پس نو آبادیاتی دور میں صحافت اور تخلیق ِ ادب میں اپنے اشہبِ قلم کی جولانیاں دکھانے والے حریت ِ فکر کے مجا ہدمجید لاہور ی ( عبدالمجید چوہان:1913-1957 )کا شمار اُردو زبان کے ممتاز مزاح نگارشعرا اور نثر نگاروں میں ہوتاہے ۔گجرات ( پنجاب ۔پاکستان)میں جنم لینے والے اس نابغۂ روزگار ادیب نے پہلے لاہور میں قیام کیا اور اِس کے بعد تلاش ِ معاش کے سلسلے کراچی پہنچا۔ لاہور کے ساتھ والہانہ محبت اور قلبی وابستگی مجید لاہور ی کی شخصیت کا امتیازی وصف تھا ۔یہی وجہ ہے کہ اپنی جنم بھومی گجرات کے بجائے وہ لاہور ی کہلوانا پسند کرتا تھا۔ نوآبادیاتی دور میں مجید لاہوری نے سال 1938ء میں روزنامہ ’’ انقلاب ‘‘ میں کالم نگاری سے صحافتی زندگی کا آغاز کیا ۔ نظم اور نثر میں مجید لاہوری کی گل افشانی ٔ گفتار کی ادبی دنیا میں دُھوم مچ گئی اور اردو زبان میں شائع ہونے والے جن اخبارات میں اُن کے کالم شائع ہوتے رہے اُن میں آزاد، انجام ،انصاف اور خورشید شامل ہیں ۔اُسی زمانے میں آغا شورش کاشمیری ( 1917-1975) کی ادارت میں لاہور سے شائع ہونے والے اخبار ’’ آزاد ‘‘ میں اُن کے کالم ہر مکتبۂ فکر سے تعلق رکھنے والے قارئین کی توجہ کا مرکز بن گئے ۔روزنامہ جنگ ،کراچی میں مجید لاہوری نے ’ حرف و حکایت ‘ کے عنوان سے اکتوبر 1948ء میں کالم نگاری کا آغاز کیا اور زندگی بھر اس اخبار سے وابستہ رہے ۔ تاریخی تناظر میں دیکھیں تو ایسا محسوس ہوتاہے کہ پس نو آبادیاتی دور کے آغاز میں ساحل سمندر کی آب و ہوانے کراچی میں طنز و مزاح کے لیے نہایت سازگار ماحول پیدا کر دیا تھا۔ دلاور فگار ،شبنم رومانی( شہر آشوبِ کراچی ) ،محسن بھوپالی اور مجید لاہوری کی ظریفانہ شاعری اسی عہد کی یادگارہے ۔ مجید لاہوری کی وفات کے بعد اُس کی ظریفانہ شاعری کا مجموعہ ’’ کانِ نمک ‘‘ سال 1958ء میں شائع ہوا۔ مجید لاہوری نے نثر کے ساتھ ساتھ شاعری میں نظم ،غزل ،گیت اور تحریف نگاری میں اپنی مہارت کا ثبوت دیا۔ اس عہد کے مزاح نگاروں نے اردو کی ظریفانہ شاعری کی اُس روایت کو آگے بڑھایا جسے امیر خسرو کی پہیلیوں ،جعفر زٹلی، میر یار علی جان صاحب ، سید حسین ناز ؔ ِ، مرزا سعادت یار خان رنگین ،مرزا محمد رفیع سودا،سید انشااللہ خان انشا ،شیخ غلام ہمدانی مصحفی ،میر ضاحک ،ولی محمد نظیر اکبر آبادی ،مرزا اسداللہ خان غالب اورسید اکبر حسین اکبر الہ آبادی نے پروان چڑھایاتھا۔ مجید لاہوری کے معتمدساتھی اور دیرینہ رفیق کار شفیع عقیل (1930-2013)نے روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والے مجید لاہوری کے اخباری کالم یک جا کیے اور ان کی اشاعت پر توجہ دی ۔ مجید لاہوری کے لکھے ہوئے یہ مطبوعہ اخباری کالم کتابی صورت میں ’’ حرف وحکایت ‘‘ کے نام سے مجید لاہوری کی وفات کے چودہ سال بعد سال 1971ء میں شائع ہوئے ۔اُردو ادب میں طنزو مزاح کے فروغ میں مجید لاہوری کی ادارت میں شائع ہونے والے پندرہ روزہ ادبی مجلہ ’’ نمک دان‘‘ نے اہم کردارادا کیا ۔ مجید لاہوری کی وفات کے بعد اُردو زبان کی شگفتہ تحریروں پر مشتمل ادبی مجلہ ’’ نمک دان ‘ دو برس تک طفیل احمد جمالی کی ادارت میںشائع ہوتا رہا۔ مجید لاہوری کی ظریفانہ شاعری کا مجموعہ ’’ نمک دان ‘‘ کے نام سے اُن کی وفات کے بعد شائع ہو ا ۔ریڈیو پاکستان سے نشر ہونے والا مقبول پروگرام ’’ وغیرہ وغیرہ‘‘میںمجید لاہوری کی پر لطف باتیں سُن کرریڈیو کے سامعین کی محفل کشت زعفران بن جاتی۔ اُسی زمانے میں ابراہیم جلیس (1924-1977)کا مزاحیہ کالم ’’ وغیرہ وغیرہ ‘‘ بھی روزنامہ جنگ میں شائع ہوتا تھا۔ مجید لاہوری نے زندگی کی نا ہمواریوں ،کجیوں ،تضادات اور بے ہنگم ارتعاشات کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے ۔اس حساس تخلیق کار کا ہمدردانہ شعور اس کے اسلوب کا نمایاں وصف ہے :
لیڈری میں بھلا ہوا اُن کا
بندگی میں مِرا بھلا نہ ہوا
چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا
رہنے کو گھر نہیں ہے سارا جہاں ہمارا
حاذق الملک نہ کوئی بھی رہا میرے بعد
کون دے گا تجھے کھجلی کی دوا میرے بعد
مرغیاں، کوفتے، مچھلی، بُھنے تیتر، انڈے
کِس کے گھر جائے گا سیلابِ غذا میرے بعد
سیکڑوں ’’پلان ‘‘ بنا کر تجھے دوں گا اے دوست
’’جن کے پڑھنے سے ہو بہتوں کا بھلا میرے بعد
پس نو آبادیاتی دور میں ارضِ پاکستان بالخصوص کراچی اور اس کے مضافات میں مقامی، مہاجر ، علاقائی ،لسانی ،نسلی اور خاندانی عصبیتوں نے گمبھیر صورت اختیار کر لی ۔ سمگلنگ اور منشیات سے کالادھن کما کر اپنی تجوری بھرنے والے نو دولتیے سیٹھوں نے محنت کشوں کی زندگی کی تمام رُتیں بے ثمر کر دیں۔ آزادی کی صبح درخشاں طلوع ہوئی تو منزلوں پر ان موقع پرستوں نے غاصبانہ قبضہ کر لیا جو کسی مرحلے پر شریکِ سفر ہی نہ تھے ۔مجید لاہوری نے لوکل مہاجرین پر تازہ نکھار کے حوالے سے جو معنی خیز الفاظ استعما ل کیے ہیں اُن میں بازی گر ، الاٹمنٹ ،پلاٹ ،پرمٹ، ون یونٹ ،دستور ،سیاسی جماعتیں اور سیاست دانوں کے نام شامل ہیں ۔ مجید لاہوری نے تیشۂ حرف سے نفرت کی تمام دیواروں پر کاری ضرب لگائی ۔ نظم ہو یا نثر مجید لاہوری کی حاضر دماغی ،طباعی اور ظرافت کا جادو سر چڑھ کر بولتاہے ۔
کون سنتا ہے مجھ غریب کی بات
تیری ہر بات ،بات ہے پیارے
تُو کہے دِن تو رات بھی ہے دِن
میں کہوں دِن تو رات ہے ،پیارے
ٹنڈو آدم میں یہ کُھلا عقدہ !
