(Last Updated On: )
ہائے۔۔ وہ گھر آتے ہوئے بھی ابھی تک کراہ رہی تھی۔۔ فائق اور آہان اسے ہاسپٹل سے گھر چھوڑنے آئے تھے اور آہان اس اٹھانے کو بڑھا ہی تھا کہ وہ پھر سے دہائیاں دینے لگی اسکی دہائیوں پہ اپنی امڈ آنے والی مسکراہٹ کو اس نے بمشک روکا اور گھر کی جانب بڑھا۔۔
تھینک یو سو مچ آپ کا آہان بھائی۔۔ لیکن اب ہم آگے چلیں جائین گئے۔۔ کیوں حور۔۔ مشعل کو پتہ تھا کہ اماں نے اگر ایسے دیکھ لیا تو شاید غصہ کرے اسے وہ وہی سے آہان اور فائق کو چلتا کر دینا چاہتی تھی پر ہائے رے حور کی زبان۔۔ فورا کی اس کی بات کاٹ کر بولی۔۔
کیوں کیا مطلب۔۔ اب مجھ نہیں چلا جا رہا تو ان کا فرض ہے کہ مجھے گھر کے اندر تک چھوڑ کر آئے۔۔ آخر اماں کو بھی اس مجرم کا پتہ چلے نا جس نے انکی بیٹی کا گٹنا توڑا ہے۔۔
ابھی مشعل اسکی بات پہ کچھ اور کہتی آہان بول پڑا۔۔
مشعل اٹس اوکے میں لے چلتا ہوں۔۔ اسے آنکھوں سے خاموش ہونے کا اشارہ کر کے وہ اندر کی جانب بڑھا۔۔ ہاسپٹل میں دونوں کی تھوڑی بہت بات چیت ہوئی تھی اور جب بھی آہان نے اسے بلایا تھا شروع میں اسے بہنا ضرور کہا تھا نہ صرف لفظوں میں بلکہ لہجے میں بھی اس کے لیے بہت عقیدت لگی تھی۔۔
اسی لیے تو وہ بھی اسے بھائی کے عہدے پہ فائز کر چکی تھی۔۔ لیکن حور کا اس سے کیا کلیش تھا یہ بات مشعل سمجھنے سے قاصر تھی۔۔
دروازہ حسب توقع اماں نے ہی کھولا تھا اور سامنے ہی حور کو کسی لڑکے کی بازوؤں میں دیکھ کر ماتھے پہ بل پڑے تھے مگر ساتھ ہی انکی نظر گٹنے سے پاؤں تک پٹی بندھی دیکھی تو لہجے میں فورا ہی فکرمندی در آئی۔۔
ارے یہ کیا ہوا۔۔ انہیں راستہ دیتی وہ فورا پیچھے ہوئی۔۔
آہان حور کو پکڑے آگے بڑھا جبکہ فائق نے ڈیٹیل بتانی شروع کر دی کہ کیسے ٹکر لگی اور اسکے بعد جو کچھ بھی ہوا۔۔ ساتھ میں معذرت بھی کر ڈالی۔۔
اماں کو دونوں لڑکے شکل سے اچھے لگے تھے ورنہ آج کل کے زمانے میں کون اتنا کرتا ہے اور پھر اس بات کی گواہ مشعل بھی تو تھی۔۔ حور کو بیڈ پہ بیٹھا کر انہوں نے وہی قریب دونوں کو صوفے پہ بٹھایا۔۔
بچوں کیا لو گے۔۔ اسی دوران ماہا بھی وہی آ گئی تھی اور حور کا حال چال پوچھ رہی تھی۔۔
نہیں ن۔۔ آہان کی بات ابھی منہ میں تھی جب حور صدمے سے بولی۔۔
اماں ان کی وجہ سے مجھے اتنی زور سے چوٹ لگی ڈاکتر اتنا بڑا انجیکشن لگایا مجھے۔۔ آپ سوائے ان کی درگت بنانے کے ان کو بٹھا کر کچھ کھانے پینے کو پوچھ رہی ہیں۔۔ حور کو تو وہ لمحہ نہیںبھول رہا تھا جب ڈاکٹر نے پین کلر کے نام پہ اسے اتنا بڑا انجکشن لگا دیا اور یہ مشعل بھی ان دونوں کے ساتھ مل کر بجائے ڈاکٹر کو روکنے کے اس کو روتا دیکھ رہے تھے۔ ۔
