[ 12 ]
میں نے فرقہ وارانہ فساد بہت دیکھے ہیں۔۔۔۔۔ جمشید پور۔۔۔۔ رانچی۔۔۔۔ ہزاری باغ۔۔۔۔۔ بھاگلپور !
سن 1964 میں جمشید پور کا فساد میرا پہلا تجربہ تھا۔ تب میں آر آئی ٹی جمشید پور میں انجنیئرنگ کا طالب علم تھا اور کالج ہا سٹل میں رہتا تھا۔ آر آئی ٹی میں طلبا ملک کے کونے کونے سے آئے ہوئے تھے۔ یہاں کا ماحول کچھ الگ تھا۔ یہاں طرح طرح کے لڑکے تھے جو دن بھر ادھم مچاتے اور رات بھر پڑھتے۔ بہاری لڑکے انگریزی میں کمزور تھے لیکن میتھ میں تیز تھے۔ دلّی کے لڑکوں کی ڈرائنگ بہت اچھی تھی وہ آپس میں انگریزی میں ہی بات کرتے تھے لیکن انجنیئرنگ سبجیکٹ میں بہاری لڑکوں کے سامنے ان کی پالکی رکھاتی تھی۔ پنجا بیوں کی بات جدا گانہ تھی۔ یہ ہنسوڑ اور کھلے دل کے تھے۔ خوب ٹھہاکہ لگاتے اور گالیاں بکتے۔ متھلا کے لڑکوں کا الگ گروپ تھا۔ یہ جلدی دوسروں سے مکس نہیں کرتے تھے۔ میتھل برا ہمنوں کا بیک ورڈ لڑکوں سے یارانہ نہیں تھا۔
گروور پنجابی تھا اور اپنی طرح کا انوکھا لڑکا تھا۔ وہ مجھ سے دو سال سینیئر تھا۔ اسے کسی گروپ میں نہیں دیکھا گیا۔ وہ اپنے آپ میں ایک گروپ تھا۔ اکیلا رہتا اور ایک ہی لباس پہنتا تھا۔۔۔۔ راونڈ شرٹ اور ڈرین پائپ۔۔۔ اور سیاہ جوتا جس کی تیکھی نوک ہوتی تھی۔ سردیوں کے موسم میں بھی اس کے لباس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی تھی۔ وہ کبھی گرم کپڑوں میں نظر نہیں آیا۔ لڑکے کہتے تھے کہ جب اس کو بہت سردی محسوس ہوتی ہے تو جیب سے شراب کی بوتل نکال کر ایک دو گھونٹ بھر لیتا ہے۔ وہ پڑھائی میں اوّل تھا۔ اس زمانے میں ہر پرچے میں نو- دس سوال ہوتے تھے اور لکھا رہتا تھا انسر اینی سکس۔۔۔۔۔ گروور سبھی سوالوں کے جواب دیتا اور لکھتا اکزا مین اینی سکس۔۔۔ !
ایسی خود اعتمادی میں نے کم لوگوں میں دیکھی ہے۔ وہ اسٹوڈینتس ویلفیر کمیٹی کا چیر مین بھی تھا۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کے لئے انتظامیہ سے بھڑ جاتا۔ ایک بار کسی وارڈن سے اس کی بحث ہو گئی۔ وہ زور زور سے بول رہا تھا تو وارڈن نے کہا۔
’’اتنا چیخ کیوں رہے ہیں۔ ؟ ذرا آہستہ بو لئے۔‘‘
گروور نے اسی لہجے میں کہا۔ ’’معاف کیجیے گا سر۔۔۔۔ آپ کو میری آواز اونچی لگتی ہے تو دور کھڑے ہو جایئے۔ میں اپنی آواز نیچی نہیں کر سکتا۔ اسٹوڈنٹ ولفیر کا معاملہ ہے۔‘‘
ایک بار تو اس نے حد کر دی۔ وہ کسی کال گرل کے ساتھ ریستوراں میں بیٹھ ہوا تھا۔ پولس کو شک ہوا تو اس سے سوال کرنے لگی۔ گروور نے کہا کہ وہ آر آئی ٹی کا اسٹو ڈنٹ ہے ، پرنسپل اس کی ضمانت لیں گے۔ انسپیکٹر نے پرنسپل کو فون ملایا تو اس نے ضمانت لینے سے انکار کیا بلکہ صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ اگر وہ کال گرل کے ساتھ ہے تو حاجت میں بند کر دو۔
گروور کچھ دیر حاجت میں بند رہا پھر چھوٹ کر آیا تو سیدھا پرنسپل کے چیمبر میں گیا۔ ان دنوں کالج میں یہ بات مشہور تھی کہ پرنسپل کا ورک شاپ کے سو پر ٹینڈینٹ کی بیوی کے ساتھ معاملہ چل رہا ہے۔ گروور پرنسپل کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہو گیا اور بولا۔ ’’ویل مسٹر پرنسپل ! از اٹ فیکٹ دیٹ یو ٹولڈ سم تھنگ ان پار لیمنٹری اباوٹ می ٹو دی پولس انسپکٹر ؟‘‘
’’وہاٹ کرائم آئی ڈو اف آئی سلپ ود اے گرل ؟ ڈڈ یو ناٹ سلپ ود اپادھیائےز وائف۔۔۔۔ ؟‘‘
پرنسپل نے اسے ایک سال کے لئے سسپنڈ کر دیا۔
ہاسٹل کے آس پاس آدی باسیوں کا ٹولہ تھا۔ یہاں کی مزدور عورتوں کو ریزہ کہتے تھے۔ کچھ لڑکے ریزاؤں کے چکّر میں رہتے تھے اور انہیں چونّی پکارتے تھے۔ چار آنے میں ان سے معاملہ پٹتا تھا۔ سلیمان کی نظر بھی ریزاؤں پر رہتی تھی۔ وہ تھا بھی رنگین مزاج لیکن پڑھائی میں بھی آگے تھا۔ ایک بار کہیں سے آیا تو اس کے دونوں گھٹنے زخمی تھے۔ میں نے پوچھا کیا ہوا تو ہنس کر بولا ’’
’’ادھر کنکریٹ کی پائپ تھی تو اسی میں۔۔۔۔۔‘‘
لڑکے مست رام کی کتاب بھی پڑھتے تھے۔ بھیّا رمیش چندر کا انداز نرالا تھا۔ یہ بہاری تھا اور خود کو بہت اسمارٹ سمجھتا تھا۔ سارے کپڑے اتار دیتا اور مست رام کی کتاب لے کر کرسی پر ننگ دھڑنگ بیٹھ جاتا۔ اور بہ آواز بلند پڑھنا شروع کرتا۔ اس کے روم میٹ اسے گھیر کر بیٹھے رہتے اور قہقہے لگاتے۔ رمیش چندر سب کے ساتھ چھیڑ خوانی کرتا رہتا اور ایک دن اس کی یہ عادت مہنگی پڑ گئی۔
ہاسٹل میں ایک اڑیہ لڑکا تھا اومیش۔ بھیّا رمیش نے اس کے ساتھ زیاد تی کی۔ اس کے کمرے میں گھس گیا اور اس کو لواطت کے لئے مجبور کیا۔ یہ خبر آگ کی طرح پھیل گئی۔ اومیش پرنسپل سے اپنی شکایت درج کرنا چاہتا تھا۔ بھیّا رمیش گھبرا گیا کہ پرنسپل تو پمیشہ کے لئے کالج سے نکال دے گا۔ لڑکوں نے پنچائت کی اور رمیش کے لئے سزا تجویز کی۔ طے ہوا کہ رمیش شہر جا کر اپنے بال منڈوائے اور ہاسٹل کے لڑکوں کے سامنے اپنے منھ پر کالکھ ملے۔ رمیش کے ساتھ دو بہاری لڑکے اور تھے جو سزا کے مستحق تھے۔ ان کو ایسا کرنا پڑا۔ جس وقت رمیش اور اس کے ساتھی سر منڈا کر آئے ہم سب ہال میں جمع تھے۔ رمیش نے سب کے سامنے چہرے پر کالکھ ملی اور سسک سسک کر رونے لگا۔