زندگی بے ثبات ہے پیارے
مجید لاہوری کے شگفتہ اسلوب کا مطالعہ کرتے وقت کردار نگار ی کاکرشمہ دامن ِ دِل کھینچتاہے ۔معاشرتی زندگی میںمصروف ِ عمل رہنے والے یہ عام کردار ایسے ہیں جو ہجومِ یاس میں گھبر ا کر بے عملی کا شکار ہو جاتے ہیں ۔مثال کے طور پر سائیں سلیمان بادشاہ ، رمضانی ،مولوی گل شیر خان اور سیٹھ ٹائر جی ٹیوب جی ایسے کردار ہیں جو آج بھی معاشرے میں کسی نہ کسی رُوپ میں دیکھے جا سکتے ہیں ۔ہمارے معاشرے میں بے حسی کا یہ حال ہے کہ عید کے دِن بھی چور اُچکے اپنی لُوٹ مار کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں۔ مجید لاہوری نے مس بہی بنو اور زہرہ جان جیسی حسیناؤں کے ہر جائی پن پر طنز کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان کے ہزاروں دیوانے ہوتے ہیںمگر یہ کسی کے ساتھ وفا نہیں کرتے ۔:
عید مِلنے کا اِک بہانہ ہوا
کاٹ کر جیب وہ روانہ ہوا
ایک مینڈھے پہ ہی نہیں موقوف
تجھ پہ قربان اِک زمانہ ہوا
جہاں رہتی تھی زوہرا جان کبھی
پِیر صاحب کا آستانہ ہوا
سیاہی وال اور مکروال سے تعلق رکھنے والے سبز باغ دکھا کر لُوٹنے والے ایسے اِنسا ن نما درندوں کی پہچان یہ ہے کہ وہ فصلی بٹیروں کی طر حدانہ چُگ کر لمبی اُڑان بھر جاتے ہیں ۔معاشرتی زندگی میں زمین کے بوجھ اورآستین کے سانپ رمضانی جیسے وضیع درندے کو سفلگی اور خست و خجالت کی نشانی سمجھنا چاہیے:
خِرس کا سر ، شکل بندر کی ہے منھ خنزیر کا
’’ ایک پہلو یہ بھی ہے ‘‘ اِنسان کی تصویر کا
نوٹ ہاتھوں میںوہ رشوت کے لیے پھرتے ہیں
’’کوئی پوچھے کہ یہ کیا ہے تو چُھپائے نہ بنے ‘‘
تہذیب و تمدن اور معاشرت و ثقافت میں فراخ دلی ،خندہ پیشانی ،صبر و تحمل ،شگفتہ مزاجی اور طنزو مزاح کو کلیدی اہمیت حاصل ہے ۔ماہرین عمرانیات کا خیال ہے کہ خندہ پیشانی سے پیش آنا اور ہنستے کھیلتے طوفانِ حوادث سے گزر جانے کا عمل جہاں کسی قوم کو کندن بنا دیتا ہے وہیں یہ روّیہ اس قوم کے مہذب اور متمدن ہونے کی دلیل بھی ہے ۔مجیدلاہوری کی بذلہ سنجی ،شگفتہ مزاجی ،حاضر جوابی ،بات سے بات نکالنے کی مہارت ،اک پھول کے مضمون کو سو رنگ سے با ندھنے کا انداز اور بے ہنگم کیفیات پر فقرے چست کرنا اور پھبتی کسنا اس کے اسلوب کا ایک نرالا روپ ہے جو اپنی مثال آپ ہے ۔زبان و بیان میں اس کی استعداد قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ الفاظ اس زیرک ،فعال اور مستعد تخلیق کار کے حضور سر تسلیم خم کیے ہیں اور وہ ان الفاظ کو اپنے مزاح کے اہداف پر ٹھیک ٹھیک نشانے لگانے کے لیے بر محل اور بے دریغ استعما ل کیے جا رہا ہے ۔وہ جو کچھ کہنا چاہتا ہے بر ملا کہہ دیتا ہے ،الفاظ کو فرغلوں میں لپیٹ کر پیش کرنا اس کے ادبی مسلک کے خلاف ہے :
سو پشت سے ہے پیشۂ آبا گدا گری
کچھ ’’ لیڈری‘‘ ذریعۂ عزت نہیں مجھے
اپنے اسلوب میں ایک اور کردار جس سے مجید لاہوری نے متعارف کرایا ہے وہ سائیں سلیمان بادشاہ ہے ۔یہ ایک معمر عامل اور مجذوب ہے جو مافوق الفطرت عناصر کا حوالے دے کر سادہ لوح لوگوں کو دام میں پھنسا لیتاہے ۔ایسے لوگوں کے بارے میں سید اکبر حسین اکبر الہ آبادی نے کہا تھا:
تجربہ خود ہی بنا دیتا ہے مرشد اکبر ؔ
سچ کہا ہے کسی نے پیری میں مریدی کیسی
پس نو آبادیاتی دور میں المیہ یہ ہوا کہ پینترے بازاور شعبدہ بازتو اپنے مکر کی چالوں سے بازی لے گئے مگر سادہ لوح لو گ اپنی سادگی ،خلوص اور وفا کے باوجود مات کھا گئے ۔کُوڑے کے ہر ڈھیر سے جاہ و منصب کے استخواں نوچنے والے بازی گروں نے خوابوں کے صورت گروں کی اُمیدوں کی سب فصلیں غارت کر دیں اور اِن الم نصیبوں کی محنت اَکارت چلی گئی ۔ مجید لاہوری کی ظریفانہ شاعری میں طنز اور ظرافت میں پائی جانے والی حد ِ فاصل کو ملحوظ رکھا گیا ہے ۔ پس نو آبادیاتی دور میں جمہوریت کے نام پر سیاست میں جو کھیل جاری رہا اس کے نتیجے میں ملکی وقار اورقومی استحکام کو شدیدضعف پہنچا۔ مجید لاہوری نے جمہوری طرز حکومت میںاکثریت کی مسلط کردہ آمریت کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے لکھاہے :
’’ اَسّی‘‘ مِل کر ایک زباں سے دِن کو کہہ دیں رات
’’بِیس‘‘ کا ہے یہ فرض کہ جانیں اِس کو سچی بات
یہ دورِ جمہور ہے بابا
یہ دورِ جمہور
ہم سب ہیں مجبور
