میں کیا کر سکتا ہوں
حلوہ پوری گدھے اڑائیں تو میں کیا کر سکتا ہوں
انساں روکھی سوکھی کھائیں تو میں کیا کر سکتا ہوں
اندھے آنکھیں مجھے دکھائیں تو میں کیا کر سکتا ہوں
اور گونگے بے نقط سنائیں تو میں کیا کر سکتا ہوں
ٹانگوں والے اپنی ٹانگیں توڑے گھر میں بیٹھ رہیں
لنگڑے سر پٹ دوڑ لگائیں تو میں کیا کر سکتا ہوں
کوئل دم سادھے بیٹھی ہو، بلبل پر سکتہ طاری ہو
ڈال ڈال پر کوے گائیں تو میں کیا کر سکتا ہوں
آگے پیچھے اوپر نیچے گھپلے ہوں گھوٹالے ہوں
اور رشوت ہو دائیں بائیں تو میں کیا کر سکتا ہوں
جب قانون تماشائی ہو اور فسادی بلوائی
بستی بستی آگ لگائیں تو میں کیا کر سکتا ہوں
ہر دم امن اور یکجہتی کی مالا جپنے والے
بھائی کو بھائی سے لڑائیں تو میں کیا کر سکتا ہوں
املا انشا درست جن کا اور نہ ہجا جن کا ٹھیک
وہ بھی پی ایچ ڈی ہو جائیں تو میں کیا کر سکتا ہوں
وہ حضرت جو شعر وا دب کی ابجد سے بے بہرہ ہوں
استاذ الشعرا کہلائیں تو میں کیا کر سکتا ہوں
کچھ اندھے مانگے کی عینک رکھ کر اپنی آنکھوں پر
رعب جمائیں اپنی بصیرت کاتو میں کیا کر سکتا ہوں
داد طلب نظروں سے دیکھیں راہیؔ پھر احباب مرے
میرے شعر مجھے سنائیں تو میں کیا کر سکتا ہوں
(ماہنامہ شگوفہ، فروری ۲۰۰۳)
تضمین بر غزلِ غالبؔ
کبھی دن بھر وہ گھر نہیں آتی
اور کبھی رات بھر نہیں آتی
وہ رہِ راست پر نہیں آتی
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
کبھی چوہوں پہ ان کے بل پہ ہنسی
کبھی بٹّے پہ اور سِل پہ ہنسی
کبھی رخسار اور تِل پہ ہنسی
پہلے آتی تھی حالِ دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
دانت جب تک ہیں پیسٹ منجن ہے
سانس جب تک ہے، دل ہے دھڑکن ہے
کیسی بے چینی، کیوں یہ الجھن ہے
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
جب بھی ہو گا حسابِ طاعت و زہد
کیسے دوں کا حسابِ طاعت و زہد
دیکھتا ہوں میں خوابِ طاعت و زہد
جانتا ہوں ثواب، طاعت و زہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی
سب تجھے چھوڑ کر گئے مفلس
کچھ ادھر کچھ ادھر گئے مفلس
یار تیرے کدھر گئے مفلس
سب کہاں جا کے مر گئے مفلس
کیوں کسی کی خبر نہیں آتی
(ماہنامہ شگوفہ، مارچ ۱۹۹۲)