میں آپ سے سخت ناراض هوں بس مجھ سے بات نہ کریں آپ”
ماہین منہ پهلا کر بولی
“نہ سلام نہ دعا سیدها ناراضی پتہ تو چلے آخر ناراضی ہے کس بات پر”
دوسری طرف وہ سخت حیران تها
“آپ بجو کی میرا مطلب آپ میری بہن کی انگجمنٹ پر کیوں نہیں آۓ ہاں”
ماہین اس وقت اپنے اکیڈمی ٹیچر اور بهائیوں جیسے بهائی ولید شاہ سے فون پر شکوہ کرنے میں مصروف تهی
“میں اس لئے نہیں آیا تها کیونکہ تم نے مجهے بلایا ہی نہیں تها”
وہ مزے لیتے ہوۓ بولا اور ماہین پر گهڑوں پانی پڑ گیا اچانک تیاریوں میں وہ اسے بلانا بالکل ہی بهول گئی تهی
“تو کیا ہوا نہیں بلایا تو آپ خود آ جاتے جائیں بس میں نے نہیں بولنا آپکے ساتھ”
اپنے نام کی وہ بهی ایک ہی تهی
“ارے ایسے کیسے آجاتا پرائی شادی میں عبداللہ دیوانہ بالکل پاگل ہو تم”
“ایک منٹ ایک منٹ پہلی بات تو یہ کہ وہ شادی نہیں بلکہ انگجمنٹ تهی اور دوسری بات آپ عبداللہ نہیں ہو تیسری بات آپ دیوانے بهی نہیں ہو اور چوتهی بات میں بالکل بهی پاگل نہیں ہوں اوکے”
آخری بات اس نے منہ سوجا کر بولی تو دوسری طرف وہ ہنس پڑا
“ہر پاگل یہی کہتا ہے کہ وہ پاگل نہیں ہے”
اسے چهیڑتے ہوۓ بولا
“بهائی”
بهائی کو لمبا کرکے بولتے ہوۓ وہ رونے
والی ہوگئی
“اچها بابا ایم سوری شادی پر ضرور آؤں گا پرامس بس خوش”
وہ اسے نارمل کرتے ہوۓ بولا
“اپنا پرامس یاد رکھئیے گا آپ”
“ہاں پاں یاد رہے گا ڈونٹ وری”
وہ اسے مطمئن کرتے ہوۓ بولا
“ویسے شادی ہے کب”
“پندرہ دن بعد”
“اوکے اور کالج کی پڑهائی کیسی جارہی ہے تمهاری”
“پڑهائی صحیح جارہی ہے۔۔۔آپ کی اکیڈمی کیسی چل رہی ہے”
آرام سے صوفے پر بیٹهتے هوۓ بولی
“پتہ نہیں… میں نے اکیڈمی پڑهانا چهوڑ دیا”
اطمینان سے بولا دوسری طرف ماہین اچهل پڑی
“مگر کیوں”
حیرت سے بولی
“بس بابا کے بزنس کو صحیح سے ٹائم نہیں دے پا رہا تها اس لئے”
اس نے اطلاع دی
“ماہی کی بچی ہر وقت موبائل سے چپکی رہتی ہو جونک کی طرح اٹهو مما کی بات سنو کب سے بلا رہی ہیں تمهیں”
اس سے پہلے ماہین کچھ بولتی مریم کو چنگهاڑتی ہوئی آواز ولید شاہ کے کانوں میں رس گهول گئی
یہ آواز وہ کڑوڑں میں پہچان سکتا تها
“آرہی ہوں آپی”
واپس جاتی مریم کو بول کر وہ پهر سے موبائل کیطرف متوجہ ہوگئی
“اچها بهائی پهر بات کروگی ابهی مما بلا رہی ہیں”
فون بند کرنے والی تهی کہ اسکی آواز پر رک گئی
“سنو ایک بات”
“جی؟؟؟”
“تمهاری یہ بہن ہر وقت ہی غصے میں رہتی ہے کیا؟”
سوالیہ انداز میں
پوچها تو ماہین ہنس دی
