” میں آپ کی بات نہیں سمجھی۔” رفعت بیگم اپنی حیرت پہ قابو پاتے ہوئے بولیں ۔
” میں نے فارسی میں تو بات نہیں کی۔” بیگم سراج سنجیدہ لہجے میں بولیں ۔
” مجھے ماہم کی شادی نہیں کرنی۔” رفعت بیگم نے ماتھے پہ بل ڈال کر کہا۔ایک تو وہ اچھے سے بات کر رہیں تھیں ۔اوپر سے بیگم سراج کے نخرے۔
” کیوں ۔”انہوں نے پوچھا۔
” یہ میرا ذاتی مسئلہ ہے۔” رفعت بیگم نے ناگواری سے کہا۔بھلے ماہم ان کے یہاں کام کرتی ہو پر وہ کسی کی خوشامد نہیں کرسکتیں۔
” تم نے ماہم کی شادی اس لیے نہیں کرنی کیونکہ وہ کماتی ہے۔” بیگم سراج طنزیہ لہجے میں بولیں۔یہ ان کا تکا تھا۔
” یہ آپ کا مسئلہ نہیں ہے۔”رفعت بیگم تیز لہجے میں بولیں ۔
” ماہم کی کتنی تنخواہ ہے پندرہ ہزار نا۔اگر تم اس شادی کے لیے مان جاؤ تو میں تمہیں مہینے کے پچاس ہزار دوں گی۔”انہوں نے رفعت بیگم کو ان کے مطابق ڈیل کیا۔
” پچاس ہزار۔” حیرت سے رفعت بیگم کی آنکھیں پھٹی۔
” ہاں.اچھی طرح سوچ لو۔پھر مجھے جواب دے دینا۔” بیگم سراج تخت سے اٹھتے ہوئے بولیں ۔
” مجھے یہ رشتہ منظور ہے لیکن میری ایک شرط ہے ۔”رفعت بیگم کے دماغ نے تیزی سے جوڑ توڑ کی تھی۔
” کیسی شرط۔”
” ماہم نہ صرف میرے لیے کمائی کا ذریعہ ہے بلکہ وہ میرے بڑھاپے کا بھی سہارا ہے۔میں دل پہ پھتر رکھ کر آپ کی یہ خواہش پوری کر رہی ہوں ۔بدلے میں آپ کو میری بیٹیوں کی شادی کے اخراجات اٹھانے ہوں گے۔” رفعت بیگم نے کہا۔
” اوکے۔” بیگم سراج جواباً بولیں ۔انہیں یقین تھا کہ جب تک زری واپس آئے گی تب تک تو رفعت بیگم کی بیٹیوں کی شادی ہونا ناممکن تھا۔
بیگم سراج کے جانے کے بعد رفعت بیگم کا چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا۔انہیں نہیں معلوم تھا کہ وہ پاگل ان کے اتنے کام آئے گی۔
” تم. پلیز رات میں بھی رک جایا کرو۔سچ میں بڑا مزا آئے گا۔” وہ عنایہ کے لیے دوپہر کا کھانا بنا رہی تھی جب عنایہ بولی۔
” میرا بھی دل کرتا ہے کہ آپ کے پاس ہی رہوں لیکن اماں کبھی اجازت نہیں دیں گی۔” وہ اداسی سے بولی۔اسے یہ گھر بڑااچھا لگتا تھا دل کرتا یہاں رہ جائے اور پھر یہاں پہ عنایہ بھی تو تھی۔
” تم ایک کام کرو ایک ملازمہ رکھ لو۔پھر کام کا مسئلہ نہیں ہوگا۔” عنایہ نے اپنی طرف سے ایک پرفیکٹ حل پیش کیا تھا۔
” یہ تو ناممکن ہے۔ویسے بھی میں آدھا دن تو آپ کے پاس ہوتی ہوں ۔اور جب آپ کا سکول شروع ہوجائے گا تو آپ مصروف ہوجائیں گی۔” وہ مسکرا کر بولی ۔
“پتا نہیں سکول کب شروع ہوگا۔”عنایہ نے منہ بنایا۔
” جلد ہی۔آپ لاؤنج میں بیٹھیں کچن میں گرمی ہے۔” اس نے کہا۔اسے ڈر تھا کہ کہیں ارسلان صاحب اسے کچھ کہیں نہیں کہ اس نے عنایہ کو اتنی گرمی میں کھڑا رکھا۔
عنایہ اسے جلدی آنے کا کہتی کچن سے باہر نکل گئی۔
