پرانی اور بھاری اینٹوں سے بنی طویل راہداری سے گزرتے ہوئے ہم زنان خانے میں داخل ہوئے تو ایک خوشگوار مہک میرے نتھنوں سے ٹکرائی۔ درباروں پر جانے والے بخوبی ایسی وجد افروز خوشبو سے آگاہ ہیں۔ میں اتنے برسوں سے حویلی میں آ رہا تھا کبھی پہلے ایسی مہلک نہیں آئی تھی۔ البتہ حویلی کے مکینوں کی اپنی خوشبو نے حویلی کے درودیوار کو خوشگوار بنایا ہوا تھا۔ حویلی کا اپنا تاثر بھی اتنا بھرپور تھا کہ یہاں آنے والا پہروں اس کے کھلے اور مانوس ماحول میں اجنبیت محسوس نہیں کرتا تھا لیکن اس روز میر ے لئے حویلی بھی اجنبی تھی اور اس کا ماحول بھی۔
زنان خانہ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا ، اندر سے کسی کی انتہائی گھمبیر اور بھرائی بھرائی سی آواز آ رہی تھی۔ دروازہ کھلا تھا اور اندر کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ پیر صاحب اندھیرے کمرے میں ایسے داخل ہو گئے جیسے یہ اندھیرا ہی ان کے لئے روشنیہو۔ ان کے پیچھے ملک نصیر تھا۔ وہ بڑی احتیاط سے کمرے میں داخل ہوا تھا۔ میں دہلیز پر کھڑا ہو گیا۔ بھرائی ہوئی آواز خاموش ہو گئی البتہ کسی کے بھاری بھاری سانسیں لینے کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ میں اندر جاتے ہوئے پہلی بار گھبرا رہا تھا۔ ایک تو ماحول کا اثر اوپر سے اندھیرا اور پھر یہ آواز جس کسی کی بھی تھی اس میں پراسراریت کا عنصر تھا۔ میں قدرے تامل کے ساتھ دہلیز پر کھڑا تھا کہ اندر سے وہی گھمبیر آواز سنائی دی۔
”اب آ گئے ہو تو اندر بھی آ جاﺅ“
”جج …. جی“ میرے لئے یہ آواز اجنبی تھی۔ ”مجھے کچھ نظر نہیں آ رہا“
”تمہیں تو روشنیوں میں بھی کچھ نظر نہیں آتا میاں“ وہی آواز گونجی ”اندھیروں میں اترنے کے عادی ہو جاﺅ گے تو روشنی کے پردوں میں چھپی اندھی اور سیاہ چیزوں کو بھی دیکھنے لگو گے۔ آ جاﺅ …. ناک کی سیدھ میں سیدھے چلے آﺅ“
میں آگے بڑھا تو میرے سینے سے ایک روئی جیسی کوئی نرم شے ٹکرائی اور میں پیچھے گرتا گرتا بچ گیا۔ یہ ہوا کا جھونکا تھا یا میرا واہمہ۔ مجھ سے کوئی نرم ریشمی شے ٹکرائی تھی جس کے زور سے میں پیچھے کو لڑکھڑایا تھا۔ کسی نرم اور ریشمی شے میں اتنی طاقت …. ہوا جیسے خالی وجود میں ٹھوس بدن کو دھکیلنے کی صلاحیت…. میں حیران ہی تھا کہ آواز گونجی
”غازی …. پیچھے ہٹو“
”جی بابا جی‘ مجھے اپنے بہت ہی قریب سے آواز آئی جس میں شوخی بھی تھی اور معصومیت بھی۔
”یہاں آ جاﺅ“ گھمبیر آواز میں بولنے والے بابا جی نے کہا
اتنی دیر میں میری آنکھیں اندھیروں سے مانوس ہو گئی تھیں۔ مجھے احساس ہوا کہ میرے پہلو میں کوئی پرچھائی کھڑی ہے۔ اس کے خدوخال پوری طرح واضح نہیں تھے مگر اس کے ہیولے کا تاثر عام انسانوں سے مختلف تھا۔ بڑا سا سر‘ چھوٹی چھوٹی سفید بٹن نما آنکھیں‘ پانچ فٹ قامت اور بدن پھیلا ہوا، پرچھائی کسی لہراتے کپڑے کی طرح مچل رہی تھی۔
میں آگے بڑھا تو پرچھائی نے ہاتھ بڑھایا اور میری پسلی میں گدگدی کرنے لگی۔ ”کک کون ہو تم …. یہ کیا کر رہے ہو“
اس کے ساتھ ہی کھی کھی کھی کی آوازیں آنے لگیں۔ باباجی ڈانٹنے کے انداز میں بولے ”غازی مستی نہ کر …. مہمان کو کیوں پریشان کرتا ہے“
”بابا جی …. میں تو اسے گدگدی کر رہا تھا“ یہ کہہ کر وہ غازی نما پرچھائی دوبارہ کھی کھی کرنے لگی۔ اس کا یہ انداز دیکھ کر زنان خانے میں زلیخا اور اس کی والدہ کی بھی ہنسی نکل گئی۔
”ماں جی …. نصیر“ میں پکارا۔
”شاہد پتر …. یہ غازی بڑا شرارتی بچہ ہے۔ تجھ سے ٹھٹھولے کر رہا ہے۔ آ جا بیٹھ جا۔ یہ تجھے کچھ نہیں کہے گا“ ماں جی کی آواز سن کر مجھے حوصلہ ہوا اور میں دوچار قدم آگے چلا تو مجھے دیوار نظر آ گئی۔ میں اس کے ساتھ کھڑا ہو گیا اور اندھیرے میں ڈوبے کمرے کی اجنبت میں مانوسیت تلاش کرنے لگا۔
”بیٹھ جاﺅ …. اور درود ابراہیمی پڑھو“ بابا جی میرے بہت قریب سے بولے۔ میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر آواز کی سمت میں دیکھنے لگا تو ایک بھاری بھرکم چوغا نما پرچھائی نظر آنے لگی۔ اسی لمحہ زنان خانے کے روشن دان سے ہلکی سی روشنی اندر آنے لگی جس سے کمرے میں ملگجا اجالا ہوا اور پرچھائی کا سراپا میری نظروں کے سامنے نمایاں ہو گیا۔ یہ ایک آدھ لمحہ کی ہی بات تھی۔ بابا جی روشنی کو محسوس کرتے ہی بولے ”شاہد میاں آنکھیں بند کر لو“ میں نے جھٹ سے آنکھیں تو بند کر لیں مگر ایک نادیدہ وجود میرے ذہن میں اپنا عکس بناتا چلا گیا۔ اس کے چہرے کے خدوخال تو واضح نہ ہو سکے تھے مگر میں نے یہ دیکھ لیا تھا کہ وہ سراپا پیروں سے بے نیاز تھا۔ سر سے پنڈلیوں تک اس کا وجود نظر آتا تھا اس کے نیچے پاﺅں جیسی کوئی شے نہ تھی اور وہ گویا ہوا میں معلق کسی وجود کی طرح چہل قدمی کرتا ہوا میرے پاس آ گیا تھا۔ میری سانسیں تیز ہو گئیں اور اس سراپے کی سانسیں کسی گرم اور تیز لو کی مانند میرے چہرے پر پڑنے لگیں۔ اس کی سانسوں میں اتنی تپش تھی کہ اگر میں اپنے چہرے پر ہاتھ نہ رکھ لیتا تو میرا چہرہ اس کی تپش سے ہی جھلس جاتا۔
”درود پاک پڑھو۔ درود پاک پڑھو“
بابا جی نے اپنے ریشمی ہاتھوں سے میرے چہرے سے میرے ہاتھ ہٹائے اور نرم انداز میں سمجھاتے ہوئے بولے ”بیٹا …. یہ درود پاک ہی ہماری قوت ہے۔ ہماری غذا ہے یہ، اسے پڑھتے رہو تاکہ جب تک ہم یہاں ہیں‘ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب پاک کے صدقے ہماری قوتوں کو قائم رکھے اور اس محفل پر اپنی رحمت عطا کرے“ بابا جی کی باتوں میں مٹھاس تھی۔ ان کا لمس مجھے عجیب سی کیفیت سے دوچار کر گیا ۔ مگر میرے ذہن میں ہزاروں وسوسے‘ ہزاروں سوالات بھی پیدا کر گیا۔ لیکن اس سب کے باوجود میرا ذہن میرے قابو میں تھا۔ ہزاروں واقعات ذہن میں تازہ ہو گئے۔ مجھے یہ سب فراڈ لگ رہا تھا۔ پیر ریاض شاہ کے کسی شعبدہ کی وجہ سے زنان خانے میں بیٹھے لوگوں کی نظربندی کر دی گئی تھی اور مجھے وہی کچھ دکھایا جا رہا تھا جو وہ چاہتے تھے۔ میں نے ایسے بہت سے واقعات پڑھے تھے کہ بعض لوگ معصوم لوگوں کو سحرزدہ کرنے اور اپنی کرامات دکھانے کی خاطر ایسے شعبدے کرتے رہتے ہیں۔ اس کے باوجود کہ ماحول نے مجھ پر سحر طاری کیا تھا مگر میرے اندر کا صحافی بیدار رہا۔ اس وقت تو میرے اندر جستجو بھی بڑھ گئی تھی اور ان سارے واقعات کو ایک اہم ترین ”سٹوری“ بنا کر دھوم مچانے کا بھی سوچ رہا تھا۔ میں نے سوچا کہ اگر یہ بابا جی واقعی ایک جن ہیں تو ان کا انٹرویو کرکے اخبار میں چھاپ دوں گا۔ میں ذہنی طور پر تو فیصلہ کر چکا تھا لیکن کچھ بولنے کی جرات نہیں ہو رہی تھی مجھ میں …. میں بے چینی اور بے قراری کے باوجود بابا جی کی ہدایت پر درود ابراہیمی پڑھنے لگا تھا۔ زنان خانے میں جتنے لوگ موجود تھے وہ بھی درود پاک پڑھ رہے تھے۔ اسی لمحہ ایک آواز جو سب سے مختلف اور جدا تھی‘ نہایت پرسوز اور عقیدت مندانہ انداز میں بلند ہوئی ”بابا جی سرکار …. حاجی صاحب نے یاد فرمایا ہے“
”غلام محمد …. خیریت تو ہے“ بابا جی قدرے تشویش میں مبتلا ہو گئے” سرکار کی طبیعت تو ٹھیک ہے۔“
”خیریت سے ہیں سرکار …. آپ سے کوئی مشورہ کرنا ہے“ غلام محمد نے جواب دیا
”شاہ صاحب اب ہم چلتے ہیں۔ غازی چلو اور ہاں میاں تم اب ادھر ہی رہنا۔ تمہارے ساتھ ہمیں بہت سی باتیں کرنی ہیں۔“
