تیمور حسن۔۔۔۔۔ تیمور گروپ آف انڈسٹریز کا اکلوتا وارث تھا نہایت اکھڑ مزاج، بدتمیز، مغرور قسم کا آدمی
تیمور بچپن سے ہی ایسا تھا اپنے کام سے کام رکھنے والا حذیفہ اس کا بچپن کا اکلوتا دوست تھا اس کو گنزبہت پسند تھیں اس لیے ہمیشہ پاکٹ میں گن لےکے گھومتا تھا اور اس وجہ سے لوگ اسے غنڈہ سمجھتے تھے لیکن وہ ایک شریفانسان تھا اس کے بابا کی ڈیتھ ہو گئی تھی وہ اور اس کی ماں ہی ایک دوسرے کے لیے سب کچھ تھے
اسے ماہ گل سے شدید محبت ہو گئی تھی اس سے پیچھے ہٹنا مشکل تھا لیکن ماہ گل کی خوشی کے لیے وہ یہ بھی کر سکتا تھا
———-
تیمور اور ماہ گل کا نکاح ہوچکا تھا ماہ گل نے احتشام کی جان بچانے کے لیے مجبوری میں اس سے نکاح کیا تھا
ماہ گل رخصت ہو کے تیمور کے گھرآگئی تھی ماہ گل کواپنے اوپر غصہ آرہا تھا کہ کیوں اس شخص پہ بھروسہ کیا اس نے
وہ گاڑی سے اترے تو تیمور زور سے بولا
” ماما۔۔۔۔۔ماما دیکھیے آپ۔کی بہو کو گھرلایا ہوں اس کا شاندار استقبال کیجیے” تیمور ماما کو نکاح سے پہلے سب کچھ بتا چکا تھا سو وہ بھی مطمئن تھیں وہ آئیں جانتی تھیں کہ اتنی جلدی وہ یہ سب ایکسیپٹ نہیں کرے گی وہ نہیں جانتی تھی وہ آنے والی مصیبت سے بچ چکی تھی اور اسے بچانے والا تیمور تھا
“شکر تیمور تم نے شادی تو کی ورنہ۔میں تو اپنی بہو دیکھنے کے لیے ترس گئی تھی شکر ہے اسـنے شادی تو کی ورنہ یہ تو مانتا ہی نہیں تھا اب تو اس گھر میں رونق آگئی ہے” ماما نےاسے گلے لگایا
وہ حیران تھی کہ اس کی ماما نے تیمور کو کچھ بھی نہیں کہا یہ تک نہ پوچھا کہ جلد بازی میں شادی کیسے کرلی پر۔۔۔۔۔۔۔
” میں تھک گئی ہوں مجھےآرام کرنا ہے” وہ بس اتنا ہی کہہ سکی
” ہاں ہاں بیٹا آئیے۔۔۔۔۔۔سندس ۔۔۔۔۔” انہوں نے ملازمہ کو آواز دی
” جی بیگم صاحبہ”
” بہو بیگم کو ان کے کمرے میں لے جاؤ” ملازمہ اسے لیے تیمور کے روم آئی
” کسی چیز کی ضرورت ہو تو انٹرکام پہ بتادیجیے گا ” ماہ گل نے سر ہلایا ملازمہ چلی گئی تو وہ روم کا جائزہ لینے لگی روم صاف ستھرا اور بے انتہا خوبصورت تھا
اس نے بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کے آنکھیں موند لیں اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ اپنی بد قسمت پہ ہنسے یا ماتم کرے تھوڑی دیر بعد دروازے پہ کھٹکا ہوا اور تیمور داخل ہوا
” غصہ تو بہت آرہا ہوگا مجھ پہ؟؟؟”
” بالکل بھی نہیں ” وہ بولی تو تیمور حیران ہوا ماہگل اس کے سامنے کمزور نہیں پڑناچاہتی تھی
” تم پہ غصہ کیوں آئے گا مجھے تم میری تقدیرمیں لکھ دیئے گئے تھے اب میں اپنی قسمت سے تو لڑ نہیں سکتی نا۔۔۔۔۔ ہاں پر تمہیں چین سے جینے بھی نہیں دوں گی ”
“باتیں توبہت جان لیوا کرتی ہو” وہ بیڈ پہ بیٹھتے ہوئے بولا
” خبردار جو یہاں بیٹھنے کی کوشش کی”
