ماہم کی شادی کا کاشف کو علم تھا آج وہ دیر رات تک اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ لان میں بیٹھا تھا سب خوشگوار ماحول میں چائے کے گھونٹ بھرتے سگریٹ کے کش لگا رہے تھے یوں لگ رہا تھا جیسے آج یہ سب منی پارٹی کا لطف لے رہے ہیں مین گیٹ بھی اسی وجہ سے کھلا ہی ہوا تھا
’’سناؤ میاں کیسی رہی شادی؟ کاشف نے اپنے ایک آنے والے دوست سے پوچھا تھا جو عرش کی شادی سے سیدھا ہی اس منی پارٹی میں شامل ہونے آیا تھا ۔ وہ عرش کا بھی بزنس کی وجہ سے قریبی جان پہچان والا تھا اسی لیے اسے شادی میں مدعو کیا گیا تھا وہ بھی باراتی بن کر شہباز کے گھر گیا تھا ۔
’’بہت زبردست حالانکہ میں گھر میں شادیوں کے حق میں نہیں ہوں مگر شہباز صاحب نے گھر میں ہی اتنے زبردست انتظامات کروائے تھے کہ مزہ ہی آگیا
’’دولہے میاں کا سناؤ اس کے کیا حال تھے؟ کاشف نے مزید پوچھا
’’عرش تو خوشی سے پھولے ہی نہیں سمارہا تھا
’’ظاہر ہے عرش اتنی اچھی جگہ شادی کررہا تھا خاندان اچھا ہے لڑکی اچھی ہے اس کا حق بنتا ہے کہ وہ خوش اور مطمئن ہو ‘‘۔
یہ آخری جملے مین گیٹ سے اندر داخل ہوتے ہوئے کیف نے سنے تھے اتنی اچھی جگہ خاندان اچھا لڑکی اچھی آج کاشف کہ منہ سے یہ الفاظ وہ وہیں ساکت رہ گیا
کاشف کی کیف کی جانب پشت تھی وہ کیف کو مین گیٹ سے آتا ہوا دیکھ نہیں پایا تھا باقی سب بھی محو گفتگو تھے اسی اثنا میں ایک دوست سے مزید تذکرہ کیا
’’ہاں واقعی شہباز صاحب بہت ہی نائس بندے ہیں بہت اچھے گھر کا انتخاب کیا ہے عرش نے اور سب سے بڑی بات اس کے اپنے ہیں سگے چچا کا گھر ہے سمجھو ایک ہی گھر ہوا‘‘۔ ایک اور دوست نے تبصرہ کیا وہ بھی عرش سے کچھ نا کچھ جان پہچان رکھتا تھا
’’شہباز تو جو ہیں سو ہیں ان کی بیٹی بھی ماشاءاللّٰه اچھی سلجھی ہوئی ہے عرش کا گھر اچھا بس جائے گا‘‘۔ یہ کہنے والا اور کوئی نہیں کاشف تھا ان سب کے سامنے ماہم قریشی کی برائی کرکے اسے کوئی فائدہ نہیں ملنے والا تھا یہ سب اسکے اور ماہم کے ماضی کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے ان کے آگے اسے ماہم کو نیچے گرانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی لہذا آج وہ سچ ہی بول رہا تھا جھوٹ تو وہ اپنے خاندان والوں کے آگے بولا کرتا تھا اپنی عزت بچانے کی خاطر کہ کہیں کوئی اسے ٹھکرائے جانے کا طعنہ ہی نہ دے
کیف کے کان اب سائیں سائیں کرنے لگے تھے وہ لال پیلا ہوتا ہوا کاشف کے سامنے جا کھڑا ہوا۔
’’کیا کہا آپ نے ابھی ‘‘۔ آواز مدھم تھی مگر لہجہ کاٹ کھانے والا
کاشف اس کی آواز پر یکدم چونکا بے ساختہ پلٹ کر دیکھا بے یقینی چہرے سے جھلکی