حور میرا بچہ انہوں نے تمہیں ڈاکٹر سے چیک بھی تو کروایا ہے اور وہ کہہ تو رہے ہیں کہ ان سے سب غلطی سے ہوا۔۔ پھر چھوڑدو بات کو۔۔ ساجدہ بیگم اسے پیار سے سمجھاتی ہوئی بولی۔۔
واہ۔۔ مجھ سے توغلطی سے واس بھی ٹوٹجائے تو اتنا ڈانٹتی ہیں۔۔ انہوں نے تو میرا گٹنا توڑ دیا اور آپ انہیں کچھ نہیں کہہ رہی۔۔ یعنی یہ کرے تو ٹھیک ہم کرے تو ہاہ ہائے۔۔ حور کا دکھ کسی طور کم نہیں ہو رہا تھا
وہ جو سوچے بیٹھی تھی کہ جب اماں کو پتہ چلے گا تو وہ انکی درگت بنائے گی اور تب اس کے کلیجے میں ٹھنڈک پڑے گی جو کہ تب سے نہیں پڑ رہی تھی وہ سب بے سود نکلا اماں تو انکے واری صدقے ہو رہی تھی اور یہی بات حور کوجلا کر راکھ کر رہی تھی۔۔
اس سے پہلے کہ اماں اسے مہمانوں کا لحاظ کیے بغیر اسے سناتی آہان اور فائق خود ہی بول پڑے۔۔
آنٹی اب ہم چلتے ہیں۔۔ کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔۔ انشاءاللہ کل ہم دونوں پھر آئیں گے۔۔ دونوں ہی ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔۔
چلو بیٹا جیسے تم لوگوں کی مرضی لیکن کل کچھ کھائے پیئے بغیر جانے نہیں دوں گی۔۔ اماں نے ان دونوں کے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔۔
ارے آنٹی بیٹا بھی کہتی ہے اور تکلف بھی کرتی ہے۔۔ اگلی بار بھی کوئی تکلف نہیں۔۔ آہان دروازے سے نکلتےہوئے انہیں کہہ رہا تھا اور وہ آگے سے اسے مزید بھی کچھ کہہ رہی تھی پر حور سن نہیں پائے کیونکہ وہ دروازے سے پار جا چکےتھے۔۔
فراڈیا۔۔ دروازے کی منہ کر کے اس نے بری سی شکل بنا کر کہا پھر سامنے دیکھا تو ماہا اور مشعل دونوں خون خوار نظروں سے اسے گھور رہی تھی۔۔
کیا ہوا۔۔ پتہ تو تھا اسے پھر بھی اس نے کہاں غلطی ماننی تھی۔۔
کیا ضرورت تھی اتنی بک بک کرنے کی۔۔ اس بار تو ماہا کو بھی غصہ تھا وہ ان کے گھر مہمان تھے لیکن حور نے انہیں مہمان رہنے نہیں دیا تھا۔۔
بلکل۔۔ اور آپی آپ کو پتہ ہے اس نے وہاں کیا کیا ہے۔۔ مشعل نے بھی تائید کی تھی ماہا کی اور اب اسے ہاسپٹل میں ہونے والا قصہ سنانے لگی۔۔
ڈاکٹر آئے انہوں نے اسے چیک کیا اورچکہنے لگے ہڈی کو نقصان نہیں ہوا صرف سوزش ہے۔۔ وہی اس نے ضد پکڑ لی انہیں کہتی اپ ڈاکٹر ہے ایکس رے تو نہیں نا۔۔ پہلے ایکس رے کرے۔۔ پھر پتہ چلے گا کہ کیا ہوا۔۔ بڑی بحث کے بعد اس نے ایکس رے کروایا اور اس میں نکلا کچھ بھی نہیں۔۔ مشعل ماہا کو اس کا کارنامہ بتا رہی تھی اور ماہا تاسف سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔
حور باز آ جاؤ۔۔ اسے نظروں سے تنبہیہ کرتی وہ باہر چلی گئی تھی۔۔
