کیا ہوا، ارسل اور عالیہ کو۔۔۔۔ میں نے بے چینی سے پوچھا۔
کچھ عرصہ ہوا ان میں چھوٹی موٹی لڑائیاں شروع ہو گئیں، ارسل لاپرواہ ہوتا جا رہا تھا، گھر بھی دیر سے آنے لگا۔ بزنس میں بھی لاپرواہی دکھا رہا تھا۔۔۔
عالیہ نے اپنے ماموں زاد کو بھی بزنس میں انوالو کر دیا کہ جہاں ارسل سے لاپرواہی ہو وہ خود نظر ثانی کرتا رہے۔۔۔ عالیہ اپنے باپ اور نانا کا بزنس تباہ ہوتا نہیں دیکھ سکتا تھی۔۔۔ وہ ارسل کو سمجھانے کی کوشش کرتی تو وہ بگڑ جاتا۔ اور عالیہ کے کزن کی مداخلت بھی اس سے برداشت نہ ہو پا رہی تھی۔۔۔۔۔
ایک رات دونوں میں ٹھیک ٹھاک لڑائی ہوئی، ارسل نے عالیہ کو تھپڑ دے مارا، عالیہ سے اپنی تذلیل برداشت نہ ہوئی اس نے ارسل سے بات کرنا چھوڑ دیا، بس سارا دن روتی رہتی۔ میں اسے تسلی دیتی کہ سب کھچھ ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔۔
خطرے کی گھنٹی اسکے کانوں میں ہر وقت گونجتی رہتی، وہ خوفزدہ رہنے لگی تھی۔
ارسل نے رسما اس سے سوری کیا پر اسے منانے کی کوشش نہ کی۔
ارسل اسے مجبور کر رہا تھا کہ بزنس اسکے نام کر دے۔ نہیں تو راستے الگ۔۔۔ سمجھے۔
وہ ارسل سے بہت پیار کرتی تھی، پر جانتی تھی کہ جس بات کی وہ دھمکی دے رہا ہے وہ کام وہ بزنس ہتھیانے کے بعد بھی کر گزرے گا۔۔۔ سو اس نے خود کو وقت کے دھارے پہ چھوڑ دیا۔۔۔ اور اسے اک پھوٹی کوڑی بھی دینے سے انکار کر دیا۔
ارسل اب شراب بھی پینے لگا۔۔۔۔۔ اور پھر نشے میں اسے مارتا، گالیاں دیتا۔۔۔۔۔
چار دن پہلے اس نے عالیہ سے کہا وہ اب مینا سے شادی کرنے لگا ہے، مینا عالیہ سے بھی زیادہ امیر ہے اور وہ اپنا سب کچھ ارسل کو دینے پہ راضی ہے۔۔۔ سو عالیہ اب آزاد ہے۔
وہ کتنے آرام سے عالیہ کو طلاق دے گیا اور بچے جو اسکی جان تھے کے بارے میں کوئی سوال جواب نہ کیا جیسے وہ تھے ہی نہیں۔۔۔۔۔۔ وہ عالیہ کو چھوڑ کر چلا گیا۔۔۔۔۔ عالیہ ٹوٹ کر بکھر گئی اسے اس مشکل وقت میں میں نے ہی سنبھالا۔۔۔۔۔۔ پر اسکا دکھ بہت بڑا تھا، اتنی جلدی نہیں سنبھل سکتی تھی۔اس کا یقین ٹوٹا تھا، محبت سے اعتبار اٹھا تھا، وہ انڈیا سے نفرت کرنا چاہتی تھی پر اسکے بابا بھی تو انڈیا کے تھے، اس نے جان لیا کہ سب مرد ایک سے نہیں ہوتے اور سب کی قسمت میں خوشیاں نہیں لکھی یوتیں۔۔۔۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ انڈیا اپنے بابا کے پاس چلی جائے گی، اگر بابا واپس آنے پہ راضی ہو گئے تو ٹھیک، نہیں تو وہ بھی انڈیا ہی رہ جائے گی۔۔۔۔۔۔ اپنا سب کچھ بطور امانت اپنے کزن کو دے کر اس نے انڈیا کی تیاری کر لی۔
تب مجھے خیال آیا کہ وہ ٹوٹ کر انڈیا جا رہی ہے، اور میں یہاں اپنوں سے دور رہ کر ٹوٹ رہی ہوں۔۔۔ وہ محبت کی تلاش میں انڈیا جا رہی ہے اور میں سب محبتوں کو چھوڑ کر یہاں دھکے کھا رہی ہوں۔۔۔۔۔ مجھے لوٹ جانا چاہیے، اس سے پہلے کہ محبت مجھ سے روٹھ جائے۔۔۔۔۔
