وہ اپنے کمرے میں بیٹھی لیپ ٹاپ کھولے کچھ ڈریسز کے ڈیزاہنز کو فاہنل ٹچ دے رہی تھی ۔۔۔نظریں لیپ ٹاپ کی روشن سکرین پر ٹکائے اسنے اپنے زوروں سے بجتے فون کو بنا دیکھے اٹھایا گردن جھکائی کان اور کندھے کے درمیان رکھا ۔۔۔”ہیلو”۔۔۔نظریں سکرین پر ٹکائے وہ مصورف سی بولی ۔۔۔
“اسلام علیکم میم” ۔۔۔۔شہروز کی آواز سن کے اسنے لیپ ٹاپ کی سکرین سے نظریں ہٹاہیں ۔۔۔
“وعلیکم ااسلام ۔۔ہاں شہروز بولو” ۔۔۔لپ ٹاپ کو فولڈ کر کے وہ فون کی جانب متوجہ ہوئی ۔۔۔
“میم وہ ڈیل جو آپ نے کینسل کرنے کو کہا تھا ۔۔۔۔وہ لوگ مان نہیں رہے انہیں ڈریسز آپ سے ہی ڈیزاہن کروانے ہیں” ۔۔۔شہروز تذبب سےکہتا کافی پریشان لگتا تھا ۔۔۔نایاب کے ماتھے پر بل پڑے ۔۔۔
“کیا مطلب ہے مجھ سے ہی ڈیزاہن کروانے ہیں ۔۔کوئی غنڈا راج ہے کیا؟؟ ۔۔۔ ان سے دو ٹوک بات کرو ۔۔۔ہم ویسے کپڑے ہرگز ڈیزاہین نہیں کریں گے”۔۔۔۔ بمشکل اپنے امنڈتے غصے کو کنڑول کرتے وہ تحمل سے بولی ۔۔۔مگر لہجے میں سحتی نمایاں تھی ۔۔۔
“میم میں کتنی بار بول چکا ہوں وہ لوگ سنتے ہی نہیں ۔۔۔ایک ہی ضد کیے جا رہے ہیں” ۔۔۔۔شہروز بے چارہ تو جھنجھنلا ہی گیا تھا ۔۔۔ نایاب نے مٹھیاں پینچ بمشکل خود کو مشتعل ہونے سے بچایا ۔۔۔
“ٹو دا ہیل ود دیم ۔۔۔۔نمبر دو مجھے خود بات کرتی ہوں”۔۔۔غصے میں بول کے ٹھک سے فون کاٹ کے میز پر پٹحا ۔۔۔۔شدید سے کو کنٹرول کرنے میں اسے کچھ لمحے لگے تھے ۔۔۔فون کی میسیج رنگ ٹون بجی تو جھنجھنلا کے فون اٹھایا ۔۔۔میسج کھولا تو شہروز نے اس آدمی کا نمبر سینڈ کیا تھا (رانا شفقت )۔۔۔نایاب حیرت سے ریرے لب بڑبڑائی ۔۔۔ بھلا رانا سفقت اس سے کیوں اس سے ڈریس ڈیزاہن کروانا چاہتا تھا. ۔۔۔نایاب نے چند گہری سانسیں لیں ۔۔۔اور وہ نمبر ڈاہل کیا. تیسری بیل پر فون اٹھانے والی کوئی لڑکی تھی شاید اسکی سیکرٹری ۔۔۔۔
“میں نایاب فاروق بول رہی ہوں راناصاب سے بات کرواہیں میری “۔۔۔وہ رعب سے بولی تو لڑکی نے بنا کچھ کہے اس کی کال رانا صاب کو ڈاہیورٹ کر دی ۔۔۔
“زہے نصیب ،زہے نصیب ۔۔۔بڑی دیر کر دی آپ نے کال کرنے میں میں تو پچھلے دو دن سے انتظار کر رہا ہوں” ۔۔۔وہ اپنے ازلی ٹھرکی انداز میں بولا. ۔۔ شاید ہرلڑکی سے ایسے ہی بات کرتا تھا ۔۔۔
“جب میرے مینجر نے آپ سے کہا ہے کے ہمیں کوئی ڈیل نہیں کرنی آپ کے ساتھ تو کیوں دماغ خراب کر کے رکھاہے” ۔۔۔۔سخت غصے اور آگ برساتے لہجے میں بولتی وہ رانا کو بھی بوکھلا گئی ۔۔۔اسے کیا پتہ تھا ۔۔۔مکھیوں کے چھتے میں ہاتھ دے ڈالے گا ۔۔۔
“مگر کیوں ڈیل نہیں کرنی لاکھوں کی نہیں کروڑوں کی ڈیل ہے” ۔۔۔ وہ یک لحت بولا ۔۔۔مگر اب پہلی بار والی شوحی نایپد تھی ۔۔۔
“آپ اپنے کروڑوں کی ڈیل اپنے پاس رکھیں ۔۔۔۔میں کسی قیمت پر ویسے کپڑے نہیں ڈیزاہن نہیں کروں گی” ۔۔۔۔نایاب کا لہجہ اٹل وہ مصبوط تھا ۔۔۔
