وجیہہ جیسے جیسے کہہ رہی تھی وھاج کو لگ رہا تھا کہ اس پر کوئی پہاڑ توڑ رہا ہے۔ اتنا سب کچھ ہو چکا تھا اور وہ بے خبر تھا۔
“کتنا غلط سمجھ بیٹھا تھا میں اس باک لڑکی کو۔” اسے خود پر غصہ آیا۔ اس میں وجیہہ کا سامنا کرنے کی ہمت نہ تھی۔ پھر جیسے وہ فیصلہ کرکے آگے بڑھ گیا تھا۔
“اسلام وعلیکم کیسا محسوس کررہی ہو
وجیہہ۔” اس نے اپنائیت سے مسکراتے ہوئے وجیہہ کو دیکھا۔
“وعلیکم اسلام! الحمداللہ بہتر ہوں۔” اس نے سلام کا جواب اس کی طرف دیکھتے ہوئے ہی دیا تھا مگر فورا ہی اپنے ہاتھوں کو دیکھنے لگی تھی۔
” کہاں تھے آپ وھاج بھائی اب آ رہے ہیں آپ۔” ساریہ نے شکایتی لہجے میں کہا۔ احد کی رات کو کال آئی اس وقت میں گہری نیند میں تھا سوچا صبح آ جاؤں گا۔ آج آنکھ بھی دیر سے کھلی۔ پھر یونی سے ایک کام تھا آپ سیدھا یہیں آیا ہوں۔” وھاج نے نہایت صفائی سے جھوٹ بولا۔
“جھوٹے آدمی! بس یہ تھوڑی دیر پہلے ہی گیا تھا وجیہہ کے ہوش میں آنے کے بعد۔” احد روم میں داخل ہوا اور اس کا بھانڈا پھوڑا۔ وجیہہ کو جیسے وھاج کی بات لاشعوری طور پر بری لگی تھی دراز پلکیں اٹھا کر وھاج کو دیکھا جو احد کو گھورنے میں مصروف تھا۔ اس کی نظر وجیہہ سے ملی تو وجیہہ نے فوراً نظریں موڑ لیں۔ اور ساریہ سے باتیں کرنے لگیں۔
“وہ تمہارا دوست نہیں آیا؟” احد نے سوال کیا۔ وجیہہ نے کندھے اچکا دیئے۔
“احد تم میرے ساتھ ڈاکٹر کے پاس چلو۔ مجھے بات کرنی ہے ڈاکٹر سے۔” ساریہ کو دراصل میں وجیہہ کے سلسلے میں بات کرنی تھی۔ وجیہہ ان دونوں کو فی الحال جانے سے روکنا چاہتی تھی مگر وھاج کے سامنے کچھ بول نہ سکی۔
” محترمہ میں تمہیں کھا نہیں جاؤں گا۔” احد اور ساریہ کے جانے کے بعد اس نے وجیہہ کے چہرے پر الجھن دیکھی تو مسکراہٹ چھپائے بولا۔ وجیہہ نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر ٹیک لگا کر آنکھیں موند لیں۔
“سو جاؤ تم ٹھیک سے۔” وھاج کہہ کر صوفے پر بیٹھ گیا۔ پوری رات اس نے جیسے کانٹوں پر گزار دی تھی پر ایسا کیوں تھا؟ اس کا وجیہہ سے کوئی رشتہ تو نہ تھا اور اب نہ جانے کیوں ساریہ اور وجیہہ کے درمیان ہونے والی گفتگو سے وہ پریشان سا ہو گیا تھا۔ اس نے وجیہہ کی طرف دیکھا جو آنکھیں موندے ہوئے تھی۔ دواؤں کے زیر اثر وہ دوبارہ فورا ہی سو گئی تھی۔ ساری رات وہ جاگتا رہا تھا۔ صوفے کی پشت سے ٹیک لگا کر وہ وجیہہ اور ساریہ کو اس مسئلے سے نکالنے کی تدبیر سوچنے لگا اور سوچتے سوچتے اسے بھی نیند آ گئی تھی۔
“دیکھو ذرا محنوں کو۔ دونوں یہیں سو گئے۔ مجنوں ہے کمینہ۔” ساریہ اور احد اندر آئے تو وہ دونوں سوتے پائے گئے۔ احد بولے بغیر نہ رہ سکا۔
“کبھی جو تم نے اچھے الفاظ استعمال کیے ہوں۔” ساریہ نے منہ بنایا پر احد کو کہاں اثر ہونے والا تھا۔
