اور پھر وہ نمل جو گرمیوں کے صوم (روزے) بہت سے ڈرتی اور ہچکچاتی تھی اب پورے رمضان میں بلا چون چراں سب روزے رکھتی گئی۔ جہا ں باقی سب حیران تھے وہیں حبل بھی حیران ہوا۔ کیونکہ تاریخ گواہ تھی کہ نمل کھائے پیئے بغیر رہ ہی نہ پاتی تھی۔ اتنی گرمی جس میں پسینہ گردن کے بالوں سے ٹپکتا اور پاؤں کے ٹخنے تک بہتا جاتا تھا اب ذرا بھی محسوس نہ ہوا تھا۔ کام بھی بہت پھرتی سے نپٹانے لگی تھی اور عبادت میں بھی خلل نہ آتا تھا۔ زہرہ بی نے جب سے عید سے اگلا دن نکاح کے لیے مخصوص کیا تھا سب یوں تیاریوں میں مگن تھے کہ دو گھڑی ٹک کر بات بھی نہ کر پاتے تھے۔’نجات’ کا عشرہ چل رہا تھا اور آخری ہی دن تھے جب زہرہ بی نے سب کو تراویح کے بعد لان میں جمع ہونے کا پیغام بھیجا۔چونکہ گرمیاں سخت تھیں سو شام کے وقت زیادہ ترسبھی گھر والے باہر لان ہی میں پائے جاتے تھے۔ وہ نماز ادا کرنے کے بعد سب کے لیے ہلکی پتی کی الائچی والی چائے بنانے کچن میں چل پڑی۔ چائے کو دم پر لگا کر وہ باہر آئی تو دیکھا کہ وہ بھی تروایح ک بعد اپنی وہیل چئیر گھسیٹتا اسی طرف آ رہا تھا۔ دل ایک دم سے حلق کو آیا۔ وہ آپریشن کے بعد سے کافی بہتر ہو چکا تھا. اب بس ٹانگ کی ہڈی میں اٹھنے والی چسکیں تلکیف دیتی تھیں جس وجہ سے وہ وہیل چئیر استعمال کرنے پر مجبور تھا.
“کچھ کھٹا مل جائیگا ؟ گلے میں آرہا ہے سب کھایا ہوا” ایک طرف سے کترا کے نکلنے ہی لگی تھی جب وہ بولا۔ فوراً مڑی تاکہ چہرہ چھپا سکے جو اس کی موجودگی میں سرخ انار ہو رہا تھا۔دل کو ڈپٹ کر یہاں وہاں ڈبےتلاش کرنے لگی۔
“ایک تو امی بھی حد کرتی ہیں۔ بالکل ہی بچہ سمجھ لیا ہے۔ اچھا بھلا تو ہو چکا ہوں۔ لیکن نہیں ۔ بس ٹھنسوائے جائیں گی” وہ بات سے بات نکال رہا تھا اور وہ تھی کہ ہر چیز دیکھ چکی تھی۔
“یہ چائے بنا رہی ہیں تو وہی دے دیں شاید اسی سے افاقہ ہو جائے” اسے یوں ہی خالی ہاتھ کھڑا دیکھ کر وہ بولا۔اس نے کوئی جواب دینے کی بجائے ایک کٹوری لی ۔ نیچے کیبنٹ میں رکھے مرتبان سے اچار نکال کر اس میں رکھا اور سامنے رکھ دیا۔
“یہ میں کیسے کھاؤں گا؟” وہ منہ بنا کر بولا تو وہ جو جانے کو پر تول رہی تھی حیرانی سے اس کےہاتھ دیکھنے لگی۔
“نہیں میرا مطلب ہے ہاتھ تو سلامت ہی ہیں میرے لیکن صرف اچار وہ بھی مرچ کا؟” اس کی آنکھوں کی حیرانی دیکھ کر سمجھتے ہوئے وہ فوراً گویا ہوا تھا مگر غنویٰ اب بھی الجھی کھڑی تھی۔
“نوڈلز بنا دیتیں۔منہ کا ذائقہ بھی بدل جاتا اور کھانا بھی ہضم ہو جاتا” یہ ایک فالتو دلیل تھی جو وہ دے رہا تھا۔ جانتا تھا کہ وہ خود بھی اسی کی طرح تذبذب کا شکار ہے۔
“میرا خیال ہے آپ کو آرام کرنا چاہیے۔ شاید گرمی زیادہ اثر کر گئی ہے” وہ شہد رنگ الجھی آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے بولی۔ وہ جو کٹوری میں رکھی دو مرچوں کی طرف دیکھ رہا تھا اس کی جانب چہرہ کیا۔ نگاہیں ملیں اور دل ہوا کے دوش پہ چل پڑا۔
گفتم کہ روشن از قمر، گفتا کہ رخسار منست
گفتم کہ شیریں از شکر، گفتا کہ گفتار من است
(میں نے پوچھا کہ چاند سے زیادہ روشن کون ہے؟ کہا کہ میرا چہرہ۔۔ میں نے پوچھا کہ شکر سے میٹھا کیا ہے؟ کہا کہ میری گفتگو۔۔)
چہرے پر گلال اترے تو اس نے لبوں کو دانتوں تلے دبایا۔ یہ بہتر تھا ۔۔خود کو باور کروانا بہتر تھاکہ وہ جو سامنے بیٹھا اسے نظر بھر کر دیکھ رہا ہے وہ اس کا نہیں ہے۔وہ اس کا ہے جس کے لیے اس نے اپنے خون کو للکارا تھا۔ اور یہ سب اس کھیل میں نہیں چلتا۔ اسی لمحے سے تو وہ کتراتی رہی تھی۔
گفتم طریقِ عاشقاں، گفتاوفاداری بود
گفتم مکن جورو جفا، گفتا کہ ایں کار من است
(پوچھا کہ عاشقی کا طریقہ کیا ہے؟ کہا کہ وفاداری۔۔ بولا کہ ظلم و ستم نہ کرنا۔ کہا کہ میرا کام ہے۔۔)
شہد آگیں آنکھوں نے آگ پکڑی اور شعلہ بار ہوئیں۔ بھوری آنکھوں نے عشق کے دربار میں جھک جانا مناسب جانا۔ یہ کہاں درج تھا کہ دیکھنے والی آنکھ ہمیشہ صلح جو ہی ہو گی۔
نہیں۔۔
دیکھنے والی آنکھ تیز و تند شعاع بھی ہو سکتی ہے جو جھلسا دے۔
وہ ایک دم سیدھی ہوئی۔ ماتھے پر تیوری ڈالی اور سامنے سے کٹوری اٹھا کر شیلف کی طرف بڑھی۔ کٹوری کو چھوٹی سی پلیٹ سے ڈھکا اور ایک کپ کو دھو کر ایک طرف رکھا۔ اور دم پر لگائی ہوئی چائے کا ڈھکن اٹھایا۔ الائچی کی خوشبو ہر سو پھیل گئی۔