بابا جی نے اپنا نرم روئی جیسا ہاتھ میرے کاندھے پر رکھا اور سب کو خدا حافظ کہہ کر چلے گئے۔
اسی لمحہ پیر ریاض شاہ نے لائٹ آن کر دی تو کمرہ روشن ہو گیا۔ وہ سوئچ بورڈ کے پاس کھڑے تھے کئی لمحے تک وہ یونہی کھڑے ہو کر زیر لب کچھ پڑھتے رہے۔
ہم سب نے آنکھیں کھول دی تھیں۔ زلیخا اپنی والدہ اور والد کے ساتھ کمرے کی طاقوں کے پاس چٹائی پر بیٹھے تھے۔ دوسری جانب ڈبل بیڈ بچھا ہوا تھا۔ پیر ریاض شاہ سوئچ بورڈ سے ہٹ کر بیڈ پر جا بیٹھے ، ان کے چہرے پر تردد اور تھکن نمایاں تھی اور یوں لگتا تھا جیسے وہ منوں بوجھ اٹھا کر چلتے ہوئے آئے ہیں اور اب بے خود ہو کر آرام کرنے کے لئے بیٹھ گئے ہیں۔ انہوں نے سر سے رومال اتارا اور ہاتھوں کو کن پٹیوں پر ہتھوڑوں کی ماند مارے لگے۔
”نصیر پتر …. شاہ صاحب کا سر دبا دے۔“ نصیر والد کا حکم ملتے ہی شاہ صاحب کے پاس گیا اور بیڈ پر چڑھ کر ان کی پشت کی جانب بیٹھ گیا اور پھر ان کا سر پکڑ کر مساج کرنے لگا۔ شاہ صاحب سر جھکائے بیٹھے تھے نصیر ان کا پہلے سر دباتا رہا پھر کاندھے دبانے لگا
”تیل کی مالش کر دو یار“ شاہ صاحب نے نصیر سے کہا
اس بار انہوں نے کن اکھیوں سے میری جانب دیکھا۔ میں اٹھ کر نصیر کی والدہ کے پاس گیا اور انہیں سلام کرکے ان سے پیار لیا۔ زلیخا سر جھکائے بیٹھی تھی۔ اس کے لبوں پر پیپڑیاں جمیں ہوئی تھیں۔ نہ جانے وہ کس بات پر اداس تھی۔ میرے آنے پر یا بابا جی سرکار کی آمد نے اس کو ناشاد کیا تھا۔
”اچھا بھئی تم لوگ تو اب بیٹھو۔ میں آرام کرنے جا رہا ہوں“ نصیر کے والد اٹھنے لگے تو میں ان کا ہاتھ تھام کر اٹھنے میں سہارا دیا۔ وہ اٹھے تو میرا ہاتھ تھامے رکھا اور جب زنان خانے سے باہر جانے لگے تو ان کی آنکھوں میں الجھن اور اندیشے نمایاں تھے۔ جو بات میرے دل میں تھی وہ ان کی آنکھوں میں نظر آ رہی تھی۔ انہوں نے میرا ہاتھ تھامے رکھا اور مجھے یوں لگا جیسے وہ مجھ سے کچھ کہنا چاہتے ہوں۔
”اچھا ہوا تم آ گئے۔“ وہ آہستہ سے بولے۔ ان کا یہی کہنا میرے اور ان کے وسوسوں کی تصدیق کے لئے کافی تھا۔ وہ مجھے اپنے ساتھ لئے زنان خانے سے باہر نکلے اور خاموش مضمحل قدموں کے ساتھ اپنے کمرے میں لے گئے۔ راستے میں ہی میں نے انہیں بتا دیا کہ میں حویلی میں کچھ دنوں کے لئے رہنے آیا ہوں۔
”پتر جی …. تم اپنا امتحان تو دے لو گے مگر ان کا کیا کرو گے تمہاری چاچی اور وہ بھائی …. نصیر …. سب مجھے امتحان میں ڈال رہے ہیں“
”کیوں کیا ہوا چاچا جی“ میں نے ان کے کمرے میں پہنچ کر سوال کیا۔
”تم نے دیکھا نہیں۔ ان سب کی مت ماری گئی ہے۔ عقل نام کی شے نہیں ہے ان میں۔ تمہیں پتہ ہے میں تیری چاچی کی بات نہیں ٹالتا۔ ہے تو وہ بہت اچھی مگر کبھی کبھی ضد پکڑ لیتی ہے تو میں اس کے سامنے ہار جاتا ہوں۔ یہ شاہ صاحب اور ان جنات کا یہاں ڈیرہ لگانا مجھے اچھا نہیں لگتا۔ اس نصیر کو دیکھا ہے۔ کمیوں کی طرح اس پیر کی چانپی کر رہا ہے شکل سے لگتا ہے پیر،کیا ایسے بے نمازے پیر ہوتے ہیں۔ تف ہے ایسی عقیدت پر“ نصیر کے والد کو آج پہلی بار میں نے لاچارگی اور غصے کی ملی جلی کیفیت میں دیکھا تھا۔
”آپ کا کیا خیال ہے یہ سب ڈرامہ ہے“ میں نے پوچھا۔
”تمہیں کیا لگتا ہے۔ یہ جنات اس طرح آتے ہیں۔ ٹھیک ہے میں بزرگ لوگوں کی عزت کرتا ہوں۔ مگر یہ ریاض شاہ وہ نہیں ہے جو نظر آنے کی کوشش کرتا ہے۔ میں نے کل رات کو جو منظر دیکھا ہے میں اسے تاقیامت نہیں بھلا سکتا پتر جی“
”بات کیا ہے چاچا جی“ میں نے پریشان ہو کر پوچھا
”کل رات ….“ وہ کچھ کہتے کہتے رک گئے۔ شرم و حجاب جیسی کوئی مانع بات تھی جو ان کی زبان کو الفاظ نہیں دے رہی تھی۔ چارپائی پر ڈھیر سے ہو کر گر پڑے۔
”چاچا جی …. آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے۔ میں نصیر کو بلاتا ہوں“ میں گھبراہٹ میں کمرے سے جانے لگا تو وہ بولے۔
”رہنے دو اس کم عقلے کو ،اس کی بھی عقل ماری گئی ہے۔ تم میری بات سنو پتر۔ میں تو ایک رات ہی میں بوڑھا ہو گیا ہوں۔ میں تو مر کھپ گیا ہوں پتر۔ کس کو یہ سمجھاﺅں کہ ان شیطانوں سے دور رہو۔ یہ نیکی کے پردے میں گناہ کا کھیل کھیلنے والے لوگ ہیں۔ تم جس کام سے آئے ہو وہ کرتے رہو۔ اگر تم نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی تو یہ تمہیں بھی میری طرح تنہا کر دیں گے۔“ میں خاموش ہو کر چاچا جی کا منہ تکنے لگا۔
”کل رات کی بات ہے پتر …. میں رات کو اسی طرح کی مجلس سے اٹھ کر کمرے میں آ گیا تھا۔ میں دن بھر کا تھکا ہوا تھا اس لئے آتے ہی سو گیا۔ آدھی رات کو مجھے گھبراہٹ سی ہوئی اور مجھے لگا جیسے کوئی شے میرے سینے پر سوار ہے اور میرا گریبان پکڑ کر پھاڑنا چاہتی ہے۔ میں آیت الکرسی پڑھتے ہوئے اٹھا۔ کمرے میں میرا دم گھٹنے لگا تھا ، میں تازہ ہوا کے لئے کمرے سے باہر نکلا اور باغیچے میں جاتے ہوئے جب مہمان خانے کے پاس سے گزرا تو اندر سے مجھے عجیب کھسر پھسر کی آوازیں سنائی دیں۔ مہمان خانے میں شاہ صاحب کو ٹھہرایا گیا ہے۔ میں چونکا اور پریشان بھی ہوا کہ اس وقت یہاں کون ہے اور کیا کر رہا ہے۔ کیا شاہ صاحب جاگ رہے ہیں اور جنات سے بات چیت کر رہے ہیں۔ وہ کھسر پھسر کسی عورت کی تھی۔ میں نے مہمان خانے کی کھڑکی کی درز سے اندر دیکھا تو سامنے کا منظر دیکھ کر میرے ہوش اڑ گئے۔ سامنے چٹائی پر زلیخا لیٹی تھی اور اس کے دائیں جانب تمہاری چاچی اور بائیں جانب شاہ صاحب بیٹھے تھے۔ تمہاری چاچی نے سر جھکایا ہوا تھا اور پیر صاحب سے آہستہ آہستہ کچھ کہہ رہی تھی۔ زلیخا کا بدن ساکت تھا۔ میں نے گھڑی پر وقت دیکھا تو رات کے دو بج رہے تھے۔ مجھے یہ سب بہت عجیب لگا کہ سب کی نظروں سے چھپ کر یہ کیا ہو رہا ہے اور پھر نصیر کہاں ہے؟ مجھے اپنی بیٹی کی عصمت کا خیال آیا کہ بدبخت تمہاری چاچی اندھی عقیدت میں یا زلیخا کی کسی پریشانی کی وجہ سے کوئی نقصان نہ کرا بیٹھے ۔ لہٰذا میں جلدی سے کمرے میں داخل ہو گیا اور غصے سے بولا ”یہ کیا ہو رہا ہے رضیہ۔ اس وقت یہاں کیا کر رہی ہو“ میں نے جب زلیخا کی ماں کو مخاطب کیا تو وہ غصے سے بھنا گئی۔ شاہ صاحب کا چہرہ بھی غصے سے بھر گیا۔ اس وقت میں نے صاف صاف محسوس کیا کہ اس کی آنکھوں میں شیطنیت اور ہوس بھری تھی پتر۔ مرد مرد کی نظروں کی زبان سمجھ لیتا ہے۔ میری کم عقل بیوی کو نہیں معلوم تھا کہ وہ کیا کرنے جا رہی تھی۔ شاہ صاحب نے جب دیکھا کہ تمہاری چاچی بھی غصے میں ہے تو انہوں نے کہا ”بی بی…. تمہارے خاوند نے سارا عمل غارت کر دیا ہے۔ بابا جی ناراض ہو کر چلے گئے ہیں“ یہ کہہ کر وہ بستر پر جا بیٹھا اور تمہاری چاچی غصے کے مارے کہنے لگی۔
”آپ اس وقت یہاں کیوں آئے ہیں“
”تم یہاں کیا کر رہی ہو …. اور یہ زلیخا یہاں کیوں سوئی ہوئی ہے“ میں نے سخت لہجے میں کہا تو تمہاری چاچی کو جیسے میری کیفیت کا اندازہ ہو گیا فوراً نرم اور خوشامدی لہجہ اختیار کرتے بولی۔ ” اصل میں زلیخا کو آج دورہ پڑ گیا ہے۔ کب سے بے ہوش پڑی ہے۔ میں نے شاہ صاحب کو بتایا تو وہ کہنے لگے کہ اسے یہاں لے آئیں“
”جب یہ بے ہوش تھی تو اسے کون لایا یہاں“ میں نے پوچھا۔ وہ کن اکھیوں سے پیر صاحب کی طرف دیکھنے لگی۔ ”بابا جی اٹھا کر لائے ہیں اسے“
”نصیر کہاں ہے“
”وہ سویا پڑا ہے“ رضیہ بولی
”رضیہ بی بی لگتا ہے تمہارے نصیب بھی سونے والے ہیں۔ اس بے غیرت کو اٹھا لیا ہوتا۔ مجھے اٹھا لیتی۔ لیکن اس طرح گھر کے مردوں سے چھپ چھپ کر میری بیٹی کو یہاں کیوں لے کر آئی“ میں غصے سے چلایا ”اٹھاﺅ اسے ….“ میں نے کہا
