(Last Updated On: )
اچھا اپنا دھیان رکھنا میں کوشش کرو گی جلدی آ جائو ان لوگوں کے اچھے اخلاق کی وجہ سے جا رہی ورنہ تجھے اس حال میں چھوڑ کر نا جاتی۔۔
اچھا اماں پر تو نے بتایا نہی جا کدھر رہی ہے ماہ نور نے دھیمی آواز میں پوچھا بخار کی وجہ سے وہ کافی کمزور ہو گئی تھی۔۔
آج فارس بیٹے اور آبگینے کا نکاح ہے اچھا میں جا رہی ہو۔۔
کیا ماہ نور نکاح کا سن کر سخت جھٹکا لگا ایسے لگا جیسے کمرے کی چھت اس پر آ گری ہو
فارس میرے علاوہ کسی اور سے شادی کیسے کر سکتا ہے مجھے لگا اس نے وہ سب غصے میں کہا ہو گا وہ سچ
میں شادی نن!!!!!!!نہی میں اسے ایسا نہی کرنے دو گی اسے ان دو دنوں میں اچھے سے احساس ہو چکا تھا کہ وہ فارس کے بغیر نہی رہ سکتی
نہیں وہ مجھ سے پیار کرتا ہے اس دن وہ غصے میں تھا مم!!!!!!میں اسے منا لو گی وہ جھٹکے سے اٹھی اور حویلی کی طرف بھاگنے لگی۔۔
ارے ماہ نور کدھر جا رہی ہو رجو نے اسے گھر سے نکلتے دیکھا تو اس کے پیچھے بھاگی پر وہ سن نہی رہی تھی بھاگے جا رہی
تھی۔۔۔۔
وہ حویلی کے گیٹ پر پہنچی تو ایک لمحے کے لئے رک اسے فارس سے پہلی ملاقات یاد آئی وہ کیسے اس سے ٹکرایا تھاماہ نور نے
باتیں سنائی تھی یاد کر کے اس کی آنکھوں سے آنسوں بہنے لگے ۔
وہ بھاگ کر اندر گئی سب لوگ اسے دیکھنے لگے بکھرے بال بہتی آنکھیں دوپٹہ سر کے بجائے ہاتھ میں پکڑا ہو تھا
اسے کچھ محسوس نہیں ہو رہا تھا وہ بھاگ کر سٹیج تک گئی جہاں مولوی نکاح پڑھانے لگا تھا۔
کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے
نہی فارس پلیز انکار کر دو ماہ نور نے فارس کے سامنے جا کر ہاتھ جوڑ دئیے۔۔۔
فارس ماہ نور کی آواز سن کر دھک سا رہ گیا جیسے ہی اس نے۔۔۔
یہ اس کی ماہ نور تو نہی لگ رہی تھی یہ تو کوئی بھٹکی ہو بدروح لگ رہی تھی اتنی کمزور ہو گئی تھی دو دنوں میں
اس سے پہلے کے اس کے دل میں پھر ماہ نور کی محبت جاگتی اسے سب یاد آگیا یہ پھر ڈرامہ کر رہی ہے مزاق بنا رہی ہے میری محبت کا میں پھر اس کی باتوں میں نہیں آ سکتا اس نے اردگرد دیکھا سب لوگ ان کی طرف متوجہ تھے
مجھے اس کے بارے میں سوچنا بھی نہیں مولوی صاحب نکاح شروع کرے ۔۔
پلیز فارس ایسا مت کرو مم!!!!مجھے احساس ہو گیا ہے میں سچ میں تم سے پیار کرتی ہو مجھ سے غلطی ہو گئ پپ!!!!پلیز۔۔۔
مجھے تم جیسی دھوکے باز کی کوئی بات نہی سننی دفعہ ہو جائو یہاں سے فارس نے اسے دھکا دیا اس سے پہلے کے وہ گرتی ماہ نور کو اس کی ماں نے تھام لیا
چلو یہاں سے وہ ماہ نور کو کھینچنے لگی۔۔