مسلمان لڑکے ایسے ہنگاموں سے دور رہتے تھے۔ ایک لڑکا تھا جمیل جس پر ہر وقت مذہب سوار رہتا تھا۔ وہ میرا ہم جماعت تھا۔ وہ تبلیغی جماعت کا بھی رکن تھا۔ ہم اور سلیمان جمیل کا مذاق اڑاتے رہتے تھے۔ ایک بار جمیل جماعت کے کچھ لوگوں کو لے کر ہاسٹل آیا۔ ساتھ میں کلیم عاجز بھی تھے۔ کلیم عاجز کا نام میں نے سن رکھا تھا۔ مجھے حیرت ہوئی کہ کلیم عاجز جیسا شاعر ان کے چکّر میں کیسے آ گیا۔ اس وقت میں اور سلیمان میکانکس کا ایک پرابلم حل کر رہے تھے۔ پرابلم تھک سلنڈر کا تھا جو انکلا ئنڈ پلین پر ریسٹ کرتا تھا۔ اس کا ری ایکشن نکالنا تھا۔ پرابلم ہم سے حل نہیں ہو رہا تھا۔ اچانک جماعت کے ایک شخص نے ہمیں ٹوک دیا جس کی لمبی سی داڑھی تھی۔ وہ سفید کرتے پائے جامے میں تھا اور سر پر فر والی ملگجی رنگ کی ٹوپی تھی۔
’’پرابلم کیا ہے ؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔
’’حضور یہ آپ کے بس کا روگ نہیں ہے‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
وہ بھی مسکرائے اور ہنس کر بولے کہ سننے میں کوئی حرج تو نہیں ہے۔ سلیمان نے انہیں پڑھ کر سنایا تو وہ مسکراتے ہوئے بولے۔
’’بہت آسان ہے میاں۔ آپ سارے فورسیز کو الانگ دی پلین اور ورٹکلی رزالو کر دیں۔ ریکشن نکل جائے گا۔‘‘
میں نے غور کیا تو طریقہ صحیح معلوم ہوا اور پرابلم فوراً حل ہو گیا۔ میں تو حیران تھا کہ یہ لمبی داڑھی والا مولوی۔۔۔۔۔۔ ؟
معلوم ہوا یہ یٰسین صاحب ہیں ٹسکو کے چیف ڈیزائن انجنیئر۔ ہم بے حد شرمندہ ہوئے۔ ان سے معافی مانگی اور انہوں نے تبلیغ شروع کر دی۔
’’دیکھیئے۔۔۔۔ ہر چیز کا ایک طریقہ ہے۔ پرابلم آپ حل کر رہے تھے۔ نہیں حل ہو رہا تھا۔ پھر آپ نے صحیح طریقہ اپنایا تو حل ہو گیا۔ اسی طرح زندگی بھی ہے۔ زندگی میں بھی پرابلمس ہیں۔۔۔۔ مسائل ہیں۔ انہیں حل کرنے کا طریقہ ہے قران شریف۔ آپ قران کو زندگی میں اتار لیں تو سارے پرابلمس حل ہو جائیں گے۔ شریعت کے مطابق زندگی گذاریئے تو سارے معاملات درست رہیں گے۔‘‘
جمیل تو ہمارے پیچھے پڑ گیا کہ نماز شروع کرو۔ جمیل کا خیال تھا کہ میں اور سلیمان اگر راستے پر آ گئے تو دین کا بہت کام ہو گا۔ لیکن شیطان ہمارے سروں پر مسلّط تھا۔ ہم جماعت والوں کا مذاق اڑاتے اور جمیل اندر ہی اندر کڑھتا رہتا۔
تبلیغی جماعت کی عالمی کانفرنس سورت میں ہونے والی تھی۔ یٰسین صاحب نے کہا دونوں لڑکوں کو لے چلو کہ ان کا راہ راست پر آنا ضروری ہے۔ مجھے ممبئی گھومنا تھا۔ میں نے جمیل سے شرط رکھی کہ سورت تک کا خرچ دو گے تو جماعت میں چلوں گا۔ جمیل راضی ہو گیا۔ مجھے اور سلیمان کو ۶۳ روپے ملے۔
جماعت کا ہر رکن اصول اور ضابطے کا پا بند تھا۔ یہ مخلص لوگ تھے اور سادگی سے رہنا جانتے تھے۔ نماز کے وقت گاڑی کسی پلیٹ فارم پر رکتی تو امیر جماعت اتر کر قطب نما دیکھتے کہ قبلہ رخ کدھر ہے۔ پھر جا ء نماز بچھ جاتی اور نماز شروع ہو جاتی۔
میں اور سلیمان جس گروپ میں تھے اس میں دو جیّد مولانا تھے جو ہر وقت دعا سکھاتے رہتے تھے۔ گھر سے نکلتے وقت یہ دعا پڑھو۔۔۔۔ گھر میں داخل ہوتے وقت یہ دعا۔۔۔۔ صبح صبح یہ دعا۔۔۔۔ کسی حاکم سے ملنا ہو تو یہ دعا۔۔۔
گاڑی چکر دھر پور میں رکی تو ایک لڑکی میرے بغل میں بیٹھ گئی۔ دونوں مولوی حضرات نے لڑکی کو گھور کر دیکھا۔ میں نے پوچھا ’’حضور اب کون سی دعا پڑھوں۔۔۔۔۔ ؟‘‘
’’لا حول ولا قوۃ۔۔۔۔۔ سخت بد تمیز لڑکا ہے !‘‘
میری شکایت امیر کے پاس پہنچی۔ امیر نے مجھے اپنے پاس بلا لیا۔
سورت پہنچا تو وہاں آدمیوں کا سمندر تھا۔ دنیا کے کونے کونے سے جماعت آئی ہوئی تھی۔ امریکی افریقی اور انڈونیشیا کی جماعت بھی۔ حضرت جی کو دیکھا تو دل باغ باغ ہو گیا۔ عجب نورانی شکل تھی۔ لمبی سی سرخ داڑھی اور سفید برّاق چہرہ۔ وہ قرّت کرتے تو فضا جھوم اٹھتی۔ زیادہ بھیڑ انہیں کے خیمے میں تھی۔ لیکن وہ صرف شام کے وقت ہی وعظ کرتے تھے۔
کانفرنس چار دن چلی۔ آخری دن ایک جماعتی سب سے چلّے کا وعدہ لے رہا تھا۔ میں ادھر سے گذرا تو اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔
’’اس کا چلّہ لکھو۔۔۔۔ دو چلّہ۔۔۔۔ ‘
’’میں نہیں جا سکتا۔۔ اگلے ماہ میرا امتحان ہے۔‘‘ میں نے بہانہ بنایا۔
’’کیوں نہیں جا سکتے ؟ دنیا کے امتحان کی اتنی فکر ہے اور اللہ کے امتحان کا کوئی ڈر نہیں۔‘‘ اس نے آنکھیں دکھائیں۔
’’نہیں۔۔۔ میں نہیں جا سکتا۔۔۔ !‘‘ میں نے ہاتھ چھڑایا اور وہاں سے بھاگا۔
کانفرنس ختم ہوئی تو سبھوں نے اپنے گھر کی راہ پکڑی۔ میں اور سلیمان بمبئی چلے آئے۔
ایسے لڑکوں کی تعداد بھی کافی تھی جن پر آر اس اس کا اثر تھا۔ کالج کے پیچھے کھلا میدان تھا جہاں آر اس اس کی شاکھا لگا کرتی تھی۔ اس میں ہاسٹل کے لڑکے بھی شریک ہوتے تھے۔
