“یار اتنی بھوک لگ رہی ہے پتا نہیں کب کھانا آئے گا اور اس محل کا سو کولڈ بوس کب کھانا بھجوائے گا میرے لیے”
وہ کمرے میں ٹہلتے ہوئے خود سے باتیں کرنے لگیں
ہمیشہ اسکو کھانا روم میں ہی ملتا تھا اور ٹائم پر ہی آجاتا تھا پر آج آدھا گھنٹہ ہو گیا تھا اور اس آدھے گھنٹے میں وہ اُسے ٣٠ بار گالیوں سے نواز چکی تھی
اتنے میں روم کا دروازہ نوک ہوا
“کم ان”
وہ بیزاری سے بولی
“بوس نے آپ کو نیچے کھانے کے لئے بلایا ہے اور اب ان کا حکم ہے کہ رات کا کھانا آپ ان کے ساتھ ہی کھائیں گی”
ملازمہ سر جھکاے بوس کا پیغام پہنچانے لگی
“بہت جلدی تمہارے بوس کو خیال نہیں آگیا اگر میں بھوک سے مر جاتی پھر کوئی احساس ہی نہیں ہے تمہارے بوس کو اور دوسری بات اس کے ساتھ کھانا کون سا مشکل کام ہے وہ بھی کر لیں گے”
ملازمہ کی بات سن کر پہلے تو وہ تھوڑا گھبرائی پھر ہمت کرکے بولی
وہ دوپٹہ سہی کرکے نہچے آئ تو وہ ٹیبل پر بیٹھا اس کا انتظار کر رہا تھا
اسے آتا دیکھ کر بوس ملازمہ کو کھانے کا اشارہ کرنے لگا
“بیٹھ جاؤ کوئ انویٹیشن نہیں آئے گا”
وہ اس کو مسلسل کھڑا دیکھ کر بولا
دل میں تو بہت کچھ سوچ کر آئی تھی کہ بہت سنائی گئی
کہ اٹھا کر لے آیا اور قدر ہی نہیں ہے کہ کوئ بھوکا بھی ہے
“بعد میں کہونگی ”
وہ کھانا اور اپنے پیٹ کی بھونک دیکھ کر اپنا ارادہ ملتوی کرنے لگی
“اب کھاو تمہیں تو سب سے زیادہ بھوک لگ رہی تھی”
وہ اس کو کسی سوچ میں گھم پا کر بولا
وہ اس کا ٹونٹ سن کر چپ ہو گئی اور کھانا کھانے لگی “اس کا جواب بعد میں دونگی پہلے تھوڑا ٹھوس لوں”
وہ پلیٹ پر جھک کر سوچنے لگی
“چلو شکر اسکی چونچ تو بند ہوئی ”
اسکی چپ دیکھ کر دھیرے سے مسکرا کر سوچنے لگا
“ہاں جی آب بتائے کیا کہ رہے تھے”
وہ کھانا کھا کر پلیٹ سائیڈ پر رکھتی ہوئی بولی
“ہاں تم کہہ رہے تھے کہ مجھے زیادہ بھوک لگ رہی ہے تو جناب انسان ہوں اور انسان کی ہی بچی ہوں میرے بقول انسان کو بھوک لگتی ہے تم پتا نہیں کس مٹی کے بنے ہو”
اس نے کچھ سوچنے کی اداکاری کرتے ہوئے کہا
“اچھا تو تمہارا کہنا ہے جس مٹی سے میں بنا ہوں اس مٹی والے انسان کو بھوک نہیں لگتی ”
وہ ٹیبل پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا
“ہوسکتا ہے اللہ نے بنایا اللہ عجیب مخلوق بھی بناتا ہے”
وہ بےخوف اسے جواب دینے لگی
“تم بہت بولتی ہوں کسی دن میں تمھیں اپنے شیروں کو دے دوں گا انہیں بھی پتہ چلے انسان کا گوشت کیسا ہوتا ہے”
اس کے بدلتے ہوئے زاویہ دیکھتے ہوے بولا
“کہ کیا مطلب ہے تمہارے پاس شیر بھی ہیں”
وہ ہکلاتے ہوئے بولی
“ہاجی عجیب مخلوق کے پاس تو سب کچھ ہوتا ہے”
وہ اس کے بات سے محفوظ ہو رہا تھا
