آئس کریم پارلر نظر آتے ہی عارش نے سیمل سے شوخ انداز میں پوچھا____
“آئس کریم کھائیں گیں گورجیئس لیڈی___؟؟” عارش کی بات سنتے ہی سیمل نے خفیف انداز میں عارش کو دیکھا___
نہیں___ ابھی گھر چلیں پلیز___میری طبیعت عجیب ہورہی ہے___” سیمل نے سچ کا سہارا لیا___
“آر یو اوکے گرل____؟”
جی ویسے ٹھیک ہوں بٹ عجیب سی گھبراہٹ ہورہی ہے مجھے بس آپ عنایت فرما کر گھر چھوڑ دیں___” نہایت ہی کوئی تمیز کہ انداز میں وه اپنے محرم سے مخاطب ہوئی___
وه اس وجہ سے پریشان نہیں تھی کہ وه عارش کے ساتھ تھی بلکہ اسکو ایک ناگہانی آفت کا اندیشہ لگا ہوا تھا___ آخر کو عارش اسکا محرم تھا محافظ تھا ___اس سے اسکی ذات کو کیسا ڈر لگ سکتا تھا___اسکے برعکس عارش چاہتا تھا کہ وقت یہیں تھم جائے___اور سیمل بس اسکی ہوجائے ہمیشہ ہمیشہ کے لیۓ___ سیمل اسکی ہی تھی مگر یہ دوری اسکے لیۓ سوہانِ روح بنتی جارہی تھی___ وه چاہتا تھا کہ جلد از جلد سیمل کی رخصتی ہوجائے___ لیکن یہ خیال صرف اسکے ذہن میں تھا اس نے یہ بات ابھی تک ارصم سے بھی نہیں کی تھی___
وقت گزرنے کا پتہ ہی نا چلا اور سیمل کا گھر آگیا___ تقریباً ایک بجے کا وقت تھا___ اسنے نے میزبانی کے کچھ تقاضے پورے کرتے ہوئے اپنے شوہر کو اندر آنے کی دعوت دی لیکن عارش نے وقت کی دیری دیکھتے ہوئے مسترد کردی___
” آپ نے کہا تھا کہ آپکو کچھ کام ہے مما سے تو آپ آکے پوچھ لیں___”
“نہیں وه صرف آپکو یہاں لانے کیلیۓ جھوٹ بولا تھا سب کے سامنے___اس کے لیۓ معذرت___”
سیمل کو ایک انوکھی سی خوشی نے اپنے گھیرے میں لے لیا___سیمل جب گھر کے اندر گئ تو لاؤنج مکمل اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا__ وه سیدھی اپنے کمرے میں آئی__ وہاں آکر اس نے کپڑے چینج کیۓ پھر وضو کر کے نمازِعشاء مکمل خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کی__ نماز کے بعد کافی دیر تک اپنے اللّٰه کے حضور خوب دعا کی ___ آج اسکے بابا کو اس جہانِ فانی سے گزرے تین دن ہوگئے تھے__ وه نماز ادا کرنے کے بعد اپنی مما کے کمرے میں انکے پاس سونے کی غرض سے گئی___ جب کمرے میں پہنچی تو حیرت کا ایک شدید جھٹکا لگا___ وه رونا شروع ہوگئی___ اس کے اندر اب کچھ برداشت کرنے کی استطاعت نہیں تھی___ وه اپنے من بھر کے قدم لے کر مما کے پاس صدیوں کی مسافت طے کرکے گئی___
عارش ابھی گھر پہنچا ، سب گھر میں سو چکے تھے__ وه کپڑے تبدیل کرکے نماز ادا کرنے لگا___ نماز پڑھنے کے بعد اسے پیاس نے ستانا شروع کردیا__ دل میں عجیب سی گھبراہٹ ہورہی تھی__ کچھ وه اپنے پروجیکٹ کی وجہ سے بھی وه ٹینس تھا__ دو دن بعد اسکی اور ارصم کی واپسی تھی__ خیر پانی پینے کی غرض سے جب اس نے سائڈ ٹیبل پہ موجود جگ کی طرف دیکھا تو خالی تھا مجبوراً اسے کچن میں آنا پڑا__ فریج سے ٹھنڈا ٹھار پانی پی کر جب وه واپس سے کچن سے نکلنے لگا تو لاؤنج میں رکھا وائر لیس بجنے لگا___ رات کے تقریباً پونے دو ہورہے تھے ___
