رکھتے ہیں، سر اٹھانے لگے ہیں۔‘‘
’’کس کی یہ جرأت ہوئی ہے۔‘‘ سیدن شاہ نے چونکتے ہوئے کہا۔
’’وہی اماں فیضاں اور۔۔۔ مہرو۔۔۔ آپ نے حکم دیا تھا تھا کہ ایک ہفتے میں ان کی شادی ہو جانی چاہیے۔ لیکن نہیں ہوئی۔‘‘
’’کیوں۔۔۔‘‘ سیدن شاہ نے حیرت سے کہا جیسے یہ انہونی ہو گئی ہو۔
’’اماں فیضاں نے کوئی دلچسپی نہیں لی۔ جبکہ اس معمولی سی لڑکی مہرو نے صاف انکار کر دیا اور ہم نے انہیں پوچھا تک نہیں اور یہ سب علی کی و جہ سے ہوا وہی انہیں ورغلا رہا ہے۔‘‘ پیراں دتہ نے اپنی بات بڑے سلیقے سے کہہ دی۔
’’تو اس کا مطلب ہے کہ بغاوت کچی بستی سے شروع ہو گئی ہے۔۔۔‘‘ سیدن شاہ نے سوچ بھرے لہجے میں کہا اور پھر چند لمحے خاموش رہنے کے بعد کہا۔’’علی اس سارے فساد کی جڑ ہے۔‘‘
’’جی پیر سائیں۔۔۔‘‘ پیراں دتے نے انتہائی ادب سے کہا۔
’’تو پھر اسے ختم کر دو۔۔۔ اور اس سے اگلے دن بھیرے اور مہرو کی شادی ہونی چاہیے کوئی نہیں مانتا تو اسے بھی راستے سے ہٹا دو۔‘‘ سیدن شاہ نے حتمی انداز میں کہا تو پیراں دتہ فوراً بولا۔
’’جیسے حکم سائیں کا۔‘‘
’’جاؤ۔۔۔ مجھے آرام کرنے دو۔ صبح مجھے بتانا کیا ہوا۔‘‘ سیدن شاہ نے کہا تو پیراں دتہ فوراً چلا گیا۔ اس نے اپنی مرضی کافیصلہ سیدن شاہ سے کروا لیا تھا۔ اس لئے وہ دل ہی دل میں خوش تھا۔ اسے مہرو تک رسائی بہت قریب محسوس ہو رہی تھی۔ وہ تو چلا گیا لیکن اس کے دل کی بات سیدن شاہ کو معلوم نہیں ہو سکی۔ وہ رات کا کھانا کھا کر جب اپنے بستر پر لیٹا تو اسے پیراں دتہ کی باتیں یاد آئیں۔ تب اس نے غور کیا۔ اسے واقعتا حالات بدلتے ہوئے محسوس ہو رہے تھے۔ وہ ایک دم سے بے چین ہو گیا۔ چاروں طرف سے برے برے خیالات نے اسے گھیر لیا تھا۔ اس سارے مسئلے کا حل علی کا منظر سے غائب ہو جانا تھا ورنہ بہت کچھ خراب ہونے والا تھا۔ اس رات اس نے شدت سے سوچا کہ کاش اس کے پاس بھی کوئی روحانی قوت ہوتی۔ اب تک وہ اپنے بزرگوں کے نام پر ہی کھا رہا تھا۔
یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ بزرگوں نے اپنی محنت ، تقوے اور جدو جہد سے ، اپنا نفس مار کر جو روحانی بلندیاں حاصل کی تھیں۔ قرب الٰہی کے لئے جتنی محنت کی تھی، ان کی گدی نشین اس روحانی مقام کی گرد کو بھی نہیں پا سکتے ہیں۔ انہی بزرگوں کے نام کی برکت سے جو خانقا ہی نظام چل رہا ہے، اب وہاں تربیت نفش اور قرب الٰہی جیسے اعلیٰ مقاصد کا حصول نہیں بلکہ ہوس اور لالچ نے ڈیرے ڈال لئے ہیں۔ خاک نشینی اختیار کرنے والے بزرگوں کے گدی نشین تعیش والی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ممکن ہے یہ اعتراض ہو کہ محنت کے عوضانے کے طور پر قدرت نے انہیں نوازا ہے۔ بیشک ایسا ہی ہو گا۔ اللہ کسی کی مزدوری نہیں رکھتا۔ نسلوں تک اس مزدور کا پھل ملتا رہتا ہے۔ مگر المیہ یہی ہے کہ وہ مقصد جو فقراء کی زندگی کا لازمی جز ہوا کرتا تھا اب ناپید ہو گیا ہے۔
سیدن شاہ یہ سب چتا چلا جا رہا تھا اور بے چین ہو رہا تھا۔ ایک خیال اس کے ذہن کے کسی کونے میں تھا کہ میٹھا پانی نکلنے کا کوئی تصور نہیں کرسکتا تھا، اگر علی میں کوئی روحانی قوت ہوئی تو کیا اس کا بنا بنایا کھیل ختم ہو جائے گا؟ یہ سوچ محض چند لمحوں کے لئے آئی تھی۔، پھر اس سوچ نے اسے حوصلہ دیا کہ وہ کل کا ایک عام سا نوجوان اس قدر روحانی بلندیوں پرکہاں پہنچ سکتا ہے۔ اس کے لئے تو اک لمبی زندگی درکار ہوتی ہے۔ اسے شاید یہ علم نہیں تھا کہ اللہ کے لئے کچھ بھی ناممکن نہیں ہے۔ وہ جب چاہے ، جسے چاہے اور جتنا چاہے نوازدے، اب یہ انسان کی اپنی طلب ہے کہ وہ کیا چاہتا ہے۔
وہ نہیں سوچوں میں گم تھا کہ دور کہیں مسجد سے صبح کی اذان بلند ہوئی اور پھر اس کے ساتھ حویلی کے چوکیدار اس تک آن پہنچے۔ پیراں دتہ اس کے پاس آیا تھا۔
’’کیا بات ہے پیراں دتہ۔اس وقت کیا کرنے آئے ہو۔؟‘‘
’’پیرسائیں۔۔۔ علی نشانے پر تھا لیکن عین اس وقت مہرو وہاں پرآ گئی۔‘‘ اس نے تیزی سے کہا۔
’’تو کیا ہوا، دونوں کو مار دیا ہے ۔‘‘سیدن شاہ نے اطمینان سے کہا۔
’’نہیں سائیں۔۔۔ فائر ہونے کے باوجود علی بچ گیا۔‘‘
’’دوسرا فائر کردینا تھا۔‘‘ سیدن شاہ کااطمینان وہی تھا۔
’’جنہیں بھیجا تھا۔ وہ بھاگ گئے ہیں۔ انہیں مہرو نے دیکھ لیا تھا۔‘‘ پیراں دتہ اپنی ہی جونک میں کہے چلا جا رہا تھا۔ تب سیدن شاہ نے غور سے اس کی طرف دیکھا۔ بات اس کی سمجھ میں نہیں آئی تھی۔ وہ چندلمحے سوچتا رہا پھر بولا۔
’’جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے پیراں دتہ۔۔۔ تم کبھی اتنے گھبرائے ہوئے میرے پاس نہیں آئے ہو۔ تم نے نجانے کتنے لوگوں کی زندگی ختم کی ہے۔ اس معمولی واقعے سے تم خوف زدہ کیوں ہو گئے ہو۔‘‘
’’سائیں۔۔۔ میں خوف زدہ نہیں۔، آنے والے کل کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔ اگر مہرو نے ان کے بارے میں بتا دیا تو۔۔۔‘‘
’’تو۔۔۔ تم اسے بھی ختم کر دو۔۔۔‘‘ سیدن شاہ نے کہا تو پیراں دتہ کا ایک رنگ آکر گزر گیا۔ اس نے جو سوچا تھا وہ نہیں ہو پایا تھا اور سیدن شاہ نے اسے ایک نیا حکم دے دیا۔
’’جیسے حکم سائیں کا۔۔۔‘‘ اس نے مردہ سی آواز میں کہا اور واپس پلٹ گیا۔ سیدن شاہ واپس اپنے بستر پر آن لیٹا۔ ساری رات وہ جس بات پر غور کرتا رہا تھا۔ اس کا نتیجہ سامنے آ گیا تھا۔ اسے محسوس ہونے لگا جیسے علی اس کی مزاحمت کے لئے اس کے سامنے آ کھڑا ہوا ہے۔ وہ پوری سنجیدگی سے سوچنے لگا کہ اب اسے کیا کرنا ہے۔
*۔۔۔*۔۔۔*
اس وقت دن کا پہلا گزر چکا تھا۔ شہر کی سڑکوں کا زور لمحہ بہ لمحہ بڑھتا چلا جا رہا تھا۔ ایسے میں فرزانہ خاں اپنی گاڑی کی پچھلی نشست پر بیٹھی مسلسل سوچ رہی تھی۔ اسے یہ خبر ہی نہیں تھی کہ ڈرائیور کس راستے سے جا را ہے۔ اس کا پورا دھیان اپنی اس سوچ کی طرف تھا کہ آج اس نے کام کا آغاز کرنا ہے۔ محض ایک ہفتے میں اس نے تمام تر انتظامات مکمل کر لئے تھے۔ بلاشبہ ان سارے انتظامات میں اس کے باپ سردار امیر خاں نے بہت مدد کی تھی۔ جہاں اسے یہ سوچنا تھا کہ وہ اپنے ان ساتھیوں سے کیا باتیں کرے گی جنہیں باقاعدہ تنخواہ پر رکھا گیا تھا۔ وہاں اسے کچھ دیر پہلے ناشتے کی میز پر اپنے باپ سے ہونے والی گفتگو بھی یاد آ رہی تھی۔ وہ اسے جتنا ذہن سے نکالنے کی کوشش کر رہی تھی وہ اسے اتنا ہی یاد آ رہی تھی۔ جیسے ہی وہ تیار ہو کر ناشتے کی میز پر آئی تھی تو سردار امین خاں نے اخبار ایک طرف رکھتے ہوئے اسے مخاطب کر کے کہا۔
’’ہوں۔۔۔ تو آج تم اپنے کام کا باقاعدہ آغاز کر رہی ہو؟‘‘
’’جی بابا سائیں۔‘‘ اس نے انتہائی اختصار سے کہا تو امین خاں سنجیدگی سے بولا۔
