13 سال بعد
آیت صبح صبح نھنے ہاتھوں کے جگانے کے باعث اٹھی۔اس کی بیٹی بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھی اور اپنے چھوٹے ہاتھوں سے ماں کو جاگا رہی تھی کہ اٹھ جائے اسے بھوک لگی ہے۔یہ اس کی دس ماہ کی بیٹی تھی ۔آیت بیڈ سے اٹھی تو وقت دیکھا دس بج رہے تھے۔آج اتوار تھا تو یقینا بچے بابا کے ساتھ کھیل رہے ہوں گے۔آیت اپنی بیٹی فاطمہ کو دودھ پلا کر کھڑکی کے پاس آئی۔باہر لان کے ایک سائڈ پر اسے پول میں اس کا بیٹا کبیر بابا کے ساتھ کھیلتا نظر آیا۔عائشہ پول سائیڈ پر ہی بیٹھی ہوئی بھائی اور بابا کو دیکھ رہی تھی۔اس کے ساتھ ماریہ بیٹھی ہوئی تھی جو شاید کوئی ڈرائنگ کر رہی تھی۔سامنے درختوں کے پاس لگے جھولے پر عبداللہ بیٹھا ہوا تھا اور عمارہ اسے اٹھا رہی تھی کہ اس نے کھیلنا ہے اب۔عبدالرفع بھی باپ اور بھائی کے ساتھ پول میں چلا گیا۔آیت اندر سے یہ منظر دیکھ کر ہسنے لگ گی۔فاطمہ شیشے سے یہ منظر دیکھ کر اپنے بابا کو اپنی زبان میں بولا رہی تھی کہ اسے بھی ساتھ لے جائیں ۔بچے باپ کے دیوانے تھے کچھ بھی ہوجائے انہیں بس ولید چاہیے ہوتا تھا۔آیت اپنا ڈوپتا گلے میں ڈالے باہر آئی۔گرمی بہت تھی اس کے باوجود بچے لان میں ہی کھیل رہے تھے۔
فاطمہ کو اس نے نیچے چھوڑ دیا جو گھاس سے رینگتی ہوئی پول کے پاس آئی۔ولید نے فورا اسے اٹھا لیا۔
“بابا کی گڑیا آئی ہے۔بابا کا راجا بچا جاگ گیا ہے۔”
ولید اسے پانی میں کھڑا کرتے ہوئے اس کے ساتھ مستی بھی کر رہا تھا۔آیت اپنے بچوں کو دیکھ رہی تھی۔قدرت نے آج سے 14 سال پہلے اسے زندگی کا ایک بہت عجیب سا روپ دیکھایا تھا مگر پھر یہ خوبصورت سا آشیانیہ بھی عطا کیا تھا۔اس کے سات بچے تھے چار بیٹیاں اور تین بیٹے ۔ولید کو بچے بہت پسند تھے اور آیت کو بھی۔حویلی والے ان بچوں کو دیکھ کر ہی جیتے تجے۔آیت اپنے بچوں کو لے کر حویلی واپس نہیں گئی تھی کیونکہ یہ اپنے بچوں کو پرسکون ماحول دینا چاہتی تھی ۔حویلی میں بابا جانی کا انتقال دس سال پہلے ہوگیا تھا ۔آیت کے ساس سسر اپنی بیٹی کے حالات دیکھ کر بہت پریشان ہوتے تھے ۔شاہ بخت اور مہر دونوں حویلی آگئے تھے ۔مہر کو ڈپریشن ہوگیا تھا شدید جس کی وجہ سے وہ بہت زیادہ چڑ چڑی ہوگئی تھی۔اسی وجہ سے سب حویلی سے دور بھاگتے تھے۔تارا نے اپنی ایک بیٹی اپنے بھائی کو دے دی تھی مگر مہر کو پھر بھی سکون نہیں تھا اسے لگتا تھا کہ اس کا بیٹا نہیں ہے تو اس کی حیشیت بہت کم ہے آیت سے۔ آیت کے والد فوت ہوگئے تھے اور والدہ آیت کے ساتھ ہی زیادہ رہنے آجاتی تھی۔آیت کے بچوں کی خاطر وہ بہت زیادہ خوش ہوجاتی تھی۔انہیں بھول جاتا تھا کہ ان کے گھر کے حالات کیسے ہیں ۔ولید پول سے باہر آیا تو اس نے پانی آیت کے اوپر پھینکا ۔