”یہ بے ہوش ہے“ رضیہ گھبرانے لگی تھی یا اسے میری باتوں کی سمجھ آنے لگی تھی۔
میں زلیخا کے پاس جا بیٹھا اور اسے اٹھانے لگا۔ میری دوسری آواز پر وہ اٹھ پڑی۔ اس کے سر پر دوپٹہ بھی نہیں تھا۔ بال اس کے کھلے پڑے تھے اور چہرے پر ویرانی اور زردی تھی۔ میں نے اس سے پہلے اپنی بیٹی کی یہ حالت نہیں دیکھی تھی۔ مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے اس کا کسی نے لہو چوس لیا ہے۔ مردہ سی آنکھیں ہو گئی تھیں اس کی۔ مجھے دیکھتے ہی حواس باختہ ہو گئی اور اپنا دوپٹہ ڈھونڈنے لگی۔ میں نے اپنا کپڑا اس کے سر پر ڈالا اور کہا ”اٹھ میرے بچے۔ تو یہاں کیسے آ گئی“
”مم مجھے کیا ہوا ہے۔ میں یہاں کہاں ہوں“ وہ کمرے کا جائزہ لینے لگی تو اس کی نظریں شاہ صاحب پر پڑیں۔ وہ یکدم گھبرا گئی اور میرے سینے سے لگ گئی۔
”ابا جی“ وہ خوف سے سہمی ہوئی چڑیا کی طرح لرزنے اور رونے لگی۔ اس کا یہ خوف انجانی کہانیاں سنا رہا تھا میرے پتر۔ اس بات کا احساس کرکے ایک بار تو میں لرزا اٹھا تھا۔ پیر ریاض شاہ کو دیکھ کر وہ پہلے تو اس قدر نہیں گھبراتی تھی۔
”رضیہ …. رضیہ …. سچ سچ بتا میری بچی کو کیا ہوا ہے“ رضیہ میرے لہجے کی گرمی دیکھ کر پیچھے ہٹ گئی اور دزدیدہ نظروں سے پیر ریاض شاہ کی طرف دیکھنے لگی۔
میری کن پٹیاں لہو کی گرمی سے سلگنے لگی تھیں۔ رضیہ کچھ بتانے سے گریزاں تھی اور میری لاڈلی بیٹی زلیخا میرے سینے میں منہ چھپائے روتے چلی جا رہی تھی۔ میں نے قہر بھری نظروں کے ساتھ پیر ریاض شاہ کی طرف دیکھا ، اس کا چہرہ غصے سے سرخ ہو رہا تھا اس کی آنکھوں میں میرے لئے نفرت کا لاوا ابل رہا تھا۔
”رضیہ تو بولتی کیوں نہیں ہے“ میں تقریباً چیختا ہوا بولا ”بتاتی کیوں نہیں ،زلیخا کے ساتھ کیا ہوا ہے۔“
”کک کچھ نہیں ملک صاحب! اللہ سوہنے کی قسم سب خیر میر ہے۔ بچی ہے ذرا گھبرا گئی ہے۔ کوئی ایسی ویسی بات نہیں ہوئی“ میں نے محسوس کیا رضیہ کچھ چھپانے کی کوشش کر رہی تھی۔ اس سے قبل آج تک ایسا نہیں ہوا۔ اس کا پراعتماد لہجہ مجھے ہمیشہ اچھا لگتا تھا۔ وہ مجھ سے کبھی جھوٹ نہیں بولتی تھی۔ مگر آج اس کا چہرہ صاف صاف چغلی کھا رہا تھا۔
”اٹھ میری بچی …. اپنے باپ کو کیوں پریشان کر رہی ہے“ رضیہ زلیخا کو مجھ سے الگ کرتے ہوئے اپنے شانے کے ساتھ لگانے لگی تو زلیخا ماہی بے آب کی طرح مچلی اور اپنی اس ماں کے شانے کے ساتھ لگنے سے گریزاں تھی جس کی گود میں سر رکھ کے وہ روزانہ سوتی تھی۔
”رضیہ تو مجھ سے کچھ چھپا رہی ہے۔ اگر تو اب خاموش رہی تو اللہ سوہنے کی قسم میں ساری حویلی کو خون میں نہلا دوں گا“ میں نے زلیخا کے سر پر ہاتھ رکھا اور کہا ”زلیخا دھی کی قسم کھا کر کہتا ہوں میں کسی کو زندہ نہیں چھوڑوں گا“
رضیہ کا چہرہ فق ہو گیا۔ زلیخا بھی میری جلالت دیکھ کر یکدم خاموش ہو گئی اور پھر جیسے وہ سنبھلنے لگی رضیہ میرا چہرہ تکے جا رہی تھی۔ پھر ایک دم چیخنے چلانے لگی ”لو…. سب سے پہلے مجھے مار ڈالو ملک صاحب۔ میں بدبخت عورت اپنی بچی کی پریشانی میں مرے جا رہی ہوں۔ میرے پاگل پن کی وجہ سے حویلی میں پیر صاحب آئے ہیں ملک صاحب آپ کو جس بات پر شک ہے آپ اس کی تصدیق کے بغیر غصہ کرتے جا رہے ہیں۔ آپ پیر صاحب کا کرودھ دل میں کیوں پال رہے ہیں۔ مجھ پر غصہ نکالیں اور مجھے ماریں“ زلیخا ماں کی بات سن کر اب سنبھل گئی تھی۔ اس نے دیکھا کہ ہم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ اس حد تک جا کر غصہ کر رہے ہیں تو وہ اپنی ماں کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کہنے لگی
”اماں …. چپ ہو جا۔ خدا کے واسطے چپ ہو جا تو نے جو کرنا تھا کر لیا۔ اب تو تیرے دل کو تسلی ہو گئی ہے کہ مجھ پر کسی قسم کے جن نے قبضہ نہیں کیا ہوا میں خود ہی ایک جننی ہوں“
”ہیں …. میں نے کیا کہا ہے“ رضیہ کولہوں پر ہاتھ رکھ کر زلیخا پر برس پڑی ”تو کہنا کیا چاہتی ہے میں نے تری عزت برباد کر دی ہے۔ تری زبان جل جائے زلیخا تو نے یہ کیا کہہ دیا ہے“
”ماں عورت کی عصمت بڑی قیمتی شے ہوتی ہے۔ کوئی نامحرم بھی اسے چھو لے تو ماں اس کی حیا کو موت آنے لگتی ہے۔ عورت بڑی پاکیزہ اور قیمتی شے ہے ماں …. میں تجھے ہمیشہ کہتی آئی ہوں مجھ پر کسی جن کا سایہ نہیں‘ لیکن تجھے اپنی بیٹی کے دکھ کا صرف ایک ہی وہم کھائے رہتا ہے۔ اللہ کا شکر کرو ماں میں بچ گئی ہوں۔ تو آنکھیں بند کرکے یہاں بیٹھی ہو گی تیری عقیدت نے تجھے آنکھیں نہیں کھولنے دی ہوں گی ماں …. لیکن میں بے ہوش ہو کر بھی جاگ رہی تھی۔ ترے بابا جی میرے پاس تھے ماں اور مجھے ایک شرمناک سبق پڑھا رہے تھے“
”بس کر دے بس کر دے زلیخا …. خدا کے لئے بس کر دے“ رضیہ چیخنے لگی ”اب بابا جی پر الزام لگانے لگی ہے تو“
”رضیہ …. تو عقیدت میں اندھی ہوتی جا رہی ہے۔ تجھے اپنی بیٹی کی بات پر یقین کیوں نہیں آ رہا“ میں نے اپنا غصہ دبا کر اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
”آپ دونوں پاگل ہو گئے ہیں۔ اندھی میں نہیں ہوئی ہوں ملک صاحب آپ ایک بزرگ ہستی پر الزام لگا کر ان کو قہر میں ڈال رہے ہیں۔ آپ نہیں جانتے کہ بابا جی کو غصہ آ گیا تو یہاں قیامت آ جائے گی“
”شاہد پتر …. یہ عورت بھی اللہ کی عجیب مخلوق ہے۔ تری چاچی جو کبھی میرے سامنے نیچی آواز میں نہیں بولتی تھی پیر ریاض شاہ کی وجہ سے مجھ پر دھاڑنے کی کوشش کر رہی تھی۔ مجھے یقین ہو گیا تھا کہ وہ پیر ریاض شاہ کو بچانا چاہتی تھی۔ یقیناً اس نے کوئی اوچھی حرکت کی تھی۔ تیرا یار نصیر تو ابھی بچہ ہے وہ مرد کی آنکھ میں تیرتے شیطانی بال کو نہیں دیکھ سکتا۔ مگر میں ریاض شاہ کی آنکھوں میں ابلتی ہوئی ہوس کو صاف طور پر محسوس کر رہا تھا۔ جب ہم دونوں آپس میں جھگڑنے لگے تھے تو پیر ریاض شاہ غصے سے کھولتا رہا۔ میں نے رضیہ سے صاف صاف کہہ دیا کہ اپنے پیر صاحب سے کہو کہ وہ آج اور ابھی میری حویلی سے چلا جائے۔ یہ بات سن کر رضیہ رونا پیٹنا بھول گئی اور اس نے پوری ڈھٹائی اور بے حیائی کے ساتھ کہا
”ملک صاحب یہ نہیں ہو سکتا۔ میں شاہ صاحب کی بے عزتی نہیں کر سکتی۔ وہ یہیں رہیں گے اور اگر انہیں جانا ہے تو صبح کی روشنی میں جائیں گے“
”جس کو کسی کی عزت کا خیال نہیں ہے اس کی اپنی کوئی عزت نہیں ہوتی رضیہ۔ اسے کہو ابھی میرے گھر سے نکل جائے ورنہ نوکروں سے کہہ کر ابھی نکلوا دوں گا“
”ملک صاحب“ پیر ریاض شاہ گرجدار آواز میں بولا
”ہوش میں آئیں۔ میں آپ کا لحاظ کر رہا ہوں لیکن آپ ہیں کہ مجھے بے عزت کرتے جا رہے ہیں۔ آپ نے ابھی تک میرا صبر دیکھا ہے جبر نہیں۔ میں خود یہاں ایک منٹ نہیں رہنا چاہتا میں جا رہا ہوں ملک صاحب لیکن آپ کو ایک بات کہے دیتا ہوں۔ آپ خود جھک کر مجھے بلانے کے لئے آئیں گے۔ منتیں کریں گے‘ میرے قدموں میں گریں گے لیکن میں نہیں آﺅں گا“
ریاض شاہ کی باتوں سے مجھے غصہ تو بہت آیا لیکن اس وقت میں نے خود پر قابو پایا۔ رضیہ ریاض شاہ کے سامنے ہاتھ جوڑنے اور انہیں جانے سے روکنے لگی۔ تمہاری چاچی ایک دم اس قدر نیچے گر جائے گی یہ میں نے نہیں سوچا تھا۔ وہ ریاض شاہ کے قدموں میں گر گئی۔
”شاہ صاحب خدا کے واسطے ایسا نہ کریں۔ میں مر جاﺅں گی۔ ملک صاحب کے دماغ پر تو غصہ طاری ہے آپ ہی سمجھ جائیں ناراض ہو کر نہ جائیں“
