محترم قارئین! عالمی ماہنامہ مینارِ اُردو یوکے کو ستمبر۔ اکتوبر 2021ء کا شمارہ نسیم خانم صباؔ نمبر کے طورپر پیش کرنے کی سعادت ملی۔ اس شمارے پر کرناٹک کے ایک ادب نواز دوست نے مفصل تبصرہ لکھا اور مختلف اخبارات و جرائد و رسائل میں شائع کروایا جس میں میناراردو کے اس شمارے کا احوال بہت ہی خوب صورت انداز میں پیش کیا گیا۔ ذیل میں ان کا یہ مضمون پیش خدمت ہے۔ مدیر اعلیٰ
عالمی ماہنامہ ’’میناراردو ‘‘ ستمبر ۔ اکتوبر2021ء دراصل ’’خراج تحسین نمبر‘‘ ہے جس کے تمام صفحات بھارتی ریاست کرناٹک کے ضلع کپل مستقر کی مرحوم شاعرہ نسیم خانم صباؔ کے نام منسوب ہیں۔جس کے مدیراعلیٰ احمد منیب ؔنے اس نمبر کو خصوصیت سے ترتیب دے کرمرحوم شاعرہ کوفوری طورپر خراج پیش کیاہے۔ علاقہ کلیان کرناٹک (قدیم نام حیدرآبادکرناٹک ) کے کپل ضلع سے تعلق رکھنے والی شاعرہ محترمہ نسیم خانم صباؔ کا انتقال 30اگست 2021کو ہوااور پانچ ہفتوں کے اندر 126صفحات کا شمارہ ترتیب دینا دراصل مرحومہ سے خاص تعلق کی نشانی ہے۔ جس کااجر مدیراعلیٰ احمد منیبؔ کو ملتارہے گا۔ موصوف نے اداریہ میں لکھاہے ’’میں نے آپی (نسیم خانم صباؔ) کا ساراکلام جو مل سکا اس میں شامل کردیاہے ۔ اس کے بعدبھی اگر کوئی کلام مل سکاتو وہ آمدہ شمارہ جات میں شائع کرتے رہیں گے‘‘اس شمارے کاپہلا حصہ ’’ذرّہ ذرّہ کائنات‘‘کے عنوان سے نسیم خانم صباؔ کے مجموعہ ٔ کلام سے متعلق ہے ۔جس کے مرتب احمد منیبؔ ہیں۔ ایک حمد ، ایک مناجات، 2نعت کے بعد پیش لفظ احمد منیبؔ نے لکھاہے جس میں نسیم خانم صباؔ کاتعارف دیاگیاہے۔ جس میں بتایاگیاہے کہ نسیم خانم صبا ؔ کا اصلی نام نسیم بانو بنت عبدالنبی ہے۔ 22؍مئی کو بلاری شہر میں پیدا ہوئیں اور کپل کو جائے سکونت بنایا۔ پی یوسی ، ڈی ایڈ تک تعلیم حاصل کی اور محکمہ تعلیمات میں پیشہ تدریس کے فرائض انجام دیتی رہیں۔ پہلی تصنیف ’’ماں‘‘ کے عنوان سے لکھی ۔ اس کے بعد مرحومہ صباؔ کے 46غزلیں درج کی گئی ہیں۔ جن کے
چند ایک اشعار ملاحظہ کریں:
کاش سب ٹوٹ کر گریں تارے
نیچے پھیلا میرا دامن ہو
۔۔۔۔۔۔
نظر اٹھا کے ذرا دیکھ دل کے طاقوں پر
فروزاں آج بھی ہیں غم کی آیتوں کے چراغ
۔۔۔۔۔۔
ہوائیں سرپھری ہوں چاہے جتنی
پرندہ گھر بنانا چاہتا ہے
۔۔۔۔۔۔
تری یادوں میں جو چھلکتی ہوں
ایسی دے دے مرے خدا آنکھیں
۔۔۔۔۔۔
ہے معطر صباؔ جو کوچے کی
ذکرِ احمد کِیا گیا ہو گا
۔۔۔۔۔۔
جو آفتاب کی شدت میں ہوگئے تھے گم
بوقت شام وہ آئے ہیں لوٹ کر سائے
۔۔۔۔۔۔
تمام عمر ہی وعدہ وفا نہ جس کا ہوا
صباؔ اسی کا مجھے اعتبار باقی ہے