اصلاح اور مقصدیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے مجید لاہوری نے طنز کا بر محل استعمال کیا ہے ۔وطن ، اہلِ وطن اور انسانیت کی محبت سے سر شار ہو کر اس نے معاشرتی زندگی کے تضادات کو طنز کا نشانہ بنایا ہے ۔اس کا خیال ہے کہ طنز کے وسیلے سے نہ صرف سماج اور معاشرے کو خود احتسابی پر مائل کیا جا سکتا ہے بل کہ اس کے معجز نما اثر سے اذہان کی تطہیر و تنویر کا اہتمام بھی ممکن ہے ۔ایک جری تخلیق کار اور محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے مجید لاہوری نے معاشرتی اور سماجی زندگی کے عیوب ،تضادات ،بے ہنگم ارتعاشات اور بے اعتدالیوں کوطنز کا ہدف بنایا ہے ۔اپنے اسلوب اور تخلیقی فعالیت کے اعجاز سے مجید لاہوری نے تخلیق فن کے لمحوں میں خون بن کر رگ ِسنگ میں اُترنے کی جو سعی کی ہے وہ سنگلاخ چٹانوں اور پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منو الیتی ہے ۔اُس نے زندگی کے جملہ اسرار و رموز کی گر ہ کشائی کرتے ہوئے عیوب کی جس طرح جراحت کی ہے وہ اس کی اِنفرادیت اور جرأ ت کی دلیل ہے ۔ہجرت کے وقت رونما ہونے والے خونریز فسادات اور اشیا ئے خور و نوش کی ہوش رُبا گرانی جیسے تکلیف دِہ مسائل پر مجید لاہوری نے کُھل کر لکھا۔
ہلاکت خیزیوں کی مہمانی ہے جہاں میں ہوں
نہ آیا ہے نہ باوا ہے نہ نانی ہے جہاں میں ہوں
بس اِک شے موت ہے جو خیر سے مِلتی ہے بے مانگے
وگرنہ ساری چیزوں کی گرانی ہے جہاں میں ہوں
ابھی تک پگڑیوں میں ہے شکوہِ تاج سلطانی
ابھی تک رشوتوں کی حکمرانی ہے جہاں میں ہوں
ابھی ہیں چور بازاری کی سینہ زوریاں باقی
غریبوں مفلسوں کا خون پانی ہے جہاں میں ہوں
مجید لاہوری کی شگفتہ بیانی کو محض ہنسی مذاق اور تفنن طبع پر محمول نہیں کیا جا سکتا بل کہ اس کے پس پردہ قومی دردمندی اور معاشرتی اصلاح کے ارفع جذبات بھی کار فرما ہیں ۔ مجید لاہوری کی ظریفانہ شاعری میں قومی دردمندی اور اصلاح و مقصدیت کو اسی قدر اہمیت دی گئی ہے جس طرح ایک سچا عاشق اپنے محبوب کی زلف گِرہ گیر کا اسیر ہونے کے بعد حُسنِ ِ بے پروا کے جلووں کے لیے بے تاب اور محبوب سے ہم کلام ہو کر اس کی گویائی کے دوران اس کے لبوں سے جھڑنے والے پُھولوں کی عطر بیزی سے قریہ ٔجاں کو معطر کرنے کا آرزو مند رہتا ہے ۔مغربی تہذیب کی بھونڈی نقالی اور اِس کے منفی پہلوؤں پر مجید لاہوری کا اندازِ گفتگو سید اکبر حسین اکبر الہ آبادی کی ظریفانہ شاعری کی یاد دلاتاہے ۔
جلوۂ تہذیب ِ حاضر کی ترقی کے نثار
مرد کو ’’چھکڑا‘‘ کیا عورت کو انجن کر دیا
ہے کبھی مجھ سے شناسائی کبھی اغیار سے
اِس رو ش نے تجھ کو ہر تھالی کا بینگن کر دیا
سید محمد جعفر زٹلی سے لے کر مجید لاہوریتک اردو شاعری میں طنزو مزاح کی ایک مضبوط و مستحکم روایت پروان چڑھی ہے ۔ بادی النظر میںاُردو شاعری میں طنزو مزاح کی اس درخشاں روایت کو اردو شاعری کی فکری منہاج اور ذہنی استعداد کے معائر سے تعبیر کیا جا سکتا ہے ۔اردو کی ظریفانہ شاعری کی اس درخشاں روایت کو ہر دور میں قارئین ادب کی جانب سے جو شر ف پذیرائی ملا ہے وہ لائق صد رشک و تحسین ہے ۔ مجید لاہوری کی ظریفانہ شاعری اس کے فکر و خیال کی دنیا کے بارے میں قاری کو ایک جہان تازہ کی نوید سناتی ہے ۔ آزادی کے بعد یہ ظریفانہ شاعری حبس کے ماحول میں تازہ ہوا کے ایک جھونکے کے ما نند تھی۔اس شگفتہ شاعری کے مطالعہ سے قاری پر افکار تازہ کے وسیلے سے جہان تازہ تک رسائی کے متعدد نئے امکانات واضح ہوتے چلے گئے ۔اس شاعری میں ایک پیغام عمل بھی ہے اور ایک فغاں بھی ،ایک درد بھی ہے اور ایک جراحت بھی ۔جامد و ساکت بتوں پر تیشہ ٔ حرف سے کاری ضرب لگائی گئی ہے اور در کسریٰ میں موجود حنوط شدہ لاشوں کی بے حسی اور مکر کا پردہ فاش کیا گیا ہے ۔خند ہ ٔ زیر لب کی ہر کیفیت تخلیق کار کی بصیرت ،خلوص اور دردمندی کی مظہر ہے ۔یہ شاعری قاری کے ذہن و ذکاوت کو صیقل کر کے اس طرح مہمیز کرتی ہے کہ اس پر فکر و نظر اور خیال افروز بصیرتوں کے متعدد نئے دریچے وا ہوتے چلے جاتے ہیں ۔سفاک ظلمتوں اور ہجوم غم میں دل کو سنبھال کر آگے بڑھنے کا جو پیغام قاری کو اس شگفتہ شاعری سے ملتا ہے وہ اسے مقاصد کی رفعت کے اعتبار سے ہم دوش ثریا کر دیتا ہے۔