چلو بھئی میں بھی اب چلتی ہوں۔۔ بہت ٹائم ہو گیا ہے۔۔ مشعل بھی اپنا بیگ اٹھاتے ہوئے بولی۔۔
ہاں تم نے اپنا کام جو کر دیا ہے چغل خور۔۔ دفعہ ہو جاؤ اب۔۔ حور اسے خونخوار نظروں سے گھور رہی تھی ابھی چل نہیں پا رہی تھی ورنہ دھکے دے کر اسکو خود نکالتی۔۔
جا رہی ہوں میں خود ہی۔۔ مشعل بھی کہتے ساتھ ہیدروازے سے باہر نکل گئی تھی جبکہ حور بند دروازے کو گھور رہی تھی۔۔
@@@
اففف۔۔ آج کافی تھکا دینے والا دن تھا۔۔ وہ۔ دونوں گھر آئے تھے جب آہان نےکچن کی جانب بڑھتے ہوئے کہا۔۔
تیرے لیے تو نہیں ہونا چاہیے آج تو نے اپنی محبوبہ کو سارا دن اپنے زورِ بازو پہ اٹھایا ہے۔۔ فائق اسے چھیڑ رہا تھا۔۔
بیٹا تو بھی اتنا معصوم۔ نہیں جانتا ہوں جیسے تو مشعل کو دیکھ رہا تھا۔۔ چائے کا پانی رکھتے اس نے اس کا پتہ اسی پہ پھینکا۔۔
اوئے تیرے نظریں اپنے تک نہیں رہتی۔۔ صوفے پہ بیٹھے پیچھے گردن کرتے اس نے اس مائیکرو آنکھیں رکھنے والے کو دیکھا۔۔
تیری رہتی ہیں۔۔ اور ویسے بھی جیسے تیری نظریں پھسل رہی تھی مجھے تو لگتا ہے یہ بات مشعل نے بھی نوٹ کی ہے۔۔ اسے چھیڑتا وہ اب دودھ ڈال رہا تھا جبکہ فائق سیدھا ہو گیا۔۔
ہاں یار۔۔ میری نظریں ہی نہیں میرا تو دل ہی پھسل گیا ہے۔۔ آنکھیں بند کیے وہ نرم مزاج سی مشعل کو سوچ رہا تھا جو اسے چاروں شانے چت کر گئی تھی۔۔
بیٹا تو تو گیا۔۔ ہنستے ہوئے آہان نے چائے کپوں میں ڈالی جبکہ فائق ابھی تک مشعل کے خیالوں میں ہی گم تھا۔۔
@@@
اسلام علیکم آنٹی۔۔ ڈور بیل کی آواز پہ انہوں نے دروازہ کھولا ہی تھا جب سامنے ہی آہان استادہ کھڑا تھا۔۔ انہیں سلام کرتا وہ اگے کو پیار لینے کے لیے جھکا۔۔
وعلیکم اسلام۔۔ آؤ بیٹا۔۔ اسے پیار دیتی وہ آگے کی طرف بڑھی جبکہ وہ ان کے پیچھے تھا۔۔ حور کو چوٹ لگنے کے دو تین بعد تک وہ ریگولرلی آتا رہا تھا۔۔ لیکن کچھ مصروفیت کی بنا پر وہ دو دن نہیں آ سکا تھا اور آج ان کے سامنے حاضر تھا۔۔ اماں اور اسکی اچھا خاصی فرینکنس ہو چکی تھی
پہلے بتاؤ کیا لو گئے۔۔ پچھلی بار بھی صرف چائے پی کر چلے گئے تھے۔۔
کچھ نہیں آنٹی ۔۔ ابھی اس کی بات منہ میں ہی تھی جب اماں نے اسے ٹوک دیا۔۔
ارے ایسے کیسے نہیں۔۔ میں ابھی تنہارے لیے مزے دار سی چائے بنواتی ہوں۔۔ حور۔۔ اسے کہہ کر انہوں نے ساتھ ہی حور کو آوازیں دینا شروع کر دی اور وہ جو رسالہ پڑھنے میں مگن تھی اماں کی آواز پہ بادل ناخواستہ ہی اٹھی۔۔
جی اماں۔۔ ڈرائنگ روم کے دہانے پہ آ کر پوچھا۔۔ اور سامنے آہان کو بیتھے دیکھ کر اس کا حلق تک کڑوا ہو گیا۔۔
جاؤ بچے دو کپ جائے بنا کر لائے۔۔
