وہ بھاگتا ہوا ہسپتال کے ریسیپشن پر پہنچا تھا ۔۔
’’ یہاں تھوڑی دیر پہلے ایک ایکسیڈنٹ پیشنٹ کو لایا گیا ہے ؟؟ آپ بتا سکتے ہیں کہ کہاں ہے وہ ؟ ’’ اس کے چہرے سے صاف ظاہر تھا کہ وہ کس قدر پریشان تھا ۔۔
’’ جی وہ تھرڈ فلور پر ہیں ’’ ریسپشن پر موجود لڑکے نے اسے جواب دیا تھا ۔ وہ تیزی سے لفٹ کی جانب گیا تھا ۔۔ اور تھوڑی دیر بعد وہ اس فلور پر موجود تھا۔۔ اس کمرے کے سامنے، جہاں ارسا موجود تھی ۔۔ اندر ڈاکٹر بھی موجود تھے۔۔ اسے اندر جانے کی اجازت نہیں تھی ۔۔
’’ آپ ان کے کیا لگتے ہیں ؟؟ ’’ تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر نے روم سے نکل کر اس سے پوچھا تھا ۔۔
’’ میں انکا دوست ہوں ۔۔ کیسی ہے وہ اب ؟ ٹھیک تو ہے نا ؟؟ ’’ وہ جس بے چینی سے پوچھ رہا تھا ۔۔ کوئی بھی دیکھ کر بتا سکتا تھا کہ اندر موجود ہستی اسکے لئے کتنی اہم تھی ۔۔
’’ سر پر گہری چوٹ آئی ہے شکر ہے کوئی بڑا نقصان نہیں ہوا مگر ابھی وہ ہوش میں نہیں آئیں ہیں ’’ ڈاکٹر کی بات نے اسے کچھ حد تک تسلی دی تھی ۔۔
’’ کب تک ہوش میں آئیگی وہ ؟ ’’
’’ کچھ کہہ نہیں سکتے ۔۔ چوٹ تھوڑی گہری ہے ریکور کرنے میں وقت لگے گا ۔۔ انکا بہت خیال رکھنا ہوگا ’’ ڈاکٹر کی بات پر اس سے سر ہلایا تھا ۔۔
’’میں اندر جاسکتا ہوں ؟؟ ’’ اس نےڈاکٹر سے اجازت مانگی تھی ۔۔
’’ جی مگر پہلے آپ کچھ پیپرز پر سائین کر دیں ۔ْ اور پیشنٹ کے پاس سے جو سامان ملا ہے وہ ریسیو کرلیں ’’ ڈاکٹر کی بات پر وہ سر ہلا کر انکے ساتھ چلا گیا تھا ۔۔
وہ کچھ دیر بعد وہ ارسا کے پاس موجود تھا ۔۔ اسکے ہاتھ میں ارسا کابیگ ۔ اسکا ٹوٹا ہوا موبائل اور ایک لفافہ تھا ۔۔ جس کے اوپر اسکے خون کے کچھ قطرے گرے تھے ۔۔
آہستہ آہستہ چلتے ہوئے وہ ارسا کے سرہانے آیا تھا ۔۔ وہ جو پٹیوں میں جکڑی تھی ۔۔ اس کے چہرے پر ناجانے کونسی ایسی اداسی تھی کہ زندگی میں پہلی مرتبہ محد کو لگا کہ وہ ارسا ساجد کو سنبھال نہیں سکا ۔۔ اسے لگا کہ ارسا ساجد وہ نہیں تھی جو اس وقت اسکے سامنے پٹیوں میں جکڑی لیٹی تھی ۔۔ ارسا ساجد تو کوئی اور تھی ۔۔۔
’’ تمہیں کیا ہوا ہے ارسا ؟؟ آخر یہ سب کیسے ہوا ؟ ’’ ڈرپ لگے اسکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر اس نے دھیمے انداز میں کہا تھا۔۔ اسکی آنکھوں میں نمی تھی ۔۔ ارسا کو اس حال میں دیکھنا اس کے لئے تکلیف کا باعث تھا اور وہ تکلیف اسکی آنکھوں سے صاف نظر آرہی تھی ۔۔
’’ میں جل رہی ہوں محد ۔۔ مجھے بچاؤ ’’ اسے ارسا کی کہی ہوئی آخری بات یاد آئی تھی ۔۔ اس نے ارسا ساجد کے چہرے کی جانب دیکھا تھا۔جس پر چوٹوں کے نشان تھے ۔۔
’’ میں تمہیں بچا نہیں سکا ارسا ۔۔ تم جس آگ میں جل رہی ہو ۔۔ میں اسکی تپش سے بھی ناواقف ہوں ۔۔ اٹھو ارسا ۔۔ مجھے بتاؤ وہ کونسی آگ ہے جو تمہیں جھلسا رہی ہے ’’ وہ اس سے کہہ رہا تھا ۔۔ مگر ارسا کا وجود بے جان تھا ۔۔
اس نے ارسا کے ٹوٹے ہوئے موبائیل کو دیکھا تھا ۔۔ اسکے ساتھ ہی ایک لفافہ رکھا تھا ۔۔
’’ یہ کیا ہے ؟؟’’ ایک تجسس اسکے اندر ابھرا تھا ۔۔ وہ اب اس لفافے کی جانب بڑھا تھا ۔۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر وہ لفافہ اٹھایا ۔۔ جس پر ارساکا خون لگا تھا ۔۔ اسکے دل میں کچھ چبھا تھا ۔۔
’’ یہ کیا کر دیا ہے تم نے ’’ وہ ارسا سے مخاطب تھا مگر مخاطب کچھ سن نہیں رہا تھا ۔۔
اس نے لفافہ کھولا تھا ۔۔ اور ایک کاغذ تھا جو اس لفافے کے اندر تھا ۔۔ وہ چونکا تھا ۔۔
’’ نکاح نامہ ؟؟ ’’ اسکی حیرت کی انتہا نہیں تھی ۔۔ اس نے صرف نکاح نامہ دیکھا تھا ۔۔ اس نکاح نامے کے اوپر بھی ارسا کے خون کے کچھ نشان تھے ۔۔ ان نشان سے ہوتے ہوئے اسکی نظر نکاح نامے پر لکھے نام پر گئ تھی ۔
’’ ارسا ساجد ’’ دلہن کے خانے پر لکھا نام اسے روک چکا تھا ۔۔وہ ٹھہر گیا تھا ۔
’’ عفان خالد ’’ دلہے کے خانے پر لکھا نام اسکی سانسیں روک چکا تھا ۔۔ وہ زندہ ہوکر بھی زندہ نہیں لگ رہا تھا ۔۔
اور اب تو وقت بھی رک گیا تھا ۔۔ ہر طرف ایک ٹھہراؤ آچکا تھا ۔۔ اور پھر اسے محسوس ہوی تھی ۔۔ ایک تپش ۔۔ اسے لگا کہ جیسے چاروں طرف آگ لگی ہو ۔۔ اسے لگاکہ وہ آگ اسے جلا رہی تھی ۔۔ یہ کیسی آگ تھی ؟؟ یہ کیسی تپش تھی ؟؟ وہ جلنے لگا تھا ۔۔ اسکا دل جھلسنے لگا تھا۔۔ جانے کیسے مگر اسکے قدم ارسا کی جانب بڑھے تھے ۔۔ اور اسے لگا کہ وہ بہت دور ہے ۔۔ اسے لگا کہ وہ جتنے قدم اسکی جانب بڑھا رہا تھا وہ اس سے اتنی ہی دور جارہی تھی ۔۔
اسنے ارسا کے چہرے کی جانب دیکھا تھا ۔۔ اور اب وہ سمجھاتھا کہ اسکے چہرے پر کیا تھا ۔۔
’’ میں تمہیں کیسے بچاؤ ارسا ۔۔ جو آگ تمہارے ادرگرد لگی تھی ۔۔ وہ مجھ تک بھی آچکی ہے ۔۔ میں تو خود جل رہا ہوں’’ اس نے بھیگی آواز میں کہاں تھا ۔۔ اسکی آنکھوں کی لالی اسکا ضبط تھی ۔۔
اس نے نکاح نامہ دوبار لفافے میں ڈال کر ایک سائیڈ پر رکھ دیا تھا ۔۔