گفتم کہ مرگِ عاشقاں، گفتا کہ دردِ ہجر من
گفتم کہ علاجِ زندگی، گفتا کہ دیدار من است
(پوچھا کہ عاشق کیسے مرتے ہیں ؟ کہا کہ میرے فراق میں۔۔ پوچھا کہ زندگی کا علاج کیا ہے؟ کہا کہ میرا دیدار ہے۔۔)
چائے کپ میں انڈیل کر وہ دوپٹہ ٹھیک کرتی اس کی طرف مڑی جو کمر اکڑائے اس کا چہرہ دیکھنے کی جستجو میں تھا۔
” اچار کیوں اٹھا لیا ؟ میں نے چکھا بھی نہ تھا ابھی”اس نے کپ سامنے کیا تو وہ تھامنے کی بجائے منہ بناتے ہوئے گویا ہوا۔ صبیح پیشانی پھر سے سلوٹ زدہ ہوئی۔’بہت بے تکلفی ہے ناں جیسے ہماری’ آنکھیں چھوٹی سی کرتی وہ اسے گھورنے لگی۔
“یہ ‘افاقہ’ دے گی” اسی کیبات اسے لوٹائی. کپ سامنے میز پر کھا اور فرش پر ہولے سے قدم دھرتے ہوئے واپس چائے کی پتیلی کی طرف مڑی۔
گفتم بہاری یا خزاں، گفتا کہ رشکِ حسنِ من
گفتم خجالت کبک را، گفتا کہ رفتارِ من است
پوچھا کہ بہار اور خزاں؟ کہا کہ میرے حسن کا رشک ہیں۔۔ پوچھا کہ چاند کی شرمندگی؟ کہا کہ میری رفتار ہے۔۔)
وہ اسے غور سے دیکھتا اچانک چونک کر ‘سی سی’ کرنے لگا۔ وہ جو کوکنگ رینج کے پاس چہرہ جھکائے کھڑی تھی لب بھینچتی مسکرا دی۔
“اسے ٹھنڈی تو کر دیتیں ” وہ اب بھی جلے منہ کے ساتھ سی سی ہی کر رہا تھا۔
“دھیان کی بات ہے صرف۔ دھیان کو بہکنے سے بچایئے۔۔” لہجہ سخت سا بناتی وہ بولی اور کندھے پر دوپٹہ ٹھیک کرتی کچن سے باہر نکل گئی۔
اور وہ۔۔۔
چائے تو اب ٹھنڈا شربت بھی بن جاتی تب بھی لب نہ لگاتا۔
گفتم کہ حوری یا پری، گفتا کہ من شاہ جہاں
گفتم کہ خسروؔ ناتوں، گفتا کہ پرستارِ من است
(پوچھا کہ حور ہو یا پری؟ کہا کہ میں سارے جہاں کی شاہ۔۔پوچھا کہ غریب خسروؔ؟؟ کہا کہ میرا پرستار ہے۔۔)
لب مسکرا دئیے اور دل ایک ہی نقطے پر تھم گیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“ہاں تو شیرزمان کیا طے کیا ہے پھر؟”سب ان کے اردگرد چارپائیوں پر براجمان تھے۔ غنویٰ ٹرے میں رکھی چائے سب کو پیش کر رہی تھی ۔ نمل زہرہ بی کی دائیں طرف بیٹھی تھی۔ فجر خاموش بیٹھی مکمل توجہ سے سب کی باتیں سن رہی تھی۔ اجر بھی چپکی بیٹھی تھی کہ اس کا بھی ویزا آ چکا تھا۔ فجر، جبل اور اجر کی روانگی تقریباً ایک ڈیڑھ دن کے وقفے سے تھی۔ جبکہ نمل، حبل کے ساتھ فیصل آباد ہی جانے والی تھی۔شیر زمان نے حبل کو ‘فورسینز’ ہاؤسنگ کالونی میں ایک فرنشڈ گھر تحفتاً دیا تھا تا کہ بعد کے لیے آسانی ہو۔
سبھی لڑکیوں کے دل یوں ہوئے تھے گویا جان نکلنے والی ہو۔ جیسے جیسے دن پاس آ رہے تھے سبھی لڑکیاں کانپتے دل کے ساتھ ایک دوسرے کا منہ دیکھتی بیٹھی رہتی تھیں۔لڑکیاں اپنی جگہ، لڑکے بھی آج کل شرافت کے لبادے میں تھے۔ ہر طرف خاموشی ہی رہتی۔اس صورتِ حال میں غنویٰ اور منال ہی تھیں جو سب کو باتوں میں لگاتی تھیں۔ رانی اور عبادت بھی آج کل ہر کام میں پیش پیش تھیں۔اور تو اور آج کل ہاجرہ کو بھی آرام نہ تھا۔ ایک تو رمضان کی مصروفیات اوپر سےحویلی کا پہلا فنکشن تھا سو ہر طرف کام ہی کام بکھرے نظر آتے تھے۔
“عید کی رات ہم لوگ فیصل آباد کے لیے نکلیں گے” وہ چائے کی ہلکی سی چسکی لے کر بولے۔ فجر اور نمل ایک دوسرے کی جانب تکنے لگیں ۔ سر پر جیسے موت کا فرشتہ منڈلا رہا تھا۔
“اور یہ ‘لوگوں’ میں کون کون شامل ہے چاچو؟” منال سیدھی ہوتی ہوئی بولی۔
“میں، تمہاری چچی، تمہاری آپی غنویٰ، یہ دونوں دولہے۔۔۔ باقی جسے کہو گاڑی میں بھرتے جائیں گے” وہ ہنستے ہوئے بولے مگر مخاطب کا منہ بنتا جا رہا تھا۔
“یہ غلط ہے چاچو”وہ ‘چاچو’ پر زور دیتے ہوئے بولی۔ زہرہ بی بھی اسے دیکھنے لگیں۔حیدر زمان بھی آج گھر تھے سو وہ بھی سبھی کو غور سے دیکھ رہے تھے۔ ظاہر ہے بیٹی کے باپ تھے۔ پھر بیٹی چاہے گھر میں ہی رہ جائے پر پرائی ہو جایا کرتی ہے۔ فخر زمان بھی چپ چپ سے تھے۔سجاول ایک چارپائی کے ساتھ اپنی چئیر لگائے بیٹھا تھا اور قدسیہ بیگم سجاول کے بالکل ساتھ اس چارپائی بیٹھی تھیں ۔
“کیا غلط ہے اس میں؟ “زہرہ بی آگے کو ہو کر بولیں۔
“یہ لوگ مہندی پر نہیں ہونگے تو مزہ کیسے آئیگا یار” وہ پونی جھلاتی ناک چڑھاتی ہوئی بولی۔
“نہیں میں یہ ڈنڈا پھیروں گی اگر کوئی مہندی سے بھاگا تو” وہ اپنا عصا اٹھا کر بولیں۔