“ولید خان کیا کر رہے ہیں آپ ۔”
“آیت خان آپ بھی تو صبح صبح اٹھ کر آگئی ہیں کمرے سے۔ایک دن آپ کو آرام نہیں لگتا محترمہ۔”
“آپ کے بچے آرام کرنے دیتے ہیں مجھے۔
آپ کی بیٹی نے مجھے سویا ہوا جاگا دیا۔اس سے پوچھیں جو محترمہ ابھی بھائی ساتھ کھیل رہی ہیں ۔”
“آپ کے بچے یعنی وہ تمہارے بچے نہیں ہیں کیا۔بہت غلط بات ہے ویسے ۔تمہیں مزے کی ایک بات کہوں میں سوچ رہا تھا فاطمہ اکیلا محسوس کرتی ہے سارے بچے چلے جاتے ہیں سکول تو ہماری بیٹی کے لیئے ایک دوست ہونا چاہیئے نہ۔”
ولید کی بات سمجھتے ہی آیت نے اسے ایک مکہ مارا۔
“شرم نہیں آتی آپ کو خان۔ چار بیٹیوں کے باپ ہیں پھر بھی شرم چھو کر نہیں گزری۔جب دیکھو ٹھڑکی پن سوار ہوا ہوتا پے۔کبیر اور عائشہ بڑے ہوگئے ہیں انہیں سمجھ آتا ہے سب کچھ ۔”
“تو میں کیا کروں اب ان کے لیئے اپنی بیوی سے رومانس کرنا چھوڑ دوں۔کبیر کو پتا ہے بابا کتنا پیار کرتے ہیں ماما سے۔ویسے فاطمہ کے لیئے ایک دوست لانے پر ہمیں سوچنا چاہیے سنجیدگی سے۔”
آیت ولید کی بات پر تپ گئی۔
“خبردار جو بچوں کا نام لیا آپ نے۔سب ہنستے ہیں پہلے ہی مجھ پر کہ میرے سات بچے ہیں آپ کیا چاہتے ہیں کہ میرا حال خراب ہو اور۔”
“ارے حال خراب کون چاہتا ہے خان بیگم۔چھوڑیں لوگوں کی باتوں کو اگر ہم نے لوگوں کی باتوں کو دیکھا ہوتا تو ابھی ہم ان بچوں کے ماں باپ نہ ہوتے۔”
“فاریہ نوری کو لائے گی کل آپ ذرا بچوں کو سمجھا دینا وہ ان کی طرح جنگلی نہیں ہے تو ذرا میری بے عزتی کم ہی کروائے لوگوں کے سامنے۔”
“اف بیوی اتنا غصہ مت کیا کریں ۔دیکھو تو بچے ہی ہیں جن کی وجہ سے ہماری زندگی خوبصورت ہے اگر اب یہ نہ ہوں تو زندگی بہت بے رنگ ہے۔”
“آپ نے تو یہی کہنا ہے نہ سارا دن تو میں ان کے پیچھے پیچھے پھرتی ہوں۔وہ دیکھیں عمارہ کو۔”
عبداللہ نے عمارہ کے بال تھام رکھے تھے ۔یہ دونوں چھ اور پانچ سال کے تھے۔بہت کم فرق تھا ان میں۔سب سے زیادہ شرارتی تھے یہ دونوں ۔اییک بیٹا 8 برس کا تھا اور ماریہ 10 سال کی تھی۔سب سے چھوٹی فاطمہ تھی جس کی پیدائش پر ولید نے یہ گھر اور بزنس آیت کے نام پر دیا تھا ۔فاطمہ ولید کو بہت عزیز تھی کیونکہ یہ ولید کو اس کے بچپن کا وقت یاد کرواتی تھی۔
“اچھا ناراض تو مت ہو آیت میں آرہا ہوں اندر پھر ملکر ناشتہ کرتے ہیں ۔کبیر دیکھ لے گا فاطمہ کو۔”ولید اندر چلا گیا جب کہ آیت اپنے بچوں کو دیکھ رہی تھی جو کوئی نئی شرارت سوچ رہے تھے.
