شاعر: عزیز قیسی
رسائی (Approach) کے کئی واسطے ہوتے ہیں۔ ہر ادیب و شاعر سے ایک ہی رنگ کا مطالعہ کرنا لایعنی ہے اور جدید شعر و ادب کا کوئی پیمانہ مقرر کرنا خال ہے۔ ہر اچھے شاعر کے پاس اس کا اپنا مزاج اور شعور ہوتا ہے اور شعور ہی اس میں تمیز و اعتبار کی خصوصی صلاحیت بخشتا ہے۔ اس وقت میرے سامنے مشہور شاعر عزیز قیسی کی نظموں کا مجموعہ ’’آئینہ در آئینہ‘‘ ہے جس پر ممتاز فن کار سعید بن محمد نقش کا عمل ہے جس کو میں ’’عکس مسلسل‘‘ کہہ سکتا ہوں۔ کتاب کا سرورق ہی اتنا معنی خیز اور سنجیدہ ہے کہ اس سے شاعر کے افکار کی عکاسی ہو جاتی ہے۔
عزیز قیسی کی شاعری میں شعور ہے اور دانش ہے۔ وہ بہت ہی سوچے ہوئے طریقے سے منظر کو دیکھتے اور خیال کو زندہ کرتے ہیں۔ ان کی شاعری میں سوال ہی سوال ہیں۔ وہ ازل اور ابد میں انسانی زندگی کے طول کو ناپتے ہیں اور کھردرے اور باوزن لہجے میں (جو کہیں کہیں ٹوٹ بھی جاتا ہے) یہی سوچتے ہیں کہ ’’کاش ایسا ہوتا‘‘۔ ان کے پاس فکری تنوع ہے لیکن یہ سارا تنوع ایک خاص بنیادی لکیر پر ہے وہ بنیادی لکیر جو حیات و موت، ہستی زیستی، وجہ و نتیجہ کے درمیان سے گزرتی ہے۔ اس لکیر میں ان کے ترقی پسند اور مقصدی رجحانات کا بھی اثر ہے۔ قیسی نے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اظہار کے لیے کوئی سانچہ مقرر نہیں کیا ہے وہ جو سوچتے ہیں۔ اسے اسی طرح پیش کر دیتے ہیں۔ وہ اپنے اندر ہر مسرت سے ایک نیا عنصر پیدا کرتے ہیں اور جب سامنے چمکتی ہوئی روشنی آتی ہے تو جھلملاتے ہوئے آنسوؤں کو نہیں بھولتے لیکن اس میں یاسیت اور غم پسندی کا کوئی شائبہ نہیں۔ قیسی ایک باوضع ادیب ہیں ان کے پاس اعتماد ہے اور فکر میں نیرنگی۔ ان کا شعور سماجی شعور ہے وہ جانتے ہیں کہ ایک Establishment کی جگہ دوسرا Establishment ہی لیتا ہے اور اس لیے بستر گل کے خواب دیکھنے میں سوائے لذت کے کچھ نہیں مثلاً ان کی نظم ’’نئے لوگ‘‘ میں:
وہ ہم سے صدیوں پرانا چراغ چھین گئے
نئے چراغ پرانے، چراغ کے بدلے
وہ کاش اب کے بھی ایسا فریب دے جاتے
ان کی شاعری میں علامات بھی بڑی ملفوظ ہیں۔ ملفوظ سے میری مراد یہ ہے کہ انھوں نے نئے الفاظ اور نئی علامات کو مدغم کیا ہے مثلاً ’’نالہ زن‘‘، ’’روئیدگی کی آس‘‘، ’’یکش نگری‘‘، ’’لا ولد بیج‘‘، ’’روح‘‘، ’’زندہ‘‘، ’’قرضِ مہتاب‘‘، ’’گواہ‘‘، ’’کفر‘‘ وغیرہ۔ اُنھوں نے اپنی نظموں میں واضح اداز کو بہت اہمیت دی ہے گرچہ کہ ابہام کی رمق سے ان کی کچھ نظموں میں وہ حسن آ گیا ہے کہ ایک باذوق ادیب ہی مزہ لے سکتا ہے۔ مثلاً ان کی نظمیں ’’ایک منظر، ایک عالم‘‘، ’’زہریلے پانیوں میں‘’، ’’قفس‘‘، ’’عہد نامۂ امروز‘‘، ’’چور بازار‘‘، ’’الف لیلیٰ کی آخری صبح‘‘، ’’یکش نگری‘‘، ’’کاواک‘‘، ’’مکان خالی ہے‘‘ فلسفیانہ رسائی ادب میں روکھا پن پیدا کر دیتی ہے اور اس سے ایک حد تک شاعری میں زردی آ جاتی ہے لیکن سماجی شعور ایک ادیب کو مجبور کر سکتا ہے کہ وہ جو دیکھ رہا ہے اس پر کچھ سوچے۔۔۔ عزیز قیسی کی شاعری نئے شاعروں پر بے حسی اور بے عقلی کا حرف لگانے والوں کے لیے ایک لمحۂ فکر ہے۔ ان کے پاس ’’زبان و بیان‘‘ کا اپنا انداز ہے۔ مثلاً:
وہاں زمیں پر جہاں میں رہتا ہوں
میرے پڑوس میں اک حسین دوشیزہ رہتی ہے
چھپ کے اک روز۔۔۔
روزنِ در سے اس کو خلوت کدے میں دیکھا تھا
’’میں نے‘‘
تو اس کا دوشیزہ جسم ایسا ہی لگ رہا تھا
ز کنار ما بہ کنار ما
پھر گئیں مرگ جذباتی کی ساعتیں
آنکھ میں ہیں جنازے سے اٹھتے ہوئے
ہم سفر ہاتھ پیوستہ باہم دگر
وقت کی تیرہ راہوں میں چھٹتے ہوئے
۔۔۔ چاندنی کے شہر میں
عزیز قیسی کی نظموں میں بے نقاب چہرے ہیں اور کھلا ہوا مطلع ہے انھوں نے الہامیات کا انداز بھی اپنایا ہے اور اس انداز میں ان کے لہجے کی لفاظی نے بڑا مزہ بھی دیا ہے ان کی شاعری میں فن ہے لیکن تماشہ نہیں بے معنویت نہیں۔۔۔ اسی لیے ان کا مجموعۂ کلام اہم ہے۔ تعجب یہ ہے کہ کتابت میں جا بہ جا خوش نویس صاحب نے لغزش کی ہے اور پروف ریڈنگ اچھی نہیں کی گئی۔ اغلاط کی فہرست اگر آخر میں لگائی جاتی تو بہتر تھا۔۔۔
وحید اختر صاحب نے خوبصورت اور عمیق پیش لفظ لکھا ہے۔ کتابت اور طباعت دیدہ زیب ہے۔ قیمت بہت مناسب ہے۔
ناشر: ’’مکتبہ صبا‘‘، حیدرآباد۔ ضخامت: ۱۴۲ صفحات۔ قیمت: ۴ روپے۔
سول ایجنٹ: مکتبہ جامعہ، دہلی۔ (مشمولہ ’’برگِ آوارہ‘‘ یکم اپریل ۱۹۷۱ء)
٭٭٭