ایک ظریف الطبع تخلیق کار کی حیثیت سے مجید لاہوری نے ظرافت اور طنز کے حسین امتزاج سے اپنی شاعری کو دو آ تشہ بنا دیا ہے ۔اس نے بذلہ سنجی سے آگے بڑھ کر طنز کے ذریعے جراحتِ دِل کا جو اہتمام کیا ہے وہ اس کی شاعری کی تاثیر کو چار چاند لگا دیتا ہے ۔انسانیت کے سا تھ بے لوث محبت کرنے والے اس تخلیق کار نے جس خلوص اور دردمندی کے ساتھ انسانیت کے وقار اور سر بلندی کو اپنا مطمح نظربنایا ہے وہ اسے شہرت عام اور بقائے دوام کے دربار میں بلند مقام عطا کرتا ہے ۔دُکھی انسانیت کے ساتھ اس نے جو پیمان وفا اُستوار کیا ہے، اسے وہ علاج گردش لیل و نہا ر سمجھتا ہے ۔اس کی ظریفانہ شاعری میں ایک تخلیقی شان اور علمی وقار موجود ہے ۔اس میں کہیں بھی پھکڑ پن اور ابتذال کا شائبہ تک نہیں گزرتا ۔تخلیق کار کی علمی اور تخلیقی سطحِ فائقہ قابل توجہ ہے۔
مجید لاہوری کی ظریفانہ شاعری میں اس کے تخلیقی اور لا شعوری محرکات کے بارے میں کوئی ابہام نہیں رہتا ۔اُ س نے اپنے عہد کے حالات اور واقعات کو اپنی ظریفانہ شاعری کا موضوع بنایا ہے ۔وہ اپنی مثبت سوچ کے اعجاز سے خوش گوار نتائج کے حصول کا آرزو مند ہے۔ اگرچہ عملی زندگی میں اُس کے تجربات اور مشاہدات اُمید افزا نہیں رہے اس کے باوجود وہ حوصلے اور اُمید کی مشعل فروزاں رکھنے پر اصرار کرتا ہے ۔اس نے ظالم و سفاک مُوذی و مکار استحصالی عناصر اور جابر قوتوں کو بر ملا ہدف تنقید بنایا ہے ۔اُسے صرف تعمیری انداز فکر سے دلچسپی ہے کسی کی تخریب کے ساتھ اُس کا کوئی تعلق نہیں۔وہ نہایت اخلاق اور اخلاص سے کام لیتے ہوئے طنزو مزاح کی وادی میںقدم رکھتا ہے ۔ جب آزادی کی صبح درخشاں طلوع ہوئی تو تخلیق ادب میں بھی متعدد نئی جہات سامنے آئیں اُردو کی ظریفانہ شاعری پر بھی اس کے گہرے اثرات مرتب ہوئے ۔ مجید لاہوری کے شگفتہ اسلوب کی چند مثالیں :
’’بازی گر‘‘ بالما مجھ کو اِتنا بتا
تُونے ’’گھپلا ‘‘ کیا اور کیسے کیا
دیکھتے دیکھتے کیا سے کیا بن گیا
’’بازی گر‘‘ بالما
’’بازی گر‘‘ بالما
مجھ کو ’’کرسی‘‘دِلا مجھ کو عہدہ دِلا
کوئی ’’پرمٹ‘‘ دِلا کوئی ٹھیکہ دِلا
فیکٹری کوئی اور کوئی بنگلہ دِلا
’’بازی گر‘‘ بالما
’’بازی گر‘‘ بالما
یہاں ’’بازی گر‘‘ ایک علامت ہے جسے ایک نفسیاتی کُل کی صورت میں دیکھنا چاہیے ۔اِسی کے معجز نما اثر سے لاشعور کی توانائی پوری آ ب و تاب سے متشکل ہوتی ہے ۔ اپنی نوعیت کے اعتبار سے کواکب بھی بازی گر ہیں ۔عملی زندگی میں ہم کواکب کی جو صورت دیکھتے ہیں وہ ایسے ہر گز نہیں ہوتے۔یہ بازی گر دیکھنے والوں کو بے بسی کے عالم میں سرابوں میں بھٹکنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ پس نو آبادیاتی دور میں اس خطے میں مخلص اور ایثار پیشہ سیاسی قیادت کا عنقا ہو جانا ایک شدید بحران کی صورت اختیار کر گیا۔مجیدلاہوری کی نظم ’’ لیڈری ‘‘ میں اس مسئلے پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔ بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے ،قوت اور ہیبت سے اندھے کے ہاتھوں بٹتی ریوڑیوں سے اپنا حصہ بٹورنے کی غرض سے جب مرغانِ باد نما کے غول امڈ آتے ہیں تو مجید لاہور ی تڑ پ اُٹھتا ہے ۔وقت کا یہ سانحہ دیکھ کر ناطقہ سر بہ گریباں رہ جاتا ہے کہ ایسے عیار ٹھگوں کی یاوہ گوئی کے بارے میں کیا رائے دی جائے اور خامہ انگشت بہ دندا ں ہے کہ اِن طالع آزما کر گسوں کی ہرزہ سرائی کے بارے میں کیا لکھا جائے۔ اپنے انتہائی گھٹیا ذاتی مفادات کے حصول کے لیے جُھوٹی مداحی ،خوشامد ،عیاری ،مکاری ،چاپلوسی اور قصید ہ گوئی کی قبیح عادت سے ایسے بے ضمیر،بے وقار اور ننگِ انسانیت چاپلوسوں کے وارے نیارے ہیں مگر اہلِ وفا کو کٹھن حالات کا سامنا ہے۔ ایسے خوشامدی، ابلیس نژاد سفہا ، لفاظ حشرات ِسخن اور چڑھتے سورج کے پجاری اجلاف و ارذال نے اپنی عیاریوں سے قومی کردار کو شدید ضعف پہنچا کر ہمیں اقوام عالمِ کی صف میں تماشا بنا دیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ طالع آزما اور مہم جُو عناصر کو کُھل کھیلنے کا موقع مِل گیا ۔ مجید لاہوری کو اِس بات کا قلق ہے کہ انسان شناسی کی صلاحیت اب افراد ِ معاشرہ سے ناپید ہونے لگی ہے ۔وقت کے اِس لرزہ خیز اور اعصاب شکن سانحہ کو کس نام سے تعبیر کیا جائے کہ اس بے حس معاشرے میں شہر نا پرساں کا ہر جاہل اپنی جہالت کااِنعام ہتھیانے میںسبقت لے جاتاہے ۔ بہرام ٹھگ اور بروٹس کی اولاد نے ہر طرف اندھیر مچا رکھا ہے ۔ان حالات میں وقت کے ہر خوش فہم سیزر کواپنے انجام کے بارے میں کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں رہنا چاہیے ۔ مجید لاہوری کو اس بات کا رنج ہے کہ استحصالی عناصر نے حق و صداقت اور انصاف کو معاشرے سے بارہ پتھر کر دیا ہے ۔ اپنا اُلّو سیدھا کرنے کے بعدسیدھی راہ چلنے والے دردمند ،غم گسار ،مخلص اور بے ضرر افراد کو کہنی مار کر اپنے راستے سے ہٹانا سادیت پسند سفہا کاآزمودہ حربہ ہے ۔ ہر دور میں سادہ لوح لوگوں کو اَڑنگا ڈال کر منھ کے بَل گرانا او ر پاؤں کی ٹھوکر مار کر اُ ن کا کام تمام کرنا رمضانی ، سیٹھ ٹیوب و ٹائر کا وتیرہ رہاہے ۔ ایسے افعی معاشرتی زندگی کی تمام رُتیں بے ثمر،بستیاں پُر خطر،کلیاں شرر ، گلیاں خوں میں تر،آہیں بے اثر کر دی اور عمریں مختصرکر دیتے ہیں ۔ مظلوم ،بے بس و لاچار اور آلامِ روزگار کے مہیب پاٹوں میں پسنے والے مفلوک الحال انسانوں کوسنگِ راہ سمجھ کرحقارت سے ٹھوکر مار کر آ گے نکلنا اور اپنے محبوب کھرب پتی رفیق کے سنگ سنگ چلنا رمضانی ،سیٹھ ٹائر اور ٹیوب جیسے سفہا کا وتیرہ ہے ۔ وقت کے اس سانحہ نے مجید لاہوری کو مضطرب رکھا کہ ذمہ دار مناصب پر وہ تہی اور مثنیٰ سفہا قابض ہیں جو اس کی اہلیت سے محروم ہیں ۔ مجید لاہوری نے اس المیے پر اپنے کرب کا اظہار کرتے ہوئے لکھاہے :
گدھوں پہ لاد کے ہم بوجھ ’’ذمہ داری‘‘ کا
یہ کہہ رہے ہیں ،کوئی آدمی نہیں مِلتا
تم کل تھے ایک چھوٹی سی مسجد کے پیش اِمام
’’ ہم کو دعائیں دو تمھیں لیڈر بنا دیا‘‘
حریت ِ فکر و عمل کے ایک مجاہد کی حیثیت سے مجید لاہوری نے ابتلا اور آزمائش کے ہر دور میں حرف ِ صداقت لکھنا اپنا مطمحِ نظر بنایا ۔ وہ مصلحت ِ وقت کے قائل نہیں بل کہ سر اُٹھا کر چلنا ہمیشہ اُس کا شیوہ رہا ہے ۔اُس کے مزاج میں ایک شانِ استغنا ہے ،اسی لیے وہ اپنی دنیا میں مگن نہایت خاموشی سے پرورش لوح و قلم میں مصروف رہا۔ اپنے تجربات و مشاہدات کو بلا کم و کاست زیبِ قرطاس کرتے چلے جانا زندگی بھر اس کاشیوہ رہا ۔اِسلامی ممالک میں ماہِ صیام کے احترام کی روایت صدیوں پرانی ہے ۔ زندگی کی درخشاں روایات اور اقدار عالیہ کی زبوں حالی کے نتیجے میں حالات نے ایسا رخ اختیار کیا کہ اَب ماہِ صیام کے تقدس و احترم کو ملحوظ نہیں رکھا جاتا۔ ٹرانسپورٹ کی آڑ میں جگہ جگہ’’ چمن ہوٹل ‘‘بن گئے ہیں جن میں نام نہاد مسافر اور فرضی علیل افراد دن بھر دعوتوں میں مصروف رہتے ہیں ۔ ماہ صیام میں عشرت کدوں اور ہوٹلوں میں چُھپ کر دعوتیں کھانے اور خوب گُل چھرے اُڑانے والوں کے قبیح کردار پر گرفت کرتے ہوئے مجید لاہوری نے لکھا ہے :
’’ چمن ہوٹل ‘‘ میں یہ رمضان کے بیمار بیٹھے ہیں
نہیں اُٹھنے کی طاقت کیا کریں لا چار بیٹھے ہیں
فاقہ مستی کی عید آئی ہے
’’ ٹیوب جی سیٹھ ‘‘ کی دہائی ہے
اپنی ایک نظم ’’ عید کا دِن ‘‘ میں مجید لاہوری نے ماہ ِ صیام میں روزے نہ رکھنے والے مسخروں کو آئینہ دکھایا ہے۔
زہے قسمت ہِلال ِ عید کی صُورت نظر آئی
جو تھے رمضان کے بیمار اُن سب نے شفاپائی
ہوئی ا نگور کی بیٹی سے ’’ مستی خان ‘‘کی شادی
کُھلے در مے کدوں کے اور مِلی رِندو ںکو آزادی
خود ستائی کے مرض میں مبتلامہا تُما(بہت بڑا حنظل) جب ہوس زر کا اسیر بن جاتا ہے تووہ نہ صرف اپنے منہہ میاں مٹھو بننے کے خبط میں مبتلا ہو جاتا ہے بل کہ اہلِ کمال کی پگڑی اُچھا لنا اس بز اخفش کا معمول بن جاتا ہے۔ا یسے ابلہ سفہا کی کور مغزی،ذہنی افلاس اور بے بصری کا یہ حال ہوتا ہے کہ خورشید ِ جہاں تاب کی ضیا پاشیوں کو بھی وہ محض جگنو کی روشنی پر محمول کرتے ہیں۔ مجید لاہوری کی ظریفانہ شاعری میں بلند فکری منہاج،وسیع مطالعہ،مشاہدات،تجربات اور تجزیات کا خرمن قاری کو مسحور کر دیتاہے۔ معاشرتی زندگی میں رو نما ہونے والے مزاحیہ واقعات کی لفظی مرقع نگاری میں مجید لاہوری کو کمال حاصل ہے۔خود غرضی پر مبنی سفلی تمنائوں میں اُلجھے اور ہوسِ زر کے کُچلے نام نہاد سخن ور ستائش اور صلے کے لالچ میںجب زندگی کی اقدارِ عالیہ کو پسِ پشت ڈال کر اور اپنے ضمیر کا گلا گھونٹ کر قصیدہ گوئی اور مدح سرائی کی بھونڈی روش اپنا لیتے ہیں تو ان کا یہ انداز ان کی رسوائی اور جگ ہنسائی کا سبب بن جاتا ہے۔پس نو آبادیاتی دور میں مقتدر حلقوں نے عوامی مسائل کو پس پشت ڈالنے کی جو روش اپنائی مجید لاہوری نے اُس پر اپنی تشویش اور غم و غصے کا اظہار کرنے میں کبھی تامل نہ کیا :
