میں باولی ہوں تیری
تو جان ہے نہ میری
بس پیار ہی ہے مانگا
کس بات کی ہے دیری
میں باولی ہوں تیری
تو جان ہے نہ میری
بس پیار ہی ہے مانگا
کس بات کی ہے دیری
آ جا چل تو
میرے ساتھ یارا چل تو
یہ رات کبھی نہ آوےُ آوےُ
جو آکھ لڑ جاوے
ساری رات نیند نہ آوےُ
مینوں بڑا تڑپاوے
دل چین کہیں نا پاوے
موسیقی کی دھن کے ساتھ سب رقص کر رہے تھے۔
یہ مشہور کلب میں سے ایک تھا۔
وہ وسط میں رقص کرتی لڑکی کے اشارے پر چلتا آیا تھا۔
وہاں موجود تقریباً ہر انسان ڈانس فلور پر کھڑا تھا۔ چند ایک تھے جو بار ٹینڈر کے سامنے بیٹھے تھے۔
وہ گرے پینٹ کے ساتھ وائٹ شرٹ اور اس پر بلیک جیکٹ پہنے ہوۓ تھا۔
بال سائیڈ سے ہلکے کروا رکھے تھے اور وسط سے جیل لگا کر کھڑے کر رکھے تھے۔
صاف رنگت پر بڑھی ہوئی شیو, اور اس کی مونچھیں جنہیں وہ تفاخر سے موڑتا۔
وہ لڑکی اسے شرٹ سے پکڑ کر چلنے لگی۔
وہ نشے میں مدہوش اس کے ساتھ کھینچا چلا جانے لگا۔
کمرے کا دروازہ بند کر کے وہ لڑکی وائز کے پاس آ گئی۔
“بہت خوبصورت ہو تم۔”
وہ اس پر جھکتی ہوئی بولی۔
شراب کے نشے کے باعث وائز کی آنکھیں بار بار بند ہو رہی تھیں۔
“پھر دور کیوں ہو؟”
وہ اسے خود پر گراتا ہوا بولا۔
کھڑکی سے باہر جھانکیں تو رات گہری ہو رہی تھی۔
سرد موسم کی یخ بستہ رات۔ ہر شے کو منجمد کر رہی تھی۔
کھڑکی سے پردہ سرک کر ایک طرف کو ہوا پڑا تھا۔
سورج کی کرنیں شیشے سے اندر آ رہی تھیں۔
تاریکی کی جگہ اجالا لے رہا تھا۔
وہ اوندھے منہ بیڈ پر پڑا ہوا تھا۔
اسی لحظے وائز کا فون شور مچانے لگا۔
“کسے تکلیف ہوئی ہے؟”
وہ بڑبڑاتا ہوا ہاتھ مارنے لگا۔
اسکرین پر جینی کا نام جل بجھ رہا تھا۔
“ہیلو؟”
وہ فون کان سے لگاتا ہوا بولا۔
“بے بی کہاں ہو تم؟ میں پورے ڈیپارٹمنٹ میں تمہیں ڈھونڈ رہی ہوں؟”
وہ خفگی سے بولی۔
“بےبی میں سو رہا تھا۔”
وہ جمائی لیتا ہوا بولا۔
وائز کی آواز پر اس کے ہمراہ سوتی صبا کی آنکھ کھل گئی۔
“تم کسی لڑکی کے ساتھ ہو؟”
اس نے خدشہ ظاہر کیا۔
صبا مسکراتی ہوئی اس کے سینے پر سر رکھ کر لیٹ گئی۔
“بلکل بھی نہیں۔”
صاف گوئی سے جھوٹ بولا گیا۔
“اچھا پھر کب تک آؤ گے تمہارے بغیر میرا دل نہیں لگتا۔”
وہ بولتی ہوئی ٹہلنے لگی۔
“بے بی بس میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں۔”
وہ صبا کو دیکھتا ہوا بولا جو اس کے سینے پر انگلیاں چلا رہی تھی۔
اس کا بدن شرٹ سے بےنیاز تھا۔
