آج تین دن کے بعد وہ کلاس لینے آ ہی گئی تھی مگر سارے لیکچر کے دوران اس نے اپنی گردن اٹھا کر وائٹ بورڈ کی سمت دیکھنے کی ضرورت محسوس نہ کی کہ وہاں کیا پڑھایا جا رہا ہے۔ ریعان نے بھی اسے کچھ نہ کہا۔ آج ڈانٹنے کے لیے کوئی وجہ ہی نہیں تھی۔ کلاس ختم ہوئی تو سب سٹوڈنٹس باہر کو جانے لگے۔ غالیہ بھی اٹھی تو ریعان نے اسے روکا۔
“مس غالیہ۔ آپ ابھی یہیں رکیے۔ اریج آپ جائیں۔ مجھے غالیہ سے کچھ ضروری بات کرنی ہے۔ وہ ابھی آ جائے گی۔”
غالیہ نے کچھ کہنے کے لیے لب کھولے مگر پھر کچھ نہ بولی۔ اس نے سوچ لیا تھا کہ اب اس شخص کے سامنے کچھ بھی نہیں بولے گی مگر کتنی دیر؟
“غالیہ۔”
“مس غالیہ۔”
“ہاں مگر اب کلاس ختم ہو چکی ہے۔”
“پھر تو آپ کو مجھے یہاں روکنا بھی نہیں چاہیے۔”
“جب قاشی بھائی نے سب بتا ہی دیا ہے تو پھر کیوں ایسا کر رہی ہو تم؟”
شائق نے اسے کلاس لینے کو کہا تو وہ راضی نہ ہوئی۔ پھر اس نے اسے ریعان کے بارے میں سب بتا دیا اور اسے سمجھایا کہ یہ اس کے اپنے اچھے گریڈز کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی اٹینڈنس خراب نہ کرے۔
“قاشی بھائی کی تو بات ہی نہ کریں۔ میں صرف ان کے کہنے پہ ہی آج کلاس میں آئی ہوں اور اگر وہ مجھے آپ کے بارے میں پہلے بتا دیتے تو شاید میں اس یونیورسٹی میں ہی نہ آتی۔”
“اب تو تمہیں یہیں سے بی۔ایس کمپلیٹ کرنا ہے۔ بہر حال مجھے اس دن کے لیے تم سے معذرت کرنا تھی۔ آئی ایم سوری۔ میں بہت روڈ ہو گیا تھا۔”
غالیہ نے اپنی ہنسی روکنے کی کوشش کی۔
‘تمہارا معافی نامہ تو میں سوشل میڈیا پہ نشر کرواؤں گی مسٹر ریعان۔’
“اب میں جا سکتی ہوں؟”
ریعان کو کچھ گڑبڑ کا احساس ہوا۔ غالیہ اور اتنی آسانی سے مان جائے۔
“ہاں مگر تم نے مجھے معاف کر دیا؟”
“آپ کو کیا لگتا ہے؟”
“مجھے لگتا ہے کہ نہیں۔”
“بالکل ٹھیک لگتا ہے آپ کو۔”
“تو پھر تم۔۔۔”
“آپ مجھے یونی گراؤنڈ میں سب کے سامنے سوری بولیں گے اور۔۔۔”
“تمہارا دماغ ٹھیک ہے؟ ایسا ہرگز ممکن نہیں۔”
“ٹھیک ہے۔ پھر مجھ سے شادی کا خیال دل سے نکال دیں۔”
‘ایسے تو پھر ایسے ہی سہی۔’
غالیہ جانے لگی جب ریعان نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے آگے بڑھنے سے روکا اور اس کا چہرہ اپنی طرف کر کے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا،
“کیا کہا تم نے؟”
وہ بھی غالیہ تھی۔ کسی بات کا اثر تھوڑی ہوتا تھا اسے۔ ایک لمحے کو دل تھم سا گیا مگر پھر اسی طرح ریعان کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی،
“میں نے کہا ہے کہ جب تک آپ پوری یونی کے سامنے گراؤنڈ میں مجھ سے معافی طلب نہیں کریں گے تب تک میں معاف نہیں کروں گی اور نہ ہی تب تک آپ مجھ سے شادی کے بارے میں سوچیے گا۔”
