جنرل نے ویرا پر ایک ہمدرد بھری نظرڈالی۔ ’’ہم سب آپ کا دکھ سمجھتے ہیں مس ویرا! آپ بے قصور ہیں۔‘‘ وہ تھوڑا ہچکچا یا۔ ’’میں عام طور پر فضول اور بے بنیاد باتوں کی صفائی دینا پسند نہیں کرتا لیکن پھر بھی میں اپنی پوزیشن کلیئر کرنا چاہتا ہوں۔ آرتھر رچمنڈ میرا بہت اچھا دوست تھا۔ وہ میرے ما تحت کام کرتا تھا۔ وہ بہت بہادر تھا اور میدان جنگ کے بجائے دفتر میں کام کرنا اسے خاص پسند نہیں تھا۔ ہمیں میدان جنگ میں اپنے کچھ افسران بھیجنے کا حکم ملا۔ رچمنڈ نے خود خواہش ظاہر کی کہ اسے بھیجا جائے۔ میں نے اس کی بات مان لی لیکن افسوس۔۔۔ ایک دو مہینوں کے اند ر ہی وہ گولیوں کا نشانہ بن گیا۔ ویسے بھی جنگ کے زمانے میں سپاہیوں کی موت عام بات تھی۔ اب بتاؤ۔ اس میں میرا کیا قصور تھا؟ کیا میں نے رچمنڈ کو گولی ماری تھی یا چھراگھونپ کر قتل کیا تھا؟‘‘ جنرل دھم سے صوفے پر بیٹھ گیا۔
کیپٹن لمبورڈ نے اسے دیکھا اور طنزیہ انداز میں مسکرایا ۔
’’آپ لوگوں نے جو بھی میرے بارے میں سنا بالکل سچ ہے۔ ہاں میں مشرقی افریقا میں مرنے والے ۲۱ آدمیوں کی موت کا ذمہ دار ہوں۔‘‘ سب کی حیرت زدہ نگاہیں دیکھ کر کیپٹن کا دل چاہا وہ زور سے ہنس دے۔ ہم ۲۴ لوگ کسی محفوظ پناہ گاہ کی تلاش میں تھے۔ لیکن بدقسمتی سے راستہ کھو بیٹھے۔ خوراک نہایت محدود تعداد میں تھی۔ ۲۴ لوگوں کے لیے ناکافی۔۔۔ اگر میں ان سب کے ساتھ رک جاتا تو میں خودکشی کرلیتا۔ اپنے آپ کو بچانا انسان کا پہلا حق ہے۔ میں نے دو اور لوگوں کو اپنے ساتھ ملایا۔ ساری خوراک اپنے قبضے میں کی اور باقی سب کواسی ویرانے میں چھوڑ کر الگ نکل گئے۔ کمرے میں موجود کسی کو بھی کانوں پر یقین نہیںآرہا تھا۔ کوئی ایسے مزے سے بھی اپنے جرم کا اقرار کر سکتا ہے۔
’’میں جانتا ہوں یہ کوئی قابل تعریف عمل نہیں ہے لیکن میرے نزدیک اپنے آپ کو بچانا زیادہ اہم ہے۔‘‘ کیپٹن لمبورڈ نے ان سب کی حیرت بھری نگاہوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی بات مکمل کی۔ انوتھی مارسٹن کو شاید کیپٹن لمبورڈ کے اس عمل سے کچھ حوصلہ ملا جبھی اس نے فیصلہ کیا۔
’’جون اور لوسی کو مب شاید ہائی اسکول میں پڑھنے والے وہ دو بہن بھائی تھے۔ جن کی میری کار سے ٹکر ہوئی تھی۔ لیکن پوری غلطی میری نہیں تھی۔ اس بات کا اندازہ اس سے لگائیں کہ سزا کے طور پر صرف ایک سال کے لیے میرا ڈرائیونگ لائسنس منسوخ ہوا تھا۔ بس۔ اگر ان دونوں بہن بھائیوں کے مرنے میں پورا ہاتھ میرا ہوتا تو کیا آج میں جیل کے اند ر نہ ہوتا۔‘‘ انوتھی چپ ہوگیا۔ کمرے میں موجود سبھی افراد اب کسی اور کے بولنے کے منتظر تھے۔