“اوکے میں ویٹ کر رہی ہوں آ جاؤ۔”
اس نے کہتے ہوۓ فون بند کر دیا۔
“ڈارلنگ تمہارا ٹائم ختم اب مجھے جانا ہے۔”
وہ اسے پرے کرتا ہوا بیڈ سے اتر گیا۔
“پھر کب آؤ گے؟”
وہ انتہائی نازیبا لباس زیب تن کئے ہوۓ تھی۔
وہ شرٹ اٹھا کر پہننے لگا۔
“پہلے اپارٹمنٹ پھر یونی… ”
وہ اسے نظر انداز کر کے بولتا ہوا کمرے سے باہر نکل آیا۔
~~~~~~~~~
وہ بس سٹاپ پر کھڑی تھی۔
سادہ سی شلوار قمیض پہنے چادر اپنے گرد لپیٹ رکھی تھی۔
وہ سانولی رنگت کی مالک تھی, گھنی پلکیں آنکھوں کے آگے حائل تھیں, مسکراتی تو نظریں ہٹانا کٹھن ہو جاتا۔
“ہاں مشل میں بس راستے میں ہوں تم میرا انتظار کرنا۔”
وہ فون کان سے لگاےُ بولتی ہوئی بس میں سوار ہو گئی۔
آج وہ کلاس میں لیٹ پہنچی۔
وائز اپنے گروپ کے ہمراہ بیٹھا تھا جب خوبصورت سی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی۔
“سوری سر… ”
وائز کی جانب اس کی پشت تھی۔
وہ فیڈی کے سر پر ہاتھ رکھ کر اسے پرے کرتا آنکھیں سکیڑے دیکھنے لگا۔
“یہ کون ہے؟”
وہ ابھی تک دیکھ نہیں پایا تھا اسے۔
“ہو گی کوئی غریب مسکین… ”
فیڈی نے ہانک لگائی۔
وہ لب دانتوں تلے دباتا اسے دیکھ رہا تھا جو اب مڑنے والی تھی۔
اس کی جھکی پلکیں اٹھیں اور ان کے پہرے میں موجود سیاہ بڑی بڑی آنکھیں دکھائی دیں جو خیرہ کرنے کو بہت تھی۔ بلاشبہ اس میں بلا کی کشش تھی۔
“انٹرسٹنگ….”
وہ سر تا پیر اس کا جائزہ لیتا ہوا بولا۔
“تمہیں کیا اس سے؟”
جینی اس کے شانے پر مکہ رسید کرتی ہوئی بولی۔
اب وہ کلاس ختم ہونے منتظر تھا۔
“تم لوگ چلو میں آتا ہوں۔”
وہ مسکراتا ہوا چلنے لگا۔
زرش اپنے نوٹس بنانے میں محو تھی۔
“مجھے تم سے کام ہے ایک۔”
وہ کہتا ہوا اس کے ساتھ بیٹھ گیا۔
وہ اچھل کر کھڑی ہو گئی۔
“یہ کیا بدتمیزی ہے؟”
کلاس تقریباً خالی ہو رہی تھی۔
“بدتمیزی کیسی؟ ابھی تو میں نے کچھ کیا ہی نہیں؟”
وہ دلچسپ نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔
“زرش ہم باہر چل کر نوٹس بناتے ہیں۔”
عقب سے ہادی کہتا ہوا سامنے آیا۔
وائز گردن بائیں جانب جھکاتا ناگواری سے اسے دیکھنے لگا۔
اسے جیسے مداخلت پسند نہیں آئی۔
وہ اپنی چیزیں اٹھا کر تیز تیز قدم اٹھانے لگا۔
وہ جیب سے سیگرٹ اور لائٹر نکال کر جلانے لگا۔
“مزہ آےُ گا۔”
وہ بڑبڑاتا ہوا باہر نکل آیا۔
~~~~~~~~
“امی آپ رہنے دیں میں آ گئی ہوں نہ کر لوں گی۔”
زرش دروازہ بند کرتی ہوئی بولی۔