’’بیٹی۔۔۔ مجھے نہیں معلوم کہ تم کیا چاہتی ہو، تمہارا مقصد کیا ہے۔ میں یہ بھی نہیں کہوں گا کہ تم دولت برباد کرو گی، تمہیں کوئی تجربہ نہیں ہے لیکن۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے ایک لمحہ توقف کیا جیسے جو بات وہ کہنے جا رہا ہے اس کی نظر میں بہت اہم ہے۔ فرزانہ نے اپنے باپ کی طرف دیکھا تو وہ بولا’’میں تمہیں پھر سے یاد دلا دوں کہ تم پہلی لڑکی ہو جس نے خاندانی روایات کو توڑا ہے۔ میں تم سے یہ امید کرتا ہوں کہ تم کوئی ایسا کام نہیں کرو گی جس سے خاندان کی عزت پر حرف آئے۔‘‘
’’بابا سائیں۔۔۔ آپ کا فکر مند ہونا بجا ہے۔ آپ خاندان کے سربراہ ہیں اور ایک بیٹی کے باپ آپ مجھ پر یقین کریں۔ آپ کا اعتماد ہی میری قوت ہو گی۔‘‘ فرزانہ نے انتہائی نپے تلے لفظوں میں امین خاں کو تسلی دی۔
’’مجھے تم سے یہی امید ہے بیٹا۔۔۔ علاقے میں کوئی شخص میری طرف انگلی نہ اٹھائے، یہی تمہاری کامیابی ہے۔‘‘
’’بابا سائیں۔۔۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ سیاسی دنیا سے وابستہ ہیں اور سیاست کی دنیا میں مکر فریب، جھوٹ اور دھوکا بنیادی باتیں ہیں جبکہ میں مخلوق خدا کی خدمت کرنے کے لئے نکلی ہوں۔ جہاں سوائے عاجزی اور سچائی کے اور کچھ نہیں ہے۔ آپ کو معلوم ہے بابا سائیں کہ اس دنیا میں سچ کے لئے کتنی مشکلات ہوتی ہیں۔ میں ذہنی طور پر ایسی مشکلات کے لئے تیار ہوں اور آپ سے محض ایک درخواست کرنا چاہوں گی۔‘‘
’’بولو۔۔۔‘‘ امین خاں نے کہا۔
’’میں خود کو بھی تو آزمانا چاہتی ہوں۔ آپ کے خاندان کی میں بھی تو ایک فرد ہوں۔ میں اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر آگے بڑھنا چاہتی ہوں۔ میری درخواست یہ ہے کہ مجھے انگلی پکڑ کر چلنے پر مجبور نہ کیا جائے، کچھ وقت مجھے میری مرضی کے مطابق چلنے دیا جائے۔‘‘ فرزانہ خاں نے پھر نپے تلے لفظوں میں اپنا مدعا بیان کرنا چاہا تو امین خاں نے کہا۔
’’تمہارے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ میں تمہارے معاملات میں قطعاً کوئی مداخلت نہ کروں۔‘‘
’’جی۔‘‘ اس نے ادب سے کہا۔
’’وہ تو بیٹا میں پہلے ہی سوچ چکا ہوں۔ تم اگر اپنے مقصد میں کامیاب ہوئی تو مجھے خوشی ہو گی۔ نہ ہوئی تو تمہیں پتہ چل جائے گا کہ یہ دنیا اور اس کے معاملات کس قدر مشکل ہیں۔ خیر۔۔۔ میری دعائیں تمہارے ساتھ ہیں۔‘‘ امین خان نے مسکراتے ہوئے کہا اور پھر اشارے سے اسے ناشتہ کرنے کو کہا۔
فرزانہ خان یہی سوچتی جا رہی تھی کہ ڈرائیور نے ماڈل ٹاؤن کی اس کوٹھی کے سامنے گاڑی لا کر کھڑی کر دی جس میں اس نے اپنا دفتر بنایا تھا۔ گاڑی رکتے ہی ڈرائیور نے دروازہ کھولا توکوٹھی کے اندر چلی گئی جہاں اس کا سٹاف اس کے انتظار میں تھا۔
وہ کمرہ کانفرنس ہال کی طرح سیٹ کیا ہوا تھا۔ فرزانہ خاں سیدھی اسی ہال میں گئی اور اپنے لئے مخصوص نشست پر بیٹھ گئی۔ اس نے ایک نظر سب پر ڈالی، تین لڑکیاں اور پانچ لڑکے اس کے بولنے کے منتظر تھے۔ اس کے ساتھ ہی غلام نبی ایک نشست پر بیٹھا ہوا تھا۔ اس پر نگاہ پڑتے ہی فرزانہ کا دل کٹ گیا۔ ’’کاش۔۔۔ اس کی جگہ علی ہوتا تو وہ کس قدر فخر محسوس کرتی کہ اس کی محبت اس کے ساتھ ہے۔‘‘ اس نے فوراً اپنی بہکتی ہوئی ذہنی کو جھٹکا اور ان کی جانب متوجہ ہو گی۔ سلام و دعا اور رسمی جملوں کے بعد اس نے کہا۔
’’آپ سب میرے لئے معتبر ہیں، وہ اس لئے بھی کہ آپ سب میرے ساتھی ہیں اور ہم نے لوگوں کی خدمت کرنی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ یہاں سے آپ کو ایک معقول اعزازیہ ملے گا، مگر میں اس اعزازیے کے بدلے میں آپ سے کام نہیں چاہتی بلکہ میں چاہوں گی کہ آپ بھی خدمت خلق کے اعلیٰ جذبے سے معمور ہو کر کام کریں۔ میں آج پہلے دن سے ہی آپ پر واضح کر دوں کہ ہماری آرگنائزیشن کا کوئی سیاسی مقصد نہیں ہے اور نہ ہی ہم نے کسی سیاسی جماعت کا آلہ کار بننا ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ قدرت نے ہمیں بہت اچھا موقع فراہم کیا ہے کہ ہم اپنی دنیا اور آخرت دونوں بہتر بنا سکیں۔‘‘
’’لیکن میڈم۔۔۔ کوئی بھی فلاحی تنظیم یا آرگنائزیشن، بغیر پیسے سے نہیں چلتی، یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم اپنے فنڈز مہیا کرنے والے کے مقاصد کا خیال نہیں رکھیں گے۔‘‘ ایک لڑکے نے سوال اٹھایا تو فرزانہ خاں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’آپ کا سوال بالکل ٹھیک ہے۔ میں اس کے جواب میں کہہ سکتی ہوں کہ میرے خاندان کی دولت ہی بہت ہے مگر نہیں۔۔۔ یوں تو قارون کا خزانہ بھی خالی ہو جائے۔ ہم سیاسی قوتوں اور ان کے مقاصد سے ہٹ کر ڈونر کے ساتھ رابطہ کریں گے اور اپنی آرگنائزیشن کو کمرشل بنیاد فراہم کریں گے۔ میں قطعاً اس حق میں نہیں ہوں کہ آپ لوگوں کو تھوڑا تھوڑا دیں اور انہیں ہاتھ پھیلائے رکھنے پر مجبور کر دیں۔ بالکل نہیں، بلکہ آپ خود انہیں مالی طور پر سہارا دے کر پاؤں پر کھڑا کر دیں۔ اس کے لئے میرے پاس پلان ہیں۔ میں آپ سے بھی مشورہ کروں گی۔‘‘
’’میڈم۔۔۔ ہمارا فوکس کیا ہو گا۔‘‘ ایک لڑکی نے اپنی عینک درست کرتے ہوئے سنجیدگی سے پوچھا۔
’’گڈ۔۔۔‘‘ فرزانہ خاں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’ہمارا فوکس انسانی صلاحیتیں ہوں گی۔ کوئی بھی این جی اور کیا کرتی ہے، ہمیں نہ اس کی تقلید کرنی ہے اور نہ ہی ان سے متاثر ہونے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنا کام کرنا ہے۔ ہمارا فوکس انسانی صلاحیتیں ہوں گی۔ وہ انسانی صلاحیتیں جو دوسرے لوگوں کے کام آ سکیں۔ بس ہمیں انہیں پرموٹ کرنا ہے۔ یہاں کا زبردست آرٹ کلچر ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے سب کی طرف دیکھا۔ کسی کی جانب سے کوئی سوال نہیں آیا تو وہ بولی۔ ’’میں نے اب تک جو کچھ پڑھا ہے، سیکھا ہے یا مشاہدہ کیا ہے، اس کی بنیاد پر میں آپ سے چند باتیں کرنا چاہوں گی۔ پلیز۔۔۔ آپ انہیں ذہن نشین کر لیجئے گا۔ اس سے آپ کو یہ بھی اندازہ ہو جائے گا کہ میں کس طرح سوچتی ہوں۔‘‘
’’سب سے پہلی بات یہ کہ ہمیں ہمیشہ تعمیری سوچنا ہے۔ ہمارے معاملات کتنے کٹھن کیوں نہ ہوں یا مسائل کس قدر الجھے ہوئے کیوں نہ ہوں۔ آپ غور کریں ان میں کامیابی پڑی ہوئی ہوتی ہے۔ یہ آپ کی صلاحیت ہے کہ آپ اس کامیابی کو کیسے اور کس وقت پہچانتے ہیں۔ گھمبیر ترین مسائل میں چھپی ہوئی کامیابی کو وہی لوگ پہچان سکتے ہیں جو تعمیری سوچ رکھتے ہیں۔ تخریبی سوچ بندے کو مزید منتشر کر دیتی ہے۔‘‘
’’دوسری بات جو میں آپ سے کہنا چاہوں گی وہ یہ ے کہ انسان کے عقائد ہی اسے خوشحال اور کامیاب بناتے ہیں۔ درست عقائد بے چینی اور انتشار سے بچاتے ہیں۔ ہمیشہ اپنے عقائد کو سادہ اور مضبوط رکھیں۔ اب ہماری خوش قسمتی یہ ہے کہ ہمارا مذہبی حوالہ دین اسلام ہے جو نہایت سادہ اور مضبوط عقائد پر ہے۔ اور پھر ساری زندگی کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ ہم تمام تر قوتوں کا منبع اللہ پاک کی ذات کو مانتے ہیں تو اسی طرح اس کے اختیار کو بھی مانیں کہ وہ قادر ہے سب کچھ کر سکتا ہے۔ اس سے یہ ہو گا کہ ہمارا گمان ہمیشہ درست اور سچی باتوں پر رہے گا۔‘‘