وہ انڈیا لوٹ گئی۔۔۔۔اور میں پاکستان چلی آئی۔ پر جانے سے پہلے مجھ پہ اتنی نوازشیں کر گئی کہ میں پاکستان آ کر مالی طور پہ مستحکم زندگی گزار سکوں۔۔۔۔۔۔
رابی نے پانی کا گلاس پیا اور گہری سانس لے کر خود کو نارمل کرنے لگی۔۔۔۔
میں اس کی آنکھوں کو بغور دیکھ رہا تھا، اب ان آنکھوں میں وہ چمک نہیں رہی تھی جو مجھے اپنے حصار میں لئے رکھتی تھی۔۔۔۔ پانچ سالوں نے اپنے گہرے اثرات چھوڑے تھے۔۔۔۔ کیا میں ان اثرات کو مٹا پاؤں گا۔۔۔۔ میں سوچ رہا تھا، خود سے پوچھ رہا تھا۔
______
سردی تھی کہ بڑھتی ہی جا رہی تھی اور میں سکڑے جا رہی تھی۔۔۔۔ اس سردی کی وجہ سے نیند بھی نہیں آ رہی تھی،میں نے بیگ سے اپنی ایک چھوٹی سی شال نکال کر اوپر لے لی، اک لمحے کو گرمائش کا احساس ہوا اور اگلے لمحے پھر وہی جان لیوا سردی۔۔۔۔ تب ماں کے نرم گرم لحاف بہت یاد آئے۔۔۔۔ میں اور تم جن سے چڑا کرتے تھے اور ماں سے نرم فر والے کمبل کی فرمائش کیا کرتے تھے اور وہ ہنس کر ٹال دیا کرتی تھیں، دل نے کہا کاش اس وقت وہ بڑے بڑے پھولوں والے نیلے پیلے لحاف پہ میسر آ جائے۔۔۔۔ اماں لحاف میں بیٹھا کر دودھ جلیبیاں پلایا کرتی تھیں، یہاں آنسو پینے پڑ رہے تھے۔
رات آدھ سوئے آدھ جاگے کیفیت میں نکل گئی۔۔۔۔ جب آنکھ کھلی تو دیکھا اندھیرا ابھی پوری طرح چھٹا نہیں خیال آیا کہ نماز پڑھ لی جائے، کتنے ہی دن گزر چکے تھے رب کے حضور سر جھکائے ہوئے۔
ایک ریسٹورنٹ کے واش روم سے وضو کیا اور اپنی شال بچھا کر ہی نماز ادا کر لی، رو رو کر رب سے مدد مانگی، صحیح راستے کی نشاندہی کی اپیل کی۔
وہی شال کندھوں پہ اوڑھ لی کہ ابھی بھی کافی سردی تھی، ہاں سورج نکلتے ہی موسم سہانا ہو جایا کرتا تھا۔
بھوک سی محسوس ہوئی تو پھر سے رونا آنے لگا۔۔۔۔
ایسا کب تک چلے گا، مجھے کوئی کام کرنا چاہیے۔۔۔۔ پر ان بڑی بڑی عمارتوں کو دیکھ کر ہی سر چکرانے لگتا ہے، ان کے سامنے سے گزرتے ہی خوف آتا تھا کجا ان کے اندر جا کر کام کے لیے کہنا کہاں آسان تھا۔۔۔
کچھ تو کرنا ہی تھا، بھوکے تو نہیں مرنا تھا ناں۔۔۔
میں نے ایک طرف کو چلنا شروع کر دیا۔۔۔۔ درود شریف پڑھنے لگی کہ یا اللہ خود ہی کوئی کام میرے سامنے آ جائے، ڈھونڈنا نہ پڑے۔۔۔
چلتے چلتے ہمت جواب دینے لگی پر مجھے ہمت نہیں ہارنی تھی۔
ایک جگہ سے گزری تو ایک موٹی تونڈ والا بندہ سامان سےبھری لوڈر کے پاس گھڑا فون پہ کسی سے بات کرتے ہوئے گالیاں دے رہا تھا، اس کی باتیں سنی کو اندازہ ہوا کہ اس نے یہ سامان سٹور میں رکھنے کے لیے جس بندے کو بلایا تھا وہ شاید بیمار ہو گیا تھا۔۔۔۔ اب وہ اسے کہہ رہا تھا تم مر ہی جاؤ تو اچھا ہے۔۔۔۔ فون آف کر کے وہ سر پکڑ کر کھڑا تھا کہ میں اسکے قریب چلی گئی، سر یہ کام میں بھی کر سکتی ہوں۔۔۔ پلیز مجھے چانس دیں۔۔ میں نے ڈرتے ڈرتے کہا۔ اس نے مجھے سر تا پا دیکھا۔۔۔۔آر یو شیور۔۔۔؟؟؟ بے یقینی سے اسکے منہ سے نکلا۔
میں نے مسکرا کر سر ہلایا۔