“تم مجھے ایسے ڈرا نہیں سکتے میں ڈرنے والوں میں سے نہیں ہوں”
وہ ہمت کرکے بولی
“یہ تو مجھے پتا ہے میری شیرنی کسی سے نہیں ڈرتی تبھی تو تمہیں شیر کے پاس لے جا رہا ہوں”
وہ اسکے ڈرنے پر مزے لیتے ہویے بولا
“ہاں چلو”
وہ ہچکچاتے ہوئے بولی
“پہلے تم مجھ سے مل لو پھر شیر سے بھی ملوا دونگا”
وہ معنی خیز لہجے میں بولا
اسکا معصوم چہرہ ڈائریکٹ اسکے دل میں اتر رہا تھا
“تم سے کیوں ملوں تم کہیں کے پرائم منسٹر ہو”
وہ ہاتھ باندھ کر بولی
“تمہارا تو ہوں نا بیویوں کے لئے اس کے شوہر ہی سب کچھ ہوتے ہیں ”
وہ اسکے قریب آتے ہویے بولا
“تم نے اپنی شکل دیکھی ہے شوہر کہلانے کے لائق بھی نہیں ہو”
وہ اسکو قریب آتا دیکھ جو منہ میں آیا بول دیا
“یہ جو تمہاری قینچی کی طرح زبان چلتی ہے نا اسے بند کرنے میں ایک سیکنڈ نہیں لگے گا کوئی اور میرے سامنے اتنا بولے نہ دو منٹ نہیں لگے گے اسکی لاش ٹھکانے لگانے میں اتنی ہمت دی ہے تو سر پر چڑھوگی؟؟ جاؤ اپنے کمرے میں”
وہ اسکو سڑیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سنجیدگی سے بولا
“ایسے کہ رہا ہے جیسے میں اسکی نوکر ہوں
نہیں ڈرتی میں اس سے ”
وہ نم انکھوں سے بڑبڑا کر سڑیاں چڑھنے لگی
اس کی بڑبڑاہٹ کی اتنی تیز تھی کہ وہ باخوبی سن سکتا تھا
وہ اسکی انکھوں کی نمی اور بڑبڑاہٹ سن کر شریر سا مسکرایا جسکی وجہ سے اسکے چہرے پر گہرا ڈمپل نمودار ہوا
******
“تم لوگوں کو گھر نہیں جانا”
عنایہ لائبریری کہ ٹیبل پر بکس رکھتی ہوئی بولی
“ہم ساتھ ہی جائیں گے یار”
آبش ٹیبل کی کرسی کھسکاتے ہوئے بولی
“نہیں تم لوگ چلے جاؤ مجھے تھوڑا کام ہے یار میرے نوٹس رہتے ہیں یار”
عنایہ بکس کھول کر دیکھتے ہوئے بولی
“تو ہمارے لے لے”
اس بار سارہ نے کہا
“نہیں تم جانتے ہو مجھے اپنا کام خود کرنے کی عادت ہے اسلیے تم لوگ جاؤ میں بھی بس تھوڑی دیر میں نکل رہی ہوں”
عنایہ ہاتھوں میں پنسل لے کر بکس میں مارک کرتی ہوئی بولی
“یار میرا دل نہیں مان رہا تجھے اکیلا چھوڑنے کو پتہ نہیں بس گھبراہٹ ہورہی ہے”
آبش کنفیوز لہجے میں بولی
“کچھ نہیں ہوتا میں بس تھوڑی دیر میں گھر پہنچ جاؤ نگی”
عنایہ بکس میں منہ دیے کہ رہی تھی
“ہم یہاں بھیٹے ہیں تو تجھے کیا مسلا ہے”
آبش تنگ آکر بولی
“اصل میں تم لوگ یہاں رہوگے تو مجھ سے پڑھا نہیں جائیگا تم لوگ سامنے بیٹھے ہو اور میں چپ کر کے پڑھوں یہ ہو نہیں سکتا نہ”
عنایہ معصوم سی شکل بنا کر بولی
“اچھا سہی ہے تم پڑھ لو ہم جارہے ہیں لیکن گھر جا کر میسج ضرور کرنا”
آبش اسے تنبیہ کرنا نہ بھولی
“ہاں بابا کردونگی اور حکم آپکا”
عنایہ لب دبائے کہنے لگی