میں آگے بڑھا اور رضیہ کا بازو پکڑ کر اسے اٹھانے کی کوشش کی
”حیا کر رضیہ …. تو اس گندے پیر کے پاﺅں پکڑ رہی ہے“
”ملک صاحب“ ریاض شاہ میری بات سن کر کسی زخمی بھینسے کی طرح ڈکرایا۔ غصے کی وجہ سے اس کی آنکھیں ابل پڑی تھیں اور چہرے سے آگ برسنے لگی تھی۔ اس کا پورا بدن شاخ بید کی طرح لرز رہا تھا” حد کر دی آپ نے بہت ہو گیا۔ بس …. اب کچھ نہیں کہنا“
ایک لمحہ کے لئے تو مجھ پر اس کی شخصیت کا ایسا رعب طاری ہو گیا کہ میری زبان گنگ ہو گئی۔ میں بھی ایک بڑا زمیندار تھا۔ میری اپنی عزت تھی ، رعب تھا میں نے آگے سے کہا
”اوئے تم کیا کر لو گے“ یہ کہہ کر میں نے اپنے نوکروں کو آوازیں دینی شروع کر دیں ”اوئے کاموں‘ کرمے ادھر آﺅ“ رضیہ پیر ریاض شاہ کی ڈھال بن گئی تھی۔
”ملک جی شاہ صاحب کو کچھ بھی کہا تو میں اپنی جان دے دوں گی۔ آپ یہ تماشا بند کریں“
زلیخا نے یہ صورتحال دیکھی تو نہ جانے اسے کیا ہوا۔ ایک زوردار کربناک چیخ مار کر بے ہوش ہو گئی ” ہائے میں مر گئی ابا جی“ اس کے یہ الفاظ سن کر میرا دماغ گھوم گیا۔ میں نے فوراً پلٹ کر دیکھا، اس کے منہ سے سفید جھاگ بہہ رہی تھی اور وہ فرش پر تیورا کر گر گئی ۔ رضیہ اس کی طرف لپکی اور میں نے ریاض شاہ کا گریبان پکڑ لیا
”اوئے سچ سچ بتا تو نے میری بچی کے ساتھ کیا کیا ہے۔ اسے کیا کھلایا ہے۔ نہیں تو تیری جان لے لوں گا“
اس سے قبل کہ ریاض شاہ بولتا یکدم کمرے کی روشنی گل ہو گئی البتہ باہر سے آنے والی روشنی سے اندھیرے میں بھی ہلکا ہلکا سا اجالا تھا۔ میرے کچھ سمجھنے سے پہلے ہی باہر زودار آواز سے چیزیں گرنے لگیں کچھ ہی دیر بعد پوری حویلی میں بھونچال سا آ گیا۔ میرے پالتو کتے خوفزدہ ہو کر بھونکنے لگے اور پھر یوں محسوس ہونے لگا جیسے زلزلہ آ گیا ہو۔ ریاض شاہ کے گریبان پر میرے ہاتھ کمزور پڑ گئے۔ رضیہ زلیخا کا سر اپنی گود میں رکھ کر دہائیاں دینے لگی ”ہائے میری بچی شاہ صاحب۔ خدا کے واسطے کچھ کریں۔ بچی کو سانس نہیں آ رہی۔ ملک صاحب بھاگ کر پانی لائیں“
زلیخا کی بگڑتی ہوئی حالت اور حویلی میں برپا ہونے والے بھونچال نے مجھے بوکھلا کر رکھ دیا۔ میں نے قہر آلود نظروں سے ریاض شاہ کو گھورااور بے بسی سے اس کا گریبان چھوڑا تو کمینگی سے بھرپور ایک شیطانی مسکراہٹ اس کے لبوں پر ناچنے لگی۔
”ملک صاحب“ وہ سرسراتی آواز میں بولا ”آپ سے میرا ایک رشتہ ہے جس کی وجہ سے میں آپ پر ہاتھ نہیں اٹھا سکتا“ میں نے چونک کر اس کی طرف دیکھا تو وہ معنی خیز انداز میں مسکراتا ہوا پیچھے کو مڑ گیا
”ملک صاحب پانی لائیں“ میں بے بسی سے باہر نکلنے لگا تو باہر سے کاموں کے چیخنے کی آواز آئی
ملک صاحب جنوں نے حویلی پر حملہ کر دیا ہے“
میں نے باہر نکل کر دیکھا حویلی کی راہداری میں بڑے بڑے گملے کسی نے ا ٹھا اٹھا کر دور دور تک پھینک دئیے تھے اور پوری راہداری مٹی‘ پتھروں اور پودوں سے بھری ہوئی تھی۔ میں جونہی باہر نکلا کسی نادیدہ وجود نے ایک بڑا سا گملا اٹھایا اور میرے قدموں میں اتنے زور سے پھینکا کہ اگر میں ایک انچ بھی آگے بڑھا ہوتا تو میرا پاﺅں کچل گیا ہوتا۔
”نہیں …. خبردار رک جاﺅ“
عقب سے ریاض شاہ کی آواز آئی۔ اس کے ساتھ ہی مجھے محسوس ہوا میرے پاس سے گرم ہواﺅں کا ایک بگولا تیزی سے گزرا ہے۔ میں ٹوٹے پھوٹے گملوں سے گزر کر پانی لے کر آیا اور بے ہوش زلیخا کو پانی پلانے کی کوشش کرنے لگا۔ اس کے دانت آپس میں جڑ گئے تھے اور سانس پھولتی جا رہی تھی۔ اس کے دل کی تیز دھڑکن ایسے ہو گئی تھی جیسے کہیں دور سے ڈھول کی آواز آتی ہے۔ آنکھیں ابلی پڑی تھیں اور چہرے پر تناﺅ سے اس کی شکل ہی بگڑ گئی تھی۔ سانس یوں لیتی تھی جیسے خالی گھڑے پر منہ رکھ کر آواز نکالی جاتی ہے۔ میں نے پانی سے بھرا گلاس اس کے چہرے پر چھڑک دیا کہ شاید اس طرح وہ ہوش میں آ جائے مگر وہ ہوش میں نہیں آئی۔
”پتر تمہیں کیا بتاﺅں اس لمحے ہم پر کیا قیامت گزر رہی تھی۔ باہر بھونچال اور شور شرابہ ختم ہو گیا تھا لیکن میرے اندر بھونچال برپا ہو گیا تھا۔ بیٹی کی حالت دیکھ کر میرے اندر کا اعلیٰ نسب ملک اور زمیندار جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔
”مار دیا میری بچی کو آپ نے ملک صاحب۔ میری بچی کو مار دیا کر لیا شوق پورا۔ حویلی کو موت سے بھر دیا ہے آپ نے ملک صاحب“
وہ میرا گریبان پکڑ کر چلانے لگی اور میرے رہے سہے حواس بھی ختم ہو گئے۔ میں نے پیر ریاض شاہ کی طرف امداد بھری نظروں سے دیکھا تو وہ کمرے سے غائب تھا۔ میں جانتا تھا کہ اس نے یا اس کے بابا جی نے میرے غصے کے بدلے میں یہ اوچھی حرکت کی تھی لیکن پتر جی میں ان زمینداروں جیسا سفاک اور کڑیل نہیں ہوں جو اپنی انا اور ضد پر خون بہاتے پھرتے ہیں۔ میں کمزور بھی نہیں تھا لیکن پتر جی اولاد سے میری محبت نے مجھے بہت کمزور بنا دیا تھا۔
”شاہ صاحب“ میں انہیں آوازیں دیتا ہوا کمرے سے نکلا تو دیکھا ریاض شاہ اپنا سامان اٹھا کر حویلی سے باہر جا رہا تھا میری آواز سن کر بھی وہ نہیں رکا۔ میں بھاگتا ہوا اس کے پاس پہنچا تو میری سانس پھول گئی ”شاہ صاحب“ میرے ہاتھ خود بخود آپس میں جڑ گئے اور معافی کے لئے اس کے سامنے بلند ہونے لگے۔ میری آنکھیں بے کسی اور بے بسی سے بھر گئی تھیں۔ لب سل گئے تھے۔ میرا اندر کٹ گیا‘ دل قیمہ قیمہ ہو گیا تھا پتر جی ، میں مر گیا تھا۔ مر گیا تھا اپنی بچی کی زندگی کے واسطے۔
شاہ صاحب کے چہرے پر فتح کا خمار تھا اور میرے جڑے ہوئے ہاتھ کسی گداگر اور کمی کی طرح بلند تھے وہ برابر مسکراتا رہا۔ شاید ابھی اس کی طمع کو قرار نہیں آ رہا تھا۔ میں اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا جھکنے لگا۔ اپنی خودداری کو توڑتے ہوئے‘ اس کے پیروں کو ہاتھ لگانے لگا تو اس بار اس نے مجھے کاندھوں سے پکڑ لیا۔
”نہیں ملک صاحب نہیں‘ آپ کی جگہ تو ہمارے دل میں ہے“ پھر وہ کچھ کہے بغیر ایک فاتح کی طرح واپس ہوا اس نے زلیخا کی طرف دیکھا اور مجھے دوبارہ پانی لانے کے لئے کہا۔ میں پانی لایا تو اس نے کچھ پڑھنے کے بعد دم شدہ پانی زلیخا پر چھڑکا۔ اس کے بے ہوش بدن کو جھٹکا لگا۔ پیر ریاض شاہ پانچ چھ منٹ تک کچھ پڑھتا رہا۔ آخر میں وہ اس کے سر کی جانب بیٹھ گیا اور اس کے ماتھے پر شہادت کی انگلی رکھ کر کچھ لکھنے لگا۔ چند لمحوں بعد وہ بولا تو ایسا لگا جیسے وہ نہیں اس کے اندر سے بابا جی بول رہے ہیں ”اٹھ میری بچی …. اٹھ …. شاباش“
یقیناً وہ باباجی ہی تھے جو ریاض شاہ کے اندر سے بول رہے تھے۔ ایک لمحہ کے لئے تو مجھے پھر یہ گمان ہوا تھا کہ باباجی کا بہروپ ریاض شاہ نے ہی نہ بھرا ہوا ہو۔ وہ اندھیرے میں باباجی کو حاضر کرتا تھا۔ کسی کو کیا معلوم کہ ریاض شاہ ہی آواز بدل کر بول رہا ہوتا ہے یا واقعی اس کے علاوہ کوئی دوسرا تیسرا وجود بھی وہاں ہوتا ہے۔ لیکن میرا یہ وہم اس وقت باطل ہو گیا۔
زلیخا کے چہرے سے تناﺅ ختم ہو گیا۔ آنکھیں معمول پر آ گئیں اور ایسے اٹھی جیسے بے ہوش ہی نہ ہوئی تھی۔ پہلے تو وہ ہم تینوں کے چہروں کو دیکھتی رہی پھر سر پر دوپٹہ درست کرنے لگی۔
”بابا جی کہاں ہیں“ وہ آہستگی سے بولی۔ تو ایک ہلکے سے کھٹکے کے ساتھ باباجی کی آواز آئی
