میں کہاں کب اور کس کے ہاں پیدا ہوا
مجھے کچھ یاد نہیں، البتہ خواب کی طرح اتنا یاد ہے کے ماں مرگئی تھی عورتیں بین کر کر کے رو رہی تھیں بہت سے لوگ جمع تھے میری ماں کو چارپائی پہ اٹھا کر کہیں لے گئیے تھے تب سے میں نے ماں کو پھر کبھی نہیں دیکھا سب کہ رہے تھے اسکی ماں مرگئی ہے
ابا نئیی ماں لے آیا جو ہمراہ اپنے مرحوم شوہر کے تین پچے بھی ساتھ لائی تھیں
مگر میں اسقدر نکما کے پہلی ماں مجھے چھوڑ کے مرچلی اور دوسری کے دل میں اپنی جگہ نہ بنا سکا
انجام بلآخر اسی بلے سا ہوا جوچوری سے گھر میں داخل ہو کر دودھ چاٹ جاتا ہو اور ہتھے چڑھتے ہی بوری میں بند کرکے کسی نامعلوم منزل کو جانے والی گاڑی کی چھت پہ ڈال دیا جاتا ہو آگے قسمت اسکی اپنی بوری سے نکل کر باقی زندگی جی لے یا گھٹ گھٹ کر مرجاۓ
مجھے بھی ایک زمیندار کے مزیرے نے بوری سے برامند کیا منہ پہ بندھی پٹی نے اگر چہ جان نہ لی البتہ بے ہوش ضرور کر دیا
باپو(مزیرے)نے اپنی اولاد سے برڑھ کر پالا مولوی جی سے قرآن بھی پڑھایا اور سکول میں پانچ جماعتیں بھی پڑھا دیں
جب باپو کی خدمت کا وقت آیا عین اسی وقت زمینداروں نے اپنے حصے کے نادیدہ گناہ میرے سر ڈال دیے
باپو نے سفیدداڑھی آنسوؤں سے بگھو کرماتھا ان کے قدموں میں رگڑا جس کے عوض اس شرط پہ جان بخش دی گیئ کے اس گاؤں سے ہمیشہ کیلئے کہیں دور نکل جاۓ دوبارہ اگر کہیں نظر آیا تو تجھے اور تیرے اس پالتو بیٹے کو کتے کی موت مار ڈالیں گے
باپو نے رات کے اندھیرے میں آنسوؤں کی برسات میں گاؤں سے رخصت کیا
پھر کبھی پلٹ کر نہ آنے کا وعدہ لے کر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
پاپو نے تقریباً نصف رات جاکر کوچوان منگوبابے گا دروازہ کھٹکٹایا منگو میرے باپو کا لنگوٹیا یار تھے
کیا معاملہ پہا کرمے اس نے اپنے دروازے سے باہر نکلتے ہوۓ میرے باپو کا شانہ پکڑ کرجنجھوڑتے ہوۓ گھبرائی آواز میں پوچھا
شاید باپو عمر بھر کے غم یاد کر بیٹھے تھے
ایک دلخراش چیخ میرے باپو کی حلق سے ابھری ۔ ۔ ۔ ۔ ۔دوستو پھر باپو کی جو حالت ہوئی وہ میں لفظوں میں بیاں نہیں کر سکتا
میرا باپو صرف اتنا کہ کر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔منگو ۔ ۔ ۔منگو میرے یار ۔ ۔!
میری کلیجے میرے جگر کے ٹکڑے
میرے بیٹے اللہ رکھے پر وڈیروں نے تنگ کردی ہے
دھڑام سے نیچے گر کر تڑپنے اور سر زمین پہ پٹخنے لگا
مجھ سے باپو کی یہ حالت دیکھی نہ گئی میں اسکے قدموں سے لپٹ گیا اور زندگی میں پہلی بار دھاڑیں مار مار کر رونے لگا
باپو او باپو مجھے مرجانے دے باپو میں مر جاؤں گا مگر تجھ سے دور نہیں جاؤں گا
مم میں ۔ ۔ ۔ ۔کک ۔ ۔ ۔کہیں نہیں جاؤں گا باپو تجھے چھچھ ۔ ۔ ۔ ۔ چھوڑ کر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!