کچھ توقف کے بعد سنبھلتے ہوئے مصنوعی سا مسکراتے ہوئے اس نے کہا۔
’’تم نے تو ملک سے باہر جانا تھا آج تم واپس گھر کیسے آگئے
’’یہاں نہ آتا تو سچ کیسے جانتا وہ سچ جس کو میرا دل تو ہمیشہ سے جانتا تھا مگر پھر بھی جانے کیوں آپ کی باتوں کی وجہ سے میں شک و شبہات میں پڑجاتا تھا ‘‘۔ وہ دانت پیستے ہوئے جتلاتے ہوئے ٹھہر ٹھہر کر کہہ رہا تھا ۔
’’چلو اندر چل کر بات کرتے ہیں تمہیں نادیہ کے ہاتھ کی چائے بھی پلواتا ہوں ‘‘۔ کاشف اپنی نشست سے اٹھا اور اس کے بازو کو اپنی انگلیوں سے کچھ دباتے ہوئے اپنے ساتھ لیکر اندر کی جانب بڑھا ۔
کیف مسلسل کاشف کی طرف گہری نظریں گاڑھے بت بنا چلتا رہا ۔
’’اب بولو کیا مسئلہ ہے ‘‘۔ لاؤنج میں آکر کاشف نے جھٹکے سے اس کا بازو چھوڑا تھا
’’وہ گھر اچھا ماہم سلجھی ہوئی کیا تھا یہ سب مجھے تو آپ ہمیشہ کچھ اور ہی کہتے آئے ہیں ‘‘۔ وہ تقریباً چلایا تھا ۔
’’دیکھو کیف تمہیں تو میں برباد ہونے سے بچارہا تھا یہ غیر لوگ ہیں ان کے سامنے بھابی کے میکے کی بے عزتی کرکے مجھے کیا ملے گا اور یہ اس لڑکی کا کردار جان کر کریں گے بھی کیا؟ویسے بھی اب کیا فائدہ وہ کسی کی بیوی ہے خوامخواہ میری باتوں سے اس کا گھر خراب نہیں ہونا چاہیے ‘‘۔وہ بڑے ہی پرسکون انداز میں اپنی بات مکمل کیے اب کیف کو دیکھ رہا تھا ۔
کیف تلخ سا مسکرایا۔
’’سچ بولیں چچا سچ بولیں آج تو سچ بولیں اب جھوٹ کا کوئی فائدہ نہیں اور سچ کا کوئی نقصان نہیں اب میں چاہ کر بھی اس سے شادی نہیں کرسکتا کم از کم آج تو سچ بولیں اس کا لہجہ اب اونچا نہیں تھا شرم دلانے والا تھا ۔
کاشف نے چبھتی نظروں سے اسے دیکھا پھر صوفے کی جانب بڑھا بڑی شان سے اس پر براجمان ہوا اپنی ایک ٹانگ دوسری ٹانگ پر رکھا اور شان بے نیازی سے اپنا پاؤں ہلانے لگا ۔
’’کون سا سچ سننا چاہتے ہو میرے پیارے بھتیجے ‘‘۔ اس نے طنزیہ سا میٹھا لہجہ کرتے ہوئے کہا۔
’’آپ کا اور ماہم کا سچ‘‘۔ اس نے بھی طنزیہ ہی کہا ۔
کاشف نے بے ساختہ قہقہہ لگایا ۔
’’تم بچے ہو کیف میرا اور اس لڑکی کا کوئی سچ نہیں ہے تمہیں کوئی پتھر مارے گا تو کیا تم کبھی اسے پھول دوگے نہیں نا تو بھلا میں کیسے ذلت کے بدلے عزت دیتا۔وہ لوگ مجھے بڈھا اور جانے کیا کیا کہتے تھے تو میں بھی انہیں بدکردار ،آزاد خیال جانے کیا کیا کہہ دیتا تھا ‘‘۔ وہ بڑی ہی سہولت سے کیف پر بجلی گرا رہا تھا ۔
’’چچا” اسے واقعی شاک لگا تھا اس کا گلا رندھا تھا مگر ضبط کیے بولا۔’’آپ تو کہتے تھے کہ وہ”وہ کہنا چاہتا تھا مگر کہہ نہیں سکا۔
کاشف اس کی ادھوری بات سمجھ چکا تھا ۔