“کچهه ایسا ہی سمجھ لیں آدم بیزار ہیں مریم آپی ویسے آپکو کیسے پتہ یہ ہر وقت غصے میں رہتی ہیں پہلے مل چکے ہیں کیا آپ”
ماہین نے حیرت سے پوچها
“نہیں بس ویسے اندازہ لگایا تها”
جلدی سے بولا
“اوکے اچها آپ اپنا پرامس یاد رکهنا پهر بات ہو گی اوکے بهائی خداحافظ”
“اللہ حافظ”
فون بند کرکے مسکرا دیا
“مریم”
مسکراتے ہوۓ اسے سوچے گیا
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
مسز وقار کے گهر میں بهی خوب زور و شور سے تیاریاں جاری تهیں
سونیا اپنی ساس مسز وقار کے ساتھ تقریباًً ہر روز ہی مارکیٹ کا چکر لگا رہی تهیں آج حسنین گهر جلدی آگیا تها سونیا اسے بهی ساتھ لے جانے کے درپے ہوگئی
“مگر بهابهی میں کیا کروں گا وہاں جاکر ویسے بهی آپ عورتوں کی شاپنگ ہے میرا کیا کام وہاں ”
وہ صوفے پر بیٹها شوز اتارتے ہوۓ بولا
“آپکی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ ہم آپکی دلہن کے لئے ہی خوار ہونے جا رہے ہیں اٹهو اور چینج کرکے آؤ”
“مگر بهابهی”
کچھ کہنے کے لئے منہ کهولا ہی تها کہ مسز وقار بول اٹهیں
“اٹھ جاؤ حسنین بیٹا پهر منہ دکهائی کا گفٹ بهی پسند کرلینا تهوڑا سا ٹائم رہ گیا ہے بہت سے کام پڑے ہیں اٹهو میرا بچہ شاباش”
مسز وقار پیار سے بولیں تو وہ بهی سعادت مند بیٹے کیطرح چینج کرنے کی غرض سے اپنے روم کیطرف چل پڑا
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
پورا شاہ ہاؤس روشنیوں میں ڈوبا ہوا تها آج ماہم کی مہندی کی رسم تهی سب خوش تهے
“ایاز تو ادهر کیا کر رہا ہے چل سب تجهے باہر بلا رہے ہیں”
وقار نے ایک قدرے تاریک گوشے میں کهڑے ایاز شاہ کو دیکھ کر کہا
“ہاں تو چل میں آ رہا ہوں”
وہ بولے تو آواز آنسوؤں کی وجہ سے بهاری ہوگئی تبهی وقار صاحب نے چونک کر انکی طرف دیکها
“ایاز…. کیا ہوگیا تو رو رہا ہے”
انهوں نے ایاز شاہ کو کندهوں سے پکڑکر چہرہ اپنی طرف کیا جو آنسوؤں سے تر تها
“کیا بات ہے بتا مجهے”
وقار صاحب نے پریشان لہجے میں کہا تو وہ بے اختیار انکے گلے لگ گئے
” میری ماہم بس دو دن کی مہمان ہے یہاں بس یہی سوچ کر دل بهر گیا تها چل چلتے ہیں”
ایاز شاہ نے الگ ہوکر اپنے آنسو صاف کرتے ہوۓ کہا
“رک…. ماہم جیسے تیری بیٹی هے جتنی تجهے پیاری ہے اتنی ہی مجهے عزیز ہے تو کیوں فکر کرتا ہے”
انہوں نے رسان بهرے لہجے میں کہا تو ایاز شاہ نے سر ہلا دیا
“چل اب وہاں سب انتظار کر رہے ہیں”
انہوں نے کہا تو وہ بهی ساتھ چل دئیے
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
