اس دن کے بعد سے سب کچھ بدل گیا تھا وہ علی جو اس سے بات کیے بغیر اسے دیکھے بغیر رہتا نہیں تھا وہ اب کئی کئی دن ہو جاتے اس سے بات نہیں کرتا تھا یشل روز اسے کال کرتی روز میسج کرتی پر جواب ندارد ہوتا
وہ بہت ڈسٹرب رہنے لگی تھی یہ کیا ہورہا تھا اس کی زندگی میں
اکثر علی کا موبائل آف ملتا اور اگر اون بھی ہوتا تو کال ریسیو نہ کرتا اور اگر کرتا بھی تو اس کے پاس بزی ہونے کا بہانہ موجود ہوتا وہ جو دن میں چوبیس میں سے سولہ گھنٹے بات کیا کرتے تھے اب دن کیا ہفتے گزر جاتے وہ اسے پوچھتا نہیں تھا
یشل ان دنوں بہت ڈسٹرب رہنے لگی تھی غلطی کہاں ہوئی تھی وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی وہ کئی بار اس سے میسجز کر کے معافی مانگ چکی تھی پر اسے ایک کا ریپلائی نہ
۔۔۔۔۔ علی نے جیسے اس سے لاتعلقی اختیار کر چکا تھا۔
۔ ——-
شہلا برابر علی کو ورغلاتی رہتی تھی اور علی ان کی ہر بات کو سچ سمجھتا کہ بھابی بھی کبھی جھوٹ بول سکتی ہے۔۔۔۔۔ دن یوں ہی تیزی سے گزرتے رہے دونوں میں فاصلے بڑھتے جا رہے تھے دونوں ہی خوش نہ تھے علی کئی بار اپنے گھر آیا پر یشل سے ملنے ایک بار بھی نہ گیا شہلا اور لیلٰی اس تبدیلی سے بے حد خوش تھیں
سچ کو تمیز ہی نہیں بات کرنے کی
جھوٹ کو دیکھو کتنا میٹھا بولتا ہے۔۔۔۔۔
۔ ——-
وہ روز اسے کال کرتی اور آج اتفاق سے کال ریسیو کی گئی تھی کہ علی پھر وہی بولا “میں بزی ہوں”
” علی آئی نو ایسا کچھ نہیں ہے۔۔۔۔ پلیز مجھے میری غلطی تو بتائیں ” یشل بولی
” کیا مطلب میں بہانے بناتا ہوں ہر بار” وہ بے رخی سے بولا یشل نے انگلی کی پور سے انکھوں کی نمی صاف کی پھر بولی
” کوئی بات نہیں۔۔۔۔۔ مجھے معلوم ہے تھا آپ یہ ہی کہو گے”
” مجھے بھی معلوم تھا اب تو تم سمجھ گئی ہوگی” وہ معنی خیزی سے بولا
” ہمممم شاید۔۔۔۔۔۔ یا شاید نہیں بھی۔۔۔۔۔” کچھ دیر کو وہ
خاموش ہوئی پھر بولی” علی آپ بہت ظالم ہیں”
علی نے ایک گہرہ سانس لیا
” زندگی سے اور وقت سے بڑا ظالم بھی کوئی ہوا ہے۔۔۔۔۔۔ خیر میں فون رکھتا ہوں” کہہ کر اس نے فون رکھ دیا
” سہی کہتے ہیں آپ علی زندگی اور وقت سے بڑا طالم کوئی نہیں ہوتا” یشل نے بند فون کو دیکھ کر کہا
———-
یشل لان میں گم سم سی بیٹھی تھی آج چھے ماہ ہوئے تھے علی نے ایک بار اسے پلٹ کے نہ پوچھا تھا۔۔۔۔۔ کیا محبت ایسی ہوتی ہے؟؟؟
