آپ دونوں باتیں کرو، میں چاۓ لے کر آتی ہوں ”
” تم ادھر کیوں آۓ ہو” صباحت نے شہریار کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا
” اپنی غلطیوں کا مداوا کرنے”
” کیسی غلطیاں، تمھارے نزدیک تم نے تو سب صحیح کیا تھا، غلط تو میں نے کیا تھا، میرے باپ کو تو تم نے مار دیا، اب کیا میری ماں کو بھی مارنا چاہتے ہو ” سدرہ نے آنکھوں میں آۓ ہوۓ آنسوؤں کو صاف کرتے ہوئے کہا
” مجھے غلط نہ سمجھو صباحت، میں مانتا ہوں کہ میں نے تمھارے ساتھ بہت برا کیا جس کی سزا مجھے اللہ نے بھرپور دی، مجھے سے میرا غرور یعنی میری سدرہ چھین لی”
” ککککک….. کیا ہوا سدرہ کو ” صباحت نے شہریار کی بات کاٹتے ہوۓ کہا
” فکر نہ کرو، وہ اپنی زندگی میں بہت خوش ہے، بس فرق یہ ہے کہ پہلے وہ میرے ساتھ خوش تھی، اب کسی اور کے ساتھ خوش ہے، اُس نے شادی بھی کر لی ہے، آج کل انگلینڈ ہوتی ہے”
” میں پوچھنے کا حق تو نہیں رکھتی مگر میں پھر بھی پوچھنا چاہوں گی کہ سدرہ نے تمھیں کیوں چھوڑا ” صباحت نے سوالیہ نظروں سے شہریار کی طرف دیکھا
“آج سے پانچ مہینے پہلے میں سدرہ کے کہنے پر اُسی کی کزن کی زندگی تباہ کرنے جارہا تھا کہ راستے میں میرا ایکسیڈنٹ ہوگیا اور میں نے چلنے کی صلاحیت کھو دی۔ مجھے وقتی طور پر یہی لگا کہ میں نے صرف چلنے ہی کی صلاحیت کھوئی ہے مگر مجھے ہوش تب آیا جب سدرہ نے مجھے چھوڑ دیا یہ کہہ کر کہ وہ ایک معزور انسان کے ساتھ گزرا نہیں کرسکتی، پہلے میں بہت رویا، اللہ سے بھی سدرہ کی بےوفائی کی شکایت کی، مگر جلد ہی مجھے احساس ہوگیا کہ میں تو مکافات کی آگ میں جل رہا ہوں، پھر میں نے اللہ سے توبہ کی، اور اللہ نے بھی میری توبہ قبول کی جس کا اس بات سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ تم میرے سامنے بیٹھی ہو ”
” تمھارے ساتھ جو بھی ہوا، مجھے اُس کا افسوس ہے، میں نے تمھیں بدعا نہیں دی تھی”
” میں جانتا ہوں کہ دنیا میں کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں کہ جن کے ساتھ جو مرضی کرو، وہ بدعا نہیں دیتے مگر ظالم کو خود ہی سزا مل جاتی ہے کیونکہ اللہ تو دیکھ رہا ہے، اور بےشک اللہ بہترین انصاف کرنے والا ہے”
” اب تم کیا چاہتے ہو” صباحت نے شہریار سے پوچھا
” میں تم سے نکاح کرنا چاہتا ہوں ”
” کیا تمھیں یقین ہے کہ تمھیں ایسا کرنا چاہے ”
” یقین نہ ہوتا تو یہاں نہ آتا ”
” پھر تو میں یہی کہوں گی کہ اگر امی کو کوئی اعتراض نہیں تو مجھے بھی کوئی اعتراض نہیں ” صباحت نے کہا اور اندر کمرے میں چلی گئی
اور یہی وہ لمحہ تھا جب شہریار نے سکون کا سانس لیا۔
**************************
” زین یہ تم مجھے کہاں لے کر آگے ہو، تم نے تو کہا تھا کہ ہم ہوٹل میں رہیں گے، جب تک کوئی اچھا سا گھر نہیں مل جاتا، ہمیں پاکستان آنا ہی نہیں چاہیے تھا ” سدرہ نے چھوٹے سے گھر کو دیکھتے ہوئے کہا