“وھاج بھائی وجیہہ کو پسند کرتے ہیں ناں؟” ساریہ نے ایک نظر اس پر ڈالی اور پھر وجیہہ کو دیکھنے لگی۔
“ہاں بہت زیادہ اور جانتی ہوں مزے کی بات کیا ہے؟” احد نے شرارت سے کہا۔
“کیا؟” ساریہ نے تجسس سے سوال کیا۔
“میرا پاگل دوست خود بھی نہیں جانتا کہ وہ اس مغرور لڑکی سے محبت کرتا ہے۔” احد کی بات پر ساریہ حیران ہوئی تھی۔
“میری دوست مغرور نہیں ہے۔” ساریہ نے خفگی سے کہا۔ وجیہہ تو دواؤں کے زیر اثر سو رہی تھی پر وھاج کھٹ پٹ سے اٹھ چکا تھا “وھاج بھائی آپ اور احد چلے جائیں میں وجیہہ کے پاس ہوں۔ احد صبح آجائیگا۔ ویسے بھی صبح چھٹی ہو جائے گی ساریہ کو احد اور وھاج بہت تھکے تھکے لگ رہے تھے وہ انہیں مزید تنگ نہیں کرنا چاہ رہی تھی۔
“نہیں میں تم دونوں کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتا۔ وھاج تم چلے جاؤ میں ساریہ کے ساتھ ہوں۔” احد نے فوراً ساریہ کی بات کی تردید کی۔
“لیکن تم تھک بھی تو گئے ہو ہمیں تو عادت ہے اکیلا رہنے کی۔” احد نے نفی میں سر ہلایا۔ وہ ساری بات جاننے کے بعد کسی صورت ان دونوں کو اکیلا نہیں چھوڑنا چاہتا تھا۔
“احد اور ساریہ تم دونوں جاؤ میں یہیں پر ہوں۔ رات کو میں نے ویسے بھی کام کرنا ہے آفس کا۔ احد تمہیں تو پتہ ہے یونیورسٹی اور آفس ساتھ لے کر چلتے ہوئے تھوڑا مسئلہ ہو جاتا ہے۔ پاپا پاکستان میں نہیں ہوتے اور ابھی بھی وہ گئے ہوئے ہیں اور میں اسلام آباد نہیں جا پایا۔ ابراہیم بھائی اکیلے سنبھال رہے ہیں آفس انہیں کچھ کام کر کے دینا اس لئے تم دونوں جاؤ اور میں وجیہہ کے ساتھ ہی رہوں گا بے فکر رہو ساریہ۔ اور میں صبح وجیہہ سے نکاح کرنا چاہتا ہوں میں نے ساری باتیں سن لی تھی تم دونوں کی۔ یہ بات وجیہہ کو مت بتانا کہ میں سب سن چکا ہوں۔ وہ لڑکا بہت خطرناک ہے میں بہت پہلے سے اس کی حرکتوں سے واقف ہوں جب ہم اس کو ہم ٹھکانے لگا لیں گے تب وجیہہ طلاق لے کر کسی اور سے اپنی مرضی کے مطابق شادی کرسکتی ہے۔” وھاج نے واضح بات تفصیل سے ساریہ کے سامنے رکھ دی تھی۔
“لیکن نکاح کی کیا ضرورت ہے آپ اور احد ویسے بھی ہماری مدد کر سکتے ہیں۔” ساریہ کو لگا وہ وجیہہ کو راضی نہیں کر پائے گی۔ اس لیے وہ خود بھی راضی نہیں ہونا چاہتی تھی اور تاویل کرنے لگیں لگی۔
“جاہل لڑکی نکاح کرکے وہ وجیہہ کے ساتھ رہ کر اسے protect کر سکتا ہے جو بغیر نکاح کے نہیں کیا جا سکتا۔” وھاج کے بجائے احد نے کہا ساریہ نے لمبی سانس اندر کھینچی۔
“لیکن وجیہہ کیوں مانے گی ہماری بات۔ اس نے مجھے منع کیا تھا کہ احد کے علاوہ یہ بات کسی اور کو نہ بتاؤں آب آپ کو خود پتہ چل گئی ہے مگر وجیہہ کو لگے گا جیسے میں نے بتائی ہے۔” ساریہ وھاج سے مخاطب تھی۔