ارے رہنے دے نا انٹی۔۔ تکلف کی کیا ضرورت ہے۔۔ آہان جو بات کرنے آیا تھا اس کے لیے وہ چاہتا تھا کہ وہ تنہا رہے۔۔
ارے ایسے کیسے رہنے دوں۔۔ جاؤ بیٹا بنا کر لاؤ۔۔ وہ حور کو حکم صادر کرتی بولی۔۔
اب جب وہ کہہ رہے ہیں کہ نہیں پینی انہیں چائے تو کیا زبردستی کرے گی۔۔ حور برا سا منہ بناتے بولی۔۔
حور۔۔ جاؤ چائے بنا کر لاؤ۔۔ اس بار آواز میں ہلکی تنبیہہ تھی۔۔
آپ کے کہنے پہ بنا لاتی ہوں۔۔ پر سوچ لیں یہ نہیں پیئے گئے تو پتی چینی دودھ کتنی چیزوں کا ضیاع ہو گا۔۔ اور آپ ہی کہتی ہیں رزق کا ضیاع اچھی چیز نہیں۔۔ وہ کہتے رکی نہیں تھی بھاگی تھی کیونکہ اماں نے بغیر آہان کا خیال کیے جوتا دے ماری تھی جو سیدھی دیوار پہ جا لگی تھی کہونکہ حور تو اپنی جان بچا کر بھاگ چکی تھی۔۔
بیٹا اس کی باتوں کا برا مت ماننا۔۔ تم سناؤ کیسے ہو۔۔ فائق کیسا ہے۔۔ اب انہیں بات کو کسی طرگمح تو ہینڈل کرنا تھا۔۔
سب ٹھیک ہے آنٹی۔۔ مجھے آپ سے دراصل کچھ بات کرنی تھی۔۔ آہان الفاظ کو ترتیب دیتا بولا۔۔۔
ہاں بولو بیٹا۔۔
آنٹی میں حور سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔۔ جانتا ہوں یہ بات میرے پیرنٹس کو کرنی چاہیے لیکن وہ حیات نہیں رہے۔۔ میرے پاس ایسا کوئی بڑا ہے بھی نہیں جو یہ بات کر سکے۔۔ اس لیے مجھے ہی بات کرنی پڑ رہی ہے۔۔ اور میں وعدہ کرتا ہوں میں ممکنہ کوشش کروں گا اس کو خوش رکھنے کی جتنی میری استطاعت ہے اس کے مطابق اس کی خواہشات پوری کروں گا۔۔ بات کے اختتام پہ وہ سیدھا ہوا۔۔ باقی اسکو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا وہ کیا بولے۔۔
اسی دوران حور چائے کی ٹرے لے کر آئی اور ٹیبل پہ پٹخبے سے انداز میں رکھی۔۔ لیکن اماں اتنی کھوئی تھی اپنی سوچوں میں آہان کی بات سن کر کے اسکے پٹخنے پہ غور ہی نہیں کر پائی۔۔
لیکن آہان نے غور کیا تھا۔۔ اماں کی چپ حور کا اس طرح پٹخنا۔۔ بےچارہ خوب پھنسا تھا۔۔
آنٹی آپ کو میری بات بری لگی۔۔ اپنے خشک لبوں پہ ہونٹ پھیرتا وہ سیدھا ہوا۔۔ حور اب جا چکی تھی۔۔
ہمم۔۔ اس کی بات پہ وہ چونکی۔۔
نہیں میرا بیٹا۔۔ میں تو سوچ رہی ہوں۔۔ کہ میں نے ایسی آخر کونسی نیکی کی تھی جو میری جھلی بیٹی کے نصیب میں تم آئے ہو۔۔ اس کے سر پہ پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے وہ مسکرائی۔۔ جبکی انکی مسکراہٹ دیکھ کر آہان کی سانس میں بھی سانس آیا۔۔
یہ خیال ہی کتنا خوش کن تھا کہ حور جو اسے اپنی دسترس سے اتنی دور لگتی تھی۔۔ اب کوں لگتا تھا جیسے ایک ہاتھ کے فاصلے پہ ہے۔۔ آج اسے لگا تھا کہ قسمت اس پہ واقعی بہت مہربان ہے۔۔