میں نے جلدی سے اپنا بیگ ایک طرف رکھا اور سامان اٹھا اٹھا کر اسکے سٹور میں رکھنے لگی۔
وہ ایک طرف کھڑا میری پھرتی دیکھ رہا تھا، وہ میری مدد کرنا چاہتا تھا پر وہ اتنا موٹا تھا کہ اس کے لیے اپنا آپ سنبھالنا ہی بہت بڑا کام تھا۔۔۔۔۔
کام کرتے کرتے میری سانس پھول رہی تھی، میں تھک کے بیٹھی کہ سانس برابر ہو جائے تو باقی کا کام نمٹا لیا جائے، اس وقت بھوک اور پیاس دونوں ستا رہی تھیں۔۔۔ مجھے یاد آنے لگا کہ جب اماں سردیوں سے پہلے گھر کے سب بستروں کو دھوپ لگوایا کرتی تھیں تو یہ کام مجھ سے ہی لیا کرتی تھیں، بستروں کے ڈھیر کو چھت پہ لے جانا، اور پھر شام میں واپس لانا میری ہی ڈیوٹی تھی اور میں رویا کرتی تھی کہ اماں کو اپنی نازک سی بیٹی پہ ترس نہیں آتا۔۔۔۔
اماں نے وہ عادت نہ ڈالی ہوتی تو آج یہ بھی نہ کر پاتی۔۔۔۔ شکریہ اماں۔۔۔۔ میں نے دل ہی دل میں کہا۔
گرمی کا احساس ہوا تو شال اتار کر سائڈ پہ رکھ دی۔
پانی کی ایک چھوٹی بوتل میرے سامنے لہرا دی گئی، وہی بندہ مجھے پانی پیش کر رہا تھا۔۔۔ تشکر سے میری آنکھوں میں پانی اتر آیا۔
میں نے دو گھونٹ پانی پیا اور باقی اگلے وقت کے لیے بچا لیا، ان دو گھونٹ نے بھی انرجی ڈرنک کا کام کیا، میں پھر سے شروع ہو گئی، پھر سارا کام نمٹا کر دم لیا۔
وہ شخص حیرت سے مجھے دیکھ رہا تھا، شاید اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ اک نازک سی لڑکی نے اتنا بھاری کام کر دیا ہے، اس نے میرے ہاتھ پہ رقم رکھ دی، ساتھ ہی ساتھ میں اک بکس گفٹ دیا اور چلا گیا۔
میں سڑک کنارے ہی بیٹھ گئی، بکس کھولا تو اندر کچھ سینڈوچ تھے۔۔۔۔ میری آنکھیں برسنے لگیں، میں روتی جاتی تھی اور سینڈوچ کھاتی جاتی تھی۔۔۔۔ رب کا جتنا شکر ادا کرتی کم تھا۔ یہ بندہ بھی کسی فرشتے سے کم ثابت نہ ہوا تھا۔
جو رقم اس نے دی وہ اگلے دو دن کے لئے کافی تھی، میں نے سامان سمیٹا اور آگے کو چل دی۔۔۔۔ سارا دن گھومتی پھرتی رہی، یہ دنیا بہت خوبصورت تھی میں سارا دن اسکے طلسم میں کھوئی رہی۔۔۔
دن ڈھلنے لگا تو پھر سے سردی کا احساس بڑھنے لگا، میں ایک بنچ پہ بیٹھ گئی اور بیگ سے شال نکالنے لگی تو میرے ہاتھ وہ پرس آ گیا جو میں نے جمیل خان کے گھر سے نکلتے ہوئے اپنے اٹیچی سے بیگ میں ڈالا تھا۔۔۔ میرے ہاتھ ساکت ہو گئے۔۔۔۔ دل کی دھڑکن تیز سی ہو گئی، یہ کس کا ہے، میرے پاس کیسے آیا۔۔۔ بہت سے سوال سامنے کھڑے تھے۔۔۔
میں نے کانپتے ہاتھوں سے کھولا تو اندر کچھ کینیڈین ڈالر پڑے تھے، یہ کہاں سے آئے۔۔۔ اک نیا سوال۔۔۔
اب میں نے اسے اپنی گود میں الٹا دیا، اس میں سے ایک انگوٹھی، دو کنگن نکلے۔۔۔۔
راز سے پردہ اٹھ چکا تھا ۔۔۔۔۔
انگوٹھی ہاتھ میں لئے میں بہت دیر تک روتی رہی۔۔۔ یہ وہی انگوٹھی تھی جو تم نے مجھے دی تھی، نکاح سے پہلے میں نے تمہیں لوٹا دی تھی۔ کنگن بھی میں پہچان چکی تھی، خالہ کی نشانی۔۔۔ اتنی بڑی چیز تم نے مجھے یوں دے دی، جبکہ اب ہمارے بیچ کوئی رشتہ بھی نہیں رہ گیا تھا۔