کہ تھوڑی سی غلط فہمی پہ اپنے محبوب سے کنارہ کشی کرلی جائے محبت کا دل تو بہت فراخ ہوتا ہے پھر یہ کیا ہوا تھا کیا اس دنیا کی طرح محبت کے قوانین و اصول بھی بدل چکے ہیں شاید ہاں۔۔۔۔۔ وہ تو اسے اپنی زندگی کہتا تھا اپنی جان مانتا تھا یشل سے دوری تو اسے موت کے مترادف لگتی تھی تو اب یہ کیا تھا۔۔۔ یہ تو الٹا ہو گیا تھا مرنے کا دعوے دار وہ تھا اور مر وہ رہی تھی وہ بھی پل پل۔۔۔۔۔
وہ انہی سوطوں میں گم تھی کہ اس کا موبائیل بجا بے دلی سے اس نے اپنا سیل اٹھایا دیکھا تو علی کالنگ کا نام جگمگا
رہا تھا وہ اس کا دل ایک دم خوشگواری میں دھڑکا جلدی سے کال ریسیو کی
” ہیلو۔۔۔۔۔ علی” آواز میں گرم جوشی تھی
” یشل مجھے ملنا ہے تم سے” مگر دوسری طرف لہجہ سپاٹ تھا نہ سلام نہ دعا نہ یہ پوچھا گیا کہ میں نے اتنے دن فون نہیں کیا تو ٹھیک تو ہو تم
” رئیلی علی۔۔۔ میں بھی آپ سے ملنا چاہتی ہوں میں بہت بہت مس کررہی تھی آپ کو” آنکھوں میں یک دم آنسو بھر
آئے تھے پر ہونٹوں پہ دلفریب مسکان تھی
” جگہ اور ٹائم میں تمہیں میسج کردوں گا تم آجانا ” کہہ کر وہ فون رکھنے لگا تو یشل بولی
” علی کیسے ہیں آپ؟”
” ٹھیک” مختصر جواب ملا کچھ دیر خاموشی رہی تو علی بولا
” میں رکھتا ہوں فون”
” سنو” ایک دم یشل بولی آواز میں لڑکھڑاہٹ تھی آنسو بہت تیزی سے اس کا چہرہ بھگونے لگے تھے
کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے نا وہ وقت جب آپ کو کسی سے بات کرنے کی طلب ہو اور وہ اپنے آپ کو مصروف ظاہر کرے
اس کی بے اعتناعی پہ اس کا دل کٹ رہا تھا
” آج اپنی یشل سے نہیں۔۔ پوچھو گے کہ۔۔کیسی ہے وہ؟” لہجے میں ایک حسرت تھی
دوبارہ پھر ان دونوں کے درمیان خاموشی در آئی پھر علی بولا
” جب ملنے آؤ گی تب پتا چل جائے گا کہ تم کیسی ہو۔۔۔۔ خیر میں بزی ہوں اللٰہ حافظ” کہہ کر اس نے فون رکھ دیا
کہتے ہیں نا کہ
جب اپنی اہمیت خود بتانی پڑ جائے تو سمجھ لو کہ اب تمہاری کوئی اہمیت نہیں رہی۔۔۔۔۔
۔ —–
یشل علی کی بتائی ہوئی جگہ پہ پہنچ گئی تھی علی وہاں پہلے سے موجود تھا اتنے دنوں کے بعد دیکھ رہے تھے دونوں ایک دوسرے کو۔۔۔۔۔ یشل کی آنکھوں میں نمی در آئی
” کیسے ہیں؟” آج بھی یشل ہی بولی تھی
” ٹھیک۔۔۔۔۔ خیر بیٹھو”
جب وہ بیٹھ چکے تو علی بولا