’’تیسری اور آخری بات جو آپ سے کہنا چاہوں گی وہ یہ ہے کہ آپ نہ صرف اپنی ذاتی صلاحیتوں کو پہچانیں بلکہ دوسری کی صلاحیتوں کو بھی اہمیت دیں۔ آپ سمجھتے ہیں کہ ایٹم ایک ایسا معمولی ذرہ ہوتا ہے جو دیکھا نہیں جا سکتا مگر جب وہ جلتا ہے ٹوٹتا ہے، اپنا آپ منوانا ہے تو ہمیں اس کی طاقت کا اندازہ ہوتا ہے۔آپ میری اس بات پر سوچیں اور اپنی زندگی سے مطابقت پیدا کریں۔ ذرے کی اہمیت یونہی نہیں بن جاتی، پہلے یہ ماننا ہو گا کہ ایسی قوت دینے والی کوئی ذات ہے اور پھر اس ذرے میں اپن آپ منوانے کی صلاحیت یونہی پیدا نہیں ہو جاتی ، اس پر محنت ہوتی ہے۔ اپنے آپ پر محنت کریں۔ سب سے پہلے خو د کو پرسکون رکھیں۔ اور اپنی زندگی کی تعمیر روحانی اصولوں پر کریں کیونکہ روحانی طور پر مضبوط شخص دوسرے لوگوں سے زیادہ اور جلدی کامیابی سے ہمکنار ہو سکتا ہے۔‘‘
فرزانہ خاں نے بڑے ٹھہرے ہوئے لہجے مں یہ ساری باتیں کہیں اور پھر خاموش ہو گئی۔ ایک سناٹا چھا گیا۔ کتنی ہی دیر تک کوئی بھی کچھ نہیں بولا تو اس نے کہا۔
’’میں نے جو ابتدائی طور پر کہنا تھا کہہ دیا۔ اگر اب آپ کچھ کہنا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں۔‘‘
’’میڈم۔۔۔ یہ کیا بات ہے کہ آپ ایک طرف کمرشل انداز میں کام کرنے کے لئے کہہ رہی ہیں اور دوسری جانب روحانی طور پر مضبوط ہونے کی بات کر رہی ہیں۔ کیا یہ تضاد نہیں ہے۔‘‘
’’نہیں۔۔۔‘‘ فرزانہ نے انتہائی سنجیدگی سے کہا۔ ’’دنیا داری بغیر پیسے کے نہیں چلتی۔ ہمیں پیسہ کمانا ہے لیکن روحانی طور پر مضبوط شخص دولت کو اہمیت نہیں دیتا اور نہ ہی اس کو جزو ایمان بناتا ہے صرف دنیا داری چلانے کے لئے دولت اور اپنی آخرت سنوارنے کے لئے روحانی طور پر مضبوطی۔ یہ تضاد نہیں توازن ہے۔‘‘
’’ہمارا لائحہ عمل کیا ہو گا؟‘‘ ایک لڑکے نے پوچھا۔
’’بہت سادہ۔۔۔ میں نے چند اصول وضع کئے ہیں۔ آپ اس کی روشنی میں اپنا لائحہ عمل ترتیب دیں۔ میرے خیال میں آپ اپنی کارکردگی کو بہتر بنا سکیں گے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے سامنے پڑی فائل کھلی، اس میں سے ایک پیپر نکالا اور سب کی طرف دیکھ کر پڑھنے لگی۔
نمبر 1: ہمیشہ پرامید رہیں۔ اپنی قوت ارادی سے کام لے کر صحت مند نظریات کو اپنائیں۔
نمبر 2: ہمیشہ حقیقت پسند رہیں۔ جتنے بھی کٹھن حالات ہوں۔ ان کا تجزیہ حقیقت پسندی سے کریں اور اس کا حل بھی حقیقت پر مبنی ہو۔
نمبر 3: ذہنی صحت مندی کے لئے صحت مند خیالات ہی ضروری ہیں۔ ہمیشہ صحت مند سوچیں۔
نمبر 4: اپنے شعور کو ہمیشہ اپنے سچے اعتقاد پر نگاہ رکھنے کو کہیں یوں آپ لاشعوری طور پر اپنے سچے اعتقادات کی پیروی کریں گے۔
نمبر 5: ہمیشہ ان دوستوں کو فوقیت دیں جو صحت مند اور پرامید نظریات کے حامل ہوں۔ یہ زندگی کی جدوجہد میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔
نمبر 6: ہمیشہ قابل عمل اور تعمیری سوچ اپنائیں۔
نمبر 7: وہ ذات جس نے آپ کو تخلیق کیا ہے اور جس کی نعمتوں سے آپ استفادہ کر رہے ہیں۔ اس کا شکر ہر حال مں کریں۔ آپ اس کا شکر ادا کریں گے تو وہ آپ کو مزید دے گا۔ آپ رب العزت کے بارے میں ہمیشہ بااعتماد اور خوش گمان رہیں۔‘‘
فرزانہ خاں نے وہ پیپر پڑھا اور پھر دوبارہ فائل میں رکھ دیا۔ اور ان سب کی جانب دیکھنے لگی تبھی ایک لمبے سے نوجوان نے پہلی بار گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا۔
’’میڈم۔۔۔ ہم نے نظریات کی باتیں کر لیں۔ ماشا اللہ آپ کے خیالات بہت اچھے ہیں پتہ چلتا ہے کہ آپ کا مطالعہ خاصا وسیع ہے۔ آپ نے لائحہ عمل کے بنیادی اصول بھی ہمیں بتا دئیے میرا سوال یہ ہے کہ ہمیں کرنا کیا ہے؟ کیا خدمت کرنی ہے خلق کی اورہم یہ کیسے کر پائیں گے۔‘‘
’’یہ بھی بہت سادہ ہے۔ آپ نے سروے کرنے ہیں۔ لوگوں کو کیا مشکلات ہیں، ان کے مسائل کیا ہیں۔ پھر ہم نے اس سروے کے تناظر میں دیکھنا ہے کہ ہمارے وسائل کیا ہیں اور ہم ان کے کس طرح کام آ سکتے ہیں۔ اب آپ مجھے یہ بتائیں کہ ہمیں کیسے کرنا چاہیے۔‘‘
’’ظاہر ہے میڈم۔۔۔ سروے کے لئے سب سے پہلے کوئی علاقہ منتخب کیا جاتا ہے۔ ہم وہ علاقہ چن لیں ۔ پھر اس کے بعد ہم سب مل کر اس کے لئے سروے پلان تیار کر لیں گے اور اس کا جو فیڈ بیک ہو گا، اس کے مطابق ہم فیصلہ کریں گے۔‘‘
’’کسی اور کی کوئی رائے۔۔۔؟‘‘ فرزانہ خاں نے سب کی طرف دیکھ کر پوچھا تو سبھی خاموش رہے۔ کسی نے کوئی جواب نہیں دیا۔ تب اس نے انتہائی تحمل سے کہا۔ ’’دیکھیں علاقے کے اعتبار سے ہمارے ہاں روہی سب سے زیادہ توجہ کی مستحق ہے، شہر کے لوگوں کے لئے دیگر تنظیمیں بہت کام کر رہی ہیں۔ لیکن ہمیں وہاں تک پہنچنا ہے، جہاں زندگی اس ترقی یافتہ دور میں بھی سسک رہی ہے۔ آپ سب سے پہلے وہاں کا سروے کریں اور ایک ہفتے کے اندر مجھے رپورٹ دیں۔‘‘ فرزانہ نے کہا اور پھر چند لمحے کا انتظار کر کے اپنی فائل سمیٹ کر اٹھ گئی۔ اس کے اندر بہت کچھ سلگ اٹھا تھا۔ اس لئے وہ کوئی مزید بات نہیں کر سکتی تھی۔ وہ اپنے آفس میں چلی گئی۔ جبکہ دوسرے سب پہلے حکم پراپنے اپنے طور پر سوچنے لگے۔
وہ اپنے آفس میں آئی اور اپنی پرسنل سیکرٹری سے کہا۔
’’مجھے تھوڑی دیر کے لئے تنہا چھوڑ دیں۔ میں جب بلاؤں تو آپ آئیے گا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ چیئر پر بیٹھ گئی۔ سے ان لمحات میں علی شدت سے یاد آ رہا تھا۔ وہ پچھلی ساری یادیں بھول چکی تھیں۔ اگر کوئی یاد آتی بھی تھی تو ذہن سے جھٹک دیتی تھی۔ اسے یاد تھا تو محض وہ خواب اور خواب کا وہ ماحول ، وہ چند خواب ناک لمحوں پر اپنی زندگی کی پچھلی ساری یادوں کو قربان کر سکتی تھی۔ اس نے آنکھیں کھولیں تو پلکوں پر موتی ا ٹکے ہوئے تھے اور دل میں ایک ایسی لہر تھی جیسے صدیوں کی گم شدہ شے کے لئے دکھ کا اظہار ہو۔ اس نے طویل سرد آہ کھینچی، اپنی پلکوں کو صاف کیا اور پوری شدت سے ،دل کی گہرائیوں کے ساتھ علی کو من ہی من میں پکارا۔
’’کہاں ہوں۔۔۔ دیکھوں میں بہت بدل گئی ہوں، میں نے اپنا خاندانی تفاخر، اپنی ضد اور اپنی انا کو تج دیا ہے۔ آؤ۔۔۔ ایک بار آ کر دیکھو۔ میں پہلے والی فرزانہ نہیں رہی ہوں۔ آؤ پلیز۔۔۔مجھے بتاؤ کہ محبت کے لئے اہل کس طرح ہوا جاتا ہے۔‘‘
ایک بار پھر اس کی آنکھیں بھیگ گئیں تھیں۔ اس نے ٹشو سے اپنی آنکھیں صاف کیں۔ خود پر قابو پایا اور پھر سیکرٹری کو بلانے کے لئے انٹر کام اٹھا لیا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