ان دنوں مشرقی پاکستان میں فرقہ وارانہ فساد ہوا تھا۔ ہندو شرنارتھی بھاگ کر بنگال آئے تھے۔ کہتے ہیں ہندوستان میں جہاں جہاں سے ان کی ٹرین گذری تھی وہاں وہاں فساد ہوا تھا۔ شرنارتھیوں کی ٹرین جمشید پور سے بھی گذری۔ یہاں آر اس اس فعال تھی۔ آدی باسیوں کے بیچ گھوم گھوم کر افواہ پھیلائی گئی کہ مشرقی پاکستان میں مسلمانوں نے آدی باسیوں کا قتل عام کیا ہے۔
جمشید پور میں فساد جگ سلائی سے شروع ہوا اور دیکھتے دیکھتے آگ ہاسٹل کے علاقے میں بھی پھیل گئی۔ ہر ہر مہا دیو کے نعرے فضا میں گونجنے لگے۔ میں اس دن ہاسٹل کی چھت پر دوسرے لڑکوں کے ساتھ کھڑا تھا۔ سامنے کچھ دور میدان میں ایک آدمی کو بھاگتے ہوے دیکھا۔ اس کے پیچھے ایک آدی باسی تیر لے کر دوڑ رہا تھا۔ میں نے ایک لڑکے سے پوچھا وہاں کیا ہو رہا ہے تو اس نے ہنس کر کہا کہ میاں جی کا شکار ہو رہا ہے۔ میں فوراً نیچے اپنے کمرے میں چلا آیا۔
آر اس اس کے رہنماؤں نے کچھ سینیئر لڑکوں کے ساتھ خفیہ میٹنگ کی کہ مسلمان لڑکوں کا صفایا کر دیا جائے۔ ایک فہرست بنائی گئی کہ کس ہاسٹل کے کس روم میں کون لڑکا رہتا ہے۔ ایک لڑکے کو ہم لوگوں پر رحم آ گیا۔ اس نے پرنسپل کو آگاہ کر دیا۔ پرنسپل کو اس بات کا شبہ تھا۔ وہ فوراً کالج کی بس لے کر آئے اور مسلمان لڑکوں کو چن چن کر ہاسٹل سے باہر نکالا اور بس میں بھر دیا۔ مجھے جب روم سے لے جانے لگے تھے تو میں نے کہا تھا ’’ایر آف ٹاٹا ول ناٹ کم ٹو آور کیمپس۔۔۔۔‘‘ اس پر لے جانے والے نے مجھے سخت سست کہا تھا اور مجھے گھسیٹتا ہوا بس تک لے گیا تھا۔ ہم بہت بے سرو سامانی میں بس میں ٹھونسے گئے تھے۔۔۔۔ نہ اپنی کتا بیں لی تھیں نہ کپڑے۔ بس لڑکوں سے بھر گئی تھی اور مجھے حیرت تھی کہ مسلم لڑکے اتنی تعداد میں تھے اور پتہ نہیں تھا۔ یہاں سے ہمارا پولرا یزیشن شروع ہو گیا تھا۔
پرنسپل آگے کی سیٹ پر بیٹھ گئے اور ڈرائیور کو تاکید کی کہ بس کسی بھی حالت میں کہیں نہیں رکے گی۔ نعرے گونج رہے تھے اور آگ کی لپٹیں اٹھ رہی تھیں۔ پرنسپل ڈرے ڈرے سے تھے کہ کہیں کوئی حادثہ نہ ہو جائے۔ بس ادتیہ پور کے تھا نے میں رکی۔ تھانے دار کوئی اچھا آدمی نہیں معلوم ہوا۔ اس نے ہمیں گھور کر دیکھا۔ اس کی آنکھیں لال اور چھوٹی تھیں اور گالوں پر جھائیاں پڑی ہوئی تھیں۔ آس پاس کے لوگ بھی بھاگ بھاگ کر پناہ لینے تھانے پہنچ رہے تھے۔ تھانے دار انہیں گھور گھور کر دیکھتا تھا۔ کچھ دیر بعد خبر ملی کہ لڑکوں نے ہاسٹل میں بلوہ کر دیا ہے۔ سب کا سامان لوٹ کر میدان میں جمع کیا اور آگ لگا دی۔ اس لوٹ میں باہر کے لوگ بھی شامل تھے۔
دوسرے دن کچھ لڑکے تھانے کے ارد گرد گشت کرتے نظر آئے۔ اور تھانے دار کا موڈ بدل گیا۔ اس نے ہمیں گھورتے ہوئے کہا۔
’’آپ لوگ یہاں سے جایئے۔۔۔۔ اگر لڑکے یہاں آ گئے تو ہم ان پر گولی نہیں چلائیں گے۔۔۔ وہ ہمارے بچّے ہیں۔‘‘
جنید عالم بھوں بھوں رونے لگا۔ جنید مرکزی حکومت کے وزیر رفیق عالم کا چھوٹا بھائی تھا اور مجھ سے دو سال سینیر تھا۔ مجھے تھانے دار سے زیادہ جنید پر غصّہ آ یا۔ پرنسپل نے ہمیں پھر بس میں بٹھایا اور بس انجانی سمت میں چل پڑی۔ انہیں کسی مسلم محلّے کی تلاش تھی۔ ساکچی میں آئے تو شفیق صاحب کا سنیما ہال ریلیف کیمپ بنا ہوا تھا۔ وہاں تل رکھنے کی جگہ نہیں تھی۔ وہاں سے آگے بڑھے تو ایک مکان میں پناہ مل گئی۔ مکان کافی بڑا تھا۔ اس میں کئی کمرے تھے۔ مکان مالک نے ہمیں چھت پر جگہ دی۔ کمبخت جنید سارے راستے روتا ہوا آیا تھا۔ چھت پر کافی جگہ تھی۔ گرمی کا موسم تھا۔ ہم یہاں محفوظ تھے اور آزاد۔ ہم آسمان میں تاروں کو نہار سکتے تھے۔ پرنسپل نے ساری ضرورت کی چیزیں مہیّا کرائیں۔۔۔۔ دری۔۔۔۔ توشک۔۔۔۔۔ تکیہ۔۔۔۔۔ چادر۔۔۔۔ کمبل۔۔۔۔ پرنسپل نے راشن بھی پہنچایا۔ اب چھت پر رہنے میں مزہ آ رہا تھا۔ ہم ایک طرح کی پکنک منا رہے تھے۔
آدمی اگر جماعت میں ہے تو گروپ بننے لگتا ہے۔ آدمی اکیلا اچھا ہوتا ہے اس کی بھیڑ بری ہوتی ہے۔ سارتر نے کہا ہے دی ادر از ہیل۔۔۔
ہم میں گروپ بننے لگا تھا۔ ہم ایک دوسرے کی شکایت کرنے لگے تھے۔ حد تو یہ ہے کہ ہم پرنسپل کی بھی شکایت کرتے کہ سامان گھٹیا مل رہا ہے۔ جمیل ہمیں ہنستے اور چہلیں کرتے دیکھتا تو کڑھتا تھا اور کہتا۔
’’قوم گاجر اور مولی کی طرح کٹ رہی ہے اور آپ لوگ ٹھی ٹھی کر رہے ہیں۔۔۔۔ ؟ ‘
ہم پو چھتے کہ پھر کیا کریں تو غصّے سے جواب دیتا ’’نماز پڑھو !‘‘
کچھ لڑکے جماعت میں نماز پڑھتے تھے۔ جمیل نے کونہ پکڑ لیا تھا۔ دن بھر بیٹھا تسبیح پڑھتا رہتا۔
مکان مالک ہمارے آنے سے خوش تھا۔ کہتا تھا آپ لوگ آئے تو ہمیں طاقت مل گئی۔ لیکن قاسم بجنوری جو تھرڈ ایئر میکا نکل کا طالب علم تھا فکر مند تھا کہ مکان میں کوئی ہتھیار نہیں ہے۔ اگر موب آ گیا تو لڑیں گے کس طرح۔ ؟ چھت پر کچھ بانس پڑے تھے۔ اس نے مکان مالک سے ایک چاپڑ اور لوہے کی نوک دار سیخیں منگوائیں۔ بانس کو چھیل کر اس میں سیخیں فٹ کیں اور برچھی بنائی۔ کچھ لڑکوں نے ارد گرد سے اینٹیں چن کر چھت کے کونے میں جمع کیا کہ دشمن پر اینٹ برسایں گے۔ کچھ کا مشورہ تھا کہ کھولتے پانی کی دیگ رکھی جائے تا کہ موب اگر آ گیا تو اس پر سیدھا چھت سے کھولتا پانی انڈیلا جائے گا۔ ماحول کچھ ایسا ہو گیا تھا کہ مجھے بھی لگنے لگا تھا کہ حملہ کسی وقت بھی ہو سکتا ہے۔ اور اس کا اثر ایک دن جمعہ کی نماز پر پڑا۔
