ماہ پارہ صفدر(لندن)
(ماہ پارہ صفدر کم و بیش ۱۵برس کے بعد پھر سے ادبی رسائل میں چھپنے لگی ہیں۔ان کی ادبی زندگی کے اس نئے دور میں ان کی غزلیں سب سے پہلے ’جدید ادب ‘
شائع کر رہا ہے۔ریحانہ احمد)
ساتھ ہے اسکا سُر کی دنیا ساتھی ہے آواز
ہم نے اپنی آنکھوں سے خود دیکھی ہے آواز
کاش تمہارے دل میں بھی اک ساتھ اُتر جاتی
میری سوچ کے دریا سے جو اٹھی ہے آواز
جنگل جنگل پھیل رہی ہوتی ہے اِک خوشبو
نرم ملائم جھیلوں میں جب أگتی ہے آواز
اس سے میرا رشتہ سب رشتوں سے بڑھ کر ہے
میں تو تھک کر سو جاتی ہوں جاگتی ہے آواز
یہ تو سچ ہے ماہ پارہؔمیں بول نہیں سکتی
لیکن میرا پیچھا کرتی رہتی ہے آواز
***
رنجشیں اتنی بڑھیں کہ قربتیں گُم ہو گئیں
چلتے چلتے راستے میں منزلیں گُم ہو گئیں
برف کی سِل کی طرح سے شَل ہوئے جیسے قدم
گونج باقی رہ گئی ا ور آ ہٹیں گُم ہو گئیں
اب جو وہ بچھڑا ہے تو دل کا عجب سا حال ہے
رُک رہی ہے سانس جیسے ساعتیں گُم ہو گئیں
اُس سے ملنا جس طرح اک خواب سا لگنے لگا
نفرتوں کے درمیاں سب چاہتیں گُم ہو گئیں
***
بے سبب بڑھنے لگی ہے بے رُخی
جان لے گی دیکھنا دل کی لگی
خود سے پوچھوں اپنے گھر کا راستہ
منزلیں لگنے لگی ہیں اجنبی
منزلوں کے درمیاں یہ فاصلے
بات جیسے رہ گئی ہو اَن کہی
تم تو اک پتھر ہو تم کو کیا پتہ
جلتے رہنے میں ہے کتنی چاشنی
خواب جو دیکھے تھے وہ سب کیا ہوئے
کیا ہوئی آنکھوں میں اُتری روشنی
ماہ پارہؔ پارہ پارہ ہے جگر
ٹوٹتی جاتی ہے ڈوری سانس کی
***
منزل پہ بھی پہنچ کے اندھیرا دکھائی دے
سالارِ کارواں بھی لٹیرا دکھائی دے
روشن تھا جو بدن میں مثالِ چراغِ شب
وہ آخری چراغ بھی بجھتا دکھائی دے
ظغیانیوں سے ٹوٹ سکا کب حصارِ جاں
کچے گھڑے میں زیست کا دریا دکھائی دے
اترے ہیں آ کے شہر میں یہ کون اجنبی
ہر اک چمکتی آنکھ میں چیتا دکھائی دے
جو بھی گیا وہ لوٹ کے آیا نہ پھر کبھی
دریا سے پار کوئی اترتا دکھائی دے
پہنے ہوئے ہے ہر کوئی شیشے کا پیراہن
مجھکو نہ کوئی آنکھ نہ چہرہ دکھائی دے
توڑا حصارِ قرب کو میں نے بہت مگر
ماہ پارہؔ مجھکو پھر بھی وہ اپنا دکھائی دے
***
بیتی رتوں کی آہٹیں اور چند تتلیاں
پتوں کی سرسراہٹیں اور چند تتلیاں
اونچی انا پرست فصیلوں میں قید ہیں
بے نام زرد خواہشیں اور چند تتلیاں
پلکوں پہ محوِ رقص ہیں اسکے خیال میں
اشکوں کی جھلملاہٹیں اور چند تتلیاں
کہنے کو بے ثمر تھا وہ موسم مگر مجھے
دے کر گیا ہے چاہتیں اور چند تتلیاں
پھر منجمد وجود کو پگھلا رہی ہیں آج
موسم کی سرد بارشیں اور چند تتلیاں
آ کر فصیلِ شہر سے باہر رکا ہے جو
لایا ہے کچھ شکایتیں اور چند تتلیاں
ماہ پارہؔ اسکی یاد میں باقی بچی ہیں اب
قربت کی چند ساعتیں اور چند تتلیاں
***