(مطبوعہ روزنامہ ’’مصنف‘‘ حیدرآباد)
محمود ایاز ؔ… (ایڈیٹر ’’سوغات‘‘ محمود ایازؔ بھی فردوسِ مکاں)
٭٭
بنگلورو۔ ۲۹ مارچ (یو این آئی) روزنامہ ’’سالار‘‘ بنگلور کے بانی مدیر جناب محمود ایاز کا مختصر سی علالت کے بعد آج ایک خانگی ہاسپٹل میں انتقال ہو گیا۔ اُن کی عمر ۶۸ سال تھی۔ پسماندگان میں بیوہ کے علاوہ دو فرزند ہیں۔ جناب محمود ایاز دود ہوں تک اس اخبار سے وابستہ رہے اور اب وہ ادبی جریدہ ’’سوغات‘‘ کی ادارت کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ چیف منسٹر کرناٹک مسٹر جے ایچ پٹیل نے ان کے انتقال پر رنج و ملال کا اظہار کیا ہے۔
٭٭
اور روزنامہ ’’سیاست‘‘ حیدرآباد کے ۳۰ مارچ ۱۹۹۷ء کے شمارہ میں بھی یہ خبر بے حد اندوہناک ملی کہ جدید اُردو شاعری کا یہ چمکتا ہوا ستارہ بھی غبارِ زماں میں گم ہو گیا۔
محمود ایاز کے نام سے ’’سوغات‘‘ کا نام اسی طرح منسلک ہے جس طرح ’’نقوش‘‘ محمد طفیل، ’’شب خون‘‘ سے شمس الرحمن فاروقی، ’’افکار‘‘ سے صہبا لکھنوی، ’’اوراق‘‘ سے وزیر آغا اور ’’صبا‘‘ حیدرآباد سے سلیمان اریبؔ وغیرہ اُردو کی نئی تحریر کے لیے راہ کھولنے والے، نئی سمت کی تلاش کرنے والے اور نئی ادبی تنقید کو مروج کرنے والے رسائل میں اہم نام ہیں۔ سوغات تو چلتا رکتا، ٹھہرتا اور پھر چلتا رہا۔ آخر دنوں تک محمود ایاز نے اسے اسی طرح معنی خیز اور معیاری رکھا۔ میرے پاس ۱۹۹۵ء کے اواخر تک کا سوغات موجود ہے۔ وہی ضخامت، وہی متوازن طباعت۔
محمود ایاز جیسے عمدہ مدیر اخبار و جریدہ تھے ویسے ہی ایک نمائندہ شاعر بھی تھے۔ ان کا ایک شعر جو میرے ذہن میں بازگشت کی صورت نقش ہے وہ کچھ یوں ہے:
بند آنکھوں سے سبک سیر زمانے دیکھے
جاگتی آنکھوں نے بس خواب کا چہرہ دیکھا
ان کی ایک نظم جو ’’نمائندہ‘‘ جدید نظموں کے انتخاب ’’نئی نظم کا سفر‘‘ (مرتبہ خلیل الرحمن) میں شریک ہے، اس کا یہ بند تو غضب کا ہے:
’’سموم و ریگ کے صحرا میں اک نفس کے لیے
چلی ہے باد تمنا تو عمر بھر کی تھکن
سر مژہ سمٹ آئی ہے ایک آنسو میں
یہ وہ گہر ہے جو ٹوٹے تو خاک پا میں ملے
یہ وہ گہر ہے جو ٹوٹے تو شب چراغ ہے‘‘ (سب چراغ)
مرحوم کا مجھ پر یہ ذاتی احسان تھا کہ میری تخلیقات کو سوغات میں اشاعت پذیر کیا، وہ بھی اُس وقت کہ جب میں ادبی فضا میں ایک نیا نام بھی تھا
اُردو کا ایک اور سپاہی پردۂ اجل میں جا چھپا، خدا اُسے سایۂ رحمت میں اور اُردو والوں کو اس سانحہ پر صبر عطا فرمائے۔
٭٭٭