نہی اماں مجھے فارس سے بات کرنی ہے اسے روکو اماں مجھ سے غلطی ہو گئی مجھے اتنی بڑی سزا نا دے ۔۔
نادیہ بیگم نے اس کی ایک نا سنی اسے لے گئی ۔۔
مولوی صاحب بسم اللہ کرے سکندر صاحب نے مولوی کو اشارہ کیا
جیسے ہی مولوی نے فارس سے پوچھا قبول ہے اس کا دل بند ہونے لگا ایسے لگا جیسے بہت بڑی غلطی کرنے جا رہا ہو پر اب کچھ نہی ہو سکتا تھا اس کا اپنا تماشا تو بن چکا تھا وہ اپنے
ماں باپ کو مزید شرمندہ نہی کروانا چاہتا تھا اس لئے بول دیا قبول ہے۔۔۔
💓💓💓💓💓💓💓💓💓
ارے آپی آپ کو نہی پتہ اس ماہ نور نے کتنا تماشا کیا تھا پر فارس نے اسے دھکے مار کر نکال دیا دل خوش ہو گیا تھا میرا بڑا مجھے کہتی تھی اس حویلی کی بہو بنو گی ۔۔۔
اچھا گڑیا اب تم نے فارس کا خیال رکھنا ہے اسے کوئی پرانی بات یاد نہی کروانی ورنہ وہ آگے کبھی نہی بڑھ سکے گا۔۔۔
اچھا میری ماں ویسے آپی مجھے سمجھ نہی آئی ماہ نور نے فارس کو کیا دھوکا دیا ہو گا وہ ادے آج دھوکے باز کہہ رہا تھا۔۔۔
جو بھی ہو تمہارے لئے تو اچھا ہوا نا اب فون بند کرو آج تمہااری سہاگ رات ہے اور مجھے کال کر دی تم نے اس ٹائم۔۔۔
اچھا آپی جان وہ تو بس آپ سے یہ سب شئیر کرنا تھا اس لئے کال کر دی۔۔۔۔
اچھا اب رکھو فون اور فارس سے لڑائی جھگڑا بلکل نہی کرنا۔۔۔
اچھا بابا ایک ہی بات میں کوئی لڑاکا بلی ہو جو لڑو گی اس سے بائے “””فون بند کر کے سائیڈ پر رکھا اور فارس کو سوچنے لگی
اتنا ٹائم ہو گیا مجھے تو نیند آ رہی ہے جیسے ہی وہ ٹیک لگانے پیچھے کو ہوئی دروازہ کھلنے کی آواز آئی اور فارس اندر آیا۔۔۔۔
وہ اس کی طرف دیکھے بغیر سیدھا واش روم گیا فریش ہو کر باہر آیا تو آبی پر نظر پڑی
تم چینج کر لو اور سو جائو اس نے تھکے ہوئے لہجے میں کہا اور سائیڈ پر آ کر لیٹ گیا۔۔۔
کیا مطلب سو جائو میری منہ دکھائی اور آپ نے تعریف بھی نہی کی کہ میں کیسی لگ رہی ہو
آتے ہی دوسری طرف منہ کر کے سو گے یہ کیا بات ہوئی اگر ماہ نور نے تمہیں کوئی دھوکہ””
شٹ اپ آئیندہ تمہارے منہ سے میں ماہ نور کا نام نا سنو ورنہ مجھ سے برا کوئی نہی ہو گا وہ جس کی یادوں سے بھاگ رہا تھا وہ پھر اس کا نام لے رہی تھی
آبی کو بہن نے سمجھایا بھی تھا پر وہ پھر انجانے میں زخم کرید گئی تھی۔۔۔
اب میرا منہ کیا دیکھ رہی ہو جائو چینج کرو —ہنہ فارس نے اسے غصے سے کہا اور منہ پر تکیہ رکھ لیا۔۔۔
ہنہ میں بھی کوئی مری نہی جا رہی تمہارے منہ سے تعریف سننے کے لئے
وہ کپڑے چینج کر کے آئی اور لیٹ گئی پتہ نہی کب تک یہ سب چلے گا وہ بڑبڑاتی ہوئی سو گئی۔۔۔