پاس ہی مسجد تھی۔ وہاں جمعہ کی نماز ہو رہی تھی۔ نماز میں میں بھی تھا۔ اچانک ایک آواز آئی۔ ’’آ گیا۔۔۔۔ آ گیا۔۔۔۔‘‘ نمازیوں نے سمجھا دنگائیوں کا موب آ گیا۔۔۔ کھلبلی مچ گئی۔ سب نماز چھوڑ کر اٹھ گئے اور چلّا نے لگے۔ ’’آ گیا۔۔۔۔ آ گیا۔۔۔۔ کسی نے زوردار نعرہ لگا یا ’’نعرۂ تکبیر۔۔۔۔ للہ اکبر۔۔۔۔ ‘ ایک مولوی اچھل کر دیوار پھاند گیا اور دوڑتا ہوا گھر میں گھسا اور اپنی بندوق لے آیا۔ وہ ہا تھ اٹھا اٹھا کر بندوق لہرا رہا تھا اور نعرے لگا رہا تھا۔ شور سن کر پاس ہی گشت لگاتی ہوئی پولس پہنچ گئی۔ پولس افسر نے اپنے پستول سے ہوائی فائر نگ کی اور سب کو خبر دار کیا۔۔۔۔ شانت ہو جایئے۔۔۔۔ شانت ہو جایئے کہیں کچھ نہیں ہے۔۔۔۔‘‘ مولوی جلدی سے گھر میں گھس گیا اور بندوق رکھ کر واپس آیا۔ اس کو ڈر تھا کہ کہیں پولس اس کی بندوق ضبط نہ کر لے ؟
’’آپ لوگ افواہ پھیلا رہے ہیں۔۔۔۔ کہیں کچھ نہیں ہے۔۔۔۔ !‘‘
پولس کے جانے کے بعد نماز پھر شروع ہوئی۔
حالات آہستہ آہستہ نارمل ہونے لگے۔ ایک دن کرفیو میں شام تک کی ڈھیل ملی تو میں شہر کا رنگ ڈھنگ دیکھنے باہر نکلا۔ بازار میں ساجد صاحب سے ملاقات ہو گئی۔ ساجد ٹسکو میں چارج مین تھے اور میرے شناسا تھے۔ وہ آزاد بستی میں رہتے تھے جو مسلمانوں کا محلّہ تھا ۔
ساجد مجھے ایک گھنٹے کے لئے اپنے گھر لے گئے۔ یہاں ایک واقعہ ہو گیا۔ ہم جیسے ہی گھر میں داخل ہوئے ایک نوجوان بھاگتا ہوا آیا اور گھر میں گھسنے لگا۔ نوجوان گھبرایا ہوا تھا۔ اس نے بتایا کہ کچھ لوگ اس کی جان کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ کچھ نوجوان ہاتھ میں ہتھیار لئے ساجد کے مکان کی طرف آ رہے تھے۔ ساجد نے جلدی سے نو جوان کو گھر کے اندر چھپا دیا اور مجھے بھی اندر رہنے کے لئے کہا۔۔ وہ لوگ ہتھیار چمکاتے ہوئے آئے اور شور کرنے لگے
’’ساجد بھائی۔۔۔ ایک کافر بھاگتا ہوا آپ کے گھر کی طرف آیا ہے۔‘‘
ساجد نے انہیں سمجھایا۔ ’’یہاں کوئی کافر نہیں آیا ہے۔ میرا ایک رشتے دار میرے ساتھ آیا ہے۔‘‘
’’نہیں۔۔۔۔ نہیں۔۔۔۔ وہ کافر ہے۔۔۔۔ اسے باہر نکالئے۔‘‘ بھیڑ شور مچانے لگی۔
’’میں اسے باہر بلا دیتا ہوں۔ آپ خود دیکھ لیجیئے۔‘‘
ساجد مجھے لے کر باہر آئے۔ میں نے سب کو زوردار لہجے میں سلام ٹھوکا۔
’’السلام علیکم حضرات !‘‘
’’وعلیکم سلام !‘‘ بھیڑ سے آواز آئی۔
بھیڑ تو چلی گئی لیکن جاتے جاتے دھمکی دے گئی کہ وہ اس گھر پر نظر رکھیں گے۔ اگر باہر کا آدمی نظر آیا تو کھینچ لیں گے۔
اس نو جوان نے بتایا کہ وہ بی ایچ ایریہ جانا چاہتا تھا لیکن بھٹک کر ادھر آ گیا۔ نوجوان کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔ وہ بہت غصّے میں نظر آ رہا تھا۔۔ اس کا سر گھٹا ہوا تھا اور لمبی سی چٹیا تھی جو دور سے بھی نظر آتی تھی۔ چہرے پر عجیب سا روکھا پن تھا۔ اسے کچھ کھانے کے لئے دیا گیا لیکن اس نے چھوا تک نہیں۔ یہاں تک کہ پانی بھی پینے کے لئے راضی نہیں تھا۔ وہ مٹّھیاں باندھے کمرے میں ادھر سے ادھر ٹہل رہا تھا۔ ساجد کی بیوی ڈر رہی تھی کہ پتہ نہیں کیسا آدمی ہے اور کیا کر بیٹھے ؟ ساجد نے اس سے کہا کہ تمہاری چٹیا کاٹ لیتا ہوں اور تمہیں ٹوپی پہنا دیتا ہوں۔ تم مسلمان کے حلیہ میں اس محلّے سے نکل سکتے ہو۔ میں نے مشورہ دیا کہ پولیس کو بلا کر اس کی حفاظت میں دے دیا جائے۔ ساجد کے لڑکے کو شرارت سوجھ رہی تھی۔ وہ ہنس ہنس کر کہہ رہا تھا کہ محلّے والوں کو بلا کر اس کی چٹیا کاٹ لی جائے اور اس کو مسلمان بنا دیا جائے۔
مجھے اشفاق احمد کی کہانی گڈریا یاد آ رہی ہے۔ جو کہانیاں امر ہوتی ہیں ان کے کردار بھی ہر زمانے میں ہوتے ہیں۔ کہانی میں ایک تاؤ جی ہیں جو ہندو ہیں لیکن عربی اور فارسی کے عالم ہیں۔ تاؤ جی کا مسلمان دوست اپنے لڑکے کو پڑھنے کے لئے ان کے پاس بھیجتا ہے۔ تاؤ جی اس کو اپنے پاس رکھ لیتے ہیں اور بہت محبّت سے پڑھاتے ہیں۔ لڑکا اچھے نمبر سے میٹرک کا امتحان پاس کر لیتا ہے۔ اس بیچ ملک کا بٹوارہ ہو جاتا ہے اور فساد کی لہر ہر جگہ دوڑ جاتی ہے۔ فساد اس لڑکے کے شہر میں بھی ہوتا ہے اور ایک دن دیکھتا ہے کہ محلّے کے کچھ لڑکے ایک شخص کو گھیر کر کھڑے ہیں۔ نزدیک جا کر دیکھتا ہے کہ وہ تاؤ جی ہیں اور لڑکے مسلمان ہونے کے لئے ان پر تشدّد کر رہے ہیں۔
لڑکوں نے ان کا سر مونڈ دیا ہے اور چٹیا کاٹ لی ہے۔ ایک لڑکا کہتا ہے کہ کلمہ پڑھ تو تاؤ جی پوچھتے ہیں کون سا کلمہ ؟ لڑکوں کا مکھیا ان کو چپت لگاتے ہوئے کہتا ہے ’’سالے کلمہ بھی کوئی پانچ سات ہوتا ہے۔ ؟‘‘ المیہ یہ ہے کہ جو تاؤ جی کو مسلمان بنانا چاہ رہا ہے اور کلمہ پڑھنے کے لئے تشدّد سے کام لے رہا ہے اسے خود پتہ نہیں ہے کہ کلمہ کیا ہوتا ہے مکھیا تاؤ جی کے ہاتھ میں ڈنڈا تھما کر کہتا ہے تو ہماری بھیڑیں چرا۔ آج سے تو ہمارا گڈریا ہوا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ زیادہ تر پیغمبر گڈریا ہی ہوئے ہیں۔