“کس قسم کی لڑکی ہیں آپ ۔۔۔میں پوری فلم کے کپڑے آپ دے ڈیزاہن کروانا چاہتا ہوں ۔۔۔اور آپ ہیں کے نحرے کر رہی ہیں”.۔۔وہ جھنجھلایا ۔۔۔”میری اگلی فلم بہت بڑی ہے ۔۔۔ اورجو میری ہیرون ہے شہرین اسے آپ کی بوتیک کے کپڑے ہی پسند ہیں ۔۔۔۔اسلیے میں آپ سے ریکویسٹ کر رہا ہوں کے آپ ہی مجھے ڈیرسز ڈیزاہن کر کے دیں” ۔۔۔آحر میں تحمل سے بولا ۔۔۔مبادہ وہ اور ہی نہ بھڑک جائے ۔۔نمگر دوسری طرف نایاب جو بے زاری سے سن رہی تھی اسکی شہرین کے نام پے چونکی تھی ۔۔۔
“شہرین کر رہی ہے فلم۔۔۔۔۔؟؟؟ “نایاب بے یقینی سے یک دم بولی ۔۔۔بلکل شہرین ہی کر رہی ہے ۔۔۔۔ وہ پر اعتماد تھا ۔۔۔
نایاب کو کچھ پل لگے تھے ساری بات سمجھنے میں ۔۔۔۔مطلب وہ یہاں سب کے سامنے جھوٹ بول رہی تھی ۔۔۔۔افف اسنے کوفت سے آنکھیں بند کیں ۔۔۔۔
“میں آپ سے بعد میں بات کروں گی” ۔۔۔۔بولتے ہی اسنے فون کاٹا اور سر تھام کے بیٹھ گئی ۔۔۔۔شہرین بے وقوفی کر رہی تھی ۔۔۔۔اسے سمجھانا تھا ۔۔۔۔کیسے بھی اسے روکنا تھا ۔۔وہ بھی جلدی پرسوں اسکی مہندی تھی ۔۔۔۔رانا صاب کو عہ بعد میں سبق سیکھا سکتی تھی ۔۔۔کچھ سوچ کر اسنے شہرین کا نمبر ملایا تھا ۔۔۔۔جو اسنے کل ہی پھپھو سے لیا تھا ۔۔۔وہ مصطرب سی موباہل کان سے لگائے بیٹھی تھی مگرشہرین نے کال نہیں اٹھائی ۔۔۔اسنے ایک گہری سانس لے کے دوبارہ نمبر ملایا ۔۔۔”آپ کے مطلوبہ نمبر سے جواب موصول نہیں ہو رہا “.۔۔۔۔آحر میں وہی ریکاڈڈ آواز سن کی اسکا بی پی ہی شوٹ کر گیا ۔۔۔
“جہنم میں جاو تم منحوس لڑکی ۔۔۔ہر بار ایک ہی بکواس کرتی ہو “۔۔۔۔رانا اور شہرین کا غصہ ریکاڈڈ آواز پے اتار کے اسنے فون زور سے میز پر پٹحا ۔۔۔۔”پر فیکٹ اب فون نہیں اٹھا رہی ۔۔۔افف مجھے آنا ہی نہیں چاہیے تھا اس شادی میں “۔۔۔سر پکڑ کے خود کو بھی کوسا ۔۔ موباہیل پھر سے اٹھایا ۔۔۔مگر اب اسنے نمبر نہیں ملایا ۔۔۔ایک لمبا سا میسج ٹاہپ کیا ۔۔۔اور شہرین کے نمبر پر سینڈ کر دیا ۔۔۔اور پرسکون ہو کے بیٹھی ۔۔۔کل اسے شہرین سے مل کر ساری بات کلہیر کرنی تھی ۔۔۔اور اسے پتہ تھا وہ صرور آئے گی ۔۔۔شہرین ابر وقوف تھی اس سے کوئی بھی بات جان لینا نایاب کے باہیں ہاتھ کا کھیل تھا ۔۔۔اسنے مسکرا کر لیپ ٹاپ دوبارہ کھول لیا ۔۔۔تھوڑی دیر میں اسکی امی آنے والی تھی ۔۔۔اور اگر حو وہ اسکو شادی والے گھر میں آرام سے اپنا کام کرتے دیکھ لیتیں تو ۔۔۔۔استغفراللہ ۔۔۔اسنے یہیں تک سوچ کر جھر جھر لی ۔۔۔اور جلدی جلدی کام نپٹانے لگی ۔۔۔