ریعان ہلکا سا مسکرایا۔
‘اف مسکراتے ہوئے لگتا ہی نہیں کہ یہ وہی بدتمیز انسان ہے۔’
“اور اگر میں ایسا کر دوں تو پھر اگلے ہفتے ہمارا نکاح ہوگا۔ بولو منظور ہے؟”
غالیہ کو اس سے ایسی شرط کی امید نہ تھی۔
“مگر”
“اگر مگر چھوڑیں مس غالیہ۔ ڈیل تو پھر ایسے ہی ہوتی ہے نا۔”
ریعان نے اس کی اڑتی رنگت سے محظوظ ہوتے ہوئے کہا۔
“منظور ہے۔”
غالیہ کو پکی امید تھی کہ ریعان کبھی بھی اس سے سب کے سامنے معافی نہیں مانگے گا مگر وہ ابھی اس ریعان کو نہیں جانتی تھی جسے غالیہ شاہمیر سے محبت تھی۔
“میرا ہاتھ۔”
ریعان نے اس کا ہاتھ چھوڑا۔
“ابھی تو چھوڑ رہا ہوں کہ میرا حق نہیں۔ اگلے ہفتے تیار رہنا۔”
ریعان نے معنی خیز لہجے میں کہا۔ غالیہ کے گال دہکنے لگے۔ وہ تیزی سے باہر کو بھاگی اور خالی کلاس میں ریعان کا قہقہہ گونجنے لگا۔
__________________________________________
سرِ طور ہو سرِ حشر ہو، ہمیں انتظار قبول ہے
وہ کبھی ملیں، وہ کہیں ملیں، وہ کبھی سہی وہ کہیں سہی
(نصیرالدین شاہ نصیر)
ایک دن ادیان کی کال آئی۔ موحد اس وقت سکول میں تھا۔
“السلام علیکم۔”
“وعلیکم السلام۔”
“عقیدت۔”
“جی؟”
“میں آپ سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔”
“ہم جو چاہیں، ویسا ہو بھی جائے، یہ ضروری نہیں ہے ڈاکٹر ادیان۔”
” پلیز دانی۔”
“عقیدت۔ میرا نام عقیدت ہے ڈاکٹر ادیان۔”
میں نے اسے ٹوکا۔
“اوکے تو عقیدت کیا آپ میری گزارش پہ ایک دن بھی غور نہیں کریں گی؟”
“ایک دن تو بہت زیادہ ہے۔ میں ایک منٹ کے لیے بھی اس بات کو نہیں سوچ سکتی جس کا کوئی فائدہ نہ ہو۔”
“میں انتظار کر سکتا ہوں۔”
“مت کریں۔”
“آپ جب تک کہیں گی تب تک۔”
“میں آپ کو ایسا کچھ نہیں کہوں گی۔ ہاں مگر آپ سے ایک وعدہ چاہیے۔”
“کہیے۔”
“آپ آئندہ مجھ سے یہ سوال نہیں کریں گے۔”
“ٹھیک ہے مگر آپ یہ مت سمجھیے گا کہ میں آپ کا انتظار کرنا چھوڑ دوں گا۔ آپ جب بھی لوٹیں گی، مجھے اپنا منتظر پائیں گی۔”
“اللہ حافظ۔”
“اللہ حافظ دانی۔”
میں نے فون بند کر دیا۔ مجھے وہ دن یاد آیا جب پہلے بھی ایک بار میری ادیان سے ایسی بات ہوئی تھی۔ تب مجھے کالج چھوڑے ایک سال ہو چکا تھا۔ میں نے سیکنڈ ایئر کے اگزامز گھر پہ رہ کر ہی دیے تھے کیونکہ موحد کو میری ضرورت تھی۔ ادیان نے پورا سال مجھے سینکڑوں فون کیے۔ امی نے بہت کہا مگر میں نے اس سے بات نہ کی۔ پھر یوں ہوا کہ کافی دن گزر گئے مگر اس کی کوئی کال نہ آئی۔ پھر ایک دن اس کا فون آیا۔
“دانی تمہارا فون ہے۔”
“آ رہی ہوں امی۔”
میں نے امی سے کہا اور باہر صحن میں فون سننے گئی۔
“السلام علیکم۔”
میں نے فون اٹھایا تو ادیان کی آواز آئی۔ میں فون رکھنے والی تھی جب پھر سے آواز آئی۔