’’میں بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں سر۔‘‘ راجر نے اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری۔ جب کسی نے جواب نہ دیا تو وہ خود ہی کہنے لگا۔ ’’اس کیسٹ میں میرا اور مسز راجر کا بھی ذکر ہے اور ہماری پرانی مالکن کا بھی۔۔۔ مس بریڈی۔۔۔ جناب میں قسم کھاتا ہوں یہ ساری کہانی من گھڑت ہے۔ ہماری مالکن مس بریڈی بہت اچھی خاتون تھیں۔ ہم ان کے سب سے قابل اعتماد نوکر تھے۔ مس بریڈی کی آخری سانس تک ہم ان کے ساتھ موجود تھے۔ وہ ہمیشہ بیمار رہتی تھیں۔ اس رات۔۔۔‘‘ راجر ایسے رکا جیسے اس کے گلے میں کچھ پھنس گیا ہو۔ ’’اس رات ان کو دل کا شدید دورہ پڑا، طوفان کی وجہ سے ٹیلے فون لائینیں خراب ہوگئی تھیں۔ مس بریڈی کا گھر قریبی ہسپتا ل سے تقریبا ایک میل دور تھا۔ ہم ڈاکٹر سے کسی طرح رابطہ نہیں کرسکتے تھے۔ آخر مسز راجر کو مس بریڈی کے پاس چھوڑ کر میں پیدل ڈاکٹر کو لینے نکل کھڑا ہوا لیکن مس بریڈی ہمارے واپس آنے سے پہلے ہی وفات پاگئیں تھیں۔‘‘ کیپٹن لمبورڈ نے راجر کے سفید پڑتے چہرے کو غور سے دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں خوف واضح تھا اور ہاتھ کانپ رہے تھے۔ کیپٹن کو وہ ٹرے یاد آئی جو راجر سے گر گئی تھی۔ جب اس نے کیسٹ میں اپنا نام سنا تھا۔
’’اپنی وصیت میں مس بریڈی نے تم لوگو کے لیے کچھ رقم تو ضرور چھوڑی ہوگی۔‘‘ مسٹر بلور نے پولیس انسپکٹر کی طرح تفتیش کی۔
’’ہاں۔۔۔ جی ہاں۔‘‘ راجر اب بری طرح کانپ رہا تھا۔ ’’اسے چھوڑو مسٹر بلور! تم اپنے بارے میں بتاؤ۔‘‘
’’میں کیا بتاؤں اپنے بارے میں؟‘‘ مسٹر بلور نے حیرانی سے کیپٹن کو دیکھا۔
’’تمہارا نام بھی فہرست میں شامل ہے۔‘‘
’’اوہ۔۔۔وہ۔۔۔‘‘ مسٹر بلور نے لاپرواہی سے اِدھر اُدھر دیکھا۔ ’’اس پاگل شخص کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ آپ سب کو پتہ ہے میرا تعلق انٹیلی جنس سے تھا تو گناہ گاروں کو پکڑنا میرا کام ہے۔ شہر کے سب سے بڑے اور مشہور بینک میں بڑی مالیت کی چوری ہوئی تھی۔ اس کیس کا انچارج میں تھا۔ تفتیش کے بعد مجرم جون لنڈر کو پکڑ لیا گیا۔ اس نے چوری کے ساتھ ساتھ بینک کے چوکیدار کو بھی خاصا زخمی کر دیا تھا۔ اس پر مقدمہ چلا پھر عمر قید کی سزا۔‘‘
’’ارے ہاں!‘‘ جج وار گریونے چونک کر سر اٹھایا۔ میں نے اس کیس کا ذکر سنا تھا۔ تمہیں حکومت کی طرف سے اعلا کار کر دگی پر تمغہ بھی تو ملا تھا۔‘‘