****************************************
اور شام کو جو اسکی امی آہیں گھر میں الگ ہی رونق لگ گئی ۔۔۔دیگر پھپویاں اور ممانیاں بھی آچکیں تھیں ۔۔۔سارے کزنز اگٹھے ہو چکے تھے ۔۔۔گھر پوری طرح چڑیا گھر بنا تھا ۔۔۔۔ابھی لاونچ میں ایک طرف نوجوان پارٹی محفل سجائے بیٹھی تھی تو ایک طرف ساری حواتین کی اسپیشل عیبت کانفرنس بھی جاری تھی ۔۔۔سارے مرد حضرات باہر لان میں محفل سجائے بیٹھے تھے ۔۔۔ایسے میں ایک وہ تھی ۔۔۔جو اکتائی ہوئی لگتی تھی ۔۔۔۔کزنز میں وہ پہلے سے ہی روڈ اور سڑی ہوئی مشہور تھی ۔۔۔اسلیے ان سب نے بھی اس سے کوئی خاص بات کرنے کی کوشش نہیں کی تھی ہاں البتہ وہ ان کی ساہیڈ پر ہی بیٹھی تھی ۔۔۔کیونکہ عورتوں کی غیبتوں میں اسے کوئی انڑسٹ نہیں تھا ۔۔۔اور اگر کہیں وہ غلطی سے امی کو ٹوک دیتی تو انکا کا دو گھنٹے پر مشتمل ایموشنل لیکچر کون سنتا ۔۔۔اسلیے دور ہی رہی تھی ۔۔۔۔ مگرحیرت والی بات تھی ناہل کا اسکی امی کے ساتھ چپک کے رہنا ۔۔۔۔وہ انکے آگے اتنی فرمابردای دیکھا رہا تھا کے سمینہ بھی حیران رہ گئی تھیں۔۔۔انکی ہر بات میں ہاں میں ہاں ملاتا انکے سارے کام وہ کر رہا تھا ۔۔۔۔اور سریا تو حوشی سے پھولے نہ سما رہی تھیں ۔۔۔ ایسی فرماں برداری نایاب نے کبھی نہیں دیکھائی تھی ۔۔۔بقول انکے انکی بیٹی ایک نمبر کی پوہڑ، سست،کام چور اور منہ پھٹ تھی ۔۔۔اور ناہل ہائے ایسی ہی تو بیٹا چاہیے تھا انہیں وہ بھی اسکے صدقے واری جا رہیں تھیں۔۔۔۔نایاب نے کوفت سے سے جھٹکا بسماء اور فروا کو ایک نظر دیکھا جو اسکے کزنز کے ساتھ حوشگپیوں میں حد درجہ مصروف تھیں ۔۔
“نایاب آپی آپ ہم سب کے ساتھ آکے بیٹھیں نا” ۔۔۔اسکی دیکھنے پر ایک کزن حوشی سے چہکا اورلپک اسکے پاس آیا ۔۔۔نایاب نے مسکرا کے اسے دیکھا تھا ۔۔۔
“میں تم لوگوں کے ساتھ ہی تو بیٹھی ہوں “۔۔۔محبت سے اسکے ماتھے پر آئے بال پیچھے کیے ۔۔ وہ احمر تھا تیرا سال کا لڑکا ۔۔۔۔اسکی چھوٹی پھپھو کا بیٹا ۔۔۔۔
“مگر آپ بات کیوں نہیں کرتی؟؟”” ۔۔۔۔وہ منہ بسور کر بولا تو نایاب بے احتیار مسکرائی ۔۔۔”بات کر تو رہی ہوں تم سے “۔۔۔۔وہ اسکے ساتھ ہی جگہ بنا کے بیٹھ گیا تھا ۔۔۔
“مجھ سے کر رہی ہیں باقی سب سے بھی کریں نا جیسے یہ سب لڑکیاں کر ر ہی ہیں “۔۔۔اسنے اپنی بات پے زور دیتے ہوئے باقی لڑکیوں کی جانب بھی اشارہ کیا ۔۔۔
“مجھ سے اتنا نہیں بولا جاتا” ۔۔۔نایاب نے مسکرا کے شانے اچکائے ۔۔۔”ایک بات بھی لڑکیوں والی نہیں ہے آپ میں” ۔۔۔وہ تو جیسے نایاب سے سخت حفا ہو چکا تھا ۔۔۔منہ بنا کے دوسری جانب مڑا اور فروا کے ساتھ باتیں کرنے لگا ۔۔۔۔جو انتہائی باتونی ہونے کا پورا ثیوت دے رہی تھی ۔۔۔۔
“ارے یار کیا فاہدہ زارون ہی نہیں آیا آج کی محفل میں” ۔۔۔۔مجمعے سے ایک خوبصورت سی لڑکی سخت مایوسی سے بولی تو نایاب بھی اسکی جانب مڑی ۔۔۔وہ زرمین تھی احمر کی بڑی بہن ۔۔۔اسکی بات پر محفل میں بیٹھیں سار لڑکیاں بھی اداس ہو گئیں وہ جو اب اتنا تیار ہو کے آہیں تھیں صوف زارون کی وجہ سے وہ آیا ہی نہیں تھا ۔۔۔
