ممدو کے بھائی کو فوت ہوئے آٹھ مہینے گزر چکے تھے اور اس کی بھابی شمی بیوہ ہو گئی تھی۔ وساکھی رُت تھی۔ ممدو اپنے کھیتوں میں ہل چلا رہا تھا۔
میں آج اپنے گھر والوں سے کہہ دوں گا کہ میں شمی سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ اب موقع ہے اب، وہ ویسے بھی بیوہ ہو گئی ہے۔ گھر کی شرم گھر میں رہ جائے گی۔ کنویں کی مٹی کنویں کو لگ جائے گی۔۔ ۔ اوئے لاکھا کہاں مرنے جا رہے ہو!ہاں اب ٹھیک ہے۔ شاباش! تم بہت سمجھدار بیل ہو۔۔ ۔ اگرچہ شمی کا ایک بیٹا بھی ہے۔ میں پھر بھی اس سے شادی کرنے کے لیئے تیار ہوں۔ میں اس کے بیٹے کو اپنے بیٹوں کی طرح سمجھوں گا۔ اسے بھائی جان سے شادی کئے یہی کوئی تین چار سال گزرے ہوں گے۔ یہ میری اپنی غلطی ہے۔ جس وقت بھائی جان کی شمی سے منگنی کی بات چل رہی تھی۔ تو اس وقت میں اپنے منہ میں بوری ٹھونسے سب کچھ دیکھتا رہا۔ پورے سات مہینے تک اماں شمی کے گھر آتی جاتی رہی۔ اس وقت مجھے کسی طرح سے اماں کو سمجھا دینا چاہیے تھا کہ میں شمی کو چاہتا ہوں۔ میرے لئے اس کا رشتہ مانگنے جاؤ۔ پر میں چپ رہا، بیل کی طرح۔ میں بہت بزدل ہوں۔ میں گھر والوں کے سامنے نہیں بول سکتا۔
خربوزے بونے کا موسم سر پر آ گیا ہے۔ میں آج عصر تک کام کروں گا۔ ورنہ ہمارے خربوزے پچھیتے ہو جائیں گے۔۔ ۔ میں دل کی بات منہ پر نہیں لا سکتا۔ میں تو شمی سے بھی یہ کبھی نہ کہہ سکا کہ “مجھے تم سے پیار ہے “۔ میں صرف پرے سے اسے تکتا رہتا تھا، کئی مہینوں تک۔ وہ بھی مجھے تکتی رہتی تھی۔ مجھے اس سے بات کرنے کے کئی موقع ملے لیکن میرا گلا پرانی جوتی کی طرح خشک ہو جاتا۔ میں ڈرسے کانپنے لگتا۔ وہ بھی مجھ سے پیار کرتی تھی۔ نصیب کی بات ہے۔ ہمارا میل نہ ہو سکا، لکھا نہیں ہو گا۔ لیکن قسمت ایک دفعہ پھر ہمیں ملانا چاہتی ہے۔ بھائی جان کو اپنی آئی لے گئی۔ اللہ اسے بخش دے۔ آج جب میں گھر پہنچوں گا تو اماں سے اپنے دل کی بات کہہ دوں گا۔ خیر ہم شادی اتنی جلدی نہیں کریں گے۔ بھائی جان کا غم ابھی تازہ ہے۔
لاکھا آرام سے ! رک جاؤ !تیری بپنجالی کو پتہ نہیں کیا ہو گیا ہے ! بس بچہ بسس سس سس !یہ اچھا ہوا کہ دلو بھائی کی منگنی پھوپھی کی بیٹی بختاورسے ہو چکی ہے۔ ورنہ آج شمی سے شادی کرنے کا حق اس کا بنتا تھا۔ وہ مجھ سے بڑا ہے۔۔ ۔ گھڑا اٹھائے جب شمی پانی لینے جا رہی ہوتی تو چلتے چلتے پاؤں روک لیتی تھی۔ مجھے دیکھ کر، ہونٹوں کے کناروں میں مسکراتی لیکن مجھ سے ہمت نہ ہو سکی۔۔ ۔ اللہ نے کریمی کی تو اس کھیت میں اچھے خربوزے لگیں گے۔ بابا کہتا ہے کہ اس کھیت کو دعا ہوئی ہے۔ کانی گرم والے پیر نے ایک دفعہ یہاں نفل ادا کئے تھے۔
