مسئلہ یہ درپیش تھا کہ شہنشاہ معظم شیر بہادر کے حکم سے تادیبی تعزیر کے نفاذ پر اب بندروں کا لائحۂ عمل کیا ہو۔ انتظامی حکم کی توجیہات میں بندروں کو شریر، گستاخ اور شر پسند ہونے کا الزام دیا گیا تھا۔ اس سے بھی بڑھ کر بندروں کے جانور ہونے پر بھی شکوک و شبہات ظاہر کیے گئے تھے اور انہیں کسی مختلف مخلوق کے مماثل تک قرار دے دیا گیا تھا۔ بندروں کو ایک خاص مدت تک جنگل کا بڑا حصہ خالی کر دینے کی واضح ہدایت دے دی گئی اور عدم تعمیل پر ان کی نسل کو نیست و نابود کر دینے کا اذن تھا۔ معاملہ انتہائی سنجیدہ تھا اس لیے مہا بندر کی سربراہی میں پورا قبیلہ بڑے درخت کے نیچے اور اُ وپر جلسہ برپا کیے بیٹھا تھا۔ سب اس غلام زندگی سے بیزار تھے اور استبدادی نظام کے جبر سے گلو خلاصی کے متمنی۔
سبھی آزادی چاہتے تھے۔
خواہش رکھنا ایک الگ بات ہے اور تکمیل کی تدبیر اور وسائل کی بہم رسانی ایک الگ مسئلہ۔
جنگل بدر ہوں تو کیا ٹھکانہ ہو۔ کدھر چلے جائیں اور کیسے بسر ہو۔ سیر حاصل گفتگو ہونا تھی۔ ہر ہر پہلو زیر بحث آنا تھا۔ معاملات کے یہاں تک پہنچنے کی وجوہات کا پتا چلانا اور رموز مملکت نیز اسرار جہانبانی بھی موضوع تھے۔ گفتگو کئی گھنٹے سے جاری تھی اور بحث و تمحیص کئی موڑ مڑ چکی تھی۔ اس مرحلہ پر خاموشی کا ایک مختصر وقفہ آیا لیکن جلد ہی ختم ہو گیا۔
مہا بندر نے سادہ بندروں سے کہا،
“آزادی اور خود مختاری چند بنیادی عوامل کے بغیر محال ہے۔ ہمیں اپنی اہمیت بنانا ہو گی۔ ہمیں معتبر بننا ہو گا اور میری دانست میں اچھل کود ہی سے ہم معتبر ہوں گے۔ یہی جنگل کا وتیرہ ہے اور یہی جنگل کی زندگی کا چلن۔ شور شرابا ہی ہمیں شہرت اور اعتبار بخشے گا۔ یہ آزادی کے حصول کا واحد اور آزمودہ راستہ ہے۔ اسی سے سرداری ملے گی اور اسی سے اختیار۔
یہ بندر کانفرنس کوئی دو گھنٹے سے جاری تھی۔
درمیانے اور چھوٹے سائیز کے بندروں نے کان کھجائے۔ دانت نکالے۔ ایک دوسرے کی طرف مفکرانہ انداز سے دیکھا – آپس میں چخ چخ کی اور پھر ایک نے سب کی نمائندگی کرتے ہوئی سوال داغا:
“شیر تو اچھل کود کم ہی کرتا ہے۔ شیرنی کے مارے پر قبضہ جما کر بیٹھ جاتا ہے۔ شیرنی تک کو کھانے دے یا نہ کھانے دے۔ مرضی چلاتا ہے۔ بھاگ دوڑ تو شیرنی کرتی ہے۔ پھر شیر کیسے زبردست اور شیرنی کیسے زیر دست؟”
سب چھوٹے اوردرمیانہ سائیز کے بندر ستائشی نظروں سے سوالی بندر کی طرف دیکھنے لگے۔
مہا بندر نے گھور کر سب کو دیکھا۔ پھر سوال کرنے والے بندر کے سر پر دھپ جمائی اور بولا:
“ابے گھامڑ! شور شرابا تو شیر زیادہ کرتا ہے نا۔ جب اچھل کود اور شور شرابے کا مقابلہ ہو تو عین ممکن ہے کہ شور شرابا اچھل کود سے بھی زیادہ موثر ہتھیار بن جائے۔”