“تم نے پڑھائی بھی تو کرنی ہوتی ہے نہ…میں کر لوں گی۔”
وہ کچن میں داخل ہوتی ہوئی بولیں۔
“امی ڈاکٹر نے آپ کو منع کیا ہے نہ پھر آپ کے گھٹنوں میں درد ہونے لگے گا جائیں کمرے میں آرام کریں۔”
وہ صحن میں بچھی چارپائی پر اپنا بیگ پھینکتی ہوئی بولی۔
“تم مجھے نہ کچھ کرنے دینا۔”
وہ خفگی سے دیکھتی ہوئی بولیں۔
زرش دوپٹہ رکھتی منہ دھونے چلی گئی۔
کام نمٹا کر وہ اپنے کمرے میں آ گئی۔
“یہ وائز میرے پاس کیوں آیا تھا؟”
کتاب سامنے کھلی تھی لیکن دماغ الجھا ہوا تھا۔
“یا ﷲ ایسے لوگوں سے بچانا مجھے۔ پتہ نہیں کون سا کام تھا اسے مجھ سے۔”
وہ نا چاہتے ہوۓ بھی اسی کے بارے میں سوچنے لگی۔
“ایک نمبر کا تو لفنٹر ہے کیا بھروسہ اس کا۔”
وہ سر جھٹکتی کتاب کے صفحے الٹنے لگی۔
~~~~~~~~
“جی بابا سائیں بولیں؟”
وہ فون کان سے لگاتا ہوا بولا۔
“ہم سوچ رہے ہیں اس بار الیکشن میں تم کھڑے ہو جاؤ۔”
بھاری آواز اسپیکر پر ابھری۔
“اپنی سیاست سے مجھے دور ہی رکھیں۔ بعد میں بندہ نیوز کی ہیڈ لائن ہی بنا رہتا ہے مجھے ابھی اپنی زندگی جینے دیں۔”
وہ منہ بناتا ہوا بولا۔
“ہم چاہ رہے ہیں تمہارا مستقبل سنور جاےُ اور تم ہو کہ اپنے ہی دشمن بنے ہو۔”
وہ خفگی سے بولے۔
“اچھا میں کل آؤں گا پھر بات کریں گے۔”
وہ شراب کا گلاس اوپر کر کے دیکھنے لگا۔
“فیڈی.. آ مل کر پیتے ہیں۔”
وہ فون بند کرتا ہوا بولا۔
فیڈی اس کے سامنے بیٹھا کش لے رہا تھا۔
اس وقت وہ ٹی شرٹ کے ساتھ ٹراؤذر پہنے ہوۓ تھا۔
“یار مجھے جینی کی بہن پسند آ گئی ہے۔”
وہ شراب اندر اتارا ہوا بولا۔
“تو نے کہاں دیکھ لی؟”
وہ سرمئی دھواں اڑاتا ہوا بولا۔
“غلطی سے نظر آ گئی کیا ظالم شے ہے… خدا نے بڑی فرصت سے بنایا ہے اسے۔”
اس پر نشہ طاری ہو رہا تھا۔
“میں جینی کے فون سے نمبر لے سکتا ہوں لیکن مجھے رات والی صبا کے ساتھ ڈیٹ کروا دے۔”
وہ آبرو اچکا کر بولا۔
“جا عیش کر… مجھے اس کی ضرورت نہیں کوئی اور ہونی چائیے آج۔”
وہ بالوں میں ہاتھ پھیرتا ہوا کھڑا ہو گیا۔
“چل باہر چلتے ہیں کوئی نہ کوئی تو مل ہی جاےُ گی۔”
وہ بھی کھڑا ہو گیا۔
“ایسے ہی چلتے ہیں چینج نہیں کرنے والا میں۔”
وہ چابیاں اٹھاتا ہوا بولا۔
“یار ویسے یہ جو چھوٹے گھر کی لڑکیاں ہیں نہ بڑا بہترین مال ہوتی ہیں۔”
وائز تبصرہ کرتا فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گیا۔
وہ دونوں چلتے ہوۓ مال کے اندر آ گئے۔
