(Last Updated On: )
مائلِ گریہ نگاہوں کا سلام آیا ہے
چند مہجور وفاؤں کا سلام آیا ہے
اُن المناک نگاہوں کے پس، پردہ کہیں
مجھ کو گھنگھور گھٹاؤں کا سلام آیا ہے
میری گستاخ نگاہوں میں سمانے کے لیے
بھیگی پلکوں سے حیاؤں کا سلام آیا ہے
آج زلفوں کے تلے کھُل کے گھٹا برسی ہے
مجھ کو نمناک فضاؤں کا سلام آیا ہے
دل کی بوجھل ہے فضا غم کے سیہ بادل سے
آہ کی ٹھنڈی ہواؤں کا سلام آیا ہے
عشقِ آوارہ ستم کار رہا ہے پھر بھی
اُٹھے ہاتھوں سے دعاؤں کا سلام آیا ہے
٭٭٭