” کتنی اچھی ہیں نا عنایہ۔ایک یہ ہی ہے جو مجھ سے محبت کرتی ہے ورنہ تو دنیا میں ہر شخص مجھ سے بیزار ہے چاہے وہ گھر والے ہوں یا چھوٹے صاحب۔لیکن چھوٹے صاحب نے تو صبح مجھ سے اتنے اچھے سے بات کی۔لگتا ہے اب وہ بھی مجھے اچھا سمجھے ہیں ۔بس اب میرے گھر والے بھی ٹھیک ہوجائے ۔”وہ کھانا بناتے ہوئے سوچ رہی تھی۔
” میں نے تمہارا رشتہ طے کردیا ہے۔”ڈنر کرتے وقت بیگم سراج نے بم پھوڑا تھا۔
” واٹ۔”ارسلان کے منہ سے نکلا۔
” عنایہ کے لیے مجھے یہ ہی فیصلہ بہترین لگا۔”انہوں نے کہا۔
” آپ ایسا کیسے کر سکتی ہیں ۔اور آپ نے مجھ سے پوچھا بھی نہیں ۔” وہ حیرت سے بولا۔
” کیوں تمہیں مجھ پہ اعتبار نہیں ہے کہ میں تمہارے یا عنایہ کے لیے اچھا فیصلہ لے سکتی ہوں ۔” انہوں نے سنجیدگی سے پوچھا۔
” ایسی بات نہیں ہے مما لیکن آپ کو بتانا تو چاہیے تھا اور پھر وہ کون سی عظیم عورت ہے جو سب جاننے کے باوجود مجھ سے شادی کرے گی۔” وہ بھی سنجیدہ ہوا۔
” آپ میرے پاپا کی شادی نہیں کریں ۔سٹپ مدد بہت بری ہوتی ہے۔ماہم کی مما بھی اسے مارتی ہیں.” ارسلان کے ساتھ بیٹھی عنایہ خوفزدہ لہجے میں بولی۔
ارسلان نے جتاتی نظروں سے بیگم سراج کو دیکھا۔
” پرنسس ماہم تمہاری دوست ہے نا۔ اسلیے میں تمہارے پاپا کی شادی ماہم کے ساتھ کررہی ہوں اور وہ تو آپ سے بہت پیار کرتی ہے نا۔ “انہوں نے پیار سے ماہم کو پچکارا۔
“واٹ۔” ارسلان کو حیرت کا جھٹکا لگا۔یہ مما آج کیسی باتیں کر رہیں تھیں ۔
” تمہیں بھی عنایہ کے حوالے سے اس پر اعتبار ہے نا تو مجھے یہ ہی فیصلہ بہترین لگا۔”انہوں نے جواب دیا۔
” یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ “اس کی حیرت میں کمی نہیں آئی تھی۔
” کیوں تمہارا سٹیٹس تمہیں ایک ملازمہ سے شادی کرنے سے روک رہا ہے۔” انہوں نے ارسلان کی دکھتی رگ پہ ہاتھ رکھا۔
” آپ جانتی ہیں کہ میں کبھی بھی سٹیٹس کانشش نہیں رہا۔لیکن وہ کیسے مان گئی چلو وہ تو معصوم سی ہے اس کے گھر والے کیسے مان گئے۔” اس نے اپنے حیران ہونے کی وجہ بتائی ۔
” کیوں تم میں کیا کمی ہے اتنے ہنڈسم ہو۔”وہ مسکرا کر بولیں ۔
” مجھے بیوی نہیں چاہیے۔مجھے بس عنایہ کی فکر ہے اور عنایہ کا خیال رکھنے کے لیے ہم کل وقتی ملازمہ رک سکتے ہیں ۔ماہم نہ سہی کوئی اور سہی۔”وہ جواباً بولا۔زری کے بعد تو وہ اس حوالے سے کسی عورت پہ اعتبار نہیں کرسکتا تھا اور نہ ہی اسے کسی عورت کی چاہ تھی۔
” تم جانتے ہو پچھلے آٹھ نو ماہ میں تم نے ان گنت ملازمہ کو گھر سے نکالا ہے۔کوئی تمہیں پسند نہیں آتی تھی تو کسی کو عنایہ نہیں ٹکنے دیتی تھی۔یہ ماہم ہی ہے جو اتنے عرصے سے یہاں پہ کام کر رہی ہے اور عنایہ اس کے ساتھ اٹیچ بھی ہے۔میرے خیال میں تو یہ ایک بہترین فیصلہ ہے لیکن آگے تمہاری مرضی ۔میں پھر ان لوگوں کو انکار کر دوں گی۔”سنجیدہ لہجے میں کہتے ہوئے انہوں نے بات سمیٹی ۔
” پاپا پلیز ماہم سے شادی کرلیں ۔وہ مجھے اتنی اچھی لگتی ہے دل کرتا ہے اپنے پاس روک لوں۔”کب سے خاموش بیٹھی عنایہ نے اس کی منت کی۔