دونوں کی نگاہیں لڑکیوں کی تلاش میں تھیں۔
بلآخر انہیں لڑکیوں کا ایک گروپ نظر آ گیا۔
“فیڈی شرط لگا وہ بیچ والی تیرے بھائی کے پاس خود چل کر آےُ گی۔”
وہ شیشے کے سامنے کھڑا بال بناتا ہوا بولا۔
اس رف سے حلیے میں بھی وہ دلنشین لگ رہا تھا۔ نشے کے باعث اس کی آنکھوں میں مدہوشی دکھائی دیتی ہمیشہ۔
وہ دونوں ان سے کچھ فاصلے پر بیٹھ گئے۔
“یار اب امی کو کیا مسئلہ ہے؟”
وہ فون نکالتا جھنجلا کر بولا۔
اس کی شخصیت کا سحر یہ تھا کہ وہ لڑکیاں اسے ہی نوٹس کر رہی تھیں۔
وہ فون پے بات کرتا اس بیچ والی لڑکی کو دیکھنے لگا۔ جو وقتاً فوقتاً اس پر نگاہ ڈال رہی تھی۔
وہ مسکراتا ہوا نظروں کا زاویہ موڑ گیا۔
“یار وہ لڑکا دیکھ؟”
وہی بیچ والی لڑکی بولی۔
“ہے تو بہت ڈیشنگ… نمبر لے لیتے ہیں۔”
اس کے ساتھ والی بولی۔
“میں لوں گی نمبر..”
وہ کہتی ہوئی وائز کی جانب بڑھنے لگی۔
وہ لڑکی سیاہ جینز کے ساتھ بلیو شرٹ پہنے ہوۓ تھی, چہرہ میک اپ سے دمک رہا تھا۔
وائز کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی۔
وہ اس کے سر پر آ کھڑی ہوئی۔
“ایکسکیوز می؟”
وہ آہستہ سے بولی۔
وہ فون کان سے تھوڑا سا پیچھے کرتا اسے دیکھنے لگا۔
“یس؟”
اپنی آنکھیں اس کی آنکھوں میں ڈالتا ہوا بولا۔
“لانگ ڈرائیو پر چلو گے؟”
وہ آبرو اچکا کر بولی۔
وائز اوپر سے لے کر نیچے تک اسے دیکھنے لگا۔
“فیڈی میرا اپارٹمنٹ تیرے سپرد ہے آج۔”
وہ فون جیب میں ڈالتا ہوا بولا۔
وہ لڑکی اپنی سہیلیوں کو اشارہ کرتی وائز کے ہمراہ چلنے لگی۔
“ڈرنک؟”
وہ گاڑی میں بیٹھتا ہوا بولا۔
اس کی گاڑی ہمہ وقت ڈرنک موجود ہوتی۔
“نو تھینکس… ”
اس نے سہولت سے انکار کر دیا۔
وہ شانے اچکاتا پینے لگا۔
وہ گاڑی سٹارٹ کر کے سڑک پر نکل آیا۔
گاڑی فل سپیڈ میں سنسان سڑک پر دوڑ رہی تھی۔ ہر شے پیچھے چھوٹتی جا رہی تھی۔
وہ لڑکی وائز کے چہرے پر انگلی پھیر رہی تھی۔
“واٹ دا… ”
وہ سامنے سے آتے ٹرک کو دیکھتا گاڑی سائیڈ پر کرنے لگا۔
وہ دونوں اس اچانک افتاد پر بوکھلا گئے۔
گاڑی کھائی کے دہانے پر کھڑی تھی۔
“اب کیا؟”
وہ گھبرا کر وائز کو دیکھنے لگی۔
“ہلنا مت۔”
اس کا نشہ اتر چکا تھا۔
یہ پہلی بار نہیں ہوا تھا اس کے ساتھ اس لئے وہ خاصا مطمئن نظر آ رہا تھا۔
“مجھے نہیں مرنا.. ”
وہ لڑکی رو دینے کو تھی۔
“ریلیکس کچھ نہیں ہوگا۔”
وہ جیب سے سیگرٹ نکالتا ہوا بولا۔
وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے اسے دیکھنے لگی۔