فارس کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی اس کے سامنے ماہ نور کا اجڑا سراپا آ رہا تھا کیوں کیا تم نے
ایسا ماہ نور میں نے تم سے سچی محبت کی اور تم پتہ نہی بدلے کے کن چکروں میں پڑی ہوئی تھی
ورنہ آج تم یہاں ہوتی اور میں کتنا خوش ہوتا
یہ سوچتے ہوئے اس کی آنکھوں میں نمی آ گئی ساری رات ماہ نور کو سوچتے گزر گئی۔۔
💓💓💓💓💓💓💓💓
ماہ نور یہ دیکھ میرے بندھے ہاتھ اور یہ تھوڑا سا کھا لے پھر تجھے دوائی دے سخو گی خالی پیٹ دوائی کیسے لو گی ساری رات اگر فارس تڑپا تھا تو ماہ نور بھی بجار میں تڑپتی رہی تھی ۔۔
لائو اماں اسے ماں کے بندھے ہاتھوں پر ترس آگیا تھا بخار سے زیادہ وہ پچھتاوے کی آگ میں جل رہی تھی اسے نادیہ بیگم نے ایک پھر سب دہرایا تھا کہ تیرے اور فارس کے دادے کے پاس ایک جتنی زمینیں تھی پر تیرا دادا محنتی نہی تھا اسے بیٹھ کر
کھانے کا شوق تھا زمینیں بکتی گئی اور فارس کا دادا محنتی تھا ان کی زمینیں بڑھتی گئی وہ لوگ تو اتنے اچھے تھے کہ ہمیں کبھی کسی چیز کی کمی نہیں ہونے دی جب تک تیرا باپ زندہ تھا
تیرے باپ کو انہوں نے اپنے پاس سے زمین کا ٹوٹا دیا ہوا تھا کہ کما اور کھا تیرے باپ کے جانے کے بعد انہوں نے وہی زمین تیرے نام کر دی
اور آٹا چاول بھی وہی لوگ بھیجتے ہے ہمیں تو زمین کی بھی فکر
نہی اپنے مزارعوں سے ہماری زمین کی بھی رکھوالی کرواتے
ہیں اور جو نفع ہوتا ہے وہ ہر فصل کے بعد مجھے دے دیتے ہیں
اور تو اپنے خیالی حق کے چکروں میں اپنا دل اجاڑ بیٹھی ہے ماں
تھی انہی بھی بیٹی کے دل ٹوٹنے کا غم تھا پہلے تو وہ سمجھ
رہی تھی ماہ نور بدلے کے لئے یہ سب کر رہی ہے ان کو تو رات
کو ماہ نور کی حالت دیکھ کر پتہ چلا ان کی جھلی دھی کیا کر بیٹھی ہے۔۔۔
💓💓💓💓💓💓💓💓💓
ماہ نور بیٹا کیوں چپ کر کے بیٹھی ہے کچھ بولا کر تو ہر وقت
ایسے چپ رہتی ہے میرا دل ہولنے لگتا ہے تجھے اس حال میں
دیکھ کر نادیہ بیگم نے سوچوں میں گم بیٹھی ماہ نور سے کہا۔۔۔
کیا بولو اماں کچھ بولنے کو دل ہی نہی کرتا اس نے اداس لہجے میں کہا۔۔۔
کیوں نہی دل کرتا میری لاڈو کا تو پہلے جیسی مانو بن جا ۔۔
وہ مانو تو مر گئی میں نے خود اسے مارا ہے اور دفن بھی کیا ہے اپنے ہاتھوں سے۔۔
چل بکواس نا کر تجھے اپنی ماں کا زرا خیال نہی پھر مجھے بھی مار دے نادیہ بیگم نے روتے ہوئے کہا ان کی اکلوتی بیٹی تھی ان
سے برداشت نہی ہو رہی تھی ماہ نور کی حالت۔۔