’’کم آن بیٹا کومن سینس نام کی بھی کوئی چیز ہوتی ہے وہ ایسی ویسی ہوتی تو میں خود اس سے رشتے کے لیے ہامی ہی کیوں بھرتا باقی جو سب میں کہتا رہا ظاہر ہے وہ میرا غصہ تھا ریجیکشن کا دکھ تھا اب میں اتنا فرشتہ صفت تو نہیں کہ کوئی مجھے دھتکار دے اورمیں اس کے قصیدے پڑھوں‘‘
ایک ہی رات میں اس پر اتنی بجلیاں گرچکیں تھیں کہ اس کے لیے سنبھلنا مشکل تھا پہلے ماہم کی شادی اور اب کاشف عالم کے یہ انکشافات ۔وہ کیا بحث کرے اب کاشف سے کیا کہے اس سے لڑے جھگڑے اب کیا بچا تھا سننے کے لیے؟مگر پھر بھی ایک آخری سوال کیا۔
’’تو پھر آپ نے میرے اس سے رشتہ کرنے پر مخالفت کیوں کی کیوں بار بار میرے سامنے اس کے خلاف بولتے رہے؟
’’خلاف اسی لیے بولتا تھا کیونکہ میں اس کے خلاف ہی تھا وجہ تمہیں بتاچکا ہوں نہ وہ مجھے ذلیل کرتے نہ امید دے کر انکار کرتے نہ میں ان کے خلاف بولتا جہاں تک بات ہے تمہارے رشتے کی تو میں کبھی رکاوٹ نہیں بنا ‘‘۔ اس نے طنزیہ مسکراتے ہوئے کہا ۔
کیف کے چہرے کا رنگ مزید زرد ہوا وہ شخص صاف صاف مکررہا تھا وہیں وہ اسے مکرنے نہیں دے گا اب وہ کچھ طیش میں آیا
’’آپ نے مخالفت کی تھی چچا فائزہ آپی کو انکار کیا پھر مجھے وہ سب کہا جس کی وجہ سے میں گھر تک چھوڑکر چلاگیا تھا ‘‘۔
کاشف استہزائیہ مسکرایا ۔
’’رشتہ گھر کے بڑے کرتے ہیں بچے نہیں تم اور فائزہ گھر کے بچے ہو تم دونوں کی بات کو میں نے سنجیدگی سے لیا ہی نہیں اگر گھر کے بڑے بھائی یا بھابی مجھ سے رشتے کے حوالے سے بات کرتے مجھے قائل کرنے کی کوشش کرتے تو میں ان کے فیصلے پر سر تسلیم خم کرلیتا تم گھر چھوڑکر چلے گئے تب بھی بھائی یا بھابی نے ایک بار بھی مجھ سے نہیں کہا کہ کاشف ہم کیف کا رشتہ ماہم سے کرنا چاہتے ہیں تم اس پر اعتراض نہ کرنا ۔ ‘‘ اس نے بڑے ہی سکون سے اپنی نشست سے اٹھ کر کیف کے قریب بڑھ کر کہاتھا ۔
یہ سب کیا تھا؟کیا کہہ رہا تھا یہ شخص ایک ہی پل میں اس کی زندگی مزاق بن چکی تھی وہ جو ہر بات کا ملبہ ماہم قریشی پر گرا دیتا تھا آج کسی نے بڑی ہی چالاکی سے سارا ملبہ اس پر گرادیا تھا
اسے لگا تھا کہ اب وہ بول ہی نہیں پائے گا بولنے کو تھا بھی تو کچھ نہیں کاشف عالم نے تو بڑی سہولت سے بات ہی ختم کردی تھی وہ خود کو مکھن میں سے بال کی طرح نکال کر صاف ستھرا ہوگیا تھا اور کیف عالم کو کٹہرے میں لا کھڑا کیا تھا ۔
’’تمہیں مزید کوئی سوال جواب کرنے ہوں تو کسی دن فرصت میں مل بیٹھیں گے مگر فی الحال میرے دوست کافی دیر سے میرا انتظار کررہے ہیں ‘‘۔ اس نے کیف کی پیٹھ کو ذرا سا تھپک کر کہا اور پھر لاؤنج سے جاتے جاتے رکا۔