’’ہاں۔۔۔ لیکن جو بھی ہے یہ بات صاف ہے کہ جون لنڈر کو انجام تک پہنچانے میں میرا بڑا ہاتھ ہے۔ لیکن یہ سب کرنا میرے فرائض میں شامل تھا۔ کیا ایک مجر م کو میں چھوڑ دیتا۔‘‘ مسٹر بلورنے سامنے بیٹھے سب لوگوں کو دیکھا جو اس کی بات توجہ سے سن رہے تھے لیکن ان کی محویت کو کیپٹن لمبورڈ کے زور دار قہقہہ نے توڑدیا۔ اس نے طنزیہ انداز میں سب کو دیکھا۔
’’سوائے میرے یہاں موجودد سارے لوگ کتنے اصول پسند ہیں نا۔۔۔ آپ سب کو اپنے فرائض سے کتنی محبت ہے نا۔‘‘ وہ صاف طور پر ان سب کا تمسخر اڑا رہا تھا۔ ’’تم بتاؤ ڈاکٹر۔‘‘ کیپٹن نے ڈاکٹر کی طرف دیکھا۔ ’’تم نے بھی کسی آپریشن کے دوران کوئی چھوٹی سی غلطی کردی تھی۔ جس میں تمہارا کوئی قصور نہ تھا۔‘‘
ڈاکٹر نے برا مانے بغیر اپنا سر نفی میں ہلادیا۔ ’’نہیں بھائی۔ مجھے تو کوئی اپنی مریضہ یاد نہیں۔۔۔ لوسیا کلیس نام کی۔ میرے لیے تو یہ سارا معاملہ معمہ ہے۔‘‘
ڈاکٹر نے گہری سانس لی اور اپنے چہرے کے تاثرات کو حتی الامکان نارمل رکھنے کی کوشش کی مجھے ایسے یاد نہ ہوگا۔۔۔ اس نے سوچا۔۔۔ میرا پورامستقبل داؤ پر لگ گیا تھا۔ سارا قصور رات میں ہونے والی پارٹی کا تھا۔ میں دیر سے گھر واپس آیا تھا۔ شاید دو بجے۔۔۔ نہیں نہیں میں ایک بجے نیند میں تھا۔ دو گھنٹے بعد ہی ہسپتال سے ایمرجنسی کال آگئی تھی۔ تھکن کے باوجود مجھے جانا پڑا۔۔۔ وہ کوئی بوڑھی عورت تھی۔ جس کا آپریشن کرنا تھا۔ میں نیند میں مدہوش تھا۔ میرے ہاتھ بہک گئے اور غلط شریان کٹ گئی۔ وہ تو شکر ہے وہاں موجود نرس نے اپنا منہ بند رکھا۔ ورنہ میں تو بر باد ہو جاتا۔۔۔‘‘ ڈاکٹر نے اس تصور سے ہی جھرجھری لی۔ ’’لیکن خیر جو بھی ہو۔ ہرڈاکٹر سے کبھی نہ کبھی تو غلطی ہو ہی جاتی ہے۔
کمرے میں لہروں کے شور کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی۔ باہر تیز ہوا چل رہی تھی۔ مس ایملی برنٹ سب کی نگاہوں کی پر واہ کیے بغیر کھڑکی سے باہر تاریکی میں نہ جانے کیا دیکھ رہی تھی۔ آخر جب کوئی نہ بولا تو اس نے سب کو دیکھا۔
’’کیا تم سب اس بات کے منتظر ہو کہ میں اپنی کہانی سناؤں؟‘‘ اس کا لہجہ سپاٹ تھا ۔
’’تو پھر میں معذرت چاہتی ہوں۔ مجھے کچھ نہیں کہنا۔
’’مس برنٹ۔ کوئی وضاحت نہیں؟‘‘ جج نے اپنا اطمینان کرنا چاہا۔
’’نہیں۔ مجھے صفائی دینے کی عادت نہیں۔ میں جو کام کرتی ہوں اپنے ضمیر کے کہنے پر کرتی ہوں۔ جس پر مجھے کبھی پچھتا وا نہیں ہوا۔‘‘ مس برنٹ نے تفاخر سے کہا۔ جج وار گریو نے نہ چاہتے ہوئے اور اصرار نہیں کیا کیونکہ مس برنٹ کی شخصیت ایسی نہیں تھی۔ جس سے آسانی سے مقابلہ کیا جاسکے۔ ’’ہماری تفتیش یہاں آکر رک گئی ہے۔ اب راجر تم بتاؤ تمہارے اور تمہاری بیوی کے علاوہ جزیرے پر اور کون موجود ہے۔‘‘