اماں ایسے تو نا کہوں میرے پاس بس آپ ہی تو ہے اور کوئی نہی
میرا جو تھا اسے میں نے اپنے ہاتھوں سے گنوا دیا””” مانو
سسکتے ہوئے ماں کے گلے لگی
فارس اپنے رشتے میں آگے نہی بڑھ پا رہا تھا اس نے ماہ نور سے
دل وجان سے پیار کیا تھا میں کیسے کسی اور کے ساتھ خوش رہ سکتا ہو مجھ سے غلطی ہو گئی آبی بچاری کو میں کس چیز
کی سزا دے رہا ہو اس کا اس سب میں کیا قصور اف یہ مجھ سے کیا ہو گیا فارس نے سر ہاتھوں میں گرا دیا۔۔
میں کیسی لگ رہی ہو آبی کی آواز اسے ہوش کی دنیا میں واپس لائی ۔۔
ہو کچھ کہا تم نے ۔۔
میں نے پوچھا میں کیسی لگا رہی ہو ۔
ٹھیک لگ رہی ہو اس نے بے دھیانی میں ہی جواب دیا۔۔
کتنے کھڑوس ہے آپ فارس بندہ تھوڑے اچھے سے تعریف کر دیتا ہے اور تم ٹھیک لگ رہی ہو آبی نے فارس کی نقل اتاری۔۔۔
مجھے تعریف کرنی نہی آتی ٹھیک لگی تو ٹھیک کہہ دیا۔۔
اچھا اگر میری جگہ ماہ نور ہوتی تب بھی تم ایسے ہی کہتے آبی نے کچھ سوچ کے کہا۔
میں نے تمہیں پہلے بھی کہا تھا کہ ماہ نور کو بیچ میں مت لانا اور تم پھر اسی بکواس کو شروع کر رہی ہو ۔۔
سوری میں نے بس ایسے ہی کہہ دیا آبی فارس کا غصہ دیکھ کر گھبرا گئی آپی نے مجھے سمجھایا بھی تھا اور میں پھر اسے پرانی باتیں یاد کروا دیتی ہو اس نے دل میں سوچا”
اچھا آپ تیار تو ہو جائو آج ہم نے دعوت پر جانا ہے بھول گئے ۔۔
میں کہی نہیں جا رہا تم اور باقی سب جائو فارس نے بے رخی سے کہا۔۔۔
توبہ ہے فارس دولہا صاحب نہی جا رہا دعوت پر تو میں بھی نہیں جاتی اماں اور بابا جان کو بھیج دیتے ہیں۔۔۔
اچھا بابا تم نکلو روم سے میں آتا ہو تیار ہو کر فارس نے اکتائے ہوئے کہا اسے پتہ تھا یہ لوگ لے کر ہی جائے گے۔۔۔
💓💓💓💓💓💓💓💓
مانو چل نا باہر کھیتوں میں چلتے ہیں موسم بھی کتنا اچھا ہو رہا ہے مزہ آئے گا ۔
رجو میرا دل نہی کر رہا ۔۔۔
تمہارے دل کی تو ایسی کی تیسی میں نے کہہ دیا اور تم چل رہی ہو بس “””رجو کو بہت افسوس ہو رہا تھا مانو کی یہ حالت دیکھ کر
کیسے مرجھا گئی تھی آنکھوں کے نیچے بھی ہلکے وہ اسے جان بوجھ کے باہر لے جانا چاہتی تھی تاکے اس کا دل بہلے۔۔
ضد نہی کرو یار سچی میرا من نہی ہو رہا ۔۔
اچھا ضد میں نہی کرو اور تو جو ہم سب کے ساتھ کر رہی ہے یہ کیا ہے تجھے بس فارس سے پیار ہے اور خالہ ان بیچاری کا کیا قصور ہے وہ ہر وقت تیرے دکھ کو روتی رہتی ہے تو ہی تو ان کا سہارا یہ میرے بندھے ہاتھ دیکھ اور ہم پر رحم کر
وہ اتنا کہہ کر جانے لگی کہ ماہ نور نے روک لیا اچھا رک میں چلتی ہو۔۔