ارسلان نے حیرت سے اپنی بیٹی کو دیکھا۔
” تم کل سے کام پہ نہیں جاؤ گی۔” رات میں جب وہ تینوں رفعت بیگم کے کمرے میں بیٹھیں تھی تو انہوں نے ماہم سے کہا۔
” کیوں ۔”وہ پریشان ہوگئی۔
” کیونکہ انہوں نے تجھے کام سے نکال دیا۔” ناعمہ جل کر بولی۔اسے اماں کا یہ فیصلہ بالکل بھی پسند نہیں آیا تھا۔
” اماں قسم لے لو ۔میری کوئی غلطی نہیں ہے ۔صاحب تو پہلے ہی نہیں چاہتے تھے کہ میں وہاں نوکری کروں ۔موقع ملتے ہی انہوں نے مجھے نکال دیا۔” وہ روتے ہوئے بولی۔
” نی چپ کر جا۔پہلے بات تو پوری سن۔تیری شادی ہورہی ہے۔” رفعت بیگم اسے روتا دیکھ کر ناگواری سے بولیں ۔
” سچی۔”وہ رونا بھول گئی تھی۔
” دیکھیں تو ذرا اس پاگل کو کیسے اپنی شادی کی خوشی چڑی ہے ۔”آئمہ اس کی چٹیا کھینچتے ہوئے بولی۔
” اماں آپ سچ کہہ رہی ہیں ۔” وہ درد کو نظر انداز کرتی بےیقینی سے بولی۔
” ہاں نی سچ کہہ رہی ہوں ۔میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ تجھ جیسی پاگل کی بھی شادی کرنا پڑے گی۔”وہ نخوت سے بولیں ۔
” اور تمہاری شادی تمہارے صاحب سے ہورہی ہے اور وہ صرف اپنی بیٹی کے لیے تم سے شادی کر رہے ہیں اسلیے زیادہ خوش فہمی میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ۔”ناعمہ سے اس کا خوشی سے دمکتا چہرہ برداشت نہ ہوا تھا۔
” اماں مجھے چھوٹے صاحب سے شادی نہیں کرنی۔” ماہم نے خوفزدہ لہجے میں کہا۔
” کیوں ۔”آئمہ کو تجسس ہوا۔
” وہ تو بڑے غصے والے ہیں ۔بات بات پہ نوکری سے نکالنے کی دھمکی دیتے ہیں اور بےعزتی بھی بہت کرتے ہیں۔” ماہم منہ پھلا کر بولی۔
” شکر کر تیری شادی ہورہی ہے اور ویسے بھی میں نے تجھ سے رائے نہیں لی۔تیرا رشتہ طے ہوگیا ہے۔” وہ طیش میں آ کر بولیں۔اس پاگل کی اتنی ہمت کہ وہ انکار کرے۔
” اچھی بات ہے تیرا یہ ہی لحاظ ہے اور اس کی چھ سال کی بیٹی ہے ۔یہ امیر لوگ شادی بھی دیر سے کرتے ہیں ۔چالیس کا تو ہوگا ہی۔”ناعمہ نے اس سے تائید چاہی۔
اس نے اپنی پریشانی میں اثبات میں گردن ہلائی اور وہ کونسا چھوٹے صاحب پہ غور کرتی تھی۔
” آج پیر ہے اور جمعے کو تیرا نکاح ہے۔نکاح سے پہلے گھر کی اچھے سے تفصیلی صفائی کر لینا۔اب تو ایک کام والی رکھنے پڑے گی ۔”رفعت بیگم نے کہا۔
” اماں یہ آ کر کر دے گی نا.” آئمہ جلی۔
” وہ اسے بچی کے خیال رکھنے کے بیاہ کر لے جارہے ہیں ۔” انہوں نے کہا۔
ماہم کا دل رونے کو کر رہا تھا۔اسے چھوٹے صاحب سے بڑا ڈر لگتا تھا۔پتا نہیں شادی کے بعد کیا ہوتا۔
ساری رات اس نے اس معاملے کے بارے میں سوچا تھا۔اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ کبھی بھی شادی نہیں کرے گا۔دنیا کی ہر عورت اس کے دل سے اتر چکی تھی۔زری نے اسے جاتے جاتے ایسے زخم دئیے تھے کہ مہینوں بعد بھی وہ ہرے تھے۔