’’ محبت اور نفرت کی یہ آگ ہم دونوں کو جلا رہی ہے ۔۔ میں کیسے بچاؤ تمہیں ۔۔ مجھے تو اپنی خبر بھی نہیں ’’ وہ کہہ رہا تھا۔۔ اور سامنے موجود وجود کچھ بھی سننے سے قاصر تھا ۔۔ وہ خاموش ہوگیا تھا ۔۔ اسے لگا کہ وہ کتنا ہی کیوں نہ کہہ دے وہ اسے نہیں سنے گی ۔۔ا رسا ساجد جہاں پہنچ چکی تھی وہاں محد کی آواز کا پہنچنا ناممکن تھا ۔۔
وہ دو دن سے اسے کال کر رہا تھا ۔۔ مگر اسکا نمبر بند تھا ۔۔ وہ اسکے گھر بھی گیا تھا مگر وہ وہاں نہیں تھی۔۔ پھر اسے محد کا خیال آیا مگر وہ بھی دو دن سے غائب تھا ۔۔ جانے وہ دونوں کہاں چلے گئے تھے ۔۔ اس نے دادو کو سب بتا دیا تھا ۔۔ وہ بھی بہت پریشان تھی ۔۔ ارسا اور محد دونوں ہی کہیں گم تھے ۔۔ اور یہ اس کے لئے مزید تکلیف دہ تھا ۔۔
’’ تمہیں کچھ معلوم ہوا ؟’’ حاشر کے اسکے سامنے آتے ہی اس نے پہلا سوال ہی یہی کیا تھا ۔۔
’’ نہیں باس ۔۔ اب تک کچھ معلوم نہیں ہورہا ۔۔ انکا نمبر بھی مسلسل آف ہے اور محد کا بھی ’’ اس کی بات پر عفان کے چہرے پر مایوسی آئی تھی ۔۔
’’ تمہیں کیا لگتا ہے وہ ایسا کیوں کر رہی ہے ؟ ’’ اس نے حاشر سے پوچھا تھا ۔۔
’’ انہیں کچھ وقت دیں سر ۔۔ وہ صدمے میں ہیں ’’ وہ اسے یہی سمجھا سکتا تھا ۔۔
’’ وہ میرےپاس کیوں نہیں آتی ؟ مجھ پر چیختی کیوں نہیں ہے ؟ مجھ سے سوال کیوں نہیں کرتی ؟ میں چاہتا ہوں وہ آئے مجھ سے نفرت کا اظہار ہی سہی مگر کچھ تو کرے ۔۔ اس طرح اسکا دور ہوجانا ۔۔ کہیں نظر نہ آنا۔۔ یہ بہت مشکل ہے میرے لئے حاشر ’’ یہ وہ عفان نہیں تھا جو کچھ عرصے پہلے اسے نظر آیا کرتا تھا ۔۔ یہ تو کوئی اور عفان تھا ۔۔ حاشر کو اس وقت عفان کی حالت پر رحم آرہا تھا ۔۔
’’ وہ واپس آئینگی سر اور آپ اس وقت انہیں منا لیجئے گا ’’ وہ اسے تسلی دینا چاہتا تھا ۔۔
’’ کیا وہ مان جائیگی ؟ ’’ عفان نے اس سے ایسے پوچھا تھا کہ جیسے وہ ہر بات سے واقف ہو ۔۔
’’ میں کچھ کہہ نہیں سکتا مگر میری دعا ہے کہ وہ مان جائیں ’’ اسکی بات پر عفان سر ہلا کر خاموش ہوگیا تھا ۔۔ اب حاشر بھی وہاں سے باہر آگیا تھا ۔۔
اسے دو دن بعد ہوش آیا تھا ۔۔ اس نے دیکھا۔۔ ہمیشہ کی طرح محد ہی اس کے پاس تھا ۔۔ یہ کتنی عجیب بات تھی کہ وہ جب جب مشکل میں ہوتی تھی یہی ایک شخص اسکا ساتھ دیتا تھا ۔۔ اور وہ جب جب درد میں ہوتی تھی یہی ایک شخص اسکا درد کم کرنے کا باعث بنتا تھا ۔۔
’’ آگیا ہوش میں آنے کا خیال میڈم کو ’’ وہ اس کے پاس کھڑا مسکرا کر کہہ رہا تھا ۔۔
اس نے سر ہلا کر جواب دینا چاہا تھا ۔۔ مگر ایک ٹیس تھی جو اسکے سر پر اٹھی تھی ۔۔ اس نے درد کی شدت میں اپنی آنکھیں بند کی تھیں ’’
’’ آرام کرو ابھی۔۔ میں ڈاکٹر کو بلا کر لاتا ہوں ’’ وہ فوراً ڈاکٹر کے پاس گیا تھا ۔۔ آج تین دن بعد اسے ہوش آیا تھا اور آج تین دن بعد اس نے سکون کا سانس لیا تھا ۔۔
تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر اسے چیک کر رہے تھے ۔۔ اس وقت وہ تینوں ہی اس روم میں موجود تھے ۔۔
’’ انکا زخم بھرنے میں ابھی تھوڑا ٹائم لگے گا۔۔ انہیں میڈیسن دے دیں کچھ دیر میں درد کم ہوجائیگا ’’ ڈاکٹر اسے ہدایت دے رہا تھا ۔۔ اور وہ بہت غور سے سن رہا تھا ۔۔
’’ چلو یہ مڈیسن لو ’’ اس نے ارسا کی میڈیسن نکال کر اسے کہا تھا ۔۔ اس نے اٹھنے کی کوشش کی تھی مگر درد اور ویکنس کی وجہ سے اس سے اٹھا نہیں جارہا تھا ۔۔۔ محد نے اسے کاندھے سے تھام کر اٹھنے میں مدد دی تھی۔۔ وہ نیم دراز بیٹھی تھی۔۔ محد نے اسے میڈیسن دی اور میڈیسن لینے کے بعد ارسا نے غور سے اسکی جانب دیکھا تھا ۔۔
’’ میں کب سے ہوں یہاں ؟؟ ’’ یہ پہلا سوال تھا جو اس نے کیا تھا ۔۔ اسکی آواز دھیمی تھی ۔۔
’’ تین دن سے ’’ محد نے اسکے پاس بیٹھتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ اور تم تین دن سے گھر نہیں گئے ؟ ’’ وہ اسکی آنکھوں کے گرد موجود ہلکوں کو دیکھ رہی تھی ۔۔ جو صاف صاف اسکی نیند پوری ناہونے اور مسلسل جاگے رہنے کی داستان سنا رہے تھے ۔۔
’’ تمہیں اکیلے چھوڑ کر کیسے جاسکتا تھا ؟’’ وہ مسکرا کر اسے کہہ رہا تھا ۔۔ ارسا کو صحیح سلامت دیکھ کر وہ پر سکون ہوگیا تھا۔
’’ تم سوئے بھی نہیں ہو ۔۔ اور کھانا بھی ٹھیک سے نہیں کھایا ہوگا ؟ ’’ وہ اس سے کہہ رہی تھی۔۔
’’ اس حالت میں بھی تمہیں میری فکر لگی ہے ’’ اسے اچھا لگا تھا ارسا کا اس طرح پوچھنا ۔۔
’’ میں تمہاری فکر نہیں کرونگی تو کون کرے گا ؟ ’’ اس نے مسکرا کر پوچھا تھا ۔۔ اسکے چہرے سے اسکے درد کا اندازہ ہورہا تھا مگر وہ پھر بھی مسکر ارہی تھی ۔۔ اور اس مسکراہٹ کی وجہ صرف اور صرف محد تھا ۔۔
’’ ہم ایک دوسرے کا خیال رکھنےکے لئے ہیں ۔۔ اور اگر تم میرا خیال رکھنا چاہتی ہو تو جلدی سے ٹھیک ہوجاؤ کیونکہ اس حالت میں تو تم کبھی بھی میرا خیال نہیں رکھ سکتی ’’ اس نے اسکا ہاتھ تھام کر کہا تھا ۔۔
’’ تم ٹھیک کہہ رہے ہو ۔۔ اس دنیا میں صرف ہم دونوں ہی ہیں جو ایک دوسرے کا خیال رکھ سکتے ہیں ۔۔ میں جلدی ٹھیک ہونگی ۔۔مجھے اب جلدی ٹھیک ہونا بھی ہے محد ’’ وہ کہہ کر آنکھیں بند کر گئی تھی ۔۔ شاید دوائی کا اثر تھا کہ وہ تھوڑی دیر بعد ہی نیند کی وادی میں جاچکی تھی ۔۔ جبکہ محد ایک گہری سانس لے کر اسکے پاس ہی بیٹھا اسے دیکھتا رہا تھا۔۔