عصر کا وقت تھا ممدو اپنے بیلوں کی جوڑی کو تالاب پر پانی پلا رہا تھا۔ گاؤں کی عورتیں اور لڑکیاں پیاسی چڑیوں کے غول کی طرح تالاب پر جمع تھیں۔ کچھ عورتیں کٹوروں سے گھڑے بھر رہی تھیں، کچھ اپنے گھڑوں کے پیندے یا ہاتھ منہ دھو رہی تھیں۔ ایک نخریلی کنواری لمبی لمبی انگلیوں کی پوروں سے منہ میں قطرہ قطرہ پانی چوا رہی تھی۔
اسی تالاب سے پانی بھرتے وقت شمی کا دیدار ہوتا تھا۔ اس کی کجلی آنکھیں۔۔ ۔ اس کا تلوار جیسا پتلا ناک دل چیر لیتا تھا۔ وہ اپنی سہیلیوں سے مل کرتالاب پر کیسا غل مچاتی۔ وہ اپنی سہیلیوں میں سب زیادہ خوبصورت اور باتونی تھی۔
شام کو جب شمی اس کے سامنے روٹی کی چنگیر رکھ رہی تھی تو چار سال بعد ایک دفعہ پھر ممدو نے شمی کو عاشق کی نظر سے دیکھا۔ یہ تو اب بھی ویسی من موہنی اور خوبصورت ہے۔ اس کے ہاتھ اب بھی ویسے گورے چٹے اور ملوک ہیں۔ ایسے لگتا ہے جیسے اسے ہمارے گھر آئے ایک دن گزرا ہو۔
“پیاز لے آؤں۔ پیاز کھاؤ گے ؟” شمی نے پوچھا۔
“نہیں۔۔ ۔ ہاں کھاؤں گا۔ لے آؤ”ممدو نے جواب دیا۔
آج میں اماں سے ضرور بات کروں گا۔ سلے ہوئے منہ کے بخیئے ضرور ادھیڑوں گا۔ بہت ہو چکا! اگر اب بھی چپ رہا تو شمی کو کوئی دوسرا لے جائے گا اور میں تکتا رہ جاؤں گا۔
“یہ لو پیاز۔ کھاٹ کے پائے پر توڑ لو۔ چھری نہیں مل رہی۔ نمک لے آؤں ؟پیاز پر ڈالو گے ؟”
“نہیں۔ نمک کی ضرورت نہیں۔ ”
آج بھی اس کی حرکتوں میں وہی ادا ہے۔ بات میں وہی نخرہ ہے۔ یہ تو بالکل نہیں بدلی۔ شادی کے باد میں اسے خوش رکھوں گا۔
“یہ لو پانی۔ خربوزے بو دیئے ہیں ؟”
” ابھی کہاں ! ابھی تو زمین توڑ رہا ہوں ”
” صبح اماں خربوزے کا کچھ بیج دے گئی تھی۔ میں نے چنی کے پلو میں باندھ دیا تھا۔ یہ لو یہ بھی بو دینا۔ بہت اچھا بیج ہے۔ ”
جس وقت وہ شمی سے خربوزے کا بیج لے رہا تھا تو اس کے جی میں آیا کہ شمی کی کلائی پکڑ لے اور کہے تم میرے ساتھ بیٹھ جاؤ۔ میرے ساتھ کھانا کھاؤ۔
رات کا وقت تھا، شمی سو گئی تھی۔ دِلو ابھی تک چونک سے واپس نہیں آیا تھا۔ ایک بیل سر کھرلی میں رکھے سو رہا تھا اور دوسرا آنکھیں بند کئے جگالی کر رہا تھا۔
اب موقع ہے، گھر میں کوئی نہیں ہے۔ اماں سے بات کر لوں۔ بات کیسے چھیڑوں گا؟ میں شمی سے شادی کرنا چاہتا ہوں ؟۔۔ ۔ نہیں یہ طریقہ ٹھیک نہیں ہے۔ میں اپنی اماں کے سامنے یہ بات کیسے کر پاؤں گا۔ میں تو شرم سے ڈوب جاؤں گا۔ میں یہ بات کسی بڑھیا کے ذریعے کہلواؤں گا۔