ڈالر بھی یقیناً تم نے ہی رکھے تھے, بس پھر رات تمہاری یاد میں روتے ہی گزری۔۔۔ میں نے انگوٹھی اپنے ہاتھ میں پہن لی اور پھر وہ میری طاقت بن گئی۔۔۔ جب میں خود کو تھکتا محسوس کرتی، کبھی جو ہمت ہارنے لگتی تو اسے سینے سے لگا کر تم سے باتیں کر لیا کرتی۔۔۔ اور پھر سے جی اٹھتی۔
میں نے سب سے پہلے تمہارے رکھے ہوئے ڈالر سے جیکٹ خریدی۔۔۔ جب جب اسے پہنا تمہیں اپنے بہت قریب پایا۔۔۔
بس پھر محنت کا اک سفر شروع ہو گیا، میری زندگی کا مقصد صرف پیسہ بن گیا، مجھے اب ڈھیر سارا پیسہ اکٹھا کرنا تھا کہ اسی پیسے کی چاہ نے مجھ سے میرا سب کچھ چھین لیا تھا۔۔۔ہر دن اک نیا دن ہوتا تھا اور نیا سبق دے کر جاتا تھا، راتیں کانٹوں پہ بسر کیں۔۔۔ ہر وقت عزت کے لالے پڑے رہتے تھے۔ پردیس میں تنہا رہنا۔۔۔، بکری کا بھیڑیوں کے بیچ رہنے کے مترادف تھا۔
سوچا کوئی عزت کی نوکری کروں۔۔۔ بہت ہاتھ پیر مارے پر قسمت نے ساتھ نہیں دیا، سکولوں کے چکر کاٹے پر وہاں پاکستانی کو ٹرخانے کی کوشش کی جاتی ہے، ایک سکول والے سوئمنگ ٹیچر رکھنے کو تیار تھے پر مجھے تو سوئمنگ آتی ہی نہیں تھی۔
ریسٹورنٹ والے اپنا یونیفارم دیتے تھے، اور وہ ایسا تھا کہ ہم مشرقی لڑکیاں وہ پہننے کا تصور بھی نہیں کر سکتیں۔۔۔
گھروں میں نوکر رکھنے کا رواج نہ تھا، جس جس سے پوچھا انکار ہی سنا، ہر طرف سے مایوس ہو کر مجھے چھوٹے چھوٹے کام ہی کرنے پڑے۔۔۔۔ایسے حالات بھی ہوئے کہ مجھے نیچ سے نیچ کام بھی کرنے پڑے۔۔۔۔ میں نے ان ہاتھوں سے جنہیں تم اپنی آنکھوں سے لگایا کرتے تھے۔۔ انگریزوں کے جانور نہلائے، گلیوں کا کچرا اٹھایا۔۔۔۔ بھیک بھی مانگی۔۔۔
تم تصور بھی نہیں کر سکتے کہ ایک سال میں نے کیسے سڑکوں پہ دھکے کھائے ہیں، کیسی کیسی مزدویاں کیں ہیں، راتیں کہاں اور کیسے گزاریں۔۔۔ خوف ہر وقت میرے ساتھ رہا،
کئ بار لوٹ آنے کا سوچا پر قدموں نے ساتھ نہیں دیا۔ اک انجانی طاقت مجھے روک لیتی رہی۔
رابی اپنے ہاتھوں میں منہ چھپا کر سسک پڑی۔ میری آنکھیں بھی سیلاب بہا رہی تھیں۔۔۔
تمہیں لوٹ آنا چاہیے تھا۔۔۔۔ میں نے بمشکل کہا۔
نہیں فیضی۔۔۔۔ مجھ میں ماں کا منہ چھپا کر رونا اور گھٹ گھٹ کر مرنا دیکھنے کا حوصلہ نہیں تھا، میرے لئے وہ صعوبتیں جھیلنا زیادہ آسان تھا۔۔۔۔ ماں کی تکلیف نہیں دیکھی جانی تھی۔
اور پھر تمہیں بھی کسی آزمائش سے دوچار نہیں کرنا چاہتی تھی، یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ اب میری تمہارے نظر میں کیا حیثیت رہ چکی تھی، تمہیں نا چاہتے ہوئے بھی میرا ہاتھ تھامنا پڑتا تو میں خود کو کبھی معاف نہ کر پاتی۔۔۔۔
اگر تم کسی اور کا ہاتھ تھام چکے ہوتے تو بھی تم میری موجودگی میں اسکے ساتھ خوش نہ رہ پاتے۔۔۔۔ اور میں تمہیں ہر حال میں خوش دیکھنا چاہتی تھی۔ اس لئیے خود کو تم سے دور رکھا۔۔۔۔