“ہاں یار میں اتنا تیار ہو کے آئی تھی ۔۔۔کے ایک نظر وہ ظالم مجھے بھی دیکھ لیتا تو دل کو آسرا سا ہو جاتا” ۔۔۔ایک اور لڑکی مزید اداسی سے بولی تو نایاب کا دل کیا ان لڑکیوں کو حلائی شٹل میں بیٹھا کے مریخ بھیج دے ۔۔۔۔انہی لڑکیوں کی وجہ سے وہ زارون خود کو شہزادہ گلفام سمجھتا تھا ۔۔۔نایاب نے ایک منٹ باقی باتوں سے دیھان ہٹا کر زارون کو سوچا تھا ۔۔۔ وہ اسکی سب سے بڑی پھپھو کا اکلوتا بیٹا تھا.۔۔۔اونچا لمبا قد ،کسرتی جسم،خوبصورت کالے بال ،شوح سا اسکے لیے ایک لفظ مناسب تھا ۔۔۔ہینڈسم۔۔۔۔۔نایاب نے تھک کے جھر جھری لی ۔۔۔وہ اسے کبھی بھی پسند نہیں رہا تھا انتہائی بدتمیز مغرور اور الھڑ دماغ کا مالک ۔۔۔لیکن لڑکیوں کے لیے الگ ہی مخصوص جان لیوا ادا رکھتا تھا ۔۔۔کوئی بھی لڑکی حاصل کرنا اسکی لیے باہیں ہاتھ کا کھیل تھا ۔۔۔نایاب نے گہری سانس لے کر اسے سوچنا بند کیا ۔۔۔”اسکی بلا سے جتنا بھی ہینڈسم ہو” ۔۔۔ ایک تھکی ہوئی نظر سارے لاونچ پے ڈالتی وہ امی سے نظر بچاتی اپنے کمرے میں چل دی تھی ۔۔۔۔پہلے زینے پے قدم رکھتے ہی اسے زارون کے آنے کی خبر سنائی دی تھی ۔۔۔۔لاونچ میں ایک کھل بلی سی مچ گئی تھی اسکی بڑی پھپھو تشریف لا چکیں تھیں ۔۔۔۔۔وہ پیچھے نہیں مڑی تھی ۔۔۔۔مگر اسے مڑنا پڑ تھا کیوں کے اسکی امی اسے پکار رہیں تھیں ۔۔
“نایاب اوپر کدھر جا رہی ہو ادھر آو ملو پھپھو سے” ۔۔۔کہا تو انہوں نرمی سے تھا مگر انکے لہجے کی تنبہی وہ واصح جانتی تھی ۔۔اسلیے مصنوعی مسکراہٹ چہرے پر سجاتی وہ ان سب کی جانب مڑی ۔۔۔کیونکہ وہ سب سے الگ جگہ پے کھڑی تھی ۔۔۔اسلیے سب اسے ہی دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔وہ مسکراتی ہوئی ان تک آئی ۔۔۔۔”اسلام علیکم پھپھو” ۔۔۔مسکرا کے انکے گلے لگی ۔۔۔۔”وعلیکم سلام۔۔۔کیسی ہو میری بچی” ۔۔۔وہ اتنے پیار سے بولیں کے نایاب کے گلے میں کچھ اٹکا ۔۔۔انہوں نے مسکرا اسے اپنے سامنے کیا دونوں ہاتھوں کے ہالے میں اسکا چہرا تھاما اور اسکی پے شانی چومی ۔۔۔وہ تو بے ہوش ہونے کے بلکل قریب تھی ۔۔۔”۔میں ٹھیک ہوں آپ کیسی ہیں”” ۔۔۔ زبردستی مسکراہٹ سجائے وہ بمشکل بولی ۔۔۔اور قدرے حیران نظروں سے اپنی ان پھپھو کو دیکھا جو محبت سے بات کرنا تو دور محبت سے دیکھتی بھی نہیں تھیں.۔۔۔
“ماشاء الله کتنی بڑی ہو گئی ہو ۔۔محبت سے اسے دیکھا ۔۔پھر سریا کی جانب مڑیں ۔۔۔بھئی سریا اسکی شادی کے بارے میں کچھ سوچا کے نہیں ۔۔۔شادی کے لائق تو ہو گئی ہے اب” ۔۔شماہل پھپھو کی اس بات پر نایاب تو نایاب پورے لاونچ میں سناٹا چھا گیا ۔ ایک بیٹے کی ماں یہ کیوں پوچھ رہیں ہیں یہ سب اچھے سے سمجھ سکتے تھے ۔۔۔ناہل کے دل پر تو کسی نے کندھی چھری چلا دی تھی ۔۔۔بسماء اور فروا ہمدردی سے اسکے ساتھ اکے کھڑیں ہوہیں ۔۔۔
“ارے بھابھی ساری باتیں یہیں کھڑے کھڑے کریں گی آہیں آرام کر لیں تھوڑی دیر” ۔۔۔سمنیہ نے ناہل کہ اڑتی رنگت دیکھ کر بات بدلی تھی ( کچھ تو وہ بھی سمجھ چکی تھیں ) ۔۔”نایاب بچے جاو جا کے پیارے میاں کو بولو کے بڑی بھابھی کے لیے اچھی سی چائے لے کر آہیں” ۔۔۔انہوں نے نایاب کو بھی وہاں سے ہٹانا چاہا تھا ۔۔۔وہ بمشکل وہاں کھڑی تھی ۔۔۔فورا کچن جانے کے لیے لپکی تھی