دوپہر کا وقت ہو چکا تھا۔ گرمی کی شدت بڑھ چکی تھی۔ علی جنڈ کے د رخت تلے بیٹھا تھا اور اس کے سامنے کچی بستی کے وہی لوگ بیٹھے ہوئے تھے جو کبھی میاں جی کے پاس بیٹھتے تھے۔ ان میں چند چہرے نئے بھی تھے۔ جنہیں علی نے پہلی بار دیکھا تھا۔ ا ن کے دل میں کیا تھا، علی اسے بخوبی سمجھتا تھا۔ جب سے کنواں کھدا تھا اور اس میں سے میٹھا پانی نکلا تھا، کچی بستی کے لوگوں کا رویہ بہت حد تک بدل گیا تھا۔ ان میں سے چند جو میاں جی کے عقیدت مند تھے، انہوں نے ایک سبز چادر لا کر میاں جی کی خبر پر ڈال دی تھی۔ کوئی نہ کوئی وہاں آتا اور چراغ رکھ کر چلا جاتا۔ ایک رات تو کئی سارے چراغ وہاں جل رہے تھے۔ علی انہیں اور ان کی عقیدتوں کو دیکھتا رہا کسی کوبھی منع نہیں کیا۔ خان محمد کے بھیجے ہوئے مزدور اپناکام کر رہے تھے۔ مسجد کی بنیادیں مکمل ہو گئی تھیں اور اب وہ مدرسے کی بنیادیں کھود رہے تھے۔ وہ حیرانگی کی حد تک تیزی سے کام کر رہے تھے۔ احمدبخش ان کی نگرانی کرتاتھا اور علی۔۔۔ ان لوگوں کے پاس بیٹھا تھا، لوگ جو اس سے توقع کر رہے تھے وہ اس توقع پراترنے کے لئے پوری کوشش کر رہا تھا۔ لوگ چاہتے تھے کہ وہ بھی میاں جی کی طرح ان سے باتیں کرے۔ علی چاہتا بھی یہی تھا کہ لوگ آئیں اور اس کی باتیں سنیں۔ بعض اوقات علی خود پر حیران ہوتا تھا کہ وہ یونیورسٹی کے دنوں میں یا پھر اس سے پہلے کبھی بھی مذہبی نہیں رہا تھا۔ دن کے بارے میں اسے اتنا ہی معلوم تھا جتنا ایک عام مسلمان کو علم ہوتا ہے۔لیکن اب وہ جب بھی بات کرتا تو نجانے کہاں سے خیالات اس کے دماغ میں آتے اور ہ روانی سے کہتا چلا جاتا۔ وہ صبح فجرکی نماز کے بعد اللہ رب العزت سے یہی دعا مانگتا کہ اسے اللہ۔۔۔ مجھے نہیں معلوم کہ میرے ساتھ یہ کیا معاملہ ہو رہا ہے لیکن میری زبان سے کوئی ایسا کلمہ نہ نکلے جس سے تیری اور تیرے محبوب ﷺ کے بارے میں کوئی گمراہی کے راستے پر چل پڑے۔ اے اللہ۔۔۔ میری زبان سے وہ بات کہلواناجس سے تیری کبیریائی اور رسالت مآب ﷺ کی شان بیان ہو۔ اے اللہ مجھے سیدھا راستہ دکھا۔ بے شک تو ہی سیدھاراستہ دکھانے والا ہے۔‘‘ وہ پورے خلوص اورشدت سے یہ دعا مانگتا اور پھر خود میں اعتماد محسوس کرتا۔ وہ بھول چکا تھا کہ علم لدنی بھی ہوا کرتا ہے اور میاں جی اسے یہ عطا کر چکے تھے۔ اس پر اللہ کی طرف سے کیا کیا نوازشات ہو چکی تھی،اسے یہ خبر ہی نہیں تھی۔ انسان بلاشبہ بے خبر ہے۔ اسے یہ خبر ہی نہیں ہے کہ اللہ نے اس پرکس قدر رحم کیا ہوا ہے۔ اس کی پیدائش سے بہت پہلے سے ہی اللہ کارحم اور مہربانی کی شروعات ہو جاتی ہیں۔ جدید سائنس اور تحقیق سے کئی ایک راز افشاء کر رہی ہے۔ جس پرانسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ انسان کی اپنی ذات اور پھر کائنات ۔۔۔ قدرت الٰہی کے رازوں سے اٹا پڑا ہے۔ صدیوں سے انسان اس تگ و دو میں لگا ہوا ہے اور نجانے کب تک لگا رہے گا۔ لیکن جو بھی تحقیق سامنے آتی ہے اس میں حیرت تو ہونی ہی ہے لیکن اللہ کا کرم، رحم اور مہربانی بھی اس میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ انسان بے خبر ہے کہ کائنات انسان کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ یہ ہم ہی ہیں جو کائنات کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہوتے۔ جس انسان کو خبر مل جاتی ہے کہ اسے کائنات کے ساتھ کس طرح ہم آہنگ ہونا ہے اور وہ اس راہ پر چل نکلتا ہے تو سمجھیں وہ فلاح پا گیا۔ اب سوال یہ ہے کہ انسان اپنی خبر کہاں سے حاصل کرے۔ اسے کس طرح پتہ چلے کہ اللہ اس پرکس قدر رحم فرما رہا ہے تو اس کا بہت آسان اورسیدھا راستہ ہے اور وہ ہے قرآن۔ اور صاحب قرآن ﷺ ۔ سنت نبوی ﷺ کے راستے جب اللہ کے حضور جایا جاتاہے تو انسان کی ساری بے خبری دور ہو جاتی ہے۔
اس وقت علی بھی اللہ کے رحم و کرم اور نبی ﷺ کے رحمت اللعالمین ہونے کے بارے میں بات کر رہا تھا۔ لوگ ہمہ تن گوش سن رہے تھے کہ اچانک علی بولتے بولتے خاموش ہو گیا۔ جیسے کسی نے اسے ٹوک دیا ہو یا جیسے کسی نے اسے صدادی ہو۔ وہ چند لمحے خاموش رہا جیسے کسی کی بات سن رہا ہو۔ پھر تھوڑی دیر تک اسی خاموشی میں گزرے ہوئے لمحے سکوت کی نذر ہو گئے۔ وہ دھیرے سے مسکرا دیا اور پھر لوگوں کی طرف دیکھ کر بولا۔
’’آج میں آپ سے ایک اور بات کرتا ہوں۔ وہ بات محبت کے بارے میں ہے۔‘‘ علی نے اتنا کہا اور خاموش ہو گیا۔ اچانک موضوع کی تبدیلی پر لوگ تھوڑا ساکسمسائے لیکن خاموش رہے۔ تب علی نے کہنا شروع کیا۔
’’محبت۔۔۔ ہم نے کبھی سوچا کہ یہ محبت کہاں سے آئی ہے، انسان کے اندر موجود ہے تو اس کی تخلیق کرنے والا کوئی تو ہے۔ جس نے انسان کو تخلیق کیا۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس طرح نفرت بھی ہے اور دوسرے جذبے بھی۔ وہ سب اپنی جگہ ، ہم محبت کی بات کرتے ہیں۔ جس نے محبت کو تخلیق کیا، وہ خود کس قدر محبت رکھتا ہوگا۔ کیا یہ محبت نہیں ہے کہ اس نے تخلیق کیا آدم کو، تو اس کامطلب ہے پہلے محبت اللہ کے پاس تھی، اسی کی محبت نے آدم کو تخلیق کیا، اس نے آدم میں محبت ودیعیت کی۔ یوں اللہ کی محبت پہلی محبت ہے۔ وہ محبت سے ہمیں دیکھ رہا ہے اور کیا ہم محبت سے اسے دیکھ رہے ہیں؟ نوازشات اور عنایات تو وہیں ہوتی ہیں نا جہاں نگاہیں مل جائیں۔ اس طرح جب ہم اس نگاہ سے اللہ کو دیکھ ہی نہیں رہے تو محبت جو ہے وہ عشق میں تبدیل کیسے ہو گی۔ جان لو۔۔۔ کہ اللہ تعالیٰ عشق اسے ہی دیتے ہیں جو اس سے محبت کرتے ہیں۔‘‘
’’محبت دو طرح سے کی جاتی ہے، جذبات میں آ کر کی جانے والی محبت گھٹتی اور بڑھتی رہتی ہے کیونکہ انسانی جذبات کبھی ایک سطح پر نہیں رہتے۔ کبھی ان میں انتہا ہوتی ہے اور کبھی منتہا۔ وہ محبت جو پائیدارنہ ہو وہ حقیقی محبت نہیں ہوتی ہے۔ جو اعتقاد جتنا راسخ ہو گا۔ اسی قدر محبت کے درجات بلند ہوتے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ مقام عشق آ جاتا ہے اور جیساکہ میں نے کہا عشق اسے ملتا ہے جو محبت کا اہل ہوتاہے۔ محض جذبات کے تحت محبت کرنے والے نہ تو محبت کے اہل ہوتے ہیں اور نہ ہی وہ مقام عشق تک رسائی حاصل کر پاتے ہیں۔ کیونکہ عشق، محبت کا ہی اگلا درجہ ہے جہاں اپنا آپ دوسرے کو سونپ دیاجاتا ہے۔‘‘
’’آج تک ہم محبت اور عشق کی باتیں کرتے ہیں۔ کبھی محب اور عاشق کے بارے میں بھی بات کی۔ جب کوئی عاشق، عشق نہیں ہوتاتو وہ اپنے آپ کو سونپ دیتا ہے کہ وہ جو چاہے سو کرے۔ معشوق کی رضا میں دراصل عاشق کی رضا ہوتی ہے تو یہ طرز عمل کیا ہے؟ اسے بندگی کہتے ہیں اوربندگی کی معراج یہ ہے کہ جہاں حکم ملے کہ تم اپنی جن دے دو تو وہاں ایک لمحہ بھی نہ سوچا جائے اور جان سپرد کر دی جائے اور جہاں حکم ملے کہ اپنی جان کو بچا لو۔ تو ہزار کوششیں جان بچا دینے میں لگا د ی جائیں ۔ اپنی مرضی اور منشاء معشوق کی رضا کے مطابق ہو۔ تو پھر یہ بندگی اسی کی جچتی ہے۔ جو بندگی کے لائق ہو۔ عشق بھی اسی کو جچتا ہے جوعشق کے لائق ہو۔ عشق کرنے سے پہلے خود کو اس کا اہل کیاجائے تو یہی اہل عشق کہلائے جا سکتے ہیں۔ تب ہی بندہ قبولیت کاامید وار ہوتا ہے۔‘‘