لیکن یہاں بات اس کی خواہش کی نہیں اس کی بیٹی کے مستقبل کی تھی۔یا تو وہ سارا کچھ چھوڑ کر عنایہ کا خیال رکھتا جو کہ ناممکن تھا۔یا اگر وہ ملازمہ بھی رکھتا تو کوئی ساری زندگی کے لیے اس کے گھر نہ رہتی۔کسی نہ کسی کام سے اسے جانا ہی پڑتا۔
تیسرا آپشن شادی تھی لیکن بیوی بھی تو ماں کے گھر جاتی نا۔لیکن ماہم کے تو سوتیلے رشتے تھے اسلیے اس کا جانا ضروری نہیں تھا۔
لیکن ماہم اس سے شادی کے لیے کیسے مانی یہ بات باعث حیرت تھی۔کیونکہ اس کے خیال میں جب سگی ماں نے بیٹی کی پروا نہیں کی تو ماہم کیسے عنایہ کے لیے اس کے ساتھ ساری زندگی گزار سکتی تھی۔
اب جب وہ مان چکی تھی تو اسے بھی مان لینا چاہیے تھا۔
صبح وہ مما کو ہاں کہہ چکا تھا۔
وہ بستر پہ لیٹی زار و قطار رو رہی تھی۔اسے ارسلان صاحب سے شادی نہیں کرنی تھی۔اسے تو اچھا سا شوہر چاہیے تھا لیکن صاحب جی تو بہت غصے والے تھے۔
” اب تو وہ ساری زندگی عنایہ کے پاس اس خوبصورت سے گھر میں ریے گی ۔جہاں اچھی اچھی کھانے کی چیزیں ہوں گی اور اس کے پاس پیارے سے کپڑے ہوں گے۔کیا ہوا جو صاحب غصے والے ہیں وہ کونسا سارا دن گھر ہوتے ہیں ۔یہاں اماں اور بہنوں کی مار بھی تو کھاتی ہوں وہاں صاحب جی کی بھی کھا لوں گی۔کم از کم وہاں مجھ سے محبت کرنے والی عنایہ تو ہوگی”۔اس سوچ نے اسے مطمئن کردیا۔
اور وہ سکون سے سو گئی ۔خواب میں اس کے پاس اچھے اچھے کپڑے تھے اور وہ عنایہ کے ساتھ تھی ۔صاحب بھی اس پہ غصہ کر رہے تھے۔پر اسے برا نہیں لگ رہا تھا۔
بیگم سراج عنایہ کے ساتھ ماہم کی طرف آئیں تھی۔انہوں نے ماہم کو شادی کی شاپنگ کرانی تھی۔نکاح سادگی سے ہونا تھا لیکن چار لوگوں میں ان کی بھی عزت تھی۔انہیں اس بیوقوف سی لڑکی میں کوئی انٹرسٹ نہیں تھا۔بہت سوچ سمجھ کر انہوں نے یہ فیصلہ کیا تھا۔کوئی اور لڑکی ہوتی تو آج نہیں تو کل ارسلان کو اپنی طرف متوجہ کرلیتی۔پھر وہ ان کے ساتھ کیے معاہدے کو بھی بھول جاتی۔
لیکن ماہم ایسا کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھی ۔وہ تو ایک بیوقوف اور دبو سی لڑکی تھی ۔جسے کبھی بھی ہاتھ پکڑ کر وہ باہر نکال دیتیں اور کوئی بھی پوچھنے والا نہ ہوتا۔
ماہم چادر لپیٹ کر سٹور سے نکلی ۔بیگم سراج اماں کے کمرے میں تھی وہ بھی وہاں چلی آئی۔اس کے چہرے پہ دبا دبا جوش تھا۔جب تک ابا زندہ تھے
اسے بازار لے کر جاتے تھے لیکن ابا کے انتقال کے بعد اس نے بازار کی شکل تک نہیں دیکھی تھی ۔آج اس کی دیرینہ خواہش پوری ہونے والی تھی۔
وہ جیسے ہی اندر داخل ہوئی عنایہ اسے چمٹ گئی۔
” آپ بھی آئیں ہیں ۔” وہ حیرت اور خوشی کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ بولی۔
” مجھے اتنی خوشی ہورہی ہے کہ تم میری مما بن رہی ہو۔” عنایہ خوش ہوئی۔