“ہم لیٹ نکل لیں گے بیٹا جی فکر نہیں کرو۔ “شیر زمان اس کی تسلی کرواتے ہوئے بولے۔
“میں دودھ پلائی کروں گی دونوں کی طرفسے میں اکلوتی سالی ہوں”وہ گردن اکڑاتے ہوئے بولی تو چپکی بیٹھی اجر نے پیچھے سے دھموکہ جڑا۔
“فجر کی طرف سے میں ہی کروں گی تم حق نہیں مار سکتیں میرا” دانت پیستے ہوئے وہ بولی تھی۔ سبھی ایک ساتھ ہنس دئیے تھے۔
“میں نے کمیل کے لیے ایک لڑکی دیکھ رکھی ہے۔ عید پر اس کا بھائی اپنی بیوی بچوں کے ساتھ آ رہا ہے. اگر اعتراض نہ ہو تو میں اس کے ہاتھ میں پیسے تھما آؤں۔ ہلکا سا شگن ہو جائیگا” حیدر زمان کی طرف دیکھتے ہوئے وہ بولیں۔کمیل تقریباً اچھل ہی پڑا تھا۔شہد رنگ آنکھیں خوف سے پھیل گئی تھیں۔
“جی زہرہ بی جیسے آپ کہیں”وہ مسکرا دئیے مگر کمیل کو سمجھ نہ آیا وہ کہاں سر مار دے اپنا۔
“زہرہ بی میں تو کہتی ہوں کیوں نہ مہندی کی رات ہی ہم یہ شگن بھی پورا کر لیتے ہیں۔ کیوں ناں نکاح ہی کر دیا جائے؟” آمنہ بیگم جو کہ آم کے کتلے سے بنارہی تھیں ، کمیل کی حالت مزید پتلی کرنے کو بولیں۔
“ہاں یہ ٹھیک رہے گا۔ ویسے بھی آج کل کی نسل کا نکاح ہی بہتر ہے۔ ورنہ تو یوں بے حیائی دکھاتے ہیں۔صرف منگنی کو بنیاد بنا کر لڑکے والے کئی باتیں منوا لیتے ہیں۔ اور اسی بنیاد پر بات بھی کرنے لگ جاتے ہیں یہ بچے۔ بندہ پوچھے ایسی کیا آفت ہے؟ اتنی باتیں کرنے کے بعد یہ بتاؤ کہ بعد کے لیے کیا بچ جاتا ہے؟ بعد میں منہ بھی دیکھنا گوارہ نہیں کرتے یہ جوڑے۔ “وہ ٹھوڑی پر ہاتھ رکھے معاشرے کی تلخ تریں حقیقت بیان کر رہی تھیں۔ اجر اور سجاول زمان یہ بات بہت زیادہ محسوس کر رہے تھے۔ بے شک اجر زمان بھی سانول سے باتیں کرتی رہی تھی۔ ہاں حد میں کی ہوں گی لیکن تب وہ نامحرم تھا۔ اور پھر جب خود ہی حدودوقیود نہیں قائم کرنے تو سجاول زمان جیسا حال ہوا کرتا ہے۔ اپنے جذبے، اپنی سوچیں ۔ اپنا جسم، اپنی روح۔۔۔ ان چیزوں کو امانت سمجھو اپنے پاس۔ یہ سب چیزیں ہر دوسرے آنے والے پر لٹانے کی نہیں ہیں۔ کوئی بھی بےجوڑ نہیں رہ جاتا۔ سبھی کے جوڑ رب تعالیٰ نے بنا رکھے ہیں۔
اور کون جانے کس کا جوڑ کون ہے۔۔
تو جب جانتے ہی نہیں ہو۔۔ پھر امانت میں خیانت کیسی۔۔۔
ہر لڑکی اجر زمان جیسی خوش نصیب نہیں ہوتی کہ اسے اس کا من پسند عطا کر دیا جائے۔۔
اور ہر لڑکا سجاول زمان جیسا نہیں ہوتا کہ من پسند کو پا بھی لے۔۔
ہاں کمیل زمان یا غنویٰ صغیر احمد سا ہونے میں مضائقہ نہیں۔۔۔
“پھر بہو! تم یوں کرو کہ شگن کے لیے انگوٹھی لے آنا کل۔ میں نکاح میں اس بچی کو وہ انگوٹھی تحفہ میں دوں گی۔ میری بہت عرصے سے اس بچی پر نظر ہے۔ اور کمیل تمہاری تو چھٹیاں ہیں ناں آج کل؟ تم ہی کل ماں کو ساتھ لے جانا۔ اپنی پسند کی انگوٹھی لے آنا” انہوں نے کہا اور جو آم کے کتلے آمنہ بیگم نے بنا کر رکھے تھے وہ ایک ایک کانٹے میں پرو کر کھانے لگیں۔ سبھی اپنی جگہ خاموش تھے۔ کسی کو کسی دوسرے کی سوچ تک رسائی نہ تھی۔ اسی دوران ایک سوچ سجاول زمان کے ذہن میں جگہ بنانے لگی۔۔
اور کون جانے کہ اس وقت وہ کیا سوچے بیٹھا تھا۔۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
میں عشق الست پرست ہوں، کھولوں روحوں کے بھید
میرا نام سنہرا سانورا، اِک سُندرتا کا وید
میری آنکھ قلندر قادری،میرا سینہ ہے بغداد
میرا ماتھا دن اجمیر کا، دل پاک پتن آباد
ہر طرف نورانی سماں تھا۔ رمضان مبارک ایک نورانی اور ملکوتی مہمان ہے۔ جب بھی آتا ہے ہم گنہگاروں کو دنیاوی آلائشوں سے پاک کر دیتا ہے۔ ایسا روحانی سامنظر ہوتا ہے کہ ہر طرف بس رونق اور جشن کا سا سماں ہوتا ہے مساجد نمازیوں سے سجی نظر آتی ہیں۔عبادت میں جو دل اس ماہ میں لگایا جاتا ہے وہ کسی اور ماہ میں اتنا نہیں ہوتا۔ سب کام دھندے چھوڑ کر عین وقتِ مقرر پر گھروں کو لوٹنا تاکہ اللہ کے حکم سے روزہ افطار کیا جائے اور وقت ہی پر اس روزے کی نیت باندھنا۔ رمضان نازل ہی فیوض و برکات کے ساتھ ہے۔ مگر یہ آخری عشرہ۔۔۔ یہ عشرہ تو حضورؐ کو اس حد تک پسند تھا کہ حضرتِ عائشہ فرماتی ہیں کہ حضورؐ اس آخری عشرے میں جتنی محنت فرمایا کرتے تھے ،باقی دنوں میں اتنی نہیں فرماتے تھے۔(مسلم)