ممدو اپنی زمینوں میں ہل چلا رہا تھا۔
گاؤں میں کونسی ایسی بڑھیا ہے جو میرا پیغام اماں تک لے جائے۔ عورتیں تو زیادہ ہیں۔۔ ۔ لاکھا، لاکھا، غلط جا رہے ہو۔ بائیں چلو، ہاں اب ٹھیک ہے۔ او تیری خیر ہووے ! تم بہت اچھے بیل ہو۔ تیرا ساتھی مُشکی بہت نکما ہے۔ لاکھا تمہیں تو انسان ہونا چاہیے تھا۔ اگر انسان ہوتے تو کیا کرتے ؟ ہل چلاتے میری طرح۔ تم میں اور مجھ میں کوئی فرق ہے ؟ دونوں ہل چلا رہے ہیں۔۔ ۔ مجھے یہ پیغام کسی بڑھیا کے ذریعے نہیں دینا چاہیے۔ ایک دفعہ اگر یہ بات کسی پرائے تک پہنچ گئی تو سارے گاؤں میں پھیل جائے گی کہ ممدو اپنی بھابھی پر عاشق ہے۔ اس لئے اس سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ منہ سے نکلی کوٹھوں چڑھی۔ ہم سارے گاؤں میں بدنام ہو جائیں گے۔ اماں سے مجھے خود بات کرنی چاہیے۔ لیکن میں اماں سے بات نہیں کر پاؤں گا۔ مجھ میں اتنی ہمت نہیں ہے۔
شام کو ممدو کھیتوں سے گھر آیا تو اپنی اماں سے بات نہ کر سکا۔ وہ پورے تین مہینے تک سوچتا اور سلگتا رہا۔ اسی دوران اس کے بھائی دِلو کی منگیتر بختاورے ایک رات اپنے عاشق کے ساتھ بھاگ گئی۔ ممدو کے گھر میں صف ماتم بچھ گئی۔ ایک طرف تو بختاورے ان کی پھوپھی کی بیٹی تھی اور دوسری طرف وہ ان کی ہونے والی بہو تھی۔ کئی دنوں تک ممدو اور دلو اپنے پھوپھی زاد بھائیوں کے ساتھ مل کر اسے تلاش کرتے رہے مگر بختاورے نہ ملی۔
چھ سات مہینے بعد شمی سے اس کا نکاح پڑھوا دیا گیا اور ممدو دیکھتا رہ گیا۔ شادی سادگی سے ہوئی۔ ایک بکری ذبح کر کے اس کا گوشت ایک بڑے جستی دیگچے میں پکایا گیا۔ صرف قریب کے رشتہ داروں کو بلایا گیا۔ شمی کو سرخ کپڑے پہنائے گئے اور اس کے ہاتھوں پر مہندی لگاتے وقت کچھ رشتہ دار عورتیں ہولے ہولے تھال بجاتی رہیں اور آہستہ آواز میں سہرے گاتی رہیں۔ بچے بچیاں شادی کا ماحول دیکھ کر گانے اور ناچنے لگیں۔ شمی کا چھوٹا بیٹا ناچتا اور تالیاں بجاتا رہا۔ مگر جب ممدو کا باپ گھر آیا تو اس نے بچوں کو سختی سے منع کر دیا۔ عشاء کے بعد عورتیں دلہن کی ٹھنڈی اور مردہ مٹھی میں منہ دکھائی ٹھسا کر اپنے اپنے گھروں کو چلی گئیں۔ شمی کی ساس برتنوں کو ادھر ادھر پھینکتی اور خود سے بڑ بڑاتی رہی۔ ” بلا، اب میرے دوسرے بیٹے کا سر کھائے گی۔ میری بات کون مانتا ہے۔ مجھے تو سب پاگل سمجھتے ہیں۔ مجھے مہندی سے خون کی بو آ رہی ہے۔ اس کے سرخ کپڑوں سے کفن کی باس آ رہی ہے۔ ایک دن یہ سب پچھتائیں گے !”