بالآخر شادی کا دن بهی آگیا ماهم کو مریم اور ڈرائیور کے ساتھ پارلر بهجوا دیا تها
“بیوٹیشن کو کہنا جلدی سے بس تمهیں تیار کرے ایک گهنٹے میں اس سے زیادہ ٹائم لگایا نا تو میں نے تمهیں چهوڑ کر پیدل ہی چلے جانا ہے”
مریم نے ماہم کو وارن کرتے ہوۓ کہا
“آج میری شادی ہے آج تو مجهے بیوٹی فل دکهنے کا حق دے دے میری ماں”
ماہم نے اسکے آگے ہاتھ جوڑے
“تو پہلے ہی بہت بیوٹی فل ہے اس سے زیادہ ہوئی تو تیرے بیچارے شوہر نے بے ہوش ہوجانا هے”
مریم نے اسکے چہرے کو دیکھ کر کہا جہاں قوس قزح کے رنگ بکهرے پڑے تهے
“بس اتنی بهی تعریف مت کر اور تو بهی وہاں ہلکا میک اپ کرواۓ گی مما نے کہا تها تو نو احتجاج”
ماہم کی بات پر اسکا موڈ جی بهر کے خراب ہوا تها
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
حسنین اسٹیج پر بیٹها ہوا تها جبکہ ماہین مریم سونیا وغیرہ آس پاس کهڑی باتیں کر رہیں تهیں
“حسنین بهائی آپ میری بہن کو روز ملوانے لائیے گا یہاں”
مریم نے کہا تو وہ ہنس پڑا
“ارے کیوٹی پہلے لے جانے تو دو تب ہی تو لاؤگا ملوانے”
“سونیا آپی دیکھ لیں آپ اپنے بهائی کی آپ گواہ رہنا انہوں نے کہہ دیا ہے یہ لائیں گے روز”
ماہین نے بهی اپنا حصہ ڈالا
“ارے مگر میں نے روز لانے کا کب کہا؟”
وہ حیران تها
“ابهی ابهی کہا آپ کو یاد نہیں ہمیں یاد ہے کہا نا ابهی سونیا آپی”
مریم نے سونیا کے ہاتهوں پر دباؤ ڈالتے ہوۓ کہا تو اس نے بهی ہنستے ہوۓ ہاں میں سر ہلا دیا
“بهابی دس از ناٹ فیئر آپ میری ٹیم میں تهیں”
اس نے احتجاج کیا
“بهئی جہاں پاور وہاں میں”
“تم لوگوں نے بهابی فکسنگ کی ہے ظالموں اللہ پوچهے گا”
حسنین نے نقلی آنسو صاف کرتے ہوۓ کہا تو سب ہنس پڑے
“مریم ،ماہین جاؤ بیٹا بہن کو لے کر آؤ مولوی صاحب آ گئے ہیں”
فاطمہ بیگم نے قریب آ کر کہا تو وہ دونوں بهی اسٹیج سے اتر کر روم کی جانب چل دیں
کچھ ہی دیر بعد ماہم ،مریم اور ماہین کے ہمراہ ہر آنکھ میں ستائش لئے اور حسنین کی دهڑکنوں کو اتهل پتھل کرتی اسکے برابر آ کر اسٹیج پر بیٹھ گئی اور پهر خوشگوار ماحول میں نکاح کی مبارک رسم بهی ادا کر دی گئی نجانے کیا سوچ کر مریم کی آنکهیں نم ہوگئیں سب سے معذرت کر کے باہر آ کر لان میں رکهی چیئر پر سر جهکا کر بیٹھ گئی
“کیا ہوا آپ یہاں سردی میں کیوں آ گئیں”
جانی پہچانی مردانہ آواز اسکے کانوں سے ٹکرائی بے اختیار سر اٹها کر دیکها
“آج کیا چوری کرنے آۓ ہیں آپ… کهانا لگا ہوا ہے اندر جا کر کها لیں.”