یہ عشرہ انسان کی نجات کا عشرہ ہے ۔اسی وجہ سے تو اپنی سنت ہی ایسی بنائی اس سرورِکونینؐ نے کہ امت ہر وقت تازہ دم اور مصروف رہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس عشرے میں اعتکاف کا تحفہ بھی عطا کیا گیا۔ تا کہ نفس کو پاک کیا جا سکے۔پورے سال میں سے کچھ کے لیے دن خود کو وقف کر دیا جائے۔ یہ توفیق بھی رب تعالیٰ بہت خاص دل کو ہی عطا کرتا ہے۔ زہرہ بی نے بھی محفلِ نعت کے لیے وعدہ کر رکھا تھا اور وہ وعدہ ہمیشہ نبھایا کرتی تھیں ۔ اسی سلسلے میں شبِ قدر کے لیے محفلِ نعت کا اہتمام کیا گیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ افطاری سے پہلے سبھی مدعو خواتیں صاف ستھرے کپڑوں میں ملبوس احاطے کی جانب چلتی جا رہی تھیں۔ گھر کی سب لڑکیاں سمیت ملازم خواتین کے ، کاموں میں مصروف تھیں۔ہر طرف بھاگ دوڑ مچی تھی۔ مگر اس بھاگ دوڑ میں بھی سکون سا محسوس ہوتا تھا۔ زہرہ بی زیادہ نعت خواں خواتین تو نہ بلا پائی تھیں البتہ غنویٰ سے وہ یہ وعدہ لے چکی تھیں کہ وہ اپنی سب سے پسندیدہ نعت جو ہلکی آواز میں گنگناتی رہا کرتی تھی، ضرور ہی سنائے گی۔
سب خواتین اپنی جگہ پر بیٹھیں زہرہ بی کی ہدایت کے مطابق درود شریف پڑھ رہی تھیں جب سفید صاف ستھرے بے داغ و بے شکن شلوار قمیص میں ملبوس زہرہ بی اپنے عصا پر بوجھ ڈالے ٹک ٹک کرتیں منال کے ساتھ وہاں احاطے میں آئیں اور ایک طرف موڑھا رکھوا کر بیٹھ گئیں۔ جس جس نے سلام لیا ان کو خوش دلی سے جواب دیا اور جس نے نہیں لیا اس کا نام لے کر خود سلام کیا۔ سب سے حال احوال کے بعد وہ خود بھی درود شریف پڑھنے لگیں۔ نہ تو وہاں گنتی کی جا رہی تھی نہ ہی کوئی تسبیح موجود تھی۔ نہ ہی تو کوئی چنے کا دانہ موجود تھا اور نہ ہی کوئی کھجور کی گٹھلی۔۔
ہو بھی کیوں؟؟؟
جب دنیاوی محبوب کے لیے بےگنت وبے حساب وقت لٹا سکتے ہیں تو رب کے محبوب کے لیے کسی گنتی میں تعریف کااحاطہ کیوں ہو؟ جب اپنے کاموں کے لیے وقت نکل سکتا ہے تو درود کی محفل میں بیٹھ کر کیوں نہیں وہ وقت نکل سکتا؟ جب آپس کی باتوں کے لیے وقت ہے تو یہ درود کب زیادہ وقت مانگتا ہے؟ پھر گنتی کی ہی کیوں جائے جب رب نے خود بے حد و حساب درود بھیجا ہے اور اب بھی بھیجتا ہے ۔۔
افطاری سے کچھ دیر پہلے زرہ بی نے سب لڑکیوں کو ، جو نعت شریف پڑھنا چاہتی تھیں آگے بلایا اور ایک دائرہ سا بنا کر باقی سب کو بھی ان کے پیچھے ہی جمع کر دیا۔ وہ کوئی بہت خاص اہتمام شدہ محفل نہ تھی کہ اس میں اسٹیج سجایا جاتا یا پردے لگائے جاتے۔ وہ صاف دھلے ہوئی بھوری چادریں تھیں جو فرش پر بچھائی گئی تھیں۔ وہ سفید صاف پردے تھے جو احاطے کے چاروں اور پردے ہی کی غرض سے لگائے گئے تھے ۔ اور وہ جو دائرہ ۔۔ وہ دائرہ کہ جس کے گرد اس وقت نعت خواں لڑکیاں بیٹھی تھیں۔ اسمیں ایک چھوٹاسا میز رکھا گیا تھا جس پر ایک سفید کپڑا بچھا کر اگر بتی جلائی گئی تھی۔ اس کی خوشبو نے سارے ماحول کو معطر کر رکھا تھا۔ نمل اور فجر احاطےمیں داخل ہوئیں تو زہرہ بی نے وہیں پیچھے ہی جگہ بنا کر بیٹھ جانے کا اشارہ دیا۔چونکہ افطاری کا وقت قریب تھا سو نعت کے کچھ اشعار پر ہی اکتفا کیا جا رہا تھا۔ زہرہ بی نے نمل کو اشارہ دیا توگھر کی سب عورتوں کو لیے وہ احاطے کی طرف چلی آئی۔ غنویٰ کے آتے ہی زہرہ بی نے سب کو لائن سی بنانے کو کہا۔ تاکہ اس آخری نعت کے بعد وہ دعا کروا سکیں۔ جب سب بیٹھ گئیں تو زہرہ بی نے منال سے کہہ کر غنویٰ کو نعت شروع کرنے کا پیغام بھیجا۔ اتنا رش ہونے کے باوجود وہں اتنی پاکیزہ سی خاموشی تھی کہ دل معطر ہوئے پڑے تھے۔ غنویٰ نے نعت سے پہلے درود شریف پڑھنا مناسب سمجھا اور پہلے ہی شعر سے ایسی طرز اٹھائی کہ سب کے دل جھوم جھوم گئے۔
کاش میں دورِ پیمبر ؐمیں اٹھایا جاتا
بہ خدا قدموں میں سرکار ؐکے پایا جاتا
کوئی مائک استعمال نہیں کیا جارہا تھا۔ مگر وہ آواز ۔۔ وہ خدائی عطا تھی۔ وہ آواز اور وہ اشعار۔۔ مل جل کر ایسا سماع بنا رہے تھے کہ وہ جو ہلکی ہلکی سانس کی آواز بھی تھی وہ سپردِ خدا ہوئی۔اور کیا تھا اگر اللہ اسی زمانے میں مجھے اٹھا لیتا۔ میں ان پاک قدموں کا دیدار تو کر لیتی۔ لو بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی۔۔ میں تو ترستی رہ گئی اللہ۔ مجھے بھی تو دکھایا ہوتا وہ اپنا اتنا محبوب چہرہ۔۔ مجھے کیوں اتنا دور رکھا۔
