مری پاگل سی محبت تمہیں یاد آۓ گی
جب چاند ستارے چمک رہے ہوں گے
جب یادوں کے پھول مہک رہے ہوں گے
جب نیند کو نین ترس رہے ہوں گے
میری پاگل سی محبت تمہیں یاد آۓ گی
جب تنہائی سے دل گھبراۓ گا
جب تمہیں اکیلا پن ستاۓ گا
جب کوئی خواب ہی نہیں آۓ گا
جب پھول کتابوں میں رہ جائیں گے
میری پاگل سی محبت تمہیں یاد آۓ گی۔
۞۞
اگلے روز زیان اسے گھر چھوڑ آیا تھا اس نے بھی دل میں ایک فیصلہ کر لیا تھا وہی فیصلہ جو چند برس قبل اسکے باپ شاہ زیب یزدانی نے کیا تھا
___________
بابا میں احد ماموں کے پاس جانا چاہتی ہوں۔
وہ اس وقت شاہ زیب کے کمرے میں کھڑی تھی۔ اسکی بات پر شاہنزیب چونکا۔
کیوں جانا چاہتی ہو؟
شاہزیب اسکی طرف متوجہ ہوا
میرا دل چاہتا ہے جانے کو۔
ایمل نے سر جھکا کر کہا
وہ تمہارے نہیں زیان کے ماموں ہیں تم کیسے ان کے گھر رہو گی۔
رابی جو ان کی گفتگو خاموشی سے سن رہی تھی اس نے بھی زبان کھولی
میں ان کے گھر نہیں رہوں گی فلیٹ لے لوں گی۔
ایمل نے کہا
کیا ضرورت ہے ہم سے اجازت لینے کی۔زندگی کا فیصلہ اپنی مرضی سے کر لیا ہے اب جو جی میں آۓ کرو ہماری بلا سے۔
رابی نے دُرشتی سے کہا
ٹھیک ہے پیسے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کر دوں گا۔
شاہ زیب نے بغیر اسکی طرف دیکھے کہا
اس نے بمشکل اپنے آنسو روک رکھے تھے کمرے میں آکر وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔
“میری غلطی کیا ہے پسند ہی تو کیا ہے زیان کو کیوں ساری دنیا مجھے برا کہنے لگ گئی ہے”۔
آنسو ٹپ ٹپ اسکی آنسو سے بہہ رہے تھے۔
“اب کبھی نہیں آؤں گی یہاں کتنے ظالم لوگ ہیں یہ اپنے دینے پر آئیں تو جان بھی وار دیں اور لینے پر آئیں تو سب کچھ چھین لیتے ہیں”
اس نے بے دردی سے آنسو صاف کیے
“اب کبھی میں آنسو نہیں بہاؤں گی۔”
وہ خود کو پختہ کرنے لگی اپنے آپ کو سنبھالنے لگی۔
۞۞
شاہزیب نے اسکے اکاؤنٹ میں پیسے ٹرانسفر کروا دیے تھے اس نے اپنی دوست کے توسط سے سڈنی جانے کے کاغذات بنواۓ۔ سبھی معاملات طے ہو گئے تھے ویزہ بھی لگ گیا تھا مگر پھر بھی اسکے ہونٹوں پر ہنسی نہیں بکھری۔
اگر حالات پہلے کی طرح ہوتے تو وہ جوش وخروش سے شاپنگ کر رہی ہوتی خوشی سے اچھلتی مگر اس بار صرف آنسو تھے جو باوجود روکنے کے بہتے چلے جا رہے تھے پچھتاوے تھے اور سب سے دور جانے کی کسک۔
اگلے چند دنوں میں اس نے اپنی پیکنگ مکمل کی۔زیان بھی اسلام آباد سے آگیا تھا اور اسکا سڈنی جانے کا سن کر کچھ دیر کے لیے وہ بھی شاکڈ رہ گیا مگر اسے روکنے کی کوشش نہیں کی۔انسانوں کا ظرف اتنا بڑا نہیں ہوتا کہ وہ کسی کی چھوٹی سی غلطی معاف کریں وہ معافی کی روایت ہونے کے باوجود سزا دینا اپنا حق سمجھتے ہیں اور ایمل کو بھی یہ سزا جھیلنے تھی۔
وہ جانے سے پہلے کریم یزدانی سے ملنے آئی تھی جو بیڈ پر بیٹھے کھانس رہے تھے چند دنوں سے ان کی طبیعت کچھ خراب تھی جس کی وجہ سے وہ نحیف و کمزور ہو گئے تھے۔