یہ یہاں کیا کر رہے ہیں۔۔ آج ماہا کی منگنی تھی حور کی وجہ سے وہ باقاعدہ بات تے نہیں کر پائے تھے۔۔ اس لیے انہوں نے ڈائریکٹ منگنی ہی کر لی تھی۔۔ فنکشن مارکی میں رکھا گیا تھا وہ اپنے دھیان سے سج دھج کر چل رہی تھی جب سامنے آہان کو دیکھ کر اس کے ماتھے پہ بل پڑ گئے۔۔ اس لیے تو پوچھنے ماہا کے پاس آئی تھی۔۔ جو راحب کے ساتھ بیٹھی تھی۔۔
اس کی آمد پہ وہ تھوڑی محتاط ہو گئی تھی۔۔ پتہ تو تھا کہ کچھ نہ کچھ عجیب ہی بولے گی اور راحب کا بھی دھیان نہیں کرنا اس نے۔۔
کون۔۔ وہ چونکی۔۔
یہ آپ کے آہان بھائی۔۔ میرے گٹنے کے مجرم۔۔ حور نے اسے جیسے یاد دلایا۔۔
حور کی بات پہ ماہا کو ہنسی تو بڑے زور کی ائی لیکن ضبط کر گئی۔۔
باز آ جاؤ حور۔۔ ماما نے اسپیشل انوائٹ کیا ہے انہیں۔۔ ماہا نے مصنوعی غصے سے اسے گھورا۔۔ جس پہ ول گہرا سانس لے کر سٹیج سے اتر آئی۔۔ اب وہ اتنی بھی بد لحاظ نہ تھی کہ راحب کا خیال نہ کرتی۔۔ اور کچھ بھی بول دیتی۔۔
یہ اہان کے بچے کو تو میں چھوڑوں گی نہیں دیکھنا اب۔۔ اس نے تو اب آہان سے واضح طور پہ بیر پال لیا تھا۔۔
وہ اسی کے بارے میں مسلسل پلیننگ کرتی آگے بڑھ رہی تھی کہ سامنے سے آتے آہان سے ٹکر ہو گئی۔۔
اففف انسان ہو یا آئرن مین۔۔ اتنا سخت تن۔۔ اپنے سر کو مسلتی آنکھیں میچے وہ سامنے والے کو سنا رہی تھی اب اسے کیا پتہ تھا کہ سامنے آہان ہے۔۔ پتہ بھی ہوتا تو اس نے کونسا چپ کر جانا تھا۔۔
آپ دیکھ کر نہیں آ رہی تھی پر خیر آپ کو ذیادہ لگی تو نہیں۔۔ حور کو بازوؤں سے تھامتا وہ نرم لہجے میں بولا۔۔
ہاں ہاں کہہ دے میری ہی غلطی ہے۔۔ پہلے آپکی کار کے آگے آ کر گٹنا تڑوایا اور اب اپنا سر۔۔ حور تو بھری پڑی تھی فورا چٹخ کر بولی۔۔
دیکھیں حور۔۔ میں نے آپکا گٹنا نہیں توڑا وہ سب اتفاق سے ہوا تھا اخر آپ کیوں نہیں سمجھ رہی۔۔ بار بار گھٹنے ٹوٹنے کی بات سن سن کر اب اسکے لہجے میں بھی تھوڑی سختی آ گئ تھی۔۔ آخر کو حور زچ کرنے کا ہنربھی تو خوب جانتی تھی۔۔
توڑا ہے یا نہیں توڑا۔۔ لیکن دوبارہ اپنی منحوس شکل لے کر میرے سامنے مت آئیے گا۔۔ اقر اماں سے بھی جس حد تک دور رہے بہتر ہے۔۔
اسے انگلی سے وارن کرتی وہ یہ جا وہ جا۔۔ جبکہ پیچھے آہان حیرت سے حور کو دیکھ رہا تھا پھر کچھ سوچ کر اماں کی طرف بڑھا۔۔
@@@
اماں مجھے آپ سے بات کرنی ہے۔۔ اماں کے کہنے پہ ہی انہیں اس نے ماں کہنا شروع کیا تھا۔۔
وہ جو کسی سے باتوں میں محو تھی۔۔ ایکسکیوزمی کہتی سائد پہ آئی۔۔
جی بیٹا کیا بات ہے۔۔ انہیں اچھنبا ہوا۔۔
مجھے حور سے آج اور ابھی منگنی کرنی ہے اور جانے سے پہلے نکاح۔۔ دو منٹ میں ہی اس نے سارا پلین ترتیب دے دیا تھا۔۔
لیکن اتنی جلدی کیا ہے۔۔