ساتھ سرکارؐ کے غزوات میں شامل ہوتا
ان کی نصرت میں لہو میرا بہایا جاتا
وہ جو کبھی اسی نعت کو ہولے ہولے سے گنگنایا کرتی تھی اب لبوں سے وہ آواز پھسلی تو خود اپنا دل ٹھہرنے لگا۔ وہ رب تو ہر چیز پرقادر ہے ناں۔۔ مجھے اس زمانے میں لے جاتا تو کیا تھا۔ وہ دکھاتا تو سہی مجھے اس دور کی ہوا کیسے میرے سرکارؐ کو چھوتی ہے۔ میں اتنی بد نصیب کہ مجھے اس زمانے میں پیدا کردیا جب ہر طرف فتنہ آگیا ہے۔ وہؐ ہوتے تو میں خود کو قربان ہی کر ڈالتی۔ مگر وہ ہوتے تو میری نظر کے سامنے ناں۔۔۔
ریت کے ذروں میں اللہ بدل دیتا مجھے
اور مجھے راہِ محمدؐ میں بچھایا جاتا
ریشم کی طرح پھسلنے والے وہ الفاظ اور ان کے شاعری۔۔۔ اللہ کا کیا عاجز بندہ ہو گا وہ جس نے یہ سب اشعار لکھے۔ اور وہ آواز۔۔ وہ کانپتی ہوئی آواز۔ اللہ اپنے بندوں کو کبھی کبھار کیسے حسین طریقے سے نوازتا ہے ناں۔ مگر دیکھو۔۔ میری حسرت تو دیکھو اے لوگو۔۔ مجھے اللہ نے ریت ہی بنا دیا ہوتا۔ میں اس راہ میں ہی بچھا دی جاتی۔ میں اس راہ کو چوم لیتی جہاں رب کا محبوب قدم رکھتا تھا۔ وہ راہ ہی نصیب ہو جاتی۔ میں وہ ریت ہی بن جاتی۔ یااللہ مجھے ریت سا حقیر ہی بنا دیتا ۔۔ یا پھر۔۔
خاک ہوجاتا میں سرکارؐ کے قدموں کے تلے
خاک کو خاکِ مدینہ میں ملایا جاتا
یاپھر خاک ہی بنا دیا جاتا۔ وہ خاک جسے وہؐ چھو لیتے تو جھوم جھوم جاتی۔ وہ خاک جو رل جانے کو مچلتی۔ وہ خاک جو تڑپتی ہوئی اپنے اصل کو ڈھونڈنے لگتی۔وہ خاک جو مدینے کی پاک گلیوں میں سے گزرتے رب ِ کونین کے محبوب سرورِ کونینؐ کے قدموں کو چوم آتی۔
کاش اے کاش میں ہوتا کوئی ایسی لکڑی
جس کو سرکارؐ کے منبر میں لگایا جاتا
یا یوں ہی ایک درخت پر سے اتار کر اس منبر میں سجا دیا جاتا جہاں وہ محبوبِ دارینؐ خطاب دیتے تھے۔ ایسی لکڑی ہی بن جاتا جسے کے پاس سے گزرتے ان کے قدم یوں ہولے سے مجھ پر بھی آن پڑتے۔ میں تیرے محبوب کی گنہگار امتی ہوں اللہ۔ بہت ہی نیچ ذات ہوں۔ بہت ہی گندی اور بد بخت ہوں۔ مجھے تو کوئی لکڑی ہی بنا دیتا۔ میں تو انسان ہو کر بھی قدر گواہ بیٹھی۔ میں ایک خطا کار عورت۔۔۔ ایک خطا کار مرد کے لیے رل گئی۔ مجھے تو ان قدموں میں رولتا تو مزہ آتا۔ دل جو کرلاتا ہے وہ کلکاریاں مارتا۔
اللہ۔۔۔۔
بُن کے لے جاتا مجھے نعت کے شعروں میں کوئی
روبرو ان کے میں ان کو ہی سنایا جاتا
چلو کوئی اللہ کا بندہ مجھے اپنی نعت کا مقدس شعر ہی بنا لیتا ناں۔۔۔ میں اس قابل تو ہوتی کہ وہ اپنی مدح سرائی سے خوش ہو کر مجھے بار بار گنگناتے۔ وہ خود ان الفاظ کو ادا کرتے جن میں مجھے پرویا جاتا۔ وہ جو ایک بار دیکھ لیں تو بگڑی بن جائے۔ وہ جو سن لیتے تو کام ہی بن جاتا۔ وہ جو ادا کرتے تو سنور ہی جاتی۔ وہ جو ایک بارعطا کرتے تو کوئی چھین نہ سکتا۔
ان کے روضے کے دروبام سجانے کے لیے
روزنوں میں میری انکھوں کو لگایا جاتا
گھاس ہی ہوتا مدینے کے گلی کوچوں کی
اور سرکارؐ کے ناکے کو کھلایا جاتا
ہاہ۔۔۔ کیا قسمت تھی اس اونٹنی کی بھی۔ کیا ہی قسمت تھی۔ ۔ چلو میں وہ اونٹنی نہ سہی۔۔ اس کی خوراک ہی ہو جاتی۔ ہائے ری قسمت! مجھے اس دور میں ہی لےجا۔ میں ان کا دیدار تو کروں ۔ میں ان کے قدموں کی دھول تو بنوں۔
لایا جاتا سرِ دربار اسیروں کی طرح
حکم پر انؐ کے میں آزاد کرایا جاتا
ہوتا اس دور کا قصہ کوئی نور و فرحان
آج کے دور میں بچوں کو پڑھایا جاتا
وہ نعت سنا رہی تھی اور سب افطار کے وقت کی بھوک بھلائے صرف ایک ہستی کے لیے آنسو بہا رہے تھے۔ ایسی ہستی کہ جس کہ وجہ سے آدم وجود میں آئے۔ ایسی ہستی کہ جس کی وجہ سے دنیا وجہاں وجود میں آئے۔ اور پھر ایسی ہستی جس نے ہمیں کلمۂ حق دیا۔ ایسی ہستی جو شفاعت کرے گی۔ اور پھر اسلام۔۔۔
“تو جس شخص کو خدا چاہتا ہے کہ ہدایت بخشے اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہےاور جسے چاہتا ہے کہ گمراہ کرے اس کا سینہ تنگ اور گھٹا ہوا کر دیتا ہے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اپنے ماضی کے تصور سے ہراساں ہوں میں
اپنے گزرے ہوئے ایام سے نفرت ہے مجھے