عنایہ کا یوں خوش ہونا کمرے میں موجود ہر انسان کو چھبا تھا۔رفعت بیگم اور ان کی بیٹیوں کو عنایہ کا ماہم کو اس طرح اہمیت دینا ایک آنکھ نہ بھایا تھا۔اور بیگم سراج کو اس لیے برا لگا تھا کہ عنایہ اور زری میں اتنی بےتکلفی کبھی نہیں تھی۔
” مجھے بھی۔” وہ بھی جواباً خوش ہوئی۔
” تم اپنی سٹپ مدر کی طرح تو نہیں ہوجاؤ گی۔” عنایہ کو خدشہ لاحق ہوا۔
ماہم نے سٹپٹا کر رفعت بیگم کو دیکھا جو خاصی خونخوار نظروں سے اسے دیکھ رہی تھیں ۔
“اسے کپڑے تو ڈھنگ کے دیں گے۔میں اس حالت میں اسے ڈیزائنر کی شاپ پہ لے کر جاؤں گی۔” بیگم سراج ماتھے پہ بل ڈال کر بولیں ۔
” آپ جارہی ہیں نا ۔تو لے دیجئے گا۔” ناعمہ بدتمیزی سے بولی۔
” میں اسے ساتھ والوں کے گھر سے برقع منگوا دیتی ہوں ۔” رفعت بیگم ناعمہ کو گھورتے ہوئے خوشامدی لہجے میں بولیں ۔
” ذرا جلدی۔”بیگم سراج موبائل پہ ٹائم دیکھتے ہوئے بولیں ۔
” جا آئمہ ساتھ والوں کو بول کہ ایک اچھا سا برقع کچھ دیر کے لیے دیں۔” رفعت بیگم بظاہر نرم لہجے میں بولیں لیکن ساتھ ہی اسے گھور کر اٹھنے کا اشارہ کیا ۔
آئمہ منہ بناتی اٹھی اور ایک تیز نظر عنایہ کے ساتھ باتوں میں مشغول ماہم پہ ڈال کر پیر پٹختی وہاں سے چل دی۔
” تم نے بہت اچھا فیصلہ کیا ہے۔” حمزہ نے سراہنے والے انداز میں کہا۔
” پتا نہیں یار مجھے تو اتنا عجیب فیل ہورہا ہے۔ارسلان پیشانی مسلتے ہوئے بولا۔
” کیوں۔”حمزہ نے حیرت سے کہا۔
” ہر لڑکی کے شادی کے حوالے سے کچھ خواب ہوتے ہیں اور میری وجہ سے اس کی زندگی بےرنگ رہے گی۔” اس نے اپنی پریشانی بتائی۔
” کم آن یار۔ وہ یہ سب اپنی مرضی سے کر رہی تھی ۔تم پلیز خود کو بلیم نہ کرو۔” حمزہ نے کہا۔
” پتا نہیں یار۔”
” ایک بات پوچھوں ۔”
“پوچھو۔”
” اگر زری واپس آجاتی ہے تو تم کیا کرو گے۔”حمزہ نے پوچھا۔
” اس کے ہونے نہ ہونے سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔” وہ سنجیدہ لہجے میں بولا۔
” ریئلی۔”حمزہ کو یقین نہ آیا تھا۔ارسلان تو زری کے پیچھے پاگل تھا۔
” سچ میں ۔وہ میرے دل سے اتر چکی ہے اور جو لوگ دل سے اتر جاتے ہیں وہ کبھی بھی پہلے والا مقام حاصل نہیں کرسکتے۔زری نے مجھے اتنے سال دھوکہ دیا ہے اور تمہیں یہ لگتا ہے کہ میں اسے معاف کردوں گا۔میں بھولنے والوں میں سے نہیں ہوں۔”وہ سرد لہجے میں بولا۔آنکھیں سرخ ہوچکی تھیں ۔زری کا حوالہ اسے ہمیشہ تکلیف میں مبتلا کرتا تھا۔
” نئی بھابھی کو میری سے مبارک دے دینا۔”حمزہ نے کہا۔
” تم واقعی ہی نہیں آؤ گے۔”اس نے کہا۔حمزہ اس کا واحد اچھا دوست رہ گیا تھا۔
” تم لوگوں نے بالکل ایمرجنسی میں نکاح رکھا ہے۔میری جمعرات کو فلائیٹ ہے۔میں کینسل نہیں کرسکتا کیونکہ وہاں بہت سے کام میرے منتظر ہیں ۔پھر میری منڈے کو کلاسز ہیں ۔” حمزہ معذرت خواہ انداز میں بولا۔وہ ایک کورس کے سلسلے میں انگلینڈ جا رہا تھا۔
” اٹس اوکے۔لیکن بیچ میں چکر لگاتے رہو گے نا.” وہ مسکرا کر بولا۔
