“مجھے کچھ بات کرنی ہے آپ سے ” نقاش اس کی کلاس میں آیا ۔۔۔۔۔
“جی سر ۔۔۔۔ بولیں ” وہ کھڑی ہو گئی
“اس دن آپ نے جو سنا وہ ویسا نہیں تھا جیسا آپ سمجھیں ۔۔۔۔ آپ جہاں چاہیں مجھ سے حلف لے سکتی ہیں ۔۔۔۔ ولید نے جو بھی بتایا وہی سچ ہے ۔۔۔۔ وہ آپ سے پہلے کی طرح بات نہیں کر رہا تھا ۔۔۔۔اس کے پیچھے جو بھی وجہ ہے وہ مجھے بھی پتا ہے اور آپ کو بھی ۔۔۔۔ اور وہ وجہ ولید کی اچھائی ثابت کرنے کے لئے کافی ہے ۔۔۔۔ باقی جیسے آپ بہتر سمجھیں ” نقاش نے اپنی بات مکمل کی
“جی سر ۔۔۔۔ مجھے غلط فہمی ہو گئی تھی ” زجاجہ نے اعتراف کیا
“ہو جاتا ہے کبھی کبھی ایسا بھی ۔۔۔۔۔۔ اور ہاں میں جو شروع میں جو آپ کے بارے میں سمجھا ۔۔۔۔اس کئی لئے سوری ”
“اٹس اوکے سر ” زجاجہ نے جواب دیا ۔۔۔۔ نقاش “شکریہ ” کہہ کر چلا گیا ۔۔۔۔۔ زجاجہ کچھ سوچ کر مسکرا دی ۔۔۔۔
(جس تن نوں لگدی او تن جانڑے )
قسط 19 & 20
تحریر دیا مغل
آج ولید مما سے بات کرنے جا رہا تھا ۔۔۔۔ اسے یقین تھا وہ انکار نہیں کریں گی ۔۔۔۔ انہوں نے آج تک اس کی کسی بات سے انکار نہیں کیا تھا ۔۔۔۔چھوٹی سی بات سے بھی نہیں تو یہ تو پھر اس کی زندگی کا اس کی خوشی کا سوال تھا ۔۔۔۔ وہ بھلا کیسے منع کر سکتی تھیں ۔۔۔۔
“مما جاگ رہی ہیں کیا ” وہ دروازہ ہلکا سا بجا کر اندر داخل ہو گیا
“جی مما کی جان ۔۔۔۔ آ جاؤ ” مسز یزدانی نے تسبیح ایک طرف رکھتے ہوۓ کہا
“کیا مانگتی رہتی ہیں الله پاک سے ہر وقت ” وہ ان کا ہاتھ پکڑ کے بیڈ پر ہی بیٹھ گیا
“اپنے بیٹے کی خوشی ، صحت اور زندگی ۔۔۔۔۔ اور بھلا کیا مانگوں گی ” وہ مسکراتے ہوئے بولیں
“ہممم ۔۔۔۔ رائٹ ۔۔۔۔ مگر یہ سب تو لکھا جا چکا ہے بہت پہلے سے ” ولید ان کی گود میں سر رکھ کے لیٹ گیا ۔۔۔۔ اور مسز یزدانی اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگیں ۔۔۔۔۔ یہ چیز ولید کو ہمیشہ بہت سکون دیتی تھی ۔۔۔ اب بھی وہ آنکھیں بند کر چکا تھا ۔۔۔
“دعا تقدیر کو بدل دیا کرتی ہے ولید ۔۔۔۔ بس یقین ہونا چاہئے بیٹا کہ دینے والا ضرور دے گا ۔۔۔” ان کے لہجے میں یقین بول رہا تھا ۔۔۔۔۔ ولید بے اختیار ان کو دیکھے گیا ۔۔۔۔۔ بہت محنت ک تھی اس ک مما نے ۔۔۔ ۔ سب کچھ ہونے کے باوجود انہوں نے محنت کو نہیں چھوڑا تھا ۔۔۔۔۔۔ اس نے مما کے ہاتھ چوم لئے ۔۔
“آج خیر تو ہے CEO صاحب۔۔۔۔ کوئی کام ہے کیا ” وہ مسکراتے ہوئے بولیں
“کیا مطلب میم ۔۔۔ میں بغیر کام کے آپ کو پیار نہیں کر سکتا کیا۔۔۔ یو آر مائی مما مائی پریٹی لیڈی ” وہ اٹھ کر بیٹھ گیا تھا ۔۔۔ مسز یزدانی اس کی باتوں پر ہنس رہی تھیں ۔۔۔۔
“وہ مما ۔۔۔۔ ۔ واقعی میں نے کوئی بات کرنی ہے آپ سے ۔۔۔ یو آر رائٹ ” اس نے اعتراف کیا
“مجھے پتا تھا ۔۔۔۔۔ ماں ہوں تمہاری ۔۔۔۔ سمجھتی ہوں تمہیں ۔۔۔بتاؤ کیا بات ہے ” مسز یزدانی نے اس کی طرف پیار سے دیکھتے ہوۓ کہا
“مما آپ چاہتی ہیں نا میں شادی کر لوں ۔۔۔۔ تو آئی ایم ریڈی ۔۔۔” اس نے آدھی بات کی
“سچ میں ولید ۔۔۔۔ تم راضی ہو ” ۔ مسز یزدانی کو یقین نہیں آ رہا تھا
“جی مما ۔۔۔ ۔ میں زجاجہ سے شادی کرنا چاہتا ہوں ۔۔۔۔ آپ اور جمشید ماموں اس کے گھر جائیں پلیز ” ولید نے بات مکمل کی
“زجاجہ سے ۔۔۔۔ یہ کیا کہہ رہے ہو ولید ۔۔۔۔ ” وہ حیران ہوئیں
“کیوں مما ۔۔۔۔ کیا ہوا ۔۔۔۔ اس سے شادی کیوں نہیں کر سکتا میں ”