“ارے پی لیں گئے چائے بھی ۔۔۔بڑی پھپھو نے اسے بازو سے پکڑ کر جانے سے روکا تھا.۔۔۔”پہلے زارون سے تو مل لو” ۔۔۔انہوں نے محبت سے اپنے بیٹے کو دیکھا ۔۔۔اور نایاب کو اسکے مقابل کھڑا کیا ۔۔۔نایاب نے رسمی سا مسکرا کر اسے سلام کیا ۔۔۔جسکا جواب اسنے ہلکا سا سر خم کر کے دیا اپنی سحر انگیز شحصیت کے ساتھ وہ اسکے بلکل سامنے تھا ۔۔۔دونوں ہاتھ سینے پر باندھے پر شوق نظروں سے نایاب کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔وہ صبح والے لباس میں ہی تھی ڈوپٹہ سر پر اوڑھے اپنی خوبصورت سبز آنکھوں سے اسے گھور کر ایک نظر دیکھا پھر سر جھٹکااور جو نظر ناہل پر پڑی تو ۔۔۔۔وہ شکوہ کناہ نظروں سے اسے دیکھتا الٹے قدم اٹھاتا وہاں سے باہر نکل گیا ۔ نایاب کے ماتھے پر بل پڑے ۔۔۔اسے کیا ہوہا تھا بھلا ؟؟۔۔
“کیسی ہو نایاب؟؟” ۔۔۔زارون کی شوح آواز اسکی سماعت سے َٹکرائی تو وہ اسکی جانب مڑی ۔۔۔ کیسی بے باک نظروں سے گھور رہا تھا وہ ۔۔۔
“میں بلکل ٹھیک ہوں زارون بھائی. ۔۔۔آپ آرام کریں میں چائے بھجواتی ہوں “۔۔ اسکی برادشت یہیں تک تھی ۔۔۔تپی ہوئی مسکراہٹ سے اسے بھائی بولتی وہ کچن کی جانب مڑ گئی ۔۔۔زارون نے دلچسپ مسکراہٹ سے اسکی پشت کو گھورا تھا ۔۔۔”بھائی تو بلکل نہیں میں تمہارا.۔۔۔اور یہ بہت جلد تمہیں پتہ چل جانا ہے “۔۔۔مسکرا کے سوچا اور سریا ممانی سے جھک کے ملا جو نایاب کی حرکت پے دانت کچکچا رہیں تھیں. ۔۔۔فروا اور بسماء کے دلوں پر کسی نے ٹھنڈی پھوار سی ڈال دی تھی ۔۔۔بھلے ہی وہ ہینڈسم تھا. مگر نایاب کے لیے تو ناہل ہی پرفیکٹ تھا ۔ ہونہہ آیا بڑا. فروا نے منہ چڑھا کے اس مغرور شہزادے کو دیکھا جسکو وہاں موجود ہر لڑکی حسرت سے دیکھ رہی تھی ۔۔ اور بسماء کا بازو پکڑ کر اسے اپنے ساتھ کچن کی جانب گھیسٹا ۔۔۔۔
****************************************
پھپھو اور زارون کےلیے پیارے میاں کو چائے بھجوانے کا بولنے کے بعد وہ ناہل کو تلاش کرتی باہر نکلنے لگی تو سامنے سے آتی دونوں لڑکیوں سے ٹکرا گئی ۔۔۔نایاب نے جھنجھنلا کے ان دونوں کو دیکھا ۔۔۔۔
“فروا کب چلنا آئے گا تمہیں؟” ۔۔۔زارون کا سارا عصہ ان دونوں پے نکلا تھا
“ارے کیا ہو گیا ؟۔۔۔ہم کوئی جان کے تھوڑی ٹکرائے ہیں جو یوں بھڑک رہی ہو”۔۔۔فروا منہ بسورتی ناراصگی سے بولی تو وہ بھی نارمل ہوئی ۔۔۔چند گہری سانسیں لے کر امڈ آیا غصہ ٹھنڈا کیا ۔۔۔
“سوری یار بس وہ تھک گئی ہوں “۔۔۔شرمندہ نظروں سے فروا کو دیکھا۔۔
“تھک گئی ہو یا زارون کا غصہ ہم پے نکال رہی ہو “۔۔۔فروا نے دونوں بازو سینے پر باندھ کے تیکھی نظروں سے نایاب کو گھورا. ۔
“دفع کرو اسے ۔۔۔بھاڑ میں جائے میری طرف سے”.۔۔اسنے ناگواری سے سر جھٹکا ۔۔۔