دادا جانی یہ پانی۔
ایمل نے ان کو گلاس میں پانی ڈال کر دیا۔
آؤ بیٹا بیٹھو۔ انہوں نے پانی پی کر گلاس سائڈ ٹیبل پر رکھا وہی تو تھے۔
دادا جان میں جا رہی ہوں۔
آنسو پلکوں کی بھاڑ توڑ کر چہرے پر گر رہے تھے۔
بیٹا کیوں اپنوں سے دور جانا چاہتی ہو میرے پاس رہو اپنے دادا جان کے پاس کیا پتہ کب زندگی روٹھ جاۓ۔
کریم یزدانی نے اسے سینے سے لگاتے ہوۓ کہا
نہیں دادا جان آپ ایسا مت کہیں کچھ نہیں ہوگا آپکو اور اگر میں یہاں رہوں گی تو ماما بابا کبھی خوش نہیں رہ سکیں گے اور ان کی بے رخی مار دے گی مجھے دادا جان۔
وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی۔
میں رہ لوں گی وہاں تنہا۔ اس نے آنسو صاف کرتے ہوۓ کہا۔
بس بیٹا رو مت۔
کریم یزدانی نے اسکا چہرہ اوپر کر کے آنسو صاف کیے۔
بیٹا نماز پڑھ کر دعا کیا کرو وہ اللہ سب کی سنتا ہے تمہاری بھی سنے گا اللہ سے لو لگا لو۔
اس نے ہاں میں سر ہلایا
بیٹا اللہ کا ظرف بہت بڑا ہے دیکھنا تم تنہا نہیں رہو گی وہ بہترین دوست ہے اپنے گناہوں کی معافی مانگو اس سے مدد مانگو وہ تمہارے لیے آسانیاں پیدا کرے گا۔
کریم یزدانی نے لوہا گرم دیکھ کر وار کیا
جی دادا جانی میں آپکی باتوں پر عمل کروں گی۔
اس نے آہستگی سے سر جھکاتے ہوۓ کہا
ہاں بیٹا اللہ تمہاری سزا میں کمی کر دے اور تمہیں خوشیوں سے نواز دے۔ آمین۔
کریم یزدانی نے اسکا سر تھپکتے ہوۓ دعا دی۔
۞۞
اسے ائیر پورٹ پر زیان لے کر آیا تھا۔پورا راستہ وہ سسکتی رہی تھی وہ تو کبھی زیادہ عرصہ گھر والوں سے دور نہیں رہی تھی اب اس دوری کا سوچ سوچ کر اسکے رونے میں شدت آتی جا رہی تھی۔
جہاز میں بیٹھ کر سیٹ کی پشت سے سر ٹکا کر وہ بے آواز روتی رہی۔
میں طویل سفر میں ہوں اگر
میری واپسی کی دعا کرے
شعر کا آخری مصرع یاد کر کے اس نے کرب سے آنکھیں بند کی۔
“کاش کاش میری واپسی کی دعا کرے وہ۔”
دوسری طرف زیان کی حالت بھی اس سے مختلف نہ تھی وہ لاکھ چاہے اس سے نفرت کا اظہار کرتا اس سے بے رخی کرتا مگر اسکے دل میں ایمل کے لیے پیار تھا محبت تھی مگر وہ اسے اتنی جلدی معاف بھی نہیں کر سکتا تھا۔
وہ انتہائی رش ڈرائیونگ کر کے گھر پہنچا تھا اور پھر کمرے میں بند ہو گیا اسے ایمل کی چھوٹی سی چھوٹی بات یاد آرہی تھی اسکا دل چاہ رہا تھا وہ اڑ کر ایمل کے پاس چلا جاۓ اسے واپس گھر لے آۓ مگر اب وقت ہاتھ سے نکل چکا تھا۔وہ چلی گئی تھی اور اب کیا پتہ وہ واپس آۓ گی بھی یا نہیں۔
۞۞
ائیر پورٹ پر احد اور مزمل اسکو ریسیو کرنے کے لیے کھڑے تھے وہ ٹرمینل سے باہر پہنچی تو پہلی نظر ان دونوں پر پڑی۔ان سے مل کر وہ گاڑی میں بیٹھی۔
“ماما بابا کیسے تھے اور انکل بھی ٹھیک تھے نا؟
احد نے گاڑی ڈرائیو کرتے ہوۓ پوچھا۔
“جی ٹھیک تھے۔” وہ گاڑی سے باہر کے منظر میں کھوئی ہوئی تھی۔