“ولید تمہاری شادی کا میں نے ماجد بھائی کے گھر سے سوچ رکھا ہے ۔۔۔ فروا کے ساتھ ۔۔۔۔۔ ان کے ویسے بھی ہم پر بہت احسانات ہیں بیٹا ۔۔۔۔۔ بیشک انہوں نے کبھی جتایا نہیں۔۔۔ مگر اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ ہم بھول ہی جائیں ۔۔۔ ” انہوں نے اس کے بڑے تایا کا نام لیا ۔۔۔۔۔
“فروا سے ؟؟؟؟۔۔۔۔ مگر میں زجاجہ سے شادی کرنا چاہتا ہوں مما ۔۔۔۔ میں نے کبھی فروا کے لئے ایسا نہیں سوچا ۔۔۔۔ میں نے ہمیشہ اس کو چھوٹی بچی سمجھ کے ڈیل کیا ہے ”
“پہلی بات وہ چھوٹی بچی نہیں ہے ۔۔۔۔۔ تم سے صرف 3 سال چھوٹی ہے ۔۔۔۔۔۔اور بہت پہلے سے میں ماجد بھائی کے کان میں یہ بات ڈال چکی ہوں۔۔۔۔۔۔ اور دوسری بات یہ کہ یہ تو میری سوچ ہے نا ۔۔۔۔۔جب تم فیصلہ کر ہی آئے ہو تو پوچھنا بتانا کیا بیٹا ۔۔۔۔ خوش رہو ” ان کے لہجے میں دکھ بول رہا تھا ۔۔۔۔ ولید تڑپ گیا ۔۔۔۔ وہ مما کو دکھ دینے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا ۔۔۔
“فیصلہ نہیں ہے مما ۔۔۔۔ ایک خواہش ہے بس ۔۔۔ فیصلہ آپ کا ہو گا ۔۔۔۔ اور آپ کا ہر فیصلہ میرے لئے حکم کا درجہ رکھتا ہے ۔۔۔۔ ” وہ ٹوٹ رہا تھا مگر ماں کا بھرم بھی تو بچانا تھا نا ۔۔۔۔
“تم واقعی میری بات پہ راضی ہو ولید ؟؟؟” انہیں بے یقینی سی تھی
“جی مما ۔۔۔۔ جیسا آپ چاہیں ۔۔۔ چلتا ہوں ” اس نے ان کے ہاتھ چومے اور کھڑا ہو گیا ۔۔۔
“جیتے رہو ۔۔۔ خوش رہو ۔ ۔ ۔ میں بات کرتی ہوں بھائی سے اور آپا سے بھی ” وہ بہت خوش تھیں ۔۔۔ ولید مسکرا کے ان کے کمرے سے نکل آیا ۔۔۔
کہیں بہت اندر بہت کچھ ٹوٹ گیا تھا ۔۔۔ “کیسے ناامید کروں گا اس جھلی کو ۔۔۔۔ اور خود کیسے رہوں گا ۔۔۔۔ مما کی بات سے انکار کروں تو نافرمان کہلاؤں گا ۔۔۔ اس کی امید توڑوں گا تو بیوفا کہلاؤں گا ۔۔۔ ۔ ۔ کیا کروں ۔۔۔ یا الله میری مدد فرما ”
سوچ سوچ کے وہ پاگل ہو رہا تھا ۔۔۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
“کتنی محبت کرتی ہو مجھ سے زجی ” وہ آج پھر اس کو ساتھ لے کر آیا تھا ۔۔۔۔ وہ بہت خوش تھی ۔۔۔۔
“بتا چکی ہوں ایک بار پہلے بھی ” وہ مسکرائی
“ہممم ۔۔۔۔ اس دنیاوی محبت کا کوئی حاصل نہیں ہے زجی ۔۔۔۔ میں نے پہلے بھی تمہیں بتایا تھا ایک بار ۔۔۔۔۔ اور میرے خیال میں ایک انسان کی دوسرے تک فیلنگز پہنچ جائیں ۔۔۔ یہی بہت ہوتا ہے ۔۔۔۔ ” وہ بہت سنجیدہ تھا ۔۔۔۔ زجاجہ کو کچھ معمول سے ہٹ کر محسوس ہوا ۔۔۔۔
“کیا مطلب ولی ۔۔۔۔ کہنا کیا چاہتے ہیں آپ ” وہ اس کی طرف دیکھتے ہوۓ بولی
“دیکھو زجاجہ کچھ چیزیں ایسی ہیں جو ہم سے انجانے میں ہو جاتی ہیں ۔۔۔۔ کچھ ایسی ہیں جو ہم جان بوجھ کر کرتے چلے جاتے ہیں ۔۔۔۔ ان پر پکڑ ہو گی ۔۔۔۔ میں کوئی مولوی یا عالم نہیں ہوں ۔۔۔۔ ایک انسان ہوں ۔۔۔ جو سمجھنا چاہتا ہوں اس پاک ذات کو ۔۔۔ میں تمہیں بھی ویسا ہی دیکھنا چاہتا ہوں ” وہ سامنے دیکھ کر بول رہا تھا
“کیسا ؟؟” وہ محض اتنا ہی بول پائی ۔۔۔
“اس کی رضا میں راضی رہنے والوں میں سے ۔۔۔۔ اس کی مان کر چلنے والوں میں سے ۔۔۔” ولید نے جواب دیا
“کیا آپ کو مجھ سے محبت ہے!؟؟” زجاجہ نے سوال کیا
“یہ تم مجھ سے بہتر جانتی ہو ” ولید نے اسی کے کوٹ میں بال پھینکی
“آپ میرے بغیر رہ لیں گے کیا ” زجاجہ کا یہ سوال ولید کے لئے غیر متوقع تھا ۔۔۔۔ زجاجہ اس کی بات تک پہنچ گئی تھی ۔۔۔ ولید نے ایک گہرا سانس لیا ۔۔۔اور اس کی طرف دیکھا۔۔۔