“وجیہہ سے بات کرنا میرا مسئلہ ہے میں اسے جھوٹ کہہ دوں گا اور تم اسے الگ سمجھا دینا کہ تم چاہتی ہو کہ اس کے ساتھ کوئی مضبوط سہارا ہو اور احد تم جتنی جلدی ہو سکے گھر میں بات کرو اپنے اور ساریہ کے نکاح کی۔ عباس رضوی بہت خطرناک انسان ہے اس کے خلاف ہمیں پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوگا۔” وھاج نے ان دونوں کو ساری حکمت عملی سمجھائی اور اگلے دن مولوی اور کچھ گواہ لانے کا کہہ کر گھر بھیج دیا۔
وہ صوفے پر دراز وجیہہ کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ وجیہہ کی آنکھ وھاج کا موبائل بجنے سے کھلی تھی۔ وجیہہ نے وال کلاک پر نظر دوڑائی تو صبح کے چار بج رہے تھے۔
“احد اور ساریہ گئے؟ یہ کیوں یہاں رکھے ہیں ساریہ نہیں رک سکتی تھی۔” وجیہہ کو ساریہ پر شدید غصہ آیا۔
“تم کب اٹھیں؟” وجیہہ نے پانی کا گلاس رکھا تو اس کی آواز سے وھاج نے اسے دیکھا۔
” کیسا محسوس کر رہی ہو؟” وھاج نے ایک اور سوال کیا۔
” بہتر۔” اب کی بار وجیہہ نے جواب دے کر گویا وھاج پر احسان کر دیا تھا۔
” مجھے تم سے بہت ضروری بات کرنی ہے اور یہ مجھے ساریہ نے کہا ہے کہ تم سے فوراً نکاح کرلوں۔ ساریہ کیلئے بھی احد اپنے گھر میں بات کرنے والا ہے میں نہیں چاہتا کے ساریہ کے ذہن میں کیا چل رہا ہے مگر جب اس نے مجھ پر بھروسہ کیا ہے تو میں پیچھے نہیں ہٹ سکتا شاید وہ نہیں چاہتی کے تم اکیلی رہو اور تم جانتی ہو کہ آج کل حالات کتنے خراب چل رہے ہیں ہماری یونیورسٹی کی کچھ لڑکیاں اغوا ہوئی ہیں۔” وھاج نے ڈھکی چھپی تفصیل بتائی اور شک نہ ہونے دیا کہ وہ سفھاء کے بارے میں سب جانتا ہے۔
” ٹھیک ہے مجھے منظور ہے۔” وجیہہ نے کچھ دیر سوچنے کے بعد جواب دیا۔
“جب تمہیں کوئی اور لڑکا جو تمہارے لیے بہتر ہو تمہیں اچھا لگے، مل جائے تم مجھ سے طلاق لے سکتی ہو۔ کیونکہ میں نکاح گھر والوں کو بتائے بغیر کر رہا ہوں میری ایک عدد بچپن کی منگیتر بھی ہے۔” وھاج نے تفصیل بتانا ضروری سمجھی۔ وجیہہ خاموش رہی۔
” ٹھیک ہے تم آرام کرو صبح تمہیں ڈسچارج کردیا جائے گا۔ ظہر کی نماز کے بعد ہمارا نکاح ہے۔” لفظ تھے یا کوئی کانٹے جو صرف چبھنے کا کام کررہے تھے۔ ضبط سے اس کی آنکھیں سرخ ہونے لگی وھاج بھی ڈھیٹوں کی طرح بغور اسے دیکھنے میں مصروف تھا۔ “سو جاؤ تم۔” وھاج نے اپنائیت سے کہا۔ وجیہہ نے ایک لمبی سانس لی اور ادھر ادھر دیکھنے لگی۔
” موبائل ڈھونڈ رہی ہو؟” وہ اس کی متلاشی نگاہیں پڑھ چکا تھا۔ وہ مشکل اپنی مسکراہٹ روک کر پوچھا۔
” کہہ دینے سے ٹیکس نہیں لگتا محترمہ۔ اگر تم مجھے اگنور کر کے بدلہ لینا چاہتی ہو تو کوئی بات نہیں لے لو بدلہ خود کو ہی نقصان ہوگا۔” اس نے مسکراتے ہوئے اپنی جیب سے موبائل نکال کر وجیہہ کی طرف بڑھایا جسے اس نے جھپٹنے کے سے انداز میں لیا۔