ایک دن چھٹی کی وجہ سے اسکے نوٹس ادھورے رہ گئے تھے اسلیے وہ لائبریری میں بیٹھ کر پڑھ رہی تھی اور اپنی دوستوں کو بھی جانے کا کہ دیا تھا کیوں کے اتنا کام نہیں تھا پر اسے پڑھتے پڑھتے ٹائم کا پتہ ہی نہیں چلا گھڑی دیکھی تو شام کے چار بج گئے تھے
“اتنی لیٹ کیسے ہوگئی میں”
عنایہ بکس سمیٹتی ہوئی بولی
“گھر بھی پہنچنا ہے”
عنایہ جلدی جلدی قدم بڑھاتے ہوئے یونی سے باہر نِکلنے لگی اسکا گھر دور تھا اسلیے وہ خود ڈرائیو کرکے جاتی تھی اور گاڑی دهور کھڑی کرنے کی وجہ سے علاقہ تھوڑا سنسان تھا وہ گاڑی کے پاس پہنچ کر جیسے ہی ریموٹ سے گاڑی کھولنے لگی پیچھے سے ایک بندہ آکر اسکے منہ پر ہاتھ رکھنے لگا
عنایہ بار بار ہاتھ پاؤں ہلانے لگی لیکن اس جاندار کو کوئی فرق نہیں پر رہا تھا اور وہ اسے گھسیٹتے ہوئے گاڑی کے پاس لانے لگا
جب اسے ہوا کہ اسکے ہاتھ پیر سے کوئی فرق نہیں پڑ رہا تو اسنے اسکے ہاتھ پر بائٹ کیا
“آہ آہ”
عنایہ نے اتنی زور سے بائٹ کیا کہ وہ کرہ کر رہ گیا
“کون ہو تم لوگ چھوڑو مجھے کہاں لے کر جارہے ہو”
جیسے ہی اسکے منہ سے ہاتھ ہٹا وہ چلا کر بولی
کہ ایک دم سے پیچھے سے آکر کسی نے اسکے منہ پر رومال رکھا اور وہ وہی ہوش سے بیگانہ ہوگئی
“چلو اب”
وہ عنایہ کو گود میں اٹھاتے ہئے بولا
“بےبی تمھارے اندر تو پوری گنڈو والی روح ہے”
ابیان اسکو گاڑی کے بیک ساتھ پر بیٹھا کر خود اسکا سر اپنی گود میں رکھتے ہوے مدھم سا مسکرا کر بولا
“لیٹس گو”
ابیان آنکھوں پر گوگل لگا کر ڈرائیور کو بولا
“کہاں جانا ہے بوس”
ڈرائیور نے بوس سے پوچا
“میرے محل میں”
ابیان اسکا عنایہ کا چہرہ دیکھتے ہویے بولا
*****
“تم مجھے آزاد کیوں نہیں کر دیتے”
عنایہ کھڑکی میں برستی بارش کو دیکھ کر بولی
وہ جو دروازے سے اندر آرہا تھا اسکی بات سن کر دھیرے سے مسکرایا اور دروازہ بند کیا
“کیوں کہ میں اپنی جان کسی کو نہیں دے سکتا”
ابیان اسکے قریب آتے ہوئے بولا
“میں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے جو تم میرے پیچھے پڑ گئے ہو مجھے پلیز جانے دو”
عنایہ اسکے سامنے روتی ہوئی ہاتھ جوڑتی ہوئی بولی
وہ آج اپنی فیملی کو بہت یاد کر رہی تھی کتنا ٹائم ہوگیا تھا وہ کسی سے نہیں ملی تھی سب لوگ اسے کتنا یاد کر رہے ہونگے یہی سوچ سوچ کر اسے رونا آرہا تھا
“رونا بند کرو تم نہیں جانتی تمہارے رونے سے مجھے کتنی تکلیف ہوتی ہے”
آبیان ایک ہاتھ سے اسکے جوڑے ہوئے ہاتھ پکڑ کر اور دوسرے ہاتھ سے اسکے آنسو صاف کرتے ہوئے بولا
“محبت کرنے والے دوسروں کو تکلیف نہیں دیتے”
عنایہ اسکا ہاتھ جھٹکتی ہوئی بولی
“تم مجھے اپنا بنا کر تو دیکھو تمہاری ساری تکلیفیں دهور کردونگا”
ابیان اسکا چہرہ دونو ہاتھوں میں لے کر بولا
میں کسی دوسرے کو اپنے دکھ نہیں بتاتی اور سب سے بری مصیبت ہی تم ہو”