پلیز اماں سمجھیں۔۔ انکے ہاتھ پہ ہاتھ رکھتے وہ آنکھوں سے جیسے سمجھانا چاہ رہا تھا اور اماں سمجھ بھی گئی تھی شاید اس لیے تو مسکرا دی تھی۔۔
ٹھیک ہے آ جاؤ۔۔ اس کا ہاتھ پکڑ کر وہ اسٹیج کی جانب بڑھی۔۔ اور ماہا کے کان میں کچھ کہا۔۔ حور دور سے یہ سب دیکھ تو رہی تھی پر خاص اہمیت نہیں دی۔۔ بلکہ ماں کا چمچہ کہہ لر رخ موڑ گئی۔۔
ماہا تو اماں کی بات سن کر بے حد خوش ہوئی اور پھر ساتھ ہیمشعل کو آواز دے کر حور کو بھی بلوا لیا۔۔
سب کچھ جیسے لمحوں میں ہوا تھا حور کو تو کچھ پتہ نہ تھا جب اماں ہمسائی کو ملا کر ایک چھوٹی سے تقریر میں سب کو بتایا اور حور کے ہاتھ میں کیسے آہان کے نام کی انگوٹھی پہنا دہ وہ تو سب کی تالیوں سے بھی ہوش میں نہ آئی تھی۔۔
@@@
اماں آپ نے میرے ساتھ اچھا نہیں کیا۔۔ گھر آتے ہی وہ چیخی تھی۔۔
اچھا۔۔ تو تم ہی بتا دو برا کیا کیا ہے۔۔ اماں بھی آج اس سے اسٹریٹ فاروڈ بات کرنے کا ارادہ رکھتی تھی۔۔
کیا کیا ہے۔۔ آپ نے میری شادی اس سے کر دی جس کو جمعہ جمعہ آٹھ دن نہیں ہوئے ہمارے گھر آتے۔۔
پہلی بات کسی کو جاننے کے لیے ایک لمحہ ہی کافی ہوتا ہے اور میں تنہاری ماں ہوں ایک زمانہ دیکھا ہے میں نے اچھے اور برے کا فرق ہے مجھے۔۔
اور دوسری بات شادی نہیں صرف منگنی ہوئی ہے البتہ اگر تمہارا دل کر رہا تھا شادی کو تو بتا دیتی میں تبھی نکاح خواہ کو بلا لیتی۔۔ اماں نے بھی ٹھیک اسکی دکھتی رگ پہ ہاتھ رکھا تھا اور وہ مٹھیوں کو بھینچتی وہاں سے واک آؤٹ کر گئی تھی۔۔
@@@
دیکھا ہے اس کو ردا کتنی احسان فراموش نکلی ہے یہ۔۔ اندر ہی اندر منگنی کر لی اور ہمیں بتایا بھی نہیں۔۔ وہ دونوں آج یونی میں اس کے ارد گرد کھڑی اس کے لتے لینے کا مکمل ارادہ رکھتی تھی۔۔
مشعل پلیز مجھے اس بارے میں کوئی بھی بات نہین کرنی۔۔ رات سے ہی اسکا موڈ آف تھا۔۔
لو جی ایک تو چوری چھپے منگنی کروا لی۔۔ اوپر سے کہہ رہی ہے کہ بات نہیں کرنی تا کہ ٹریٹ نہ دینی پڑ جائے۔۔
لسن۔۔ مجھے کوئی شوق نہین ہے چھپ کر منگنی کروانے کا۔۔ اور جہاں تک بات ہے ٹریٹ کی تو کوئی ایسی خوشی کی بات نہین جس کے لیے میں ٹریٹیں بانٹتی پھروں۔۔ غصے سے اپنا بیگ اٹھاتی ول چلی گئی تھی کل رات سے ہی اسے اتنا غصہ آ رہا تھا کہ وہ اسکے نام سے منسوب کر دی گئ ہے وہ بھی اسکی مرضی کے بغیر۔۔ اور نہ وہ اس غصے کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔
@@@
کیسے حالات ہیں آپ کی دوست کے۔۔ مشعل اور فائق کی بات چیت پہلے ہاسپٹل پہ ہی شروع ہو گئی تھی پھر نمبرز کا ایکسچینج بھی فنکشن پہ ہو گیا۔۔ کیونکہ جب آگ دونوں طرف سے برابر لگی ہو تو کہاں انتظار ہوتا ہے۔۔