” یہ میرے دوست کا گھر ہے، جب تک ہمیں کوئی اچھا سا گھر نہیں مل جاتا تب تک ہم یہی رہیں گے”
” مگر زین تم نے اس گھر کی حالت دیکھی ہے، رنگ تک نہیں کیا گیا اس گھر کو ، افففف، اتنے گندے گھر میں ہم کیسے رہ سکتے ہیں ”
” تمھیں نہیں رہنا تو نہ رہو” زین نے غصے سے کہا
” یہ تم کس لہجے میں مجھ سے بات کر رہے ہو، میں نے صرف یہی تو کہا ہے کہ اس گھر میں نہیں رہتے اس میں اتنا غصہ کرنے والی کیا بات ہے ”
” غصہ کرنے کی ہی تو بات ہے، تنگ آچکا ہوں میں تمھارے روز روز کی فرمائشوں سے، تین چار مہینے میں ہی تم نے مجھے کنگال کردیا ہے اب پاکستان آیا ہوں تو پاکستان بھی سکون سے نہیں رہنے دے رہی”
” میں نے کنگال کیا ہے، خود تو تم جیسے بہت شریف ہو، ہر روز تم پارٹیوں میں میرے منع کرنے کے باوجود لاکھوں روپے ضائع کرتے تھے، اور اب الزام مجھ پر لگا رہے ہو ”
” آگے بھی کروں گا ضائع، تم کون ہوتی ہو مجھے منع کرنے والی، میرے پیسے، میری مرضی، ادھر رہتی ہو تو رہو ورنہ دفعہ ہو جاؤ” زین نے چیختے ہوۓ کہا
” کیا ہوگیا ہے زین تمھیں، اتنا غصہ کیوں کر رہے ہو، اچھا ادھر ہی رہ لیتے ہیں ہم” سدرہ نے زین کی بگڑتی ہوئی شکل دیکھتے ہوئے کہا
” مجھے کافی پینے کا دل کر رہا ہے، جاؤ میرے لیے کافی بنا کر لاؤ”
” اچھا تم روکو ، میں بنا کر لاتی ہوں ”
” ہممممم” زین نے سپرنگ نکلے ہوئے صوفے پر بیٹھتے ہوۓ کہا
**************************
” حیا میری جان تم خوش تو ہو نہ سالار سے نکاح پر، مت یہ نہ ہو کہ تم نے صرف میری خوشی کے لیے نکاح کیا ہو” آسیہ بیگم نے اپنی گود میں لیٹی، حیا کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوۓ کہا
” نہیں ماما، میں بہت خوش ہوں، آپ کو ایسا کیوں لگا کہ میں خوش نہیں ہوں”
” نہیں بس ایسی ہی پوچھ رہی تھی، عالیہ بھابی بہت اچھی ہے وہ تمھارا بہت خیال رکھیں گیں”
” اوہو، ماما آپ تو ایسے کہہ رہی ہے جیسے کل میری رخصتی ہو”
” ہاہاہاہا، کیوں اب میں اپنی بیٹی سے ایسی باتیں بھی نہیں کرسکتی ” آسیہ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا
” نہیں، نہیں ضرور کر سکتی ہیں، ماما سدرہ کا کچھ پتا ہے کہ وہ آج کل کہاں ہوتی ہے” حیا نے سر اٹھا کر آسیہ بیگم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
” پتا نہیں کہاں ہے وہ، نسرین بھابی بتا رہی تھی کہ پہلے تو وہ ہر دن کال کرتی تھی مگر اب دو تین مہینے سے اُس کی کوئی کال نہیں آئی، جب بھی کال کرو، نمبر بند دیکھنے کو ملتا ہے”
” اچھا، جہاں بھی رہے، خوش رہے ”
” آمین ”
**************************
چار سال بعد
” آپ مسٹر زین کی وائف ہے”
” یس ڈاکٹر”
” سوری ہم ان کو بچا نہیں سکے، بہت زیادہ ڈرنک کرنے کی وجہ سے اُن کی موت ہوگئی ہے، آپ پیسہ جمع کروا کر لاش گھر لے کر جاسکتی ہیں”
” یہ آپ کیا کہہ رہیں ڈاکٹر، اب ہمارا کا کیا ہوگا” سدرہ نے گود میں اٹھائے ہوۓ ایک سالہ علی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