شادی کی ساری کاروائی کے دوران ممدو گھر نہ آیا۔ گھر والوں نے اس کی طرف دھیان نہ دیا۔ انہوں نے سمجھا چونکہ ممدو سادہ اور شرمیلا ہے۔ اس لئے شادی میں شریک نہیں ہوا۔ جب وہ کھیتوں میں ہل چلا رہا تھا تو اسے ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے اپنے سینے پر ہل چلا رہا ہو۔ اس کا چھوٹا بھائی اسے شادی کا کھانا دینے آیا۔
وہ دیر تک روٹی اور سالن کو دیکھتا رہا۔ کبھی اسے روٹی سے مہندی کی بو آتی اور کبھی خون کی اور کبھی مہندی رنگے ہاتھ اس کا گلا دبانے کے لیے اچھلتے۔ آخر میں اس نے سالن زمین پر پھینک دیا اور روٹی کو ایک درخت کی شاخ پر اڑسا دیا۔
اس رات ممدو دیر تک چونک میں بیٹھا رہا اور رات کے ایک بجے گھر لوٹا۔ سردی کا موسم تھا، دِلو کے کوٹھے کی کنڈی اندر سے بند تھی۔ کوٹھے میں دیا جل رہا تھا اور پرانے دروازے کی دراڑوں سے روشنی چھن چھن کر نکل رہی تھی۔ ممدو کے جسم پر کالے بچھو پھرنے لگے۔ اس کا جی چاہ رہا تھا کہ بند دروازے کو بیل کی طرح ٹکر مار کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیے۔ یا کوٹھے کو آگ لگا دے۔ وہ کچھ دیر زخمی ریچھ کی طرح صحن میں چکر کاٹتا رہا۔ ہر طرف خاموشی تھی۔ چھوٹے چھوٹے تارے سردی سے بچنے کے لیے کالے آسمانی کمبل میں منہ چھپانے کی کوشش کر رہے تھے۔ بادل کا ایک بے جان ٹکڑا آسمان کے جنوب میں بوڑھے مردہ اونٹ کی طرح پڑا تھا۔ جنگل سے محبت میں پاگل ہو رہے گیدڑوں کی آوازیں آ رہی تھی۔ ممدو بند دروازے کے قریب آیا۔ کوٹھے سے عطر کی خوشبو، چوڑیوں کی کھنک اور کھسر پھسر کی آوازیں آ رہی تھیں۔ اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ اسے سارا گھر گھومتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ یکا یک اسے سردی محسوس ہونے لگی۔ عدم تحفظ اور اکیلے پن کا شور اس کے کان پھاڑنے لگا۔ اسے اپنے گھر کا صحن کوسوں میل چوڑے چٹیل ویرانے کی طرح لگنے لگا۔ وہ صحرا میں کھڑا تھا اور اس کے پاؤں میں کانٹے چبھ رہے تھے۔
وہ اپنی اماں والے کوٹھے میں آیا۔ وہ اس کوٹھے میں سوتا تھا۔ شمی کا چھوٹا بیٹا اپنی دادی کے ساتھ سویا ہوا تھا۔ طاق میں دیا جل رہا تھا۔ وہ اپنی کھاٹ پر لیٹ گیا۔ تھوڑی دیر بعد اس کا بھتیجا نیند سے جاگ گیا۔ اور اماں اماں پکارنے لگا۔
” اماں آ رہی ہے۔ سو جاؤ، نہیں تو بھو تمہیں کھا جائے گا! ” اس کی دادی نیند میں بڑ بڑائی۔
” اماں کہاں ہے ؟”
“پانی پینے گئی ہے ”
” میں اماں کے پاس جاتا ہوں ”