” ظاہر ہے دو سال کیا پڑھتا ہی رہوں گا۔”حمزہ بھی جواباً مسکرایا۔
ماہم اپنی سمندر جیسی آنکھیں پوری کی پوری کھولے ادھر اُدھر دیکھ رہی تھی۔زندگی میں پہلی دفعہ اس نے اتنے بڑے بڑے بازار دیکھے تھے۔پھر اتنے خوبصورت سوٹ اور جوتے اس کی تو خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔
بیگم سراج نے ہی اس کے لیے سارے سوٹ پسند کیے تھے۔انہوں نے اسے پندرہ سوٹ لے کر دیئے تھے۔جن میں تین کام والے اور باقی کڑھائی والے تھے۔نکاح کا سوٹ الگ سے تھا۔
گھر واپس آ کر جب اماں اور بہنوں نے اس کی شاپنگ دیکھیں تو سب کے منہ کھل گئے۔
” اماں تم اس کی شادی نہ کرو۔” ناعمہ نے کہا۔ماہم کے پاس اتنے اچھے کپڑے دیکھ کر اس کا حسد کے مارے برا حال تھا۔
ماہم نے گھبرا کر نفی میں گردن ہلائی۔زندگی میں پہلی دفعہ تو اسے اتنی اچھی چیزیں ملیں تھیں ۔وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس سے چھن جائیں۔
” کاش یہ کپڑے مجھے آسکتے۔اس پر کٹی کبوتری کے تو مزے بن گئے۔” آئمہ حسرت سے اس کے شادی کے جوڑے پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی۔
” ندیدی نہ بنو۔تم لوگوں کی شادی پہ اس سے اچھے کپڑے ہوں گے۔بیگم سراج سے میں وعدہ لے چکی ہوں ۔” رفعت بیگم کی اس بات سے آئمہ اور ناعمہ کو تسلی ہوئی ۔
” زیورات کدھر ہیں ۔”انہوں نے سوچوں میں گم ماہم سے پوچھا۔
” کون سے زیورات ۔” ماہم نے اچنبھے سے پوچھا۔
” ان کی طرف سے تیری شادی کے لیے اور کیا تیری ماں کے۔وہ تو خالی ہاتھ آئی تھی۔”وہ اسے گھورتے ہوئے بولیں ۔
” مجھے نہیں پتا۔” ماہم سنجیدہ لہجے میں بولی۔اسے ہمیشہ کی طرح رفعت بیگم کے منہ سے یہ سب سن کر اچھا نہیں لگا تھا۔
” مجھے نہیں لگتا وہ لوگ اسے سونے کا زیور ڈالیں گے۔”ناعمہ نے کہا۔
” بڑی ہی کنجوس اور چالاک ہے بیگم سراج۔”انہوں نے منہ بنایا ۔
” یہ کیا بات ہوئی۔میں تمہارے لیے کرتا لائی تھی ۔وہ کیوں نہیں پہنا۔” بیگم سراج نے ارسلان کو جینز شرٹ میں دیکھ کر کہا۔
” مما ٹھیک ہے ۔ویسے بھی ڈیڑھ دو گھنٹے کی بات ہے۔”وہ بیزاری سے بولا۔اس کے دل کی حالت عجیب تھی۔
” ارسلان ایسے اچھا نہیں لگتا۔پلیز تماشا نہیں بناؤ۔اپنا نہیں تو میری ہی عزت کا خیال کر لو۔”وہ خفگی سے بولیں ۔
ارسلان اثبات میں سر ہلاتا اپنے روم کی طرف بڑھ گیا۔
” تمہاری یہ بیزاری زری کے حق میں اچھی ثابت ہوگی۔آہ زری تم نے ہیرے کو چھوڑ کر کوئلے کو پکڑ لیا۔اب تمہیں اس کا احساس ہورہا ہے ۔بس جلدی سے واپس آؤ۔تاکہ میرا گھر دوبارہ سے خوشیوں کو گہوارہ بنے۔” وہ دل میں زری سے مخاطب ہوئیں
” جلدی جلدی کریں ۔مجھے ماہم کے پاس جانا ہے۔” عنایہ نے بیگم سراج کا ہاتھ ہلا کر انہیں اپنی طرف متوجہ کیا۔
” تمہیں زری یاد نہیں آتی۔”انہوں نے پوچھا۔
” نہیں ۔وہ مجھے بالکل بھی نہیں لگتیں تھیں ۔ہر وقت ڈانٹتی رہتی تھیں ۔اچھی بات ہے چلی گئی ہیں اور اب ماہم میری مما بنے گی۔”عنایہ منہ بنا کر بولی۔