___________________
شاہ بخت آفس سے تھکا ہوا آیا مگر گھر آکر اسے معلوم تھا کہ اسے سکون نصیب نہیں ہونا۔مہر 10 سالہ حوریہ کو سلا کر آئی تھی۔مہر نے حوریہ کو بھی اپنی ہی طرح کا ذہنی مریض بنا دیا تھا ضدی اور جو چیز چاہیے ہو اسے حاصل کرنا ہے۔
شاہ بخت ہو حوریہ سے بہت محبت تھی۔یہ اسے اپنی جان سے بڑھ کر پیارکرتا۔مہر بھی اس سے محبت کرتی ۔مگر جو خامیاں اس کی شخصیت میں تھی وہیں خامیاں اب وہ حوریہ کی تربیت میں دے رہی تھی ۔
” مہر ایک گلاس پانی لا کر دو مجھے۔”
“آج دیر کیوں لگا دی آپ نے شاہ بخت۔”
“بس وہ آج آفس میں کام زیادہ تھا ۔تم بتائو ہسپتال کیسا رہا تمہارا ۔”
“میرا ہسپتال تو ٹھیک تھا مگر آپ آج کل گھر بہت دیر سے آتے ہیں مجھے بتا دیں کیا کوئی اور لڑکی ہے جس سے آپ کا افئیر چل رہا ہے آج کل۔”
“شرم کر جایا کرو مہر کیا کوشش ہے تمہاری کہ میں و کھڑی سکون بھی نہ لوں اس گھر میں آکر۔تم۔نے میرا جینا حرام کر رکھا ہے۔”
“جینا میں نے نہیں حرام کر رکھا آپ کا بلکہ آپ کو تو میرا شکر گزار ہونا چاہیے کہ میں نے آپ کو آپ کی ہر کمی کے ساتھ اپنایا ہے۔”
“تم کتنی دفعہ مجھے طعنہ دو گی مجھے اس بات کا۔ایسا کرو ایک بار ہی میرا گلا دبا دو۔”
“ہاں ہاں اب تو میں بری ہی لوگوں گی کوئی اور جو آگئی ہے میری جگہ ۔میں تو کہتی ہوں چلے جائیں آپ اسی کے پاس ۔”
شاہ بخت غصے میں باہر چلا گیا۔مہر نے خود اپنے ہاتھوں سے اپنا آشیانیہ تباہ کیا تھا۔شاہ بخت اسے چھوڑ بھی نہیں سکتا تھا۔ان دونوں کی زندگی عذاب تھی اور زیادہ ہاتھ مہر کا ہی تھا۔مہر کی والدہ اس کے پاس آئی اور اسے سمجھانے لگی مگر کوئی حل نہ نکلا آخر میں۔
_________________________
فاریہ آیت سے ملنے کے لیئے آئی ہوئی تھی۔نور اس وقت سب کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی۔عائشہ اسے باہر کھیلنے کے لیئے لے کر جانا چاہتی تھی مگر وہ سب سے ڈر رہی تھی ۔یہ بہت زیادہ سنجیدہ بچی تھی ۔فاریہ زیادہ وقت ہسپتال میں رہتی تو نور پر اتنا دھیان نہ دے پاتی جس کی وجہ سے نور کی شخصیت میں دنیا کا ڈر تو نہیں مگر ایک عجیب سے جھجک تھی جس کی وجہ سے یہ کسی سے بات نہیں کرتی تھی۔
“نوری ہمارے ساتھ آکر کھیلو نہ۔”
ماریہ نے نور کو اٹھانا چاہا۔