“اس وقت کس کا فون ہوسکتا ہے__” خودی سے سوال کرتے ہوئے اس نے وائر لیس اٹھایا اور کال یس کرکے کان سے لگایا____ مقابل جو رونے کی آواز تھی وه تو سوتے ہوئے بھی پہچان سکتا تھا___
مما___مما اٹھیے نہ کیا ہوا آپکو___ بیگم اکرام بلکل زرد پڑچکیں تھیں___ وه مزید کوئی غم برداشت کرنے کی ہمت نہیں رکھتی تھی__ روتے روتے جلدی سی نبض چیک کی تو بلکل بھی نہیں چل رہی تھی___ وہ اپنا وہم سمجھ کر وه فوراً دوڑکر اپنا بی پی اوپریٹس لے کے آئی___ جب بی پی چیک کرنے کے ارادے سے اس نے مشین جیسے ہی ہاتھ میں لگا کر سٹارٹ کی___ ریزلٹ فیل شو ہورہا تھا___
تمام تر خیالات کو وہیں جھٹکتے ہوئے وه فوراً اپنے رخسار پہ بہتے گرم پانی کو صاف کرتی ہوئی اپنا سیل لینے بھاگی___ سیل اون کرکے سوچ میں پڑگئی کے کسے کال کرے عارش کا تو نمبر بھی نہیں تھا___ زینب کو اس وقت ڈسٹرب کرنا مناسب نہ لگا___ یہ سوچتے ہوئے وه فوراً لاؤنج میں آئی اور آکر فون ڈائری میں سلمان انکل کے گھر کا نمبر ڈھونڈنے لگی گھبراہٹ میں ہاتھ اتنے کانپ رہے تھے کے صفحے پلٹنا بھی مشکل ہورہا تھا___جیسے تیسے کرکے اسے “ایس”کے کالم میں جاکر سلمان انکل کا نمبر ملا___ فون ہاتھ میں لے کر نقاہت میں نمبر ڈائل کرنے لگی___ پہلی بیل، دوسری بیل، تیسری بیل، پے بلآخر کال پک کرلی گئی___
ہیلو___ سیمل از ایوری تھنگ ول بی آل رائٹ___ سیمل بتائیں تو صحیح رو کیوں رہیں ہیں آپ__” عارش نے مقابل پہ سیمل کی روتی آواز سن کر سوالوں کے ڈھیر لگا ڈالے___
“آپ__ آپ گھر آئیں پلیز جلدی مما ہوش میں نہیں آرہیں___ انکا بی پی بھی فیل شو رہا ہے__ بلکہ ایسا کریں آپ ہاسپٹل آجائیں میں انہیں وہیں لے آتی ہوں___ “سیمل نے تجویز پیش کی__
“نہیں میں آرہا ہوں آپ ڈرائیوو نہیں کریں گیں__ میں آرہا ہوں فوراً____”عارش نے کہتے ساتھ بغیر سیمل کی بات سنے فون رکھ دیا__ اور فوراً امی ابو کو اٹھانے بھاگا___ پندره منٹ میں سلمان انکل عارش اور انکی والده دو گاڑیوں میں اکرام ہاؤس پہنچے___
سیمل اس وقت تک بیگم اکرام کو لے کر کسی طرح کرکے لاؤنج میں لے آئی تھی___پانی کے قطرے بھی وه چھڑک چکی تھی ___ مگر ہر کوشش بے سدھ گئی تھی____