باپو کو جیسے اچانک کوئی حسین خیال آگیا ہو،
وہ ایکدم میری آنکھوں میں جھانک کر بلکل بےجان مسکراہٹ اور کسیانی ہنسی کے ساتھ مجھے سینے سے لگا کر اپنے کھردرے کھردرے ہاتھوں سے میرے آنسوں صاف کرتے ہوۓ بولا
نہیں ۔ ۔ ۔ نہیں میرے چندا یہ کیسی باتیں کر رہا ہے تو؟
تجھے جانا ہو گا تجھے جانا ہوگا میرے پتر
وہ کچھ میرا سہارا لیکر اور کچھ اپنا سہارا مجھے دیکر میرے ساتھ ساتھ کھڑے ہوتے ہوۓ بولا
اللہ رکھے تیرا باپو تو جیتے جی تجھے اپنی آنکھوں کے سامنے مرنے نہیں دے گا مگر یاد رکھ تیرے باپو کو زمیندار تیری آنکھوں کے سامنے مار ڈالیں گے وہ ایک بار پھر دلخراش چیخ کے ساتھ زعف بھری آواز میں بولا تو مجھے مرتا ہوا نہیں دیکھ سکے گا اللہ رکھے نہیں دیکھ سکے گا
تجھے جانا ہوگا میرے پتر تجھے جانا ہوگا باپو میرے گلے سے لپٹ کر اور میں باپو کے گلے سے لپٹ کر دونوں جی بھر کے روۓ
منگو بابا ساری بات سمجھ چکا تھا اسے معلوم تھیں اپنے گاؤں کی تمام رہتیں یہ لوگ بھی نسل در نسل انہی وڈیروں کے رحم و کرم پہ جی رہے تھے اس نے اپنا گھوڑا تانگے کے ساتھ جوت لیا تھا
مجھے بھی اچھی طرح سے احاس تھا کے ہو نہ ہو مجھے ہر صورت اس گاؤں سے نکلنا ہوگا اپنی نہ سہی مگر باپو کی زندگی کی خاطر جانا ہوگا
باپو سچ کہ رہا تھا ہم لوگ بہت بے بس تھے وڈیروں کے سامنے انہوں نے باپو کو بھی مار دینا تھا اور میں بھی کسی فلم کا کردار نہ تھا جو ان کا ڈٹ کر مقابلہ کرتا اور ان کو پٹخ پٹخ کر مار ڈالتا ہر مجبوری میرے سامنے تھی ۔
منگو بابے کے اس چھوٹے سے محلے میں میں کھیل کود کرپلا تھا تمام میرے ہم عمر اور بڑی چھوٹی عورتیں رات کے اس پہر اکادکا منگو بابا کے گھر آنکھیں ملتے تعجب و حیرت کی ملی جلی کیفیت کے ساتھ جمع ہونے لگ گۓ ہرکوئ سرگوشی کے سے انداز کے ساتھ ایک دوسرے کو معاملات سمجھا رہا تھا
عورتیں میری مائیں مجھے چھاتی سے لگا لگا کر بین کر کر کے رونے لگیں
دوستو آج ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آج منگو بابا بھی اپنی پلکوں کے آگے بند نہ باندھ سکا
وہ اپنی اپنی لنگی کی لٹ سے اپنی آنکھیں صاف کرتے ہوۓ درد بھری روتی آواز میں بولا بس اب بس کرو کڑیوں منڈیو تے پہنڑو ماؤ
وڈیروں نے رات کے رات کرمے کے لڑکے کو گاؤں سے نکل جانے کا کہا ہے اب سحری ہونے والی ہے ہمارے پاس اب وقت نہیں رہا ہمیں جلد سے جلد اب اسے ٹیشن پہچا کر کسی ریل پہ بٹھا نا ہے
منگو بابا تانگے پہ بیٹھ کر گھوڑے کی لگامیں تھام چکا تھا
مجھے بھی سسکیوں آہوں کی گھونج میں تانگے پہ سوار کیا گیا باپو نے آج پھر مجھے بچپن کی طرح ایک کڑیل جوان کو اپنی ضعیف گود میں اٹھا لیا
ادھر شیلا چاچی مانو بھابھی سفدر چاچا یہ لوگ بھی بضد ہوگۓ کے ہم بھی ٹیشن تک اللہ رکھے کے ہمراہ جائیں گے
سب لوگ سوار ہوگئے تانگا چل پڑا