سر جهکا کر بولی اس بات پر وہ ہنس پڑا
“آپکو میں اتنا غریب بندہ کیوں لگتا ہوں؟” ساتھ پڑی کرسی پر بیٹهتے ہوۓ بولا اس سے پہلے کہ وہ کوئی جواب دیتی سامنے سے سونیا آتی ہوئی دکهائی دیں
“ارے تم دونوں کیا کر رہے ہو یہاں اور تم اب آۓ ہو کہاں اتنی دیر لگا دی تهی”
سونیا نے اس سے پوچها جبکہ مریم مارے حیرت کے وہیں فریز ہوگئی
“چور کو اتنی عزت اففف خدایا”
“بهابی بس تهوڑا کام میں بزی تها پهر ٹریفک میں پهنس گیا اس لئے آنے میں لیٹ ہو گیا”
مریم کو ایک نظر دیکھ کر اس نے اپنی بات مکمل کی
“چلو کوئی بات نہیں اؤ سب سے ملواتی ہوں”
اسے لے کر اندر جانے لگی کہ مریم بول اٹهی
“سونیا آپی یہ کیسے اندر جا سکتے ہیں”
“ٹانگوں سے۔۔ اوہ سوری پہلے اس سے ملو یہ میری بہت پیاری بہن مریم اور مریم یہ میرے بهائیوں جیسا دیور ولید ہے”
سونیا نے دونوں کا تعارف کروایا ولید اسکے چہرے کے بدلتے رنگ دلچسپی سے دیکھ رہا تها
“اب چلو بهی اندر یہیں جمنے کا ارادہ ہے کیا”
“بهابی آپ چلیں ہم آتے ہیں”
ولید نے کہا تو وہ ان کو جلدی آنے کا کہہ کر مڑ گئیں
“آر یو اوکے”
اسکے چہرے کے آگے ہاتھ ہلا کر کہا تب چونک کر اسے دیکهنے لگی چہرہ سفید پڑگیا
“آپ کیسے انکے دیور میرا مطلب وہ تو حسنین بهائی ہیں”
الجهے ہوۓ لہجے میں کہا جبکہ وہ اسکے خوبصورت چہرے کو تکے گیا
ڈارک بلیو ڈریس بالوں کو کهولے ہلکے سے میک اپ میں پریشان تاثرات کے ساتھ اس پل ولید کو وہ لڑکی دل کے اندر اترتی محسوس ہوئی اسی پل اس نے ایک فصیلہ کر لیا
“جی وہ بهی میرے بهائی ہیں بڑے بهائی”
اطمینان سے بتایا اور مریم کی آنکهوں کے سامنے اپنا سابقہ رویہ گردش کر گیا
“اگر اس بلڈوزر نے پاپا کو سب بتا دیا تو… اففف”
یہی سوچ کر اسکی آنکهوں میں آنسو آگئے
“ارے ارے کیا ہوا رو کیوں رہی ہو”
آنسو دیکھ کر وہ جلدی سے بولا اور جیب سے رومال نکال کر اسے دیا
جبکہ وہ اسکا ہاتھ جهٹک کر بے دردی سے آنکهیں مسلتی اندر کی طرف بهاگی
“پگلی”
مسکراتے ہوۓ رومال جیب میں ڈال کر بولا
“کیا بات ہے برخوردار اکیلے اکیلے کس بات پر مسکرایا جا رہا ہے”
وقار صاحب نے اسکے کندهے پر ہاتھ رکهتے ہوۓ کہا
“نہیں بابا وہ بس یونہی”
جلدی سے بولا
“اچها چلو آؤ اندر سب انتظار کر رہے ہیں”
وقار صاحب نے کہا تو وہ بهی اسکے ساتھ اندر چل پڑا
جاری ہے۔۔۔
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...