’’تم چاہو تو ہمیں جوائن کرسکتے ہو‘‘۔ چہرے پر فریبی مسکراہٹ سے آفر دے کر وہ چلاگیا تھا ۔
کیف کی دنیا گھومی تھی سر چکرانے لگا تھا اس کے اعصاب جواب دینے لگے تھے
آسٹریلیا کے خوبصورت اور بڑے شہروں میں سے ایک سڈنی میں وہ ایک ہفتے کے لیے آئے تھے ….اس سے پہلے وہ آسٹریلیا کے کوئین لینڈ سٹیٹ میں واقع ساحلی شہر گولڈ کوسٹ میں ایک ہفتے کے لیے رکے تھے ۔
اس ایک ہفتے میں گولڈ کوسٹ کے سینڈی بیچز اور تھیم پارکس نے انہیں اپنا دیوانہ بنا دیا تھا …..اور ڈریم ورلڈ تھیم پارک ان دونوں کاپسندیدہ تھیم پارک بنا تھا ۔
سڈنی اوپراہاوس میں سیر و تفریح کے بعد جانے سے پہلے وہ اپنی تصویریں کھنچوا رہی تھی اور عرش قریشی بھی بڑے اشتیاق سے اس کی ہنستی مسکراتی تصویریں اپنے کیمر ے میں اتار رہا تھا ۔
’’یہ پوز نہیں …یہ پہلے بھی ہر تصویر میں ہے ‘‘۔ اس نے اپنی نظروں کے سامنے سے کیمراہٹا کر کہا …وہ غالباً اسے چھیڑ رہا تھا ….اور وہ چھڑ بھی گئی تھی ۔
’’میں کوئی پوز ووز نہیں بنا رہی اوکے ….بس یادگار کے طور پر …بلکہ میں بنواتی ہی نہیں ‘‘۔ وہ ہمیشہ سے نک چڑھی تھی ….اسی طرح ناک چڑھا کر بولی تھی ۔
’’اچھا ..بابا ..تم پوز نہیں بناتی …مان لیا میں نے …..اب ایسے کرو یاد گار کے لیے وہ ذرا سامنے کھڑی ہو جاؤ‘‘۔
وہ بھی اس کے اشارہ کی ہوئی جگہ پر کھڑی ہو گئی تھی ۔
’’اب ذرا بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے چہرے پہ مسکراہٹ سجائے میری طرف دیکھو‘‘۔ وہ جیسے جیسے کہہ رہا تھا وہ بھی ساتھ ساتھ کرتی گئی مگر اس کے آخری فقرے نے اسے تپایا ۔
’’اور ہاں یہ کیمرے کے لیے بالکل بھی پوز نہیں ہے ‘‘۔ اس نے بڑی سنجیدگی سے اسے کچھ جتایا تھا۔
’’عرش…آپ بھی نا…کبھی نہیں سدھریں گے ‘‘۔ وہ مصنوعی خفگی سے اس کے بازو سے آ کر لپٹ گئی تھی ۔
عرش اس کے چہرے پر آئی کچھ لٹوں کو نرمی سے ہٹا رہا تھا ۔
’’کیف ‘‘۔ عرش نے بے ساختہ کہا۔
ماہم کو لگا اس کے جسم سے جان ہی نکل گئی ہو….شادی کے چار ماہ بعد وہ پہلی دفعہ یہ نام سن رہی تھی ….. اس کا اندر لرز چکا تھا ۔ ان کی شادی کو چار ماہ گزر چکے تھے اور وہ اپنی شادی کے بعد پہلی دفعہ کسی فارن ٹرپ پر آئے تھے ۔
وہ بے ساختہ اس کے بازو سے الگ ہوئی ۔
’’وہ کیف ہی ہے نا …تمہارا وہ عجیب سا خالہ زاد ‘‘۔ عرش نے سامنے ہی دیکھتے ہوئے کہا ۔
ماہم نے اس کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا تو سامنے کیف عالم کو دیکھ کر ٹھٹک گئی ۔
وہ واقعی کیف عالم تھا جو چند افراد کے ساتھ محو گفتگو تھا ۔
’’یہ دیکھو….اسے کہتے ہیں اتفاق ….سوچا بھی نہیں تھا کہ اتنی دور آ کر کسی اپنے سے یوں سامنا ہو جائے گا ‘‘۔ عرش نے پر جوش ہوتے ہوئے کہا ۔