“یشل۔۔۔۔۔ میرا ماننا یہ ہے کہ جس رشتے میں اعتبار نہ ہو اس رشتے کو ختم ہو جانا چاہیے میں نے اتنے دن ہمارے اس رشتے کو لے کے بہت سوچا بہت۔۔۔۔ میں نے سوچا کے بتادوں تمہیں تاکہ وقت پہ ہم اپنی زندگیوں کا فیصلہ کرلیں۔۔۔۔ مجھے سمجھ نہیں آتی تمہیں مجھ میں ایسا کیا اچھا لگا تھا کہ تم نے میری محبت قبول کرلی تھی۔۔۔۔۔ ابھی ہم اتنا قریب نہیں آئے ہیں کہ دور نہ جا سکیں پوری زندگی پڑی ہے ہماری کبھی نہ کبھی میں تمہیں اور تم مجھے بھول ہی جاؤ گی۔۔۔۔ بہتر ہے وقت پہ اپنی ہم راہیں جدا کرلیں۔۔۔۔۔ میں زبردستی رشتوں کا قائل نہیں ہوں کل کو یہ نہ ہوں کہ ہمیں پچھتانا پڑے سو۔۔۔۔۔” اس نے بات کہتے کہتے ادھوری چھوڑ دی اور یشل کی طرف دیکھا جو دھواں ہوتے چہرے کے ساتھ اسے دیکھ رہی تھی بنا آنکھیں جھپکے
” میرا خیال ہے آگے کی بات تم سمجھ گئی ہو گی” علی کھڑا ہوا
اللٰہ حافظ” کہہ کر وہ جانے لگا یشل ہمت کر کے کھڑی ہوئی
” میرا قصور بتاسکتے ہیں ؟”
علی پلٹا ” مجھ سے ملنا ” اور کہہ کر چلا گیا
———-
وہ پتا نہیں کیسے اپنے آپ کو گھسیٹتے گھسیٹتے گھر لائی تھی اپنے کمرے میں آکے دروازہ لاک کیا اور وہیں بیٹھتی چلی گئی گھر میں اس وقت شاید کوئی نہیں تھا اس کا دل کیا چیخ چیخ کر روئے
آج اس کے اوپر قیامت ٹوٹی تھی۔۔۔۔۔ اسے آج پتا چلا تھا برباد ہونا کسے کہتے ہیں
وہ بے تحاشا رو رہی تھی آج ایسا لگتا تھا اس کی روح فنا ہو جائے گی اور پھر ایک دم اسے زور کا چکر آیا اور وہ بے سد ذمین پہ گری
۔ ——–
” افففففف آپی مجھے تو یقین ہی نہیں آرہا علی اب جب بھی آتا ہے یشل سے ملتا ہی نہیں ہے۔۔۔۔۔” لیلٰی کے پاؤں خوشی سے ذمین پہ نہیں ٹک رہے تھے
” زیادہ خوش مت ہو ابھی وہ اسی سے ہی ملنے گیا ہوا ہے” شہلا نے اس کی خوش فہمی ختم کرنا چاہی
” ارے آگیا ہے علی ابھی ابھی آیا ہے اور آپ کو ایک بات بتاؤں؟” لیلٰی بولی
” ہاں بولو”
” ابھی فاطمہ علی سے یشل کا پوچھ رہی تھی تو علی نے اسے جھڑک دیا اور کہا کہ خبردار جو آج کے بعد اس کا نام بھی لیا۔۔۔۔۔ اففففف آپی آپ کو میں بتا نہیں سکتی مجھے کتنی خوشی ہوئی ہے”
” کیا سچ میں؟؟؟ ایسا کہا علی نے؟؟؟” شہلا نے بے یقینی سے کہا
” ہاں آپی یقین نہیں آرہا نا” لیلٰی ہنسی
” مجھے تو لگتا ہے یہ اس کی آج یشل سے آخری ملاقات تھی” شہلا بولی
” ہاہ۔۔۔۔۔ سکون مل گیا آج مجھے ورنہ اس یشل نے تو جینا حرام کیا ہوا تھا میرا” لیلٰی بولی
ارے چلو کیا آج کے دن بھی اس کو یاد کرنے بیٹھ گئی ہو۔۔۔۔۔ اب ایک بات سنو میری علی کے ساتھ اب زیادہ سے زیادہ رہو سمجھ آئی”