اسے ہوش میں آنے کے دو دن بعد ڈسچارج کردیا گیا تھا ،۔ محد اسے لے کر اپنے گھر آیا تھا ۔۔ ارسا نے اس سے اپنے فلیٹ میں جانے کی ضد کی تھی مگر محد اسے اس حالت میں اکیلا نہیں چھوڑنا چاہتا تھا ۔۔ اسے اسکے کمرے میں چھوڑ کر وہ کچن میں دونوں کے لئے کافی بنانے آیا تھا ۔۔ اس ٹھنڈے موسم میں جب انسان کو اس قسم کی گہری چوٹیں لگیں ہو تو اسے گرم غذاؤں کی ضرورت ہوتی ہے ۔۔ وہ کافی اور اسکے ساتھ کچھ سینڈوچز بناکر ارسا کے کمرے میں آیا تھا ۔۔ جہاں وہ نیم دراز لیٹی تھی اسے آتا دیکھ کر تھوڑی سیدھی ہوئی تھی۔۔ محد نے اسکے پاس ٹرے رکھی تھی ۔۔
’’ میرا بلکل بھی کھانے کا دل نہیں ہے ’’ اس نے بچوں کی طرح منہ بناتے ہوئے اس سے کہا تھا،۔
’’ مگر میرا دل تو ہے نہ ۔۔ اپنا نہیں تو میرا ہی خیال کرلو چھ دن سے تمہاری خدمت کررہا ہوں مجال ہے کہ کچھ ٹھیک سے کھایا ہو میں نے ’’ وہ اپنے پرانے انداز میں اس سے مخاطب تھا ۔۔ یہ وہی محد تھا جو اسے ہر حال میں مسکرانے پر مجبور کر دیتا تھا ۔۔
’’ تم کھاؤ۔۔ کس نے روکا ہے ؟ ’’ وہ بھی اس سے اسی انداز میں مخاطب ہوئی تھی ۔۔
’’ تمہیں معلوم تو ہے میں اکیلے نہیں کھاتا ’’ اس نے معصوم سی صورت بنا کر ایک سینڈوچ اسکی جانب بڑھایا تھا ۔۔
’’ تم نہیں سدھر سکتے ’’ سینڈوچ اسکے ہاتھ سے لیتے ہوئے اس نے کہا تھا ۔۔
’’ تم بھی تو سدھارنا نہیں چاہتی ہو ’’ ایک سینڈوچ اپنے لئے اٹھاتے ہوئے اسنے کہا تھا ۔۔
’’ کیونکہ تم مجھے ایسے ہی اچھے لگتے ہو ’’ اس نے دل سے کہا تھا ۔۔ محد اس تعریف پر مسکرایا تھا ۔۔
’’ اور تم بھی مجھے ایسی ہی اچھی لگتی ہو’’ اس نے بھی ارسا کی جانب دیکھ کر کہا تھا ۔۔
’’ زخمی ؟؟ ’’ اس نے بات کو مزاق کا رنگ دیتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ نہیں ْ۔۔۔ زخمی ہوکر بھی ہنسنے والی ۔۔ گر کر بھی چلتے رہنے والی ۔۔ بہادر اور با ہمت ’’ وہ اسے کہہ رہا تھا ۔۔
’’ اور یہ ہمت مجھے صرف تم دیتے ہو ’’
’’ اور ہمیشہ دونگا ’’ وہ اس سے ایک عہد کر رہا تھا ۔۔
سینڈوچ ختم کرنے کے بعد اب وہ دونوں کافی پی رہے تھے ۔۔ جب ارسا نے اس سے کہا تھا ۔۔
’’ تم آج وکیل سے بات کرو محد ’’ ارسا نے اس سے سنجیدہ انداز میں کہا تھا ۔۔ محد نے چونک کر اسکی جانب دیکھا تھا۔۔
’’ کیا بات ؟ ’’ وہ اس سے پوچھ رہا تھا جبکہ جواب وہ خود جانتا تھا ۔۔
’’ تم جانتے ہو کہ کیا بات کرنی ہے ۔۔۔ میں اب ایک پل بھی ضائع نہیں کرنا چاہتی ’’ وہ جس انداز سے کہ رہی تھی اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ کر بھی گزرے گی ۔۔
’’ تم اچھی طرح سوچ لو ارسا ۔۔ کیا تمہارا دل راضی ہے ؟ ’’ وہ اس سے پوچھ رہا تھا ایک ایسا سوال جو ارسا ساجد اپنے آپ سے بھی نہیں کرنا چاہتی تھی ۔۔مگر وہ جان چکی تھی کہ محد بھی اب کسی بات سے انجان نہیں تھا۔
’’ ایک بات تو بتاؤ محد ’’ وہ ا س سے کچھ پوچھنا چاہتی تھی ۔۔
’’ پوچھو؟ ’’ وہ جواب دینے کو تیار تھا ۔
’’ کیا ہوتا ہے ؟ جب محبت اور نفرت ایک ہی انسان سے ہوجائے ۔۔ وہ کونسا جذبہ ہے ہوگا جو دوسرے پر حاوی ہوگا ؟’’ وہ اس سے پوچھ رہی تھی ۔۔ محد کو جانے کیوں ارسا کے ان الفاظ نے تھوڑی تکلیف دی تھی۔۔ مگر وہ اپنے آپ کو ان چھ دنوں میں سنبھال چکا تھا ۔۔
’’ یہ جو محبت اور نفرت ہے نا ؟ یہ انسان کے سب سے قیمتی اور سب سے خالص جذبات ہوتے ہیں ۔۔اور بہت مشکل ہوجاتی ہے جب محبت اور نفرت ایک ہی شخص کے حق میں چلی جائے ۔۔ یوں کہوں تو آپ نا اس سے محبت کرنے کے قابل رہتے ہیں اور ناہی محبت آپکو نفرت کرنے دیتی ہے ۔۔ ایسی صورتحال سے گزرنا مشکل ہے ۔۔ اسکے ساتھ بھی ، اسکے بعد بھی’’ وہ اسے کہہ رہا تھا ۔۔ اور اسکا ایک ایک لفظ سچ تھا ۔۔ ارسا ساجد سے بہتر یہ کون جاسکتا تھا کہ نفرت اور محبت ایک ہی مقام پر کتنی تکلیف دہ ہوتی ہیں ۔۔
’’ میں سوچ چکی ہوں محد ۔۔۔ اللہ نے اسکے لئے یہی سزا چنی ہے اور اب میں اسے سزا دونگی ۔۔ ایک ایسی سزا جو مجھے بھی پرسکون رکھے گی ۔۔ اس لئے میرا دل بھی راضی ہے ’’ وہ مسکرا کر کہہ رہی تھی ۔۔ اور اسکی یہ مسکراہٹ بتارہی تھی کہ وہ اندر سے مطمئن ہے۔۔ مگر وہ مطئن کیوں ہے ؟ ایسا پہلی بار تھا کہ ارسا کا اطمینان محد کو بے سکون کر رہا تھا ۔۔
’’ تم کیا کرنے جارہی ہو ؟ ’’ وہ جاننا چاہتا تھا کہ ارسا کے دماغ میں کیا چل رہا ہے ۔۔
’’ تم چاہتے تھے نا کہ میں کچھ بنوں ؟؟ ’’ وہ اسے اسکا کہا ہوا یاد دلا رہی تھی ۔۔
’’ ہاں ’’ اس نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ تو میں کچھ بننے جارہی ہوں محد۔۔۔ میں عفان خالد کی برابری حاصل کرنے جارہی ہوں ’’ وہ جس انداز سے کہہ رہی تھی ۔۔ اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ وہ کچھ ایسا کرنے والی ہے ۔۔ جو سب کو حیران کر دینے والا تھا ۔۔