وہ جو کافی دیر اپنے کمرے میں بند تھا اب خود سے الجھنے لگا تھا۔ ماضی کی یاد کبھی کبھار بے بس بھی کر دیا کرتی ہے۔ اور یہی حال اس وقت سجاول زمان کا تھا۔اسےخود سے شکوہ تھا۔ اسے ملال تھا اس بات کا کہ جان بوجھ کر خود کو تباہ کر ڈالا۔ وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ باہر اس وقت سب لوگ ڈھولکی بجاتے رک کر اب بھی ایک ہی شخص کو تلاش کرتے تھے۔ وہ جو سب فجر ، نمل اور اجر کو روتا دیکھ کر انہیں ہنسا رہے تھے خود اپنے گھر کی پہلی ہی شادی کے انجام سے خوف زدہ تھے۔ ہاں وہ غلط قدم رکھا گیا تھا۔ اس کی بنیاد ہی غلط تھی اور پھر جس کی وجہ سے وہ بنیاد رکھی گئی تھی وہ اب بھی کمرہ نشین رہنا زیادہ پسند کرتا تھا۔
“اوئے گدھے باہر کیوں نہیں نکل رہا؟” وہ کھڑکی کی طرف منہ کیے باہر کی آوازوں سے لا پرواہ سرخ آنکھیں لیے کھڑکی سے پار نظر آتے آسمان کو دیکھ رہا تھا جو اس وقت حویلی کی لائٹنگ کی وجہ سے روشن تھا۔ حبل نے اندر قدم رکھتے ہی بولنا شروع کر دیا تھا۔ وہ پھر بھی مڑ کر دیکھ نہ سکا۔دل اتنا ہی عجیب ہو رہا تھا۔
“سارا دن ہو گای بوتھی سُجا کر بیٹھا رہا ہے۔ یار آج عید تھی ۔ خوشی کا دن تھا۔ اب رات اس سے بھی زیادہ خوشی کی ہے کہ تو بہنوں کی ذمہ داری ادا کرنے جا رہا ہے۔ باہر اجّی آپی اور فجر اتنا رو رہی ہیں اور تو اندر بند ہے۔ شرم کر” جبل بھی وہیں چلا آیا تھا۔
“آرہا ہوں بس کچھ دیر میں” وہ بس اتنا ہی بولا۔
“مسئلہ کیا ہے سجاولے؟” وہ دونوں پریشان سےا س کی طرف بڑھےاور اس کی چئیراپنی طرف مو ڑ کر سامنے ہی فرش پر پھسکڑی مارے بیٹھ گئے۔
“یار دل خراب ہو رہا ہے۔” وہ منہ بناتا ہوا بولا۔
“میرا بھی ہوتا تھا۔ اب جب سے شادی کاسنا ہے دل بڑا ڈانس سا کر رہا ہے” حبل اس کی بات کو مزاح میں ٹال گیا۔
“بڑی ہی کوئی درجے کی چول ماری ہے ویسے” سجاول اس کی طرف دیکھتا ہوا بولا تو دونوں قہقہہ لگا کر ہنس دئیے۔ آج کل رنگ ڈھنگ ہی بدلے ہوئے تھے دونوں کے۔ یوں جم کے چکر لگتے تھے دن رات کہ اپنی نوکری بھی اتنی تند ہی سے انجام نہیں دی جا رہی تھی۔اس وقت بھی ایک سے سفید لٹھے کے کڑکڑاتے سوٹ کے ساتھ پیلے پٹکے گلے میں ڈالے ہلکی بڑھی ہوئی شیو لیے، بالوں کو رسم کے دوران لگائے جانے والے تیل کے باوجود ، وہ دونوں نظر لگ جانے کی حد تک پیارے لگ رہے تھے۔
” صحیح کہہ رہا ہے۔ تو بھی کروا لے شادی۔ اب ویسے بھی وہ چڑیل کے ساتھ تیرا گزارہ ہونا ہی نہیں۔ اچھا ہے تیرے بچے کو بھی پیدا ہونے سے پہلے ماں مل جائیگی اور تجھے بھی دل کی بے چینی کی دوا مل جائیگی۔”جبل بھی اس کے گھٹنے پر ہاتھ مارتا ہوا ہنس کر بولا۔ سجاول جو مسکرا رہا تھا کمر کووہیل چئیر کے ساتھ ٹکا کر انہیں دیکھنے لگا۔
“دیکھ لو ۔۔ بعد میں مُکر نہ جانا”وہ ذومعنی سے انداز میں بولا تو دونوں چونکے۔
“کیا مطلب؟” جبل نے ماتھے پر تیوری ڈال کر اسے دیکھا۔
“مطلب تو میرے سب تم لوگ سمجھتے ہی ہو” اب مسکرانے کی باری اس کی تھی۔وہ دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔
“تو جانتا ہے کہ بول کیا رہا ہے؟” حبل نے ابرو اچکا کر سوالیہ انداز میں اسے یوں دیکھا گویا وہ پاگل ہو چکا ہے۔
“ہاں میں جانتا ہوں۔ میں آج بھی وہیں اس لمحے میں اٹکا ہوا ہوں زمان فیملی! اس لمحے میں جب اس لڑ کی لیے ابا سے درخواست کی تھی۔ ابا کو لگا تھا میں اسے کھلونا سمجھ لوں گا۔ امی کو لگا تھا میں مذاق کر رہا ہوں۔ سب مجھے غلط سمجھ رہے تھے۔ آج بھی غلط ہی سمجھتے ہیں” وہ ضبط سے سرخ آنکھیں اور سپاٹ چہرہ لیے ہوئے بولا۔
“اصل بات پر آؤ سجاول زمان! ہمیں کہانیاں سننے کی عادت نہیں ہے یہ بات تم بہت اچھے سے جانتے ہو”جبل زمان ہمیشہ کی طرح جلد ہی غصے میں آگیا تھا۔حبل نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر تھپتھپایا۔
“میں معذور ہوں ابھی۔ ہمیشہ نہیں رہوں گا۔ میں ابھی محتاج ہوں ۔ ہمیشہ نہیں رہوں گا۔ میں بہت حد تک ری کور کر چکا ہوں۔ کیا اب بھی میں سزا کاحق دار ہوں کہ میں خود کو ایک مکمل انسان بنا کر اپنے نکاح کا پیغام بھیجنا چاہتا ہوں؟”
وہ ان دونوں کی طرف جھکتا ہوا آہستہ سے بولا۔وہ چپ تھے۔حبل سپاٹ چہرہ لیے بیٹھا تھا جبکہ جبل کی کشادہ پیشانی پر تیوری تھی۔