“نہیں نہ ماما میں نے نہیں جانا انہیں کہیں نہ مجھے اچھا نہیں لگتا ۔”
کبیر فورا سے آیا اور نور کا ہاتھ پکڑ کر اسے فاریہ کے پاس سے اٹھایا۔
“آنٹی آپ ذرا کم پریشان ہوا کریں اس کے لیئے۔ کچھ دن ہمارے پاس رہی گی تو یہ بلکل بدل جائے گی آپ نے اسے بلکل بچی بنا دیا ہے۔”
کبیر نور کا ہاتھ تھام کر باہر لے گیا جسے سب پر بہت غصہ آرہا تھا۔فاریہ آیت کی طرف دیکھنے لگ گئی۔
“میری بات سنو کیسے سنبھالتی ہو تم اتنے بچوں کو۔میں تو حیران ہوتی ہوں میرے دو دو ہی بچے ہیں اور انہیں سنبھالنا مشکل ہے۔”
“اب تو بڑے ہوگئے ہیں فاریہ۔کبیر اور عائشہ بہت سمجھدار ہیں چھوٹے تین بچے تو میں نے دیکھا بھی نہیں کیسے پل گئے۔یہی ان کا خیال رکھتے ہیں ۔”
“کہاں یاد ہے نہ تم ولید بھائی سے بھاگا کرتی تھی اور کہاں تمہارا دل ہی نہیں لگتا ان کے بغیر اب۔”
“بس زمانہ بدل جاتا ہے فاریہ۔ولید نے مجھے بہت محبت دی ہے اس عرصے میں تم سوچ بھی نہیں سکتی۔ہر وہ لمحہ جو ان کا میرے ساتھ گزرتا ہے وہ اپنی ماضی کا ہر ایک لمحہ پیار سے مٹا دیتے ہیں ۔وہ سب بھول چکے ہیں تو میں کیوں انہیں یاد کروا کر خود کو برباد کروں۔میرے بچے اپنے باپ کے ساتھ بہت خوش ہیں اور میں بھی۔”
یہ تو بہت اچھا ہے کبھی کبھی دوسرا موقع زندگی میں ضروری ہوتا ہے۔تمہارے گھر کے لیئے میری دعائیں تو ہمیشہ ہی ہیں ۔بچے کہہ رہے تھے مری جائو گے تم لوگ گرمیوں کی چھٹیوں میں تو نور اور سلیمان کو بھی لے جانا ۔سب کے ساتھ گھوم پھر لیں گے۔”
“پوچھنے کی بات ہے یہ بھلا میں بچوں کی خالہ ہونا میرے زیادہ حق ہے ان پر۔بھائی خالد نے اجازت دے دی ہے نہ۔”
“ارے وہ تو کہہ رہے تھے کچھ وقت ہم دونوں بھی ساتھ گزاریں تو میں نے کہا بچے تمہارے پاس چلے آئیں اور ہم کہیں گھومنے جائیں گے۔”
“کوئی مسئلہ نہیں ہے فاریہ بچے خوش رہیں گے ہمارے ساتھ ۔تم پریشان مت ہونا۔”
وقت اپنی رفتار کچھ بڑھا دیتا ہے۔کبیر ہاتھ میں کیمرہ لیئے ماں باپ کی شادی کی 20 سالگرہ پر تصویریں بنا رہا تھا۔آیت نے آج ساڑھی پہنی ہوئی تھی۔گھر میں صرف بچے تھے اور آیت ولید۔انہیں پسند نہیں تھا کہ یہ اپنی پرسنل لائف میں کسی کو شامل کریں ۔
“بابا آپ سیدھے کھڑے ہوجائیں نہ۔مورے آپ انہیں سمجھاتی کیوں نہیں ہیں ۔”
کبیر غصہ کر رہا تھا۔