“اماں آ رہی ہے۔ چپ کر کے سو جاؤ ؤرنہ کالا کتا تمہیں اٹھا کے لے جائے گا۔ “اس کی دادی اسے تھپ تھپا کر سلانے کی کوشش کرتی رہی مگر بچہ نہ سویا۔ آخر اس نے اس پو تے کو گڑ کی روڑی دی۔ بچہ کچھ دیر گڑ چوستا رہا اور پھر سو گیا۔ ممدو کو نیند نہیں آ رہی تھی۔ وہ دیئے کی یرقان زدہ روشنی میں چھت کی کَڑیاں گنتا رہا۔ کر یہہ کی پیلی کڑیاں مچھلیوں کی طرح اس کی آنکھوں کے سامنے تیرتی رہیں۔
یہ سب میرا قصور ہے۔ اگر میں اپنے دل کی بات اماں کو بتا دیتا تو آج یہ قیامت نہ ٹوٹتی۔ اب میں شادی بالکل نہیں کروں گا۔ میں بہت ڈرپوک ہوں۔ جب شمی کی منگنی بھائی جان سے نہیں ہوئی تھی۔۔ ۔ ایک دن میں اپنی جیب میں ہار چھپا کر تالاب پر گیا۔ سوچ رہا تھا کہ یہ ہار شمی کو دوں گا۔ پر میں اسے نہ دے سکا۔ مجھ سے ہمت نہ ہو سکی۔ پورے دو مہینے تک وہ ہار میری جیب میں رہا۔ آخر وہ ہار ٹوٹ کر منکا منکا ہو گیا۔۔ ۔ جو ہونا تھا ہو گیا ہے۔ اب ساری بری سوچیں مجھے اپنے دل سے نکال دینی چاہئیں۔ اس میں شمی کا قصور نہیں۔ آج کے بعد وہ میری دین دنیا کی بہن ہے۔ میں اسے کسی اور نظر سے نہیں دیکھوں گا۔ اب وہ میری بھابی ہے۔ ہمارے گھر کی عزت ہے۔۔ ۔ میں صرف ہل چلانے کیلئے پیدا ہوا ہوں۔ زمین کاٹنے کیلئے بنا ہوں۔ میری قسمت میں شادی نہیں ہے۔ میں ساری زندگی بیلوں کے پیچھے مٹی اور اور ڈھیلوں میں یونہی گھسٹتا رہوں گا۔ میں بیلوں کا بھائی ہوں۔ میں جنگلی آدمی ہوں۔ میرا گھر، جنگل اور کھیت ہیں۔ کڑ کڑاتے نئے کپڑے، خوشبو، صاف بستر میرے لئے نہیں ہیں۔ سرخی، چوڑیوں سے بھری کلائیاں۔۔ ۔ مجھے ایسی باتیں نہیں سوچنی چاہئیں۔
دلو صبح کی اذان سے پہلے گھر سے نکل گیا۔ شمی دیر تک اپنے کوٹھے سے نہ نکلی۔ اس کی ساس بھاگی بھاگی کام کرتی رہی اور خود سے بڑبڑاتی رہی۔ ” بلانے اب میرے دوسرے بیٹے کے کوٹھے پر قبضہ جما لیا ہے۔ چڑیل اب میرے دوسرے بیٹے کو بھی تباہ کرنے پر تلی ہے۔ میری کون سنتا ہے ؟”
روزانہ کی طرح شمی، ممد و کے لئے صبح کی چائے نہ لائی۔ وہ سب گھر والوں سے شرما رہی تھی۔
جب یہ بھائی جان کی دلہن بن کر آئی تھی تو اس دن بھی صبح کے وقت وہ اس طرح شرما رہی تھی جس طرح آج شرما رہی ہے۔ کچھ دنوں کے بعد وہ خود بخود ٹھیک ہو جائے گی۔ پھر مجھے روٹی دے گی۔ چائے لائے گی میرے لئے۔ اچھا ہوا دِلو بھائی کی شادی ہو گئی۔ وہ مجھ سے بڑا ہے۔ شمی سے شادی کرنا اس کا حق بنتا تھا۔۔ ۔ اب وہ بختاورے کے غم کو بھول جائے گا۔
صبح کی چائے پینے کے بعد ممدو نے ہل اٹھایا۔ ہل کا پھل اس کے سینے سا جا لگا۔ اس کے جی میں آیا کہ اس ہل پر گر کر جان دے دے۔ مگر پھر سوچا کہ اس خوشی کے موقع کو تباہ نہ کرے۔ وہ مونڈھے پر ہل اٹھائے، بیلوں کو ہانکتا کھیتوں کی طرف چل دیا۔