جب سے شیر نے بندروں کے سردار، گرو گھنٹال، مہا بندر کو اپنی پسندیدگی سے خارج کر دیا تھا بندر تشویش میں مبتلا تھے۔ روز میٹنگز ہوتیں۔ مہا بندر عمر رسیدہ اور طبعاً سست ہونے کے باوجود ان سب میٹنگز کی صدارت خود کرتا تھا۔
“اچھل کود تو جنگل میں ہم سے بڑھ کر شاید ہی کوئی کرے۔ زمین ہو یا درخت، بلندی ہو یا پستی، ہم سے بڑھ کر اچھل کود کون کرے گا۔ اک پل نچلے نہیں بیٹھتے۔ دن بھر اودھم مچاتے ہیں۔ پھر بھی ہم کم معتبر کیوں قرار دیے جا رہے ہیں۔ ہم رعایا کے رعایا ہی رہے ہمیشہ۔
محکوم اور زیر دست”۔
ایک لال گلابی منہ والی نوجوان بندریا چیخ کر بولی۔ اسے بندروں کی میڈیا مینیجر کا عہدہ حاصل تھا اور وہ سارا دن کہنے سننے پر ہی مامور تھی۔
بڑے بندر کی پیشانی پر غور و فکر کی لکیریں گہری ہو گئیں۔ ذرا تامل کے بعد متین اور ٹھہرے ہوئے لہجے میں بولا:
“شیر کے شیر ہونے میں لومڑی کے کردار کو آپ لوگ یکسر نظر انداز نہیں کر سکتے۔ لومڑی کی عیارانہ خدمات شیر کو حاصل ہیں۔ سب لگائی بجھائی کی ذمہ داری اسی نے اٹھا رکھی ہے۔ اس کے ذمہ جنگل کے دوسرے باسیوں میں گروہ بندی کرانا، مغالطے پیدا کرنا اور ان میں انتشار پھیلائے رکھنا ہے۔ لومڑی اپنے لالچ میں سب کو انگلیوں پر نچاتی ہے۔ تنکا تنکا بکھیرے رکھتی ہے۔ یہ نفاق اور انتشار ہی شیر کا رعب اور دبدبہ قائم رکھنے میں مدد کرتے ہیں۔ اسی سے اس کی شاہی کو دوام ملتا ہے۔ اسی سے وہ زبردست رہتا ہے اور باقی زیر دست”۔
“لیکن شیر تو جنگلی جانوروں کے کمزور اور ناتواں حتی کہ نوزائدہ بچے تک مار ڈالتا ہے۔ ہرن، بھینس، بکری کچھ نہیں چھوڑتا۔ ہمیشہ اس تاڑ میں رہتا ہے کہ کوئی کمزور جانور قابو آ جائے تو چیر پھاڑ کر رکھ دے۔ گردن دبوچ کر بیٹھ جاتا ہے۔ منہ خون سے لتھیڑ کر نرم گوشت نوچ نوچ کر کھاتا ہے۔ کچھ کھا لیتا ہے باقی پر قبضہ جما لیتا ہے۔ بیماروں، بچوں اور بوڑھوں کو سب سے پہلے دبوچتا ہے۔ پھر بھی سردار ہے۔ حالانکہ نہ اصول پسند اور بہادر ہے نہ غیرت مند؟”
ایک نوخیز بندریا جس کے چہرے سے کنوار پن اور آنکھوں سے ذہانت ٹپکتی تھی اور جو اپنی صنف میں تیزی سے مقبولیت حاصل کرتی جا رہی تھی باریک آواز میں بولی۔
مہا بندر خاموش ہو گیا۔ اپنا سر کھجا کر نیچا کیا۔ پھر کچھ دیر بعد ماتھے کے بل گہرے کرتے ہوئے سر اٹھایا اور محسوس ہوا کہ کچھ کہنا چاہ رہا ہے۔ اس نے ابھی کچھ کہا نہیں تھا کہ ایک نوجوان بندر نے، جو نوجوان بندروں کے ایک بڑے گروہ کا نمائندہ تھا اپنی جوشیلی تقریر شروع کر دی۔