”میری بچی …. میں یہیں پر ہوں“ میں نے دیکھا اب کی بار شاہ صاحب کے لب بند تھے اور ان کے عقب میں ایک سفید رنگ کے لبادے میں ملبوس دراز کشیدہ قامت انسان کھڑا تھا۔ اس نے اپنے سر سفید چادر لی ہوئی تھی اور سر جھکا ہوا تھا۔
”بابا جی سرکار“ پیر ریاض شاہ اٹھنے لگا تو باباجی نے ہاتھ ان کے سر پر رکھ کر انہیں اٹھنے نہیں دیا۔ وہ زلیخا کے پاس گئے اور اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر بولے ”میں نے اپنی بیٹی کہا ہے تجھے زلیخا۔ مجھے تیرے باپ سے زیادہ فکر ہے“ یہ کہتے ہوئے انہوں نے اپنا چہرہ بلند کیا تو چادر سے ان کا چہرہ صاف نظر آنے لگا۔ سانولی رنگت‘ سفید دودھیا لمبی داڑھی‘ موٹی موٹی سیاہ سرمگیں آنکھیں۔ وہ گزرے وقتوں کے کسی اساطیری مرد کی شکل میں میرے سامنے موجود تھے۔
”ملک …. تو نے ہمارے بیٹے پر شک کیا اور ہمیں رسوا کیا۔ شکر کرو ہمارے بیٹے نے تمہیں معاف کر دیا ہے ورنہ جتنا تو نے ہمیں بے عزت کیا ہے اس کا بدلہ لئے بغیر ہم واپس نہ آتے …. بہرحال تو نے ہمارا بہت دل دکھایا ہے“
بابا جی کی شخصیت کا ایسا نورانی رعب مجھ پر طاری ہوا کہ میرے لبوں سے نکلا۔ ”بابا جی مجھے معاف کر دیں۔ بشر ہوں غلطی تو کروں گا“
”آہا …. اے ابن آدم …. تو نے اچھا جواز گھڑا ہوا ہے۔ اوئے تم غلطی عمداً کرتے ہو اس لئے جلدی معافی مانگ لیتے ہو کہ تم خطا کے پتلے ہو۔ اپنی غلطیاں اپنے بزرگوں کے کھاتے میں نہ ڈالا کرو۔ غلطی تو اے ابن آدم تجھ سے بھی ہوئی۔ ابلیس نے بھی غلطی کی …. پچھتاوا تو اسے بھی ہے لیکن تو خوش قسمت ہے اور وہ بدبخت۔ تو معافی مانگتا ہے دل سے تو اللہ تیری خطا معاف کر دیتا ہے۔ مگر وہ ابلیس خلق سے اوپر پچھتاتا ہے۔ اس کے لئے معافی کیسی، ملک …. تو معافی دل سے مانگے گا تو اللہ تجھے معاف کر دے گا۔ ہمارے دلوں میں بھی تمہارے لئے نرمی اور محبت پیدا ہو جائے گی۔ مگر تجھے تیرا وہم اور تری خودداری سکون نہیں لینے دے گی۔ ہاں …. ایک بات یاد رکھنا۔ اب میرے بیٹے کو کوئی تکلیف نہ دینا۔ ریاض شاہ تو بھی ملک کی طرف سے اپنا دل صاف کر لے“
”جی اچھا سرکار“ ریاض شاہ نے ایک سعادت مند بچے کی طرح سر ہلایا۔
”رضیہ پتری …. آج ہماری سیوا نہیں کرے گی“ باباجی خوشگوار انداز میں بولے ”زلیخا …. تیری ماں حلوا بڑا مزے کا بناتی ہے تو بھی حلوہ بنانا سیکھ لے“
زلیخا جواباً مسکرانے لگی ”لیکن باباجی آپ کی دنیا کا حلوہ تو ہمارے حلوے سے زیادہ مزیدار ہے“
”تو نے کھایا ہے“ بابا جی دھیرے سے مسکرائے تو ان کے سفید موتیوں جیسے دانت نمایاں ہو گئے
”ہاں جی …. وہ غازی لے کر آیا تھا۔ اس نے اس وعدہ پر مجھے حلوہ کھلایا تھا کہ میں اسے کوئی اچھی سی شے بنا کر کھلاﺅں گی“ یہ سن کر باباجی نے قہقہہ لگایا اور بولے ”غازی بڑا حرام خور ہے۔ وہ کہیں سے چرا لایا ہو گا حلوہ اور تجھے کھلایا ہو گا“
اسی لمحہ مجھے اپنے عقب میں کسی سرسراتے وجود کا احساس ہوا ”لو آ گیا ہے شیطان“
”بابا جی …. شکر ہے آپ نے مجھے شیطان کا چیلا نہیں کہہ دیا“ غازی کی شرارتوں سے بھری آواز آئی۔ وہ سفید لبادے میں چھپا ہوا تھا اور اس کا چہرہ خاص طور پر ڈھکا ہوا تھا۔
”بابا جی میں وہ حلوہ مدینے سے لایا تھا۔ بھلا میں اپنی بہن کو چوری کا حلوہ کھلا سکتا ہوں“
”تیرا کوئی پتہ نہیں ہے غازی“ بابا جی نے ہلکا سا قہقہہ لگایا اور پھر بولے ”غلام محمد کو بھی بلاﺅ …. سب آ جاﺅ …. رضیہ پتری پوری دیگ چڑھانا حلوے کی“
”لیکن میں تو باﺅلی پیوں گا“ غازی مچل اٹھا۔
”باﺅلی کہاں سے لاﺅں گی میں“ رضیہ بولی
”لیں ماسی …. آپ کو پتہ ہی نہیں آپ کی گائے نے بچھڑا دیا ہے حیرت ہے بھئی“ غازی ہنستے ہوئے بولا ”آپ کا ملازم کرموں ادھر باڑے میں ساری رات سے گائے کی سیوا میں لگا ہوا ہے“
”اچھا یہ تو اچھی خوشخبری ہے“ میں نے کہا ”لے رضیہ میں گائے کا دودھ لاتا ہوں تو اسے باولی بنا کر دے“ یہ کہہ کر میں نے بابا جی سے اجازت لی اور جب میں آدھ گھنٹہ بعد واپس اس کمرے میں پہنچا تو وہاں کا ماحول خاصا گرم ہو چکا تھا نصیر بھی ادھر آ گیا تھا۔ بابا جی پلنگ پر گاﺅ تکیہ کے ساتھ دراز تھے‘ نصیر اور زلیخا ان کی پائنتی جانب بیٹھے تھے اور پیر ریاض شاہ چٹائی پر تکیہ کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔ کمرے میں غازی کے قہقہے گونج رہے تھے۔ کمرے میں اگربتیاں جلا کر ماحول کو خوشگوار بنا دیا گیا تھا
”اجی ملک صاحب مزہ آ گیا ہے۔ غازی تو باولی پئے گا اور ہم حلوے کے ساتھ آم کھائیں گے“
ان کے سامنے بڑی تھالی میں آم کاٹ کر رکھے ہوئے تھے اور بابا جی بڑے مزے سے آم کھانے میں مصروف تھے۔ ایک گھنٹہ بعد رضیہ دیگچے میں حلوہ بھر کر لائی تو دیسی گھی سے تیار کئے گئے حلوے کی خوشبو سے میرے منہ میں بھی پانی آیا۔ رضیہ نے حلوے میں خوب بادام گریاں ڈالی تھیں۔ اس نے پلیٹوں میں حلوہ ڈالا اور چٹائی پر رکھ دیں۔
”نہیں بھئی یوں نہیں …. پہلے ہم غلام محمد سے نعت رسول مقبول ﷺ سنیں گے۔ پھر دعا ہو گی اور اس کے بعد حلوہ کھائیں گے“ بابا جی نے کہا تو غلام محمد بھی حاضر ہو گیا۔ اس نے احرام باندھا ہوا تھا۔ پاﺅں میں نیلے رنگ کی چپلی تھی۔ وہ کسی عرب نوجوان کی شکل اختیار کئے ہوئے تھا۔ اس نے ہم سب کی طرف دیکھا اور نہایت پرسوز آواز میں بولا”آپ سب درود ابراہمی پڑھئے“۔ہم سب نے درود پڑھنا شروع کیا اور پھر کچھ ہی دیر بعد جب غلام محمد نے ایک پنجابی نعت پڑھنی شروع کی تو یوں لگا جیسے عرش تا فرش وجد طاری ہو گیا۔
ماحول پر نور کی بارش ہو رہی تھی۔ کمرہ خوشبویات سے بھر گیا تھا۔ ہم سب آنکھیں بند کئے غلام محمد کی خوش الحانی سے محظوظ ہو رہے تھے۔ مجھے کچھ ہی دیر بعد محسوس ہونے لگا کہ اس کشادہ کمرے میں ہم چند لوگوں کے علاوہ بھی کچھ لوگ موجود ہیں اور کمرہ بھرائی ہوئی گرم سانسوں کے ساتھ بھرتا جا رہا ہے۔ بابا جی کے حکم کے مطابق تو سبھی کو آنکھیں بند رکھنا تھیں لیکن اس سمے میرے دل میں یہ خواہش مچل رہی تھی کہ میں آنکھیں کھول کر کمرے کے ماحول کو دیکھوں۔ لیکن تاب نہیں ہو رہی تھی آنکھیں کھولنے کی۔ حتیٰ کہ میرے دل میں یہ بھی خیال آیا کہ ابھی کچھ دیر پہلے ہی جب باباجی غازی اور غلام محمد عرب باشندوں کی شکل میں ظاہر ہوئے تھے تو ہم نے آنکھیں بند نہیں کی تھیں۔ اس وقت تو ہمیں نہیں کہا گیا کہ بابا جی کی حاضری ہو گئی ہے لہٰذا آنکھیں بند کر لو۔ مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آئی۔ کچھ دیر پہلے بابا جی بستر پر دراز تھے تو زلیخا اور نصیر ان کی خدمت کر رہے تھے اس وقت بھی سبھی اپنی آنکھوں کے ساتھ انہیں دیکھ رہے تھے۔ میں اپنے دل کو مختلف تاویلوں سے قائل کرنے لگا۔ مجھے آنکھیں کھول کر اس بھرپور نورانی منظر کو دیکھ لینا چاہئے۔ آخر میں ایک زمیندار بھی تو تھا۔ مجھے بے خبر نہیں رہنا تھا۔ میں اس کشمکش میں مبتلا تھا کہ غازی میرے پاس آیا اور کہنے لگا ”چاچا جی دماغ ٹھیک ہو گیا ہے“
اس سے قبل کہ میں کچھ بولتا۔ بابا جی کی آواز گونجی ”غازی خاموش رہو۔ جانتے نہیں اس وقت کس ذات اعلیٰ کے لئے محفل سجی ہوئی ہے“
