مصنفہ: ساجدہ زیدی
گزرگاہ خیال اردو نظم کے جدید دور کی ایک اہم شاعرہ ساجدہ زیدی کے نمائندہ مضامین کا مجموعہ ہے۔ جس میں متنوع موضوعات (ادب اور شعر کے تناظر میں) زیر بحث لائے گئے ہیں۔
ساجدہ زیدی کی یہ کتاب، تخلیق شعر کے اسرار و رموز سے شروع ہوتی ہے۔ شاعرہ نے کوشش کی ہے کہ شعر کی تخلیق میں جن عوامل اور عناصر کا بنیادی کردار ہوتا ہے ان کو سہل انداز میں سمجھا جائے۔ اس میں شک نہیں کہ ’’اسرار و رموز‘‘ کم ہی منکشف ہوئے ہیں، مضمون عام احساسات اور موضوعات کو چھو پاتا ہے اور اسرار اسی طرح پس پردہ رہ جاتے ہیں۔ ساجدہ کا یہ مضمون پھر بھی مروجہ تنقیدی مضامین سے الگ اور بالکل مختلف نہیں، لیکن شاعری کو سمجھنے کے لیے راہ بناتا ہے اور اس لیے اہم ہے۔ لب و لہجہ میں معلمانہ سنجیدگی بھی مضمون کو اعتبار بخشتی ہے۔ چند دعوے اور جملے آخر تک منشرح نہیں ہو پاتے۔ مثلاً ’’عریانی موضوعِ تخلیق نہیں محض عمومیت ہوتی ہے‘‘، ’’نوحہ و نالہ اور المیہ احساس میں فرق ہوتا ہے‘‘۔ ’’یہ وہ سب رموز ہیں جن کی بنا پر اعلیٰ شعری تخلیق کسی مخصوص و محدود نظریہ یا تحریک کی اسیر نہیں ہوتی‘‘ اور اس طرح کے کئی جملے اور دعوے قاری کو الجھا دیتے ہیں کیوں کہ ان کی دلیلیں کمزور ہیں۔ اس طرح یہ مضمون اپنی تشنگی کو قائم رکھتا ہے۔
ساجدہ زیدی نے اپنے مضامین کی خاص نقطہ نگاہ، طرز شعر و ادب اور رویہ کو پیش نہیں کیا ہے۔ انھوں نے مختلف جہتوں بلکہ مخالف سمتوں سے شاعروں کو موضوع بنایا ہے۔ جن شعرا کو خصوصی مطالعہ کے لیے منتخب کیا گیا ہے وہ بھی ایک دوسرے سے ربط نہیں رکھتے۔ غالبؔ، اخترؔالایمان، جگن ناتھ آزادؔ، علیم اللہ حالیؔ، عنوانؔ چشتی اور رضا اشکؔ میں بہت کم کوئی مشترک قدر اور ہم مزاج نظریہ ملے گا۔
کتاب کا پیش لفظ مصنفہ کی فکر، نظریہ تنقید اور ذاتی احساسات پر محیط ہے۔ مصنفہ نے صاف صاف اظہار کیا ہے کہ انھوں نے مغربی نقادوں کی تھیوریز کو اہمیت نہیں دی اور راست تخلیق کاروں سے تنقیدی شعور کا اکتساب کیا ہے۔ وہ اپنے آپ کو ’’سکہ بند‘‘ نقاد نہیں مانتیں۔ ان کے خیال میں ہیئت و موضوع میں دوئی نہیں ہوتی بلکہ ہیئت اور موضوع ایک دوسرے سے جدا نہیں۔ فیض کی شاعری کا آہنگ، ان کے مقبول، نظریاتی افق میں اس حد تک مضمر نہیں جس حد تک حرکی صوتی حسن میں شامل ہے جو نغمگی، بحروں اور استعارات و علائم کے غیر روایتی استعمال سے معنون ہے۔
بہت دنوں کے بعد ایک ایسی ادبی تنقید کی کتاب ملی ہے جس کی مصنفہ اپنی سوچ کی ایک خاص سمت رکھتی ہے۔ اس بات سے بلند ہو کر کہ کس حد تک ان کے بیانات سے اتفاق کیا جا سکتا ہے۔ یہ بات تو قابل تعریف ہے کہ مصنفہ نے بلا کسی تحفظ کے اپنے نقاط نظر کو سر عام پیش کیا ہے۔
ساجدہ نے شاعروں کے کلام کا بھی مطالعہ اسی تنوع اور غیر عمومی طریقے سے کیا ہے۔ ان کی تحریروں کے چند اور نمونے پیش ہیں:
’’ ۱۔ غالبؔ کا غم دردِ محرومی سے پیدا شدہ مایوسی نہیں تھا۔ قویٰ کو مضمحل کرنے والی اداسی نہیں تھا۔ ایک منفعل کیفیت وجود نہیں تھا، زندگی سے بیزاری نہیں تھا، یہ ایک فعال خلاق، ہمہ گیر اور تحرکی قوت تھا، جو انسان کے اضطراب باطن سے روشنی کی طرح پھوٹتی ہے۔۔۔‘‘ (غالب کا تصور غم)
’’ ۲۔ ایک تصور وقت کا وہ بھی ہے جو راقم الحروف کی شعری تخلیقات کے پردے میں جھلکتا ہے۔ زماں جو رفتار و حرکت کا سفینہ ہے، جاری و ساری ہے، موجودات و مظاہر پر حاوی ہے، لا انتہا ہے، جو وجود خداوندی کا مظہر ہے اور جس سے انسانوں کی تقدیریں وابستہ ہیں۔ حیات کے پیچ و خم بنتے بگڑتے ہیں۔۔۔ (اختر الایمان)
عبارتوں میں بڑی روانی ہے بات کے رخ بدلتے رہتے ہیں، لفظ پر لفظ، جملے پر جملے، انوکھے قرینے سے بات کو آگے بڑھاتے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ ساجدہ محو گفتگو ہیں، لکچر دے رہی ہیں، لیکن ساری بحث تصمیم کی تکرار سے قاری کو کہیں نہیں لے جا پاتی۔ کیا بہتر ہے اور کیا نہیں۔ پس پردہ ہی رہ جاتا ہے۔
’’گزرگاہِ خیال‘‘ ایک اچھی کتاب ہے اور اُردو کے قاری کو ضرور متوجہ کرے گی۔
یہ کتاب دوسری تنقیدی کتابوں سے بالکل مختلف ہے اور اس لیے اُردو حلقوں میں پسند آئے گی۔ کتاب کی اہمیت کے لحاظ سے اس کی قیمت کم ہے، ضخامت مناسب ہے اور پیش کش بھی معیاری ہے۔
زیر اہتمام: تخلیق کار پبلیشرز، B /۱۰۴، یاور منزل، لکشمی نگر، دہلی۔ ۱۱۰۰۹۲
ضخامت: ۲۳۶ صفحات۔ قیمت: ۱۰۰ روپے (مشمولہ ’’سب رس‘‘ جون ۲۰۰۰ء)
٭٭٭