’’اصل شے قبولیت ہے۔ اور قبولیت کیسے ہوتی ہے اس کا تمام تر معیار محبوب خدا ﷺ کی ذات اقدس ہے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ سے پوچھا جاتا ہے کہ گھر میں کیا چھوڑا، عرض کیا اللہ اور اللہ کار سول ﷺ کا نام۔ ہاتھ میں کیا ہے تھوڑا ساماں، چند کھجوریں۔ وہ سب سے زیادہ مقبول ٹھہرائی جاتی ہیں۔ معیار دولت نہیں، وہ خلوص ہے جو دل میں نہاں ہے، اس کا اظہار ہی دراصل عشق کی توثیق ہے۔ یہی محبت ہے، یہی عشق ہے، اور یہی اہلیت محبت ہے۔‘‘
علی نے نہایت تحمل سے دھیرے دھیرے کہا۔ اس کا انداز سمجھانے والا تھا، جو بھی جتنا سمجھا اس نے اپنا پیغام کہہ دیا اور پھر سے اسی حالت میں چلا گیا جیسے کچھ سوچ رہا ہے۔ چند لمحے اسی کیفیت میں گزر گئے۔ شاید وہ مزید ایسی حالت میں ہی رہتا کہایک نعرہ مستانہ پرچونک گیا۔
’’حق اللہ۔۔۔ حق حق حق۔۔۔۔۔۔‘‘
علی نے سر اٹھا کر دیکھا۔ بیٹھے ہوئے لوگوں کے پیچھے ایک درویش کھڑا تھا۔ سیاہ رنگ کا چوغہ، جس میں جا بجا پیوند لگے ہوئے تھے۔ سفید براق لمبے بال جوکاندھوں سے بھی نیچے گئے ہوئے تھے اور انہیں بڑی نفاست سے کنگھی کیا ہوا تھا، اسی طرح سفید براق ڈاڑھی ، بڑی بڑی مونچھیں سرخ و سفید چہرہ، جیسے سیندورملامیدہ۔ غلافی آنکھیں، جس میں زندگی کی بھر پور چمک تھی، ستواں ناک، لمبا قد، ننگے پاؤں اور دائیں ہاتھ میں لمبا سا عصا کڑے علی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ پھر جیسے ہی علی کی نگاہ اس پر پڑی۔ اس نے پھر سے وہی نعرہ مستانہ لگا دیا۔
’’حق اللہ۔۔۔ حق حق حق۔۔۔‘‘
’’بے شک وہی ذات برحق ہے بزرگو۔۔۔ آؤ، تشریف لے آؤ۔‘‘ علی نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا تو وہ چند قدم آگے بڑھ آیا۔ اس نے عصا بائیں ہاتھ میں کرتے ہوئے دائیں ہاتھ کو مصافحہ کے لئے آگے بڑھایا اور کہا۔
’’السلام علیکم۔۔۔‘‘
علی نے اپنا ہاتھ بڑھاتے ہوئے سلام کا جواب دیا۔ مصافحہ ہوا تو اس درویش نے علی کا ہاتھ چوم لیا۔ علی نے اپنا ہاتھ دھیرے سے واپس لیا اور کہا۔
’’درویش بابا۔۔۔ تشریف رکھیں۔‘‘
’’علی نے کہاتو سہی لیکن اس شخص پرکوئی اثر نہیں ہوا۔ وہ اس طرح کھڑا رہا۔ علی اس کی طرف دیکھتا رہا۔ چند لمحے یونہی گزر گئے۔ تب اس نے کہا۔
’’حضور یہاں بیٹھنے کے لئے آپ کا حکم سرآنکھوں پر، لیکن میری ایک بات سن لیں جو میں عرض کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’بولیں۔۔۔‘‘ علی نے کہا۔
’’بہت سفر کر چکا ہوں، اتنا سفرکہ مجھے بھی نہیں یاد کہ کتنا سفر ہو گیا ہے۔ یہ بھی یاد نہیں رہا کہ ہماری منزل ہے بھی یا نہیں۔۔۔ مگر اب حکم ہوا ہے کہ سفر ختم ہو گیا ہے۔ آپ نے اگر بیٹھنے کا حکم دیا ہے تو پھر یہاں سے جانے کا مت حکم دیجئے گا۔‘‘
’’آپ کی اور میری مرضی کی اہمیت کیاہے درویش بابا۔ جب حکم آ گیا ہے تو پھر اسی کی رضامیں راضی ہیں اورآپ کیا سمجھتے ہیں کہ میں کوئی حکم آپ کودے سکتا ہوں۔‘‘
’’بے شک۔۔۔ درجات اللہ کے ہاں ہیں۔ مجھے اپنی خدمت میں قبول فرمائیں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ زمین پربیٹھ گیا اورپھر وہی نعرو لگایا۔ ’’حق اللہ ۔۔۔حق حق حق۔۔۔‘‘
اتنے میں علی اٹھااور قریب پڑے گھڑے تک گیا۔ پیالہ لیا، اس میں پانی بھر ا اور لاکر درویش بابا کو دے دیا۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے پکڑا اور عین سنت کے مطابق پیا اور پیالہ واپس کر دیا۔ علی پیالہ گھڑے کے قریب رکھ کر واپس آیا تو وہ درویش بولا۔
’’حضور آپ کا نام جوبھی ہے، ہمیں آپ کو ایک خاص نام سے مخاطب کرنے کی اجازت ہے؟‘‘
’’اجازت ہے۔‘‘ علی نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔
’’آج سے ہی ہم آپ کو فقیر سائیں کے نام سے پکاریں گے۔‘‘ درویش بابا نے انتہائی سنجیدگی سے کہا تو علی پورے وجود سے کانپ گیا۔ سب سے پہلی بات جواس کے ذہن میں آئی تھی وہ یہی تھی کہ اس کے لئے اب کوئی نئی ذمہ داری آگئی ہے۔ دل ہی دل میں اس نے اس نئی ذمہ داری کو قبول کرلیا۔ علی نے جب لوگوں کی طرف دیکھا تو ان میں نئے نام کی بھنبھناہٹ جا ری تھی۔ اس نے کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ اٹھتے ہوئے بولا۔نماز کا وقت ہونے کو ہےمزدوروں کو کہیں کھانا کھائیں ، تاکہ پھر نماز کا اہتمام کیاجا سکے۔‘‘
اس نے کہا تو سبھی اٹھ گئے۔ تب علی نے درویش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’’آج سے آپ ہی یہاں پر موجود ہر شخص کو کھانا کھلائیں گے۔‘‘
’’جو حکم فقیر سائیں۔‘‘ درویش نے سر تسلیم خم کرتے ہوئے کہااورادھر ادھر دیکھنے لگا۔ اس کی نگاہ وہاں ٹھہر گئی جہاں کھانا تیار ہو چکا تھا۔ علی وضو کے لئے بڑھ گیا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
شام کے سائے پھیل گئے تھے۔ صحرا میں پھیلے ہوئے مویشی بھی اپنے اپنے ٹھکانوں پرآ گئے تھے ۔ ایسے میں کچی بستی کی ایک گلی میں مہرو چلی جا رہی تھی۔ جوبھی اسے دیکھتا حیران رہ جاتا۔ اس نے صاف ستھرے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ سر میں کنگھی کر کے چوٹی باندھی ہوئی تھی۔ آنکھوں میں کاجل، ہاتھوں پر مہندی رچائے وہ چلتی چلی جا رہی تھی۔ اس کا دھیان کسی کی طرف بھی نہیں تھا۔ جبکہ سب کی نگاہوں میں حیرانگی اس لئے زیادہ تھی کہ اس کے مہندی رچے ہاتھوں میں جلتاہوا چراغ پکڑا ہوا تھا۔ جسے وہ ہوا کے تھپڑوں سے بچائے چلتی چلی جا رہی تھی۔ یہاں تک کہ کچی بستی بھی ختم ہو گئی اور وہ اسے راستے پرچل پڑی جدھر قبرستان تھا۔
سورج غروب ہونے میں اتنا زیادہ وقت نہیں رہا تھا اور مہرو ہر طرف سے بے نیاز دھیرے دھیرے قبرستان کی طرف بڑھ رہی تھی۔ دو چار پرتجسس لوگ اس کے پیچھے ہوئے کہ آخر مہرو جا کدھر رہی ہے اور کیا کرنا چاہتی ہے۔ وہ قبرستان میں پہنچ گئی اورپھر سیدھی سانول کی قبر کے پاس آ کے رک گئی۔ اس نے قبر کے سرہانے چراغ رکھا۔ اپنے آنچل کا پلو کھولا تو اس میں صحرائی پھولوں کی پتیاں تھیں جو اس نے قبر پر بکھیر دیں ۔ پھر پائنتی کی طرف جا کرکھڑی ہو گئی۔ وہ کتنی ہی دیر قبر کو دیکھتی رہی۔ اس کی آنکھوں میں کاجل پھیل گیا۔ سانول کی ڈھیر ساری یادیں اسے گھیرے ہوئے تھیں۔ کافی دیر بعد اس نے بھیگے ہوئے لہجے میں کہا۔