’’اپنا؟؟؟….‘‘۔ بے اختیار ماہم کے منہ سے نکلا ۔
’’میں تمہارے میکے کو اپنا ہی سمجھتا ہوں بے وقوف لڑکی ….تمہارا رشتے دار ہے تو میرے لیے قابل احترام ہے …..تم سے جڑی ہر چیز میرے لیے قابل احترام ہے ‘‘۔ عرش نے مسکراتے ہوئے اسے بتایا ۔
’’کیوں ‘‘؟؟۔ اس کا سوال بے ساختہ تھا ۔
’’کیونکہ تم میرے لیے قابل احترام ہو….اب چلو اس سے جا کر ملتے ہیں یہ نہ ہو کہ وہ یہاں سے چلا جائے ‘‘۔ وہ اس کا ہاتھ تھامے کیف عالم کی جانب بڑھنے لگا جو اب بھی کسی سے محو گفتگو تھا ۔
’’رہنے دیں بس….چلیں یہاں سے …ویسے بھی ہم نے اب ہاربر پل جانا تھا ‘‘۔ اس نے بہانہ بنانا چاہ ……وہ مزید بھی کچھ کہہ ہی رہی تھی کہ کیف عالم کی نظر ان دونوں پر پڑ گئی ۔
بے یقینی ،تحیر اس کے چہرے سے عیاں ہوا…مگر جو نہیں دکھا …وہ تھا اس کا دل….جو اس وقت بند ہونے کو تھا ….اس کا روم ،روم سلگ اٹھا تھا…..۔
وہ عرش کو اس کی جانب بڑھتا دیکھ اپنے ساتھ موجود گوروں سے ایکسکیوز کرتا انہی کی طرف بڑھنے لگا تھا…..مگر وہ عرش کے لیے نہیں ماہم قریشی کے لیے بڑھ رہا تھا ۔
سلام دعا کے بعد اور کچھ رسمی حال احوال کے بعد عرش نے کیف سے سوال کیا ۔
’’تم یہاں سڈنی میں کیسے ؟؟‘‘۔
’’میں تو یہاں دو تین ماہ سے ہوں …جاب کر رہاہوں ….‘‘اب ایک نظر ماہم پر ڈالی ’’تم نے بتایا نہیں اپنے ہزبینڈ کو کہ میں سڈنی میں ہوں ‘‘۔
ماہم کا خون کھولا…..اسے بھی کہاں پتہ تھا کہ کیف عالم سڈنی میں ہے ….اگر پتہ ہوتا تو وہ سڈنی تو کیا آسٹریلیا بھی نہ آتی ۔
’’بلکہ ہاں تمہیں بھی کہاں پتہ ہو گا…تم تو شادی کے بعد غائب ہی ہو گئی ؟؟؟ ‘‘۔ وہ خود سے ہی کچھ جتاتا ہوا بول پڑا ۔
ماہم قریشی اندر ہی اندر سلگنے لگی ….اب عرش کو کہے بھی تو کیا ۔
’’آہ نائس ….ویسے تم نے پوچھا نہیں کہ ہم یہاں کیسے ؟؟؟..‘‘عرش نے حیرانی سے کہا۔
’’نیولی ویڈ کپلز تو کہیں بھی پہنچ جاتے ہیں ….اس میں پوچھنا کیسا‘‘؟؟۔ کیف عالم نے سنجیدگی سے جواب دیاتھا مگر نیولی ویڈ کپلز کہنے میں اس کا کتنا خون خشک ہوا تھا یہ تو بس وہی جانتا تھا ۔
’’ ویسے تم دونوں چاہو تو میں تم دونوں کو سڈنی کی بہترین لوکیشنز دکھا سکتا ہوں ‘‘۔کیف عالم نے اب اچھا میزبان بننا چاہ تھا…مگر صرف ماہم قریشی کے قریب رہنے کی خاطر ۔
عرش تو یقیناًہامی بھرنے والا تھا …بھلا اسے کیا اعتراض ہوتا کیف عالم کی کمپنی سے مگر ماہم یک دم ہی بول اٹھی تھی ۔
’’نو تھینکس…وہ کیا ہے نا نیولی ویڈ کپلز اکیلے ہی گھومتے پھرتے اچھے لگتے ہیں ….کسی تیسرے کی گنجائش نہیں ہوتی ‘‘۔