عارش کی گاڑی میں سیمل ، عارش اور بیگم اکرام تھیں___ وه مسلسل روتے ہوئے انکے اوپر آیت الکرسی اور جوجو سورتیں اسے یاد آتی جارہیں تھیں وه ان پہ دم کرتی جارہی تھی___ عارش فرنٹ میرر سے پیچھے موجود اپنی ساس اور زوجہ پہ بھی وقتاً فوقتاً نظر ڈال رہاتھا___دوسری گاڑی میں سلمان صاحب اور عارش کی والده تھیں جو کے ان کی گاڑی بھی ہاسپٹل کی طرف گامزن تھی___ تھوڑی ہی مسافت طے کرنے کے بعد وه لوگ پراوئٹ ہاسپٹل آگئے__ چونکہ رات ڈھائی بجے کا وقت تھا__تو اِکا دُکا لوگ ہی موجود تھے___ بیگم اکرام کی نبض نہیں چل رہی تھیں وه مکمل ٹھنڈی پڑ چکیں تھی___ مگر سیمل کوئی حقیقت تسلیم نہیں کرنا چاه رہی تھی__ وه بس اپنی مما کو اٹھا ہوا دیکھنا چاہتی تھی___ لیکن وه اب” ناممکن” تھا___ کم از کم سیمل کو ایک اور قیامت کو برداشت کرنا تھا__ ایک بار پھر ٹوٹنا تھا___ پہلے وه صرف باپ کی محبت سے محروم ہوئی تھی مگر اب اسے اپنی کل کائنات سے محروم ہونا تھا ___ ایک بار پھر صحرا کی دھوپ کی تپش برداشت کرنی تھی___ ایک بار پھر رونا تھا___ لیکن اب آنسو عمر بھر کے لیۓ دونوں قریبی بے لوث محبت دینے والے رشتے کیلۓ تھے__ وه تو حقیقت میں جب واپس آئی___ جب نرس نے یہ ڈکلیئر کیا کہ یہ دو گھنٹے پہلے ہارٹ اٹیک میں دم توڑ چکیں ہیں___ اسکا ڈاکٹر ہونا آج کچھ کام نہ آیا تھا__ سٹریچر پہ سامنے اسکی مما لیٹی تھیں چپ بلکل چپ___ خاموش بلکل خاموش___وه پرسکون نظر آرہی تھیں__ لیکن وه اپنی لختِ گوشے کو عمر بھر کے لیۓ بے چین کرگئیں تھیں__
“مما اُٹھیں پلیز مما أٹھیں دیکھیں میں آگئ___ آپ نے خود تو بھیجا تھا__ مجھے زینب کے گھر اب آپ دیکھیں اٹھ ہی نہیں رہیں___ آپ ناراض ہیں کیأ مجھ سے___پلیز مما میں اب اور نہیں ٹوٹ سکتی__ مزید کچھ نہیں کھوسکتی__ آپکو تو بلکل بھی نہیں__مما آپ سن رہی ہیں نہ___ ” ساتھ ہی وه انہیں جھنجھوڑنے لگ گئ___ عارش نے اسے کندھوں سے تھام لیا اور خود میں زور سے بھینچ لیا___
“اب وه کبھی نہیں اٹھیں گیں سیمل وه ہمیں، آپکو سبکو چھوڑ کر جاچکی ہیں__” عارش نے جیسے پگھلا ہوا سیسہ سیمل کے کانوں میں انڈیلا___ آنسو تھے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے__ ماں باپ کیا ہوتے ہیں انکی اہمیت کیا ہوتی ہے ان سے محبت کتنی ہوتی ہے سیمل پہ آج صحیح سے انکشاف ہورہا تھا___ وه روتے ہوئے اتنی بے خبر تھی کہ وه یہ بھی نہیں دیکھ سکی کہ وه اپنے محرم کی پناہوں میں ہے__ بظاہر تو وه مضبوط گرفت میں قید تھی__ مگر وه خود ٹکڑے ٹکڑے تھی___ جسکو سمیٹنا عارش کے لیۓ اس وقت ناممکن تھا__
“نہیں مما مجھے نہیں چھوڑ سکتیں___ پلیز انہیں اٹھایئے___ پلیز___پ____”عارش نے محسوس کیا وه اسکی گرفت میں ڈھیلی پڑگئی تھی__