بیگم سراج کو افسوس ہوا۔کاش زری عقل استعمال کرتی تو یہ سب نہ ہوتا۔
ماہم ساکت نظروں سے اپنے عکس کو شیشے میں دیکھ رہی تھی۔
گولڈن کلر کی میکسی کے ساتھ ڈیپ ریڈ دوپٹہ تھا۔گلے میں چوکر، کانوں میں جھمکے اور ماتھے ہی بندیا۔سفید رنگت پہ سرخ لپ اسٹک غضب ڈھا رہی تھی۔باقی سارا میک اپ لائٹ تھا۔
اس نے تو کبھی میک اپ نہیں کیا تھا اور آج تیار ہو کر وہ پہچانی نہیں جارہی تھی۔
” ہائے اللہ ۔میں کتنی پیاری لگ رہی ہوں ۔مجھے تو یقین ہی نہیں آرہا کہ میری شادی ہورہی ہے اور میں دلہن بنی بیٹھی ہوں ۔” وہ خوش ہو کر بولی۔
تب ہی فہد نے بتایا کہ مولوی صاحب آرہے ہیں ۔
نکاح کے وقت باقی لوگوں کے ساتھ بیگم سراج بھی موجود تھیں ۔
اس کے اوپر چادر دے دی گئی تھی۔نکاح کے بعد جب اس کی چادر ہٹائی گئی تو اسے دیکھ کر بیگم سراج کا رنگ فق ہوا۔کیا انہوں نے ماہم کو منتخب کر کے غلطی کی تھی۔ایسی حسین بیوی کے ہوتے ہوئے کیا ارسلان زری کی طرف دیکھے گا؟
نکاح کے بعد جب اسے ارسلان کے پہلو میں بیٹھایا گیا تو اس کا دل تیز تیز دھڑکنا شروع ہوگیا۔اس کی ہتھیلیوں پسینے سے گیلی ہو رہی تھیں ۔وہ عجیب سے احساسات سے دوچار تھی۔
دوسری طرف ارسلان ضبط کے کڑے مراحل سے گزر رہا تھا۔اسے اپنا اور زری کا نکاح یاد آگیا تھا۔دو گھنٹے جس طرح وہ بیٹھا یہ وہ ہی جانتا تھا۔رخصتی کے وقت باہر نکلنے والوں میں وہ سب سے پہلا تھا۔
دوسری طرف محلے کے لوگ ماہم کی قسمت پہ رشک کر رہے تھے۔آخر کو اسے اتنا حسین، جوان اور امیر شوہر جو ملا تھا۔
وہ کمرے میں اندھیرا کیے بیٹھا سموکنگ کر رہا تھا۔آج کا دن اس کے لیے بہت بھاری تھی۔
زری اور وہ سات سال کی عمر سے ساتھ تھے۔اسے بچپن سے ہی نٹ کھٹ سی زری پسند تھی اور بڑے ہونے پہ یہ پسندیدگی محبت میں تبدیل ہوگئی۔زری بھی اس سے محبت کرتی تھی یا شاید یہ اس کا خیال تھا ۔وہ ہمیشہ سے زری کے بارے میں پوزیسو رہا تھا۔
بیس سال کی عمر پہ اس کے ہی اصرار پہ ان کی شادی کردی گئی۔زری نے کبھی اس سے ویسی محبت نہیں کی جیسی وہ اس سے کرتا تھا ۔اس نے زری کا ہر نخرہ ہر بدتمیزی کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا تھا۔
شادی کے ڈیڑھ سال بعد جب زری کو ماں بننے کی خوشخبری ملی تو اسے ذرا خوشی نہیں ہوئی۔وہ اس جھنجھٹ میں نہیں پڑھنا چاہتی تھی۔لیکن ارسلان کے اثرار پہ وہ خاموش ہوگئی۔اس نے کبھی عنایہ کو ایک ماں والا پیار نہیں دیا۔
اور وہ بھی زری کی محبت میں اتنا پاگل کہ کبھی بیٹی کو باپ والی محبت نہ دے سکا۔
بیگم سراج نے این جی او چلانے کے ساتھ عنایہ کو بھی سنبھالا تھا۔لیکن تب ارسلان کو اس بات کی پروا نہیں تھی کہ ان کی بیٹی نظر انداز ہورہی ہے۔
اس کی آنکھ تو شادی کے ساڑھے سات بعد کھلی جب زری نے اس سے طلاق کا مطالبہ کیا۔