“میں جسمانی طور پر نہ سہی مگر روحانی طور پر تو اب غنویٰ بنتِ شیرزمان کے قابل ہوں ناں؟” وہ ایک آس لیے ان دونوں کی طرف دیکھ رہا تھا۔ جھکنے کی بدولت ٹانگ میں ایک دم اکڑاؤ آیا تھا جس کی وہاں کسی کو پرواہ نہ تھی۔ ہاں چہرے پر ایک دم تکلیف کی لہر سی واضح ہوئی جو ان دونوں بھائیوں سے پوشیدہ نہ رہ سکی۔ایک دوسرے کو کنکھیوں سے دیکھا اور اٹھ کھڑے ہوئے۔ وہ جو آس و امید سے دونوں کو دیکھ رہا تھا ٹھہر ہی گیا ۔ دل ایک دم سے یوں کرچی کرچی ہوا تھا کہ بیاں سے باہر تھا۔ وہ دسترس سے بہت دور تھی۔ بہت ہی دور۔ نہ تو آنکھیں بند ہوئی تھیں نہ سانس رکا تھا۔
عشق کی ایک منزل یہ بھی تو ہوا کرتی ہے جب فنا ہونے کے بعد معلوم پڑتا ہے کہ وہ سب تو خود فنا تھا۔ وہ کیسے مل سکتا تھا۔
تیری آرزو نے مجھ پر ـــ بڑے قہقہے لگائے
میری بے بسی نے مجھ پر بڑی تالیاں بجائیں
سر کو پیچھے گرائے وہ آنکھیں موند گیا جب قدموں کی چاپ بہت قریب سنائی دی۔
“بہت چاہ ہے کیا؟” آواز بہت پا س سے آئی۔آنکھیں یوں ہی موندے وہ اثبات میں سر ہلا گیا۔
“نکاح کا پیغام بھیجنا چاہتے ہو؟” یہ کیسا سوال تھا۔۔۔ وہ آنکھیں نہ کھول پایا کہ مقابل کی آنکھوں میں انکار دیکھنے کی ہمت نہ تھی۔کوئی بھی جواب دینے کی بجائے بس گہری سانس بھر کر رہ گیا۔ اچانک سے اس کا گریبان گردن پر تنگ پڑا تو اس نے پٹ سےکھول دیں ۔ وہ حبل تھا۔
“بے غیرت آدمی! یوں بھی کوئی نکاح کا پیغام بھیجا کرتا ہے؟ ہماری بہن اتنی ارزاں نہیں ہے۔ بھیجنا ہی ہے تو کسی بڑے کو بھیج”کالر جھٹکے اور ‘ہنہ’ کرتا باہر نکل گیا۔ جبل بس لب بھینچے اس کی شکل پر حیرت دیکھتا ، اپنی مسکراہٹ روکتا کھڑا رہا۔پھر آگے آیا اور اس کے اچھے خاصے گھنے اور بنے بنائے بالوں کو کھینچ کر چلا گیا۔وہ جو پہلے حیرت میں تھا اب اس فضول حرکت پر تپ گیا۔
“یہ کیا بے ہودگی ہے سالے” وہ تیوری چڑھائے بولا۔
“مت بھول کہ تو بھی میرا سالا ہے” جبل بھی اسی کی انداز میں اسے گھورتا ہوا کہنے لگا۔دونوں قہقہہ لگا کر ہنس دئیے تھے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“غنویٰ!!” وہ جو گجرے پہنتی دوپٹہ ٹھیک کرتی باہر کی جانب بڑھ رہی تھی، زہرہ بی کی سنجیدہ سی آواز پر ٹھٹھک کر رکیاور ان کی طرف دیکھنے لگی۔
“چائے بنا لاؤ میرے کمرے میں” اسے یوں ہی حیرانی میں چھوڑ کر وہ عصا کے سہارے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئیں۔
اس نے فٹافٹ دودھ گرم کیا، الائچی ڈالی اور بہت ہی ہلکی سی پتی ، بنا چینی کی چائے بنا کر ٹرے میں رکھی اور کچھ بسکٹس جو زہرہ بی کو بے حد پسند تھے اٹھا کر ان کے کمرے میں چلی آئی۔
گہرے سبز رنگ کے جامہ وار کا گھیردار فراک جس پر سنہرے نگوں سے دلکش کام کیا گیا تھا اور سنہرا ہی دوپٹہ کندھے پر ڈالے اور پیچھے سے لا کر دوسرے ہاتھ میں پکڑے، ہاتھوں میں موتیے کے گجرے ، صبیح پیشانی پر ایک سکے کے برابر جھومر لگائے کانوں میں سنہرے ہلکے سے جھمکے، بھورے کھلے ہوئے سلکی بال اور بہت ہی ہلکا سا میک اپ کیے وہ بہت ہی خاص لگ رہی تھی۔ زہرہ بی نے تو کیا، کسی نے بھی آج تک اس طرح سجے سنورے نہ دیکھا ہو گا۔ خاص کر اس کی شہد رنگ آنکھیں۔۔ وہ شہد رنگ آنکھیں اس سنہرے پن میں جگر جگر کر رہی تھیں۔ چہرہ اس وقت روشن ہوا پڑا تھا۔ اور وہ جانتی ہی کب تھی کہ روشنی تو اب اس کے مقدر میں تحفتاً لکھ دی گئی ہے۔ یہی تو رب کی عطا ہے۔
ان کے سامنے چھوٹا سا ٹیبل رکھ کر اس نے ٹرے رکھی اور ان کے ساتھ ہی بیٹھ گئی۔
“کیا ہوا زہرہ بی؟ طبیعت تو ٹھیک ہے ناں؟” ان کے ہاتھ تھام کر وہ بولی۔ اس کے اپنے ہاتھ ہمیشہ کی طرح ٹھنڈے ہی تھے۔ زہرہ بی مسکرا دیں۔
“تم اتنی ٹھنڈی ہو۔ جانتی ہو ٹھنڈے ہاتھوں والے کیا کہلاتے ہیں؟”
“بے وفا” اس کی صاف گوئی ان کو لاجوا ب کر گئی۔
“تو کیا یہ سچ ہے؟” انہوں نے شرارت سے پوچھا۔
“یہ تو آپ ہی بتاسکتی ہیں۔ مجھے ایک سال ہونے کو ہے ناں یہاں۔۔۔ آپ تو جانتی ہی ہوں گی اب مجھے۔ “وہ مسکرا کر بولی۔
“بھئی میں تو تم سے پوچھ رہی تھی” اس کا ہاتھ تھپکتے ہوئے وہ بولیں تو اس نے صرف ہلکا سا مسکرانے پر اکتفا کیا۔
“بیٹا بات کچھ یوں ہے کہ تمہارے لیے نکاح کا پیغام آیا ہے۔ ” وہ جو ٹرے سے جھک کر کپ اٹھا نے لگی تھی، ٹھہر گئی۔ کندھے سے پھسلتے بھورے بال اس کے چہرے کو چھوتے بہت ہی پیارا ساتاثر دے رہے تھے۔
کپ اٹھا کر ان کی طرف بڑھایا۔ اب چہرے سے مسکراہٹ غائب تھی ۔