وہ اس وقت آفس میں بیٹھا تھا ۔۔ مگر آج تو پہلے والی پریشانی اس کے چہرےپر نہیں تھی ۔۔ اسے دو دن پہلے ہی معلوم ہوا تھا کہ ارسا محد کے گھر ہے ۔۔ وہ ارسا کے پاس جانا چاہتا تھا مگر ارسا کے ایکسیڈنٹ کا سن کر وہ رک گیا تھا ۔۔ اور اسے دادو نے روکا تھا ۔۔ وہ چاہتی تھیں کہ ارسا کے مکمل طور پر ٹھیک ہونے کے بعد وہ اس سے جاکر بات کرے اور اسے منائے۔۔ وہ ارسا کو اپنا یقین دلانا چاہتا تھا ۔۔مگر ابھی وہ کچھ بھی کرنے سے قاصر تھا ۔۔ اسے صحیح وقت کا انتظار تھا جب وہ ارسا ساجد کے سامنے جاکر اس سے اپنے جرم کا اقرار کرے اور اس سے معافی مانگے ۔۔ اب بھی وہ انہیں خیالوں میں گم تھا جب اسکے آفس کا دروازہ بجا تھا ۔۔
’’ کم ان ’’ اس نے اسی سوچ میں گم کہا تھا ۔۔ جب دروازہ کھول کو کوئی اندر آیا تھا ۔۔ اور یہ مہک ؟
مخصوص پرفیوم کی اس خوشبوں کو وہ لاکھوں میں پہچان سکتا تھا ۔۔ اس نے سر اٹھا کر سامنے کھڑی اس ہستی کو دیکھا تھا ۔۔ وہ وہی تھی ۔۔ اسکے ماتھے پر پٹی بندھی تھی ۔۔ اسکے چہرے کے دائیں طرف ابھی بھی چوٹ کا نشان تھا ۔۔ مگر اسکے ہونٹ ؟؟ عفان خالد نے دیکھا اسکے ہونٹ مسکرا رہے تھے ۔۔ وہ بے اختیار کھڑا ہوا تھا ۔۔ اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ اسکی جانب ایک قدم بھی بڑھا سکے۔۔ اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ ایک لفظ بھی ادا کرسکے ۔۔ مگر شاید ارسا میں ہمت تھی ۔۔ اور اس سے کہیں زیادہ تھی ۔۔ وہ ایک ایک قدم اٹھاتی اسکے قریب آرہی تھی ،۔ اسے لگا کہ جیسے اسکا جرم اسکے پاس آرہا ہو ۔۔ اسے لگا کہ جیسے اسکی سزا اسکے قریب آرہی ہو ۔۔ اسے آج پہلی بار ارسا ساجد سے ڈر لگا تھا ۔۔ مگر ڈر کیوں؟
’’ کیسے ہیں مسٹر عفان خالد ؟ ’’ یہ انداز ارسا ساجد کا نہیں تھا ۔۔ یہ تو کوئی اور ہی ارسا تھی ۔۔
’’ تم اب کیسی ہو ؟ ’’ وہ اس سے پوچھ رہا تھا ۔۔ اسکی نظر اسکے سر پر لگی پٹی پر تھی ۔۔
’’ میں بہت اچھی ہوں ۔۔ ان چوٹوں کی فکر مت کریں ۔۔ یہ زخم تو بھر جائیگے ۔۔ جسمانی ہے نا آخر ۔۔ بھرنا ہی ہے’’ وہ اسے مسکرا کر جواب دے رہی تھی ۔۔ آج ارسا ساجد کی مسکراہٹ میں کچھ الگ تھا ۔۔ وہ آج اسے بہت مضبوط لگی تھی۔
’’ مجھے معاف کردو ارسا ’’ وہ اس سے کہہ رہا تھا ۔۔ اور ارسا ساجد سن رہی تھی ۔۔
’’ میں نے جو بھی کیا وہ انتقام میں کیا ۔۔ میرے اندر نفرت پل رہی تھی ۔۔ مجھے سکون نہیں مل رہا تھا ۔۔ اور مجھے لگا کہ جب تک میں اس شخص سے انتقام نہیں لیتا مجھے سکون نہیں ملے گا ۔۔ میں نے اتنے سال اسکی تلاش میں لگائے ۔۔ اور پھر ایک دن وہ مجھے نظر آگیا تھا ۔۔ اپنی بیٹی کے ساتھ ۔۔ وہ شاید اپنی بیٹی کو ہاسٹل چھوڑنے آیا تھا ۔۔ اور اس وقت اسکے چہرے کی مسکراہٹ ۔۔ وہ اطمینان مجھے بہت برا لگا تھا ۔۔ اس وقت مجھے وہ بیٹی بہت بری لگی تھی ۔۔ اور پھر میں نے ایک ایسا انتقام لیا ۔۔ جو سب کی مسکراہٹ چھین چکا تھا ’’ وہ اس سے کہہ رہا تھا ۔۔ وہ اس سے اقرار کر رہا تھا ۔۔ اسکی آنکھوں ، اسکے لہجے ۔۔ اسکے ہر انداز میں اسکی سچائی جھلک رہی تھی ۔۔ مگر ارسا ساجد اس وقت اپنے آپکو سنبھالے ہوئے تھی ۔۔ وہ اسے سزا دینے آئی تھی۔۔ وہ اسکی باتوں سے کمزور نہیں پڑ سکتی تھی ۔۔۔ وہ اسے سن رہی تھی بہت حوصلے سے۔
’’ مگر سچ کہتا ہوں ارسا ’’ اس نے ارسا کا ہاتھ تھاما تھا ۔۔ جیسے کوئی بڑا کسی بچے کا ہاتھ تھامتا ہے ۔۔ اسے سمجھانے کے لئے ۔۔ اسے منانے کے لئے ۔۔ اسے بہلانے کے لئے ۔۔
’’ مجھے اس انتقام نے ایک پل بھی سکون نہیں دیا ۔۔ تمہیں برباد کرکے میں خود میں بھی خوش نہیں تھا ۔۔ تمہیں یہاں بلانا یہ جاب ۔۔ یہ سب ایک پلیننگ تھی ۔۔ مگر مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ سب مجھے اس موڑ پر لے آئیگا کہ جب میں اتنا بے بس ہوجاؤنگا ۔۔ میں نے کبھی نہیں چاہا تھا ۔۔ میں نے بہت روکا تھا خود کو ارسا ،، مگر یہ تم تھی جس نے مجھے مجبور کردیا کہ مجھے تم سے محبت ہوجائے ’’ وہ ایک بار پھر اس سے اظہار کر رہا تھا ۔۔ وہ ایک بار پھر اظہار سن رہی تھی ۔مگر اس بار دل دھڑکہ نہیں تھا ۔۔ اس بار دل نے کوئی آواز نہیں لگائی تھی ۔۔ اس بار خاموشی تھی۔۔ صرف اور صرف خاموشی ۔
’’ جو گزر گیامیں وہ ٹھیک نہیں کر سکتا ۔۔ مگر میں آنے والا وقت ٹھیک کر سکتا ہوں ۔۔ پلیز مجھے موقع جو کہ میں اپنئ غلطی کو سدھار سکوں ۔۔۔ پلیز مجھے ایک موقع دو کہ میں تمہیں اپنی محبت کا یقین دلا سکوں ۔۔ پلیز ارسا ’’ وہ اس سے کہہ رہاتھا ۔۔ آج عفان خالد ۔۔وہ مغرور انسان ،، ارسا ساجد کے آگے جھک گیا تھا ۔۔ وہ ارسا ساجد کے آگے ہاتھ جوڑ کر کھڑا تھا ۔۔
’’ مجھے محبت کا یقین دلانا چاہتے ہو ؟ ’’ یہ ارسا کی آواز تھی ۔۔ جس پر عفان خالد نے حیران ہوکر اسے دیکھا تھا ۔۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ ارسا کے دماغ میں کیا چل رہا ہے مگر وہ اتنا جانتا تھا کہ وہ یہاں فیصلہ کر کے آئی تھی ۔۔
’’ ہاں ۔۔ میں تمہیں یقین دلانا چاہتا ہوں ۔۔ وہ اعتبار، وہ مان جو تم نے میری وجہ سے کھویا ہے میں تمہیں وہ واپس دلاؤنگا ۔۔ میں تمہارے گھر والوں بلکہ سب کو سچ بتا دونگا ۔۔ میں بتادونگا کہ ارسا ساجد بے قصور تھی ’’ وہ اس سے مان کی بات کر رہا تھا ۔۔ اور وہ مان جو ارسا کو تھا ؟؟ اسکا کیا ؟ وہ بس اسے دیکھ کر ہلکا سا مسکرائی تھی ۔۔