ہر سمت اندھیرا تھا۔
وہ شہر سے دور نکل آےُ تھے۔
اندھیرے میں گنگناتی موت رونگٹے کھڑے کرنے کو بہت تھی لیکن وائز کی پیشانی پر ایک شکن تک نہ تھی۔
وہ آرام سے سیگرٹ پینے میں محو تھا۔
“تم اتنا لائٹ کیسے لے سکتے ہو؟ اگر گاڑی نیچے گر گئی؟ ہمارا کچھ نہیں بچے گا۔”
وہ آنکھوں پر ہاتھ رکھتی ہوئی بولی۔
“اینجواےُ کرو نہ میرے ساتھ تم بھی۔”
وہ اس کی بازو پکڑ کر اپنی جانب کھینچتا ہوا بولا۔
“یہ وقت اینجواےُ کرنے کا نہیں ہے۔”
وہ روتی ہوئی بولی۔
وائز اسے دیکھ کر ہنس رہا تھا۔
“ٹھیک ہے دس منٹ سکون سے مجھے دے دو۔ میں تمہیں نکال لوں گا یہاں سے… ”
وہ اس کے رخسار کو چھوتا ہوا بولا۔
وہ دم سادھے اسے دیکھنے لگی۔
“مجھے لگتا ہے میں نے بہت بڑی غلطی کر دی تمہارے ساتھ آکر… ”
وہ ہچکیوں سے بولی۔
“میرا اصول ہے میں زبردستی نہیں کرتا۔ جتنا تم میرے پاس آؤ گی میں بھی اتنا ہی پاس رہوں گا۔”
وہ ذومعنی انداز میں بولی۔
“نارمل حالات کی بات اور ہوتی ہے لیکن یہاں اس طرح؟”
وہ الجھ گئی۔
“جو مزہ یہاں ہے اور کہاں؟”
وہ قہقہ لگاتا ہوا بولا۔
“ٹھیک ہے دس منٹ۔”
وہ اسے دیکھتی ہوئی بولی۔
اس کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ رینگ گئی۔
~~~~~~~~
“مشل یہاں بیٹھتے ہیں…”
وہ گھاس پر کتابیں رکھتی ہوئی بولی۔
“ہاں سردیوں کی دھوپ اچھی لگتی ہے۔”
وہ بولتی ہوئی اس کے ساتھ بیٹھ گئی۔
“یار کل وہ وائز آیا تھا تمہارے پاس؟”
وہ رازداری سے بولی۔
“ہاں پتہ نہیں کیوں…”
وہ کہتی ہوئی رجسٹر پر جھک گئی۔
وہ سفید رنگ کی کاٹن کی شلوار قمیص پہنے ہوۓ تھا۔
مغرورانہ چال چلتا ہوا وہ جا رہا تھا۔
آنکھوں پر سیاہ گاگلز لگا رکھے تھے۔
“یہ دیکھو یہ نوٹس کل میں نے نیٹ سے نکالے تھے۔”
زرش سر جھکاےُ بول رہی تھی۔
“ہاےُ وائز؟”
صفا اس سے ہاتھ ملاتی ہوئی بولی۔
“ہیلو؟”
وہ مسکراتا ہوا بولا۔
صفا عبایا پہنے, چہرے پر نقاب کئے ہوۓ تھی۔
وائز اس کا ہاتھ پکڑے بینچ پر بیٹھ گیا۔
“کل تم نظر نہیں آےُ؟”
وہ اس کے ساتھ بیٹھتی ہوئی بولی یوں کہ دونوں کے شانے ایک دوسرے سے مس کر رہے تھے۔
“تم شاید مصروف تھی۔”
وہ طنزیہ بولا۔
بولتے بولتے اس کی نظر زرش پر جا ٹھہری۔
ہاتھ میں پکڑے پین کو گھماتے ہوۓ وہ رجسٹر کو گھور رہی تھی۔
“میں کتنا ہینڈسم ہوں؟”
وہ کھوےُ کھوےُ انداز میں بولا۔
“اتنے کہ… الفاظ ختم ہو جاتے ہیں۔”
وہ جینی کو اشارہ کرتی ہوئی بولی۔