“یہ پیغام تمہاری ماں بھی تم تک پہنچا سکتی تھی مگر میں اس لیے لائی ہوں کہ میں دیکھنا چاہتی ہوں میری بیٹی کیسے انکار کرتی ہے اور اگر اقرار کرتی ہے تو بھی دیکھوں کہ کس تمکنت سے کرتی ہے”کپ پکڑ کر گرم بھاپ اڑاتی پھیکی چائے کی چسکی سی لیتی ہوئیں وہ گویا ہوئیں۔وہ اب بھی خاموش ہی تھی۔
“تمہیں انکار کا پورا حق ہے غنویٰ بیٹا!” اس کا ٹھنڈا ہاتھ تھپتھپاتے ہوئے وہ بولیں۔
“جیسے آپ چاہیں “وہ بس اتنا ہی بول پائی۔
” دیکھو! لڑکا بہت اچھا ہے۔ اپنا کماتا ہے۔ آج کل ذرا مشکل میں ہے۔ مگر کچھ ہی وقت میں سنبھل جائیگا۔ عقلوں والا ہے ماشاءاللہ۔ مگر کبھی کچھ دماغ سے فارغ حرکتیں کر جاتا ہے۔ نظر انداز کر جاؤ گی تو گھر اچھا چلے گا۔ ویسے بھی میری دھی ہے ہی اتنی سیانی” اس کی پیشانی پر بوسہ دے کر وہ مسکرا دی تھیں۔ اور وہ حیرانی سے ان کو دیکھ رہی تھی۔ وہ تو سبھی کچھ سوچے بیٹھی تھیں۔
“ابھی کچھ دیر میں عشاء کی نماز ادا کرنے کے بعد ہم نے اس فرض سے بھی فارغ ہو جانا ہے۔ “وہ بڑے مزے سے چائے کی چسکیاں لے رہی تھیں۔
“ابھی تو آپ کہہ رہی تھیں کہ مجھے انکار کا پوار حق ہے”وہ سوالیہ انداز میں ابرو اچکاتے ان کو دیکھنے لگی۔
“ہاں تمہیں لڑکے سے بات چیت سے انکار کا پورا حق ہے”وہ بڑے آرام سے پاؤں پسار کر بولیں اورخالی کپ اس کو پکڑا دیا۔
“تو مجھے بتایا ہی کیوں۔ وہیں بٹھا کر کروا دیتیں نکاح۔”اس نے منہ بنایا۔
“ہائےےےے۔۔۔ ہے ناں؟ کتنی اچھی بات کی ہے۔ یہی پہلے ذہن میں آجاتا “وہ افسوس کے سے انداز میں کہہ کر سیدھی ہوئیں تو اچھی خاصی جلی بیٹھی غنویٰ نے پاؤں واپس کھسے میں قید کیے۔
“بات سنو!”وہ اٹھ کر جانے لگی تو انہوں نے کلائی سے پکڑ کر پھر سے بٹھایا۔
“سجاول زمان نے نکاح کا پیغام بھیجا ہے۔”وہ جو بڑی گردن اکڑائے بیٹھی ناراضی دکھا رہی تھی ایک دم تھمی۔ان کو حیرت سے دیکھتے ہوئے وہ بھول چکی تھی کہ اس وقت وہ جس کیفیت میں ہے ، سامنے زہرہ بی ہیں جو بے انتہا زیرک نگاہ ہیں۔
“کیا کہوں میں پھر باہر جا کر؟” وہ لب کھولے ان کو دیکھ رہی تھی۔
“زہرہ بی میں۔۔۔”
“دیکھو بیٹا! مانتی ہوں میرے پوتے نے بہت سی غلطیاں کی ہیں۔ شاید بلا واسطہ یا بالواسطہ تم سے بھی گستاخی کر گیا ہو۔ اب ایک اولاد کا باپ بھی ہونے والاہے یہ ایک دو ماہ میں۔ میں سمجھتی ہوں کہ سجاول زمان کو بھی کوئی اور غنویٰ مل سکتی ہے۔ غنویٰ کو بھی کوئی سجاول زمان مل جائے گا۔ مگر اس بچے کو نہ تو سجاول زمان جیسا باپ اور کہیں ملے گا نہ ہی غنویٰ جیسی ماں کہیں میسر آئے گی۔تم سمجھ رہی ہو ناں؟ ” اس کی بات کاٹ کر وہ اپنی کہنے لگی تھیں۔ وہ بےشک کوئی انکار کرنے والی تھی بھی نہیں مگر دلیل سے اسے قائل کرنا وہ اچھے سے جانتی تھیں۔ اس کی جھجک کیسے دور کرنی ہے وہ جانتی تھیں۔
“دراصل میں اس وقت خود غرض بھی ہو رہی ہوں۔ میں نہیں چاہتی میرا خون ایسے ہاتھوں میں پلے جن کی لکیروں میں ہوش مندی نہ ہو۔ جیسے اس لڑکی میں نہیں تھی۔ اور میں اپنے پوتے کے لیے بہت عرصے سے سوچے بیٹھی تھی تمہیں۔ جس دن سے دیکھاتھا اسی دن سے۔ بس قدرت نے کھیل ہی ایسا کھیلا کہ کہانی کے تانے بانے جو میں نے بُنے تھے وہ بکھر کر رہ گئے۔ اب بس ایک ہیخواہش ہے۔ اور وہ ہے سجاول کے بچے کو تمہرے ہاتھوں میں پلتا ہوا دیکھنا۔ میرا سجاولا بڑا کچھ جھیل چکا ہے۔ اب مزید تکلیف نہیں دے سکتی میں اسے۔ بس سمجھ لو اس کی ماں بن کر تم سے فریاد کر رہی ہوں” وہ ہاتھ جوڑنے لیں تو غنویٰ نے فوراً سے ان کے دونوں ہاتھوں کو مضبوطی سے پکڑ لیا۔
“جانتی ہیں سب سے اچھا جذبہ کیا ہے؟ ” ان کے تھامے ہوئے ہاتھ ہلکے سے دبا کر وہ بولی تو انہوں نے نف میں سر ہلا دیا۔
“جب آپ کی ایسی دعا جوآپ کے اور اللہ کے درمیان راز ہوتی ہے ، قبول ہو جائے۔ ایسی دعا جس کے لیے آپ کے آنسو قبول ہو جائیں۔ایسا راز جس کا محرم آپ کا رب ہو، مکمل ہو جائے تو وہ جذبہ سب جذبات سے معتبر ہوتا ہے زہرہ بی!” ان کی طرف دیکھتے ہوئے پہلی بار اس نے اس نے اپنی کیفیت کھل کر بیان کی تھی۔ اسے لگا وہ سمجھ جائیں گی وہ کہنا کیا چاہ رہی ہے۔
“اور مجھے میرا وہ راز بہت عزیز ہے زہرہ بی”ان کے ہاتھ واپس ان کی جھولی میں رکھتی وہ ہولے سے مسکرا دی۔
اور زہرہ بی اتنی تو سمجھ رکھتی ہی تھیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...