۔۔۔۔۔۔
آپ کا عکس لئے شام کو گھر جاتے ہیں
اور تنہائی کے عالم میں بکھر جاتے ہیں
۔۔۔۔۔۔
جہاں سے بھی گزریں محبت لٹائیں
صباؔ آؤ نکلیں ہم ایسے سفر پر
۔۔۔۔۔۔
غیرت وافر ہوتی ہے
بھوکوں میں، ناداروں میں
جبکہ 6طرحی غزلیں درج ہیں۔ 25سے زائد منظومات ہیںجن میں ہلالِ رمضان ، ماں ، والدین، بنتِ حوا سے خطاب ، ٹیپوسلطان ، ترکستان کاستارہ، قومی یکجہتی وغیرہ اہم ہیں۔ قطعات کی بہار کے عنوان سے 45قطعات جمع کئے گئے ہیں۔ ایک قطعہ سماعت کریں:
رنگِ وفاسے عشق کا دامن بھرا رہے
گلہائے تروتازہ سے یہ آنگن سجا رہے
پروردگار سے ہے صبا کی یہ التجا
تاعمر فکروفن کا یہ گلشن ہرا رہے
مینارِ اردو اور احمد منیب ؔ پر لکھاگیامنظوم کلام بھی شامل ہے۔اور مختلف شماروں پر نسیم خانم صباؔ نے جو کچھ تاثرات روانہ کئے وہ بھی شمارے میں دُہرایاگیاہے۔ اس کے علاوہ غزل پر گفتگو، اردو ، فلاح وبہبود، جیسے عناوین پر لکھی گئی صبا کی نثری تحریریں بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بڑی دلچسپ تحریریں وہ ہیں جو نسیم خانم صبا کے کلام پر احمد منیب ؔ اور محمد زبیر نے تحریر کی ہیں۔ ایسی مزید تحریروں کو یکجا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ صباؔ کے کلام کی گہرائی وگیرائی کااندازہ ہوسکے۔ نسیم خانم صباؔ کی وفات پر لکھے گئے مضامین بھی اس شمارے میں شامل ہیں ۔ مسعود حساس کویت نے ’’آہ نسیم خانم صباؔ‘‘ کے عنوان سے لکھاہے۔ اشرف ہلال قاسمی نے ’’بہ یادِ نسیم خانم صباؔ‘‘ منورپاشاہ ساحل تماپوری نے ’’آہ! نسیم خانم صباؔ‘‘ عامر سہیل نے ’’نسیم خانم صباؔ‘‘ اورڈاکٹر ارشاد خان ، روبینہ میر نے بھی اپنے جامع خیالات کااظہار کیاہے۔ عبدالرزاق بے کل، مظفرنایاب،اور توقیرسید منظوم اظہار خیال کے ذریعہ سبھوں کو متاثر کرتے ہیں۔محترمہ صباؔ کی یاد میں توازن اردو ادب کے پروگرام میں پیش کیاگیا اصغر شمیم کولکتہ ، عامریوسف لاہور، ذکی قاضی گلبرگہ ، نعمان انصاری تھل ، خبیب تابش ، عامر حسنی ۔ ملائشیا، ڈاکٹر الماس کبیر جاوید ، ڈاکٹر لبنیٰ آصف کامنظوم کلام پڑھ کر اشک جاری ہوجاتے ہیں۔ عامرحسنی نے ملائشیا سے لکھا ہے
ایک بادِ صبا اور بادِ نسیم
رنگ سارے تھے اس کے جداسے جدا
خبیب تابش کہتے ہیں :
جس طرح وہ گیا یوں بھی کوئی جاتاہے بھلا
کیا غضب ہے کہ مقید ہوئی ہے بادِ صبا
نعمان انصاری پکار اٹھتے ہیں :
توازن اردو ادب میں سرگرم ہند کی شاعرہ صباؔ تھی
حیاکی پیکر حجاب والی ادب میں اک ماہرہ صباؔ تھی
احمد منیبؔ نے ’’حرفِ آخر‘‘ خوب لکھاہے۔ اللہ تعالیٰ انھیں اجر عظیم سے نوازے ۔ آمین۔