“دعا کاحق ہے ہمارے پاس۔۔۔ مجھ سے دور رہ کر مجھے اللہ پاک سے مانگو زجاجہ ۔۔۔۔۔” ولید نے زجاجہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
“آپ کیا آزمانا چاہتے ہیں ولی ” زجاجہ بیچارگی سے بولی
*تمہارا صبر ،تمہاری محبت ،تمہاری شدت اور تمہارا اللہ پر ایمان ۔۔۔۔۔۔ یوں تو کسی کو کوئی حق نہیں کسی دوسرے انسان کا ایمان آزمانے کا لیکن یہاں معاملہ کچھ اور ہے ” اس کی خوبصورت بھوری آنکھوں میں شرارت چمکی
“کیا مطلب ۔۔۔۔۔ کیا معاملہ ہے یہاں ؟؟” زجاجہ نے حیرت سے ولید کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
” یہاں جس کو آزمایا جا رہا ہے وہ زجاجہ سکندر ہے اور آزمانے والا ولید حسن ہے ۔۔۔۔ اور ولید حسن کو یقین ہے کہ زجاجہ سکندر اس آزمائش پر پوری اترے گی ” اس نے مسکراتے ہوئے زجاجہ کے پیروں میں یقین کی بہت مضبوط زنجیر ڈال دی تھی ۔۔۔۔۔
“میں ہار جاؤں گی ولی ” زجاجہ رو دینے کو تھی۔
“میرا یقین تمہارا حوصلہ رہے گا ” ولید نے زجاجہ کی طرف پوری شدت سے دیکھا جیسے اس کے ایک ایک نقش کو حفظ کر رہا ہو ۔۔۔۔
زجاجہ محض اس کو دیکھ کر رہ گئی ۔۔۔۔۔۔ وہ ایک ریسٹورینٹ کے سامنے رکا ۔۔۔
“چلو ۔۔۔” ولید گاڑی بند کرتے ہوئے بولا
“یہاں کیوں ۔۔۔۔ “زجاجہ نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا
“کچھ نہیں ایسے ہی بس۔۔۔ آ جاؤ ” وہ اتر گیا ۔۔۔۔ زجاجہ کو بھی اس کی تقلید کرنا پڑی ۔۔۔ وہ ایک کارنر ٹیبل پر جا کر بیٹھ گئے ۔۔۔۔ زجاجہ بلیک کافی لیتی تھی جبکہ ولید چائے ہی پیتا تھا ۔۔۔ ابھی بھی اس نے ایک کافی اور ایک چائے آرڈر کی ۔۔
“مما میری شادی ماجد تایا کی بیٹی فروا سے کرنا چاہتی ہیں ۔۔۔ فاران بھائی کی بہن سے ۔۔۔ مجھے نہیں پتا زجاجہ آگے کیا ہو گا ۔۔۔۔ لیکن میں مما کو انکار نہیں کر سکا ۔۔۔ تم مجھے بےوفا کہو یا کمزور ۔۔۔ تمہارا حق ہے ۔۔۔۔ ” وہ بولتے بولتے رکا ۔۔۔۔ ویٹر آرڈر ڈیلیور کرنے آیا تھا ۔۔۔۔ اس کے جانے کے بعد ولید دوبارہ گویا ہوا ” مما نے آج تک مجھ سے کچھ نہیں مانگا ۔۔۔۔ کوئی کام نہیں کہا ۔۔۔۔ مجھے لگا اگر آج میں نے ان کو انکار کر دیا تو ہمیشہ نامراد رہوں گا ۔۔۔۔ ”
“آپ نے جو کیا ٹھیک کیا ولی ۔۔۔۔ مجھے خود سے محبت ہوتی جا رہی ہے کہ مجھے آپ جیسے انسان سے محبت ہے ۔۔۔۔ آپ کہیں بھی رہیں ۔۔۔ کسی کے ساتھ بھی رہیں ۔۔۔۔ مگر میرا یقین ہے کہ آپ نے محبت مجھ سے کی ہے ۔۔۔۔ آپ composed ہیں کافی ۔۔۔۔ مجھے یقین ہے سنبھال لیں گے خود کو ۔۔۔۔ ” وہ ۔ بہت مشکل سے بول رہی تھی
“اور تم ؟؟؟” ولید نے اچانک سوال کیا ۔۔۔۔ زجاجہ اس کو دیکھنا شروع ہو گئی ۔۔۔۔ کچھ دیر کے بعد بولنے کے قابل ہوئی
“میں ۔۔۔۔۔۔ نہیں رہ سکتی ۔۔۔۔ آپ بھی جانتے ہیں ۔۔۔۔ مر نہیں جاؤں گی لیکن جی بھی نہیں پاؤں گی ولی ۔۔۔۔ مجھے کسی بھی طریقے سے کسی بھی رشتے سے اپنے پاس رکھیں پلیز ۔۔۔۔ ” زجاجہ نے بہت کوشش کی ضبط کرنے کی مگر نہ کر سکی ۔۔۔۔۔ سارے بند ٹوٹ گئے ۔۔۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی ۔۔۔۔ ولید کے لئے خود کو سنبھالنا مشکل ہو گیا تھا کجا کہ وہ اسے تسلی دیتا ۔۔۔۔