’’ اگر آپ چاہتے ہیں کہ میں آپکی محبت پر یقین کرلوں ۔۔ تو آپ کو اس پر سائین کرنے ہونگے ’’ اور ارسا ساجد نے ایک لفافہ اسکے سامنے کیا تھا ۔۔ عفان خالد اس لفافے کو دیکھ کر ڈر گیا تھا ۔۔ وہ پوچھے بنا بھی جان سکتا تھا کہ اس میں کیا ہے۔۔
’’ یہ کیا ہے ؟ ’’ اس نے ہاتھ آگے نہیں بڑھایا تھا ۔۔ وہ آگےبڑھانا بھی نہیں چاہتا تھا ۔۔
’’ آپکا ایک اور موقع ۔۔ عفان خالد ۔۔ تم نے مجھے اس جرم کی سزا دی جو میں نے کیا ہی نہیں تھا ۔۔ تم نے میری عزت کا تماشہ بنا دیا اور اب تم میری محبت کو تماشہ بنانا چاہتے ہو ۔۔ مگر میں تمہیں اس محبت کو تماشہ بنانےنہیں دونگی ۔۔ اس بار میں فیصلہ کرونگی ۔۔ اس بار تمہیں سزا ملے گی ۔۔اور یہ میرا وقت ہے عفان خالد ۔۔ اس بار تمہیں میرا یقین جیتنے کے لئے خود کی محبت قربان کرنی ہوگی ۔۔ بولو دے سکتے ہو یہ قربانی ؟ ’’ وہ اس سے کہہ رہی تھی اور عفان بلکل ٹھہر گیا تھا ۔
’’ یقین کی بات کرتے ہو نا تم ؟ معافی کی بات کر تےہو نا تم ؟؟ ’’ وہ اب لفافہ کھول کر اس میں سے ایک کاغذ نکال رہی تھی ۔۔ عفان نے دیکھا ۔۔وہ ڈائیورس پیپر تھے ۔۔
’’ محبت کی بات کرتے ہو تو اسے ثابت کرو ۔۔ محبت کی راہ کانٹوں بھری ہے عفان خالد ۔۔ اس راہ پر قدم بڑھاؤ ’’ وہ ڈائیورس پیپر اسکے پاس رکھی میز پر رکھ کر کہہ رہی تھی ۔۔ دونوں کے درمیان اس میز پر اب ڈائیورس پیپر رکھے تھے ۔
’’ یقین نفرت پر دلانا ہو تو صرف اتنا کہنا ہی کافی ہوتا ہے کہ مجھے تم سے نفرت ہے ۔۔ مگر یقین محبت پر دلانا ہو تو کہنا کافی نہیں ہوتا ۔۔ کانٹوں پر چل کر بتانا ہوتا ہے کہ مجھے تم سے محبت ہے ’’ وہ اس سے کہہ رہی تھی ۔۔ اور عفان خالد کو لگاکہ اسکے سامنے کانٹے ہی کانٹے ہیں ۔۔ اسے لگاکہ ایک قدم بڑھائے گا تو زخمی ہوجائیگا ۔۔
’’ تو مجھے بتاؤ عفان خالد ’’ وہ ایک پین اٹھا کر اب اس لفافے کے اوپر رکھ رہی تھی ۔۔
’’ مجھے بتاؤ کہ تمہیں مجھ سے محبت ہے ’’ وہ سن ہوگیا تھا ۔۔ اسکے پاس کوئی لفظ نہیں تھا ۔۔ ارسا ساجد اسکے کانوں میں صور پھونک رہی تھی ۔،۔ اسے لگا کہ اسکے جسم سے روح باہر نکلنے کو بے تاب تھی ۔۔
’’ تم نفرت اور انتقام کے بہت اچھے کھلاڑی رہے ہو عفان خالد ۔۔ مگر اب حالات بدل چکے ہیں ’’ وہ مسکرائی تھی ۔۔
’’ اب ہمارے بیچ محبت آگئ ہے ۔۔ اور محبت کے اس میدان میں ۔۔ تم مجھ سے جیت نہیں سکتے ۔۔ تم محبت کے ان کانٹون کو سہنے کا حوصلہ نہیں رکھتے ’’ وہ کہہ کرپلٹی تھی ۔۔ اب وہ اس آفس سے باہر جارہی تھی ۔۔ اور عفان خالد اسے جاتا دیکھ رہا تھا ۔۔ اسے لگا وہ اس آفس سے نہیں ، اسکی زندگی سے جارہی ہو ۔۔ اور پھر وہ رک گئ تھی ۔۔
’’ کل آؤنگی میں ۔۔ تمہاری محبت کا یقین دیکھنے ۔۔ یہ دیکھنے کہ تم میں ان کانٹوں پر چلنے کا حوصلہ ہے بھی کہ نہیں ’’ وہ کہہ کر اس آفس سے جاچکی تھی ۔۔ اور عفان خالد وہاں پتھر بنا کھڑا رہ گیا تھا ۔۔ وہ اپنے سامنے رکھے ان پیپرز کو دیکھ رہا تھا ۔۔ جن پر دو لوگوں کے سائن چاہئے تھے ۔۔ اور ان میں سے ایک سائن اسکا اپنا تھا ۔۔۔ وہ اس جگہ کو دیکھ رہا تھا ۔ بہت غور سے ۔۔
وہ باہر آکر گاڑی میں بیٹھی تھی ۔۔ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے محد نے اسکی جانب دیکھا تھا ۔۔
’’ کیا ہوا ؟ ’’ وہ اس سے پوچھ رہا تھا ۔۔
’’ وہی جوہونا چاہیے تھا ۔۔ تم گاڑی چلاؤ ’’ اس نے خود کو نارمل ظاہر کیا تھا ۔۔ جانے وہ ظاہر کر رہی تھی یا واقعی نارمل تھی۔۔
’’ تم سوچ لو ارسا۔۔ یہ بہت بڑھا فیصلہ ہے ’’ وہ اسے سوچنے کو کہہ رہا تھا ۔۔
’’ یہ فیصلہ نہیں ہے ۔۔ یہ سزا ہےمحد ’’ وہ کہہ کر کھڑکی کی جانب رخ پھیر گئ تھی ۔۔ محد کو اس سے مزید اس بارے میں بات کرنا مناسب نہیں لگا تھا ۔۔ ارسا اس بار اپنے فیصلے میں بہت پکی تھی ۔۔
شام ہوگئ تھی مگر ارسا کے جانے کے بعد سے اب تک وہ اپنے آفس سے باہر نہیں نکلا تھا ۔۔ حاشر اب اس کے لئے پریشان ہوا تھا۔۔ اس نے اسکے آفس کے پاس آکر دروازہ ناک کیا تھا مگر دوسری طرف سے کوئی جواب نہیں ملا ۔۔ حاشر نے اب دروازہ ناک کرنے کے بجائے اندر جانا زیادہ بہتر سمجھا تھا ۔۔ اس نے دیکھا عفان کوئی فائیل سامنے کھولے ۔۔ اسی پر نظر جمائے بیٹھا تھا ۔۔۔
’’ آپ نے گھر نہیں جانا باس ؟ ’’ وہ اس سے پوچھ رہا تھا اور وہ جو ناجانے سوچوں کے کس جہاں میں تھا کہ اسکی آواز سن کر چونک ساگیا تھا ۔۔
’’ کونسا گھر ؟ ’’ وہ ایک عجیب سوال کررہا تھا ۔۔ حاشر کو عفان خالد میں کچھ ٹھیک محسوس نہیں ہورہا تھا ۔۔
’’ کیا ہوا ہے ؟ ’’ اس نے عفان کے پاس آکر فکرمندی سے پوچھا ہے۔۔
’’ شروعات ہوئی ہے ’’ اس نے کھڑےہوکر کہا تھا ۔۔ وہ اب گلاس مرر کے سامنے کھڑا تھا ۔۔
’’ کس کی ؟ ’’
’’ کانٹوں کے سفر کی ’’ اسکا جواب حاشر کو کچھ تو سمجھا ہی گیا تھا ۔۔
’’ مجھے لگا تھا کہ نفرت نے کبھی سکون نہیں دیا مجھے ۔۔ شاید محبت سے مل جائے ۔۔ مگر محبت بہت ظالم ہے ’’ وہ آسمان کی جانب دیکھ کر کہہ رہا تھا۔۔