غلام محمد بابا کی آواز سن کر خاموش ہو گیا۔ بابا جی بولتے رہے ”ادھر میرے پاس آ“ انہوں نے غازی کو بلایا ”بیٹھو آرام اور عقیدت کے ساتھ نعت رسول سنو“ اس بار باباجی کے لہجے میں نرمی تھی۔ میں نے آنکھیں کھول دیں۔ دیکھا کہ بابا جی اسی بستر پر بیٹھے ہیں۔ ان کا چہرہ عریاں تھا اور وہی ہو بہو کامل تصویر جو پہلے دیکھ چکا تھا‘ البتہ اب کی بار ان کی نظریں اٹھی ہوئی تھیں جنہیں دیکھ کر عجیب سا خوف آتا تھا۔ شمس و قمر جیسی روشن آنکھیں۔ ابرو تنے ہوئے ناک ستواں۔ وہ اپنے انسانی روپ میں تھے میں کسی سحرزدہ انسان کی طرح ان کی طرف دیکھے جا رہا تھا۔ ان کے نقوش میں گزرے وقتوں کے لوگوں کے نقوش تلاش کر رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ باباجی کا یہ روپ گزرے وقتوں کے کسی قدر شجاع اور مردانہ خدوخال کے مالک انسانوں کا ہو گا۔
بابا جی نے میری محویت کو توڑ دیا۔ ان کی نظروں نے میری آنکھوں کے زاوئیے پکڑ لئے۔ سرمگیں نظروں میں دل آویز مسکان ابھری۔ بولے ”ملک کیا دیکھ رہے ہو“ میں گڑبڑا گیا۔
”تم بھی ادھر آ جاﺅ“ بابا جی نے مسکراتے ہوئے مجھے سمجھایا ”محافل کے آداب کرنا سیکھو ملک۔ ہر وقت تجسس کے ہاتھوں بے بس نہ ہو جایا کرو۔ تمہیں کھوجنے کی جستجو رہتی ہے۔ اللہ نے چاہا تو تمہیں ا س کا موقع بھی ملے گا۔“
میں شرمندہ ہو گیا اور باباجی کے قدموں کی طرف جہاں نصیر اور زلیخا بیٹھے تھے اپنی جگہ بنانے گا کہ بابا جی بولے ”تم بھی ادھر غازی کے پاس آ جاﺅ“ غازی بابا جی کے سرہانے کے پاس ایک گٹھڑی کی صورت میں بیٹھا ہوا تھا۔ اس کا چہرہ سفید عمامہ کے پلو سے ڈھکا ہوا تھا۔ میں غازی کے پاس بیٹھا تو بابا جی نے ٹرے سے آم کی قاشیں اٹھائیں اور مجھے پیش کرتے ہوئے بولے ”کبھی کبھی آم کھانے کو دل مچل جاتا ہے میاں۔ آپ جیسے محبت کرنے والے انسانوں کی یہ ہم پر مہربانی ہے کہ اپنی غذا میں سے کچھ ہمیں بھی عطا کر دیتے ہیں“
”یہ سب آپ کا ہی ہے سرکار“ میں نے عقیدت سے آم کی قاشیں پکڑ لیں۔
”اور ہمارے لئے نہیں ہے کیا“ غازی بے ساختہ بولا تو میں نے قاشیں اسے پکڑا دیں۔ اس نے کھانے میں دیر نہیں لگائی۔
”بڑا ہی نادیدہ ہے‘ غازی“ بابا جی اس کی حرکت پر مسکرائے تو ان کے موتیوں جیسے دانت نمایاں ہو گئے۔
”ہاں بھئی غلام محمد ذرا دوبارہ سے ہو جائے“ بابا جی نے اپنا رخ دروازے کی سمت موڑا۔ میں نے بھی ادھر دیکھا۔ غلام محمد اور اس کے عقب میں ایک درجن بھر اس جیسے ستونوں جیسی قامت والے لوگ نظر آئے۔ سبھی عربی قباﺅں میں ملبوس تھے ، ان کے چہرے عماموں سے ڈھکے ہوئے تھے۔ غلام محمد نعت شریف پڑھنے سے پہلے بولا ”بابا جی مدینہ سے مہمان آئے ہیں اور کچھ تحائف پیش کرنا چاہتے ہیں“
”لاﺅ بسم اللہ کیا لائے ہو بھئی“ بابا جی نے کہا۔ تو غلام محمد کے عقب میں کھڑے دو قامت دراز وجود آگے بڑھے اور کچھ سامان بابا جی کے سامنے رکھ دیا۔
”ماشاءاللہ“ باباجی سامان پر نظریں ڈالنے کے بعد مجھے کہنے لگے” لو بھئی مدینہ کی سوغات آئی ہے۔ یہ ٹوپی تم پہن لو اور نصیر ایک ٹوپی تمہارے لئے ہے۔ یہ تسبیح بھی رکھ لو۔ زلیخا بیٹی یہ آب زم زم ہے۔ اپنی امانت سنبھال لو اور سب کو پلاﺅ“ میں نے ٹوپی اور تسبیح پکڑ لی۔ سنہرے رنگ کی جالی والی ٹوپی اور چھوٹے چھوٹے سفید موتیوں والی تسبیح ہاتھ میں پکڑتے ہوئے مجھ پر خوشی مرگ طاری تھی۔
بابا جی کی یہ عنایات اور روپ دیکھ کر مجھے اب شرمندگی ہو رہی تھی کہ اس قدر ایک بزرگ ہستی کی شان میں گستاخی کرتا رہا ہوں۔ میں سخت شرمندہ ہو رہا تھا۔ شاہد بیٹے …. میں نے جب ٹوپی سر پر پہنی تو روحانی خوشی کی ایک لہرے میرے قلب و نظر میں اتر گئی۔ میرا بے کل اور وسوسوں سے بھرا من پرسکون ہو گیا۔
اس اثنا میں غلام محمد نے نعت شروع کی۔ مجھے اس کے بول صحیح طرح سے یاد نہیں ہیں۔ پنجابی اردو عربی اور ایک اور زبان بھی اس ایک کلام میں شامل تھی۔ مجھے محض ان کے یہ الفاظ یاد رہ گئے ہیں جو غلام محمد کے عقب میں کھڑے جنات کورس میں گاتے تھے
میں تمہارا ہوں سائیں
سائیاں
یہ نورانی محفل ایک ڈیڑھ گھنٹہ جاری رہی۔ میرا اب اٹھنے کو دل نہیں چاہ رہا تھا۔ لیکن مجھ پر نیند بھی طاری ہو رہی تھی۔ میں زیادہ دیر تک جاگ نہیں سکتا۔ بے شک کتنا ہی پریشان اور خوش کیوں نہ ہو رہا ہوں۔ نیند بہرحال مجھ پر غالب آ ہی جاتی ہے۔ گاﺅں کے موذن نے اللہ اکبر کی صدا بلند کی تو بابا جی بولے ”لو بھئی فجر کا وقت ہو گیا ہے اب ہم چلتے ہیں‘
یہ کہتے ہوئے وہ بستر سے نیچے اترے تو مدینے سے آئے جناتی لوگوں نے ان پر گلاب کے پھول برسانے شروع کر دئیے۔ ایسا پرجوش اور پرنور منظر نہیں بھول سکتا ۔
بابا جی میرے دیکھتے ہی دیکھتے اپنے ساتھیوں کے ساتھ غائب ہو گئے تو پیر ریاض شاہ جلدی سے اٹھا اور اس نے بلب روشن کر دیا۔ کمرے میں ابھی تک بابا جی کی خوشبویات بھری ہوئی تھیں۔ حلوے کا دیگچہ خالی پڑا تھا۔ رضیہ‘ زلیخا اور نصیر سحرزدہ نظروں سے ریاض شاہ کو دیکھ رہے تھے۔ اس کی آنکھوں میں اب قدرے بے چینی تھی اور وہ تھکا تھکا ہوا نظر آ رہا تھا۔ اس کے شانے نیچے کو گرے ہوئے تھے۔
”نصیر یار مجھے لتاڑ کر جانا“ جب ہم کمرے سے نکلنے لگے تو اس نے نصیر کو مخاطب کیا اور پھر زلیخا سے کہنے لگا ”زلیخا میرے لئے گرم گرم دودھ کا ایک پیالہ لے آﺅ“ ریاض شاہ شدید تھکاوٹ کا شکار نظر آ رہا تھا۔
”میں لتاڑ دوں“ میرے دل میں اب ریاض شاہ کے لئے کسی قسم کا شک نہیں رہا تھا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے بابا جی جیسے نیک اور مسلمان جنات کا ایسا روپ دیکھ لیا تھا جس کے بعد ان کی نیت پر شک کرنا سوائے ہلاکت میں ڈالنے کے کچھ نہیں تھا۔
ریاض شاہ نے خمار سے بھری نظروں سے میری طرف دیکھا اور کہا ”ملک صاحب آپ کا شکریہ۔ نصیر ہے ناں۔ آپ جائیں اور آرام کریں غالباً کل آپ کی تاریخ بھی ہے“
معاً مجھے یاد آیا کہ مجھے سیالکوٹ کچہری میں ایک دیوانی مقدمہ کے فیصلہ کی پیشی پر جانا تھا۔ میں نے ریاض شاہ کو اپنی تاریخ کے بارے نہیں بتایا تھا۔ میں نے چونک کر اس کی طرف دیکھا تو وہ آنکھیں بند کئے لیٹ گیا اور ہلکی سی آواز میں بولا ”جب آپ کچہری جائیں تو وہاں شیشم کے پرانے درخت کے نیچے ایک درویش بیٹھا نظر آئے گا۔ گھر سے جاتے ہوئے اس کے لئے شکر گھی اور ایک سوکھی روٹی لے جانا اور اسے دے کر دعا کرنے کے لئے کہنا۔ وہ جو کہے اس پر عمل کرنے کی کوشش کرنا“
میں پیر ریاض شاہ کو سلام کرکے اپنے کمرے میں چلا آیا۔ میرے ذہن پر اب اس کی شخصیت کا وہ تاثر حاوی ہو گیا تھا جو رضیہ اور نصیر کے ذہنوں میں تھا۔ یعنی پورے کا پورا اس کی عقیدت میں ڈوب گیا تھا۔ میں سات بجے اٹھا اور کچہری چلا گیا۔ شیشم کا درخت کچہری کی پرانی عمارت کے پاس تھا۔ میں لاری اڈے سے تانگے پر سوار ہوا اور تانگہ پرانی عمارت کے پاس جا کر ٹھہرانے لگا تو ایک نہایت کمزور سا شخص جس کے سر منہ پر نہ بال تھے نہ ہی گوشت۔ ہڈیوں کا ڈھانچہ تھا وہ۔ بدن پر صرف ایک میلی کچیلی سی لنگی پہنی تھی اس نے۔ چونکہ یہ درخت لب سڑک تھا اور اس کی بڑی بڑی شاخیں سڑک پر ایک چھت کی مانند جھکی ہوئی تھیں لہٰذا جب تانگہ ان شاخوں کے نیچے جا کھڑا ہوا تو گھوڑا یکدم بدک گیا اور الٹے پیروں ہٹنے لگا۔ کوچوان پریشان ہو گیا اور اسے پچکارنے لگا میں نیچے اترنے کی کوشش کرنے ہی لگا تھا کہ گھوڑا بے قابو ہونے کو آ گیا۔ میں تانگے پر ہی جما رہا مبادا تانگہ ہلنے سے گر نہ جاﺅں۔ جوان تو تھا نہیں کہ چھلانگ لگا کر نیچے اتر جاتا۔ اس اثنا میں درویش نے تانگے کی طرف دیکھا اور پھر زیر لب بڑبڑاتا ہوا اٹھ پڑا۔ وہ جوں جوں ہماری طرف بڑھ رہا تھا گھوڑے کی بے قراری بڑھتی جا رہی تھی اور کوئی لمحہ ایسا آنے والا تھا کہ تانگہ الٹ جاتا اور سواریاں یا تو سڑک پر گر جاتیں یا تانگے کے نیچے آ کر دب جاتیں۔