“مجھے تو سرے سے اس جنگل ہی کی سمجھ نہیں آ رہی۔ جس کا جو جی چاہتا ہے کرتا چلا جاتا ہے۔ شیر کہاں کا بادشاہ ہے؟ اگر بادشاہ ہے تو اس کا کس پر کنٹرول ہے؟ کس پر حکومت ہے۔ جس کا جو جی چاہے کرتا ہے۔ جس کا جس پر زور چلتا ہے چلاتا ہے۔ اگر شیر زیبرے، اور بھینسے کو مارتا ہے تو اس کا بادشاہ ہونا کیسے ثابت کہ شیر کو بھینسے سے مار کھاتے اور ذلت سہہ کر دم دبا کر بھاگتے ہم بارہا دیکھ چکے۔ زیبرے کی دولتی کھا کر شیر کو پسپا ہوتے بھی کئی بار دیکھا۔ بادشاہ ہونے کا دعوی تو وہ کرے جو ہر وقت اور ہر حالت میں سب پر بھاری ہو۔ کبھی دم دبا کر نہ بھاگے۔ چھپ چھپا کر اکیلے دوکیلے پر وار نہ کرے۔ چالاک بن کر بیمار، بوڑھے اور بچے ڈھونڈھ کر نہ مارے۔ بادشاہ میں کچھ منفرد شاہانہ صفات تو ہونی ہی چاہئیں نا جو اسے ممتاز کریں۔ قابل احترام بنائیں۔ معتبر ثابت کریں۔ محض مکاری، دھونس اور دھاندلی ہی سے تو کسی کا بادشاہ بن جانا معقول نہیں”۔
بڑے بندر کی برداشت جواب دے گئی۔ اسے یہ اچھی طرح محسوس ہو گیا کہ بندر طبقہ میں بے چینی اور تشویش پھیل چکی ہے۔ حالات معمول سے ہٹ رہے ہیں اور خاص طور پر نوعمر روشن خیال طبقہ عدم اطمینان کا شکار ہے۔ اس نے حالات کی نزاکت کے پیش نظر اپنا غصہ قابو میں رکھا اور مدبرانہ ٹھہراؤ کے ساتھ بولا:
“میرے عزیزو ! میں آپ لوگوں کی زیادہ تر باتوں سے اتفاق کرتا ہوں۔ مانا کہ جابر بوڑھے شیر کی نامعقول اور غیر منصفانہ بادشاہی سے گلو خلاصی بہت ضروری ہے۔ تسلیم کہ آزادی بہت بڑی نعمت ہے اور ہمارا حق ہے۔ لیکن ساتھیو! رہنا تو جنگل ہی میں ہے نا۔ جنگل میں رہیں تو یہاں بوڑھے، لالچی اور مکار بادشاہ کی بادشاہی مضبوطی سے قائم ہے۔ شیر اپنی ساری خوبیوں اور خامیوں سمیت اپنے کاسہ لیسوں کی بدولت تخت شاہی پر متمکن ہے۔ ہر سو اس کے جبر کا سکہ رائج ہے۔ ہم جائیں تو کہاں جائیں”؟
گہری خاموشی سے اترتی اداس شام نے ماحول کو سوگوار بنا دیا۔ صورت حال کی سنگینی نے سب کی زبانیں بند کر دیں۔ ایسے میں سب چخیانہ بھول گئے۔
ایک لمبی خاموشی کے بعد ایک نو عمر بندر نے خاموشی توڑی اور بندریا کی سی باریک نسوانی آواز میں بولا:
“محترم ساتھیو! کیوں نہ ہم قریبی انسانی آبادی میں جا بسیں۔ بس دو چھوٹی پہاڑیوں کو پار کریں تو جنگل ذرا چھدرا ہو گا اور انسانوں کی آبادی شروع ہو جائے گی۔ وہ ہم سے بہتر مخلوق ہیں۔ آزادی سے رہتے ہیں۔ یقیناً ہماری آزادی کا بھی احترام کریں گے۔ ان کی انسانیت کی بدولت ہمیں بھی آزادی اور خود مختاری کا پھل چکھنے کو مل جائے گا”۔
اُدھر چند کوس پرے انسانوں کے جنگل میں اسمبلی کا اجلاس جاری تھا۔ بوڑھا اور سست مہا انسان اپنے حواریوں کے ساتھ پوری مکاری، مہارت اور چابکدستی سے اپنے دور حکومت میں دور ریگستانوں، گہرے کھڈوں، تاریک کیچڑ گھروں اور جنگل بستیوں میں آباد اپنی آزادی سے بے خبر آزاد انسانوں کی بہبود کے لیے کیے گئے اقدامات گنوا رہا تھا۔ میڈیا مینیجر اپنے قیمتی لباس کو سنبھالتی سنہری نوٹ بک میں نوٹس لیتی جا رہی تھی۔
وہ جانتی تھی کہ عیاری، مکاری، بندر بانٹ، اچھل کود اور شور شرابا ہی اشرافیہ کو معتبر و مقتدر بنا سکتے ہیں۔۔۔۔ جمہوری بادشاہت قائم رکھ سکتے ہیں۔
کہانی ابھی بہت طویل ہے!!
٭٭٭