’’ محبت ظالم نہیں ہوتی ۔۔ محبت آزمائش ہوتی ہے ’’ حاشر کے جواب پر عفان نے پلٹ کر اسے دیکھا تھا ۔۔
’’ دونوں میں کیا فرق ہے ؟ ’’
’’ ظالم کو شکست دو تو ظلم ختم ہوجاتا ہے اور ظالم بھی ۔۔۔ مگر محبت میں شکست دو تو محبت بڑھ جاتی ہے۔۔اور محبوب بھی محبت بن جاتا ہے ’’ وہ مسکرا کر کہہ رہا تھا ۔۔
’’ محبت میں شکست کیسی دی جاتی ہے ؟ ’’ وہ اس سے پوچھ رہا تھا ۔۔۔ جو اس وقت خود ایک شکستہ دل تھا ۔۔
’’ اپنی محبت امر کر کے ۔۔ محبت کا ظرف بہت بلند ہے۔۔ اور بلند ظرف رکھنے والا ہر ایک کو شکست دے دیتا ہے’’ وہ اسے سمجھا رہا تھا ۔۔ وہ اسے ظرف بڑھانے کا کہہ رہا تھا ۔۔
’’ اس نے ڈائیورس پیپر پر سائن کرنے کا کہا ہے۔۔۔ اس نے کانٹوں پر چلنے کا کہا ہے حاشر ’’ وہ اسے بتا رہاتھا کہ ارسا اس سے کیا مانگ کر گئ ہے ؟ ایک ایسی چیز جو وہ کبھی نہیں کرنا چاہتا تھا ۔۔۔
’’ کانٹوں پر چلنے کا مطلب جانتے ہیں آپ ؟؟ ’’ ایک اور سوال ہوا تھا ۔۔
’’ خود کو زخمی کرنا ’’ ایک اور جواب تھا ۔۔
’’ ہاں۔۔ اور سوچا ہے کہ زخمی ہونے کے بعد۔۔ جب راستے کا اختتام ہوگا تو کیا ہوگا ؟ ’’ ایک اور سوال کیا تھا۔۔ مگر اسکا جواب عفان کے پاس نہیں تھا ۔۔ اس نے اتنا آگے سوچا ہی نہیں تھا ۔۔۔
’’ محبت کانٹوں پر چلنے کی آزمائش ہے ۔۔ اور کانٹوں پر چل کر ۔۔زخمی پاؤں جب راستے کے اختتام پر پہنچتے ہیں تو وہاں مرحم ہوتا ہے ۔۔ ایک ایسا مرحم جو سارے زخم بھر دیتا ہے ’’ وہ جو کہہ رہا تھا ۔۔ وہ عفان کو حیران کر رہا تھا ۔۔
’’ آزمائش کے اختتام میں صلہ ملتا ہے ۔۔ اور خدا آزمائش کا صلہ ایسا دیتا ہے کہ بندے کو آزمائش سے زیادہ صلہ حیران کر دیتا ہے ’’ اسکی بات عفان خالد کی سمجھ میں آچکی تھی ۔۔ اسے محبت کے اس راستے پر چلتا ہی تھا ۔۔ اسے آزمائش پر پورا اترنا تھا ۔۔ صلہ حاصل کرنے کے لئے ۔۔
’’ گھر چلو ’’ عفان نے ایک لفافہ اٹھاتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ چلیں ’’ حاشر مسکرا کر اسکے پیچھے چل پڑا تھا ۔۔۔ اسے خوشی تھی کہ وہ عفان خالد وہ راستہ دکھا سکا۔۔ جو اسے بہت پہلے دیکھ لینا چاہئے تھا ۔۔محبت آنکھیں کھول بھی دیتی ہے ۔ ۔۔
اس نے گھر پہنچ پر سب سے پہلے دادو کے کمرےکارخ کیا تھا ۔۔ دادو بھی کچھ دنوں سے بہت پریشان تھی ،، وہ آج دادو کی پریشانی دور کرنے والا تھا ۔۔
’’ ارسا آئی تھی آج ’’ اس نے تھوڑی دیر بعد دادو سے کہا تھا ۔۔
’’ کیسی ہے وہ اب ؟ ’’ دادو کو اسکے ایکسیڈنٹ کا حاشر سے معلوم ہوگیا تھا ۔۔۔
’’ سر پر چوٹ ہے ۔۔ درد بھی ہوتا ہوگا ’’ اس کا جواب بتارہا تھا کہ وہ ارسا کے لئے خود بھی بہت فکرمند تھا ۔۔
’’ درد کم کب کرنا ہے ؟ ’’ وہ اس سے پوچھ رہی تھی ۔۔
’’ درد کم کرنے کے لئے خود کو درد دینا ہوگا دادو ۔۔۔ اور میں درد سہنے کو تیار ہوں ’’ وہ مسکرایا تھا ۔۔
’’ تو کیا ہے اس درد کا نام ؟ ’’ دادو جانتی تھی ۔۔ وہ اسے آسانی سے معاف نہیں کرسکتی تھی۔۔
’’ ڈائیورس پیپر ’’ اس نے جتنےآرام سے کہا تھا ۔۔ دادو اتنی ہی بے آرام ہوئی تھیں ۔۔
’’ یہ تم کیا کہہ رہے ہو ؟ میں تمہیں ایسا نہیں کرنے دونگی ۔۔ میں خود بات کرونگی اس سے ’’ دادو اسکے لئے پریشان ہوگئ تھیں ۔۔۔
’’ آپ کچھ نہیں کرینگی دادو ۔۔ یہ نفرت ہم دونوں کے بیچ میں نے شروع کی تھی اور میں ہی اسے ختم کرونگا ۔۔ محبت کا سفر آسان نہیں ہوتا ۔۔ اس میں قربانی دینی ہوتی ہے ۔۔ اور میری منزل اسکی محبت کا حصول ہے ۔۔ مجھے اس آزمائش سے گزرنا ہوگا ۔۔ کیونکہ اسی کے بعد مجھے میری منزل ملے گی ’’ وہ جس انداز میں کہہ رہا تھا ۔۔ دادو کو لگا یہ وہ عفان نہیں تھا جسے وہ کئ سالوں سے دیکھ رہی تھیں ۔۔
’’ جب وہ ہی نہیں ہوگی تو منزل کیسی ؟ ’’ دادو کے اس سوال نے کچھ دیر کے لئے عفان خالد کو روک دیا تھا ۔۔ یہ اس نے سوچا نہیں تھا ۔۔وہ نہیں سوچنا چاہتا تھا کہ ڈائیورس کے بعد اس کے اور ارسا کے بیچ کیا رہ جائیگا؟ کیا وہ محد سے شادی کر لے گی ؟؟؟ یہ ایسا سوال تھا جو اسکے دل کو ہلا کر رکھ دیتا تھا۔۔۔ وہ اسے سوچنا نہیں چاہتا تھا ۔، وہ تڑپنا نہیں چاہتا تھا ۔۔۔
’’ حاشر کہتا ہے کہ آزمائش کے بعد خدا صلہ دیتا ہے ۔۔۔ مجھے یقین ہے کہ میری آزمائش کا صلہ بھی بہترین ہوگا ’’ وہ کہہ کر روم سے باہر نکلا تھا ۔۔
’’ خدا تم دونوں کی آزمائش آسان کرے ’’ دادو نے ان دونوں کے لئے دعا کی تھی ۔۔ جو شاید قبول ہو بھی گئ تھی۔۔
وہ اس وقت اپنے اور محد کے لئے چائے بنا کر ٹیرس پر آئی تھی ۔۔ جہاں محد کسی سے کال پر بات کر رہا تھا ۔۔
’’ جی بس مجھے کل کے ہی ٹکٹ چاہئے ’’ وہ کسی سے کہہ رہا تھا اور ارسا سمجھ گئ تھی کہ وہ کس سے بات کررہا ہے ۔۔
’’ اوک تھینک یو ’’ اس نے کہہ کر کال بند کی اور مسکرا کر اسکی جانب دیکھا تھا ۔۔۔
’’ صبح تک ساری تیاری ہوجائیگی ‘‘ اس نے چائے کا کپ لیتے ہوئے اس سے کہا تھا ۔۔
’’ یہ بہت اچھا ہے ’’ ارسا نے مسکرا کر اس سے کہا تھا ۔۔ اسکی نظریں آسمان کی جانب تھیں ۔۔ جانے کیوں مگر اسے آج اس آسمان دیکھنا اچھا لگ رہا تھا ۔۔۔