ہمارے حال پر سرکار کتنی مہربانی ہے
نہ ایندھن ہے ،نہ چینی ہے ،نہ آٹاہے ،نہ پانی ہے
یہ ’’الیکشن‘‘ کا کھیل ہے پیارے
دَھن کی جو ریل پیل ہے پیارے
مجید لاہوری کی ظریفانہ شاعری میں مزاحیہ کردار اور مسخرے اپنی ہئیت کذائی سے عجب رنگ پیش کرتے ہیں۔ مزاحیہ کردار اور مسخر ے میں جو فر ق ہے وہ اہلِ نظر سے پوشیدہ نہیں ۔معاشرتی زندگی میں مسخرے بالعموم عزت واحترام سے یکسر محروم ہوتے ہیں ۔ ان کی حرکات و سکنات دیکھ کر اور تکلم کے سلسلے سُن کر ہنسی ضبط کرنا محال ہو جاتا ہے۔ جہاں تک مزاحیہ کردار کا تعلق ہے تو یہ اپنی خود ساختہ جعلی اور فرضی توقیر و تکریم کی بنا پر اپنے تئیں عصرِ حاضر کا نابغہ سمجھ کر رواقیت کا داعی بن بیٹھتا ہے ۔ سادیت پسندی کے مرض میں مبتلا اس کور مغز سفلہ کی نظر میں کوئی اہل کمال جچتا ہی نہیں ۔ اس سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ مزاحیہ کردار جعلی وقار کا بھرم قائم رکھنے کے لیے بناوٹ ، دکھاوے،سفلگی ،سادیت پسندی اور منافقت کا سہار ا لیتا ہے مگر مسخر ے کے عیوب اس قد ر واضح ہوتے ہیں کہ انھیں چھپانے کی کوئی کوشش کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی ۔ معاشرتی زندگی میں مزاحیہ کرداروں اور مسخروں کی بڑھتی ہوئی کارستانیوں کی لفظی مرقع نگاری کر کے مجید لاہوری نے زبان و بیان پر اپنی کا مل دسترس کا ثبوت دیا ہے۔ مجید لاہوری نے اقربا پروری ،جاہ طلبی اور خود غرضی کو لوٹوں اور لٹیروں کی حرص و ہوس کا جال قرار دیاہے ۔ کردار سے عاری اِن ننگ انسانیت درندوں کی زبان آری کی طرح چلتی ہے اور یہ سدا اہل کمال کے در پئے پندار ر ہتے ہیں ۔اِن کی بے حسی ،بے شرمی ،ڈھٹائی اور موقع پرستی پر مجید لاہوری نے کاری ضرب لگائی ہے ۔
اگر ہوتی رہیں اقبال پر اِنگلش میں تقریریں
بدل جائیں گی اِک دِن دیکھنا مِلت کی تقدیریں
چھڑی اِک ہاتھ میں ہے اور ہے اِک ہاتھ میں سگریٹ
’’جہادِ زندگانی میں یہ ہیں مَردوں کی شمشیریں
مجید لاہوری نے نہایت خوش اسلوبی سے ان تما م ضمیر فروش مسخروںکو طنز و مزاح کا ہدف بنایا ہے ۔زندگی کی اقدارِ عالیہ اور درخشاں روایات کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے ہوسِ جاہ و منصب کے مارے درندوں نے ہر طرف اندھیر مچا رکھا ہے ۔ سیلِ زماں کے تھپیڑوں میں حالات کی سفاکی کو دیکھ کرایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم جزیرہ ٔجہلا میں پھنس گئے ہیں۔ چاروں طرف سمندر کی تلاطم خیز موجیں ہیں جہاں نہ تو کوئی اُمید بر آتی ہے اور نہ ہی بچ نکلنے کی کوئی صورت نظر آتی ہے ۔کُوڑے کے ڈھیر سے جاہ و منصب کے استخواں نوچنے والے خارش زدہ سگان ِ آوارہ اور درِ کسریٰ کی دہلیز پر ناک اور پیشانی رگڑ نے کے بعد کئی کرگس، زاغ و زغن اور بُوم و شپر اب شاہینوں کے آشیاں میں گُھس گئے ہیں۔ یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ شعر و ادب اور فلسفے کی ابجد سے لا علم انگوٹھا چھاپ بھی رواقیت کے داعی بن بیٹھے ہیں اورذوقِ سلیم اور صحتِ زبان و ادب پر مسلسل ستم ڈھا رہے ہیں۔یہ ابلہ بُزِ اخفش جو مضامین لکھتے ہیں،وہ سب کے سب پشتارہ ٔ اغلاط ہوتے ہیں اور یہ چربہ ،سرقہ اور کفن دُزدی کی بد ترین مثال ہیں ۔
اپنی ایک نظم ’’ ماڈرن آدمی کے نام ‘‘ میں مجید لاہوری نے پس نو آبادیاتی دور میں زندگی کی اقدار و روایات کی زبوں حالی پر اپنے خاص انداز میں لکھاہے :
وہ بھی ہے آدمی جسے کوٹھی ہوئی الاٹ
وہ بھی ہے آدمی مِلا جس کو گھر نہ گھاٹ
وہ بھی ہے آدمی جو اُٹھائے ہے سر پہ کھاٹ
موٹر میں جا رہا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
رکشا چلا رہا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