میری ملاقات بھی ایک گڈریا سے ہوئی ہے۔ کشمیر کے گلبرگہ میں ساہتیہ اکاڈمی کا ایک ٹرانسلیشن ورک شاپ سیمینار تھا۔ مجھے رہنے کے لئے جو ہٹ ملا تھا تو میرے ساتھ تھے ایک دھوتی دھاری جناب موہن لال آش۔ ایک دن صبح صبح آش مہاشے کچھ بد بدا رہے تھے۔ پھر کچھ پڑھ کر چارو طرف پھونکا اور منھ پر دونوں ہاتھ پھیرا۔ میں نے ان کا مذاق اڑاتے ہوے کہا ’’کیا مہاراج جلا کر بھسم کر دیں گے کیا ؟ کون سا منتر پڑھا ؟ ’’
آش صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا کہ وہ درود شریف پڑھ رہے تھے۔ انہوں نے سورہ اخلاص بھی پڑھ کر سنایا۔ میں بہت شرمندہ ہوا اور معافی مانگی۔ انہوں نے بتایا کہ وہ شری نگر میں عربی اور فارسی کے استاد تھے۔ جب وہاں سے ہندوؤں کو نکالنے کی مہم چلائی گئی تو ان کو بھی نکال دیا گیا۔ وہ بے گھر ہو گئے اور جمّوں میں آ کر پناہ لی۔ لیکن جمّوں کے سماج نے بھی ان کی کوئی قدر نہیں کی۔ جموں کے ہندو کہتے ہیں کہ ان کا کلچر مسلمانوں جیسا ہے کہ وہ عربی پڑھاتے ہیں اور مسلمان کہتے ہیں کہ یہ تو کافر ہیں۔
ہم اچھے دوست بن گئے۔ میں نے جو چند لوگوں سے پیار کیا ہے ان میں موہن لال آش بھی ہیں۔
میں ساجد کے گھر دیر تک نہیں رکا۔ لوٹ کر اپنے کیمپ آ گیا۔ ہم یہاں کوئی بیس دن رہے۔ جب شہر پر سکون ہو گیا تو پرنسپل نے ہمیں گھر جانے کے لئے ٹکٹ مہیّا کرایا۔ بیس روپے کیش دیئے۔ اور کالج کی بس سے اسٹیشن چھوڑ دیا۔
میں دو ماہ بعد لوٹ کر ہاسٹل آیا۔ لڑکے بہت اخلاق سے ملے۔ ندامت ظاہر کی اور حیرت بھی کہ انہیں کیا ہو گیا تھا جو لوٹ پاٹ میں شامل ہو گئے تھے۔ ہمارا تمام اثاثہ جلا دیا گیا تھا۔۔۔۔ کتا بیں۔۔۔۔ بستر۔۔۔۔ کپڑے۔۔۔۔ !
کالج میں ایک حادثہ بھی ہو گیا تھا۔ کمل کانت فساد میں مارا گیا تھا۔ کمل کانت میرا ہم جماعت تھا۔ اس کی عادت ذرا خراب تھی۔ وہ طوائفوں کے چکّر لگاتا تھا۔ اس نے اپنا ختنہ کرا رکھا تھا۔ اس کے ذہن میں یہ بات بیٹھی ہوئی تھی کہ مسلمان لڑکوں کو و نرل ڈیزیز کم ہوتی ہے جب کہ ہندوؤں کو فوراً ہو جاتی ہے۔ وہ سمجھتا تھا اس کی وجہ ختنہ ہے۔ اسی ختنہ نے اس کی جان لے لی۔
دنگے کی آگ پوری طرح تھمی بھی نہیں تھی کہ ایک دن وہ ادتیہ پور چلا گیا۔ دنگائیوں نے اسے مسلمان سمجھ کر گلی میں کھینچ لیا۔ اس سے ہندو ہونے کا ثبوت مانگا گیا۔ اس نے جنؤ دکھایا لیکن دنگائیوں نے سمجھا کہ بچنے کے لئے جنؤ پہن رکھا ہے۔۔۔ اس کا پینٹ کھول کر دیکھو۔۔۔۔ اس کا پینٹ کھولا گیا۔ وہ بہت کہتا رہا کہ ہندو ہے لیکن کسی نے یقین نہیں کیا اور اس کا قتل ہو گیا۔
ساجد سے ملاقات ہوئی۔ شہر میں امن قائم ہوا تو لکھنو گئے تھے۔ وہاں مجرا سنا اور دل کی بھڑاس نکالی۔ مجھے ان کی یہ بات دلچسپ معلوم ہوئی۔ میری کہانی ’’بدلتے رنگ‘‘ اس جملے سے شروع ہوتی ہے کہ جب کہیں دنگا ہوتا سلیمان رنڈی کا کوٹھا پکڑتا۔۔۔۔‘‘
ساجد نے لکھنو کا ایک تجربہ بھی سنایا جو کم دلچسپ نہیں ہے۔ ساجد چاہتا تھا لکھنو میں کچھ دن عیش کرے۔ وہ دنگے کی ساری کڑواہٹ بھلا دینا چاہتا تھا۔۔ وہ لکھنو میں چار باغ کے ایک ہوٹل میں ٹھہرا تھا۔ وہاں کچھ نیپالی لڑکیاں آئی ہوئی تھیں۔ ساجد نے ہوٹل کے مینجر سے بات کی تو اس نے ایک لڑکی اس کے کمرے میں بھیج دی۔ لڑکی کمسن تھی۔ لڑکی کی ماں نے کہا کہ وہ اس کو بیئر پلا دے۔۔۔۔ وہ اس کام میں نئی ہے۔ لڑکی سے بات کرنے میں ساجد کو مزہ آ رہا تھا۔ اس نے دو گلاس بیئر پی اور اس کے پیٹ پر بیٹھ گئی۔ ساجد نے کپڑے اتارے تو لڑکی ہنسنے لگی۔ اور بے تحاشہ ہنسنے لگی۔ اس کی ہنسی کسی طرح رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ ساجد اس کی ہنسی سے چڑ گیا۔ اس نے ڈپٹ کر پوچھا کہ ہنستی کیوں ہے تو بولی۔
’’آپ کٹؤا ہیں کیا۔۔۔۔ ؟‘‘
ساجد کا سارا نشہ ہرن ہو گیا۔ اس کا کہنا ہے کہ ایسی ہتک پہلے کبھی محسوس نہیں کی تھی۔ اس دم یہی محسوس ہوا تھا کہ وہ واقعی کٹؤا ہے۔۔۔۔ اپنی ذات اور فرقے سے کٹا ہوا۔۔۔ ! میں نے اپنی کہانی بدلتے رنگ کا کلائمکس اسی واقعہ سے اخذ کیا ہے۔
ساجد نے ایک اور بات بتائی جسے سن کر میں دنگ رہ گیا۔
ایک بار اچانک اس لڑکے سے اس کی ملاقات جبلی پارک میں ہو گئی تھی جس کو اس نے اپنے گھر میں پناہ دی تھی۔ لڑکے نے اس پر پستول تان لیا تھا۔ ساجد نے بتایا لڑکا بہت غصّے میں تھا۔ اس کے چہرے پر نفرت کے تمام رنگ تھے۔ اس نے بہت تلخ لہجے میں کہا تھا۔
’’میرے لئے یہ ایک اپمان جنک بات تھی کہ مجھے اپنی جان بچانے کے لئے ایک مسلمان کے گھر میں پناہ لینی پڑی۔ آپ میری چوٹی کاٹ کر مجھے ٹوپی پہنانا چاہتے تھے۔ ایک ہندو کسی مسلمان کی ٹوپی کیسے پہن سکتا ہے۔ ہمدردی جتانے کے بہانے آپ نے ساری ہندو جاتی کا اپمان کیا ہے۔ آپ کی ہتّیہ ضروری ہے۔ آپ کی ہتّیہ کر اس اپمان کا بدلہ لیا جا سکتا ہے۔‘‘