“اوه گاڈ___ سیمل ہوش میں آئیں___” عارش، سلمان صاحب اور بیگم سلمان جو پاس ہی کھڑی تھیں فوراً اسے تھامنے لگیں مگر وه باحجاب لڑکی مکمل ہوش و حواس سے بیگانہ عارش کی بانہوں میں تھی__ نرس نے فوراً خالی بیڈ کی طرف اشاره کیا وہاں اسکو بیڈ پہ لیٹا دیا گیآ___ پانی کے چند چھینٹے پڑتے ہی اسکی آنکھیں کھل گئیں__ لیکن اس بار وه روئی نہیں بس صدمے کی کیفیت میں سب کو دیکھ رہی تھی__ اسکے بعد کیا ہوتا گیا، کون آیا، کون گیا ، وه سب سے بے نیاز بس یادوں میں غرق تھی__ صبح کیسے ھوئی ،کب جنازه ہوا کب اسے اسکے گھر سے چند سامان کے ساتھ سلمان ہاؤس لایا گیا__ زینب بھی اس سے ملنے آئی تھی__ ارصم بھی آیا تھا مگر وه کس سے ملی کس سے نہیں اسے کچھ یاد نہیں تھا__ کس نے کیا بولا__ کس نے کیا نصیحت کی اسے کچھ یاد نہیں تھا__ اس سے جیسے تمام قوتیں سلب کرلی گئیں تھیں___ وه کیا پہنی ہوئی تھی اسے کچھ ہوش نہیں تھا___ بس یاد تھا تو بس یہ کہ اسکے مما بابا اسکے پاس نہیں تھے__ اسکے بابا اسے ڈاکٹر بنا ہوا نہیں دیکھ سکے تھے__ وه ان کی ہی تو خواہش کو پورا کررہی تھی___ اب تو اسکا کھانا کھانے کو بھی دل نہیں چاه رہا تھا__ مگر رانا آنٹی ( عارش کی امی) کی زبردستی پہ اسے کھانا پڑا تھا__ عارش سے تو وه چھپتی پھر رہی تھی__ اپنی ماں کہ جنازے کے بعد سے وه کمرے سے باہر نہیں نکلی تھی___ اور عارش اسکے کمرے کی دہلیز پار کر کے نہیں آسکا تھا___ ایک دن بعد اسے واپس اپنی ڈیوٹی پہ جانا تھا___وه ایک ہفتہ مائنڈ فریش کرنے آیا تھا مگر یہاں تو خود اسکی پہچان بدل گئی تھی وه پہلے کنواره ہینڈسم لڑکا تھا مگر اب وه ایک لڑکی کا شوہر تھا اور وه معصوم لڑکی جو شاید ابھی اپنے حواس میں بھی نہیں تھی__ وه اسکی منکوحہ تھی___ سردی شدت پکڑ چکی تھی___ آج کی رات آخری تھی__ آج سیمل خلاف توقع ڈائینگ ہال میں موجود تھی___ ,کھانا خاموشی سے کھایا گیا__ کھانا کھانے کے بعد سارے برتن سمیٹ کر اس نے کچن میں رانا آنٹی کے ساتھ رکھوائے___ پھر سلمان انکل کی فرمائش پہ “کافی” بنانے لگی__ کافی بنا کہ وه جب لاؤنج میں لائی تو عارش باہر لان کی جانب چلا گیا تھا__ وه سب کو کافی دے کر اپنی اور عارش کی کافی لے کر لان کی جانب آگئی___ وه اسے لان کے انتہائی اندھیرے حصے کی جانب کسی سے کال پہ بات کرتے ہوئے دِکھا___ کافی لے کر جب وه پاس گئی تو وه اپنے “سر”سے بات کررہا تھا___ قریب جاکر گلا کھنکھار کر اپنی موجودگی کا احساس دلایا__ سیمل کو وہاں دیکھ کر اسے حیرت اور خوشی کے ملے جلے تاثرات نے اپنی لپیٹ میں لے لیا___
کافی اسکی جانب بڑھا کر وه اس سے تھوڑے فاصلے پہ وہیں بیٹھ گئ___ کافی پیتے ہوئے عارش نے باتیں شروع کیں___ اور اسکا اور اپنا نمبر بھی ایکسچینج کرلیا___ کافی دیر باتیں کرنے کے بعد وه لوگ اندر آگئے___ سیمل نے آج خلاف معمول عارش سے اچھے سے بات کی تھی__ عارش نے اسے کہا تھا کہ صبح وه اسکی پیکنگ کرے گی___ اور سیمل راضی بھی تھی__ واپس آکر اپنے کمرے میں اس نے وضو کیا نماز پڑھی پھر چپ چاپ کاؤچ پہ ہی لیٹ گئی__ موبائل پہ واٹس ایپ ٹون بجی تو وه یادوں کے دریچوں سے سرک کے باہر آگئی___ وہاں عارش کا میسج دیکھ کر وه مسکرا گئ__