’’سر میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اس جزیرے پر میرے اور میری بیوی کے علاوہ اور کوئی موجود نہیں۔‘‘ راجر نے مودبانہ انداز میں جواب دیا۔ جج وار گریو کے چہرے پر پریشانی نمایاں تھی۔ ’’ہمیں اب تک اپنے انجانے میزبان کے ہم سب کو یہاں جمع کرنے کا مقصد نہیں معلوم۔ ہمارا میزبان کوئی جنونی نہیں بلکہ انتہائی خطرناک شخص ہے۔ میرے خیال میں ہمیں اس جزیرے کو جتنی جلدی ہوسکے چھوڑ دینا چاہیے۔ آج ہی کی رات۔‘‘
’’میں مداخلت کرنے پر شرمندہ ہوں سر! لیکن شاید آپ کے علم میں یہ بات نہیں کہ جزیرے پر ساحل تک جانے کے لیے کوئی کشتی نہیں۔‘‘ راجر جلدی سے بولا۔
’’لیکن تمہارا قصبے سے رابطہ کیسے ہوتا ہے۔‘‘ ویرا تقریبا چلا اٹھی۔
’’فریڈ۔۔۔ جس کشتی والے سے آپ دوپہر میں ملے تھے وہ روزانہ صبح صبح ناشتے کو تازہ سامان دینے یہاں آتا ہے۔ پھر میری تجویز ہے کہ کل جب فریڈ آئے تب ہم یہاں سے نکل چلیں۔ سبھی نے حمایت کی سوائے۔۔۔
’’یہ کیا! آپ سب اتنی سی بات سے ڈر گئے اور یہاں سے بھاگ رہے ہیں۔ ابھی تو یہاں مزا آنا شروع ہوا ہے۔ یہ سارا معاملہ توکسی جاسوسی کہانی کی طرح لگتا ہے۔ میراخیال ہے، ایک دو دن اور یہاں رک کر تفریح کی جائے۔‘‘ انوتھی مارسٹن نے بے تاب ہو کر کہا۔
’’مسٹر مارسٹن جس عمر میں، میں ہوں مجھے ایسے کارنامے دیکھنے کا کوئی شوق نہیں۔‘‘ جج وار گریو نے جل کر کہا۔
’’اوکے، پھر آپ لوگ چاہیں یہاں سے راونہ ہوجائیں۔ میں یہیں رکوں گا۔‘‘ اس کی آواز فیصلہ کن تھی۔ اس نے اطمینان سے اپنا کافی کا کپ اٹھا یا اور ایک گھونٹ بھرا۔ منٹ کے ہزارویں سیکنڈ میں اسے پھندا لگا۔ اس کے حلق میں جلن شروع ہوگئی۔ اس نے چیخنے کی کوشش کی لیکن آواز نہ نکلی۔ اس کا منہ بری طرح نیلا ہوگیا تھا۔ اس نے سانس لینے کی کوشش کی لیکن اسے سانس نہیں آرہی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا۔ کوئی اس کا گلا دبا رہا ہے۔ اس نے ہاتھ پیر ادھر ادھر مارے لیکن بے سود۔ کپ اس کے ہاتھ سے کب کا چھوٹ چکا تھا اور انوتھی مارسٹن زمین پر بچھے دبیز قالین پر بے حس پڑا تھا۔
وہ سب بیوقوفو ں کی طرح منہ کھولے زمین پر پڑے مارسٹن کو دیکھ رہے تھے۔ اتنا اچانک اس کے زمین پر گرنے سے وہ لوگ دھک سے رہ گئے۔ ڈاکٹر آرم اسٹورنگ تیزی سے اپنی جگہ سے اچھل کر کھڑاہوا اور انوتھی کے پاس جاکر گھٹنوں کے بل جھکا۔ اس نے انوتھی کی نبض ٹٹولی۔ اس کی گردن پر ہاتھ رکھا اور اسے ہلا جلا کر دیکھا۔ آخر سر اٹھاکر اس نے اپنے آس پاس کھڑے بالکل ساکت وجامد لوگوں کو دیکھا۔