“میں باہر بیٹھ رہا ہوں تمہیں کوئی کام ہو تو بلوالینا۔” وہ کہہ کر دروازے سے باہر نکلنے لگا۔
“بلاؤں گی کیسے؟” وجیہہ کے منہ سے بے اختیار نکلا تو وھاج کے قدم رکے۔
“نرس کو بھیج رہا ہوں تمہارے پاس۔” وہ کہہ کر باہر نکل گیا اور وجیہہ نے سر جھٹکا۔
☆☆ ☆☆ ☆☆ ☆☆
نکاح کے بعد وہ کمرے میں آئی تو کب سے ضبط کیے آنسو بہنے لگے۔ وجیہہ نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ اس کا نکاح اس طرح ہوگا کہ اس کے رشتے اس کے ساتھ نہ ہونگے۔
وھاج کمرے میں داخل ہوا تو وجیہہ کو بری طرح روتے دیکھ کر پریشان ہوا۔
“میں جانتا ہوں تم اپنے گھر والوں کی کمی محسوس کر رہی ہوگی اللہ کو ایسا ہی منظور تھا صبر کرو اور پتہ ہے صبر پہلی چوٹ پر کیا جاتا ہے آدھی تکلیف ختم ہونے کے بعد شکوے بھی ختم کر دینا صبر تھوڑی ہوتا ہے صبر تو وہ ہوتا ہے جو چوٹ لگتے ہی خود کو منفی رویوں سے روک لیا جائے۔” وہ اس کا ہاتھ پکڑے اسے تسلیاں دے رہا تھا۔
“تم بیٹھ پر سو جانا میں صوفے پر سو جاؤں گا۔” رات کو بھوک لگے تو احد کو فون کر کے آڈر کر دینا کچھ وہ لے آئے گا۔” وہ صوفے پر لیٹتا اسے سمجھا گیا۔
“لیکن میرے پاس تو احد کا نمبر ہی نہیں ہے۔” وجیہہ جو ابھی سے بھوک محسوس کر رہی تھی جلدی سے بے اختیار بولی۔
“میرے موبائل سے کال کرلینا اور پاسورڈ میں میرے نام کا پہلا حرف لکھنا کھل جائے گا۔” وھاج کا اشارہ ‘W’ کی طرف تھا جس سے وجیہہ اور وھاج دونوں کے نام شروع ہوتے تھے۔
“ٹھیک۔” وجیہہ کہہ کر لائٹ بند کر کے کمرے سے باہر چلی گئی۔ اور پورا گھر چیک کیا۔ کچن میں چاول وغیرہ اور سبزی رکھی تھی اس نے جلدی سے پلاؤ کا سامان جمع کرکے بنانا شروع کیا۔ رات کو دیر تک اسٹڈی میں بیٹھ کر کتابیں پڑھتی رہی اور پھر بیڈ پر آ کر سو گئی۔
“اٹھ گئیں تم۔” وہ ٹیرس سے آیا تو وجیہہ بیڈ پر بیٹھی سوچوں میں گم تھی۔
” کیا فجر کی اذان ہو چکی ہے؟” اس نے آنکھیں مسلتے ہوئے سوال کیا۔
“نہیں ابھی آدھا گھنٹہ ہے۔” وھاج اس کی اس حرکت پر اسے دیکھتا رہا بچوں کی طرح آنکھیں مسلتے وہ معصوم سی لگ رہی تھیی۔
“تو آپ کیوں اٹھ گئے؟” اس نے بیزاری سے پوچھا۔ دراصل غصہ خود پر آرہا تھا کہ رات بارہ بجے سونے کے بعد بھی اتنی جلدی آنکھ کھل گئی۔ وھاج کو صوفے پر نہ پا کر وہ سمجھی تھی کہ وہ نماز کے لیے گیا ہوگا۔
” میں تو کافی دیر سے اٹھا ہوا ہوں۔ دوپہر جلدی سو گیا تھا تو جلدی آنکھ کھل گئی وھاج صوفے پر بیٹھ کر موبائل استعمال کرنے لگا۔ جبکہ وجیہہ دوبارہ لیٹ گئی۔