اور اس نے گولی چلا دی۔ گولی ساجد کے بازو کو چھیدتی ہوئی نکل گئی۔ ساجد نے اپنے بازو پر مجھے زخم کا وہ نشان دکھایا۔ لیکن اس نے آگے جو بات بتائی اسے سن کر تو میں سکتے میں آ گیا۔
ان کا ایک رشتے دار بیمار تھا۔ وہ اس کو دیکھنے گئے تو وہ لڑکا بھی اسپتال میں بھرتی تھا اس کو کینسر ہو گیا تھا۔ وہ قریب المرگ تھا۔ اسے خون کی ضرورت تھی۔ ساجد نے اپنے کو ہندو بتایا اور اس کو اپنا خون دیا۔ ساجد کا کہنا ہے کہ جب اس کے بیڈ کے پاس کوئی نہیں تھا تو وہ قریب گئے اور بولے۔
’’میں نے تمہیں اپنا خون دیا ہے۔ تم اس احساس کے ساتھ مرو گے کہ تمہاری رگوں میں اس فرقے کا خون دوڑ رہا ہے جس سے تم نے ساری زندگی نفرت کی ہے۔۔۔۔‘‘
میری نظر میں ساجد اس لڑکے سے زیادہ فاسسٹ نکلے۔ میں نے اس واقعہ پر کوئی کہانی نہیں لکھی۔ اس قسم کی کہانی فرقہ پرستی کو بڑھا وا دے گی۔
جمشید پور میں دوسرا فساد اپریل 1979 میں ہوا جب بابا صاحب دیو رس وہاں گئے تھے۔ اور عوام سے خطاب کیا تھا کہ آپ کے ادھیکار کیا ہیں اور ادھیکار لڑ کر لیں گے۔ ان کے جانے کے دس دن بعد جمشید پور میں پھر بلوے کی فصل اگی تھی۔
فاشسزم دبے پاؤں نہیں ڈنکے کی چوٹ پر بڑھ رہا ہے۔ لیکن یہاں سیکولر طاقتیں بھی کام کرتی ہیں۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ ہندوستان کا کلچر گنگا جمنی کلچر ہے۔
نئی پیڑھی میں اس کلچر کی نمائندگی پٹنہ کے اویناش امن کرتے ہیں جو عربی اور فارسی کے اسکالر ہیں۔ ایک بار ہمارے یہاں آئے اور قرآن پڑھ کر سنایا۔ قرآن کی بہت سی آیتیں انہیں یاد ہیں۔ امن اچھے شاعر ہیں اور تنقیدی مضامین بھی لکھتے ہیں۔ میں انہیں نارنگ اور موہن لال آش کی وراثت کا امین مانتا ہوں۔۔
اس سے پہلے کہ اوراق پارینہ سمیٹ لوں میں انسانی خمیر میں اس الوہی عنصر کے بارے میں ظہار خیال کرنا چا ہوں گا جہاں خدا ا شہہ رگ سے بھی قریب ہے۔ میری دلچسپی مذہبی رسومات میں کم رہی لیکن خدا میری فکر میں شامل رہا ہے۔ میں نے اسے ہوا میں لمس کی طرح محسوس کیا ہے۔ ایک ان دیکھی قوت پر میرا یقین ہے جو حیوان ناطق کی مدد کے لیئے ہر وقت کوشاں ہے۔ وہ بے نیاز ہے۔ اسے قطعی مطلب نہیں کہ آپ کون ہیں اور کیا ہیں۔ آپ جب اسے پکارتے ہیں تو وہ آپ کے ارد گرد موجود ہوتی ہے۔ معاشرے میں جو مذہبی اصول اور ضابطے رائج ہیں ان میں خدا کو قید کرنا لا محدود کو محدود کرنا ہے۔۔ روحانیت پر کسی بھی مذہب کی اجارہ داری نہیں ہو سکتی۔۔ ضروری نہیں ہے کہ آپ کا ہی راستہ بہتر ہے۔۔ یہ فرد فرد پر منحصر ہے کہ کون سا طریقہ اس کی ذات کے موا فق ہے۔ عبادت کا میرا اپنا طریقہ ہے اور میں اپنے طور پر ہی خدا کو یاد کرتا ہوں۔۔ میں ایک تنہا گوشے میں بیٹھ جاتا ہوں، آنکھیں بند کر لیتا ہوں۔ ، حواس خمسہ کو سمیٹتا ہوں اور یکسوئی قلب حا صل کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ آہستہ آ ہستہ ایک خامشی میرے ارد گرد ہالہ سا بنتی ہے۔ میں گہری خامشی میں اترنے لگتا ہوں اور دل ہی دل میں ورد کرتا ہوں۔۔ ’’خدا مجھے یقین ہے کہ تو ہے۔۔۔۔۔۔۔ مجھے بصیرت دے۔۔۔‘‘ اور مجھ پر کسی حد تک اسرار منکشف ہوتے ہیں
۔ آپ کہہ سکتے ہیں یہ میرا الیوژن ہے۔ میں کہنا چاہتا ہوں کہ آپ جب نماز میں ہوتے ہیں یا مندر جاتے ہیں اور سکون محسوس کرتے ہیں تو یہ سکون بھی الیو ژن ہے۔ ہم سب کنڈیشنڈ دماغ کے لوگ ہیں۔ یہاں میں پاولو کے اس تجربے کا ذکر کرنا چا ہوں گا جو اس نے کتّے پر کیا تھا اور conditional reflex کا نظریہ پیش کیا تھا۔ وہ اپنے کتّے کو وقت معیّنہ پر کھانا د یتا تھا لیکن اس کے پہلے گھنٹی بجاتا تھا۔ یہ عمل اس نے بہت دنوں تک جاری رکھا۔ پھر ایک باراس نے گھنٹی بجائی لیکن کھانا نہیں دیا۔ گھنٹی کی آواز سنتے ہی اس کے منھ میں لاروا آ گیا جب کہ کھانا سامنے نہیں آیا تھا۔ گھنٹی کی ا اواز سے اس کا دماغ اتنا کنڈیشنڈ ہو گیا ہے کہ وہ اس آواز کو ہی کھانا سمجھتا ہے۔۔ کتّا گھنٹی کی آواز کو کھانے سے identify کرتا ہے۔ پاولو نے اسے conditional reflex کا نام دیا ہے۔
ہم سب کنڈیشنڈ ذہن کے لوگ ہیں۔ صدیوں سے سنتے آ رہے ہیں اور مذہبی صحیفوں کا مطالعہ کر رہے ہیں کہ خدا یہ ہے اور خدا وہ ہے۔ ہم اتنے کنڈیشنڈ ہو چکے ہیں کہ اک ذرا مذہب کی چادر اوڑھی اور روحانیت محسوس کرنے لگے۔ حقیقت کا ادراک اسی وقت ہو سکتا ہے جب ذہن کورے کاغذ جیسا ہو۔۔۔۔ کسی سادے سلیٹ کی طرح۔۔۔۔ اور ایسا ذہن کوئی امپریشن قبول کرتا ہے تو وہ حقیقی ہے۔ وہاں کسی طرح کی کنڈیشنینگ نہیں ہوتی۔ اس لیئے بچّے کا نہیں جاننا سچ ہے اور بوڑھے کا جاننا جھوٹ ہے۔