عرش اس کی اس روڈنیس پر حیران ہوا تھا…. اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا اس کے سیل پر فرحت کی کال آنے لگی تھی ۔
’’ایکسکیوز می …ماما کی کال آ رہی ہے ‘‘۔ وہ کہہ کر کال اٹینڈ کرتا ان سے دور چلتا گیا ۔
ماہم بھی اس کی تقلید میں بڑھنے لگی تھی ۔
’’روکو ماہم …مجھے کچھ کہنا ہے ‘‘۔
’’مگر مجھے کچھ نہیں سننا‘‘۔وہ رکے بغیر بڑھنے لگی تھی مگر کیف کے اگلے جملے نے اس کے قدم روک لیے تھے …..وہ کچھ پل کے لیے پتھرا گئی تھی ۔
’’شادی کر لو مجھ سے ….طلاق لے لو عرش سے ‘‘۔اس نے بڑ ی رسانیت سے کہا تھا جیسے یہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا ۔
’’کیا کہاتم نے ؟؟؟‘‘۔اس نے پہلی دفعہ کیف کو ’’آپ ‘‘ کے بجائے ’’تم ‘‘ کہہ کر مخاطب کیا تھا …..’’آپ ‘‘ سے ’’تم ‘‘ تک کا سفر خاصا طویل تھا ۔
’’ہاں ماہم …طلاق لے لو…میں یہاں سیٹل ہو گیا ہوں ….ہم یہاں بہت خوش رہیں گے ….‘‘۔تو وہ اسے اب خوشیوں کا لالچ دے رہا تھا ۔
’’بکواس بند کرو کیف عالم ‘‘۔وہ ابل پڑی تھی ….چہرہ سرخ ہو چکا تھا ۔
’’میں نے تمہیں اتنی مشکلوں سے پا کر اپنی کم عقلی سے گنوا دیاماہی …..میں چچا کی اصلیت جان گیاہوں …سار قصور ان کا تھا ….ان کی عجیب و غریب باتیں ہی شاید میرا دماغ خراب کر دیتی تھیں ….‘‘۔اس نے کچھ قریب ہو کر کہا تھا …ماہم نے اسے غصیلی نظروں سے گھورا اور جتنا وہ قریب آیا تھا اس سے دوگنا پیچھے کو ہوتے ہوئے کہا ۔
’نہیں کیف عالم….میرا اپنا سکہ کھوٹا تھا ‘‘۔
’’میں اب کبھی تمہیں تنگ نہیں کروں گا….کبھی کوئی جھگڑا نہیں کروں گا….تمہیں یہاں لے آؤں گا …یہاں تم اپنی مرضی سے زندگی گزارنا ..میں ایک لفظ بھی نہیں کہوں گا‘‘۔ مزید لالچ دیا گیا تھا ۔
’’مگر میں ابھی بھی اپنی مرضی سے ہی زندگی گزار رہی ہوں ‘‘۔ وہ کبھی بھی اس سے بحث میں نہ پڑتی …نہ ہی اس سے کوئی بات کرتی اگر کیف اسے دھڑلے سے پروپوز نہ کر دیتا ….وہ اب صرف حیرت کی وجہ سے رکی ہوئی تھی …..کیا کیف عالم اسے یہ سمجھتا ہے ؟؟؟ اسے گھن آنے لگی تھی …..وہ حقارت سے اسے دیکھ رہی تھی ۔
’’گزار رہی ہو گی …..مگرتم عرش سے محبت نہیں کرتی …میں یقین سے کہہ سکتا ہوں ….اور ایسے رشتے کا کیا فائد ہ جس میں محبت ہی نہ ہو‘‘۔ اس نے محبت کا ویک پوائنٹ پکڑا تھا ۔
’’جس طرح ہم عورتوں کے لیے محبت سے زیادہ عزت اہمیت رکھتی ہے …..اسی ہی طرح مردوں کے لیے محبت سے زیادہ وفاداری اہمیت رکھتی ہے ….محبت بھلے نہ سہی مگر میں عرش کو وفاداری تو دے ہی سکتی ہوں ‘‘۔وہ اب سینے پر بازو لپیٹے اسے حقارت سے دیکھ رہی تھی ….اس نے یہ سوچ بھی کیسے لیا کہ وہ عرش کو دھوکا دے گی ….وہ اس کی یہ غلط فہمی بلکہ خوش فہمی ابھی دور کر ہی دے گی ۔