” کیوں۔۔۔۔۔۔ میرا کمرا میرابیڈ میری مرضی میں جہاں بیٹھوں ”
” اب یہ کمرا اور یہ بیڈ میرا بھی ہے سمجھے تم”
” اوہ ہاؤ کیوٹ تم کتنی اچھی لگتی ہو میرے کمرے کی چیزوں کو اپنا کہتے ہوئے ” وہ مسکرایا
” اب پتا چل گیا نا کہ کتنی اچھی لگتی ہوں تو مہربانی کرو اور سامنے والے صوفے پہ جا کے سو جاؤ میں نے بھی سونا ہے ”
” مجھے تو یہیں نیند آتی ہے میں تو یہیں سوؤں گا ” وہ ضدی بچوں کی طرح بولا
” میں بھی یہیں سوؤں گی کسی خوش فہمی میں نہ رہنا میں تمہیں کھینچ کے بھی اتار سکتی ہوں ”
” تو آؤ کوشش کر کے دیکھ لو مجھے بستر سے کھینچ کے اتارتے ہوئے تو تم اور بھی اچھی لگو گی ہانپتی ہوئی، خوبصورت، جان لیوا” وہ کہہ کر آنکھیں موند کے لیٹ گیا وہ بھی جل کے وہیں دوسری سائیڈ پہ لیٹ گئی اور بیچ میں تکیوں کی دیوار بنا دی ” سمجھ لو یہ دیوارِ چین ہے۔۔۔۔۔ اسے اگر پار کیا تو حشر کردوں گی”
تیمور آنکھیں مونے بولا ” اگر تم نے اسے پار کرلیا تو؟؟؟”
” مجھے سوتے میں ہلنے کی عادت نہیں ہے ” تیمور ہنسا اور بولا
” اور قسم سے مجھے ایک جگہ سونے کی عادت نہیں ہے ” تیمور نے بول کے لائٹ آف کر کے لیٹ گیا ماہ گل بھی لیٹ گئی پر آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی اس نے کیا سوچا تھا اور کیا ہو گیا تھا اس نے کس کے خواب دیکھے اور تعبیر اسے اس شخص کی صورت میں ملی تھی
بعض اوقات نسان کا دل چاہتا ہے کہ وہ دھاڑے مار مر کے روئے اس وقت ماہ گل کی بھی یہ ہی حالت تھی۔۔۔۔۔ پر سے س شخص کے سامنے ٹوٹنا نہیں تھا مضبوط رہنا تھا اسے اس لیے پوری رات وہ گھٹ گھٹ کے روتی رہی تھی۔
——–
صبح اس کی آنکھ کھلی ساری رات رونے کی وجہ سے اور دیر سے سونے کی وجہ سے اس کے سر میں شدید درد تھا وہ اٹھ بیٹھی تی۔ور اسی وقت واش روم سے نکلا تیمور نے اسے دیکھا اس کی آنکھیں اس بات کا ثبوت تھیں کہ وہ ساری رات روتی رہی ہے تیمور اسے دیکھتا رہ گیا وہ اس الجھے بکھرے حلیے میں بھی حد درجہ حسین لگ رہی تھی تیمور کو ماننا پڑا کہ الجھی بکھری چیزیں بھی خوبصورت ہو سکتی ہیں
” اٹھ گئیں تم؟؟؟” وہ سنبھل کے بولا
” نہیں میں اٹھی نہیں ہوں۔۔۔۔۔ میں زانکھیں کھول کے سوتی ہوں ”
” ہاں کچھ لوگوں کو یہ بیماری ہوتی ہےمیرے ساتھ چلنا آج ڈاکٹر کے پاس”
” اففففف۔۔۔۔” وہ اٹھی اور واش روم جانے لگی
” جلدی تیار ہو جانا تمہیں ماما کے گھر چھوڑ دوں گا ” تیمور کہہ کر روم سے نکل گیا
———
وہ کمرے سے باہر نکلی تو ملازمہ اسے ڈائیننگ ٹیبل تک لے آئی جہاں تیمور اور اس کی ماما پہلے سے موجود تھے
ماما آگے بڑھیں اور اسے گلے لگا کے ماتھا چوما
” آجاؤ میری بیٹی جو کھانا ہے ملازمہ کو بتادو وہ بنا دے گی”
” نہیں آنٹی جو بنا ہے بس وہی ٹھیک ہے میں کھا لوں گی ”