مانو تو چل ٹیوب ویل کے پاس بیٹھ میں آم توڑ کے لاتی ہو ادھر دھو کر کھائے گے۔۔۔
اچھا جلدی آ جانا ماہ نور اتنا کہہ کر تھوڑا آگے چلے تھی کہ کسی سے ٹکرا گئی اف اللہ دیکھ کر نہی چل سکتے
جیسے ہی وہ گرنے لگی سامنے والے نے تھام لیا اور دونوں پلک جھپکے بنا ایک دوسرے کو دیکھے گئے
چند لمحے لگے فارس کو سنبھلنے میں اس نے ماہ نور کو چھوڑ دیا ماہ نور کی حالت دیکھ کر اس کا دل کٹنے لگا
تم ٹھیک تو ہو نا اچانک اس کے منہ سے نکلا۔۔۔
مجھے کیا ہونا ہے اتنا کہہ کر وہ آگے بڑھنے لگی کہ فارس نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا ۔
ماہ نور اس کی حرکت پر حیران رہ گئی جب وہ ایک تعلق میں تھے فارس نے تب بھی یہ حرکت نہی کی تھی اب تو سب ختم ہو گیا
اب وہ ہاتھ کیوں پکڑ رہا تھا۔۔
چھوڑو میرا ہاتھ ماہ نور نے اپنا ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کی۔۔
مجھے بھی کوئی شوق نہی تم جیسی دھوکے باز کا ہاتھ پکڑنے کا فارس نے اسے کھینچ کر اپنے سامنے کیا
بس یہ پوچھنا تھا کبھی شرم آئی ہے اپنے دھوکے پر ۔
ہاں آئی ہے شرم بہت شرم آتی ہے مجھے میں نے تمہیں کوئی دھوکہ نہی دیا بس میں اپنے دل کی بات سمجھ ہی نہی سکی جب سمجھ آئی تو بہت دیر ہو چکی تھی
میرا سب کچھ لٹ چکا تھا میں خالی ہاتھ رہ گئی اس کے آنسو بہت تیزی سے بہہ رہے تھے ۔۔
تمہی لگتا ہے کہ میں اب کبھی تمہاری بات کا یقین کرو گا کبھی نہی نفرت کرتا ہو میں تم سے شدید نفرت
میں اس لمحے کو کوستا ہو جب تمہیں پہلی بار دیکھا اور میرا دل تمہارے لئے دھڑکا کاش کہ میں تمہیں جانتا ہی نا ہوتا ہم کبھی ملے نا ہوتے
وہ ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے اور رو رہے تھے
ارے مانو تم ابھی یہی کھڑی ہو رجو جیسے ہی آگے آئی فارس کو دیکھ کر چپ کر گئی رجو کی آواز سے دونوں ہوش میں آئے
اپنے آنسو صاف کئے اور اپنی بے نشان منزل کی طرف چل پڑے۔۔۔
کیا کہہ رہا تھا تم سے اور اس کی آنکھوں میں آنسو کیوں تھے جیسے ہی وہ ٹیوب ویل پر پہنچی رجو نے پوچھا۔
کہہ رہا تھا کہ مجھ سے نفرت کرتا ہے وہ اپنے پائوں پانی میں ڈال کے بیٹھ گئی۔۔
اچھا پھر آنسو کیوں بہا رہا تھا ۔۔
مجھے بس اتنا پتہ ہے فارس مجھ سے کبھی نفرت نہی کر سکتا اس نے شادی کر لی پر وہ مجھے خوش نہی لگا
اور جن سے نفرت کی جائے ان کے لئے آنسو نہی بہائے جاتے مانو نے تھک کر رجو کے کندھے پر سر رکھ دیا اور آنکھیں موند لی ۔۔۔
اچھا چل چھوڑ یہ باتیں آم کھا رجو نے اس کا دھیان بٹانے کے لیے کہا۔۔
💓💓💓💓💓💓💓💓