صوفیائے کرام جو روحانیت سے سرشار رہے تو شریعت کے علا وہ ان کے کچھ اپنے طریقے بھی ہیں جو صیغہ راز میں ہے۔ شریعت خالص سونے کی طرح ہے۔ سونے سے زیور بنا کر خود کو آراستہ کرنے کے لیئے آمیزش کرنی پڑتی ہے۔ لیکن خالص طریقت کو معاشرہ برداشت نہیں کرتا۔ اگر برداشت کر سکتا تو منصور کو سولی پر نہیں لٹکایا جاتا اور سرمد کا قتل بھی نہیں ہوتا۔ حضرت شمس تبریز کے بارے میں سنا کہ جب ان کا نکاح ہوا اور زوجہ سامنے لائی گئیں تو حضرت نے جلال میں آ کر کہا کہ ’’اللہ کو زوجہ نہیں اور مجھے زوجہ۔۔۔ ؟۔۔ زوجہ جل کر خاک ہو گئیں۔ ہو سکتا ہے یہ افسانہ ہو لیکن مجھے اس افسانے پر یقین ہے۔ روحانیت کے اسرار اتنے گہرے ہیں کہ اس کی پرتیں آ سانی سے نہیں کھولی جا سکتیں۔
قران مجید علم کا خزانہ ہے۔ میں اس سے وقتاً فوقتاً استفادہ کرتا رہتا ہوں۔
قران مجید کے ساتھ نہج البلاغہ کی قرات بھی ضروری ہے۔ حدیث ہے کہ رسول اکرم علم کے شہر ہیں اور حضرت علی علم کے دروازہ۔
ٓٓٓٓ سورہ الا عراف میں ایک جگہ آ یا ہے
’’اور اے نبی لوگوں کو یاد دلاؤ وہ وقت جب کہ تمہارے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور انہیں خود ان کے او پر گواہ بناتے ہوئے پوچھا تھا ’’کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟‘‘ انہوں نے کہا ضرور آپ ہی ہمارے رب ہیں، ہم اس پر گوا ہی دیتے ہیں‘‘ یہ ہم نے اس لیئے کہا کہ کہیں تم قیامت کے روز یہ نہ کہہ دو کہ ’’ہم تو اس بات سے بے خبر تھے، یا یہ نہ کہنے لگو کہ شرک کی ابتدا تو ہمارے باپ دادا نے ہم سے پہلے کی تھی اور ہم بعد کو ان کی نسل سے پید ہوئے پھر کیا آپ ہمیں اس قصور میں پکڑتے ہیں جو غلط کار لوگوں نے کیا تھا۔‘‘
ترجمہ۔ ؛ مودودی
یہاں یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ۔ پوری نسل آدم اس سے قبل بھی عرش پر پیدا کی گئی اور اس میں وحدانیت کی روح پھو نکی گئی یعنی اللہ کی ربوبیت کا اقرار انسانی فطرت میں پیوست ہے۔ مودودی کے لفظوں میں یہ نقش انسان کے تحت الشعور اور وجدان میں محفوظ ہے۔ انبیا اور کتا بیں اور دا عیان حق انسان کے اندر کوئی نئی چیز پیدہ نہیں کرتے بلکہ اسی چیز کو ابھارتے اور تازہ کرتے ہیں جو ان کے اندر پہلے سے موجود تھیں۔
میں اس نقش کو الوہی عنصر کہتا ہوں جہاں انسان خدا کو شہہ رگ سے بھی قریب محسوس کرتا ہے۔
مجھے اس کا تجربہ کئی بار ہوا ہے۔ ایک بار رانچی میں مجھے دو ہزار کی رقم در کار تھی۔ ضرورت کچھ ایسی تھی کہ زندگی اور موت کا سوال تھا۔ پیسے میرے پاس نہیں تھے اور کہیں سے کچھ ملنے کی امید بھی نہیں تھی۔ قرض بھی مانگا تو نہیں ملا۔ میں بہت پریشان تھا۔ بات سن ۷۳ کی ہے۔ اس وقت دو ہزار کی رقم بڑی رقم تھی۔ میں بہت ما یوس بستر پر مردے کی طرح پڑا تھا کہ میری آنکھ لگ گئی۔ میں نے دیکھا ایک شخص سامنے کھڑا تھا۔ وہ گردن سے تلوے تک سیاہ لبادے میں تھا۔ صرف چہرہ کھلا ہوا تھا اور اتنا روشن تھا کہ نگاہیں خیرہ تھیں۔ چہرے کی جگہ گویا چمکتا ہوا سورج تھا۔ آنکھیں بھی چرا غوں کی مانند تھیں اور مجھے گھور رہی تھیں۔ اس شخص نے مجھ سے پو چھا ’’تم پریشان ہو۔‘‘
میں نے اثبات میں سر ہلایا تو اس نے مجھے قریب بلا یا ’’ادھر آو۔‘‘
میں اس کے قریب گیا تو اس نے مجھے گلے لگایا۔ پہلے دائیں طرف پھر بائیں طرف مجھے تیز خوشبو کا احساس ہوا۔۔۔۔۔ اس نے پوچھا۔ ’’تمہاری پریشانی دور ہو گئی۔۔۔۔ تم اب ٹھیک ہو۔‘‘
اس کا مجھے گلے لگانا اچھا معلوم ہوا اور میں واقعی سکون محسوس کر رہا تھا۔
میں نے کہا ’’ہاں۔۔۔ اب ٹھیک ہوں۔‘‘
وہ شخص غائب ہو گیا اور میری نیند بھی کھل گئی۔ کمرہ خو شبو سے معطّر تھا۔
مجھے حیرت ہو رہی تھی کہ وہ کون تھا اور اگر یہ محض خواب تھا تو کمرے میں خوشبو کیسی تھی۔۔۔ ؟
کچھ دیر بعد میں کمرے سے نکلا۔ میرے قدم خود بہ خود ٹریزری کی طرف بڑھ
گئے۔ ٹریزری آ نے کا میرا کوئی مقصد نہیں تھا۔ میں یونہی چلا آ یا اور آ کر ٹریزری افسر کے
چیمبر میں بیٹھ گیا۔ اس افسر سے میری جان پہچان تھی۔ میں ٹریزری دفتر کے کام سے آ تا تو اکثر اس کے چیمبر میں بیٹھ جاتا تھا۔ لیکن آج مجھے کوئی کام نہیں تھا۔ مجھے خود بھی حیرت تھی کہ اس کے پاس کیوں چلا آیا۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ میرا کوئی ٹی۔ اے۔ بل بھی پینڈینگ ہے۔ میں نے کہا وہ سب پری آ ڈٹ میں ہو گا۔ اس وقت قانون تھا کہ اگر ٹی اے بل چھ ماہ تک پاس نہیں ہوا تو پری آ ڈٹ میں چلا جاتا تھا اور پاس کرانے کے لیئے اسے دو بارہ پیش کرنا پڑتا تھا۔ افسر نے اکاؤنٹینٹ کو بلا کر میرے سارے بل منگوائے اور سب پر بیک ڈیٹ میں دستخط کیئے۔ اور اکا ؤنٹینٹ کو ہدایت دی کہ اسے پاس کر کیش مجھے لا کر دے۔ قریب آدھ گھنٹے کے بعد اکاؤنٹینٹ نے مجھے دو ہزار کی رقم ادا کی۔ میری عجیب کیفیت تھی۔ میری آنکھوں میں آ نسو آ گئے۔ میں نے افسر کا شکریہ ادا کیا۔ اس کے چیمبر سے نکلا تو مجھ پر کپکپی سی طاری تھی۔۔۔۔۔۔ کون تھا وہ شخص جو خواب میں آ یا اور خوشبو بکھیر کر چلا گیا۔۔۔۔ ؟