’’ تم تیار ہو ؟ ’’ محد نے کچھ دیر اسے غور سے دیکھتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ تمہیں کیا لگتا ہے ؟ ’’ اس نے اپنی نظریں محد کی جانب کی تھیں ۔۔۔
’’ مجھے تمہارا یہ اطمینان بہت عجیب لگ رہا ہے ۔۔ ایسا لگ رہاہے کہ تم نے کچھ ایسا سوچ رکھا ہے جو ہم میں سے کوئی نہیں سوچ سکتا ’’ اسے جو ڈر تھا اسکا اظہار کردیا تھا ۔۔۔
’’ معلوم ہے مجھ میں اور عفان خالد میں کیا چیز ایک جیسی ہے ؟ ’’ اس نے محد سے ایسا سوال کیا تھا ۔۔جسکا جواب اسکے پاس نہیں تھا۔۔
’’ کیا ؟ ’’
’’ ہم دونوں وہ سوچتے ہیں جو کسی نے نہیں سوچا ہوتا ۔۔ ہم دونوں وہ کرتے ہیں جو کوئی کرنہیں سکتا ’’ اس نے کہہ کر ایک بار پھر آسمان کی جانب دیکھا تھا ۔۔ اور محد کی نظریں ایک بار پھر اس پر ٹک گئ تھیں ۔۔
’’ تم نے کہا تم ہمیشہ میرا ساتھ دوگے ’’ تھوڑی دیر بعد اس نے نگاہ آسمان پر ٹکا کر ہی اس سے کہا تھا ۔۔
’’ ہاں ۔۔ میں دونگا ’’ اس نے ایک بار پھر اقرار کیا تھا ۔۔
’’ کیا تم میری خواہشوں کے حصول میں بھی میرا ساتھ دوگے محد ؟ ’’ وہ اس سے جو پوچھ رہی تھی ۔۔محد اسکا مطلب جانتا تھا ۔۔
’’ تم نے اسے بھی محبت ثابت کرنے کا کہا ہے ۔۔ اب تم میری محبت کو بھی آزمانہ چاہتی ہو ’’ وہ مسکرایا تھا ۔۔ ارسا نے اسکی آنکھوں میں وہ درد دیکھا تھا ۔۔ جو ناکامی میں ہوتا ہے ۔۔مگر ارسا اسے ناکام نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔۔
’’ نہیں۔۔ تم وہ شخص ہو جس نے اس وقت میرا ساتھ دیا جب کوئی نہیں تھا میرے پاس ۔۔ میں تمہیں کیوں آزماؤنگی؟ تمہیں تو وقت نے ثابت کردیا ۔۔ میں تو بس تم سے کچھ مانگنا چاہتی ہوں ۔۔ کیا تم میری مانوگے ؟ ’’ وہ اس سے پوچھ رہی تھی ۔۔ ایک ایسا سوال جسکا جواب وہ خود جانتی تھی ۔۔
’’ تم جو کہوگی میں مانونگا ۔۔ وعدہ ہے میرا ’’ غور سے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئےاس نے ایک سچا وعدہ کیا تھا ۔۔
’’ مجھے یقین ہے تم پر ’’ وہ مسکرا کر کہہ رہی تھی ۔۔ اور محد کے دل کو جانے کیوں ارسا کی مسکراہٹ سے ڈر لگا تھا ۔۔ اسے لگا وہ کچھ ایسا کرنے والی ہے جو شاید واقعی کسی نے نہیں کیا ہوگا ۔۔ مگر وہ ہے کیا ؟
وہ آج آفس نہیں گیا تھا ۔۔ آج اس میں آفس جانے کا حوصلہ نہیں تھا۔۔ آج وہ کانٹوں کے اس راستے میں پہلا قدم رکھنے والا تھا ۔۔۔ آج وہ زخم سہنے کے لئے وقت چاہتا تھا ۔۔ وہ کسی دوسرے کو اپنے زخم دکھانا نہیں چاہتا تھا ۔۔
’’ صاحب ارسا میڈم آئیں ہیں ’’ ملازمہ نے اسکے کمرے میں آکر اسے اطلاع دی تھی ۔۔۔ اور یہ پہلی بار تھا کہ عفان خالد کو ارسا کا آنا ڈراگیاتھا ۔ یہ پہلی بار تھا کہ اسکا دل چاہا کہ وہ ارسا سے کہیں دور جاکر چھپ جائے ۔۔ ایسی جگہ جہاں وہ اسے تلاش نہ کرسکے ۔۔ مگر وہ ایسا کچھ بھی کرنے سے قاصر تھا۔۔ اسے جانا تھا ۔۔ ارسا کے سامنے ۔۔ اسے چلنا تھا ۔۔ ارسا کی جانب ۔۔۔
وہ لفافہ لے کر نیچے آرہا تھا ۔ اسکا ایک ایک قدم سست تھا ۔۔ دل نے دعا کی تھی کہ کاش یہ راستہ کبھی ختم ناہو ۔۔ مگر راستے نے ختم تو ہونا ہی تھا ۔ وہ کچھ دیر بعد ارسا کے سامنے کھڑا تھا ۔۔ اسے لگا وہ ایک ظالم بادشاہ کے دربار میں ایک فقیر بن کر کھڑا ہے ۔۔ ایسا فقیر جس کی طرف اسکا بادشاہ دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتا ۔۔
’’ کیسے ہیں آپ ؟ ’’ وہ اس سے مسکرا کر پوچھ رہی تھی ۔۔ کتنی عجیب لگی تھی اسکی مسکراہٹ ۔۔
’’ زندہ ہوں ‘‘ اس کا جواب ارسا ساجد کے دل کو لگا تھا ۔۔ مگر اپنے دل پر قابو رکھے وہ اس کے سامنے مسکرا کر کھڑی تھی۔
’’ سائن کر دیئے آپ نے ؟ ’’ اس نے ہاتھ میں لفافہ دیکھ کر اس نے پوچھا تھا ۔۔
’’ تم اتنی بے رحم تو کبھی نہیں تھی ’’ جانے کیوں مگر عفان کی زبان نے شکوہ کرہی لیا تھا ۔۔
’’ کیونکہ کبھی سامنے کوئی ظالم بھی نہیں آیا تھا ’’ ارسا کے جواب نے اسے لاجواب کیا تھا،، اس نے لفافہ کھول کر اس میں سے ڈائیورس پیپر نکالے تھے ۔۔
’’ میں چاہتا ہوں پہلے تم سائن کرو ’’ اس نے پیپرز ارسا ساجدکے سامنے کرتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ آپکی چاہتوں کی قبولیت کا دور گزر گیا عفان خالد ۔۔ یہ میرا دور ہے ۔۔ اب میری چاہت کی قبولیت ہوگی ‘‘ وہ اسے اپنے الفاظ سے مار رہی تھی ۔۔ اور عفان اس مار سے مر رہا تھا ۔۔ اس نے دیکھا ارسا اب اپنے بیگ سے پین نکال رہی تھی ۔۔ اس نے پین نکال کر اسکی جانب بڑھایا تھا ۔۔
’’ سائن’’ اس نے مسکرا کر کہا تھا ۔ عفان نےاپنا ہاتھ آگے بڑھا کر وہ قلم تھاما تھا ۔۔ ارسا اسے بغور دیکھ رہی تھی ۔۔ جس کی آنکھوں کی روشنی بھجی ہوئی تھی ۔۔ اس نے دیکھا ۔ وہ قلم ہاتھ میں پکڑے کھڑا تھا ۔۔ وہ بس بغور اس کاغذ کے ٹکڑے کو دیکھ رہا تھا ۔ جو اسکی زندگی ختم کرنے والا تھا ۔۔۔
’’ محبت کے راستے پر پہلا قدم بڑھاؤ عفان خالد ۔۔ زخمی ہونے سے ڈرتے ہو یا محبت نہیں رہی ؟ ’’ ارسا کے سوال نے عفان خالد کو ہوش دلایا تھا ۔۔
’’ محبت کانٹوں کا سفر ہے تو میں اس پر چلونگا ’’ عفان نے قلم کھول کر اسکی نوک اس جگہ رکھی تھی جہاں اس نے سائن کرنے تھے۔۔۔