عنایہ اپنا چہرہ دوسری سائیڈ کرتے ہویے بولی اور آخری بات وہ دل میں بولی
“تم کوئی دوسری نہیں ہو اور بات رہی تکلیف کی تو میں یہاں تمہیں بھاند کر نہیں رکھتا اور نہ ہی کھانا پینا بند کر رکھا ہے تمہارا”
آبیان اسے بیڈ پر بھیٹاتے ہوئے بولا
“تم بس گھر چھوڑدو”
عنایہ اسکی نرمی دیکھ کر اپنی ضد پر قائم رہی
” تم کیوں نہیں سمجھتی تمہاری ہر چیز کی فکر مجھے ہوتی ہے تم میری اولین محبت ہو تمہیں نہیں دیکھتا تو سکون نہیں آتا”
آبیان اسے بیڈ پر لیٹا کر دوسری سائیڈ بیڈ پر بھیٹ کر اسکے اوپر کومفورٹر ڈال کر اسکے بالوں میں آہستہ آہستہ اپنی انگلیاں چلانے لگا
“تم کیا چاہتے ہو مجھ سے”
عنایہ اسکی انگلیاں بالوں میں محسوس کرکے سکون بھرا سانس خارج کرتے ہوئے بولی
“تمہیں”
آبیان کہ کر دھیرے سے مسکرایا
“مجھے نہیں ہونا تمہارا”
عنایہ ہنوز آنکھے بند کرکے بولی
“تھوری سی ہوجاؤ”
آبیان نے دھیرے سے کہا جیسے التجا کر رہا ہو
وہ سب کو تو اپنے اوپر چلا سکتا تھا لیکن اسکی سننا اسکی مانے میں الگ ہی خوشی ملتی تھی
“تھوڑی سی ہونے پر تم مجھے چھوڑ دوگے”
عنایہ اسکی طرف دیکھ کر بولی
“بہت ہوجاؤ پھر دیکھتے ہیں”
اسکی چھوڑنے والی بات پر وہ ضبط کرکے رہ گیا پھر خود کو نارمل رکھ کر کہا کیوں کہ بہت ٹائم بعد وہ اس طرح اس سے بات کر رہی تھی
“سچی”
عنایہ خوشی سے بولی
“بہت ہونے کے بعد میں تو تمہیں نہیں جانے دونگا”
آبیان آنکھوں میں شرارت لیے بولا
تم ہر سائیڈ سے خود ہی کیھلتے ہو یہ کوئی بات نہیں ہوتی”
عنایہ غصے سے اٹھ کر بیٹھی
“ہمارے بےبی کے بعد چلی جانا”
آبیان اسکے کان میں سرغوشی کرکے روم سے باہر چلا گیا
“بے شرم”
وہ بھی پیچھے سے لال ہوتے منہ کہ ساتھ مسکرادی
کس کو پتہ تھا محبت کس کا دروازہ کھٹکاتی ہے
_____________
“یار کہاں رہ گئی”
سلمان گارڈن پر بیٹھتا ہوا بولا
“کون کہاں رہ گئی کس کا انتظار ہو رہا ہے”
سلمان کے ایک دوست نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر مذاقیہ پوچھا
” تم لوگ کب آئے”
سلمان اپنے دوستوں کو دیکھتے ہوئے بولا
“بس ابھی ابھی جب تم کسی کے خیالوں میں کھوئی ہوئے تھے”
سلمان کا دوست شرارتی لہجے میں بولا
“نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے”
سلیمان سر جھکائے کہنے لگا
“ارے توں تو شرما رہا ہم تیری بیوی تھوڑی ہیں”
اس کا دوست ایک دوسرے کو تالی مارتے ہوئے بولا
“میں کب شرما رہا ہوں بس بتا رہا تھا اب تم لوگوں کے ذہن ایسے ہے تو میں کیا کہ سکتا ہو”
سلمان ایک آنکھ دباتے ہویے بولا
“ہم تو ہیں ہی بے غیرت تو ہی دودھ کا دھلا ہے اب جلدی پھوٹ کس کا انتظار کر رہا ہے”
اسکا دوست جل کر بولا
“اس کا”