” سو مت جانا اذان ہونے ہی والی ہے نماز پڑھ کر سونا۔” اس نے کوئی جواب نہ دیا ویسے ہی لیٹی رہی نہ جانے اسے وھاج پر کیوں غصہ آ رہا تھا۔ وھاج وضو کرنے چلا گیا۔ واپس آیا تو وہ ویسے ہی لیٹی تھی آنکھیں بند کرکے۔
“ضدی لڑکی” وھاج نے مسکراتے ہوئے زیر لب کہا تھا پر کمرے میں مکمل سکوت ہونے کی وجہ سے وہ اپنے لیے کہا جانے والا تعریفی جملہ سن چکی تھی۔ وھاج کے موبائل پر کال آئی تو وہ کال اٹھا کر کمرے سے باہر چلا گیا۔ کمرے کا دروازہ بند ہوا تو وجیہہ اٹھ کر بیٹھ گئی اسی وقت دروازہ کھلا تھا دوبارہ وہ کار کی چابی لینے آیا تھا۔ موبائل کان سے لگائے وہ ٹیبل تک آیا۔ وجیہہ سر جھکائے بیٹھی تھی وہ مسکراہٹ چھپاتا چابی اٹھا کر باہر نکل گیا۔ وجیہہ کو تھوڑی شرمندگی محسوس ہوئی تھی اگلے ہی لمحہ اذان کی آواز پر وہ اٹھ کر وضو کرنے چلی دی۔
وہ گیلری میں کھڑی بے آواز رو رہی تھی جب وھاج واپس آیا تھا ساریہ سے بات ہوئی تو اس نے کہا تھا کہ وہ وھاج کو سب کچھ بتا چکی ہے۔ وجیہہ کو افسوس ہوا مگر ساریہ ٹھیک کہہ رہی تھی کہ وھاج کو حقیقت بتائے بغیر عباس رضوی سے بدلہ نہیں لے سکتے تھے۔ کمرے کا دروازہ کھلا تو وجیہہ جلدی جلدی خود کو نارمل کرنے لگی۔
“کیا سوچ رہی ہو؟” وہ اس کے برابر آ کھڑا ہوا وہ خاموش رہی۔ وھاج نے رخ موڑ کر اسے دیکھا وہ روتی رہی تھی اسے افسوس ہوا۔ “دوپہر دو بجے ہم پشاور کے لئے نکل رہے ہیں تیاری کرنا ہے جلدی سو جاؤ کچھ گھنٹے آرام کر لو۔” وھاج کی بات کے اختتام پر وہ خاموشی سے بیڈ پر آ بیٹھی۔ ساریہ کو پیشاور جانے کا ٹیکسٹ کرکے لیٹ گئی۔ وہ کچھ دیر گیلری میں کھڑا رہا پھر کمرے میں آگیا۔ وہ سر تک بلینکٹ اوڑھے سو رہی تھی وہ بھی صوفے پرجا کر لیٹ گیا۔
☆☆ ☆☆ ☆☆ ☆☆
“تم احد ہو ناں؟” عباس رضوی احد کو پہچان کر اس کی طرف ہی چلا آیا تھا۔ اسے پہلے کبھی لڑکیوں سے ڈر نہیں لگا تھا مگر وجیہہ کے پاس اس کی ویڈیوز کا موجود ہونا ایسے ڈرا رہا تھا۔
“ہاں میں ہی ہوں۔ آپ وجیہہ کے دوست ہیں ناں؟” احد نے پرسوچ انداز میں کہا۔
“آپ سے وجیہہ اور سفھاء کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہوں وہ دونوں کیوں نہیں آ رہیں؟” اس نے اندر کی معلومات نکلوانی چاہی۔
“وجیہہ کا تو انتقال ہوچکا ہے۔” کیا آپ نہیں جانتے؟” احد نے حیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا۔
“کیا؟ وجیہہ کا انتقال کس طرح ہوا؟” عباس رضوی کو گویا اس خبر سے سکون محسوس ہوا تھا۔ اس نے بھی اداکاری شروع کر دی تھی۔
“پتہ نہیں خود سے اچانک سے انتقال ہو گیا بیٹھے بیٹھے۔” احد نے افسردگی سے کہا۔
“ساریہ آج کا یونیورسٹی کیوں نہیں آ رہیں؟” عباس رضوی اب اگلے شکار کے بارے میں معلومات لینے لگا۔
“وہ شاید اسلام آباد میں ہے۔” احد نے کہہ کر فون کان سے لگا لیا گویا اب دفع ہوجاؤ کا سگنل دے رہا ہو۔