’’ تم پیروں کے زخمی ہونے کی بات کرتی ہو ’’ اس نے اس قلم کو چلایا تھا۔۔۔
’’ جاؤ ارسا ساجد میں نے تمہاری محبت میں اپنا دل ۔۔ اپنی روح زخمی کردی ’’ قلم رکا تھا ۔۔ سائن ہوچکے تھے ۔۔۔ یہ وہ پل تھا جب ارسا ساجد کا دل تھوڑی دیر کے لئے کانپ گیا تھا ۔۔ اسکے سامنے وہ کاغذ بڑھائے کھڑا تھا ۔۔ اس نے کانپتے ہاتھوں سےوہ کاغذ اس کے ہاتھ سے لئے تھے ۔۔ اس نے اپنے سامنےکھڑے عفان خالد کی جانب دیکھا ۔۔ اسکی آنکھوں میں اسکا کرب عیاں تھا۔۔۔
’’ محبت کا سفر مبارک ہو ’’ ایک بھیگی آواز تھی جو ارسا ساجد کے حلق سے نکلی تھی ۔۔۔ ناجانے کیسے مگر اس نے اپنے تعصورات پر کنٹررول رکھا تھا۔
’’ تمہیں بھی ’’ عفان نے کہا تھا ۔۔
وہ پلٹی تھی ۔۔ عفان نے دیکھا اسکا رخ باہر کی جانب تھا ۔۔ اسے لگا جیسے وہ اسکی زندگی سے باہر جارہی ہو ۔۔ بے خودی میں ہی سہی مگر اسکے قدم ارسا کی جانب بڑھے تھے ۔۔اسکا دل چاہا کے اسے جاکر روک دے ۔۔ اسے کہے کہ مت جائے ۔۔ اسے کہے کہ رک جائے ۔۔ اسے کہے کہ یہ آزمائش بہت مشکل ہے ۔۔ وہ ساتھ رہے ۔۔ مگر وہ کہہہ نہیں سکا تھا ۔۔ وہ بس خاموشی سے ارسا کے پیچھے آرہا تھا ۔۔ ارسا ساجد کو اپنے پیچھے اسکی آہٹ محسوس ہورہی تھی ۔ وہ رکنا چاہتی تھی ۔۔ وہ چاہتی تھی کہ اس آزمائش کو ختم کردےمگر وہ ایسا نہیں کرسکتی تھی ۔۔ وہ ، وہ سب کچھ نہیں بھول سکی تھی ،، جو عفان خالد کی وجہ سے اس نے فیس کیا تھا ۔۔۔
وہ باہر آئی تھی ۔۔ محد گاڑی میں اس کا انتظار کر رہا تھا ۔۔ عفان خالد کی نظر محد پر پڑی تھی ۔۔ جوکہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا ارسا کا انتظار کر رہا تھا ۔۔ عفان کے قدم رک گئے تھے ۔۔ اس نے دیکھا ارسا اسکی جانب بڑھ رہی تھی ۔۔۔ عفان کو لگا کہ اس سے برا وہ کچھ اور دیکھ نہیں سکتا تھا ۔۔ اس سے برا اور کوئی منظر نہیں ہوسکتا ۔۔۔ مگر ایسا نہیں تھا ۔۔۔ کچھ اور بھی تھا جو اس سے برا تھا ۔۔ کچھ اور بھی تھا جو اس نے دیکھنا تھا ۔۔۔
وہ گاڑی کا دروازہ کھول کر بیٹھی تھی ۔۔ وہ لفافہ اسکی گود میں تھا ۔۔ اس نے عفان خالد کی جانب دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہا تھا ۔۔ ایسے جیسے کہ آخری بار دیکھ رہا ہو ۔۔ کتنی حسرت تھی اسکی نگاہوں میں ۔۔
اور پھر عفان نے دیکھا ارسا ساجد نے لفافہ کھول کر اس میں سے ایک کاغذ نکالا تھا ۔۔ اس نے لفافے کے اوپر وہ کاغذ رکھا تھا ۔۔ اسکا رخ ارسا کی جانب تھا مگر اتنے دور سے بھی عفان یہ جانتا تھا کہ وہ کاغذ کونسا تھا ۔۔ گاڑی محد نے سٹارٹ کی تھی ۔۔اور ارسا نے اپنے بیگ سے پین نکالا تھا۔۔ عفان نے دیکھا گاڑی پیچھے کی جانب جارہی تھی۔۔ اور ارسا ساجد نے گود میں رکھے اس کاغذ پر قلم چلایا تھا ۔۔ اسکی آنکھوں سے آنسو نکلے تھے ۔۔۔ اور یہ وہ وقت تھا جب عفان خالد نے اپنی آنکھیں بند کرلی تھی ۔۔۔ یہ وہ منظر تھا جو پہلے منظر سے زیادہ برا تھا ۔۔
ارسانے قلم بند کر کے سامنے دیکھا تھا ۔۔ عفان خالد اس سے کافی دور کھڑا تھا ۔۔ اسکی آنکھیں بند تھیں ۔۔
’’ جب پہلا سائن ہوا تھا تو میری آنکھوں کے آگے اندھیرا تھا ۔۔ اس سے برا میری زندگی میں کچھ نہیں تھا ’’ ارسا کی آواز محد کے کانوں تک پہنچ رہی تھی۔۔ مگر وہ ارسا کی جانب دیکھ نہیں سکتا تھا ۔۔وہ اسے کسی اور کے لئے روتا دیکھنا نہیں چاہتا تھا۔
’’ اور آج یہ دوسرا سائن ’’ ارسا نے وہ کاغذ اپنے چہرے کے سامنے کیا تھا ’’ یہ دوسرا سائن کیا ہے تو اسکی آنکھوں کے آگے اندھیرا ہے ۔۔ اور اس سے برا اسکی زندگی میں اور کچھ نہیں ہوسکتا ’’ اس نے اپنی بات مکمل کر کے وہ کاغذ لفافے کےاندر ڈالا تھا ۔۔ ایک گہری سانس لے کر وہ کھڑکی سے باہر اس سڑک کو دیکھنے لگی تھی ۔۔ جہاں لوگ اپنی اپنی زندگیوں کے کاموں میں مگن تھے ۔۔
کچھ دیر بعد اسلام آباد کے ائیرپورٹ کے آگے محد نے گاڑی روکی تھی۔۔۔ وہ پورا راستہ خاموش تھا ۔۔ مگر گاڑی روک کر وہ ارسا کی جانب مڑا تھا ۔۔
’’پہلے سائن کے بعد اس نے تمہیں گھما دیا تھا ’’ محد نےمسکرا کر اس سے کہا تھا ۔۔ اور ارسا ساجد کے تعصورات بدلے تھے۔۔ اس نے محد کی جانب دیکھا ۔۔
’’ اور دوسرے سائن کے بعد میں اسے گھمانے والی ہوں ’’ ایک مسکراہٹ تھی۔۔ جو ارسا ساجد کے ہونٹوں پر آئی تھی ۔۔ ایک چمک تھی جس نے اسکی آنکھوں کو رونق دی تھی۔۔
’’ تم بہت چالاک ہو ارسا ساجد ’’ محد نے گاڑی کا دروازہ کھول کر اترتے ہوئے اس سے کہا تھا ۔۔ ارسا بھی دروازہ کھول کر اتری تھی ۔۔۔
’’ اور یہ چالاکی مجھے عفان خالد نے ہی سکھائی ہے ’’ اس نے آنکھوں پر سن گلاسس لگاتے ہوئے کہا تھا ۔۔ محد نے گاڑی سے ایک بیگ نکالا تھا ۔۔ اور وہ دونوں ائیر پورٹ کے اندر آئے تھے ۔۔
’’ چالاکی سکھانے والا ہی اسکا نشانہ بنا ۔۔ مجھے عفان سے ہمدردی ہے ’’ وہ مسکرا کر کہتا اسکے ساتھ چلا تھا ۔۔
’’ مجھے بھی ’’ اسکے کہنے پر وہ دونوں ہنسے تھے ۔۔ کچھ دیر بعد ایک پرواز تھی۔۔۔ جو ارسا اور محد کو اس سرزمین سے دور لے گئ تھی ۔۔ وہ اس ملک سے جاچکے تھے ۔۔۔ کہاں اور کیوں ؟ یہ کوئی نہیں جانتا تھا ۔۔۔