ایک دن میں سڑک کنارے بیٹھی تھی بخار نے مجھے لال بھبھوکا کر رکھا تھا جسم ٹوٹا پڑا تھا، کوئی کام کرنے لائق نہ تھی، لوگوں کا سیلاب اپنی اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھا۔۔۔۔ کسی کے پاس اتنا وقت نہ تھا کہ کسی کی خبر لے سکے۔۔۔۔ اتنے میں ایک بڑی سی کار میرے پاس سے گزری اور تھوڑی دور جا کر رک گئی۔
میں اس میں بیٹھی خاتون کو دیکھ چکی تھی۔۔۔۔ وہ جمیل کی ممی تھی۔۔ میں جو سمجھی تھی کہ انکی دسترس سے نکل آئی ہوں، انہیں یہاں دیکھ کر مجھے اپنی موت سامنے دکھائی دینے لگی تھی۔۔۔۔
جانے اس وقت مجھ میں کہاں سے ہمت آ گئی
میں نے ایک طرف گلیوں میں بھاگنا شروع کر دیا، میں اندھا دھند بھاگے چلی جارہی تھی، مجھے کہاں جانا چاہیے کچھ اندازہ نہیں ہو ریا تھا۔۔۔۔ بھاگتے بھاگتے میرا پاؤں کسی چیز سے ٹکرایا اور میں اچھل کر دور جا گری۔۔۔۔ اٹھنے کی ہمت نہ تھی پر مجھے اٹھنا تھا، خود کو کریمینل لوگوں کے حوالے نہیں کر سکتی تھی۔سر بری طرح چکرا رہا تھا اور گرنے کی وجہ سے سر پہ چوٹ لگ گئی تھی اور خون بہنے لگا تھا، قریب ہی مجھے ایک لکڑی کا کیبن دکھائی دیا میں خود جو گھسیٹتے ہوئے اس کے اندر لے گئی اور دروازے سے پشت ٹکا کر بیٹھ گئی۔۔۔۔ تھوڑی دیر میں ہی میں ہوش و حواس کھو بیٹھی۔۔۔۔۔ جانے کب تک میں بے ہوش رہی، پر جب ہوش آیا تو میں اک نرم و گداز بستر میں تھی، ایسا بستر میں نے عمر بھر نہیں دیکھا تھا اور اب تو ایک سال سے بستر ہی میسر نہیں آیا تھا۔۔۔۔۔ میں بہت آرام محسوس کر رہی تھی، وہ بخار وہ ٹوٹتا جسم۔۔۔ اب کچھ بھی نہ تھا۔۔۔۔
میں کہاں ہوں، یہاں کیسے آئی، کون لایا۔۔۔۔۔
یہ خیال آتے ہی، اس سخت سردی میں بھی میری پیشانی پسینے سے تر ہو گئی۔
______
کھانا یونہی پڑا پڑا ٹھنڈا ہو چکا تھا، میں نے تو تھوڑا بہت کھا ہی لیا تھا پر رابی کی پلیٹ جوں کی توں پڑی تھی, اس نے پلیٹ پرے کھسکا دی اور پانی پی کر اٹھ کھڑی ہوئی۔۔ چلو گھر چلتے ہیں۔
کس گھر چلنا پسند کرو گی محترمہ۔ میں نے معنی خیزی سے پوچھا۔
اپنے گھر، اپنی ماں کے گھر۔۔۔۔۔ کہہ کر وہ چل پڑی
میں عجلت میں بل پے کر کے اسکے پیچھے بھاگا۔
میرے گھر چلنے پہ کوئی پابندی نہیں ہے میم۔۔۔ اس گھر کے دروازے آپ کے لئے ہمیشہ سے کھلے ہیں، کھلے رہیں گے۔ میں نے سینے پہ ہاتھ رکھ کر کہا۔
کیا تمہاری بیوی بھی مجھے اتنے ہی کھلے دل سے قبول کرے گی۔۔۔ اس نے تیکھی مسکراہٹ دکھاتے ہوئے کہا۔
سوری وہ تو نہیں کر سکتی۔۔۔۔ کیونکہ اس کے لیے بیوی کا ہونا ضروری ہے، اب اتنی ایمرجنسی میں میں بیوی کہاں سے لاؤں گا،سوری میم آپ کو ابھی صرف میرے دل کو ہی قبول کرنا پڑے گا۔۔۔ میں نے اپنی مسکراہٹ دبا کر پوز کرتے ہوئے کہا۔
او تو تم نے ابھی تک شادی نہیں کی۔۔۔۔ پر کیوں۔۔۔ اس نے چلتے چلتے مڑ کر میری طرف دیکھا۔
کیا تم نہیں جانتی۔۔۔ اس بار میں نے نہیں میری آنکھوں نے جواب دیا اور وہ سر جھکا گئی۔
ماہی وے محبتاں سچیاں نیں۔۔۔۔