’’سانول۔۔۔ مجھے نہیں معلوم کہ تم مجھ سے کتنا عشق کرتے تھے۔ میں ہی تمہارا عشق نہ جان سکی۔ بے وقوف تھی نا حالانکہ عشق تو چھپائے نہیں چھپتا اورجب یہ ظاہر ہوتا ہے تو فنا ہی فنا ہوتی ہے۔ یہ عشق بھی کتنا ظالم ہے نہ ہو تو انسان کو اپنے آپ کا پتہ نہیں چلتا، ہو جائے تو خود نہیں رہتا۔ میں نہیں جانتی کہ تم مجھ سے کتنا عشق کرتے رہے ہو لیکن اب جبکہ تو میرے سامنے نہیں رہا ہے۔ مجھے تم سے عشق ہو گیا ہے۔ میں اب سمجھنے لگی ہوں کہ یہ کیسی آگ ہوتی ہے۔ جو نہ جلاتی ہے اور نہ چین لینے دیتی ہے۔ جب تو خواجہ سائیں کی کافی کے بول گایاکرتا تھا نا کہ عشق اولڑی پیڑوو، لوکاں خبر نہ کائی۔ تو واقعی مجھے خبرنہیں تھی کہ یہ کس قدر اولڑی پیڑ ہے۔ یہ تو ہی جانتا تھا۔ آج میں اعتراف کرنے آ گئی ہوں سانول۔۔۔ مجھے تم سے عشق ہے۔ میں تمہاراانتظار کر رہی ہوں، تم میرے پاس آؤ گے یا پھر میں تمہارے پاس آ جاؤں۔ یہ زندگی ہی اب تیرے اور میرے درمیان میں ہے۔ میں چاہوں توابھی تیرے پاس آ جاؤں لیکن۔۔۔ میں کسی شرمندگی کے ساتھ تیرے پاس نہیں آنا چاہتی۔ میں انتظار کروں گی۔ اپنے رب سے تجھے مانگوں گی۔ میں نہیں چاہتی کہ جب میں تیرے سامنے آؤں تو تم سے نگاہیں نہ ملا سکوں۔ سانول۔۔۔ میں آج بھی تیری ہوں۔ اورکل حشر کے دن تجھے اپنے رب سے ضرور پاؤں گی۔ میں نہیں جانتی کہ تم مجھ سے کتنا عشق کرتے تھے لیکن میں جانتی ہوں کہ عشق کس قدر بے چین کر دیتا ہے۔ میں اسی بے چینی کے ساتھ انتظار کی آگ میں جلوں گی۔ تجھے اپنے رب سے مانگوں گی۔ اس وقت تک مانگتی رہوں گی، جب تک مجھے یقین نہ ہوجائے کہ تم میرے ہو۔۔۔ تم میرے ہو۔۔۔ تم میرے ہو۔۔۔ ‘‘ آخری لفظ کہتے ہوئے مہرو پھوٹ پھوٹ کر رو دی اور اس سے کچھ فاصلے پر کھڑے چند لوگوں کو یہ یقین ہو گیا کہ مہرو پاگل ہو چکی ہے۔
اس وقت اندھیرا چھا چکا تھا۔ جب مہرو اپنے گھر واپس آئی۔ آنکھوں میں پھیلا ہوا کاجل اور ستا ہوا چہرہ اسے اک نئی مہرو کا روپ دے رہا تھا۔ وہ بے نیاز سی صحن میں بچھی ہوئی چارپائی پر آ بیٹھی۔ اسے یہ خبر ہی نہیں تھی کہ جنداں اور گامن اسے حیرت سے دیکھ رہے ہیں۔ جنداں غصے میں آگے بڑھی اور اس کی چوٹی سے پکڑ کربولی۔
’’تو اب اتنی بے حیا ہو گئی ہے کہ اپنی ماں کو بتائے بغیر جہاں جی چاہے چلی جاتی ہے۔ تجھے کچھ خبر بھی ہے کہ تو کیا کرتا پھر رہی ہے۔‘‘
’’مجھے صرف اتنی خبر ہے ماں کہ مجھ سے بڑا ظلم ہوا، میں سانول کے عشق کو نہ پہچان سکی، لیکن اب پہچان گئی ہوں۔‘‘ وہ پاگلوں کی طرح اپنی ماں کی طرف دیکھتے ہوئے کہتی رہی جس پرجنداں نے بھنا کر ایک تھپڑ اس کے منہ پر مار دیا۔
’’بے حیا، بے غیرت۔۔۔ تمہیں شرم نہیں آتی، اپنے ماں باپ کے سامنے کیا بکے جا رہی ہے۔ تجھے کچھ ہوش ہے کہ نہیں۔‘‘
’’جب رب سے ہی پردہ نہیں ہے تو پھر بندوں سے کیا پردہ۔۔۔‘‘ وہ بے خود ہو رہی تھی اور اسی لہجے میں کہتی چلی گئی۔
’’میں تجھے جان سے ماردوں گی۔‘‘ جندانے غصے میں ایک اور تھپڑ اس کے منہ پر مار دیاتو مہرونے قدرے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’مار دو۔۔۔ اچھا ہے، میں جلدی سانول کے پاس چلی جاؤں گی۔‘‘
’’چھوڑ دو جنداں اسے۔ یہاپنے آپ میں نہیں ہے۔ یہ پاگل ہو گئی ہے۔‘‘ گامن نے گلوگیر لہجے میں کہا۔ ا سکا دل اپنی بیٹی کی حالت دیکھ کر رو رہا تھا۔ وہ بیٹی جس سے وہ بہت پیار کرتا تھا۔ اس کے سامنے زندہ لاش کی مانند ہو گئی تھی۔
’’نہ بابا نہ۔۔۔ میں پورے ہوش و حواس میں ہوں، مجھے کچھ نہیں ہوا۔ بس میری التجاء یہی ہے کہ مجھے میر حال پر چھوڑ دیا جائے۔‘‘ مہرو نے کہا تو جنداں تنک کر بولی۔
’’کیسے چھوڑ دیا جائے تجھے تیرے حال پر۔ تو جتنا مرضی ڈھونگ رچالے، تیری شاید بھیرے کے ساتھ ہو کر رہے گی۔ صرف کل کا دل ہے تیرے پاس، پرسوں تجھے ہر حال میں بیاہ کر اس کے گھر جانا ہے۔ نہیں جائے گی تو تیرا بھائی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہو گا۔ تب اسے سیدن شاہ بھی نہیں بچا پائے گا۔ سن لیا تم نے۔‘‘
’’اور تم بھی سن لو ماں۔۔۔ بھیرا میرے بھائیوں کی طرح ہے۔ میں اب اس سے نہیں کسی سے بھی شادی نہیں کروں گی۔ میں سانول کی ہو چکی ہوں۔ وہ ہی میرا عشق ہے، وہی میرا دولہا۔ مارنا چاہو تو ابھی مار دو۔۔۔ مجھے خوشی ہو گی کہ میں سانول کے نام پر مری ہوں۔‘‘
’’جنڈاں۔۔۔‘‘ گامن نے سختی سے کہا۔’’ کیوں اس سے بحث کر رہی ہو۔ جب فیضاں ہی اپنے بیٹے کو بیاہنے کے لئے تیار نہیں ہے تو پھر کیوں اس کا دماغ خراب کرتی رہتی و۔‘‘
’’کیوں تیار نہیں ہے۔ آج پیراں دتہ آیا تھا۔ اس نے ہی کہا ہے کہ وہ پرسوں مہرو کو بیاہنے کے لئے آ رہے ہیں۔ کل معاہدے کی تاریخ ختم ہو جائے گی۔ پولیس رب نواز کو پکڑ کر لے جائے گی۔‘‘
’’کچھ نہیں ہو گا۔ اللہ کرم کرے گا۔ تم جاؤ۔‘‘ گامن نے اپنی بیوی سے کہا اور پھر خود اپنی بیٹی کے پاس بیٹھ گیا۔ اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا۔ ’’میری بیٹی۔۔۔ ہم پر یہ جو بیٹھے بٹھائے طوفان آ گیا ہے۔ ہمیں اس کا مقابلہ تو کرنا ہے۔ تمہیں کسی کے ساتھ شادی تو کرنی ہے۔ بھیرے کے ساتھ کر لو گی تو تیرے بھائی کی جان بچ جائے گی۔ عقل سے کام لو میری بیٹی اور۔۔۔‘‘
’’بابا۔۔۔ میری شادی سانول سے ہوچکی ہے۔‘‘ مہرو نے کہا اور اٹھ کر اندر کمرے میں چلی گئی۔ دونوں میاں بیوی حیران نگاہوں سے اس کی طرف دیکھنے لگے۔ دونوں کے ہی گمان تھا کہ مہرو پاگل ہو چکی ہے۔
*۔۔۔*۔۔۔*
اس وقت سیدن شاہ مریدین کے ہال کمرہ میں اپنی مسند پر بیٹھا ہوا تھا۔ مریدین کی اچھی خاصی تعداد اس کمرے میں موجود تھی جو اپنی باری کے انتظار میں تھی۔ ہر کسی کو محض چند لمحے مل رہے تھے۔ وہ اپنا دکھ اور مسئلہ بیان کرتا، سیدن شاہ سے سنتا اور پھر اگلے شخص کی باری آ جاتی۔ یوں سلسلہ چل رہا تھا۔ تعویذات اور دم پھوک کے لئے اس نے کچھ بندے مامور کئے ہوئے تھے جو پہلے ہی تعویذ تیار کر کے رکھ چھوڑتے تھے۔ ان میں کچھ طبع شدہ چھوٹے چھوٹے کاغذ کے پرزے بھی تھے جن پر درود وظائف لکھے ہوتے۔ ہر سائل یا مرید کو وہی دے دئیے جاتے۔ سیدن شاہ کے پاس تو محض اپنا مسئلہ کہنے اور اس کی زیارت کے گئے آتے تھے۔ ان مریدین میں یہ بات مشہور تھی کہ سیدن شاہ سارے دن میں لوگوں کے دکھ اور مسائل سنتے ہیں اور پھر رات کی تنہائی میں اللہ کے حضور ان کے لئے دعاگو ہوتے ہیں۔
مریدین کی آمد و رفت کا یہ سلسلہ دوپہر سے پہلے تک ختم ہو جایا کرتا تھا۔ اگر سیدن شاہ کا دل چاہے تو اس سے پہلے بھی اٹھ جاتا تھا۔ تاہم اس دن چند ہی مرید خواتین وہاں موجود تھیں جب باہر سے ایک ملازم نے آ کر پیراں دتے کے کان میں کہا کہ ڈی ایس پی رفاقت باجوہ آیا ہے۔ لاشعوری طور پر پیراں دتے کو اس کا انتظار تھا اس لئے وہ خود باہر چلا گیا اور پھر تھوڑی دیر بعد واپس آ کر سیدن شاہ سے صورتحال کہہ دی۔ مریدین جا چکے تھے اس لئے سیدن شاہ نے رفاقت باجوہ کو وہیں بلوا لیا۔ جیسے ہی وہ سامنے آیا تو سیدن شاہ نے بغیر کسی سلام و دعا کے سیدھے ہی اس سے کہا۔