“تم بھاڑ میں بھیج رہی تو کیا ۔۔۔تمہاری پھپھو تو کچھ اور ہی سوچ رہیں ہیں “۔۔۔فروا نے مزے سے کہتے شانے اچکائے.۔۔تو نایاب نے بری نظروں سے اسے گھورا ۔
“وہ کیا سوچتی ہیں کیا نہیں مجھے فرق نہیں پڑتا سمجھی ۔۔۔”
“اور انکا بیٹا جو سوچتا ہے اس سے فرق پڑے گا تمہیں؟؟؟ ۔۔۔فروا نے سوالیہ آبرو اٹھا کے نایاب کو دیکھا ۔۔۔
“واٹ ایور “۔۔۔اسنے ہاتھ جھلا کے ناگواری سے کہا ۔۔۔”اسے میں بعد میں سیدھا کروں گی پہلے اس ناہل سے نپٹ لوں”۔۔۔ڈوپٹہ سر پے جماتی وہ باہر نکلی تو فروا اور بسماء اسکے پیچھے لپکیں ۔۔۔ناہل نے کیا کیا ؟؟ بسماء نے حیرت سے اسے دیکھا ۔۔۔
“کیا تو کچھ نہیں ۔۔۔مگر کچھ عجیب بی ہیویر تھا اسکا ۔۔۔کچھ پریشان لگا مجھے ۔۔۔۔دیکھتی ہوں جا کے کیا ہوہا اسے “۔۔۔۔وہ نارمل انداز میں بولتی باہر کی جانب بڑھ رہی تھی ۔۔۔فروا نے بسماء کا بازو پکڑ کر اسے نایاب ک پیچھے جانے سے روکا ۔۔۔”انہیں کچھ دیر اکیلا رہنے دو” ۔۔۔بسماء کی سوالیہ نظروں کے جواب میں بولتی ہوئی ان سارے مسلوں کا حل سوچنے لگی تھی ۔۔۔۔جو اسکی سمجھ سے باہر تھا ۔۔۔
نایاب اسے ڈھونڈتی باہر سوہیمنگ پول کی جانب آئی تھی ۔۔۔توقع کر عین مطابق وہ وہیں تھا ۔۔۔دونوں ہاتھ پیچھے فرش پر ٹکائے دونوں پاوں پانی میں لٹکائے وہ آسمان پر جانے کیا تلاش رہاتھا ۔۔۔۔(وہ مسکرائی تھی پتہ نہیں کیوں؟ ۔۔۔اسنے پہلی بار کسی لڑکے کی فکر کی تھی وہ بھی نہ جانے کیوں ۔۔اتنے سارے کیوں تھے اسکی زندگی میں )۔۔۔ اسنے سارے حیالات کو ذہن سے جھٹکا اور پاہینچے اوپر کرتی اسکے داہیں جانب بیٹھی تھی ۔۔۔
“اہم اہم” ۔۔۔جب کافی دیر تک ناہل نے اسکے آنے کا نوٹس نہیں لیا تو اسنے گلا گہنگہارا ۔۔۔وہ چونک کے اسکی جانب مڑا ۔۔۔اسے دیکھ کے ساری اداسی ہوا ہوئی آنکھوں کی چمک مزید بڑھی ۔۔۔”تم کب آہیں ؟؟ “مسکرا کے پوچھتا وہ سیدھا ہوکے بیٹھا ۔۔۔ہاتھ اب گود میں تھے ۔۔۔
“جب تم اپنے حیالوں کی دنیا میں کھوئے تھے ۔۔۔وہ شرارت سے مسکرا کے بولی ۔ سچ سچ بتاو کسے ڈھونڈ رہے تھے آسمان میں شہرین کو ؟؟”۔۔وہ تشویش سے آنکھوں میں شرارت لیے پوچھ رہی تھی ۔۔۔ناہل نے بے احتیار اسے دیکھا ۔۔۔اور پھر اداسی سے مسکرایا ۔۔۔”ہاں شاید اسے ہی یاد کر رہا تھا” ۔۔مدہم آواز میں بڑبڑایا
“کیا ہوہا ناہل تم پریشان لگ رہے ہو ۔۔۔کوئی بات ہوئی کیا شہرین سے.. کہیں تم نے پھر سے جھگڑا تو نہیں کیا “”۔۔وہ یک دم پریشان ہوئی تھی ۔۔۔(کہیں ناہل کو پتہ تو نہیں چل گیا کے شہرین فلم کر رہی ہے)۔۔۔
“ہاں بہت شدید لڑائی ہوئی ہے میری ۔۔۔وہ کیوں نہیں جانتی کے میں کیا چاہتا ہوں۔۔۔۔وہ کیوں کسی اور سے بات کرتی ہے” ۔۔۔وہ اتنی شدت سے دکھ بھرے لہجے میں بول رہا تھا کے نایاب کی بے چینی مزید بڑھ گئی ۔۔۔ظاہر ہے وہ اسکی بات کا اصل مطلب نہیں سمجھ پا رہی تھی ۔۔۔”جب کسی اور کی نظر اس پر پڑتی ہے تو میرا دل دکھ جاتا ہے نایاب ۔۔میں کیا کروں ؟؟ “شدید بے بسی تھی اسکی آواز میں ۔۔۔نایاب کے دل کو کچھ ہوہا ۔۔