میرے موبائل میں حرکت ہونے لگی۔۔۔۔ رابی جھٹکا کھا کر رک گئی۔۔۔ اور میں مسکرا دیا۔
فون کان سے لگایا۔۔۔ دوسری طرف خالہ تھیں۔
السلام علیکم، کیسی ہے میرے خالہ، میں نے خوشدلی سے پوچھا۔
وعلیکم السلام، کہاں ہے تو فیضی۔۔۔(خالہ )
میں اس وقت ایک دوست کے ساتھ ہوں۔۔۔میں نے دانستہ رابی کا نام نہیں لیا تھا ۔ خیریت ہے ناں۔۔۔ میں نے فکر مندی سے پوچھا۔۔۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ خالہ روئی ہوئی ہیں۔
بس تجھ سے ملنے کو دل چاہ رہا ہے، تیرے لئے اک سرپرائز بھی ہے۔۔۔ (خالہ )
سر پرائز تو میرے پاس بھی ہے آپ کے لیے۔۔۔ میں نے شوخی دکھائی اور رابی نے مجھے آنکھیں۔
اچھا چل پھر آ جا۔۔۔۔ دونوں اپنے اپنے سرپرائز بانٹیں۔۔۔ خالہ مسکرا دیں۔
اوکے۔۔۔۔ آپ جلدی سے اچھی سی چائے بنائیں، میں آتا ہوں، چائے کے ساتھ کچھ اور بھی رکھ لیں میرا مطلب ہے بسکٹ شسکٹ۔۔۔۔ بہت بھوک لگ رہی ہے، دوست نے کھانا کھانے نہیں دیا۔۔۔۔ ہوٹل کا بل بھی مفتے میں دینا پڑ گیا۔۔۔۔
پیچھے سے اک زور دار مکا پڑا۔۔۔۔ قریب تھا کہ وہ اک اور جڑ دیتی، میں بھاگ کر کار کے قریب پہنچ گیا۔
تو آنے والا بن۔۔۔ سب ملے گا تجھے۔۔۔۔ بس اب آ جا۔۔۔ خالہ نے فون رکھ دیا۔
اماں اکیلی رہتی ہیں۔۔۔۔ رابی نے کار میں بیٹھتے ہوئے کچھ افسردگی سے پوچھا۔
نہیں جی۔۔۔ پورے دس لوگوں کے ساتھ رہتی ہیں۔۔۔ وہ چاہیں بھی تو تنہائی محسوس نہیں کر سکتی۔۔۔ میں نے قہقہہ لگایا۔
رابی کی پیشانی پہ بل پڑ گئے، اسے شاید میری بات کی سمجھ نہیں آئی۔
دو میاں بیوی۔۔۔ دو انکے ماں باپ، اور چھ عدد پیارے پیارے بچے۔۔۔ رہتے ہیں اوپر والے پورشن میں۔۔۔ میں نے تفصیل سے سمجھایا۔
ہمارے کمروں میں کون رہتا ہے۔۔۔۔۔ اس نے ونڈو سکرین سے باہر دیکھتے ہوئے بظاہر نارمل انداز میں پوچھا۔
پر یہ میں جانتا تھا کہ اسکے اندر کس قدر ہلچل مچی ہوئی ہے۔۔۔ اسے یہ بھی گھبراہٹ ہو رہی تھی کہ میں اسے چھوڑ کر اپنے فلیٹ میں چلا جاؤں گا۔۔۔ جس طرح میں اسکے بغیر اس گھر میں نہیں رہ سکا، یقیناً وہ بھی گھبرائے گی۔
پتہ نہیں۔۔۔ شاید ہماری یادیں۔۔۔ میرا مبہم سا جواب اسے چبھا تھا۔۔۔ وہ ناگواری سے کروٹ بدل کر رہ گئی۔
ماحول کی اس ناگواریت کو مٹانے کو میں نے ریڈیو آن کر دیا۔
ماہی وے محبتاں سچیاں نیں
منگ دا نصیبہ کجھ ہور وے
قسمت دے مارے اسی کی کرئیے
قسمت تے کس دا زور اے
وقت کا کرم ہے کہ تو
بیٹھا ہے میرے روبرو
ہے عشق کتنا تجھ سے
لفظوں سے کیسے میں کہوں
اک نظر تو دیکھ لے میری اوور وے
اس وقت میرے دل کی آواز ریڈیو سے گونج رہی تھی، رابی میری طرف دیکھے جا رہی تھی اور میری مسکراہٹ گہری سے گہری ہوتی چلی جا رہی تھی۔۔۔
گھر کے باہر پہنچ کر میں نے زور دار ہارن دیا، پھر خود اتر کر دروازے کے پاس چلا گیا، جیسے ہی دروازہ کھلا میں خالہ کے گلے لگ گیا۔۔۔۔ انہوں نے بھی مجھے بہت پیار کیا اور مسکراتے مسکراتے رو پڑیں۔۔۔