“دانی فون نہ رکھیے گا پلیز۔ بس میری ایک بات سن لیں۔”
“جی فرمائیے؟”
“سب سے پہلے اس دن کے لیے سوری۔ مجھے ایک کام سے کہیں جانا پڑا۔ میں واپس آیا تو آپ جا چکی تھیں۔”
“اس دن کے لیے تو مجھے آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔”
“دانی۔”
“عقیدت۔ آپ مجھے عقیدت بلائیں گے تو زیادہ مناسب ہو گا۔”
“مجھ سے شادی کریں گی؟”
مجھے سمجھ نہ آیا کہ اس نے یہ کیوں کہا۔
“یہ کیا مذاق ہے؟”
“آئی ایم سیریس۔”
“مگر مجھے لگ رہا ہے کہ آپ میرا مذاق بنا رہے ہیں۔ آئندہ یہاں فون نہ کریے گا ورنہ میں یہ فون توڑ دوں گی۔”
اس دن کے بعد اس نے کبھی گھر پہ فون نہ کیا۔
__________________________________________
علیشہ کیفے گئی تو صرف ایک ٹیبل کے پاس فری چیئرز تھیں مگر وہاں ایک کرسی پہ موحد بیٹھا تھا۔ وہ بھی اسی ٹیبل کے پاس رکی اور کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی۔ موحد اسے دیکھنے لگا۔
“یہ تم کیا ہمیشہ سے ہی اتنے تاڑو ہو؟ ایک منٹ ایک منٹ میرے یہاں بیٹھنے پہ تو نہیں گھور رہے مجھے؟ اے مسٹر ایک تو اپنی غلط فہمی ذرا دور کر لو۔ تم اتنی کوئی توپ چیز تو ہو نہیں کہ کوئی تمہیں دیکھے اور پھر امپریس بھی ہو جائے اور پھر تمہارے ساتھ بیٹھنا چاہے۔ کوئی اور کرسی خالی نہیں تھی تو اس لیے میں یہاں بیٹھ گئی۔”
موحد پھر بھی کچھ نہ بولا۔
“گونگے ہو کیا؟ اس دن تو بول رہے تھے تم۔ آج کیسے اچانک گونگے ہو گئے؟ ہاں بھئی شہر ہے۔ کچھ بھی ہو سکتا ہے یہاں۔ ویسے کیا تم بھی سونگھ کر کھاتے ہو؟ صحت تو ٹھیک ہے تمہاری۔ ادھر تو لوگ کھانا بھی نہیں کھاتے۔ پتا نہیں کیسے زندہ ہیں۔ لڑکیاں ہیں یا تیلیاں۔ نہ خود کھاتی ہیں اور نہ دوسروں کو کھانے دیتی ہیں۔ کیفے آ جاؤ تو تب بھی سکون نہیں۔ دو سے زیادہ روٹیاں منگوا لو تو یہ چھوٹا بھی چمگادڑ کی طرح دیکھنے لگ جاتا ہے۔ اب کیا کھانا بند کر دوں؟ ہمارے گاؤں میں تو۔۔۔”
اس سے پہلے کہ وہ اور کچھ کہتی، اس کی بات پہ موحد نے قہقہہ لگایا۔
“تم مجھ پہ ہنس رہے ہو؟ تمہیں تو میں۔۔۔”
علیشہ نے موحد کے سر کی طرف ہاتھ بڑھایا جس نے اپنے بال بچانے کے لیے اپنے دونوں ہاتھ سر پہ رکھ لیے۔
“یہ آپ بات بات پہ سب کے بال کیوں کھینچتی ہیں؟ آپ کا بھائی آپ کو جنگلی بلی کہتا ہے تو ٹھیک ہی کہتا ہے۔”
“کیا؟ تم نے مجھے جنگلی بلی کہا؟”
“میں نے کب کہا؟ وہ تو اس دن جب پہلے روز آپ پارکنگ ایریا میں اپنے بھائی کے بال اکھاڑ رہی تھیں تو اس نے ہی آپ کو ایسا بولا تھا۔”
“وہ جو مرضی کہے مگر تم کیوں کہہ رہے ہو؟”
“تو جب آپ مجھ پہ بھی حملہ کریں گی تو میں بھی تو کچھ کہوں گا نا۔”
“مگر میں تو۔۔۔”