رانچی میں ہی ملاقات ایک عجیب و غریب ہستی سے ہو ئی۔ میں نیپال ہاوس سے گذر رہا تھا تو با ہر میدان میں چہار دیواری سے ٹیک لگائے ایک پھٹے حال شخص کو دیکھا۔۔ اس کا لباس بہت بوسیدہ تھا اور بال کھچڑی ہو رہے تھے۔ اس نے مجھے ہاتھ کے اشارے سے قریب بلا یا۔ میں جانا نہیں چا ہتا تھا لیکن اس نے دو تین بار اشارہ کیا تو کچھ جھنجھلاتا ہوا اس کی طرف بڑھا۔ اس کے جسم سے بد بوا ٓ رہی تھی۔ شاید اس نے مہینوں سے غسل نہیں کیا ہو گا۔۔ اس نے روٹی کباب کھانے کی فرمائش کی۔ ڈورنڈا کے ایک مسلم ہو ٹل سے میں نے روٹی اور دو سیخ کباب خرید کر اس کو دیا۔ دوسرے دن میں
یہ دیکھ کر پریشان ہوا کہ میرا پرس ایک دم خالی ہے۔ سو کا ایک نوٹ کل تک میرے پاس تھا لیکن آج ڈھونڈے نہیں مل رہا تھا۔ میں سخت حیران تھا کہ سو کا پتّہ کہاں گیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے میں نے خرچ نہیں کیا تھا۔ کل تک میرے پرس میں تھا۔ اب تو سگریٹ پینے کے بھی پیسے نہیں تھے۔ رانچی میں کسی سے قرض ملنے کی امید نہیں تھی۔ میں جھنجھلاتا ہوا کمرے سے باہر نکلا کہ پر کاش فکری سے ہی دس بیس ادھار لوں گا۔۔ جب نیپال ہاوس کے قریب پہنچا تو وہ شخص نظر آ یا۔ اس نے دیکھتے ہی مجھے قریب آ نے کا اشارہ کیا۔ مجھے غصّہ آ گیا۔۔۔۔ میں نے اشارے سے کہا نہیں آؤں گا۔
میں آگے بڑھا تو وہ اپنی جگہ سے کھڑا ہو گیا اور زور زور سے ہاتھ ہلا نے لگا۔ یہاں تک کہ راہ گیر بھی رک کر دیکھنے لگے۔ میں تیز تیز قدموں سے اس کی طرف بڑھا اور جھنجھلا تے ہوئے پو چھا ’’۔ کیا ہے ؟‘‘
وہ مسکراتے ہوئے بولا۔ ’’بہت الجھن میں ہو میا ں۔‘‘
میں نے اسی طرح ترش لہجے میں جواب دیا۔ ’’الجھن میں ہوں تو آپ کو اس سے کیا ؟‘‘
اس نے ہنستے ہوئے کہا۔ ’’میاں کتاب کا پیٹ دیکھو۔‘‘
میرا غصّہ بڑھ گیا کہ واہی تبا ہی بک رہا ہے لیکن کچھ کہنا مناسب نہیں سمجھا اور آ گے بڑھ گیا۔ فکری کے یہاں گیا۔ اس سے پیسے مانگے تو بو لا
’’چیل کے گھونسلے میں مانس کہاں ؟‘‘
مانس کہیں نہیں ملا۔ میں نا مراد اپنے کمرے میں واپس آ یا۔ کھانا میں نے عثمان کے میس میں کھا لیا کہ وہاں میرا کھاتہ چلتا تھا لیکن فکر لا حق تھی کہ جیب یں پھو ٹی کوڑی نہیں ہے۔ باقی اخراجات کہاں سے پو رے ہو نگے ؟ یہ سوچ کر کہ کل دفتر میں کسی سے مانگوں گا
پڑھنے کی میز پر آ یا۔ میز پر آکسفورڈ ڈکشنری پڑی ہوئی تھی۔ میں یوں ہی ڈکشنری کے پنّے الٹنے لگا۔۔۔
عجیب بات۔۔۔۔ بہت عجیب۔۔۔۔ ڈکشنری کے پیٹ میں سو کا پتّہ پڑا ہوا تھا۔۔۔۔
میاں کتاب کا پیٹ دیکھو۔۔۔۔۔ ؟ کون تھا وہ شخص۔۔۔۔ ؟ میں اٹھا اور نیپال ہاوس کی طرف بھاگا۔ وہ کہیں نظر نہیں آ یا۔
میں نے مجیبی سے اس واقعہ کا ذکر کیا۔ مجیبی نے کہا وہ سرّی mystic ہے اورایسے سرّی مغرب میں بھی پائے جاتے ہیں۔ اسراریت میں میری دلچسپی بڑھی میں نے کو لن ولسن کی کتاب خریدی The Occult یہ ایک قیمتی کتاب ہے جو اسراریت پر روشنی ڈالتی ہے۔
اسمائے حسنیٰ میں بھی اسرار چھپے ہیں۔ انسانی زندگی پر ان کا اطلاق کیا جائے تو شخصیت کے دلچسپ پہلو اجاگر ہو سکتے ہیں۔ عالم شہادت میں ایسا کوئی جسم نہیں ہے جس کا عالم غیب میں کوئی اسم نہ ہو۔۔ ہر اسم کی عددی قیمت ہوتی ہے۔ جسے سمجھنے کے لیئے علم الاعداد کا جاننا ضروری ہے۔ فیثا غورث کو عدد کا زبردست علم حا صل تھا۔ لیکن یہ علم اس کے ساتھ ہی ختم ہو گیا۔ اپنے شاگردوں کو تنبیہ کی تھی کہ اسے صیغہ راز میں رکھنا۔۔ عبرا نیوں کے پاس اس کا تھو ڑا بہت علم ہے۔ مسلمانوں کے یہاں نقش اور تعویذ کی جو روایت قائم ہو ئی وہ عبرا نیوں سے ہی آ ئی ہے۔ یہودیوں کے قبالہ میں حروف اور اعداد کے اسرار بیان ہوئے ہیں۔
حروف بھی خدا کی مخلوق ہے۔ جیسے حروف کے اسرار ہیں ایسے ہی اعداد میں اسرار ہیں
اور یہ بھی معلوم ہو کہ عالم علوی سے عالم سفلی کو مدد ملتی ہے۔ جملہ حروف اٹھائس ہیں اور اٹھائس ہی منازلِ قمر ہیں۔ اعداد میں روحانی لطیف قوۃ ہے۔ قدیم حکما فرماتے ہیں کہ حروف معجمہ کے اسرار کتاب اللہ کی پہلی اٹھائس صورتوں کے اوّل میں ہیں جن کو مخصوص اولیا اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اعداد میں قوت عقلی ہے جو علم روحانی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اور حروف کی قوت عالم جسمانی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اس کے ضمن میں حرفوں کی روحانیت جسمانی لطائف کے ساتھ ظاہر ہوتی ہے
م عطارد سے وابستہ ہے۔ جس حرف کے اوّل آخر ایک حرف ہو جیسے میم نون واؤ وہ اپنے اندرونی اتحاد اور سکون کی طرف اشارہ کرتا ہے اس ہیئت کے سبب جو اس کے اندر ہے اور یہ حرف حروف لوح میں سے ہے۔ میں علما لا عداد اور حروف کے اسرار پر ایک مفصّل کتاب لکھنا چاہتا ہوں لیکن میرے پاس ایک طویل کرشن منظوم ادر دو ناول ادھورے پڑے ہیں۔ انہیں مکمّل کرنے کے بعد میں ادب سے کنارہ کشی اختیار کروں گا اور خود کو علم نجوم اور اسراریت کے لیئے وقف کر دوں گا۔
بوڑھے کے پاس مستقبل نہیں ہوتا۔ اس کے پاس صرف یادیں ہوتی ہیں۔ لیکن میں نے اپنی عمر سے سمجھوتہ نہیں کیا ہے۔ میری آنکھوں میں ابھی بھی خواب بستے ہیں۔ میری آنکھیں دھند میں کچھ ڈھونڈ تی رہتی ہیں۔۔۔۔۔ شاید اس سچّائی کو نہارنا چاہتی ہیں جو خود سچّائی کے پرے ہے۔
٭٭٭