احد نے ساری بات ساریہ کو بتائی وہ دونوں وھاج کا انتظار کر رہے تھے کہ کب وہ آئے اور وہ سب اپنے مشن پر کام شروع کریں۔
☆☆ ☆☆ ☆☆ ☆☆
“گھر میں کوئی بھی ہمارے نکاح کے بارے میں نہیں جانتا سوائے آپی کے۔” وھاج نے بات کا آغاز کیا۔
“آپ کی آپی نے غصہ نہیں کیا آپ پر؟” وجیہہ کے سوال پر وھاج مسکرایا۔
“آپی تو افسوس کررہی تھیں کہ وہ ہمارے نکاح والے دن پشاور میں کیوں تھی ورنہ ان کا سسرال تو کراچی میں ہی ہے۔ وہ کراچی میں ہوتی تو نکاح میں ضرور شریک ہوتیں۔” وھاج مسکراتے ہوئے بتا رہا تھا۔
“آپ کی آپی تو پھر بہت اچھی ہیں لیکن باقی لوگ کیا وہ غصہ نہیں کریں گے؟” وجیہہ کی آنکھوں میں خوف تھا۔
“اللہ مالک ہے۔ ماما شاید کچھ نہیں کہیں گی لیکن دادو بہت ارمان سجائے بیٹھی ہیں میری شادی کو لے کر۔ وہ پتہ نہیں کتنا غصہ کریں اور پھر ہمارے یہاں شادیاں برادری میں ہوا کرتی ہیں۔” اب کی بار وھاج کو بھی ڈر محسوس ہو رہا تھا۔
“میں سوچ رہا ہوں کہ دادی سے جھوٹ بول دوں۔ کہونگا گا یہ میری یونیورسٹی میں بہن بنی ہوئی ہیں۔ کراچی کے حالات بہت خراب ہیں آگے پیچھے کوئی ہے نہیں بلا بلا بلا۔۔۔۔۔۔۔” وھاج بولتا رہا اور وہ سنتی رہی اسکی خاموشی نوٹ کر کے وھاج نے چہرہ موڑ کر اس کی جانب دیکھا تو وہ رونے کی شیدائی آنسو بہانے میں مصروف تھی۔ وھاج کو غصہ آنے لگا۔
“تم کس خوشی میں آنسو بہا رہی ہو؟” وھاج نے طنز کیا۔ وہ خاموش رہی
“السلام علیکم ماں” وھاج اسے گھر پہنچتے ہی سب سے پہلے اپنی دادی کے کمرے میں لے آیا۔
“بیٹھو بیٹا” انہوں نے نرمی سے وجیہا کو مخاطب کیا تو وہ صوفے پر بیٹھ گئ۔
“یہ لڑکی کون ہے؟” انہوں نے پٹھانی میں وھاج سے سوال کیا۔
“میری یونیورسٹی میں پڑھتی ہےکچھ دن پہلے والد اور بہن کا انتقال ہوا ہے ، باقی گھر میں کوئ نہیں کراچی کے حالات بہت خراب تھے، اس لیے یہاں لے آیا۔” وھاج نےتفصیل بتائ تو انہوں نے سکون کا سانس لیا۔
ورنہ ان کے دماغ میں خطرہ محسوس ہوگیا تھا۔
“بہن ہی بنایا ہوا ہے ناں کچھ اور تو نہیں بنایا ہوا” دادی نے بھنویں سکیڑ کر سوال کیا-
“خوف خدا کریں ماں۔” اس نے ناراضگی سے کہا تو وہ ہنس دیں۔
“کیا نام ہے بیٹا آپ کا” دادی جان نے شائستہ اردو میں سوال کیا۔ “وجیہا” وجیہا نے مختصر سا جواب دیا اور خاموش ہوگئ۔
“ماشاءاللہ بہت ہی پیاری ہو پٹھان ہو کیا؟” دادی نے اسکی تعریف کی۔
“ماما پٹھانی تھیں اور ابو اردو اسپیکنگ۔ ابو کا خاندان کشمیر میں رہتا ہے۔” اس نے زبردستی مسکراتے ہوئے جواب دیا وہ اپنے خاندان کے بارے میں بات نہیں کرتی تھی جنہوں نے اسکے والد کو صرف اس لیے چھوڑ ا کے انہوں نے خاندان سے باہر شادی کی تھی۔
“سب گھر والے کہاں ہیں؟” وھاج نے گفتگو میں حصہ لیا۔