“اللہ آپ کو صبر دے، ہم کچھ نہیں کرسکتے ” یہ کہہ کر ڈاکٹر روتی ہوئی سدرہ کو چھوڑ کر چلا گیا۔
” ماما، بابا کہاں ہیں” تین سالہ علینہ نے سدرہ سے پوچھا
سدرہ نے کوئی جواب نہیں دیا کیونکہ نہ تو اس کے پاس نہ ہمت تھی نہ ہی الفاظ کہ وہ تین سال کی معصوم بچی کو یہ بتاتی کہ اس کے بابا اب اس دنیا میں نہیں رہے۔
**********************
” صباحت ،میں آج بہت خوش ہوں، میری بہت بڑی خواہش تھی کہ میں تمھارے ساتھ عمرہ کرنے آؤں،میں اللہ کا جتنا بھی شکر ادا کرو کم ہے، تم مجھے میرے اعمال سے بڑھ کر ملی ہو” شہریار نے مسکراتے ہوئے کہا
” الحمداللہ، میں بھی اللہ کا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے، کہ آپ مجھے بطورِ شوہر اس دنیا میں ملے” صباحت نے مسکراتے ہوئے کہا
” سدرہ کو کھونے کے بعد مجھے یوں لگتا تھا کہ میں اب کبھی مسکرا نہیں سکوں گا بلکہ جب سے تم میری زندگی میں آئی ہو تب سے میں رونا بھول گیا ہوں، تم نے میری زندگی مکمل کر دی ہے”
” نعیم سے منگنی ٹوٹنے کے بعد میں بہت اداس ہوگئی تھی، ابا کے مرنے کے بعد تو مجھ میں زندہ رہنے کی خواہش ہی باقی نہیں رہی تھی مگر تمھارے آنے کے بعد سب بدل گیا، میں ایک بار پھر ہنستی مسکراتی صباحت بن گئی ہوں، تم میری عبادت کا نتیجہ ہو ” صباحت نے مسکراتے ہوئے کہا
” اور تم میری توبہ کا” شہریار نے مسکراتے ہوئے کہا
*************************
پانچ سال بعد
” حیا جلدی کرو، کب تیار ہوگی، زوہیب اور رانیہ ہمارا شاپنگ مال پر انتظار کر رہے ہیں” سالار نے حیا سے کہا جو کہ سالار کے بقول پیچھلے ایک گھنٹے سے تیار ہورہی تھی
” تم نے عاشو کا فیڈر رکھ لیا ہے نہ میرے بیگ میں” حیا نے لپسٹک لگاتے ہوئے کہا
” ہاں، ہاں رکھ لیا ہے، اب جلدی کرو، ہم بہت لیٹ ہوچکے ہیں”
” تم اور عاشو چلے جاؤ، میں خود آجاؤں گی” حیا نے سالار کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
” ایسا کیوں بول رہی ہو” سالار نے سوالیہ نظروں سے حیا کی طرف دیکھا
” اب میں ایسا نہ بولو، تو کیا بولو، تم نے جان کھائی ہوئی ہے میری، سکون سے تیار بھی نہیں ہونے دے رہے ” حیا نے دل کی بھڑاس نکالتے ہوئے کہا
” اچھا تم تیار ہو، میں نہیں بولتا اب” سالار نے منہ پر انگلی رکھتے ہوئے کہا جس کو دیکھ کر حیا ہنسنے لگی۔
*************************
” کہاں تھے تم لوگ، ہم کب سے تم لوگوں کا انتظار کر رہے تھے” زوہیب نے سالار سے ہاتھ ملاتے ہوۓ کہا
” میں تو تیار ہوگیا تھا مگر حیا نے….. ” سالار اپنی بات مکمل نہ کرسکا کیونکہ اُس نے حیا کی غصے سے بھری آنکھیں دیکھ لی تھی۔
” عاشر، چاچو کی جان، آجاؤ چاچو کے پاس ” زوہیب نے عاشر کو اٹھاتے ہوئے کہا
” ہیلو، خالہ کی جان” حیا نے ننھی حورین سے ہاتھ ملاتے ہوۓ کہا
” رانیہ ، فاطمہ اور تابش کب پاکستان آرہے ہیں”
