(Last Updated On: )
میں بھی کتنا سادہ مزاج تھا کہ یقیں گمان پہ کر گیا
کسی آس پر، کسی یاس میں کبھی جی اٹھا کبھی مر گیا
چلو یار وعدہ نواز سے کسی روز جا کے پتہ کریں
وہ جو اس کے در کا اسیر تھا، اسے کیا ہوا، وہ کدھر گیا
وہ شب عجیب گزر گئی، سو گزر گئی مگر اس طرح
کہ سحر کا آئینہ دیکھ کر میں تو اپنے آپ سے ڈر گیا
تری آس کیا، کہ ہے ابر کا تو ہوا کے رخ سے معاملہ
جو سنور گیا تو سنور گیا، جو بکھر گیا تو بکھر گیا
میری رہگزار میں رہ گئی یہی باز گشت صداؤں کی
کوئی بے نمود سا شخص تھا وہ گزر گیا، وہ گزر گیا
ہوئے منکشف مری آنکھ پر کئی اور زاویے دید کے
کوئی اشک ضبط اگر کبھی پس چشم آ کے ٹھہر گیا
٭٭٭