اس اثنا میں درویش گھوڑے کے پاس آ گیا اور مریل سی شکایتی آواز میں بولا ”کیا ہو گیا ہے تجھے پہلے تو کبھی ایسا نہیں ہوا تھا تجھے۔ آج ہمارا مہمان آیا ہے تو مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا“
میرے علاوہ کوچوان اور سواریوں نے بھی یہ بات بڑی واضح سنی تھی جسے گھوڑے نے بھی سن لیا تھا اور پھر اس کی بے قراری کا نشہ اتر گیا۔ اس نے بدکنا چھوڑ دیا اور ایسے کھڑا ہو گیا جیسے اسے کچھ ہوا ہی نہیں۔
کوچوان نے دیکھا تو گھوڑے کی لگام چھوڑ کر ایک دم درویش کی طرف جھکتا ہوا گیا اور اس کے پیروں میں گر گیا۔
”سرکار آپ تو بڑی ہستی ہیں ہم نے کبھی آپ کی طرف دیکھا ہی نہیں تھا سرکار“
درویش نے اس سے کچھ نہیں کہا بلکہ اسے نظرانداز ہی کر دیا تھا۔ اس نے پیروں سے اسے ٹھوکر ماری ”چل ابے ہٹ …. کیوں مجھے پلید کر رہا ہے“ پھر وہ میری جانب دیکھتے ہوئے بولا ”تو بھی اب نیچے اترے گا یا میں گود میں اٹھا کر اتاروں“
میں جھٹ سے نیچے اترا اور گھی شکر اور روٹی والی پوٹلی اس کے سامنے کر دی۔
”چل اب …. بھاگ …. تماشا نہ لگا دینا یہاں“ اس نے اپنی مریل آواز میں ڈانٹا
”سرکار …. کوئی نظر کرم عنایت کر دیں۔ میرے دن پھیر دیں“ تانگے والے کے لئے وہ بڑی طاقتور شے بن گیا تھا
”جا دفع ہو جا‘ آخ‘ تھو“ درویش نے نفرت سے منہ سکیڑا اور اس پر تھوک دیا۔
کوچوان بھی خوب ڈھیٹ تھا۔ اس کے چہرے پر تھوک گرا اس نے تھوک کو صاف کرنے کی بجائے ہاتھوں کو چہرے پر یوں پھیرا جیسے گاﺅں کی عورتیں پوچا پھیرتی ہیں
”سبحان اللہ سرکار …. آپ کا یہ تھوک میرے لئے عطر ہے عطر“ ملنگ نے اب اس کی طرف نظریں بھی نہیں اٹھائیں اور واپس شیشم کے درخت کے نیچے اپنی جگہ پر بیٹھنے لگا۔
”سرکار نے تھوک دیا سمجھو میرے بھاگ سنور ہو گئے“ شاہد میاں میں اس کوچوان پر حیران تھا جو حقارت کو بھی محبت اور پاکیزگی سے تعبیر کر رہا تھا۔ وہ تانگے پر سوار ہوا اور باقی سواریوں سے کہنے لگا ”اس ٹاہلی والی سرکار کو کسی نے کھاتے پیتے نہیں دیکھا نہ کسی کی طرف نظریں اٹھا کر دیکھتے ہیں۔ بولتے تو کچھ بھی نہیں تھے لیکن آج تو کمال ہو گیا۔ میں نے سنا تھا کہ ٹاہلی والی سرکار جس پر تھوک دے‘ جس کو گالی دے اس کے بھاگ سنور جاتے۔ واہ میرے مولا …. آج تو نے مجھ پر بڑا کرم کیا ہے“ میں نے تانگے والے کو کرایہ دینا چاہا تو وہ ہاتھ جوڑ کر بولا ”جناب چھوڑیں …. میں دو روپے لے کر کیا کروں گا۔ یہ سب آپ کو بدولت ہی ہوا۔ کیا آپ سرکار بابا کو جانتے ہیں“ میں نے نفی میں سر ہلایا ”تو پھر آپ کے ساتھ ان کی یہ شفقت“
”تو جاتا ہے یا ماروں ایک“ عقب سے ٹاہلی والی سرکار کی آواز سنائی دی ”بھونکتا چلا جارہا ہے“
یہ سنتے ہی اس نے گھوڑے کی لگام کھینچی اور چلتا بنا۔
میں واپس ہوا اور ٹاہلی والی سرکار کے پاس جا بیٹھا۔ اس نے پوٹلی کھولی اور روٹی اور گھی شکر میرے سامنے رکھتے ہوئے بولا ”لے کھا رے۔ اپنے لئے اور میر ے لئے روٹی اور گھی شکر بانٹ لے جو تیرا من کرتا ہے وہ تو لے لے اور جو میرے لئے بہتر سمجھتا ہے مجھے دے دے۔“
میں اس کی بات سن کر مخمصہ میں مبتلا ہو گیا۔ معاً مجھے پیر ریاض شاہ کی بات یاد آ گئی۔ اس نے کہا تھا کہ وہ ملنگ جو کہے اس پر عمل کرنا۔
میں نے کہا ”سرکار میرا تو پیٹ بھرا ہوا ہے۔ آپ ہی کھا لیں سب آپ کے لئے لایا ہوں“
”سوچ لے …. بھوک نہیں ہے تو بے شک نہ کھا۔ تو نہ کھائے گا تو تیرا کیا جائے گا۔ میں بھوکا ہوں۔ کھا لوں گا تو میری بھوک ختم ہو جائے گی“
وہ بابا معنی خیز انداز میں بولا
”سرکار …. میں آپ کے لئے ہی تو لایا ہوں“ میں نے عاجزی سے کہا
”سوچ پھر سوچ …. اگر تو چاہے تو یہ گھی شکر رکھ لے اور سوکھی روٹی مجھے دے دے“
میں نے جب دیکھا کہ وہ مجھ سے کھانا تقسیم کرانے پر بضد ہے تو میں نے کہا ”اچھا تو سرکار ایسا کریں …. یہ سوکھی روٹی مجھے دے دیں گھی شکر آپ کھا لیں“
یہ سن کر اس کے چہرے پر ہلکا سا تبسم ابھرا“ ترا پیٹ تو بھرا ہوا ہے سوکھی کھا لے گا تو تجھے فرق نہیں پڑے گا۔ میں شکر گھی کھاﺅں گا تو میرے اندر بھی طاقت آئے گی لے اب اپنا حصہ اٹھا اور جا۔ تری پیشی ہونے والی ہے“ میں نے سوکھی روٹی ہاتھ میں لی اور پھر ایک لقمہ لینے کے بعد اسے جیب میں ڈال لیا کہ اسے بعد میں کھا لوں گا۔ ٹاہلی والی سرکار کی ان باتوں کی مجھے کوئی سمجھ نہیں آئی۔ لیکن جب میں عدالت میں پہنچا اور جج نے میرے کیس پر جو فیصلہ سنایا اسے سنتے ہی میرے ذہن میں اس بابے کی باتوں کی حقیقت سمجھ میں آ گئی۔
جج نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا ”ملک صاحب آپ بڑے زمیندار ہیں اور آپ کو اللہ نے کسی قسم کی کمی نہیں دی۔ یہ بھاگاں بی بی کا رقبہ ہے ہی کتنا۔ آپ اسے اپنی زمینوں میں شامل کیوں کرنا چاہتے ہیں۔ اگرچہ گواہوں اور شہادتوں کے بعد فیصلہ آپ کے حق میں جاتا ہے لیکن جب آپ قانون قدرت کو دیکھتے ہیں اور انسانی بھلائی کا سوچتے ہیں تو آپ کو فیصلہ ایسا کرنا چاہئے جو بھلائی کا ہو۔ بھاگاں بی بی اپنے بچوں کی کفیل ہے۔ اس زمین سے اس کو روکھی سوکھی ملتی ہے۔ آپ اگر اس کی زمینوں کو آزاد کر دیں اور اس کو نہری پانی بھی ملنے دیں تو اس کی یہ زمین آباد ہو جائے گی۔ آپ خوشحال ہیں لیکن یہ تنگ دست عورت ہے۔ آپ ہی اس کا سہارا بنیں اور اس کی زمینوں کو آزاد کر دیں۔ یہ بے چاری بھی اپنی بھوک مٹا لے۔ آپ کا تو پیٹ بھرا ہوا ہے“ جج کا آخری جملہ سن کر میں بھونچکا رہ گیا۔ میرا ہاتھ بے اختیار جیب میں گیا اور سوکھی روٹی کو سہلاتے ہوئے میں سوچنے لگا ”ٹالی والے بابے نے بھی تو یہی کہا تھا“ میں خاموش نظروں سے جج کا چہرہ دیکھتا رہا۔ اگرچہ اس نے فیصلہ لکھ دیا تھا لیکن پھر بھی وہ مجھ سے انسانی ہمدردی کی توقعات کی خاطر اخلاقی مدد مانگ رہا تھا۔ اور میں بھاگاں بی بی اور اپنے مقدمے کے بارے سوچنے لگا۔ یہ ہے بھی حقیقت بیٹے۔ بھاگاں کی زمین نہر سے اندر ہماری زمینوں کے بیچ میں ہے۔ دو ایکڑ زمین کے اس رقبہ کی کاشت کاری اور زرخیزی کا راستہ ہماری زمینوں سے ہو کر گزرتا تھا اور اپنی زمینوں کی ہریالی کی خاطر وہ مجھے باقاعدہ حصہ دیتی تھی۔ کئی سال پہلے جب اس کا شوہر زندہ تھا اور اس نے مجھ سے دشمنی مول لے لی تھی تو اشتمال کے دنوں میں پٹواری‘ گرداور اور تحصیلدار سے مل کر میں نے اس کے رقبہ میں ردوبدل کرا دیا تھا جس کے بعد وہ بیچارے میری زمینوں کے جال میں پھنس کر رہ گئے تھے۔ ان کی اپنی زمین نہر کے کنارے پر تھی لیکن اشتمال کے بعد وہ زمین میری ہو گئی تھی اور ان کا رقبہ ایک میل اندر میری ان زمینوں میں آ گیا تھا جو زیادہ آباد نہیں تھیں لیکن بھاگاں بی بی نے دن رات کی مشقت کے بعد اپنی زمینوں کی خاطر میری زمینوں کو بھی آباد کر دیا تھا۔ میری اس کے شوہر سے دشمنی تھی لیکن اس کے انتقال کے بعد جب بھاگاں بی بی پر اس کے بچوں کی کفالت کی ذمہ داری پڑی تو میں نے کئی بار سوچا کہ اسے اس کا اصلی حصہ دے دوں۔ لیکن میری زمینداری ہمیشہ آڑے آتی۔ دل مانتا تھا کہ میں نے اسکا حصہ غصب کیا ہے مگر زبان سے تو نہیں کہتی تھی۔ اس کے شوہر نے پچھلے پانچ سال سے یہ مقدمہ کیا تھا اور آج خلاف توقع جج اس کا فیصلہ سنا رہا تھا۔ فیصلے کی تاریخ پچھلے ایک سال سے لٹکی ہوئی تھی۔ دیوانی مقدمات کا یہی تو معاملہ ہوتا ہے۔ چلے تو کئی پشتوں تک اور اگر زور لگا لیا تو ایک نسل میں بھی ختم ہو سکتا ہے۔ میں نے جج کی بات سے اکتفا کیا اور جیب سے سوکھی روٹی کو تھتپھاتے ہوئے ٹاہلی والی سرکار سے ملنے چلا گیا۔ مجھے دیکھ کر اس کے لبوں پر مسکراہٹ تیرنے لگی۔