” تم کتنی پیاری لگ رہی ہو۔” عنایہ اس کی چوڑیوں پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی۔
وہ جواباً مسکرائی ۔آج تو چپ رہ رہ کر اس کے منہ میں درد شروع ہوگیا تھا۔
” مجھے یقین نہیں آرہا کہ تم میری مما بن گئی ہو۔” عنایہ خوش ہو کر بولی۔
” مجھے بھی یقین نہیں آرہا کہ میں اور بےبی ایک ہی گھر میں رہیں گے۔” وہ عنایہ کے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی۔
” اب مجھے عنایہ کہنا اور میں تمہیں آپ کہوں گی۔” عنایہ نے کہا۔
” ٹھیک ہے۔”وہ خوش ہو کر بولی۔اسے کبھی کسی نے آپ نہیں کہا تھا۔
” لیکن آپ اپنی سٹیپ مدر کی طرح تو نہیں ہوجاؤ گی۔”عنایہ کو خدشہ لاحق ہوا۔
” نہیں ۔میں آپ کی اچھی والی مما بنوں گی۔” اس نے عنایہ کو یقین دلایا۔
” پرنسس تم ذرا باہر جاؤ۔مجھے اس سے ضروری بات کرتی ہے۔” بیگم سراج نے کمرے میں آکر عنایا کو کہا۔
” ایک بات میرے کان کھول کر سن لو۔تم یہاں صرف عنایہ کے لیے ہو۔اس لیے ارسلان سے فری ہونے کی کوشش نہ کرنا۔”بیگم سراج سخت لہجے میں بولیں ۔
” جی۔” اس نے اثبات میں سر ہلایا۔
” ایک اور بات اپنی اوقات کبھی مت بھولنا۔ڈریسنگ روم میں گدا پڑا ہے۔اسے زمین پہ بچھا کر سو جانا۔”انہوں نے اگلا حکم جاری کیا۔
اس نے دوبارہ سے اثبات میں سر ہلایا۔بیگم سراج کا رویہ اسے عجیب لگا تھا۔وہ کیوں اس سے اس طرح بات کر رہیں تھیں ۔
” جاؤ جا کر کپڑے چینج کرو۔اور پھر عنایہ کو سلا دو۔”وہ یہ کہہ کر کمرے سے نکل گئیں ۔
وہ منہ بناتی بیڈ سے اٹھی۔بیگم سراج اسے اس وقت بالکل اماں کی طرح لگیں ۔وہ عنایہ کے لیے ہی آئی تھی ۔بھلا یہ بھی کوئی بتانے والی بات تھی۔ارسلان صاحب سے اسے ویسے بھی ڈر لگتا ہے۔اس کا کیا ضروت تھی ارسلان صاحب سے فری ہونے کی۔
اس نے پارلر والی کے بتائے ہوئے طریقے سے میک اپ اتارا۔اور گدا لے کر باہر آ گئی۔
” تم بیڈ پہ نہیں سوؤں گی۔” عنایہ نے حیرت سے کہا۔
” نہیں۔مجھے نیچے اچھی نیند آتی ہے۔” وہ مسکرا کر بولی۔
عنایہ کو سلانے کے بعد وہ نیچے آکر لیٹ گئی۔عنایہ نے اے سی آن کردیا تھا. اسے ٹھنڈ لگ رہی تھی لیکن اسے پتا نہیں تھا کہ کمبل کدھر ہے۔اور وہ بیگم سراج سے پوچھنے کی ہمت نہیں کرسکتی تھی۔
رات گئے وہ کمرے میں آیا تھا۔کمرے میں مدھم مدھم روشنی تھی۔ریموٹ سے اس نے اے سی کی کولنگ کم کی اور بیڈ کی طرف آیا۔عنایہ بیڈ پہ اکیلی تھی ۔اس نے ماہم کی تلاش میں نظر دوڑائی۔بیڈ کی پاؤں والی سائیڈ کی طرف وہ زمین پہ گدا بچھائے سو رہی تھی۔
وہ حیران ہوتے ہوئے اس کی طرف بڑھا۔اس نے ماہم کو ایک دو دفعہ آواز دی لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوئی۔
ڈریسنگ روم سے چادر لا کر اس نے ماہم کے اوپر ڈالا۔وہ کچھ دیر کھڑا اس کے معصومیت سے بھرے چہرے کو دیکھتا رہا۔وہ کبھی بھی شادی نہیں کرنا چاہتا تھا عنایہ کی خاطر اسے یہ کرنا پڑا۔