اور زیان بھائی ٹھیک تھے نا آپی۔ مزمل نے معنی خیزی سے پوچھا
ہاں وہ بھی ٹھیک تھے۔
ایمل نے آہستگی سے کہا
شاہ کہہ رہا تھا تم الگ فلیٹ میں رہو گی ایسا ہر گز نہیں ہوگا میرا گھر تمہارا بھی ہے تم میرے گھر رہو گی۔میں تمہارا بھی ماموں ہوں بیٹا۔
احد نے اٹل لہجے میں کہا
نہیں انکل فلیٹ بہتر رہے گا۔اور آپ صرف زیان کے ماموں ہیں۔آخری جملہ ایمل صرف سوچ ہی سکی۔
مگر بیٹا تم اکیلی کیسے رہو گی؟
احد نے پریشان ہوتے ہوۓ کہا
رات ہی تو گزارنی ہے دن کو میں جاب پر جاؤں گی۔
ایمل نے انہیں اپنے فیصلے سے آگاہ کیا
کیا مطلب ہے تمہارا؟ احد کو حیرت کا جھٹکا لگا وہ تو سوچ رہا تھا ایمل یہاں تفریح کے لیے آئی ہے مگر۔۔۔
انکل آپ مجھے کوئی اچھی سی جاب دلوا دیں میں یہاں جاب کرنا چاہتی ہوں۔
ایمل نے التجا کرتے ہوۓ کہا
مگر۔۔۔
اچھا تم میرا آفس جوائن کر لینا تمہارا شوق پورا ہو جاۓ گا۔
احد کچھ توقف کے بعد مسکراتے ہوۓ بولا
ایمل نے گردن ہلائی۔
آج اسے احد کے گھر ہی رہنا تھا۔ نشاء اور سنبل بہت گرمجوشی سے اس سے ملی تھی وہ ان سے باتیں کرتے ہوۓ کچھ پل کے لیے اپنی زندگی کے تلخ واقعات کو بھول گئی تھی۔
۞۞
وہ پوری رات سو نہیں سکا تھا اسکی آنکھوں کے سامنے بار بار ایمل کا چہرہ لہرا رہا تھا۔انسان کو اپنوں کی قدر ان کے مرنے کے بعد یا ان کے دور جانے کے بعد آتی ہے اور زیان کو بھی ایمل کی شرارتیں ، اسکی باتیں اور وہ رو کر معافی مانگنا سب یاد آرہا تھا۔
“کیا غلطی تھی اس کی میں سگا بھائی تو نہیں تھا اس کا پھر اگر اس نے ایسا فیصلہ کیا تو کیا برائی تھی اس میں ”
اسے اپنا غصہ اور ایمل کیساتھ کی گئی ہٹ دھرمی سب بے معنی لگی۔
ناشتے کی ٹیبل پر صرف وہ اور رابی ہی موجود تھے شاہ زیب بغیر ناشتے کے آفس چلا گیا تھا اور کریم یزدانی کی خراب طبیعت کی وجہ سے رابی نے انہیں کمرے میں ناشتہ بھجوا دیا تھا۔
“زیان تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے نا”
رابی نے اسکا چہرہ دیکھتے ہوۓ کہا جو مسلسل رونے کی وجہ سرخ اور سوجا ہوا تھا اور آنکھیں بھی انگارہ کی ہوئی تھی
“کچھ نہیں ماما ٹھیک ہوں”
اس نے رابی کو ٹالنا چاہا
مگر مجھے تو نہیں لگ رہا تم ٹھیک ہو۔
رابی نے اسکے تاثرات نوٹ کیا
“ماما ایمی چلی گئی۔
اسکا ضبط جواب دے گیا تھا رابی اٹھ کر اسکے پاس آئی۔
میرے بچے چپ ہو جاؤ۔
رابی نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
“ماما اسے معاف کر دیں اسے واپس بلا لیں،”
رابی اسکی بات سن کر حیران ہو گئی تھی۔
“میں اسکا کزن ہی ہوں اس نے اگر اپنی خواہش ظاہر کی تو کیا برائی تھی اس میں”
زیان کو اس کے دور جانے پر اسکی غلطی بھی غلطی نہیں لگ رہی تھی۔
بلا لوں گی تم خاموش ہو جاؤ۔
وہ اسے تسلی دینے لگی
۞۞
وہ دوسرے دن احد اور نشاء کے روکنے کے باوجود اپنے فلیٹ پر آگئی تھی۔یہاں تنہائی میں بیٹھ کر وہ اپنی گزشتہ زندگی کو سوچے جا رہی تھی۔