“اے زجی ۔۔۔۔ ادھر دیکھ ۔۔۔ ابھی کیا بول رہی تھی ۔۔۔ اور اچانک کیا ہوا ۔۔۔۔ جھلی ” ولید نے پہلی بار اس کو چھوا تھا ۔۔۔۔ ٹھوڑی سے پکڑ کر اس کا چہرہ اوپر کرتے ہوئے اس کی لگا جیسے وہ اس لمحے میں قید ہو جائے گا ۔۔۔۔ کبھی نکل نہیں پائے گا اس کیفیت سے ۔۔۔۔ زجاجہ نم آنکھوں سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔
“چلتے ہیں ۔۔۔۔ بہت دیر ہو گئی ہے ” زجاجہ آنکھیں صاف کرتے ہوئے بولی ۔۔۔ اور بیگ اٹھا لیا ۔۔۔ ولید نے بل پے کیا اور دونوں باہر آ گئے ۔۔۔۔ یونی سے کچھ دور ولید نے گاڑی ایک بار پھر روک دی ۔۔۔۔
“تم کہتی ہو نا محبت ہر پابندی ہر گناہ ثواب سے آزاد ہوتی ہے ۔۔۔۔ ” ولید نے زجاجہ کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔ اس نے کوئی جواب نہ دیا ۔۔۔۔
“تو یہ لو ” ولید نے آگے بڑھ کر زجاجہ کا ماتھا چوم لیا ۔۔۔۔ دو آنسو زجاجہ کے گال بھگو گئے ۔۔۔ وہ سمجھ نہ سکی کہ یہ آنسو ولید کے تھے یا اس کے اپنے ۔۔۔۔
“ادھر ہی اتر جاؤ ۔۔۔۔ آئی ایم گوئنگ بیک ” وہ نظریں چراتا ہوا اترنے لگا کہ زجاجہ نے آواز دی
“ولی ” زجاجہ نے اس کا ہاتھ پکڑا تھا ۔۔۔۔ ولید جانتا تھا کہ اگر اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو پتھر کا ہو جائے گا ۔۔۔۔
اور یہ غلطی وہ کر چکا تھا ۔۔۔۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
زجاجہ خطرناک حد تک زرد پڑ گئی تھی ۔۔۔۔۔ اس کی آنکھیں بند ہو رہی تھیں ۔۔۔۔۔ولید کے ہاتھ پر اس کی گرفت ڈھیلی پڑتی جا رہی تھی ۔۔۔۔ولید کے پاؤں سے زمین نکل گئی
“زجی ۔۔۔۔زجی ۔۔۔ آنکھیں کھولو پلیز ۔۔۔۔۔ زجی کیا ہوا ۔۔۔۔آنکھیں کھولو ” وہ اس کا چہرہ تھپک رہا تھا ۔۔۔۔۔ زجاجہ ہوش و خرد سے بیگانہ ہو چکی تھی ۔۔۔۔ ولید نے فورا نقاش کو کال کی اور اسے ہاسپٹل پہنچنے کو کہا ۔۔۔۔۔ اور خود تیس منٹ کا فاصلہ 8 منٹ میں طے کر کے زجاجہ کو ہاسپٹل لے آیا ۔۔۔۔۔ ڈاکٹر فیصل ولید کے اچھے دوستوں میں سے تھا ۔۔۔۔ وہ فورا زجاجہ کو ایمر جنسی میں لے گیا ۔۔۔۔ ڈاکٹرز کی ایک پوری ٹیم الرٹ کر دی گئی ۔۔۔۔۔ نقاش بھی پہنچ گیا تھا ۔۔۔۔۔ ولید نے بیا کو کال کر کے بتایا اور ساتھ ہی سکندر انکل کو بتانے کا بھی بولا ۔۔۔۔۔ وہ خود میں اتنی ہمت محسوس نہیں کر رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ تھوڑی ہی دیر میں سکندر علی اور ان کی بیگم کے علاوہ بیا ، ثنا ، حیدر اور وقاص بھی آ چکے تھے
زجاجہ کو برین ہیمرج ہوا تھا ۔۔۔ ۔ وہ ابھی تک ایمر جنسی میں تھی ۔۔۔۔ اس کی ماما کا رو رو کر برا حال تھا ۔۔۔۔۔ نقاش اور ولید ایمرجنسی سے دور لمبے کاریڈور کے آخری سرے پر کھڑے تھے ۔۔۔۔پچھلے دو گھنٹے سے دونوں کے درمیان کوئی بات نہیں ہوئی تھی ۔۔۔۔ ولید دیوار سے ٹیک لگائے بہت گہری سوچ میں تھا ۔۔۔۔ اس کی نظر سامنے والی دیوار پر مرکوز تھی ۔۔۔۔ اس گہری خاموشی کو نقاش کے موبائل کی بیپ نے توڑا ۔۔۔
“جی ۔۔۔ ہم آتے ہیں ” کہہ کر اس نے ولید کی طرف دیکھا
“فیصل کی کال تھی ۔۔۔۔ بلا رہا ہے ۔۔۔”
ولید فورا سیدھا ہوا اور دونوں ڈاکٹر فیصل کے روم کی طرف چل پڑے ۔۔۔۔
“برین ہیمرج شدید نوعیت کا ہے ۔۔۔ لگتا ہے دماغ کو بہت اچانک بہت بڑا صدمہ پہنچا ہے ۔۔۔ ہم اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں ۔۔۔۔آپریٹ کرنا پڑے شاید ۔۔۔ ویسے یہ مس ہیں کون ” ڈاکٹر فیصل نے تفصیل بتاتے ہوۓ پوچھا