مشکو ک نسب کے وضیع سارق بڑی بڑی جعلی ڈگریوں اور مصنوعی کرّو فر سے بلند مناصب پر غاصبانہ قبضہ کرنے میں کام یاب ہو جاتے ہیں اور مجبور انسانیت کے چام کے دام چلاتے ہیں۔ یہ بگلا بھگت رجلے خجلے، سفیدکوے ،کالی بھیڑیں ،گندے انڈے اور عفونت زدہ مچھلیاں اس حقیقت سے غافل ہیں کہ قصر و ایوان کی بلند و بالا فصیل پر بیٹھ جانے سے بُوم کبھی عقاب نہیںکہلا سکتااور وادی و مرغزار میں نیچی پرواز کرنے سے بد وضع گِدھ کبھی سر خاب نہیں بن سکتا۔ ان چکنے گھڑوں کی جسارت ِ سارقانہ کو دیکھ کر کلیجہ منہہ کو آتا ہے ۔ مجید لاہوری نے اس قماش کے مفاد پرست انگوٹھا چھاپ جہلا کے قبیح کردار پر گرفت کرتے ہوئے ان کے مکر کا پردہ فاش کرتے ہوئے اپنی نظم میں لکھا ہے :
اُٹھو میری دنیا کے غریبوں کو مِٹا دو
کاخِ امر ا کے درو دیوار سجا دو
سلطانیٔ فغفور کا آتا ہے زمانہ
جو نقش نیا تم کو نظر آئے مٹا دو
میں نا خوش و بیزار ہو ں مٹی کے حرم سے
میرے لیے مر مر کا محل اور بنا دو
اجلاف و ارذال کے پروردہ مشکوک نسب کے درندوں نے مجبور انسانیت پر عرصۂ حیات تنگ کر دیاہے ۔ دکھی انسانیت کی توہین ،تذلیل اور تحقیر کرنے و الے سادیت پسندوں کے استحصال اور مکر کا پردہ فاش کرتے ہوئے مجید لاہوری نے حریت فکر کا علم بلند رکھا۔قحط الرجال کے دور میں پیمان شکن ،محسن کش ،پیشہ ور ٹھگ اور عادی دروغ گو سفہا کے قبیح کردار پر گرفت کرتے ہوئے مجید لاہور ی نے اپنی نظم ’’ دہلی کا تحفہ ‘‘ میں لکھا ہے :
وفاؤں کے بدلے جفا کر ریائے
میں کیا کر ریاؤں تُو کیا کر ریا ئے
میں جو کر ریاؤں ،بھلا کر ریاؤں
تُو جو کریائے ،بُرا کر ریائے
عدو سے بھی وعدے ،مجھے بھی دِلاسے
میں حریاں ہوں تو یہ کیا کر ریائے
اپنی ظریفانہ شاعری میں مجید لاہوری نے قارئینِ ادب کو اس جانب متوجہ کیا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اہلِ وفا کی صورت حال تو جو ں کی توں رہی مگر بے ضمیروں کے سدا وارے نیارے رہے ۔ مجید لاہوری کی ظریفانہ شاعری میں طنز کی نشتریت قاری کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے ۔اس نے اپنی ظریفانہ شاعری میں اس جانب توجہ مبذول کرا ئی ہے کہ زندگی محض رونے اور بسورنے سے ہر گز بسر نہیںہو سکتی بل کہ حالات کا خندہ پیشانی سے سامنا کرنے ہی سے سمے کے سم کے ثمر کے بارے میں کوئی ٹھوس لائحہ عمل مرتب کیا جا سکتا ہے اور اس مسموم ماحول سے بچنے کی کوئی صورت تلاش کی جا سکتی ہے ۔آج کا انسان مظلومیت کی تصویر بنا ،محرومیوں کے چیتھڑے اوڑھے نشیبِ زینہ ٔ ایام پر عصا رکھتے زینہ ٔ ہستی سے اُتر جاتا ہے مگر کوئی اُس کا پُرسانِ حال نہیں ہوتا ۔اردو شاعری میں کامیاب طنز و مزاح لکھنے والے صاحب اسلوب شاعر کی حیثیت سے مجید لاہوری نے ہنسی کے خوش رنگ دامنوں میں اپنے آ نسو چھپاتے ہوئے ہر قسم کی نا انصافیوں کو خندہ ٔ استہزا میں اُڑانے کی مقدور بھر کوشش کی ہے ۔معاشرتی زندگی کا انتشار ،تضادات ،مناقشات اور بے اعتدالیاں اُسے مایوس نہیں کرتیںبل کہ وہ قارئین کے دلوں کو اپنی ظریفانہ شاعری کے ذریعے ایک ولولہ ٔتازہ عطا کرتا ہے ۔اس کی شاعری میں زہر خند اور طنز کی نشتریت قاری کو ایک انوکھے تجربے سے آشنا کرتی ہے ۔کتنے ہی آنسو قاری کی پلکوں تک آتے ہیں مگر وہ زیر لب مسکراتے ہوئے اس شگفتہ شاعری کا استحسان کرتا ہے ۔اردو شاعری میں طنزو مزاح کے یہ انداز کئی اعتبار سے قومی کلچر کے بارے میں حقیقی شعور کو سامنے لاتے ہیں ۔یاد رکھنا چاہیے ظرافت کا قصر عالی شان ہمدردانہ شعور کی اساس پر استوار ہوتا ہے ۔ہر ظالم پہ لعنت بھیجنا مجید لاہوری کا ادبی مسلک ہے ۔ہر شعبہ ٔ
زندگی سے وابستہ قارئین ادب کے لیے اصلاح اور تفریح کے مواقع پیدا کرنے کی سعی کرنے والے اس تخلیق کار کی شگفتہ شاعری ہر عہد میں مسکراہٹیں بکھیرتی رہے گی۔ادبی حلقوں نے اب انجمن ستائش باہمی کی صورت اختیار کر لی ہے ۔اب کسی با صلاحیت ادیب کے بارے میں کلمہ ٔ خیر کہنے والے کم کم دکھائی دیتے ہیں۔ مجید لاہوری نے تنقید اور تحقیق کی اس محرومی پر گرفت کی ہے ۔اس کے موضوعات کا دائرہ وسیع اور مقبولیت لا محدود ہے چھبیس جون 1957ء کو مجید لاہوری نے داعیٔ اجل کو لبیک کہا ۔کراچی کی زمین نے اُردو کی ظریفانہ شاعری کے اِس آسمان کو ہمیشہ کے لیے اپنے دامن میں چُھپا لیا ۔
خواجہ رضی حیدر (مرتب):مجید امجد ایک مطالعہ ،سُرتی اکادمی ،کراچی ،۲۰۱۳