ایسا تب ہوا کرتا تھا جب وہ رابی کو بہت زیادہ مس کیا کرتی تھیں۔۔۔۔
مجھے دیوان پہ بیٹھا کر انہوں نے میرا سر منہ چوما۔۔۔ ہیپی برتھ ڈے میری جان میرے لال۔۔۔۔ میں چونکا، او آج میرا برتھ ڈے تھا اور مجھے یاد ہی نہیں۔۔۔۔۔
تیرے لئے کیک، اور تیری پسند کی بیکری منگوا کر رکھے ہیں، اب چائے بنا کر لاتی ہوں دونوں ساتھ میں پیئں گے۔۔۔ اتنے دن ہو گئے، ملے ہوئے۔۔۔ آج دل کی باتیں کریں گے۔۔۔۔
انہوں نے میرے چہرے پہ پیار سے ہاتھ پھیرا تو میں نے ہاتھ تھام لیا۔۔۔ سرپرائز تو میں بھی لایا ہوں آپ کے لیے۔۔۔
اچھا۔۔۔ چل دکھا پھر اپنا سرپرائز۔۔۔ وہ دیوان پہ میرے ساتھ بیٹھ گئیں۔۔۔
آپ آنکھیں بند کر کے بیٹھیں میں باہر سے لے کر آتا ہوں، کار میں بھول آیا ہوں۔۔۔ میں کہہ کر باہر نکلا۔
آج میرے کمرے کا دروازہ کھولا کھلا تھا، اور یہ مجھے عجیب لگا تھا کہ اب تک میں نے اس دروازے کو مکمل طور پہ بند ہی دیکھا تھا اور رابی کے کمرہ کا دروازہ بھی کبھی کھلا دکھائی نہیں دیا۔
رابی نے دونوں ہاتھوں سے منہ بند کر کے اپنی سسکیوں کو روک رکھا تھا، آنسو تھے کہ بہتے ہی چلے جا رہے تھے۔۔۔۔ وہ دبے قدموں دیوان کی طرف بڑھ رہی تھی ابھی قدرے فاصلے پہ ہی تھی کہ خالہ نے رابی کہہ کر آنکھیں کھول دیں۔۔۔۔ رابی کو سچ میں سامنے پا کر وہ اس سے لپٹ ہی گئیں۔۔۔۔ دونوں کتنی ہی دیر کھڑی آنسو بہاتی رہیں اور گلے لگ کر اپنے سینے ٹھنڈے کرتی رہیں۔۔۔ میں نے انہیں روکا نہیں کہ یہ سیلاب آج ہی نکل جانا چاہیے۔۔۔۔ ورنہ رہ رہ کر ہلچل مچائے گا۔
خالہ گاہے بگاہے فرط جذبات سے اسکی پیشانی چوم رہی تھیں، کبھی ہاتھوں کو آنکھوں سے لگا لیتی تھیں۔۔۔۔ وہ رابی کو دل بھر کر پیار کر لینا چاہتی تھیں کہ مبادا خواب ٹوٹ ہی نہ جائے اور پھر دل کی حسرت دل میں ہی نہ رہ جائے۔
چلو جی۔۔۔ بند کرو یہ لائیو شو۔۔۔۔ پہلے میرے ہاتھوں کی چائے پی لیں، مجھے برتھ ڈے کا گفٹ دے دیں، پھر باقی کی قسط پوری کر لیجیے گا۔۔۔ میں نے ماحول بدلنے کی کوشش کی۔
دونوں خواتین ایک دوسرے سے الگ ہو کر بیٹھ گئیں۔۔۔ اور زبردستی مسکرانے کی کوشش کرنے لگیں۔
میں نے کچن سے سب سامان لا کر سامنے رکھ دیا۔۔۔ میں نے کیک کاٹا تو بس تالیاں فضا میں گونجیں۔۔۔ الفاظ کوئی بھی ادا نہ کر پایا۔۔۔ خالہ نے مجھے اک ڈبہ تحفے میں دیا۔
کھول لوں۔۔۔ میں نے پوچھا۔
انہوں نے مثبت انداز میں سر ہلا دیا۔
میں نے جلدی جلدی کھولا تو اندر سے اک ٹیڈی بیئر نکلا۔۔۔۔ بھورے رنگ کا۔۔۔ بہت کیوٹ سا، اسکے ہاتھوں میں اک دل تھا جس پہ آئی لو یو لکھا تھا۔
میں نے بڑھ کر سر خالہ کی گود میں رکھ دیا۔۔۔ انہوں نے بھی مجھے پیار کیا۔
اس دوران رابی بس مسکرا کر سب دیکھ رہی تھی، اسکی مسکراہٹ میں بلا کی افسردگی تھی، شاید پانچ سال ضائع ہونے کا دکھ تھا، ان محبتوں سے محرومی کا افسوس۔۔
سب نے چائے پی، کیک کھایا، میں نے سب چیزوں کے ساتھ اچھا خاصا انصاف کر ڈالا۔۔۔
