(Last Updated On: )
میں بُرا ہوں مجھے اچھا مت کہہ
جو نہیں دل میں سو ویسا مت کہہ
لُٹ چکا ہوں سرِ بازارِ خرد
میری حالت کو تماشا مت کہہ
اور جی لینے کی اُمید ہے کچھ
دیکھ ویرانی کو دنیا مت کہہ
تیری رسوائی مِری رسوائی !
مجھ سے دیوانے کو اپنا مت کہہ
میرے لہجے کا بجھا پن پہچان
میری حسرت کو تمنا مت کہہ
میں ہوں اِک محفلِ صد حیرانی
ہوں اکیلا مجھے تنہا مت کہہ
میری خاموشی کو اظہار نہ جان
بے زبانی کو اِشارہ مت کہہ
اشک ہے یوں کہ کچھ اُمید تو ہے
اسے اک شب کا ستارہ مت کہہ
تو بھی اسلمؔ کو غلط ہی سمجھا
اک خطر کار کو دانا مت کہو
٭٭٭