“میری زندگی کی وجہ ” اس سے پہلے کے نقاش کوئی مناسب جواب سوچتا ولید بول پڑا ۔۔۔۔ فیصل نے چونک کے ولید کو دیکھا۔۔۔۔۔ اور یوں سر ہلایا جیسے سب کچھ سمجھ گیا ہو ۔۔۔
“ان کے پیرنٹس ؟؟؟” ڈاکٹر فیصل نے اگلا سوال کیا
“ادھر ہی ہیں وہ بھی ” اس بار نقاش نے جواب دیا
“بہتر ہو گا کہ ان کو بھی تمام صورتحال بتا دی جائے ”
“ٹھیک کہہ رہے ہو تم ۔۔۔۔ بتاتا ہوں میں ان کو ” نقاش کہتے ہوئے اٹھ کر باہر چلا گیا
“ہر ٹیکنالوجی استعمال کرو ۔۔۔۔ جہاں سے جو چاہئے منگوا لو فیصل ۔۔۔۔ ڈاکٹر ، میڈیسن اینی تھنگ یو نیڈ ۔۔۔۔ دنیا کے جس کونے سے ملتی ہیں منگواؤ ۔۔۔ بس میری زجاجہ کو بچا لو فیصل ۔۔۔۔” ولید کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئی تھیں
“ڈونٹ وری ولید ۔۔۔۔ ہم بہترین علاج کر رہے ہیں ۔۔۔۔ دعا کرو بس ” ڈاکٹر فیصل اس کا کندھا تھپک کر باہر نکل گیا ۔۔۔۔
“میری بیٹی کو کیا ہوا تھا ولید صاحب ” سکندر علی نم آنکھیں لئے ولید کے سامنے کھڑے تھے ۔۔۔ ولید کو لگا وہ کبھی سر نہیں اٹھا پائے گا ۔۔۔۔ اس نے ایک نظر ان کو دیکھا اور ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر تسلی دی ۔۔۔۔ وہ ایک لفظ نہیں بول پایا ۔۔۔۔ بیا ،ثنا ،حیدر اور وقاص ایک بینچ پر بیٹھے تھے ۔۔۔۔ بیا اس وقت سے رو رہی تھی ۔۔۔۔ ولید نے حیدر کو ان سب کو گھر چھوڑنے کا کہا ۔۔۔۔
“بہت دیر ہو چکی ہے ۔۔۔۔ آپ لوگ جاؤ اور دعا کرو زجی کی زندگی کے لئے ۔۔۔۔حیدر آپ بیا اور ثنا کو گھر ڈراپ کر دو ۔۔۔۔وقاص آپ بھی جاؤ اب ”
” جی سر ۔۔۔۔” کہتے ہوئے وہ سب اٹھ گئے ۔۔۔۔ بیا اور ثنا جاتے ہوۓ زجاجہ کی ماما سے ملیں اور ان کو تسلی دی ۔۔۔۔
زجاجہ کی فیملی سے بھی لوگ آ چکے تھے ۔۔۔۔ ولید کو ادھر کھڑا ہونا مناسب نہیں لگا ۔۔۔ ۔ وہ اٹھ کر باہر آ گیا ۔۔۔۔۔۔ زجاجہ 6 گھنٹے سے بےہوش تھی ۔۔۔۔۔ اس کا بی پی نارمل نہیں ہو رہا تھا ۔۔۔۔ ولید کو ہر چیز خاموش لگ رہی تھی ۔۔۔۔ بلکل ساکن ۔۔۔۔ جیسے ہر منظر پر جمود طاری ہو گیا ہو ۔۔۔۔ وہ چلتا چلتا مسجد تک آ گیا ۔۔۔۔۔ بے اختیار اس کے قدم اندر کی طرف بڑھ گئے ۔۔۔۔ اس نے وضو کیا اور اپنے رب کے سامنے جھک گیا ۔۔۔
“یا الله مجھے مانگنا نہیں آتا ۔۔۔۔ میں نے آج تک مانگا ہی نہیں اور تو بےتحاشہ دیتا گیا ۔۔۔۔۔ تجھے تجھ سے مانگنے والے پسند ہیں میرے مالک ۔۔۔۔ اور میں اس فہرست میں آتا ہی نہیں ۔۔۔۔ مگر آج میں مانگنے آیا ہوں ۔۔۔۔۔ میرے وہ گناہ بخش دے جو میری دعا کی قبولیت کی راہ میں حائل ہیں ۔۔۔۔ مجھے میری زجاجہ کی زندگی عطا کر دے ۔۔۔۔ تو دینے والا ہے ۔۔۔۔ میرے پھیلے ہاتھوں پر بھی نظر کرم میرے الله ۔۔۔۔۔ وہ معصوم ہے میرے مالک ۔۔۔۔ تو مجھ سے بہتر جاننے والا ہے ۔۔۔۔ اس پر رحم فرما ۔۔۔۔میری زجی کو زندگی عطا کر ۔۔۔۔ معاف کر دے میرے رحیم ۔۔۔ معاف کر دے ” جانے کتنی دیر وہ سجدے میں گرا اپنی عرضی الله پاک کی عدالت میں پیش کرتا رہا ۔۔۔۔ وہاں سے نکل کر وہ پھرہسپتال کے اسی خاموش ٹھنڈے کاریڈور میں آ کر کھڑا ہو گیا جہاں سے کچھ قدم کے فاصلے پر نظر آنے والے بند دروازے کے اس پار اس کی زجاجہ سکندر زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہی تھی ۔۔۔۔ سکندر صاحب ایک کرسی پر دیوار کے ساتھ سر ٹکائے بیٹھے تھے ۔۔۔۔۔ ان سے کچھ فاصلے پر زجاجہ کی ماما جائے نماز بچھائے اپنی بیٹی کی زندگی کے لئے دعا مانگ رہی تھیں ۔۔۔۔۔ دو تین اور لوگ بھی تھے جن کو ولید نہیں جانتا تھا ۔ ۔۔۔۔