موحد نے اشارہ کیا تو علیشہ نے اس کے بال نوچنے کی نیت سے بڑھایا ہوا اپنا ہاتھ دیکھا۔ پہلے تو وہ چپ ہو گئی مگر وہ علیشہ ہی کیا جو شرمندہ ہوتی۔
“ہاں تو تمہاری غلطی ہے نا۔ تم۔۔۔”
اتنے میں ایک لڑکا وہاں آیا اور موحد کی مسکراہٹ سمٹ گئی۔
“ہائے موحد۔”
“حیدر تم؟”
“ہاں بڈی۔ تمہاری مدر نے تو تب تمہارا سکول چھڑوا دیا تھا۔ آج دیکھو پھر ہمیں قسمت نے ملا دیا۔”
“گڈ ٹو سی یو حیدر بٹ آئی ہیو ٹو گو۔”
موحد اٹھ کھڑا ہوا۔ علیشہ اسے دیکھ رہی تھی جس کے چہرے پہ پریشانی در آئی تھی۔ پھر وہ وہاں سے چل دیا۔ حیدر علیشہ کی جانب مڑا اور اسے غور سے دیکھنے لگا۔
“ہائے گورجیس۔”
“وہ سامنے ٹیبل پہ میرا بھائی بیٹھا ہے۔ آؤ وہیں چلتے ہیں۔”
حیدر نے دیکھا تو اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ وہ ہٹا کٹا لڑکا نہیں، پورا جن تھا اور وہ زایان تھا بھی نہیں۔
“نہیں۔ میرا خیال ہے ابھی مجھے چلنا چاہیے۔”
حیدر وہاں سے بھاگا۔ علیشہ مسکرا دی۔
“کمینہ۔ ہوں۔۔۔”
__________________________________________
نبیرا کو کراچی میں اور بالخصوص معاذ کے ساتھ ایڈجسٹ ہونے میں کچھ وقت درکار تھا مگر معاذ نے اسے اپنی محبت سے اپنا بنا لیا تھا۔ معاذ نبیرا کی پہلی شادی اور غالیہ کے بارے میں جانتا تھا۔ اس نے نبیرا سے کہا تھا کہ وہ غالیہ کو ادھر اپنے ساتھ لا سکتی ہے۔ نبیرا نے شاہمیر سے بات بھی کی مگر وہ اپنی بیٹی کو پرائے مرد کے گھر پرورش پانے کے لیے چھوڑنے پر رضامند نہ ہوا۔ نبیرا کو ماحسا کے بارے میں اس طرح سے بھی معلوم تھا کہ ایم۔بی۔اے میں وہ تینوں کلاس فیلوز رہے تھے۔ اس لیے نبیرا جانتی تھی کہ ماحسا اس کی غالیہ کے لیے اچھی ماں ثابت ہو گی۔ وہ اکثر فون پہ ماحسا سے غالیہ کے بارے میں دریافت کرتی رہتی مگر وہ خود غالیہ سے بات نہ کرتی۔ اسے لگتا تھا کہ غالیہ ابھی چھوٹی ہے۔ ماحسا کی محبت و شفقت اسے آگے بڑھنے میں مدد دے گی پر اگر وہ اس طرح غالیہ سے بات کرنے لگے گی تو اس کا ذہن دہری اذیت کا شکار ہو گا۔ نہ وہ ماحسا کو اپنی ماں سمجھ سکے گی اور نہ ہی اس کا باپ اسے نبیرا کے پاس رہنے دے گا۔
شادی کے ڈیڑھ سال بعد نبیرا اور معاذ کو اللہ نے بیٹی سے نوازا جس کا نام انہوں نے عقیدت رکھا۔ معاذ اور نبیرا کو عقیدت سے بہت پیار تھا۔ وہ بہت شرارتی بچی تھی۔ نبیرا کو عقیدت میں غالیہ نظر آتی تھی اس لیے بھی اسے عقیدت زیادہ عزیز تھی کہ غالیہ تو اس کے پاس نہیں تھی مگر عقیدت پہ وہ جان چھڑکتی تھی۔ وقت گزرتا گیا۔ عقیدت دس سال کی ہو گئی۔ معاذ اس کی تعلیم پہ خاص توجہ دیتا تھا۔ شروع میں وہ پاس ہی ایک اچھے سکول میں پڑھتی رہی مگر پھر معاذ نے اپنا ٹرانسفر لاہور کروا لیا اور وہیں ایک بہت اچھے سکول میں عقیدت کا ایڈمیشن کروا دیا۔ ادیان بھی اسی سکول میں پڑھتا تھا۔ وہ عقیدت سے دو سال بڑا تھا مگر اس کی فیملی کے باہر رہنے اور پھر پاکستان سیٹل ہونے کی وجہ سے وہ چھ سال کی عمر میں سکول داخل ہوا تھا اس لیے اب وہ عقیدت کا کلاس فیلو تھا۔ بہت جلد ان کی دوستی ہو گئی۔ عقیدت اس کے ساتھ مل کر شرارتیں کرتی مگر پھر سزا اکیلے ادیان کو بھگتنا پڑتی تھی۔ وہ اکثر عقیدت کے گھر پایا جاتا تھا۔ یہ ادیان ہی تھا جس نے عقیدت کو دانی کہنا شروع کیا تھا۔ ادیان کو گھر میں سب آدی کہتے تھے اور سکول میں صرف دانی تھی جو اس نام سے واقف تھی۔ انیا آدی کی چھوٹی بہن اور دانی کی ہم عمر تھی۔ وہ اس وقت کسی دوسرے سکول میں پڑھتی تھی اس لیے وہ کبھی دانی سے نہیں ملی تھی۔ ہاں مگر آدی کے منہ سے اس نے دانی کے کئی قصے سن رکھے تھے۔
دانی اور آدی نے اسی سکول سے میٹرک کیا۔ پھر ایف۔ایس۔سی میں بھی دونوں نے اکٹھے ایک ہی کالج میں داخلہ لیا۔ ان دونوں کو ڈاکٹر بننا تھا۔ فرسٹ ایئر میں دونوں نے بورڈ ٹاپ کیا۔ اب وہ سیکنڈ ایئر میں تھے۔ نئی آنے والی فرسٹ ایئر کے لیے ویلکم پارٹی ارینج کی گئی تو آدی اور دانی نے پارٹی کے انتظامات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ پارٹی سے واپسی پر آدی ہی اسے ڈراپ کرنے والا تھا۔ رات کے بارہ بج چکے تھے۔ اسے اب واپس جانا تھا مگر پھر اسے کسی نے بتایا کہ ادیان جا چکا ہے۔ دانی کو حیرت ہوئی کہ وہ اسے یوں چھوڑ کر کیسے چلا گیا۔ وہ اپنا فون گھر بھول گئی تھی۔ وہ اس وقت بابا کو پریشان بھی نہیں کرنا چاہتی تھی۔ اس لیے پیدل ہی گھر جانے کے لیے نکل گئی۔
آدی کسی کام سے کالج سے باہر گیا تھا۔ واپس لوٹا تو دانی کو وہاں نا پا کر اسے خود پر بہت غصہ آیا۔ اسے دانی کو بتا کر جانا چاہیے تھا۔ دانی بہت معصوم تھی مگر چونکہ وہ عمر میں بڑا تھا اس لیے اسے اندازہ تھا کہ رات کے اس پہر باہر اکیلے جانا خطرے سے خالی نہ تھا۔
وہ اپنے کالج کے سامنے والی سڑک پہ ہی سیدھا چلتی جا رہی تھی جب اسے محسوس ہوا کہ کوئی اس کا پیچھا کر رہا ہے۔ اسے جو سورتیں یاد تھیں، اس نے پڑھیں۔ وہ بھاگنے لگی۔ پھر جب اسے محسوس ہوا کہ اب پیچھے کوئی نہیں تو اس نے اپنی رفتار کم کی۔ اچانک اس کی نظر ایک زخمی شخص پہ پڑی اور وہ سب کچھ بھول کر اس کی طرف بڑھ گئی۔
__________________________________________
“ٹھیک ہو گئیں ہیں نا ماما؟ میں، میں مل لوں ان سے؟”
ادیان نے اسے تھاما۔
“سوری موحد۔ وہ پھر سے کوما میں جا چکی ہیں۔”
“مگر انکل ابھی تو انہیں ہوش آیا تھا۔ انہوں نے میرا نام لیا تھا۔ میں نے سنا تھا۔ آپ۔۔۔”
“موحد ریلیکس۔ شی ول بی فائن ان شاء اللہ۔”
ادیان نے کہا اور موحد کو گلے لگا لیا۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...