“I really enjoy this night coffee with you wifey___ love u__ your Aarish___”
جواب میں سیمل نے مائن پلیژر لکھا تھا___اور ساتھ ہی ایک سمائلی ایموجی بھی بھیج دی اور اس کے آگے کی کسی بات پہ جواب دینا ابھی اس نے اچھا محسوس نہیں کیا تھا___
•••••••••••••••••••
*میں روئی تو نہیں ہوں__
نا جانے کیوں میرا کاجل__
جب بھی ڈالو آنکھوں میں__
اب اکثر پھیل جاتا ہے__
تم تو جانتے ہو ان دنوں__
بہت ہی ٹھنڈ ہوتی ہے__
تب ہی اکثر سرخ میری ناک ہوتی ہے__
میں روئی تو نہیں ہوں__
کہا تو ہے یونہی بس__
بھیگا ہے آنچل کا کونا__
چھوڑو تم فکر مت کرنا___
اب ماں باپ کی یاد میں دیکھو___
میں روئی تو نہیں ہوں___
بتا دینا ان کو جاکر ___
جب اکیلے وه چھوڑ جاتے ہیں____
بہت ہی اداس ہوتی ہوں___
جب وه یاد آتے ہیں___
بس ویسی ہی سرخ ہیں آنکھیں___
میں روئی تو نہیں ہوئی____*
صبح جب کافی دیر تک وه نہیں سوکر اٹھی تو رانا آنٹی نے آکر اسکو کمرے میں دیکھا جو مکمل اندھیرے میں تھا___ سائڈ گلاس وال سے کرٹن ہٹاتے ہی سورج تازه کرنیں جو صبح صادق ہونے کا پتہ دے رہیں تھیں کمرے میں ہر سو پھیل گئیں___ چہرے پہ سیدھی دھوپ سے وه تھوڑا سا کسمسائی___ اور سامنے رانا آنٹی کا کھڑا دیکھ کر فوراً اٹھ گئ___
“بیٹا نیچے آجائیے سب ناشتے پہ ویٹ کر رہے ہیں__ ” رانا آنٹی نے پیار سے اسکے سر پہ بوسہ لیا__اور نیچے چلیں گئیں___ ناشتہ کرتے ھوئے اسکی گردن میں بار بار درد اٹھ رہا تھا جو کہ کاؤچ پپ سونے کے باعث کافی بڑھ گیا تھا___
“بیٹا آپ بیڈ پہ کیوں نہیں سوئیں تھیں__ کاؤچ پہ سونے سے ہوگیا ہوگا__ ناشتہ کر کے پین کلر لے لیجیۓ گا__”
“جی بہتر آنٹی__” سیمل نے عارش کی خود پہ موجود نظروں سے گھبراتے ہوئے جواب دیا ۔۔۔
ساری پیکنگ کرنے کے بعد عارش نے اسکا شکریہ ادا کیا تھا___ جو اس نے عارش کو واپس ہنس کر دے دیا تھا___ اپنے رشتے کے مابین ان دونوں میں تھوڑی بے تکلفی تو ہو ہی گئ تھی__ بے گانگی کی جو چھوٹی دیوار اب بھی حائل تھی وه سیمل ہی کی طرف تھی___ جو شاید کچھ وقت کی متقاضی تھی___ اکثر حالات کو بہتر بنانے کے لیۓ وقت درکار ہوتا ہے__ مگر یہاں حالات نہیں رشتے تھے وه باقی سب کے ساتھ تو ٹھیک تھی مگر عارش سے اپنی شرم و حیا کے باعث کتراتی تھی___
عارش کو گئے ہوئے ابھی دو گھنٹے ہی ہوئے تھے__ اور وه اسکی دوری کو اچھے طریقے سے محسوس کر رہی تھی__