“انکل ۔۔۔۔ آپ گھر جائیں ۔۔۔۔ آنٹی کو بھی لے جائیں ۔۔۔۔ میں۔ادھر ہی ہوں ” اس نے پاس جا کر سکندر صاحب کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا ۔۔۔۔ انہوں نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا اور نفی میں گردن ہلا دی ۔۔۔۔
“ولید ٹھیک کہہ رہا ہے انکل ۔۔۔۔ آپ آرام کریں گھر چل کر ۔۔۔ آنٹی کو بھی لے جائیں ۔۔۔۔ آئیں میں چھوڑ کے آتا ہوں آپ کو ” نقاش نے ان کا ہاتھ پکڑ کر کہا تو وہ اٹھ گئے ۔۔۔۔
“اٹھو حفصہ گھر چلتے ہیں ۔۔۔ ہماری رانی الله پاک کے حوالے ہے ویسے بھی ۔۔۔۔” ولید کو چند گھنٹوں میں وہ بہت ہارے ہوئے لگے ۔۔۔۔ حفصہ چپ چاپ اٹھ گئیں ۔۔۔۔ ایک نظر ایمرجنسی کے بند دروازے پر ڈالی اور اوپر چھت کی طرف دیکھا ۔۔۔۔ دو آنسو پلکوں کی باڑ توڑ کر ان کے چہرے پر بہہ گئے ۔۔۔۔ ولید نے آگے بڑھ کر انہیں تھام لیا ۔۔۔۔
“محسن تم جاؤ گے یا ادھر ہی رکو گے ؟؟” سکندر صاحب نے وہاں موجود ایک لڑکے سے پوچھا
“ہم ادھر ہی ہیں چاچو۔۔۔۔آپ پلیز جا کے تھوڑا آرام کر لیں ” محسن نام کا لڑکا قریب آ گیا ۔۔۔
“میں چھوڑ کے آتا ہوں ” نقاش کہتا ہوا باہر نکل گیا ۔۔۔۔ ولید زجاجہ کو دیکھنا چاہتا تھا ۔۔۔ ۔ وہ ڈاکٹر فیصل کے کمرے میں چلا گیا ۔۔۔
“میں دیکھنا چاہتا ہوں زجاجہ کو ” ۔۔۔۔ ولید کی بات پر فیصل نے چونک کر اس کی طرف دیکھا
“شی از ان ایمرجنسی ولید ” فیصل نے جیسے اسے یاد کروایا
“آئی نو ۔۔۔۔ بٹ ایون دین آئی وانٹ ٹو سی ہر ۔۔۔۔ پلیز فیصل ۔۔۔ آئی پرامس میں اس سے بات نہیں کروں گا ۔۔۔۔ پلیز ایک بار مجھے جانے دو اس کے پاس ” ولید کی آنکھیں آنسوؤں سے تر تھیں ۔۔۔۔
“اوکے ۔۔۔۔ آؤ میرے ساتھ ” فیصل اسے ساتھ لے کر ایمرجنسی کی طرف آ گیا ۔۔۔۔ ایمرجنسی میں ایک کمرے کے سامنے رکتے ہوئے ڈاکٹر فیصل نے کہا
“یہ روم ہے زجاجہ کا ۔۔۔۔ لیکن پلیز نو مس ٹیک ۔۔۔۔ اوکے ؟؟؟”
“ڈونٹ وری ۔۔۔۔ تھینکس ” ولید نے اسے یقین دلایا اور دروازہ کھول کر اندر چلا گیا ۔۔۔۔ سامنے بیڈ پر ایک وجود مشینوں میں جکڑا ہوا پڑا تھا ۔۔۔۔۔ ولید آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا بیڈ کے قریب آ گیا ۔۔۔۔ زجاجہ کو آکسیجن لگا ہوا تھا ۔۔۔۔ اس کی رنگت زرد ہو چکی تھی ۔۔۔۔۔ کئی آنسو ولید کا چہرہ بھگو گئے ۔۔۔۔ اسے لگا یہ زجاجہ ہے ہی نہیں ۔۔۔۔ اس ہنستی کھلکھلاتی زجاجہ کا تو سایہ تک محسوس نہیں ہو رہا تھا یہاں ۔۔۔ وہ کتنی دیر اس کے اوپر جھکا اسے دیکھتا رہا ۔۔۔۔ پھر پاس رکھے سٹول پر بیٹھ گیا ۔۔۔۔ ولید کی دونوں کہنیاں اس کی ٹانگوں پر ٹکی تھیں ۔۔۔ دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں پیوست کئے شہادت کی دونوں انگلیاں جوڑ کر ہونٹوں پر رکھے وہ ٹکٹکی باندھے اپنی دیوانی کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔
میں نے دیکھا تھا اُن دِنوں میں اُسے
جب وہ کھلتے گُلاب جیسا تھا
اُس کی پلکوں سے نیند چَھنتی تھی
اُس کا لہجہ شراب جیسا تھا
اُس کی زُلفوں سے بھیگتی تھی گھٹا
اُس کا رُخ ماہتاب جیسا تھا
لوگ پڑھتے تھے خال و خَد اُس کے
وہ اَدب کی کتابِ جیسا تھا
بولتا تھا زبان خُوشبو کی
لوگ سنتے تھے دھڑکنوں میں اُسے
میں نے دیکھا تھا اُن دِنوں میں اُسے