“وریشا شاپنگ پر گئ اور تمہارے اماں ابا اپنے کسی دوست کے یہاں دعوت میں گئے ہیں”۔
دادی جان نے منہ بنایا انہیں وھاج کے والدین کا آئے دن دعوتوں میں جانا بہت برا لگتا ۔ اتنے میں وریشا کمرے میں داخل ہوتی دکھائ دی۔
“تم کیا کچھ ماہ کے بچے کو بازاروں میں لیے گھوم رہی ہو سکون نہیں ہے تمہیں۔” وھاج ذیان کو وریشا کی گود سے لینے کے لیے آگے بڑھا۔
“تم تو چپ کرو تھکی ہوئ آئ ہوں نہ سلام نہ دعا دماغ کھانا شروع کردیا۔” وریشا بری طرح بگڑ گئ تھی۔ وہ وجیہا کی موجودگی پاکر اسکی طرف بڑھی۔
“اوہ وجیہ آئ ہے” وہ اسکے گلے لگی وریشا کو وہ چھوٹی سی لڑکی بہت پسند آئ تھی۔
“میرے بیٹے سے نہیں ملو گی؟” وہ چھوٹتے ہوئے بولی تو وجیہا ذیان کو لینے وھاج کی طرف بڑھی وہ ذیان کو گود میں لے کر وہیں بیٹھ گئ۔
“آپی ذیان کس پر گیا ہے؟” وجیہا نے سوال کیا۔
“اپنے ماموں پر” وریشا سے پہلے وھاج بول اٹھا۔ “ایسا ہے کیا؟” وجیہانے وریشا سے تائید چاہی تو اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
“میری بات تو ایسے نظر انداز کی جاتی ہے جیسے ملازم ہوں ان کا۔” وھاج نہ جانے کیوں بھڑک اٹھا تھا۔ وہ لمبے لمبے قدم اٹھاتا کمرے سے نکل گیا۔ وریشا تو ہنس دی جبکہ وجیہا بیچاری سہم گئ۔
“ارے بے وقوف لڑکی تم کیوں ڈر رہی ہو چلو تمہیں تمہارا کمرہ دکھادوں۔” وہ اسے لے کر گیسٹ روم کی طرف بڑھی۔
“تم فریش ہو کر آؤ میں کھانا لگاتی ہوں۔” وہ وجیہا کو کمرہ دکھا کر ہدایات دے کر جانے لگی تو وجیہا نے کھانے کا منع کردیا وہ سونا چاہتی تھی۔
“ٹھیک ہے تم آرام کر لو ذیان کو بھی تمہارے پاس سلارہی ہوں تنگ نہیں کرے گا-” وریشا ذیان کو بیڈ پر سلا کر کچن میں چلی گئ۔ وجیہا نے شکر ادا کیا کہ اب تک کوئ مسئلہ نہ ہوا تھا، وہ بیڈ پر ڈھے گئے۔
“وجیہا اور ذیان کہاں؟” ڈائننگ ٹیبل پر وھاج نے وجیہا کی کمی محسوس کی۔
“وہ سو رہے ہیں وجیہا کو بھوک نہیں تھی۔ ” وریشا نے اطلاع دی تووھاج کو حیرت ہوئ فلائٹ میں بھی وجیہا نے بہت کم کھایا تھا۔ تھوڑا سا کھانا کھا کر ہی اس نے پلیٹ پری کردی۔
“میرے بیٹے نے کھانا کم کیوں کھایا ہے؟” وھاج کی دادی کو فکر ہوئ۔
“بس ماں پیٹ بھر گیا بھوک نہیں، میں کچھ دیر میں کراچی کے لیے نکل رہا ہوں بہت سے کام مکمل کرنے ہیں ماما پاپا کو بتا دینا۔” وہ ماں کو پیار کرتا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا، وریشا اسکی پشت دیکھ کر مسکرا دی۔
وہ شاید اس بات سے واقف ہوچکی تھی جس سے وہ خود بھی انجان تھا۔
٭٭٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭٭٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭٭٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...