تقریباً ایک گھنٹے سے تانگا لگا تار چلتا رہا اب اس قصبے کی بتیاں نظر آنے لگیں جہاں سے ریل گاڑی پہ مجھے بیٹھنا تھا
اسٹیشن پہنچ کر پاپو نے میرے لیۓ کراچی کی ٹکٹ لی وہاں موجود کچھ لوگوں کے پتے باپو نے مجھے پہلے ہی لکھوا دیے تھے کراچی جانے والی ریل جکشن پہ لگ چکی تھی وہ زمانہ کوئیلے کے انجن کا تھا بار بار آوازیں لگائی جا رہی تھیں کے تمام مسافر گاڑی میں سوار ہوجائیں
مجھے بھی سوار کر دیا گیا اب وقت آگیا تھا رخصت ہونے کا ساتھ آنے والے تمام لوگوں نے میری جیب میں پیسے ڈالے
آخری ممبر میرے پاپو کا آیا دوستو مم میرے بب باپو نے دونوں مٹھیاں
ریت سے بھر کر اپنے سر کے سفید بالوں میں ڈالی اسکی چیخ پکار سے پتھر اور دیواریں بھی رونے لگیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ریل چل پڑی میں دور تک اپنے باپو کو دونوں ہاتھوں سے سینہ ملتے ہوۓ
دیکھتا رہا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
رات کی تاریکی میں باپو کچھ دیر تک مجھے نظر آتا رہا مگر دھیرے دھیرے دھندلاتا ہوا نظروں سے اوجھل ہوگیا
میں کبھی باپو سے ایک شب کیلئے بھی دور نہیں ہوا تھا
اور نہ ہی باپو مجھے نظروں سے دور ہونے دیا تھا باپو ہمیشہ ہر کام اپنے ہاتھوں سے کرتا تھا اس نےکبھی مجھے تیلا توڑ کر بھی دو نہیں کرنے دیا تھا چوبیس گھنٹے زمینداروں کے کاموں میں مشغول رہتا تھا مگر مجھے انکے ہتھے ہر گز نہیں چڑھنے دیتا تھا ماپو میرے معاملے میں اکثر اوچھی حرکتیں بھی کر دیا کرتا تھا
اگر کوئ میرا ہم عمر بچہ مجھے رولا دیتا تو باپو بلا خوف خطر اسے پٹائی چاڑھ دیتا سب محلے والے باپو کو سمجھاتے بھی کرمے کیا کرتے ہو سب بچے ایک جیسے ہیں کھیل کود میں ایک دوسرے کو رلاتے روتے رہتے ہیں مگر تم ہمیشہ اپنے بیٹے کے معاملے میں بچوں سے بھی مقابلے پہ اتر آتے ہو کرمے نہ کیا کرو ایسے خدا کا خوف کرو
جواباً باپو ہر کسی کو چپ کرا دیتا
اپنی محنت کی کمائی کھلاتا ہوں اپنے بیٹے کو
کسی سے بھیک مانگی ہو تو بتاؤ میں ابھی لوٹانے کو تیار ہوں
مگر کوئی میرے پتر کو مارے رلاۓ
کبھی برداشت نہیں کر سکتا بس اگر ذیادہ تکلیف ہوتی ہے تو اپنے اپنے بچوں کو سمجھاؤ میرے چھورے کے ساتھ کھیلا ہی نہ کریں
میں ہمیشہ باپو کی کمر کے ساتھ لپٹ کر سوتا تھا آج باپو کیسے سوۓ گا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔آہ
صبح ہو چکی تھی ریل گاڑی چھکا چھک اپنی منزل کی طرف بھاگے چلی جارہی تھی صبح کی ہلکی ہلکی روشنی میں دور دور تک کھیت اور درخت نظر آرہے تھے
پاکستان نیا نیا آزاد ہوا تھا لہذا اکثریت کے ساتھ خواتین وحضرات ریل کے اندر ہی باری باری فجر کی نماز ادا کرنے میں مشغول تھے میں البتہ نماز کا اتنا عادی نہیں تھا اور نہ ہی اتنی سوج بوجھ تھی کے اسکی کیا اہمیت ہے ہلانکہ لگ بگ پندرہ برس کا ہوچکا تھا