دن گزرتے گئے۔ آسمانوں میں روشنیوں اور اندھیروں کی آنکھ مچولی ہوتی رہی۔ گاؤں کی بیریوں پر بور اور بیر لگتے اور گرتے رہے۔ شمی کی دوسری شادی کو نو سال گزر گئے تھے۔ دلو سے اس کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہوئیں۔ اس کی عمر پینتیس سال ہو گئی تھی۔ وقت کے بوڑھے دیو نے اس کے سرمیں سفیدی کا بیج ڈال دیا تھا۔ لیکن اس کی کجلی آنکھیں پہلے کی طرح جوان اور چمکدار تھیں۔ اس کی ساس بستر مرگ پر تھی۔ سارے گھر کا بوجھ اس کے کندھوں پر آن پڑا تھا۔ گھر والے اور یار بیلی سب ممدو کو سمجھاتے رہے کہ شادی کر لو مگر وہ انہیں یہ کہہ کر ٹال دیتا کہ اس کی شادی تو اپنے کھیتوں سے ہو چکی ہے۔
کئی سالوں سے ممدو کے خاندان اور ان کے پڑوسیوں کا زمین پر تنازعہ چلا آ رہا تھا۔ پنچایت، عدالت اور پیر خانے سب گر آزمائے جا چکے تھے۔ انت ایک دن نوبت لڑائی تک پہنچ گئی۔ دونوں پارٹیاں ڈنڈے اور کلہاڑیاں اٹھائے متنازعہ زمین پر پہنچ گئے۔ ایک طرف ممدو کا باپ اور اس کے چار بیٹے تھے اور دوسری طرف آٹھ آدمی تھے۔ لڑائی میں دلو اور ممدو سخت زخمی ہوئے اور ڈی آئی خان کے بڑے ہسپتال پہنچا دیئے گئے۔ تین دن بعد دِلو ہسپتال میں چل بسا اور دو ہفتے بعد ممدو پٹیوں میں لپٹا لولہا لنگڑا ہو کر گھر آن پہنچا۔ اب وہ بیساکھیوں کے بغیر نہیں چل سکتا تھا۔
کوئی چار ماہ بعد گاؤں کے بڑے بوڑھوں نے دونوں فریقوں کے درمیان فیصلہ کروایا۔ مدعیوں نے ہرجانے کے طور پر اسی کنال زمین اور ایک وانی ممدو کے خاندان کے نام کر دی۔ صلح کے کچھ دن بعد ممدو کی ماں نے اللہ کو دم دے دیا۔
لولہا ممدو اب کسی کام کا بھی نہیں رہا تھا۔ ممدو کے دو چھوٹے بھائی تھے۔ ان میں ایک کا نام عمرا اور دوسرے کا نام شانی تھا۔ ان کے باپ نے فیصلہ کیا کہ چھوٹا بیٹا فیصلے میں ملی ہوئی وانی سے شادی کرے گا اور عمرا شمی سے نکاح کرے گا اور اس کے بچوں کو پالے گا۔ کچھ رشتہ داروں نے یہ صلاح دی کہ شمی کی شادی ممدو سے کرا دو مگر اس کے باپ نے جواب دیا کہ اب تووہ خود دوسروں کا محتاج ہے۔ وہ ایک عورت اور اس کے پانچ بچوں کو کس طرح پال سکے گا۔
گھر اور زمین کے مختیار کا راب عمرا اور شانی تھے۔ بوڑھی تھکی نسل نے اپنے بوجھ جوان نسل پر ڈال دیئے تھے۔ ایک سال اکٹھا رہنے کے بعد عمرا اور شانی علیحدہ ہو گئے۔ انہوں نے گھر کے درمیان لمبی دیوار اٹھائی۔ بڑے بوڑھے دروازے کو اکھاڑ کر ایک طرف سلا دیا اور اس کی جگہ دو چھوٹے دروازے لگائے۔ انہوں نے گھر کے برتن بانٹے، گائے بکریاں تقسیم کیں، زمین جائیداد کے حصے بخرے بنائے۔ آخر میں بات اندھے باپ اور لولہے ممدو پر آ گئی۔ چھوٹا بیٹا باپ کو اٹھا کر لے گیا اور ممدو عمرا اور شمی کے حصے میں آ گیا۔
