شاعر: من موہن تلخ
نئے دور کی اُردو شاعری میں ثابت قدمی سے جن شعرا نے غزل گوئی کو منتخب کیا اُن میں آں جہانی من موہن تلخ صاحب بھی اہم ہیں۔ اُن کا یہ مجموعہ علاوہ ازیں کہ اُن کا آخری مجموعہ ہے اور کئی لحاظ سے تخصیص کا حامل ہے۔
اولاً یہ کہ من موہن تلخ نے معیاری زبان کا استعمال کیا ہے، لسانی تجربوں، متنوع تراکیب اور نادر اصطلاحات کے مقابل، ایک معزز بول چال کی زبان کو ترجیح دی ہے۔ اس وجہ سے اس مجموعہ میں کوئی قابل گرفت لسانی تجربہ نہیں ملتا۔ ہاں کتاب کا عنوان تلخ کے اسلوب سے میل نہیں کھاتا کہ یہ ترکیب ہی غلط ہے ’’لاپتہ‘‘ کا پرتو اُن کی شاعری میں کہیں پر نہیں ملتا۔
دوئماً من موہن تلخ کی شاعری ایک سماجی طور پر معتبر شخصیت کی شاعری ہے جس میں گھر آنگن کے تجربات و حوادث کا زیادہ ذکر ہے، عشق ہے تو اپنی پردہ داریوں کے ساتھ ہے، شکوہ ہے تو اپنی حدوں کا پابند، سارے موضوعات زندگی کے نارمل حالات سے اخذ کیے گئے ہیں۔
سوئماً من موہن تلخ کے سارے تجربات عصری اور ذاتی ہیں، بناوٹ، تجرید اور تجربہ ان میں کہیں نہیں۔ مذکورہ بالا تین اہم شناختی معیارات سے آپ اگر اس مجموعہ کو دیکھیں تو پھر یہ مجموعہ کچھ اور ہی لطف دے جاتا ہے، کئی ان کہی باتیں، اشعار میں جھانکتی نظر آتی ہیں بار بار کہی باتیں، نئے اسلوب میں الگ الگ سی دکھائی دیتے ہیں۔ یہ گنگا جمنی اردو تہذیب کا اہم ورثہ ہیں۔ اردو کا اسلوب وہی ’’صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں‘‘ کی منفرد روایت پر مصر ہے۔
من موہن تلخ کی غزلوں کے لب و لہجہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ انتہائی احساسات کو مدھم کر کے یاد کرتے ہیں، شدید مفعولیت کو اُن کا اُسلوب قبول نہیں کرتا۔ مجبور محض بن کر ہر منظر کو دیکھنے کے مقابلے میں دبی دبی زبان میں احتجاج کو ترجیح دیتے ہیں۔
من موہن تلخ نے درد کی اذیت کو اپنی سوچ کے تجرباتی اسلوب سے کم تر کر کے برداشت کیا، جذبہ کی وارفتگی کو احتیاط کی پابندیوں سے باہر نہ آنے دیا۔ میانہ روی کو اپنایا، اس لیے ان کی شاعری میں وہی توازن اور ترتیب کا اثر نظر آتا ہے۔
من موہن تلخ نے جس طرح زبان و بیان کو بہتر اور صحیح رکھنے پر محنت کی ہے اسی طرح زندگی کے مشاہدات کو ہلکے سے موڑ دے کر نا محسوس طور پر حسن آفرینی کی کوشش کی ہے۔
’’لاپتہ‘‘ کی غزلیں ردیف و قافیہ نئے طور سے برتنے کا ایک تجربہ ہیں، یہ تجربہ کامیاب بھی ہے، نمائندگی بھی۔ زبان و بیان کی مثالیں:
کہوں تو جب کہ ہو کہنے کو کچھ مرے اندر
نہیں ہے سہل جبھی اپنی بات بھی کہنا
…
جس طرح کی ہے اپنے کسی بھی خیال کی
اپنی تو اس طرح نہ کبھی دیکھ بھال کی
…
ہر لمحہ جو رد خود کو نہ کرنے کی صدا ہے
میں جان گیا میرے بکھرنے کی صدا ہے
…
دھوکا سا جو ہوتا ہے بلایا ہے کسی نے
یہ خود سے بنا بولے گزرنے کی صدا ہے
…
عجب کشتہ سعی تعبیر ہوں
ادھر کچھ بنایا، اُدھر ڈہ گیا
تجربات و مشاہدات کی مثالیں:
ملا دیا ہمیں اپنوں سے شکریہ اے وقت
یہی ملے تھے ہمیں یوں تباہ دیکھنے کو
…
جب چھپانی ہو کوئی بات کسی سے اپنی
تب مجھے دیکھیے باتیں میں بناتا ہوں بہت
…
راہ چلتے ہی جسے دیکھتا ہوں لگتا ہے
جیسے بے وجہ سی آنکھیں ہیں کہ تکتی جائیں
…
ان مثالوں سے واضح ہو گیا ہو گا کہ من موہن تلخ کی شاعری علامات و اشارات، استعارات و تشبیہہ سے گریز کرتے ہوئے راست گفتگو پر زور دیتی ہے، بیش تر اشعار مکالماتی لب و لہجہ میں ہیں۔
من موہن تلخ کا یہ مجموعہ اُن کا آخری اہم ادبی تحفہ ہے جو اربابِ ادب میں خلوص کے ساتھ پڑھا جائے گا۔ اچھا گٹ اپ اچھی طباعت اس مجموعہ کو دیدہ زیب بناتے ہیں۔
ناشر: ورشا من موہن تلخ۔ ملنے کا پتہ: معیار پبلی کیشنز، ۳۰۲ تاج انکلیو، گیتا کالونی،
دہلی۔ ۱۰۰۳۱، قیمت: ۱۵۰ روپے، ضخامت : ۱۷۶ صفحات (مشمولہ ماہ نامہ ’’سب رس‘‘)
٭٭٭