میں بڑی دیر تک کھڑکی سے باہر کھیتوں اور درختوں کا نظارہ کرتا رہا چونکہ باپو نے میرے لیۓ کھلا ٹکٹ نہیں بلکہ سیٹ کرائی تھی اور یہ سیٹ کھڑکی کے ساتھ تھی میری سامنے والی سیٹ پہ ایک بابا جی بیٹھے ہوۓ تھے جنہیں سونے سے ہی فرصت نہ تھی
میں کچھ دیر باہر کے نظاروں میں کھبا رہا مگر پھر جب باپو کی یاد آئی تو یک لخت بیتے ہوۓ ماضی میں جا پہنچا
بہت سے قبیلے ایسے ہیں جہاں انسان نے انسان کو جانوروں سے بھی بدتر کر دیا
میرے باپو کا شمار بھی انہی بدنصیب انسانوں میں ہوتا ہے
باپو کا باپ تقسیم سے پہلے انڈین پنجاب سے ایک سکھ وڈیرے نے مزیروں کے تبالے میں اپنے پنجاب کے وڈیرے کے حوالے کیا تھا وہ اپنے ساتھ چار بیٹے اور دو بیٹیاں ایک بیوی لا یا
وہ پہلے سکھوں کا مزیرا تھا
اب مسلمان وڈیروں کے پاس جب آیا تو قوانین نئے تھے
یہاں مزیروں کو نسل کشی اور شادی کی اجازت قطعاً نہیں تھی
لہذا اسکے چاروں بیٹوں سے بچپن ہی سے جانوروں کی طرح مردانہ صلاحیتیں چھین لی گئیں
رہ گیئں بیٹیاں تو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جب جواں ہوئیں تو وڈیروں کے حولی میں درکار خصوصی نوکروں کے بنا شادی خوب کام آئین
آج کا جدید ترین سائینس کا زمانہ نہیں تھا
آثار نظر آنے پہ دائ وغیرہ سے جڑی بوٹی سے استفادہ حاصل کیا جاتا
اور ایسی خواتین لمبی عمر نہیں جی پاتیں دو چار کیسیز کے بعد زندگی کی بازی ہار جاتی ہیں سو میرے باپو کی بہنیں بھی اب اس دنیا مین نہیں رہی تھیں
باپو کے دیگر تین بھائی بھی مارے جا چکے تھے
ایک کو وڈیروں کے ہاتھوں قتل ہونے والے ہندو کے جرم میں انگریز عدالت نے پھانسی پہ لٹکا دیا تھا دوسرا دشمنی میں مارا گیا تیسرے کی صرف لاش ملی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریل گاڑی چھکا چھک بھاگ رہی تھی کے اچانک مجھے محسوس ہو کسی نے بڑی بیدردی سے میرا بازو مروڑا ہے
پلٹ کر دیکھا تو ایک نقاپ پوش میرے سینے میں خنجر گھوپنے کیلئے ہاتھ پیچھے لے جا چکا تھا میرے پاس کوئی مہلت نہ تھی اسکا وار پچانے کی۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جتنی دیر میں یہ نقاب پوش اپنا چمکتا دھمکتا طویل نشتر والا خوفناک خنجر میرے سینے میں گھونپتا میرے ذہن میں صرف ایک ہی خیال آیا ہو نہ ہو یہ شخص زمینداروں کا کوئی آلاکار ہے ۔اس سے پہلے کے یہ قاتل خنجر کا وار مجھ پہ کرتا وہی بابا جی جن کے متحلق میں نے کہا تھا کے انہیں سونے سے فرصت ہی نہ تھی
وقت آنے پہ انتہائی چابکدست اور پھرتیلے نکلے
قاتل کا رخ چونکہ میری طرف تھا اور پیٹھ سوۓ ہوۓ شیر بابا جی کی طرف، انہوں نے آنکھ کھلتے ہی نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ
بسم اللہ کرکے اپنی سیٹ پہ بیٹھے بیٹھے قاتل کی دونوں ٹانگیں گزارا لائیق اوپر اٹھا کر اپنی جانب کھینچ لیں جسکی وجہ سے وہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا اور پلک جھپکنے میں بری طرح سے زوردار آواز کے ساتھ ریل گاڑی کے فرش پہ گر پڑا پھر کیا تھا زمانہ اس ماں کھاۓ پہ ٹوٹ پڑا
ادھر اسکی درد ناک درگت شروع تھی عورتیں مرد اسے بری طرح پیٹ رہے تھے کے اسی دوران خاکی رنگ کی مقصوص وردی میں مبلوس چند نوجوان نجانے کہاں سے ہمارے والے ڈِبے میں نمودار ہوۓ انہوں نے تربیت یافتہ فوج کی طرح فوراً سے پہلے معاملے کو سمیٹ لیا
وہ قاتل کو خدائی مددگاروں سے بازیاب کرا کر اپنے ساتھ کھڑا کرتے ہوۓ مسکرا مسکرا اس قاتل کی حوصلہ افزائی کر رہے تھے
انہی خاکی وردی والوں میں سے ایک نوجوان داد رسائی کی تالیاں پیٹتے ہوۓ بلند آواز میں سب کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہوۓ بولا
بہت خوب زبردست شاباش
وہ خطاب کرنے کے سے میں ایک سمت ہو کر جہاں سے تمام لوگ باآسانی اسے سکتے تھے کھڑا ہو کر بولا
خواتین و حضرات
ہم آپکی اس کارکدگی پہ آپکو سیلوٹ پیش کرتے ہیں
یہ شخص دراصل نقلی قاتل تھا اور بلکل اسکی طرح اسکا خنجر بھی نقلی تھا
اس نے جس نوجوان کے ہاتھ میں قاتل سے برامند ہونے والا خنجر تھا اسکی طرف بنا دیکھے ہاتھ بڑھایا نوجوان نے خنجر اسکے ہاتھوں میں تھما دیا خنجر لے کر سب کو دکھاتے ہوۓ بولا یہ دیکھیں اسکا نشتر!
یہ کہ کر اسنے خنجر کا نشتر اپنی انگلی پہ لپیٹنا شروع کر دیا
جوغالبن ایکسرے میں استعمال ہونے والی پلاسٹک شیرٹ سے بنایا گیا تھا اور پھر اسے سٹیل نکل کرکے خنجر کا روپ دے دیا گیا تھا
وہ نوجوان خنجر کی حقیقت کھولنے کے بعد بولا
میرے ہموطنو!
ہم نے لازوال قربانیوں کے بعد ابھی ابھی اپنا آزاد اور خودمختار وطن حاصل کیا ہے
مگر انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کے ہماری قربانیوں کا سلسلہ تاحال ختم نہیں ہوا ابھی تک جاری ہے اور خدا جانے کب تک جاری رہے گا
آۓ روز بھیڑ ہو یا سناٹا مگر چھرا گھوپنے کی وارداتیں اپنے عروج پہ ہیں
بہت سے لوگ بے گناہ لقمہ اجل بن چکے ہیں اور بن بھی رہے ہیں لہذا بھائیو اور بہنو!
ہم نے اپنے طور پہ گورنمنٹ پاکستان کی اجازت سے ایک اینجیوز بنائی ہے جو اپنے ہموطنوں میں یہ شعور بیدار کرنے میں مگن ہے کے ان حالات میں اپنا دفاع کیسے کیا جاۓ؟
اس نوجوان نے بڑی دیر تک جان بچانے کی مخطلف تراکیب بتائیں تنہائی میں بھی اور ہجوم میں بھی:
وہ دیگر تمام لوگوں کی تعریف اور شکر گزاری کے بعد کہانی کے اصل ہیرو بابا جی کے پاس پہنچا جو بدستور اپنی سیٹ پہ پلے سے کئی گنا چوڑے ہو کر تشریف فرما تھے اور بڑی ہی غصیلی آنکھوں سے اپنے سامنے اوپر کی جانب خلا میں تک رہے تھے بس یوں سمجھ لیجئے کے کسی کو خاطر میں نہیں لا رہے تھے
اس نوجوان نے انتہائی گرم جوشی کے ساتھ مصافحے کیلئے اپنا ہاتھ بابا جی کی طرف بڑھایا!