“تمہارے بابا ہیں تم ہی دیکھو میں تو 39 سالوں سے انہیں دیکھتی آرہی ہوں جب سے پیدا ہوئے ہیں ۔”
آیت اپنے مسکراتے چہرے سے ولید کو تنگ کرنا نہیں بھولی تھی۔مہر جو کبھی کہا کرتی تھی کہ آیت کی عمر ڈھل رہی ہے وہ خود بہت جلدی عمر رسیدہ خاتون بن گئی تھی جبکہ آیت خوشی کے ہونے سے آپ بھی زندگی میں ابھی بھی بلکل جوان تھی ولید اس سے آج بھی گئی گنا زیادہ محبت کرتا تھا کل کے مقابلے میں۔
“بیٹا تم ان تصویروں کو چھوڑ دو مجھے کمرے میں جانا ہے نیند آرہی ہے۔”
آیت ولید کے کان کے پاس جھکی۔
“شرم کر جائیں 19 سال کا بیٹا ہے خان کیا سوچ رہا ہوگا آپ کے بارے میں ۔اسے پتا ہے آپ کو نیند نہیں آئی ہوئی ۔”
ولید بھی آیت کے کان کے پاس جھکا۔
“تو اسے بھی سمجھنا چاہیے اب بچے بڑے ہوگئے تو ہمارا اچھا وقت شروع ہوا ہے۔ہمارے درمیان کباب مین ہڈی مت بنیں۔”
کبیر نے کیمرہ رکھ دیا۔فاطمہ ولید کے پاس آئی اور اسے زبردستی ساتھ لے گئی۔آیت جانتی تھی بچے ولید کو بہت تنگ کریں گے ابھی اور ان کی شادی کی کہانی سننے کی ضد کریں گے۔آیت اپنے کمرے کی طرف چلی گئی جب اسے اپنی کمر پر ہاتھ محسوس ہوا پھر ولید نے اس اٹھ لیا۔
“خان، خان کیا کر رہے ہیں ۔”
“بچوں سے بہت مشکل سے پیچھا چھڑوا کر آیا ہوں اب تمہاری تو مجھے بلکل آواز نہ آئے ۔یہ میرا وقت ہے اور مجھے بلکل نہیں پسند اس سے میں کوئی دخل اندازی کرے۔”
ولید اسے اپنے کمرے میں لے گیا۔مہر اور شاہ بخت مجبوری کی زندگی جی رہے تھے۔ان کے درمیان ان کو جوڑ کر صرف حوریہ ہی رکھتی تھی ۔حویلی ویران ہی ہوگئی تھی بلکل ۔لاوئنج میں آیت اور ولید کے ساتھ بچوں کی بہت تصویریں تھی اور پھر سالوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا اور ان تصویروں میں نئے کردار بھی شامل ہوگئے ۔ مگر پرانے کردار اپنی ایک کہانی لیئے ہوئے تھے ایک سبق ۔اس گھر کی بنیاد سمجھوتے پر تھی جو بعد میں پیار میں بدلی اور پھر ایک مشالی خاندان میں ۔کبھی کبھی ایک دوسرا موقع زندگی میں بہت ضروری ہوتا پے۔فضول رسموں سے جب تک ہم خود پیچھا نہیں چھڑوائیں گے وہ ہمارا پیچھا کبھی نہیں چھوڑیں گی بلکہ ساری زندگی ہمارے ساتھ چپکی رہیں گی اور ہماری نسلوں کو بھی خراب کر دیں۔
_________________
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...