” ایک دو سال تک ہی، کیونکہ تابش ابھی وہاں اپنا بزنس سیٹ کر رہا ہے”
” ہممم، اچھا ”
” چلو، سب کھانا کھاتے ہیں، مجھے بہت بھوک لگ رہی ہے” رانیہ نے کہا
” تم تو ہو ہی بھوکی” زوہیب نے رانیہ کو چھیڑتے ہوۓ کہا
” کیا کہا تم نے” رانیہ نے زوہیب کو آنکھیں نکالتے ہوئے کہا
” کچھ نہیں” زوہیب نے معصومیت سے کہا
” پھر اچھا ہے” رانیہ نے ہنستے ہوئے کہا
تقریباً تین گھنٹے بعد وہ لوگ شاپنگ سے فارغ ہوگے تھے۔ اب سب کا ارادہ حیا اور سالار کے گھر، رات کا کھانا کھانے کا تھا۔اس لیے ابھی وہ گھر ہی جارہے تھے کہ گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے حیا کو فٹ پاتھ پر ایک فقیرن بیٹھی نظر آئی۔ جس کو دیکھ کر حیا، اُس کو پیسے دینے چلی گئی۔
” باجی اللہ کے نام پر کچھ دے دو….. ” اس سے آگے سدرہ سے کچھ بولا نہیں گیا کیونکہ اُس نے حیا کو پہچان لیا تھا۔
” یہ لو” حیا نے پیسے سدرہ کو پکڑاتے ہوۓ کہا
” کیا ہوا نہیں لینے ” حیا نے سدرہ سے کہا
” نہیں” سدرہ سے صرف اتنا ہی بولا گیا
” کیوں نہیں لینے، لے لوں، کام آئیں گے” حیا نے مسکراتے ہوئے کہا اور پیسے اُس کی گود میں رکھ کر واپس گاڑی میں بیٹھ گئی۔
حیا کو دیکھ کر سدرہ کا دل کیا کہ وہ اپنا سر دیوار پر مار مار کر مر جاۓ مگر اپنے بچوں کا سوچ کر وہ چپ کر گئی اور اوپر سے افسوس کہ برے لوگوں کو موت بھی تو جلدی نہیں آتی۔ ان چار سالوں میں وہ ایک رات بھی چین کی نیند نہ سو سکی۔ پچھتاوا اُسے اندر ہی اندر کھا رہا تھا، بھوک اور زندہ رہنے کی خواہش نے اُسے لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلانا سیکھا دیا تھا۔اس لیے اب وہ بھول چکی تھی کہ اُس کا بھی کوئی گھر تھا، رشتہ دار تھے۔وہ آج حیا کو دیکھ کر اپنے ماضی کو یاد کرکے چیخ چیخ کر رونا چاہتی تھی مگر اُس کے پاس رونے کے لیے آنسوؤں بھی نہیں بچے تھے۔ زین کے مرنے کے بعد، اُس کے پاس کوئی سہارا نہیں بچا تھا، جیسے تیسے کرکے، اُس نے ایک سال زیور بیچ کر گزار کیا۔ مگر آخر کب تک، اُس نے جاب تلاش کرنے کی بھرپور کوشش کی مگر کون صرف بارہویں جماعت پاس کو جاب پر رکھتا ہے، یونیورسٹی کی ادھوری تعلیم ہونے کی وجہ سے اُس کو کہیں بھی مناسب جاب نہیں ملی، مگر اس مردوں کے معاشرے میں مجبور عورت کے لیے کیا جگہ ہے، ناچاہتے ہوۓ بھی اُس نے لوگوں کے گھر کام کرنا شروع کردیا، مگر وہاں پر بھی عزت کو خطرہ تھا تو اُسے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کا ایک ہی ذریعہ نظر آیا۔گزشتہ چار سالوں سے وہ اپنے ماضی کو یاد کرکے رو ہی تو رہی تھی، در در کی ٹھوکریں کھانے کے بعد مشکلوں سے وہ بھیگ مانگ کر اپنا اور اپنے بچوں کا گزارہ کر رہی تھی۔ اس لیے اُس نے ایک بار پھر اپنی ماضی کو بھلا کر اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے صدا لگانا شروع کردی
” رب دا واسطہ، اس بدنصیب کو کچھ دے جاؤ، اللہ تواڈی مرادہ پوری کرۓ گا”
ختم شد