اسلام علیکم سر،
آپکی بہادری جوانمردی ہمارے لیۓ قابل رشک ہے سر:
بابے نے انتہائی متکبرانہ انداز میں اپنی تین انگلیوں سے اس نوجوان سے مصافحہ کیا اور پھر انہی غصیلی آنکھوں سے اپنی بائیں جانب گاڑی کی کھڑکی کے اس پار دیکھتے ہوۓ اپنے بارے میں تعریفوں کے پل سنتے رہے
نوجوان نے بھی تعریف کرنے میں عمر بھر کا تجربہ بروءکار لا دیا تھا
جس پہ بابا جی اور بھی پھول گئے
اور پھر بے ترتیبے الفاظ کے ہمرا اس نو جوان پہ پل پڑے
ابے سالے کاہ بولے جا رہے ہو؟
اپن کوئی ایراگیرا ناہی!
بیالیس سال انگریج سرکار کی پھوج کی نوکری ہے اپن نے ۔
گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہے ابے اتنا تم لوگوں نے آٹا نہیں کھایا جتنا اپن نے نمک پھانک لیا ہے ۔
یاد رکھیو !
اپن اس سالے کو جان سے ماردیتا اگر تم بیچ میں نہ آتے
بابا جی دھبک دھبک سینہ ٹھوک کر بولے،
بتالیس سال انگریج پھوج کا سپاہی رہاہوں
بھولیو مت اخاں!
وہ نوجوان بھی کوئی پکا ہی تھا
جھٹ سے پیچھے ہٹتے ہوا بولا
بہت خوب سر زبردست
بیالیس سال آپ نے انگریز سرکار کی فوج میں سپاہی کی نوکری کی
کاش اپنے وطن کی فوج کی میں آپکو نوکری کی مہلت مل جاۓ تو بیالیس سال میں آپ فوج کے اعلیٰ افسر ہونگے
جاتے جاتے وہ میرا شانہ بھی تھپتھپا گیا
میں نے بھی سکھ کی سانس لی
قارین گرامی اس نقاب پوش نے میری جوحالت بنا دی تھی کاش میں لفظوں میں آپکے سامنے بیان کر سکوں!
ابھی اس نے خنجر مارنے کیلئے تولا ہی تھا میں یعنی اللہ رکھا صاحب ادھ موۓ ہوچکے تھے تمام حقیقت کھل جانے کے بعد بھی میں اپنی ٹانگوں پہ کھڑا ہونے کے قابل ابھی تک نہیں ہوا تھا ابھی تک میرا جسم تھر تھر کانپ رہاتھا اور دل دھک دھک دھڑک رہا تھا اس لمعے مجھے باپو کی سخت یاد آئی مجھے یاد تو نہیں اگر اس دوران میرے منہ سے چیخ نکلی ہوئی تو ضرور میری زبان سے باپو کا نام نکلا ہوگا۔
ریل گاڑی مسلسل چھوٹے چھوٹے سٹاپ کرتی ہر سٹاپ پہ دس دس منٹ کا وقفہ کرتی کچھ مسافروں کو اتارتی اور کچھ کوسوار کرتی جارہی تھی لانگ روٹس پسینجرز کو نیچے اترنے کی اجازت نہیں تھی
اگر اجازت ہوتی بھی تو میں نیچے نہ اترتا چونکہ باپو نے مجھے سختی سے منع کیا ہوا تھا
پتر کراچی سے پہلے کسی صورت گاڑی سے نیچے مت اترنا کسی سے کچھ لیکر کھانا بھی نہیں اور نہ ہی کسی کو اپنی حقیقت بتانی ہے لہذا مجھے اپنے باپو کی ہر ہر بات یاد تھی اسکی آواز مسلسل میرے کانوں میں گھونج رہی تھی ویسے بھی کھانے پینے کی تمام اشیاء گاڑی کے اندر ہی مل رہی تھیں آج کے دن کے علاوہ ابھی چار دن کا سفر مزید باقی تھا
اس وقت شام ہوچکی تھی میں مسلسل ڈوبتے ہوۓ سورج پہ نظریں جماۓ ایک بار پھر گزرے ہوۓ خیالوں میں گُم ہوگیا۔