وہ بیٹھی اور ناشتہ کرنے لگی تیمور ناشتہ کرچکا تھا
” چلنا ہے تو چلو” اس نے ابھی صرف دو تین نوالے ہی لیے تھے کہ تیمور بولا
” ارے اسے ناشتہ تو کرنے دو اس نے کل سے کچھ نہیں کھایا ہے ” ماما بولیں
” نہیں آنٹی بس میں ناشتہ کرچکی ہوں ” وہ اٹھی اور ماما سے مل کے وہ نکلی پورچ سے تیمور نے گاڑی نکالی مسہ گل بیٹھنے ہی لگی تھی کہ اسے زور کا چکر آیا اور وہ گر گئی
تیمور جلدی سے آگے بڑھا اور اسے اٹھایا جلدی سے وہیں سے ماما کو بتائے بغیر اسے ڈاکٹر کے پاس لے کر گیا
” گھبرانے والی کوئی بات نہیں ہے کچھ نہ کھانے پینے کی وجہ سے چکر آیا ہے انہیں یہ میڈیسنز انہیں دیں اور ان کی ڈائیٹ کا خاص خیال رکھیں ”
تھوڑی دیر میں اسے ہوش آیا تو وہ ادھر ادھر نظریں گھما کے بولی
” اللٰہ میں بچ گئی۔۔۔۔۔ میرا ہارٹ فیل کیوں نہیں ہوتا” تیموت ہنسا
” کتنا شوق ہے تمہیں مرنے کا چلو اٹھو گھر چلو ” اس نے ہاتھ بڑھایا تو ماہ گل نے اس کا بڑھا ہاتھ نظرانداز کر دیا اور اٹھی وہ لوگ گاڑی میں آکے بیٹھے تو تیمور نے کہا
” ماہی کھانا ٹائم پہ کھایا کرو ورنہ ایسے ہی بیہوش ہوتی رہو گی ” وہ ڈرائیونگ کرتے ہوئے بولا وہ خاموش رہی
” میں جانتا یوں میں نے تمہارے خواب توڑے ہیں پر تمہیں بہت جلد پتا چل جائے گا کہ میں نے غلط نہیں کیا ” وہ کچھ نہ بولی تو تیمور نے بولی تو تیمور نے اس کا ہاتھ تھا ماہ گل نے فوراً ہاتھ کھینچا
” اپنی حد میں رہو۔۔۔۔۔ تمہاری ہمت کیسے ہوئی میرا ہاتھ پکڑنے کی”
” ماہی۔۔۔۔۔” وہ کچھ بولنے ہی لگا تھس کہ وہ بولی
” ایک منٹ۔۔۔۔۔ میرا نام ماہی نہیں ماہ گل ہے اور اگر میرا نام لینے میں دکت ہوتی ہے تو میرا نام لیا ہی نہ کرو بلکہ ایک کام کرو تم مجھ سے مخاطب ہی نہ ہوا کرو” وہ خاموش ہو گیا اسے معلوم تھا کہ وہ اس سے نفرت کرتی ہے پر اسے یہ بھی امید تھی کہ سچ جاننے کے بعد وہ اسے معاف ضرور کردے گی
ماہ گل کا گھر آیا تو وہ گاڑی سے اتری
” لینے کب آؤں؟؟؟” اس نے پوچھا
” جب آنا ہو گا میں خود آجاؤں گی” کہہ کر وہ اتری اس نے اخلاقاً بھی اسے اندر آنے کو نہ کہا اسے خود ہی خیال آیا کہ ماہ گل کی ماما سے ملنا چاہیے تو وہ بھی اس کے پیچھے اندر آیا
اپنی ماما سے مل کے ماہ گل اپنے کمرے میں چلی گئی تیمور نے ساری بات ماہ گل کی ماما کو بتا دی تھی اس لیے انہیں تیمور سے کوئی شکایت نہ تھی تو وہ بولیں
” بیٹا تم اسے سب کچھ بتا کیوں نہیں دیتے ”
” آنٹی وہ میری بات کا یقین نہیں کرے گی ”
” تو میں اسے سب کچھ بتادیتی ہوں ” وہ اٹھنے لگیں تو وہ بولا
” نہیں آنٹی وہ کسی کی نہیں سنے گی اور اسے نہ بتانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ یہ سب سنے گی تو اسے دکھ ہو گا اور میں اسے تکلیف نہیں دینا چاہتا”