126صفحات کاماہنامہ ’’میناراُردو‘‘ وہ دستاویز ہے جو نسیم خانم صباؔ کو ہمیشہ یادرکھنے میں تعاون کرتارہے گا۔ اوریہ وہ حرفِ اول ہے جو حرفِ آخر تک رہنمائی بخشنے کایارا رکھتاہے۔
محمدیوسف رحیم
***
جناب مسعود حساس کویت سے لکھتے ہیں:
بلا شبہ احمد منیبؔ بھائی نے اپنی عقیدتوں کو لفظوں کا لبادہ عطا کردیا ہے اور دوسری طرف دیگر حضرات کی محبتوں کو بھی انمٹ بنا دیا۔اصل بات یہ ہے کہ ہم میں سے بیشتر لوگ منہ بھرائی کے لیے تبصرہ کرتے ہیں یا مضمون لکھتے ہیں اس امر کے لیے ممدوح کا بقید حیات ہونا ضروری ہے تاکہ اس سے جو صلے کی تمنا ہے اپنے منطقی انجام کو پہنچے مگر کچھ قلندر مزاج درویش صفت لوگ آگ کے شہر میں پانی کی قبا زیب تن کئے اپنی محبوب شخصیات کی حیات و خدمات کے ہر گوشے کو قلم کے دائرے میں لاکے اسے زندہ وجاوید بنا دینا چاہتے ہیں۔بس اسی مؤخرالذکر قبیل سے ہمارے رئیس التحریک قبلہ احمد منیبؔ صاحب ہیں۔ یہ صاحب جس جس سے بھی محبت کرتے ہیں تو ٹوٹ کے چاہتے ہیں اور جس جس سے عقیدت کی لَو لگاتے ہیں تو اس کے سامنےخود کو تحت الثریٰ بنا کے پیش کرتے ہیں۔ مزید براں کہ ہر معاملے میں دقت و مشقت کی ہر دشوار گزار گھاٹی اور ناہموار پگڈنڈی کو بصد مسرت و انبساط طے کرتے ہیں۔نسیم صبا مرحومہ کے لیے ہر کس و ناکس نے کچھ نہ کچھ ضرور لکھا مگر میرے دوست میرے بھائی میرے محسن میرے قلندر شاہ احمد منیب نے نہ یہ کہ ایک شاہکار نظم لکھنے کے ساتھ ساتھ دیگر لوگوں کے نثری و منظوم تاثرات کو کتابی شکل میں یکجا کیا اور مرحومہ کے کم و بیش تمام کلام کو مدون کرکے خرد برد ہونے سے بچا لیا۔
زندہ آباد احمد منیب بھائی زندہ آباد
جناب عامر یوسف لاہور سے لکھتے ہیں:
بے شک محترم احمد منیب جی اپنی ذات میں بوئے قلندری اور عرفان و آگہی کی کشادہ روئی رکھتے ہیں اور تم تو غم دے کے بھول جاتے ہو ہم کو احساں کا پاس رہتا ہے کے مصداق انسانیت اور قناعت کی قبائے تنگِ خوباں اوڑھے درویش منش انسان ہیں جس کے مینار ادب کی صورت کھل جانے سے خوشبوئے وفا کی لطافت اور لطفِ زیر و بم سے دل کا معطر ہونا لازم ہے ان کی صحت و سلامتی کے لیے ہم سب دلی دعا گو ہیں۔