باپو کے ساتھ ساتھ ایک اور چہرہ بھی بار بار میری آنکھوں کے سامنے آرہا تھا جو اس سے قبل نہ میرے سامنے آیا اور نہ ہی کھبی میں نے اسکے بارے میں سوچا تھا اور وہ چہرہ تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔نشو بھابھی کی چھوٹی بہین سانولی کا۔ ۔ ۔ ۔ ۔
سانولی سے میرا سامنا اس زمانے میں ہوا تھا جب اکبر بھائی کی بیوی نشو بھابھی کے ہاں دوجوڑواں بچے پیدا ہوۓ تھے ۔
نشو بھابھی اور اکبر بھائی اگرچہ میرے رشتہ میں کچھ نہیں لگتے تھے بلکل میرے باپو کی طرح مگر قارین: میں انات ہونے کے باوجود اگر انسان کہلانے کے لائیق ہوں تو اپنے انہی مہربانوں کی بدولت ہوں جومیرے باپو کے گاؤں سے تعلق رکھتے تھے ۔
باپو نے تو بند بوری سے نکال کر مجھے نیئ زندگی کا ذریعہ بخشا جبکہ باپو کے اہل بستی نے اپنی محبتوں اور چاہتوں کی بدولت مجھے جینے کا سلیقہ اور زندگی کا شعور عطا کیا ۔
باپو ہمیشہ حویلی میں زمینداروں کی سیوا میں مصروف رہتا تھا جبکہ میرے متحلق باپو نے قسم کھا رکھی تھی کے کبھی اپنے بالک اللہ رکھے پہ انکا سائیہ بھی نہیں پڑنے دوگا وہ سائیہ جسکے جان لیوا اندھیرے میں میرے تین جواں سالہ بھائی اور دو بہنیں سمیت ماں باپ کے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے گم ہوگئے تھے ۔
مجھے اکثر باپو نے کبھی نشو بھابھی اور اکبر بھائی کے حوالے کیئے رکھا کبھی گاؤں کے دیگر مہربانوں کے حوالے مگر دن میں کئی کیئ بار بھاگ دوڑ کر میری خیریت معلوم کرتا اور رات کو ہمیشہ اپنے ساتھ سلاتا یہی وجہ تھی کے میں پانچ جماعتیں پڑھ گیا تھا ورنہ زمینداروں کی ڈکشنری میں تعلیم نام کا کوئی لفظ موجود نہ تھا اور مزائیر کیلئے لیۓ تو اسکا تصور ہی محال تھا ۔
بات ہورہی تھی سانولی کی!!!!
سانولی معض نام کی سانولی تھی اور میں نے سنا ہے ہمارے پنجاب کی یہ ریت تھی کے اگر کسی کے ہاں بہت ہی خوبصورت گورا چِٹا بیٹا پیدا بچہ پیدا ہوتا تو وہ اسے نظر بد سے پچانے کیلئے ایک مخصوص عمر تک ناک پہ کالک لگاتا رہتا اور اول روز سے اسکا نام اسکے رنگ روپ کے برعکس رکھتا؛
مثلاً کالو ،کالا،بھولا ۔۔۔۔۔۔وغییرہ وغیرہ وغیرہ وغیرہ
اسی طرح اگر پری صورت بچی پیدا ہو جاتی تو اسکا نام بھی اسکے حسن و جمال کے بلکل برعکس رکھا جاتا؛
سانولی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!
قارین اگر اسکے حسن و جمال پہ میں لکھنا شروع کر دوں تو آپ مجھے حسن پرست شاعر تصور کر لیں گے جوکہ میں ہوں نہیں!
کہاں شاعر!
اور کہاں پسماندہ دور کا پانچویں پاس لاوارث مگر باپو کی کل کائینات اللہ رکھا؟؟؟
مگر سچ تو یہ ہے نام کی سانولی
:سانولی ؛
حسن و جمال کے خدوخال میں کسی شہرہءِآفاق مصور کے دستِ لازوال سے تراشا ہوا وہ عکس و شہکار تھا تھا جسے پہلی نظر دیکھتے ہی مصور کائینات رب ذُولجلال کی تسبع بیے ساختہ لبوں پہ جاری ہوجاتی اور سبحان اللہ کے الفاظ زباں پہ آجاتے
مجھے نہیں معلوم وہ کب اپنے گاؤں:چک لٹھو خان اندرون پنجاب سے ہمارے گاؤں بختو حویلی آئی!