خواجہ رضی حید ر کا شمار پاکستان کے اُن ممتاز ادیبوں میں ہوتا ہے جن کی تحقیقی ،تنقیدی اور تخلیقی فعالیت کا ایک عالم معترف ہے ۔وہ اپنی ذات میں ایک انجمن اور دبستانِ علم و ادب ہیں۔پاکستانی ادبیات کے فروغ میں اُن کا کردار بے حد اہمیت کاحامل ہے ۔عالمی کلاسیک کا انھوں نے وسیع مطالعہ کیا ہے اور جدید پاکستانی ادب کے وہ شیدائی ہیں ۔جدید اُردو نظم کے ارتقا پر اُن کی گہری نظر ہے ۔مجید امجد کی شاعری کے وہ دلدادہ ہیں ۔مجید امجد (پیدائش :۲۹جون ۱۹۱۴۔ وفات:۱۱مئی۱۹۷۴)کے صد سالہ جشنِ پیدائش کے موقع پر ’’مجید امجد :ایک منفرد آواز‘‘جیسی اعلا معیارکی کتاب کی اشاعت ایک نیک شگون ہے۔مرتب نے اس کتاب کے ذریعے مجید امجد کو شان دار خراجِ تحسین پیش کیا ہے ۔اس کتاب میں مجید امجد کے نادر و نایاب مکاتیب کو پہلی مرتبہ یک جا کیا گیا ہے ۔یہ مکاتیب مجید امجد نے شاہد سلیم جعفری کے نام لکھے تھے۔مجید امجد ’’روشنیوں کے ابد میں ‘‘کے عنوان سے مجید امجد کی پندرہ نظمیںاس کتاب میں شامل ہیں ۔کتاب کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔پہلے حصے میں مجید امجد کے سوانحی مطالعہ پر دس مضامین شامل ہیں ۔یہ مضامین ڈاکٹر خورشیدرضوی ،ڈاکٹر انورسدید ،ڈاکٹر غلام شبیررانا،ڈاکٹر منظوراعجاز،یوسف تنویر،امین رضا ،عسکری حسن ایڈووکیٹ ،انتظار حسین،سجاد میراور سید امین ترمذی نے لکھے ہیں۔مجید امجد کی نظموں کا تجزیاتی مطالعہ کے سلسلے میں سترہ مضامین کتاب میں مو جود ہیں ۔ان مضامین کے لکھنے والوں کے نام درجِ ذیل ہیں :
ڈاکٹر سید عبداللہ ،احمد ندیم قاسمی ،مظفر علی سید ،ڈاکٹر خورشید رضوی ،ڈاکٹر وزیر آغا،ڈاکٹر سلیم اختر ،ڈاکٹر تبسم کا شمیری ،اشتیاق احمد ،شہزاد احمد ،ڈاکٹر سعادت سعید ،مظہر فرید فریدی،سراج منیر ،پروفیسر نبیلہ،تلمیذ فاطمہ برنی ،عنبرین منیر ،قاسم یعقوب ،خواجہ رضی حیدر ۔
کتاب کے تیسرے حصے میں مجید امجد کی غزلوں کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا گیا ہے ۔اس حصے میں تین مضامین شامل ہیں جو ناصر شہزاد ،ڈاکٹر انور سدید اورڈاکٹر ناصر عباس نیر نے لکھے ہیں ۔اس کتاب کے چوتھے حصے میں مجید امجد کے مکاتیب شامل ہیں جو اُنھوں نے شاہد سلیم جعفری کے نام لکھے تھے۔یہ گیارہ خطوط مجید امجد کی زندگی کے نشیب و فراز کو سمجھنے میں بے حد معاون ہیں۔ اس حصے میں شامل شاہد سلیم جعفری کا مضمون ’’میری یادوں کا سرمایہ‘‘پڑھ کر آنکھیں بھیگ بھیگ گئیں ۔ لائق مضمون نگار نے مجید امجد سے وابستہ یادوں کو نہایت خلوص کے سا تھ پیرایہ ٗ اظہار عطا کیاہے۔ مجید امجد کی نثر نگاری کے تجزیاتی مطالعہ پر مبنی چھے مضامین اس حصے میں شامل ہیں ۔ ڈاکٹر غلام شبیررانا ،شاہد سلیم جعفری ،ڈاکٹر انور سدید اور مظہر ترمذی نے یہ مضامین تحریر کیے ہیں ۔پانچواں اورآخری حصہ مجید امجد کی منتخب نظموں کے انتخاب پر مشتمل ہے ۔یہ انتخاب مرتب کے ذوق ِ سلیم کا مظہر ہے ۔اس میںنعتیہ مثنوی ،مقبرہٗ جہانگیر ،درسِ ایام ،نژادِ نو،زندگی اے زندگی،پچاسویں پت جھڑ ،صدا بھی مرگِ صدا،بھکارن،مِرے خدا مِرے دِل ،کُندن ،آٹوگراف،لاہور ،ایک دعا،منٹو،نہ کوئی سلطنت ِ غم نہ اقلیمِ طرب شامل ہیں۔
کتاب ’’مجید امجد :ایک منفرد آواز ‘‘کا انتساب ڈاکٹر خورشیدرضوی اور سید شاہدسلیم جعفری کے نام کیا گیا ہے۔یہ کتاب آج کے اشک بار زمانوں کے واسطے ساعتِ بہار کا ایک ایسا نذرانہ ہے جو دِل کی وہ کہانی سنا رہا ہے جو ابھی تک نہیں کہی گئی۔ان جانے شہر میں پرائے لوگوں کی بِھیڑ میں بھی تنہائی کے مسموم ماحول میں زندگی کے دن پورے کرنے والے اس عظیم تخلیق کار کو خراج تحسین پیش کر کے ایک مستحسن کام کیا ہے ۔مضمون نگاروں نے نہایت خلوص اور دردمندی کے ساتھ مجید امجد کی زندگی اور اسلوب ِ فن پر روشنی ڈالی ہے ۔قاری کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ مضمون نگاروں نے ہر بات سینے پر درد کی سِل رکھ کر کی ہے ۔یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ یہ کتاب مجید امجد کے بارے میں قاری کے خواب ِ دِل نشیں کی کائنات کی شکل اختیار کر گئی ہے ۔اس کے مطالعہ سے قاری اپنے قلب اورروح کی غواصی کرکے اس لافانی تخلیق کار کی سدا بہار شخصیت او ر ابد آشنا اسلوب کے تمام موسموں سے آگاہ ہو جاتا ہے ۔
اُنھیں حقیقت ِ دریا کی کیا خبر امجدؔ
جو اپنی روح کی منجدھار سے نہیں گُزرے