ساری آنکھیں تھیں آئنے اُس کے
سارے چہرے میں انتخاب تھا وہ
سب سے گُھل مل کے اجنبی رہنا
ایک دریا نُما سَراب تھا وہ
خواب یہ ہے کہ وہ ” حقیقت تھا ”
یہ حقیقت ہے کوئی خواب تھا وہ
دل کی دھرتی پہ آسماں کی طرح
صُورت سایہ و سحاب تھا وہ
اپنی نیندیں اُسی کی نذر ہُوئیں
میں نے پایا تھا رتجگوں میں اُسے
میں نے دیکھا تھا اُن دِنوں میں اُسے
جب وہ ہنس ہنس کے بات کرتا تھا
دل کے خیمے میں رات کرتا تھا
رنگ پڑھتے تھے آنچلوں میں اُسے
میں نے دیکھا اُن دِنوں میں اُسے
یہ مگر دیر کی کہانی ہے
یہ مگر دُور کا فسانہ ہے
اُس کے میرے ملاپ میں حائل
اَب تو صدیوں بھرا زمانہ ہے
اب تو یوں ہے حال اپنا بھی
دشتِ ہجراں کی شام جیسا ہے
کیا خبر اِن دنوں وہ کیسا ہے؟
میں نے دیکھا تھا اُن دنوں میں اُسے
ولید نے آنکھیں موند لیں ۔۔۔۔۔ بہت سے آنسو آنکھوں کے قید خانے سے رہائی پا کر اس کے چہرے میں ہمیشہ کے لئے گم ہو گئے ۔۔۔۔
۔ڈاکٹر فیصل نے آ کر اسے وہاں سے اٹھایا ۔۔۔۔۔ وہ پتا نہیں کتنی دیر ادھر بیٹھا رہا ۔۔۔۔ وہ اٹھ کر باہر آ گیا ۔۔۔۔ سکندر صاحب اور ان کی مسز کے علاوہ اور بھی بہت سے لوگ آ چکے تھے ۔۔۔۔ نقاش رات کو گھر چلا گیا تھا ۔۔۔۔ ولید نے اسے مما کے پاس رکنے کا کہا تھا ۔۔۔۔
“آنی ہاسپٹل آنے کا کہہ رہی تھیں ۔۔۔۔ ۔ میں نے منع کر دیا ہے کہ ابھی نہ آئیں ” نقاش نے اسے بتایا ۔۔۔۔ اس نے محض گردن ہلانے پر اکتفا کیا ۔۔۔۔
زجاجہ کا آپریشن ہو گیا تھا ۔۔۔۔اسے کمرے میں شفٹ کر دیا گیا تھا ۔۔۔۔ لیکن ڈاکٹرز بہت زیادہ پر امید نہیں تھے ۔۔۔۔سب زجاجہ کے لئے صدقہ خیرات کر رہے تھے ۔۔۔۔ ڈاکٹر فیصل نے ولید کو بلایا ۔۔۔
“زندگی موت بیشک الله کے ہاتھ میں ہے ۔۔۔۔ ہم سر توڑ کوشش کر رہے ہیں ۔۔۔۔ مگر پھر بھی میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ زجاجہ کے پاس وقت تھوڑا ہے ۔۔۔۔ ”
ڈاکٹر فیصل کے الفاظ ولید پر بم بن کر گرے ۔۔۔۔
“کیا مطلب ہے فیصل ۔۔۔۔ یہ کیا کہہ رہے ہو ۔۔۔۔ایسا نہیں ہو سکتا ” ولید ایک ہی سانس میں بہت کچھ بول گیا ۔۔۔۔۔
“میں نے کہا نا زندگی الله کے ہاتھ میں ہے ۔۔۔۔ تم دعا کرو ۔۔۔۔ اس کے خزانے میں کمی نہیں ” فیصل نے ولید کو امید کا سرا تھمایا ۔۔۔۔
“پلیز یہ بات سکندر انکل کو مت بتانا ” ولید نے کہا تو ڈاکٹر فیصل نے اثبات میں سر ہلایا ۔۔۔ زجاجہ کے کزنز کو البتہ ڈاکٹر نے بتا دیا ۔۔۔۔ ان میں سے کسی کو بھی یقین نہیں آ رہا تھا ۔۔۔ سب پر قیامت گزر رہی تھی ۔۔۔۔
ولید زجاجہ کے کمرے کے دروازے میں لگے شیشے سے اسے دیکھ رہا تھا ۔۔۔ بہت سی باتیں فلم کی طرح ذہن کے پردے پر چل رہی تھیں ۔۔۔۔
“میں نہیں اتنی جلدی مرنے والی ۔۔۔ ابھی تو میں نے آپ کے ساتھ جینا ہے ” ایک بار موت کے ذکر پر اس نے شرارت سے آنکھ دبا کر کہا تھا ۔۔۔۔ ولید کی خوبصورت آنکھوں میں پانی جمع ہونے لگا ۔۔۔
“یو نو ولی ۔۔۔۔ میری خواہش کیا ہے ۔۔۔۔ میری خواہش ہے کہ میری قبر پر میرے نام کے ساتھ آپ کا نام آئے اور قیامت والے دن میں آپ کے نام سے پکاری جاؤں ” وہ بہت دور خلا میں دیکھتے ہوۓ بولی تھی ۔۔۔۔ تب ولید نے اس کو گھورا تھا ۔۔۔۔۔ اور آج ولید نے ایک فیصلہ کر لیا تھا ۔۔۔۔ اس نے ایک لمحے کے لئے کچھ سوچا اور تیز تیز قدم اٹھاتا باہر نکل گیا ۔۔ ۔ ۔