”تو نے خود فیصلہ کیا تھا اب کوئی پچھتاوا تو نہیں ہو رہا“ اس نے کہا تو میں نے جواب دیا
”سرکار …. یہ فیصلہ درست ہوا ہے بھاگاں کا حق بنتا ہے اور میں اسکو اسکا حق دوں گا“
”تو کھرا انسان ہے لیکن کبھی کبھی اتھرے گھوڑے کی طرح مچل جاتا ہے۔ اپنے آپ کو قابو کرنا اور دوسروں پر شک کرنا چھوڑ دے۔“ اس نے کہا ”لیکن ایک بات ذہن میں رکھنا آئندہ مجھ سے ملنے نہ آنا۔ میں اپنی ریاست میں شور پسند نہیں کرتا“ یہ کہہ کر اس نے چہرہ میری طرف سے بدل لیا اور میں سوکھی روٹی لے کر تانگہ تلاش کرنے لگا تو وہی صبح والا کوچوان تانگہ دوڑاتا ہوا میرے پاس آ گیا۔
”آئیں جناب آپ کو لے جاﺅں“ اس کے چہرے پر جوش ابھی تک نمایاں تھا ”آئیے سرکار …. آپ بیٹھیں۔ میں ٹاہلی والی سرکار کو نذر نیاز کر آﺅں“۔ اس نے مٹھائی سے بھرا ہوا ایک ڈبہ پکڑا اور شیشم کے درخت کی طرف بھاگ گیا۔ میں تانگے پر بیٹھ کر سوکھی روٹی نکال کر کھانے لگا۔ اس کی اپنی لذت تھی۔ ملنگ اور دیہاتی سوکھی روٹی کھانے میں بڑی راحت اور لذت محسوس کرتے ہیں۔ میں بھی تو دیہاتی ہوں لیکن زمیندار ہونے کی وجہ سے سوکھی روٹی نہیں کھاتا۔ میں نے جب روٹی کھا لی تو مجھے بے تحاشا لذت محسوس ہوئی۔ تھوڑی ہی دیر بعد کوچوان واپس آیا تو اس کے حواس اڑے ہوئے تھے۔
”سرکار غائب ہو گئی ہے“ وہ پھولی سانسوں کے ساتھ کہنے لگا۔
”ابھی تو ادھر ہی تھا“ میں نے کہا
”میں نے ساری جگہیں دیکھ ڈالی ہیں۔ لیکن وہ ملے ہی نہیں وہ جگہ دیکھ کر لگتا ہے جیسے وہاں کوئی صدیوں سے نہیں بیٹھا ہو گا حالانکہ میں پچھلے ایک مہینے سے انہیں وہاں دیکھتا آ رہا ہوں“ کوچوان پریشان ہو کر سوچنے لگا پھر خود ہی سر دھنتے ہوئے بولا ”اللہ کی اللہ جانے …. اس نے ہی بلایا ہو گا تو چلے گئے۔ یہ اللہ کے بندے بھی پرندے ہوتے ہیں۔ ڈال ڈال پر بیٹھتے ہیں اور پھر چل دیتے ہیں۔ میں تو سرکار کے لئے دھنی کی دکان سے لڈو لے کر آیا تھا۔ ان کی دعا سے آج میرا پرائز بانڈ لگ گیا ہے۔ سو روپے کا پرائز بانڈ میں نے پچھلے دو سال سے سنبھال کر رکھا تھا جناب لیکن آج میرا دس ہزار کا پہلا انعام نکلا ہے۔ یہ سب ٹاہلی والی سرکار کی نظر سے ہوا ہے ۔خیر۔۔“ وہ تانگے پر سوار ہوا ”۔۔۔اب تو میں سرکار کے نام کا چڑھاوا چڑھاﺅں گا۔ میں بڑا پریشان تھا جناب۔ ایک ہفتے بعد میری بچی کی شادی تھی۔ اس کے ہونے والے سسر نے کہہ رکھا ہے کہ سو بندوں کا کھانا تیار رکھنا۔ میں بڑا پریشان تھا جناب لیکن اب پریشان نہیں ہوں۔ اللہ نے اپنے نیک بندے کے ذریعے مجھ پر عنایت تو کی“
کوچوان راستے بھر بولتا رہا۔ میں ہوں ہاں اور کبھی اثبات میں سر ہلا دیتا۔ دراصل میں نے زندگی بھر کبھی ایسے لوگوں سے واسطہ نہیں رکھا تھا۔ کسی دربار پر نہیں جاتا تھا کسی پیر فقیر پر اعتبار نہیں آتا تھا لیکن جب سے پیر ریاض شاہ او ر بابا جی سرکار سے واسطہ پڑا تھا میرے ذہن میں تبدیلیاں آنے لگی تھیں۔ میں گم صم سا رہنے لگا ایک بے نام سا اضطراب کہہ لو یا بے بسی۔ میرا خیال ہے بے بسی اور بے کسی مناسب ہے۔ پہلے میں سمجھتا تھا کہ یہ سب عقیدت کا کمال ہے۔ روحانیات کے درجات کو پہنچے لوگوں کی نظر کمال کا اثر ہے۔ لیکن اب ہوش آ رہا ہے کہ یہ سب دکھاوا اور ڈھونگ ہے۔ اسرار اور شرافت کے لبادے میں یہ لوگ نہایت گھناﺅنے اور بدمعاش ہیں۔ میں تو دو دنوں میں اس ریاض شاہ کی حقیقت کو پہچان گیا ہوں لیکن پتر جی لوگ برسوں گزار دیتے ہیں اور اندھی عقیدت میں مست رہ کر اپنا سب کچھ برباد کر دیتے ہیں۔ دنیا اچھے لوگوں سے بھی بھری ہوئی ہے پتر۔ مگر یہ شیطان مت مار دیتا ہے بندے کی۔ میرے بزرگ کہا کرتے تھے شیطان نیکی کی آڑ میں جب بہکاتا ہے تو اچھے بھلے لوگ گمراہ ہو جاتے ہیں۔
چاچا جی …. آخر کون سی بات ہو گئی ہے کہ آپ بابا جی اور پیر ریاض شاہ کے روحانی درجات کو تسلیم نہیں کرتے“ میں نے ان کی طویل گفتگو کے بعد سوال کیا
”آہ بیٹا“ وہ تاسف سے اپنی مٹھیاں بھینچ کر بولے ”میں نے انہیں پہچان لیا ہے بیٹا۔ میں آج صبح قرآن شریف پڑھ رہا تھا تو میں نے آیات کا ترجمہ پڑھتے ہوئے غور کیا کہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے کہ میرے سچے بندے صرف وہی لوگ ہوں گے جو اس کی اطاعت ،عبادت کے حق سے ادا کرتے ہیں۔ لیکن پتر جسے تم روحانی بزرگ سمجھتے ہو اور اس سے کائنات کی ایسی مخلوق وابستہ ہو جو کسی کو نظر نہیں آتی لیکن وہ مخلوق اس سے محبت کرتی ہو تو پھر ایسے شخص کو ولی اللہ ہی کہنا چاہئے ناں۔ لیکن وہ شریعت کے مطابق کام نہیں کرتا۔ بیٹے یہ شریعت ہی نیک و بد میں تمیز سکھاتی ہے۔ جو پیر یا روحانی شخصیت نماز اور قرآن سے تعلق نہیں رکھتی میں اسے کسی طور پر عظیم ہستی نہیں سمجھتا۔ میرا خیال ہے کہ پیر ریاض شاہ کے پاس کچھ ایسے علوم ہےں جو اس نے کسی سے سیکھ لئے ہیں اور اس نے جنات کو قابو کر رکھا ہے لیکن اس نے اپنی شخصیت کو روحانی بزرگ کے ایک روپ میں قید کر لیا ہے تاکہ لوگ اس پر شک نہ کریں۔
میرے بیٹے،تم کیا سمجھتے ہو میں بے وجہ اس کے خلاف ہو رہا ہوں۔ ہاں ابھی میں بے بس ہوں۔ مجھے ان لوگوں کی اندھی عقیدت نے باندھ رکھا ہے۔ بابا جی سرکار کا روپ میرے لئے بھی باعث کشش ہے مگر اس کی اصل حقیقت کیا ہے فی الحال میں اس پر کچھ نہیں کہہ سکتا۔ وہ قرآن پڑھتے درود شریف کا ورد کرتے نعت رسول کی محافل سجاتے ہیں۔ مجھے ان کی بزرگی اور اعمال پر شک نہیں کرنا چاہئے۔ لیکن بیٹے ان کے اس عمل کو کیا کہیں گے جو انہوں نے میری نیک پارسا بیٹی زلیخا کے ساتھ کیا ہے“
”کک …. کیا کیا ہے“ زلیخا کا نام سنتے ہی میرے اندر اتھل پتھل ہونے لگی،”میں کچہری سے جب واپس آیا تھا تو رضیہ نے مجھے یہ کہا کہ بابا جی زلیخا کی شادی پیر ریاض شاہ کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سنتے ہی میرے ذہن کو دھچکا لگا۔ اس سے قبل کہ میں کچھ کہتا ریاض شاہ میرے پاس خود چل کر آ گیا۔
”زلیخا کو بابا جی نے اپنی بیٹی بنا لیا ہے ملک صاحب۔ وہ چاہتے ہیں کہ میں زلیخا سے شادی کر لوں“ اس کی آنکھوں میں ہوس ناک چمک تھی۔ اس کی بات سن کر میری کن پٹیاں سلگنے لگیں۔ وسوسے وہم نفرتیں سب عیاں ہو گئیں اور عقیدتیں ننگی ہو کر ناچنے لگیں۔
”تو یہی چاہتا تھا ریاض شاہ اور اس کے لئے تم نے یہ کھیل کھیلا“ میں نے کہا ”لیکن میں اپنی معصوم اور بھولی سی بچی کی شادی تم سے نہیں کر سکتا۔“
”زلیخا تیار ہے ملک صاحب“ رضیہ جلدی سے بولی ”وہ کہتی ہے کہ بابا جی جیسے کہیں گے میں ویسے کروں گی“ یہ کہہ کر چاچا جی خاموش ہو گئے۔ ایک کرب بے پناہ تھا جو ان کے چہرے پر عیاں تھا اور ایک حشر برپا ہو رہا تھا میرے اندر …. زلیخا …. پیر ریاض شاہ سے شادی کر لیتی تو میں …. کس کی آس پر یہاں آتا۔ حویلی میرے لئے کیسے بنی سنوری رہ سکتی تھی۔ میری خاموش چاہت کا آبگینہ یوں ٹوٹ جائے گا اور مجھے اسے سنبھالنے کا موقع بھی نہیں ملے گا،میں نے یہ نہیں سوچا تھا۔
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...