’’دیکھو ماہم….ایک آخری بار مجھے معاف کر دو….میں نے آج تک تمہیں جو جو بھی کہا….اس سب کے لیے مجھے معاف کر دو….میں وعدہ کرتا ہوں …بلکہ قسم کھاتا ہوں کہ آج کے بعد کبھی تمہیں چیپ نہیں کہوں گا …..میں اب تمہاری بہت عزت کرتا ہوں …..اور ہمیشہ تمہاری دل سے عزت کروں گا…..واپس آ جاؤ ماہم ….واپس آ جاؤ میری زندگی میں ‘‘۔ اب لہجہ التجائیہ تھا ۔
ماہم تلخ سا مسکرائی ۔
’’تم کل بھی میری عزت نہیں کرتے تھے کیف عالم …….تم آج بھی میری عزت نہیں کرتے…..اگر کرتے تو کبھی مجھ سے یہ امید نہ لگاتے کہ میں عرش کو دھوکا دے کر تمہارے پاس آ جاؤ ں گی ….تم کل بھی مجھے چیپ سمجھتے تھے …تم آج بھی مجھے چیپ ہی سمجھتے ہو…کل تمہیں لگتا تھا کہ میں تمہیں چھوڑ کر کسی کے ساتھ بھی سیٹ ہو جاؤں گی ….اور آج تمہیں لگتا ہے کہ عرش کو چھوڑ کر تمہارے ساتھ ………‘‘۔کہتے کہتے اس کا گلا رندھا…..اسے اپنی توہین محسوس ہوئی تھی …..کیا وہ اتنی گئی گزری تھی کہ ….؟؟؟ اس شخص نے ہمیشہ اس کی توہین کی تھی اور آج بھی اس نے وہی کیا تھا ۔
’’بٹ تھینکس….ایک دفعہ پھر مجھے یقین دہانی کروانے کے لیے کہ میرا فیصلہ درست تھا ‘‘۔ اس نے آنسوووں کو بند لگاتے ہوئے کہا تھا ….وہ شخص اس کا کچھ نہیں تھا کہ جس کی خاطر یا جس کی بات کی اتنی اہمیت ہو کہ ماہم قریشی آنسو بہائے…..اس کے آنسو کتنے قیمتی ہیں اس کا احساس بھی تو اسے عرش قریشی نے ہی کروایا تھا …..وہ اپنے آنسو کبھی بھی ایسی جگہ خرچ نہیں کرے گی ۔
وہ اپنی بات کہہ کر رکی نہیں تھی …عرش جو کچھ فاصلے پر ہی تھا وہ اس کے پاس جا پہنچی تھی ۔
کیف عالم اسے بس جا تا دیکھتا رہا تھا ۔
ماہم نے عرش کے قریب جا کر اس کا بازو تھام لیا تھا ۔
’’اچھا ما ما پھر بات ہو گی …بائے ‘‘۔ عرش نے ماہم کے پاس آنے پر مسکرا کر کال ڈسکنیٹ کر دی تھی ۔
’’وہ کیف …‘‘۔ عرش نے کچھ کہنا چاہ۔
’’ششش…صرف آپ اور میں ….ہم سات سمندر پار اکیلے وقت بتانے آئے ہیں‘‘۔ اس نے عرش کے کان میں سرگوشی کی ۔
عرش اس کی بات پر مسکرا دیا تھا۔
کیف عالم وہیں اپنی جگہ ساکت ماہم قریشی کو عرش قریشی کے شانے پر سر رکھے جاتا ہوا دیکھ رہا تھا کہ آنکھوں میں آئی نمی سے منظر دھندلانے لگا تھا ۔
(تم آج بھی میری عزت نہیں کرتے…..اگر کرتے تو کبھی بھی مجھ سے یہ امید نہ لگاتے کہ میں عرش کو دھوکا دے کر تمہارے پاس آ جاؤ ں گی) اس کے الفاظ کی گہرائی کیف عالم کے دل میں اترتی چلی گئی تھی ۔
’’تمہارا فیصلہ درست ہے ماہم قریشی ‘‘۔ اس نے نم آنکھوں سے مسکراتے ہوئے کہا تھا
ختم شد
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...