” ہاں ہاں اب آپ دیکھتی جائیں”
———
کسی سے محبت انسان کو بہت کمزور کردیتی ہے۔۔۔۔ نہت بےبس بہت مجبور۔۔۔۔۔ اتنا کہ پھر انسان اس کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پہ مجبور ہو جاتا ہے
یشل اس وقت ہاسپٹل میں تھی اسے نروس بریک ڈاؤن ہوتے ہوتے بچا تھا
بہت دیر تک جب وہ روم سے باہر نہ نکلی دروازہ کھٹکھٹانے کے باوجود بھی جب کوئی جواب نہ ملا تو دروازہ کا لاک توڑا گیا اور جب جا کے دیکھا تو وہ بے سد پڑی تھی اسے فورا ہاسپٹل لے جایا گیا تھا
سب نے اس سے وجہ پوچھنی چاہی مگر اس نے ایک لفظ منہ سے نہ نکالا بہت کوششوں کے بعد بھی جب وہ نہ بولی تو سب نے پوچھنا ترک کردیا اور کچھ ڈاکٹرز کی بھی ہدایت تھی کہ اس پہ زور نہ دیا جائے کیونکہ پھر اس کے برین پہ اثر ہو سکتا تھا عطیہ اور ارسلان کو کچھ کچھ اندازہ تو تھا ہی پر انہیں بھی کنفرم نہیں تھا کہ بات کیا ہے
کچھ دن بعد اسے ڈسچارج کردیا گیا گھر آکے بھی وہ کسی سے بات نہ کرتی بہن بھائی شور کرتے باتیں کرنے کی کوشش کرتے پر وہ کچھ نہ بولتی
اس رات جب ماما نے اس سے پوچھا تو تب یشل کہ ہونٹوں پہ لگا قفل ٹوٹا اور اس نے سب کچھ بتادیا آج پھر سے وہ بے ٹھاشا روئی تھی کہ ماما کو سنبھالنا مشکل ہو گیا تھا ارسلان کو بھی پتا چلا تو اسے بھی بہت دکھ پہنچا
———-
زندگی کا کام ہے گزرنا اور وہ گزر رہی تھی پر علی کی محبت اس کے دل میں جہاں کی تہاں موجود تھی وہ اسے لاکھ بھلانے کی کوشش کرتی پر ہمیشہ ناکام ہوتی
” میں آپ کو بھولنا چاہتی ہوں علی۔۔۔۔۔ پر آج بھی آپ میرے دل کا حصہ ہو۔۔۔۔آپ نے ایک بار مجھے کہا تھا کہ مجھے آپ میں کیا اچھا لگتا ہے۔۔۔۔۔میں آپ کو کیسے بتاتی مجھے آپ میں کیا اچھا نہیں لگتا تھا۔۔۔۔ آپ کا میرے اردگرد گھومنا۔۔۔۔۔ آپ کی ہر وقت کی توجہ۔۔۔۔ آپ کا جان چھڑکنے والا ہر انداز۔۔۔۔۔
میں ریت کی ایک دیوار کی طرح تھی مجھے ٹوٹنے سے خوف آتا تھا پر آپ نے مجھے سنگ مرمر سمجھ لیا اور بےدردی سے توڑ دیا
میں نے سنا تھا کہ لوگ محبت کے بعد بدل جاتے ہیں منہ موڑ لیتے ہیں پر میں نے تو تمہیں کبھی لوگوں میں گنا ہی نہیں تھا۔۔۔۔۔
وہ بیڈ پہ بیٹھی کراؤن سے ٹیک لگائے سوچ رہی تھی دو آنسو ٹوٹ کے اس کی آنکھوں سے گرے تھے
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...