” اللٰہ تمہیں ہمیشہ خوش رکھے بیٹا تم نے میری بیٹی کو اس احتشام سے بچالیا ”
” آمین۔۔۔۔۔ اچھا آنٹی اب میں چلتا ہوں آفس بھی جانا ہے”
” اوکے بیٹا فی امان اللٰہ ”
——–
ماہ گل کو گئے دو دن ہو چکے تھے وہ ابھی تک نہیں آئی تھی شام میں ماما نے تیمور کو ماہ گل کس لینے بھیجا وہ ماہ گل کے گھر پہنچا سلام دعا کے بعد ماما نے ملازمہ کو آواز دی
” زینت۔۔۔۔۔ زینت جاؤ جا کے ماہ گل کو بلا لاؤ” ملازمہ اسے بلانے چل دی
وہ آئی ماہ گل نے پنک شارٹ شرٹ پہ غرارہ اسٹائیل پینٹ پہنی ہوئی تھی شانوں پہ پنک دپٹہ ڈالے وہ اسے دل میں اترتی محسوس ہوئی
” بیٹا۔۔۔۔۔ تیمورـتمہیں لینے آیا ہے جاؤ تیار ہو جاؤ ” ماہ گل نے منہ بنایا تو تیمور سمجھ کے بولا
” کوئی بات نہیں آنٹی اگر یہ رکنا چاہتی ہے تو رک سکتی ہے”
” نہیں ماما میں جاؤں گی آخر کتنے دن رہوں گی جانا تو مجھے وہیں ہے نا ” وہ اسے نظرانداز کر کے بولی
“میں اپنا پرس لے کر آتی ہوں”
ماما سے ملنے کے بعد وہ گاڑی میں آبیٹھی تیمور نے گاڑی اسٹارٹ کی دونوں ہی خاموش تھے کہ تیمور خاموشی کو توڑنے کے لیے بولا
” اگر تمہارا دل تھا تو رک جاتیں ” وہ کچھ نہ بولی تو وہ پھر بولا
” اچھا ہم دوبارہ چلتے ہیں تمہاری ماما کے گھر اداس نہ ہو” بہت دیر تک جب اس نے جواب نہ دیا تو وہ چڑ کے بولا
“قفل لگا کے کیوں بیٹھی ہو بات کر رہا ہوزن میں تم سے”
” سن رہی ہوں میں۔۔۔۔۔ جواب دینا ضروری نہیں سمجھتی ” وہ بولی تو تو وہ پھر بولا
” اچھا نہ بولو ہ بتاؤ آئسکریم کھاؤ گی؟؟؟”
” نہیں ”
” چاکلیٹ؟؟؟ ” وہ پھر بولا
” نہیں ”
” کوئی اچھی سی سوئیٹ ڈش؟؟؟”
” نہیں ” اس کا وہی جواب تھا
” ایک زور دار تھپڑ؟؟؟” اب کی بار وہ مسکراہٹ دبا کے بولا ماہ گل نے اسے گھور کر دیکھا
” میں تم سے ہر بری بات کی امید کر سکتی ہوں یہ شوق بھی پورا کرلو” تیمور کو ایک دم دکھ ہوا
” میں مذاق کر رہا تھا آئم سوری “تیمور نے کان پکڑے ماہ گل نے منہ موڑ لیا۔
———–
رات کا کھایا سب نے اکٹھا کھایا کھانا کھا کے وہ روم میں آئی اور لیٹ کے گیم کھیلنے لگی تھوڑی دیر بعد دروازہ نوک ہوا اور وہ روم میں آیا ماہ گل اسے دیکھ کے مسکرائی
” زہے نصیب۔۔۔۔۔ میری خواہش تھی کہ جب میں کمرے میں آؤں تو میری بیوی مجھے مسکراتی ہوئی ملے۔۔۔۔۔ ویسے اس مہربانی کی وجہ جان سکتا ہوں؟؟؟ ”
” ہاں ہاں ضرور” وہ اٹھ بیٹھی ” ہمارے مذہب میں کسی کو مسکرا کے دیکھنا بھی نیکی ہے تو میں نے سوچا کے چلو آج میں یہ نیکی بھی کرلوں تاکہ میرے ان گناہوں میں کچھ کمی ہو جس کی وجہ سے تم میری قسمت میں لکھے گئے ”
” اوہ تو نیکی کی جا رہی ہے میں خواہمخواہ خوش ہو رہا تھا” وہ بیڈ پہ ٹک گیا
” تمہارے خوش ہونے کے دن جا چکے ہیں تمہیں اب ہر چیز کا حساب دینا پڑے گا”