کچھ دیر بعد وہ مسز یزدانی کے کمرے میں بیٹھا ان سے اپنی زجاجہ کی آخری خواہش پوری کرنے کی اجازت مانگ رہا تھا ۔۔۔۔۔
“مما آپ جس سے کہیں گی جب کہیں گی میں شادی کر لوں گا ۔۔۔۔ میں وعدہ کرتا ہوں ۔۔۔۔ لیکن ابھی مجھے زجاجہ سے شادی کرنے دیں ۔۔۔۔ پلیز ۔۔۔۔میں آپ سے اپنی زجاجہ کی خواہش کی بھیک مانگتا ہوں ۔۔۔۔ ” وہ ہاتھ جوڑ کے رو پڑا تھا
“ولید کیا ہو گیا ھے میرے بچے ۔۔۔۔ الله پاک زجاجہ کو زندگی دے ۔۔۔۔ تم دونوں خوشیاں دیکھو ۔۔۔۔ وہ ٹھیک ہو جائے میں خود جاؤں گی اس کے گھر ” مسز یزدانی بیٹے کو گلے لگا کر آبدیدہ ہو گئیں ۔۔۔۔
“نہیں مما ۔۔۔۔ ڈاکٹرز کہتے ہیں اس کے پاس وقت تھوڑا ھے ۔۔۔۔ میں اسے اس دنیا سے اپنے نام ک ساتھ رخصت کرنا چاہتا ہوں مما ۔۔۔۔ تاکہ وہ آگے میرے نام سے جانی جائے ” وہ رو رہا تھا ۔۔۔۔ اپنی جھلی کی خواہش کے لئے ۔۔۔۔ اپنی زجاجہ کے نام کے لئے ۔۔۔
“اٹھو ۔۔۔۔ ہم بات کرتے ہیں سکندر صاحب سے ” مما نے کہا تو وہ فورا چہرہ صاف کر کے اٹھ گیا ۔۔ ۔۔۔۔
“یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ولید بیٹا ۔۔۔۔ ۔ زجاجہ ہوش میں نہیں ھے ۔۔۔۔اور آپ شادی کی بات کر رہے ہیں ” سکندر صاحب کی حیرانی بجا تھی ۔۔۔۔۔
“پلیز انکل ۔۔۔۔ میں اور زجی ایک دوسرے سے شادی کرنا چاہتے ہیں ۔۔۔۔ زندگی مجھ سے یہ وقت چھین نہ لے ۔۔۔۔ پلیز میری بات مان جائیں ۔۔۔۔ اپنی بیٹی کو خوشی دے دیں ” وہ منت کر رہا تھا ۔۔۔۔ سکندر صاحب کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا ۔۔۔۔ مسز یزدانی نے بھی انہیں سمجھایا تو وہ مان گئے ۔۔۔۔ مگر عجیب کشمکش کا شکار تھے ۔۔۔۔
“زجاجہ کو ہوش آ گیا ھے ” یہ آواز ہسپتال کے ٹھنڈے برآمدے میں کھڑے ھر اس شخص میں زندگی کی لہر دوڑا گئی جو زجاجہ سکندر کا کچھ لگتا تھا ۔۔۔۔
سکندر علی اور حفصہ سب سے پہلے اندر گئے ۔۔۔۔ وہ بیقرار ہو کر بیڈ کی طرف بڑھے ۔۔۔۔
“پلیز ابھی زیادہ لوگ مت آئیے گا اور باتیں بھی نہیں کرنی زیادہ ۔۔۔۔۔ ان کو آرام کی ضرورت ھے ۔۔۔۔” نرس نے پیشہ ورانہ انداز میں کہا اور باہر نکل گئی ۔۔۔۔۔ زجاجہ صرف دیکھ رہی تھی اور گردن کو جنبش دے رہی تھی ۔۔۔۔۔ آکسیجن ماسک ابھی بھی لگا ہوا تھا ۔۔۔۔
سب سے آخر میں ولید گیا ۔۔۔۔ زجاجہ نے ایک نظر اسے دیکھا اور دیکھے گئی ۔۔۔۔ ولید مسکرا دیا ۔۔۔۔
“کیا دیکھ رہی ھے میری جھلی ” وہ بیڈ پر جھکا ۔۔۔۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ زجاجہ کا ہر درد سمیٹ لے ۔۔۔۔ ہر تکلیف خود پر برداشت کر لے ۔۔۔۔۔ زجاجہ ہلکے سے مسکرائی ۔۔۔۔۔
“کیا خیال ھے تمہاری نیم پلیٹ چینج کروا دوں ” ولید نے شرارت کی ۔۔۔۔۔ زجاجہ کی آنکھوں میں ناسمجھی کا تاثر ابھرا ۔۔۔۔
“بتاتا ہوں تھوڑی دیر تک ۔۔۔۔ آرام کرو تم ” کہتا ہوا وہ باہر نکل گیا ۔۔۔۔زجاجہ نے آنکھیں بند کر لیں ۔۔۔۔
اور اگلے دو گھنٹوں بعد وہ زجاجہ سکندر سے زجاجہ ولید حسن ہو گئی تھی ۔۔۔۔۔ ایک انوکھی شادی سر انجام پا چکی تھی ۔۔۔۔ جس کی وجہ سے بہت کم لوگ واقف تھے ۔۔۔۔۔ ولید نے زجاجہ کے بیڈ کے پیچھے لگی پیشنٹ نیم پلیٹ میں بھی اس کا نام تبدیل کروا دیا تھا ۔۔۔۔
“یہ دیکھو زجی ” ولید نے زجاجہ کے سامنے وہ پلیٹ کی ۔۔۔ جس پر کالے رنگ سے “زجاجہ ولید حسن ” لکھا تھا ۔۔۔ زجاجہ کی آنکھیں چمک اٹھیں اور اس نے مسکرا کر ولید کی طرف دیکھا ۔۔۔۔ ولید نے اس کا ماتھا چوم لیا ۔