ابھی بھی وہ حور کے بارے مین پوچھ رہا تھا کیونکہ کل اس کا مزاج اسے لچھ ٹھیک نہ لگا تھا۔۔
کیسا ہونا ہے۔۔ بہت ہی غصے میں ہے۔۔ بلکل بھی کوئی بات نہیں سن رہی۔۔ بیڈ پہ دراز ہوتے ہوئے وہ بولی۔۔
ہممم۔۔ یعنی معاملہ ذیادہ گھمبیر ہے۔۔ وہ رکا۔۔
مجھے لگتا ہے اب جو کچھ بھی کرے گا آہان ہی کرے گا۔۔
توبہ کریں فائق۔۔ مجھے نہیں لگتا وہ کچھ کر سکیں گئے۔۔ کیونکہ آہان بھائی کے نام سے ہی اسے چڑ ہوتی ہے۔۔
اللہ پھر تو آہان کا اللہ ہی حافظ ہے۔۔ وہ ہلکا سا ہنسا۔۔
اچھا جی۔۔ ویسے اطلاع کے لیے عرض ہے کہ آپکا بھی اللہ ہی حافظ ہے۔۔ اب وہ اسے چڑا رہی تھی۔۔
کیوں۔۔ آپ بھی مجھے تگنی کا ناچ نچانے کا ارادہ رکھتی ہیں۔۔ اب کہ وہ بھی ہنسا۔۔
نہیں میں نے کیوں ارادہ رکھنا ہے آپ خود ہی ناچیں گئے۔۔ مشعل کی بات پہ فائق قہقہہ لگا کر ہنسا۔۔ جو بھی تھا اسے مشعل کی کمپنی مزا دیتی تھی۔۔
@@@
حور آ کر کھانا کھا لو۔۔ ماہا اسے آواز دیبے کمرے میں آئی۔۔ وہ جو کمرے میں بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھی۔۔ ایک نظر اٹھا کر اسے دیکھا۔۔
نہیں آپی مجھے بھوک نہیں۔۔ پھر دوبارہ سے نظریں ٹی وی کی سکرین پہ جما لی۔۔
تھوڑا سا تو کھا لو۔۔ اب کی بار اس نے بلکل بھی کوئی جواب نہیں دیا تھا۔۔ جبکہ ماہا تاسف سے سر ہلاتی نیچے آ گئی تھی۔۔ جب سے منگنی ہوئی تھی تب سے ایسا ہی ہو رہا تھا وہ کسی سے کوئی بات نہیں کر رہی تھی۔۔
ساری شرارتیں ختم کر دی تھی اور یہ اس کے ایکسٹریم غصے کا اظہار تھا۔۔
کیا ہوا۔۔ آئی نہیں وہ۔۔ اماں جو کھانے کے ٹیبل پہ دونو کا نتظار کر رہی تھی اکیلی ماہا کو آتے دیکھ کر چونکی۔۔
وہ کہہ رہی ہے اسے بھوک نہیں۔۔ کرسی گھسیٹتے ہوئے وہ بولی۔۔
کیا مطلب بھوک نہیں۔۔ دوپہر کا کھایا ہے اور وہ بھی کچھ خاص نہیں۔۔ انہیں بھی اچھنبا ہوا تھا۔۔
اماں۔۔ اپ کو نہیں لگتا ہم نے جلد بازی کی ہے۔۔ ڈش میں سالن ڈالتے وہ پریشان تھی۔۔
کیسی جلدبازی۔۔
یہی منگنی کی۔۔
میں نے بات کی ہے آہان سے۔۔ معاملے کہ سنگینی کو وہ بھی اچھے سے سمجھتا ہے اور اس کا خیال ہے کہ اسکی اس سے شادی کر دی جائے۔۔ اور میرے خیال سے یہ ٹھیک بھی ہے جتنا وہ دور رہے گی اتنا ہی بدگمان رہے گی۔۔ شادی ہو جائے گی تو اسے پتہ چل جائے گا کہ اس کی ماں اس کے بارے میں بہترین فیصلہ کر رہی ہے۔۔
وہ کھانا کھاتے ہوئے بے پرواہ سی بول رہی تھی جیسے انہیں حور کی ناراضگی کی کوئی پرواہ نہ ہو۔۔
لیکن اماں کیا وہ مان جائے گی۔۔ ماہا کو خدشہ لاحق ہوا۔۔
جب اسے عین نکاح کے دن بتاؤں گی تو ضرور مانے گی۔۔ کچھ سوچتے ہوئے وہ مسکرائیں۔۔ آخر وہ بھی تو حور کی ماں تھی۔۔