مینارِ ادب کا تازہ شمارہ اور اس کا حرف حرف مدیر اعلیٰ سر پرست اعلیٰ اورتوازن اردو ادب کی کی وفا انسان دوستی اور خاموش لیکن گہری محبتوں کی سچی عکاس ہے اور ادب تخلیق کرنے کے اور محفوظ کرنے کے پیچھے ادب کا جو متعین مقصد ہونا چاہیے اس کا بجا طور پر غماز ہے سچ ہے وہی ادب پارے عظمت و رفعت سے ہم کنار ہوتے ہیں جن کے پیچھے سچے اور خاموش انسان دوست جذبے کار فرما ہوتے ہیں ہر تحریر محترمہ نسیم خانم صاحبہ کے صدمے اور سانحے کو ایک خاندان میں عزیرِ جاں فرد کے بچھڑنے سے کم حادثہ نہیں اللہ محترم احمد منیب صاحب مسعود حساس صاحب اور تمام انتظامیہ کو اس خاندان سے وابستہ ہر معزز رکن سے اسی طرح جسد واحد کی طرح ڈھالے رکھے آمین ثم آمین
جناب خواجہ ثقلین لکھتے ہیں:
حرف حرف صداقت ہے اور لفظ لفظ عقیدت ہے۔۔۔ اہم دستاویزی اشاعت ہے ۔۔ ۔۔۔ انتظامیہ قابلِ صد تحسین ہیں ۔۔۔ جزاہم اللہ خیراً و کثیرًا اللہ تعالیٰ مرحومہ کے ہر مخلص عمل کو قبول فرمائے آمین ثم آمین
محترمہ رخسانہ نازنین بیدر سے رقم طراز ہیں:
“مینار اردو” کا یہ گوشہ نسیم خانم صبا مدیران کی مرحومہ کے کلام کو یکجا کرنے اور انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کی مستحسن کوشش ہے ۔ اللہ تعالی اسکا بہترین اجر دے ۔ شمارہ دیکھ کر خوشی کے ساتھ دکھ بھی ہوا کہ مرحومہ اپنے مجموعۂ کلام کی اشاعت کی حسرت لئے ہی دنیائے فانی سے گزر گئیں ۔ یہ اردو ادب کا المیہ ہے کہ یہاں شعرا وادبا کی قدر ان کی وفات کے بعد ہوتی ہے! مگر یہی خیال تسلی بخش ہے جسے پروین شاکر نے شعر کی صورت عطا کی ہے ۔
مر بھی جاؤں تو کہاں لوگ بھلا دیں گے
مرے لفظ میرے ہونے کی گواہی دیں گے
مدیران مینار اردو کو تہہ دل سے مبارکباد پیش ہے ۔ اللہ تعالی مرحومہ کے حق میں اس جذبہ خلوص اور تعزیتی احساسات کو قبول کرے اور اجر عظیم عطا کرے ۔
جناب منور پاشا ساحل تماپوری سے لکھتے ہیں:
مرحومہ کےشایان شان شمارہ ۔آپ نے حق ادا کردیا۔ اللہ انہیں غریق رحمت کرے اور آپ کے اخلاص کا بھرپور اجر دے۔آمین
خاکسار کی تحریر بھی شامل ہے اس کے لیے بھی شکریہ۔ جزاك الله
شکریہ احباب
اللہ تعالیٰ ان سب احباب کو جزائے خیر عطا فرمائے جنہوں نے اس نمبر کے لیے میرے ساتھ تعاون کیا۔
اس درخواست کے ساتھ اگر کسی دوست کے پاس محترمہ نسیم خانم صبا کا مزید کلام ہو جو اس نمبر میں شائع نہیں ہو سکا تو ضرور خاکسار کو بھجوا دیں تا کہ اگلے شمارہ جات میں شامل کیا جاسکے۔
اگر نسیم خانم صبا نمبر پر کسی کے تاثرات درج ہونے سے رہ گئے ہیں تو وہ بھی بھجوا دیں تاانہیں اگلے کسی شمارے میں جگہ دی جا سکے۔
یہ طے ہے کہ جو خراجِ تحسین ہم اس لائق اور نیک بہن کو پیش کر سکتے تھے وہ کماحقہ ہم نہیں کر سکے لیکن ہم نے کوشش کی ہے کہ ہم کچھ نہ کچھ کر سکیں۔ جزاکم اللہ احسن الجزاء
آپ کا اپنا
احمدمنیبؔ
مدیر اعلیٰ عالمی ماہنامہ مینارِ اردو
رئیس لتحریک توازن اردو ادب
یکم جنوری 2022ء