سامنے سے جینی اور فیڈی چلے آ رہے تھے۔
“سعد کہاں غائب ہے؟”
وائز زرش سے نظریں ہٹاتا ہوا بولا۔
“لاہور گیا ہے اپنی پھوپھی کی بیٹی کو منانے۔”
جینی اس کے سامنے آتی ہوئی بولی۔
“آج میں حویلی جا رہا ہوں جینی تم بھی چلنا میرے ساتھ۔”
وہ کھڑا ہوتا ہوا بولا۔
“ابھی؟”
وہ خوشگوار حیرت میں مبتلا ہو گئی۔
“ہاں میں سوچ رہا ہوں کچھ دیر میں نکل جائیں۔”
وہ ہاتھ پر بندھی گھڑی دیکھتا ہوا بولا۔
“تو نے تو کہا تھا آج میرے گھر پر رات کا پلان کریں گے؟”
فیڈی گھورتا ہوا بولا۔
“یار وہ چاچو نے پارٹی رکھی ہے اب کیا کر سکتے ہیں؟”
وہ شانے اچکاتا ہوا بولا۔
“یہ بتا رات بچ گئے تم؟”
یہ خیال بجلی کی سی تیزی سے اس کے دماغ میں کوندا۔
“جانی پہلی بار نہیں ہوا یہ… ”
وہ قہقہ لگاتا ہوا بولا۔
“تمہیں نجانے ڈر کیوں نہیں لگتا۔”
جینی جھرجھری لیتی ہوئی بولی۔
“مشل میرا تمہیں یہی مشورہ ہے کہ تم انکار کر دو؟”
زرش پین بند کرتی ہوئی بولی۔
“یار وہ میری بہت عزت کرتا ہے۔ مجھ سے محبت کرتا ہے پھر؟”
وہ متفکر سی اسے دیکھنے لگی۔
“مرد ذات کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔ کب وہ انسان سے حیوان بن جاےُ پتہ نہیں چلتا۔ اور ایک مثال اگر وہ تمہارے ساتھ کچھ غلط کرنے کی کوشش کرے پھر تم کیا کرو گی؟ یہ ڈیٹ پر صرف وہی لوگ جاتے ہیں جنہیں اپنی عزت کی پرواہ نہیں ہوتی۔ اور ایک بات یاد رکھنا جو تمہیں عزت دے گا وہ کبھی اس طرح ڈیٹ پر نہیں بلاےُ گا۔”
وہ تاسف سے دیکھتی ہوئی بولی۔
“اس پر یقین تو ہے لیکن ڈر تو مجھے بھی لگ رہا ہے اگر کچھ غلط ہو گیا پھر؟”
وہ انگلی دانتوں تلے دباتی ہوئی بولی۔
“میرا مشورہ مانو تو انکار کر دو.. اس سے سیدھی بات کرو کہ گھر رشتہ بھیج دے نکاح کر لو پھر جب مرضی مل لینا۔”
وہ آسان حل پیش کرتی کھڑی ہو گئی۔
“تم کہاں؟”
وہ چہرہ اٹھا کر اسے دیکھنے لگی۔
“میڈم کلاس کا ٹائم ہو گیا ہے چلو۔”
وہ بلند آواز میں بولی۔
اس کے عقب سے گزرتا وائز چہرہ موڑ کر اسے دیکھنے لگا۔
وہ دونوں ان کی مخالف سمت میں چلتی جا رہی تھیں۔
“وائز پہلے میرے گھر چلتے ہیں۔”
جینی گاڑی میں بیٹھتی ہوئی بولی۔
“اوکے۔”
وہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھتا ہوا بولا۔
آج اس کے پاس لینڈ کروزر تھی۔ ہر ہفتے اس کی گاڑی بدل جاتی تھی۔
“تم بیٹھو میں آتی ہوں۔”
وہ اسے لاؤنج میں بٹھاتی چلی گئی۔
وائز عینی کی تلاش میں چلنے لگا۔