سلمان سامنے اشارہ کرتے ہوئے بولا جہاں سے سارہ اپنے دوستوں کے ساتھ اپنے ڈیپارٹمنٹ سے باہر نکل رہی تھی
ہاتھوں میں بک تھامے نیوی بلیو کلر کی کڑتی جس میں ہلکی ہلکی ایمبرائیڈری کی ہوئی تھی ساتھ وائٹ ٹراوزر وائٹ ہی کلر کا دوپٹہ گلے میں ڈالے چل رہی تھی جبکہ ٹیل پونی کمر تک جھول رہی تھی
“اوئے تو نے لڑکی بھی پٹا لی”
اسکا دوست حسن کو مسلسل سارہ کو دیکھتے ہوئے بولا
جب سے اس کو خواب میں دیکھا تھا تب سے اس کا دل اس کو دیکھنے کے لئے بھٹک رہا تھا جب کہ اسے بے حد شرمندگی ہورہی تھی کہ میں اس طرح فیملی فنکشن میں آکر کسی لڑکی کو دیکھ رہا ہو اس لیے وہ خود کو جھرک رہا تھا لیکن پھر بھی وہ لڑکی اسکے ذہن پر حاوی ہورہی تھی
“پتا نہیں یار بس اسے دیکھتا ہوں تو سب بھول جاتا ہوں بس دکھتا ہے تو دعا صرف اس کا چہرہ….لگتی تو بہت معصوم سی ہے لیکن جب لڑنے پر آتی ہے تو پوری جنگلی بلی ہوجاتی ہے پہلے تو میں اس کو بھولنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن جب اسے یونی میں دیکھا تو دل کی خواہش جاگنے لگی میں اس سے محبت تو کرنے لگا ہوں لیکن عزت کے ساتھ میں اسے اپنا محرم بنانا چاہتا ہوں میرا تو دل ہے ڈائریکٹ میں اس کے گھر رشتہ لے کر بیجوں لیکن میں پہلے اسکی مرضی جاننا چاہتا ہوں”
“اوہو یہ تو پورا مجنو ہی بن گیا ہے”
اسکا دوست اسکی خوشی میں خوش ہوتے ہویے بولا
“تو کب بھیج رہا ہے اسکے گھر رشتہ”
“جب یہ مان جائے تب ہی بیجھ دونگا”
اس کا بھی یہی ماننا تھا لڑکی جتنی بھی پردے میں رہے یا خود کو بھلا ڈھانپ کر رکھے ان کو کسی بھی صورت میں دیکھنے کا حکم نہیں ہے جیسے عورت کو اپنی نگاہوں کو نیچی رکھنے کا کا حکم ہے ویسے ہی مردوں کو بھی ہے اور اللّه تو ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے اسکی نظر میں کچھ بھی چھپا ہوا نہیں ہے ہمارے ہر عمل کی خبر ہے اور پھر تو ہر انسان کو اپنی قبر میں جانا ہے نا کے دوسرے کی اگر ایسا ہوتا تو کوئی بھی کسی دوسرے کی قبر میں نہیں جاتا اللّه نے سب کا نظام بہتر رکھا ہے
ہم یہ کہ کر نہیں بچ جائیں گے کہ وہ لڑکی بے پردہ تھی تو میری نظر اٹھ گئی نہیں ہر ایک کو جواب دہ ہونا ہے
اسی لیے وہ اسے محرم بنانا چاہتا تھا اسکی مرضی سے
“چل بھائی تو اپنی سوچوں میں رہ اور وہ چلی گئی”
حسن اسکی بات سن کر اپنی سوچوں سے باہر نکل کر ادھر ادھر دیکھنے لگا پر وہ سچ میں جا چکی تھی
“ہاں بھائی تو سوچنے میں ہی پورا ہوگیا ہے”
اسکا دوست اسے دیکھتے ہویے بولا
“چل کوئی کل نہیں آئیگی تو بات کرلیو”
وہ اسکو اداس دیکھتا ہوا بولا
“چلو باہر چلتے ہیں گھوم کر آتے ہیں ”
حسن کا دوست سب کو اٹھاتا ہوا بولا
“چلو”
*****