” لے لینا ویسے بھی بچپن سے میں حساب میں بہت اچھا ہوں” کہہ کر اس نے کروٹ بدک جے لائٹ آف کردی۔
———
آج ماہ گل کی سالگرہ تھی وہ بھول چکی تھی اب اسے تاریخیں کہاں یاد رہتی تھیں تیمور آفس کے لیے تیار ہو رہا تھا کہ وہ بولی ” مجھے کچھ سامان لینے مارکیٹ جانا ہے ”
” تو چلی جانا تم پہ کسی قسم کی روک ٹوک نہیں ہے”
” تم سے اجازت کس نے مانگی ہے بتا رہج ہوں تمہیں۔۔۔۔۔ میں تمہاری پابند نہیں ہوں ” تیمور اس کی طرف مڑا اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا
” میں بھی محبت میں پابندیوں کا قائل نہیں ہوں کہتے ہیں کہ اگر کسی کو اپنا بنانا ہو تو پہلے اس کا بننا پڑتا ہے اسے آزاد کر کے۔۔۔۔۔ تم بھی آزاد ہو میری طرف سے اپنی مرضی سے آؤ جاؤ میں تم پر کوئی پابندی عائد نہیں کروں گا” وہ اس کی آنکھوں میں محویت سے دیکھتی رہی تیمور پلٹ گیا اور تیار ہونے لگا وہ ہوش میں آئی
” اففففف۔۔۔۔۔ کتنا بولتے ہو تم تم سے تقریر کرنے کا نہیں کہا تھا میں نے بس مجھے گاڑی کی چابی دے دو یا ٹیکسی سے چلی جاؤں گی میں ”
” میں ڈرائیور سے کہہ دیتا ہوں کہ تمہیں جہاں جانا ہے لے جائے ”
” تم مجھ پر نظر رکھنا چاہتے ہو۔۔۔۔۔ میری جاسوسی کرنا چاہتے ہو مجھے نہیں جانا”
” ماہی ایسی بات نہیں ہے اچھا یہ لو” اس نے گاڑی کی چابی اسے دی ” جہاں جانا ہے جاؤ” ماہ گل نے چابی نہیں پکڑی کھڑی رہی تیمور نے چابی ڈریسنگ ٹیبل پہ رکھی اور چلا گیا اس کے جانے کے بعد ماہ گل نے وہ چابی اٹھا لی۔
——–
وہ شام کو گھر پہنچا ماما سے ملنے کے بعد وہ اپنے کمرے میں آیا وہ صوفے پہ بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھی وہ سامنے کھڑا ہو گیا
“ہٹو سامنے سے کیا مسئلہ ہے” وہ کوفت سے بولی
“تمہیں کچھ دینا ہے” اس نے اپنے ہاتھ میں پکڑا گفٹ ماہ گل کی طرف بڑھایا
” یہ لو”
” یہ کیا ہے؟؟؟” وہ بولی
” تمہاری سالگرہ کا گفٹ” وہ محبت سے بولا
” اس نوازش کی وجہ جان سکتی ہوں ”
شوہر ہوں تمہارا اور اگر یہ خاص دن بھی یاد نہ رکھوں تو لعنت ہے مجھ پہ ”
” میں ویسے بھی لعنت ہی بھیجتی ہوں تم پہ ” وہ مسکرایا اور گفٹ اس کے ہاتھ میں تھما کے بولا
” سالگرہ بہت بہت مبارک ہو اللٰہ تمہیں سدا سہاگن رکھے اور تم ساری زندگی بھی اسی طرح مجھ پہ لعنت بھیجو تو مجھے وہ بھہ منظور ہے۔۔۔۔۔۔ کیا کروں بہت محبت ہے نا تم سے۔۔۔۔۔ اور عاشق تو اپنے محبوب کی گالیاں بھی فخر سے کھاتے ہیں پر تم نے تو صرف لعنت دی مجھے تکلیف ہوئی پر برا نہیں لگا” کہہ کر وہ واش روم میں چلا گیا پیچھے وہ بت بنی کھڑی تھی
“اے اللٰہ کیا یہ مجھ سے اتنی محبت کرتا ہے کہ میری ہر بات۔۔۔۔۔” وہ سوچ رہی تھی اور اب قطرہ قطرہ پگھلنے لگی تھی۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...