“ناہل تم پریشان مت ہو میں بات کروں گی شہرین سے وہ فلم نہیں کرے گی ۔۔۔۔وہ نادان ہے تھوڑی “۔۔۔نایاب نے ہمدردی سے بولتے اسکے شانے پر ہاتھ رکھے ۔۔۔۔ناہل نے چونک کے اسے دیکھا ۔۔۔مگر وہ بول رہی تھی بنا اس پر دھیان دیے ۔۔۔”تم یہ سب باتیں اتنی ہی محبت سے اسے سمجھاو گئے تو وہ سمجھ جائے گی.۔۔۔ہر لڑکی ایسا ہی ہمسفر تو چاہتی ہے جو ان پر کسی کی بری نظر بھی “برادشت نہ کر پائے” ۔۔۔۔اب اپنا ہاتھ اسکے کندھے اٹھا کے واپس گود میں رکھا ۔۔۔ناہل کو کچھ منٹ لگے تھے اسکی ساری بات کا مطلب سمجھنے میں ۔۔۔۔مطلب کے شہرین ان سب کو بے وقوف بنا گئی تھی ۔۔۔۔شدید غصے سے اسکے ماتھے کی رگہیں تن گئیں تھیں ۔۔۔
“تم اسے کچھ نہیں سمجھاو گی ۔۔۔میں خود اس سے بات کروِ گا”۔۔ حتمی لہجے میں بولتا وہ دوسری جانب مڑ گیا ۔۔۔نایاب نے حیران نظروں سے اسے دیکھا تھا ۔۔۔
“ارے واہ ابھی تو اس سے جھگڑے کی وجہ سے اداس بیٹھے تھے اور اب ہو کے غصہ دکھا رہے ہو”۔۔۔نایاب نے مصنوعی غصے سے بولتے ہوئے اسکے کندھے پر دھپ رسید کی ۔۔۔
“میں اس سے جھگڑا کرنے پر اداس نہیں ہوں ۔۔۔نا ہی اسکے فلم کرنے سے مجھے اب کوئی ایشو ہے” ۔۔۔وہ حفا سا بولا تھا ۔۔۔نایاب نے چونک کے اسے دیکھا
“پھر کون سی وجہ ہے ۔۔۔؟؟؟ ”
“چھوڑو مجھے تم بتاو کے یہ زارون کا کیا چکر ہے ۔۔۔۔شماہل ممانی کیا کہہ رہی تھیں اندر “۔۔۔وہ بھڑک کے اسکی جانب مڑا تھا ۔۔۔آنکھوں حد درجہ ناگواری تھی ۔۔۔نایاب نے کوفت سے آنکھیں گھماہیں ۔۔۔
“تم بھی مجھ سے ہی پوچھو ۔۔۔۔پتہ تو ہے تمہیں شماہل پھپھو کا ہر جگہ فصول بولنے کی عادت ہے انہیں” ۔۔۔وہ جل کر بولی تھی ۔۔۔سر نفی میں ہلایا ۔۔۔
“مجھے تو لگتا ہے وہ تمہارا رشتہ مانگ رہی تھیں اپنے بیٹے کے لیے” ۔۔۔لہجہ انتہائی سرسری سا رکھا ۔۔دل پے جو گزری سو گزری ۔۔۔ ۔
“مجھے بھی یہی لگا” ۔۔۔اسنے صاف گوئی جواب دیا ۔۔۔ناہل نے کھنکھیوں سے اسے دیکھا اسکا نیم رح واصح تھا ۔۔۔نظریں سامنے پانی پر ٹکاہیں تھیں ۔۔۔اسکے چہرے پر کوئی تاثر نہیں تھا نہ حوشی کا نہ دکھ کا۔۔۔
“اگر انہوں نے باقاعدہ تمہارا رشتہ مانگ لیا تو تم ہاں کر دو گی ؟؟”۔۔۔کافی دیر سے مچلتا سوال اسکی زبان پر آ ہی گیا تھا ۔۔۔نایاب نے قابل فہم نظروں سے دیکھا ۔۔۔ اسکی آنکھوں میں بہت سی امیدیں جگمگا رہیں تھیں ۔۔۔۔
“مجھے وہ کبھی کبھی پسند نہیں رہا ۔۔۔میں صاف انکار کر دوں گی”۔۔۔۔اسنے حتمی لہجے میں بولتے شانے اچکائے ۔۔۔اسکے جواب پر وہ جو زمین میں دھنسا جا رہا تھا ہواہوں میں اڑنے لگا تھا ۔۔۔۔ہلکا سا ہو گیا ۔۔۔مگر پھر اپنی حوشی کو قابو کیا ۔۔۔”اور اگر سریا ممانی نے انکار کی وجہ مانگی تو ؟؟ ”
“تمہیں اتنا اچھا لگا کیا جو وہ اسے ہی ڈسکس کرنا چاہ رہے ہو تم؟؟” ۔۔۔نایاب نے بات گھمانی چاہی اس سوال کا جواب تو خود بھی اسکے پاس نہیں تھا ۔۔۔