گاؤں میں کئی سردیاں آئیں، کئی گرمیاں آئیں۔ گاؤں کے کچھ درخت وہی تھے اور کچھ پرانے درختوں کی جگہ نئے درخت اگ آئے تھے۔ ممدو بوڑھا ہو گیا تھا۔ شمی اس سے بھی پہلے بوڑھی ہو گئی تھی۔ تیسرے شوہر سے اس کے دو بچے ہوئے۔ ممدو چارپائی پر گونگوں کی طرح چپ چاپ بیٹھا خلا میں گھورتا رہتا تھا۔ اس کے قریب پانی کی جھجری پڑی ہوتی۔ اس کی میلی اور چکنی بیساکھیاں اس کی چارپائی کے سہارے کھڑی ہوتیں۔ کبھی کبھی چارپائی پر لیٹے وہ بھولی بسری با توں کو یاد کرتا۔ اسے خیال آتا: ایک زمانہ تھا، جب میں جوان تھا، شمی جوان تھی۔ ہم تالاب پر پانی بھرتے وقت ایک دوسرے کو دیکھا کرتے تھے۔ وہ کتنے بھلے دن تھے۔ وہ میری نہیں تھی لیکن وہ کسی کی بھی تو نہیں تھی۔ وہ میٹھا درد، وہ چھپا خوف، وہ کتنے خوشیوں کے زمانے تھے۔ وہ بھلے دن خوشبو کی طرح ہوا میں بکھر گئے ہیں۔ کاش کہ ہم واپس اس زمانے میں چلے جاتے۔
لیکن پھر اسے اپنے آپ پر غصہ آتا۔
مجھے اب ایسے خیال دل سے نکال دینے چاہئیں۔ شمی میری دین دنیا کی بہن ہے۔ میری بھابی ہے۔ وہ میری خدمت کرتی ہے۔ روٹی چائے تیار کر کے میرے ہاتھ میں دے جاتی ہے۔ اللہ اس کا بھلا کرے !نہیں تو میرا ان پر زور تو نہیں چلتا۔ آج کے زمانے میں کون کسی کو اتنا برداشت کرتا ہے۔ اللہ اسے آباد رکھے ! اللہ اسے اپنے بچوں کی خوشیاں دکھائے۔ اس نے بھی تو اپنی زندگی میں بڑے دکھ دیکھے ہیں۔ وہ دو خاوندوں کے مرنے کا غم دیکھ چکی ہے۔ وہ تین خاوندوں کے بچوں کو سنبھالے ہوئے ہے۔ اچھا ہوا کہ وہ آباد ہے۔ اس کے سر پر شوہر کا سایہ ہے۔ اس کے بچے ہیں۔ اچھا ہوا کہ وہ اکیلی نہیں ہے۔ عورت کا اکیلا پن مرد کے اکیلے پن سے زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔ مرد مرد ہوتے ہیں، جیسے تیسے زندگی گزار لیتے ہیں۔ وہ گرتے پڑتے اکیلے اپنی زندگی کو گھسیٹ کر موت کے منہ تک لے جاتے ہیں۔ لیکن عورت کے لئے زندگی کو اکیلے گھسیٹنا زیادہ مشکل ہے۔ میں مرد ہوں، ان بیساکھیوں پر لدا ہولے ہولے چلتا موت کے دروازے تک پہنچ جاؤں گا۔ یہ اچھا ہوا کہ شمی اکیلی نہیں ہے۔ اور میں۔۔ ۔ میں بھی تو اکیلا نہیں ہوں۔ یہ کاٹھی کی بیساکھیاں میری ساتھی ہیں نا۔۔ ۔ میں اکیلا نہیں ہوں۔
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...