’’ڈی ایس پی۔۔۔ تمہیں بہت جلدی ہے یا تم یہ ثابت کرنا چاہتے ہو کہ تمہاری یاد داشت بہت تیز ہے۔‘‘ سیدن شاہ کے لہجے میں حقارت اور دبا دبا غصہ تھا۔ رفاقت باجوہ کو اس کی طرف سے اس رویے کی امید نہیں تھی۔ وہ ایک لمحے کوحیران ہوا پھر خود پر قابو پاتے ہوئے بولا۔
’’نہیں شاہ جی۔۔۔ نہ مجھے جلدی ہے اور نہیں میں کچھ ثابت کرنا چاہتا ہوں۔ میں تو ادنیٰ سا ملازم ہوں۔ اپنے فرض کی ادائیگی کے لئے آیا ہوں۔‘‘
’’کیا شہر میں تمہارے فرض ختم ہو گئے ہیں جو تم نے یہاں آنے کے لئے اتنی تیزی دکھائی۔‘‘
’’فرض تو فرض ہوتا ہے شاہ جی۔۔۔ اس میں شہر یا گاؤں گوٹھ کی تخصیص کیا۔‘‘
’’ڈی ایس پی۔۔۔ کیا تم جانتے نہیں ہو کہ میں اس علاقے سے رکن اسمبلی ہوں۔ تمہیں یہ خبر بھی نہیں ہے کہ ہم ہر حکومت کے ساتھ ہوتے ہیں چاہے وہ کسی پارٹی کی بھی ہو۔ اور کیا تمہیں یہ معلوم بھی نہیں ہے کہ تیرے جیسے افسر کو میں اپنے گھر کے باہر چوکیداری پر مامور کر سکتا ہوں۔‘‘ سیدن شاہ کے لہجے میں وہی حقارت تھی۔ اس پر رفاقت باجوہ نے کچھ کہنا چاہا تو سیدن شاہ نے ہاتھ کے اشارے سے اسے منع کر دیا۔ ’’سنو۔۔۔ پہلے دن میں نے یہی سمجھا تھا کہ تم ایک فرض شناس پولیس آفیسر ہو اس لئے میں نے تمہیں اس حویلی میں آنے کی اجازت دی۔ لیکن مجھے پتہ چلا ہے کہ تم تنخواہ تو حکومت سے لیتے ہو مگر کام کسی اور کے لئے کرتے ہو۔ جس نے بھی تمہیں میرے معاملات پر نگاہ رکھنے کے لئے کہا ہے اسے جا کر بتا دو کہ وہ کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ ابھی تک میں نے اس کے نقصان کا نہیں سوچا، اگر سوچ لیا تو وہ اس علاقے میں بھی نہیں رہے گا۔ تم اپنے کام سے کام رکھو، اپنی اوقات سے بڑھ کر مت سوچو۔۔۔‘‘
’’شاہ جی۔۔۔ میں آپ کی رائے سے قطعاً کوئی اختلاف نہیں رکھتا، میں تو یہاں اس لئے آیا ہوں کہ آپ نے وعدہ کیا تھا۔ معاہدے کے مطابق۔۔۔‘‘
’’میں نے تم سے کوئی وعدہ نہیں کیا تھاتم سے اگر رب نواز کو پکڑا جا سکتا ہے تو پکڑ لو اور اگر تم نے ایسی غلطی کر لی تو بہت پچھتاؤ گے۔ میں اسے تمہاری ذاتی دلچسپی سمجھوں گا۔ جاؤ، اب یہاں سے چلے جاؤ۔‘‘ سیدن شاہ نے حقارت سے کہا، مسند سے اٹھا اور ڈی ایس پی کی طرف دیکھے بغیر اندر چلا گیا۔
رفاقت باجوہ نے وہیں کمرے میں موجود پیراں دتہ کی طرف دیکھا جس کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔ یہی مسکراہٹ بتا رہی تھی کہ اس سے بات کرنا فضول ہو گا۔ اس کے ساتھ وعدہ خلافی ہی نہیں ہوئی بلکہ دھوکا دیا گیا تھا۔ سیدن شاہ کا حقارت بھرا لہجہ اس کے کانوں میں گونج رہا تھا۔ جس سے اس کے پورے بدن میں غصہ پھیل گیا تھا۔ جس پر جلتی پہ تیل کا کام پیراں دتہ کی مسکراہٹ نے کیا۔ رفاقت باجوہ نے ایک نگاہ اس پر ڈالی اور باہر کی سمت چل دیا۔ اسے اپنی بے عزتی کا شدت سے احساس ہو رہا تھا۔
سیدن شاہ اپنے کمرہ خاص میں جا کر اطمینان سے بیڈ پر لیٹ گیا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ رفاقت باجوہ کس کیفیت میں یہاں سے جائے گا۔ اس کے لئے ایسا کرنا ضروری تھا۔ اسے بہت کوششوں کے بعد امین خاں نے تعینات کروایا تھا تاکہ تھانے کی سیاست کی جا سکے۔ سیدن شاہ کو اگرچہ ایسی کسی سیاست کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی تھی لیکن یہ معاملہ چونکہ سامنے آ گیا تھا اس لئے سیدن شاہ نے پوری طرح اس پر سوچ بچار کی تھی۔ مدعی پارٹی رب نواز کو گرفتار کروانے میں قطعاً دلچسپی نہیں رکھتی تھی۔ پیراں دتہ نے اس بارے پورا یقین کر لیا تھا۔ اماں فیضاں نے یہی کہا تھا کہ اس کے دروازے پر دو جہان کا بادشاہ لے کر آ گئے ہیں تو اس نے دل سے معاف کر دیا ہے۔ اب چاہے و ہ رشتہ دیں یانہ دیں۔ وہ اسے معاف کر چکی ہے۔ اس پر پیراں دتہ نے ایک اور صاف کاغذ پر اماں فیضاں کا انگوٹھا لگوا لیا تھا۔ قانونی طور پر سیدن شاہ نے معاملہ اپنے حق میں کر لیا تھا۔ اگر کسی طرح رب نواز پکڑا بھی جاتا ہے تو وہ عدالت کے ذریعے اسے باعزت بری کروا سکتا تھا۔ وکلاء کی ایک جماعت اس کے لئے ہر وقت حاضر رہتی تھی۔ وہ ان سے قانونی مشورہ کر چکا تھا اس لئے اس نے رفاقت باجوہ کورگید کر رکھ دیا تھا تاکہ دوبارہ اس کی ہمت نہ پڑے۔ جبکہ اماں فیضاں کی تو ویسے ہی ہمت نہیں تھی کہ تھانے تک جا سکے۔ کیونکہ تھانے جانے کی صورت میں بھیرے کی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھنے کا اسے پورا یقین تھا۔ اس کی زیادہ سے زیادہ رسائی خان محمد تک تھی جس کے لئے اس نے پیراں دتہ کو حکم دے دیا تھا کہ ’’بس بہت ہو چکی خان محمد کی سیاست، یہ سارا کھیل اس کا رچایا ہوا ہے۔ وہ نہیں رہے گا تو اس کے اسارے پر ناچنے والی کٹھ پتلیاں بھی نہیں رہیں گی۔ اس لئے اسے ختم کر دیا جائے۔‘‘ اور اسے ختم کرنے کے لئے رب نواز کو مامور کر دیا تھا۔
سیدن شاہ سارے کھیل کو سمجھ گیا تھا اور جب کھیل کی سمجھ آ جائے تو کامیابی کے امکانات سو فیصد ہو جاتے ہیں۔ وہ عرس آنے سے پہلے پہلے یہ سارا کھیل ختم کر دینا چاہتا تھا۔ یہی سوچ کر سیدن شاہ کے چہرے پر اطمینان پھیل گیا تھا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
رات گہری ہوتی چلی جا رہی تھی لیکن خان محمد کا ڈیرہ آباد تھا۔ وہاں پر علاقے کے چند معزز لوگ جمع تھے۔ انہیں خان محمد نے دعوت دی تھی، رات کا کھانا کھا کر وہ باتوں میں مصروف تھے۔ ان کےدرمیان یہی بحث چل رہی تھی کہ آئندہ آنے والے الیکشن میں وہ کس کا ساتھ دیں گے۔ خان محمد ان پر اپنی خواہش ظاہر کر چکا تھا کہ وہ سیدن شاہ کی ہر حالت میں مخالفت کرے گا۔ جس پر لوگوں کی ملی جلی رائے تھی کہ اس کے ساتھ مخالفت ہمارے لئے فائدے میں نہیں ہے۔
’’دیکھیں۔۔۔ اس کی مخالفت کیوں نہ کی جائے۔ اس نے علاقے کے لئے کیا ہی کیا ہے۔ عوام اسی طرح جاہل ہے، ان تک کوئی سہولت نہیں پہنچی۔ اس جدید دور میں بھی یہاں کے لوگ پرانے وقت کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔‘‘ خان محمد نے کہا۔
’’مگر پھر بھی لوگ اسے چاہتے ہیں۔ وہ یونہی الیکشن نہیں جیت جاتا، اسے ووٹ ملتے ہیں۔ لوگ اس کا احترام کرتے ہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کے دکھ درد کا مداوا کرنے والا وہی ہے۔ ووٹ تو عوام نے دینے ہیں نا۔‘‘ ایک معزز شخص نے خان محمد کی بات کاجواب دیا تو خان محمد نے الجھتے ہوئے کہا۔
’’آخر کب تک، آپ نہیں سمجھتے کہ عوام کو شعور ملے۔‘‘
’’کیاہو گا پھر، عوامی شعور ہم جیسے لوگوں کو بھی بہا کر لے جائے گا۔ یہ جو لوگ ہمارے ہاں کام کرتے ہیں نا، یہ ہماری بات بھی نہیں سنیں گے۔‘‘ ایک دوسرے شخص نے خان محمد کو سمجھانے کی کوشش کی۔