البتہ اس کے آنے کی وجہ نشو بھابھی کی جڑواں بچیاں تھیں جنکی ابتدائی پرورش میں انہیں بہت دشواری کا سامنا تھا اسی دشواری کے پیش نظر نشو بھابھی کے ماں باپ نے سانولی کو ہمارے گاؤں بختو حویلی اپنی بہین کے ہاں بھیجا تھا ۔
رات نو دس بجے کے قریب باپو زمینداروں کی حویلی سے گھر آیا جہاں میں حسب معمول اکیلا اسکا منتظر تھا ۔
اگرچہ میں اب کڑیل جوان ہو چکا تھا مگر پھر بھی باپو ہمیشہ میرا کھانا اپنے ہاتھوں سے تیار کرتا باپو نے پیڑے بناۓ ڑوٹیاں توے پہ ڈالیں سالن گرم کرکے لسی کا کٹورا بھرا اور میرے ساتھ بیٹھ کر کھانے میں مشغول ہوگیا
میں اور باپو ہمیشہ ایک ہی تھالی میں ایک ہی ٹوکری سے روٹی کھآتے اور ایک ہی کٹورے سے باری باری لسی کے گھونٹ پینے کے عادی تھے خصوصاً لسی کے گھونٹ لینے کے معاملے میں میرا اور باپو کا اکثر بناوٹی جھگڑا رہا کرتا تھا میں اسے کہتا تونے بڑا گھونٹ لے لیا باپو جا تیرے پیٹ پہ بجلی کڑکے اور وہ مجھے کہتا جوانی مرگ کروں تیری نامرادے منہ سے کٹورا کھینچ لیا گھونٹ لینے دے بدبخت نوالہ حلق میں
پھنسا ہوا ہے !!!!!
آج بھی ہم دونوں نے روایتی نوک جھوک کے ساتھ پیٹ بھر کر کھانا کھایا ۔
باپو نے بتایا پتری راکھے (اس نے میرا نک نیم راکھا رکھا ہواتھا)
مجھے حویلی واپس جانا ہے اور تو میرا پتر جا جا کر اکبرے کے گھر سوجا جا میرا پتر باپو کی عادت تھی کھانا کھا کر ہمیشہ سے تہمد دوبارہ درست کرتا
وہ اپنی لنگی سر پہ باندھتے ہوۓ بولا میں صبح ادھر ہی سے ہوتا ہوا آؤنگا!
تجھے ساتھ لے آؤنگا ۔
وہ اپنا ڈنڈا اٹھا کر مجھے ساتھ باہر نکلتے ہوۓ بولا دیہان سے جانا رات خاصی ہوچکی ہے؛
باپو حویلی کی طرف نکل گیا اور میں پوری آب و تاب سے چمکنے والے چاند کی چاندنی میں کھیتوں کے درمیان اینٹوں سے بنی ہوئ راہ داری پہ چلتا ہوا نشو بھابھی کے گھر جا پہنچا ۔
گرمیوں کی راتیں تھیں مینڈک اور رات کے وقت بولنے والی ٹڈیوں کی مدھم اور تیز آوازیں ہر سمت فضا میں محو شور تھیں،
میں بھینسوں کے باڑے کے پاس سے گزرتا ہوا ہمیشہ کی طرح بلا تکلف نشو بھابھی کے صحن میں داخل ہو گیا ۔
مگر صحن میں داخل ہوتے ہی مجھے یوں محسوس ہونے لگا جیسے میں آن کی آن میں حقیقت کی دنیا سے خوابوں آپہنچا ہوں!
میرے بلکل سامنے ایک چارپائی پہ ایک چاند چہرہ آسمانوں کے چاند کو مات دینے کے درپہ عالم نیند میں دنیا سے بیے خبر لنمبی سنہری زلفیں چارپائی سے نیچے گراۓ چہرہ چاند کی سمت کیے ایک دوشیزہ سوۓ ہوۓ تھی !
آج مجھے معلوم ہوا زندگی کس حسین وجمیل پیکر کا نام ہے
اور دنیا میں شاعروں نے کیسے جنم لیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
●▬▬▬▬▬▬▬▬ஜ۩۞۩ஜ▬▬▬▬▬▬●