“کیا مجھے اللہ تعالٰی معاف کر دیں گے؟”
“تم اس سے گناہوں کی معافی مانگو، اس سے مدد تو مانگو وہ تمہارے لیے آسانیاں پیدا کرے گا”
کریم یزدانی کی آواز اس کی سماعتوں میں گونجی۔
“میں عمل کروں گی دادا جان کی بات پر، اسکا ظرف تو بہت بڑا ہے”
اس نے سوچا
وہ اب خدا کا ظرف آزمانے جا رہی تھی۔اسکے پیدا کیے لوگوں کو آزما چکی تھی کتنا پیار کرتے تھے وہ اس سے مگر ان میں اس کی ایک غلطی معاف کرنے کا حوصلہ نہیں تھا۔اور اللّٰہ اسکی تو شان نرالی ہے۔
بچپن میں کہیں اس نے نماز پڑھی تھی۔ اور اب تو وہ وضو کرنا بھی بھول گئی تھی۔اس نے وضو کے نام پر منہ ہاتھ اور پاؤں دھوۓ اور اللہ کی بارگاہ میں کھڑی ہو گئی۔
جسم کپکپا رہا تھا دل کسی سوکھے پتے کی مانند سکڑ رہا تھا اسے ڈر تھا کہیں وہ رب بھی نہ اسے دھتکار دے۔
نماز پڑھ کر اس نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھاۓ۔۔
خدا نے اسے نہیں دھتکارا تھا
اسکی ہمت کچھ بڑھ گئی تھی
وہ لوگوں کے سامنے روتی رہی تھی معافی مانگتی رہی تھی
مگر آج اللہﷻ کے سامنے گڑگڑا رہی تھی
رو رو کر اپنا درد سنا رہی تھی
اپنے گناہوں کی معافی مانگ رہی تھی
اپنے ان گناہوں کی معافی جن کا حساب بھی وہ بھول گئی تھی۔
اللہﷻ کی بارگاہ میں اپنا آپ بیان کرنے کے بعد اسکے دل میں سکون اترا تھا دل کی کالک تھوڑا دھل گئی تھی۔
اس نے کریم یزدانی کی بات مان لی تھی اس نے خدا سے لو لگا لی تھی اور وہی اس کی کامیابی تھی۔ابھی اس نے خدا سے لو لگانے کا سوچا ہی تھا اور خدا نے لوگوں کے دلوں میں اسکے لیے ہمدردی ڈال دی تھی۔
۞۞
اگلے چند دنوں میں اس نے احد کا آفس جوائن کر لیا تھا وہ کام میں دل لگا رہی تھی اور ساتھ اسلام کے قریب بھی آتی جا رہی تھی۔ نماز باقاعدگی سے ادا کر رہی تھی اور ہر کام ترک کرنے کی کوشش کر رہی تھی جو اسلام کے خلاف ہو۔
احد اسکے کام سے بہت خوش ہوا تھا اور شاہ زیب کو بھی اسکی کارکردگی کے بارے میں بتایا تھا۔
وہ سنبھل گئی تھی مگر کبھی کبھی یادیں اسے رُلا ہی دیتی تھی۔اب یہ آنکھیں احساسات سے عاری ہو گئی تھی۔ خالی خالی سی آنکھیں مگر پُرسکون۔۔
ایک دن مزمل نے اسکی آنکھوں کو دیکھ کر کہا
“آپی اب آپکی آنکھیں پہلے کی طرح چمکتی دمکتی نہیں ہیں”.
اس کی بات پر وہ خاموش ہو گئی تھی وہ اسے کیا بتاتی کہ ان آنکھوں میں اپنوں کی کمی ہے۔
اس کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی تھی مگر وہ ہنس پڑی تھی۔
“تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے اب شرارتیں نہیں کرتی نا”
اس کے بعد وہ اداسی کے خول سے بھی باہر آگئی تھی بات بات پر قہقہے لگاتی مگر صرف وہ جانتی تھی یہ قہقہے کھوکھلے ہیں۔
میں وہ دنیا ہوں جہاں تیری کمی ہے سائیاں
میری آنکھوں میں جدائی کی نمی ہے سائیاں..
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...