’’اصل میں خان محمد جو مقام اس کے پاس ہے، ہم ساری زندگی بھی لگے رہیں تو اس تک نہیں پہنچ سکتے۔ لوگ اسے اپنا پیشوا مانتے ہیں۔ یہ تو ایک پوری نسل کی بات ہے وہ پڑھے لکھے گی، باشعور ہو گی تو ہی انہیں ایسے پیشواؤں کی سمجھ آ سکے گی۔ اسی لئے اس نے پورے علاقے میں کوئی سکول نہیں بننے دیا۔ حکومت کو دکھاوے کے لئے اگرکوئی سکول بنا بھی ہے تو اس کا تالا لگا ہوا ہے۔ کسی کی جرأت نہیں کہ وہاں پڑھ سکے۔ عوام کی سوچ کیسے بدلی جا سکے گی؟‘‘
’’اس کا کوئی حل تو ہو گا؟‘‘ خان محمد نے کہا۔
’’کوئی حل نہیں ہے۔ جس طرح لوہے کو لوہا کاٹتا ہے، اسی طرح کوئی ایسا شخص جو اس کے پیری مریدی والے مقام والا جادو توڑ دے، تبھی کوئی حل سامنے آ سکتا ہے۔ لہٰذا خاموش رہو‘‘
’’ٹھیک ہے، آپ سب کی رائے کا میں احترام کرتا ہوں لیکن میں بہرحال اپنی کوشش جاری رکھوں گا۔‘‘ خان محمد نے حتمی انداز میں کہا۔
’’یہ تمہاری مرضی ہے۔ اللہ کرتے تم کامیاب ہو جاؤ۔‘‘ ان میں سے ایک شخص نے کہا اور پھر اٹھتے ہوئے بولا۔ ’’میرا خیال ہے کہ اب چلیں۔ بہت وقت ہو گیا۔‘‘ اس کے اٹھتے ہی دوسرے لوگ بھی اٹھنے لگے۔ کچھ ہی دیر بعد وہ سب لوگ چلے گئے۔ خان محمود کو افسوس ہونے لگا تھا کہ اس کی یہ کوشش بھی رائیگاں گئی تھی۔ وہ سب کو رخصت کر کے ڈیرے سے جانے لگا تو اس کے ملازم بھی اس انتظار میں تھے کہ وہ جائے تو وہ لوگ بھی آرام کریں۔ ان میں کسی کو خبر نہیں تھی کہ کچی بستی کے دولوگ رب نواز اور سیدو بھی اس انتظار میں تھے کہ خان محمد ڈیرے سے گھرکی طرف جائے۔ وہ تھوڑے ہی فاصلے پر اندھیرے میں ایک درخت پر بیٹھے تھے۔ جہاں سے وہ ڈیرے کا سارا منظر دیکھ رہے تھے۔ خان محمد ڈیرے سے نکلا تو وہ بھی فوراً اتر آئے۔ اور جس وقت وہ اپنے گھر سے چند قدم کے فاصلے پر تھا، اس پر فائر کھول دیا گیا۔ لمحوں میں خان محمد خون سے لت پت ہو گیا۔ وہ چکرا کر گرا، دونوں کو اس کے مرنے کا یقین ہو گیا تھا۔ اگرچہ فائر کی آواز رات کے سناٹے میں بہت دور تک گئی تھی مگر وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو چکے تھے۔ جس وقت خان محمد زمین پر گرا۔ دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور اگلے ہی لمحے وہ ایک جانب بھاگ نکلے۔ انہیں یقین تھا کہ جب تک لوگوں کو صورتحال کا علم ہو گا وہ بہت دور نکل چکے ہوں گے۔
وہ دونوں پوری قوت سے بھاگ رہے تھے۔ دونوں کا دھیان اس طرف تھا کہ جہاں انہوں نے جیپ کھڑی کی تھی اور ڈرائیور انتظار کر رہا ہے وہ وہاں تک پہنچ جائیں۔ پھر فرار ہونے میں آسانی تھی۔ کافی دور تک آ جانے کے بعد انہوں نے اپنی سانس بحال کی اور صورتحال کا اندازہ لگایا کہ وہ کہاں پر ہیں۔ اس وقت ان کے اوسان خطا ہو گئے جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ وہ خان محمد کے ڈیرے کے قریب ہی ہیں۔ وہ بجائے سیدھا جانے کے ایک طرف کو نکل گئے تھے اور گھوم کر پھر وہیں آ گئے تھے۔ اگلے ہی لمحے بھونکتے کتوں کی آواز سنائی دی۔ اس کے ساتھ ہی گاڑیوں کی بند لائٹیں روشن ہو گئیں۔ جس وقت وہ سمت کا اندازہ کر کے اپنی جیپ تک پہنچے، اس وقت تک لوگ ان تک پہنچ گئے اور انہوں نے فرار کے سارے راستے بند کر دئیے۔ کچھ دیر تک ان میں فائرنگ کا تبادلہ ہوا او پھر ان کی مزاحمت دم توڑ گئی۔ رب نواز اور سیدو پکڑے گئے۔ اس کے ساتھ ہی ڈرائیور اپنی جیپ سمیت ان کے قبضے میں تھا۔
یہ لوگ جس وقت انہیں پکڑ کر ڈیرے پر پہنچے، اس وقت انہیں پتہ چلا کہ خان محمد کی سانسیں بحال تھیں، اس لئے اسے لے کر ہسپتال چلے گئے ہیں۔ تب انہی میں سے ایک شخص نے مشورہ دیا کہ حملہ آوروں کو فوری طور پر تھانے پہنچا دیا جائے۔ یہاں رکھ کے ان کا کرنا کیا ہے۔
اس وقت رات کا آخری پہر چل رہا تھا جب تھانے میں خان محمد کی لاش سمیت وہ تینوں مجرم بھی موجود تھے۔ خان محمد راستے میں ہی دم توڑ گیا تھا۔ تھانے کا عملہ غائب تھا، ایک سنتری اور منشی انہیں ملے تھے۔ جس وقت انسپکٹر پہنچا اس کے ساتھ ہی ڈی ایس پی رفاقت باجوہ بھی پہنچ چکا تھا۔ اس نے صورتحال کا اندازہ کیا اور انسپکٹر سے پوچھا۔
’’ملزمان سے پوچھ تاچھ کی وہ کون ہیں، انہوں نے قتل کیوں کیا۔‘‘
’’جی سر۔۔۔ ایک ملزم سیدو ہے اور دوسرا رب نواز۔۔۔‘‘
’’رب نواز۔۔۔‘‘ یہ نام بڑبڑاتے ہوئے رفاقت باجوہ چونکا، پھر جلدی سے پوچھا۔
’’اقرار جرم کیا؟‘‘
’’ہاں سر۔۔۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی خان محمد سے ذاتی دشمنی تھی۔‘‘
’’ملزمان کو بلاؤ۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے ایک لمحے کو سوچا اور پھر بولا۔ ’’ٹھہرو۔۔۔ میں خود دیکھتا ہوں۔‘‘
رفاقت باجوہ وہاں تک گیا جہاں رب نواز، سیدو اور ڈرائیور بیٹھے ہوئے تھے۔ ان سے کچھ فاصلے پر وہ لوگ موجود تھے جو انہیں لے کر آئے تھے۔ رفاقت باجوہ نے ایک نظر انہیں دیکھا۔ اسے فدا حسین دکھائی دیا جو خان محمد خاص آدمی تھا۔ دونوں کئی بار مل چکے تھے۔ اس نے فدا کو بلایا اور کہا۔
’’ایف آئی آر درج کراؤ اور خان محمد کی نعش کو لے کر چلے جاؤ۔ اور یہ بھول جاؤکہ ملزمان پکڑے گئے ہیں۔‘‘
’’یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ؟‘‘ فدا حسین نے انتہائی حیرت سے کہا۔
’’کیا تم اصل مجرم تک نہیں پہنچنا چاہتے ہو۔‘‘ رفاقت نے غراتے ہوئے کہا تو فدا کی سمجھ میں بات آ گئی۔ ’’میں کل جنازے میں شرکت کے لئے آؤں گا۔ وہاں پر لوگ مجھ سے یہی مطالبہ کریں کہ قاتلوں کو جلد از جلد گرفتار کیا جائے۔‘‘
’’جی میں سمجھ گیا۔ جب قاتل گرفتار ہی نہیں ہیں تو ان کی ضمانت کا تو تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔‘‘
’’ہاں۔۔۔ مگر میں اس سے بھی آگے کی سوچ رہا ہوں۔ خیر۔۔۔ جیسے کہا ہے ویسے کرو۔ اور تمہارے ساتھ ان لوگوں کو سمجھا دو۔۔۔‘‘
’’ٹھیک ہے جی۔‘‘ فدا حسین نے سر ہلاتے ہوئے کہا اور واپس مڑ گیا۔ جب تک وہ لوگ وہاں سے چلے نہیں گئے، رفاقت وہیں کھڑا رہا۔ پھر ملزمان کے پاس جا کر ان تینوں کو غور سے دیکھا اور پوچھا۔
’’تم میں رب نواز کون ہے؟‘‘
’’میں ہوں۔‘‘ اس نے بغیر کسی خوف کے کہا تو رفاقت باجوہ نے اس کے منہ پر ٹھوکر مار دی۔ جس سے وہ الٹ کر گرا۔ تھانے کا دیگر عملہ اس کے اردگرد کھڑا تھا جبکہ رفاقت باجوہ کے ساتھ آئے لوگ بھی وہیں موجود تھے۔ رفاقت نے انہیں حکم دیا۔
’’انہیں گاڑی میں ڈالو اور آؤ میرے ساتھ۔‘‘
یہ کہہ کر وہ اپنی جیپ کی طرف بڑھ گیا۔ تھانے کے عملے کی جرأت نہ ہو سکی کو پوچھ لیں کہ انہیں کہاں لے جایا جا رہا ہے۔ رفاقت باجوہ ان تینوں کو نامعلوم مقام کی طرف لے گیا تھا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...