رامین۔۔۔۔ رامین بیٹا بات سنو۔۔۔۔۔ خالہ نے اوپر جانے والی سیڑھیوں کے پاس جا کر آواز لگائی۔۔۔ اک بارہ تیرہ سالہ لڑکی نیچے اتر آئی، جی خالہ جی۔۔۔۔ وہ تابعداری سے بولی۔
میری بیٹیا۔۔۔ وہ سامنے والا کمرہ صاف کر دو جیسے کل کیا تھا ناں، بالکل ویسے ہی اسے بھی صاف کر دو۔۔۔۔ خالہ نے لجاجت سے کہا تو وہ فوراً ضروری سامان اور چابی لے کر کمرے کی طرف بڑھ گئی۔
خالہ ہمارے بیچ آ بیٹھیں۔۔۔ یہ میری چھوٹی رابی ہے۔۔۔ بہت پیاری بچی ہے، آج تک میری کوشش بات نہیں ٹالی اس نے۔۔۔ خالہ نے محبت بھرے لہجے میں بتایا۔ ساتھ میں چور نگاہوں سے رابی کو دیکھنے لگیں۔۔۔۔ وہ اپنے کئے پہ شرمندہ سی دکھائی دے رہیں تھیں، خود کو بیٹی کا مجرم تسلیم کر رہی تھیں۔۔۔
اچھا خالہ جان مجھے تھوڑا بہت کام ہے، میں کر کے آیا۔۔۔ میں دونوں ماں بیٹی کو تنہائی دینے کی غرض سے کہہ کر اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔ آ جانا، غائب نہ ہو جانا۔۔۔ میں نے ڈنر کا انتظام کیا ہوا ہے۔۔۔ اور ویسے بھی آج تو ڈنر ایک ساتھ کرنا بنتا بھی ہے، انہوں نے محبت سے رابی کو دیکھتے ہوئے کہا۔
میں مسکرا کر باہر نکل گیا۔ سڑکوں پہ ادھر ادھر وقت گزاری کرنے لگا اور اندازے لگانے لگا کہ آگے کیا ہونے والا ہے، کیا ہو سکتا ہے، مجھے کیا کرنا چاہیے۔۔۔ ایسا ہوا تو کیا کروں گا، ویسا ہوا تو کیا کروں گا۔۔۔۔۔انہی سوچوں میں دو گھنٹے بیت گئے، سوچا اب گھر چلنا چاہیے۔۔۔
واپس آیا تو مین دروازہ کھلا ہی تھا، میں بنا آہٹ کے اندر آ گیا، دیوان خالی تھا، میں آگے بڑھ گیا اپنے کمرے کا دروازہ پورا کھولا تو اک دم صاف ستھرا کمرہ، ہر شے اپنی جگہ پہ۔۔۔۔ میں مسکرا دیا۔
دوسری طرف رابی کے کمرے کے باہر پہنچا تو اندر سے خالہ کی آواز سنائی دی وہ رو رہی تھیں۔۔۔ دروازے کی درز سے اندر جھانکا تو دونوں ماں بیٹی اک دوسرے کے گلے لگی ہوئی تھیں۔۔۔ میری جان تم نے پردیس میں تکلیفیں کاٹی ہیں تو تمہاری ماں نے بھی پانچ سال کوئی لمحہ سکون کا نہیں دیکھا۔۔۔ تمہارے جاتے ہی احساس ہو گیا کہ میں نے غلط کیا، میرے اک غلط فیصلہ تین لوگوں کی خوشیاں کا قاتل ٹھہرا۔
میں نے کہاں کہاں کس کس سے تمہارے بارے میں نہیں پوچھا۔۔۔ پر ہر طرف سے ناکامی ہوئی، اب تو ہر پل یہی دعا رہتی تھی کہ میری رابی صحیح سلامت ہو اور میں مرنے سے پہلے اک بار اسے دیکھ لوں۔۔۔ دیکھو میرے رب نے میری سن لی۔۔۔۔
میری رابی مجھے سچے دل سے معاف کر دے۔۔۔۔ میں تیری مجرم ہوں تیری خوشیوں کی قاتل ہوں۔۔۔ مجھے معاف کر دے۔۔۔ خالہ نے اسکے آگے ہاتھ جوڑ دئیے، جسے اس نے چوم کر اپنی آنکھوں سے لگا لیا۔
میں نے اپنے آنسو صاف کئے اور دبے پاؤں باہر صحن میں جا کھڑا ہوا۔۔۔۔ خالہ جان۔۔۔ کہاں ہیں آپ، جلدی سے کھانا لگا دیں۔۔۔ بہت بھوک لگ رہی ہے، ارے کوئی ہے۔۔۔۔ میں آوازیں لگانے لگا، ایسا ہی ظاہر کروایا کہ ابھی ابھی آیا ہوں۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...