’’میرے خدا!‘‘ ڈاکٹر نے سر گوشی کی۔ ’’یہ مر چکا ہے۔‘‘
’’کیا؟ ‘‘
’’مر چکا ہے؟‘‘
’’مر گیا؟‘‘
’’کیسے؟‘‘
انوتھی مارسٹن مرگیا۔۔۔ نہیں شاید انہوں نے غلط سنا ہے۔۔۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔ صر ف پھندا لگنے سے ایک صحت مند خوب صورت انسان مر جائے۔۔۔ نہیں نہیں، ڈاکٹر کو ضرور غلط فہمی ہوئی ہے۔
ڈاکٹر آرم اسٹورنگ اب انوتھی کے چہرے کا جائزہ لے رہا تھا۔ اس نے نیچے جھک کر اس کے مڑے تڑے اور نیلے ہوتے ہونٹوں کو سونگھا۔ زمین پر گرا کپ اٹھا کر اسے بھی سونگھا اور بچی کچھی کافی میں انگلی ڈبو کر احتیاط سے اپنی زبان کو چھوا۔
’’مجھے نہیں معلوم تھا کہ ایک صحت مند آدمی صرف پھندا لگنے سے بھی مر سکتا ہے۔‘‘ جرنل میکر تھور نے ڈاکٹر کو دیکھتے ہوئے کیا۔
ڈاکٹر نے سر اٹھا کر اسے عجیب سے انداز سے دیکھا۔ ’’صحیح کہہ رہے ہو جرنل! کوئی صحت مند انسان صرف پھندا لگنے سے نہیں مرسکتا۔ انوتھی مارسٹن کی موت بھی قدرتی موت نہیں۔‘‘
’’اس کافی میں کچھ تھا؟‘‘ ویرانے لرزتی ہوئی آواز میں پوچھا۔
’’ہاں!‘‘ ڈاکٹر کا سر اثبات میں ہلا۔ ’’ایک نہایت تیزی سے اثر کرنے والازہر۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ زمین سے اٹھا اور اس میز کی طرف بڑھا جس پر انوتھی نے کافی کی ٹرے لاکر رکھی تھی۔ اس نے کافی سے بھری کیتلی کا ڈھکن اور منہ سے قریب کر کے اسے سونگھا۔
’’وہ زہر صرف انوتھی کے کپ میں تھا،اس کیتلی میں نہیں۔‘‘
’’تمہارا مطلب ہے کہ انوتھی نے خود اپنے کپ میں زہر ملایا؟‘‘ لمبور ڈ نے پوچھا۔
’’ہاں لگتا تو یہی ہے۔‘‘
’’خود کشی! حیرت ہے۔۔۔ انوتھی خود کشی کرنے والا انسان لگتا تو نہیں تھا۔‘‘ بلور نے آہستگی سے کہا۔ بلور کی بات سمجھنا ان کے لیے زیادہ مشکل نہیں تھا۔ انوتھی مارسٹن زندگی سے بھر پور ایک ایسا جوان تھا جسے دیکھ کر لگتا نہیں تھا کہ غم کبھی اس کے نزدیک بھی بھٹکے ہوں گے۔
’’ہاں! لیکن کیا کسی اور کے پاس اس صورت حال کی کوئی وضاحت ہے؟‘‘ ڈاکٹر نے تھکے ہوئے انداز میں پوچھا جواب میں خاموشی چھاگئی۔ ان سب نے خود دیکھا تھا کہ انوتھی نے اپنے ہاتھ سے کافی کپ میں نکالی تھی۔ سب ہی نے کیتلی میں موجود کافی پی تھی۔ لیکن وہ سب زندہ سلامت کھڑے تھے جب کہ انوتھی مارسٹن کا بے جان لاشہ زمین پر گرا ہوا تھا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...