“ہمم اچھا تو ہے وہ ۔۔۔گڈ لکنگ ہے ،ہینڈسم ہے ،اپنا خود کا بزنس ہے اسکا ۔۔۔وہ کسی بھی لڑکی کا آہیڈیل ہو سکتا ہے ۔۔۔”
“ہو گا آہیڈیل ۔۔۔مگر مجھے اسکی نظریں عجیب لگتی ہیں ۔۔۔ایسے لگتا تھا جیسے ایکسرے کر رہا ہو” ۔۔۔نایاب نے انکھیں میچ کے جھر جھری لی ۔۔۔ناہل ہلکا سا مسکرایا ۔۔۔
“تو تم اسکے سامنے مت جایا کرو” ۔۔۔پتہ نہیں مشورہ تھا کے اسکے دل کی آروزو ۔۔۔ نایاب نے آنکھیں سکیڑ کے اسے دیکھا ۔۔۔وہ سر جھکائے پانی میں اپنے پاوں ہلا رہا تھا ۔۔۔پول کے پانی میں لہریں سی اٹھ رہیں تھیں ۔۔۔اس پل نایاب کو وہ بہت اچھا لگا تھا ۔۔۔اپنے بہت قریب۔۔اسکی فکر کرتا ہوہا اپنا اپنا سا ۔۔۔ بس کچھ لحموں کا سحر تھا وہ چونکی اور فورا سے پہلے دوسری جانب مڑی ۔۔۔”حد ہے میں کیوں گھور رہی ہوں اسے “۔۔۔دل میں بڑبڑائی ۔۔۔اور خود کو نارمل کرتی واپس اسکی جانب مڑی ۔۔۔۔”میں کب جاتی ہوں خود آ گیا آج سامنے” ۔۔۔ہاتھ جھلا کے لاپرواہی سے کہا تو ناہل نے محظوظ مسکراہٹ سے اسے دیکھا ۔۔۔اسکا کچھ لمحوں کے لیے کھو جانا اسنے بھی نوٹ کیا تھا ۔۔۔دل میں ایک دم ہی حوشگوار سا احساس جاگا تھا ۔۔۔
“ہمم مگر اب وہ یہیں رہے گا تو دھیان رکھنا “۔۔۔سرسری سا بول کے اسنے نایاب کے جانب دیکھا ۔۔۔
“تم کیوں چاہتے ہو کے میں اسکے سامنے نہ جاؤں ؟”؟۔۔۔نایاب نے جانچتی نظروں سے اسے گھورا ۔۔۔تو وہ دلکشی سے مسکرا کر اسکے چہرے کے قریب جھکا ۔۔۔ اسکی آنکھوں میں جھانکا ۔۔۔”تم جانتی ہو کے کیوں بول رہا ہوں” ۔۔محظوظ سا بولا تو نایاب نے سٹپٹا کے دوسری جانب دیکھا ۔۔۔ناہل نے اسکا چہرہ تھوڑی سے پکڑ کر دوبارہ سامنے کیا ۔۔۔اتنی جرات پے نایاب کی آنکھیں باہر ابلنے کو تھیں ۔۔۔۔”تم پر کسی کی بری نظر مجھ سے برداشت نہیں ہوتی نایاب۔۔۔اپنا حیال رکھا کرو” ۔۔۔دھونس سے بات مکلمل کی اور اسکی تھوڑی چھوڑتا اٹھ کھڑا ہوہا ۔۔۔نایاب نے پھٹی آنکھوں سے اسے سر اٹھا کے دیکھا ۔۔۔وہ سر جھٹکتا اندر کی جانب بڑھا ۔۔۔نایاب نے بے احتیار اپنی تھوڑی کو چھوا ۔۔۔سب کچھ سمجھ میں آیا تھا اسے مگر پھر بھی کچھ سمجھنا نہیں تھا اسے جھر جھری لیتی وہ بھی اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔۔گہری سانس لیتی اپنے کمرے کی جانب بڑھی ۔۔۔۔۔سب سونے جا چکے تھے لاونچ اب حالی تھا ۔۔
“اسکی شادی ہونے والی ہے۔۔۔اگر یاد نہیں ہے تو یاد کر لو کے اسی کی شادی میں تم آئی ہو”۔۔۔نایاب نے جیسے ہی پہلے زینے پر قدم رکھا تو زارون کی آواز نے اسکے اٹھتے قدم روک لیے وہ بے احتیار اسکی جانب مڑی ۔۔۔سینے پر بازو باندھے وہ تیکھی نظروں سے اسے گھور رہا تھا ۔۔۔وہ گہری سانس لیتی ایک قدم نیچے اتری ۔۔۔سینے پر بازو باندھے تندھی سے اسے دیکھا ۔۔۔”مجھے اچھی طرح یاد ہے کے میں یہاں کس لیے آئی ہوں آپکو مجھے یاد کروانے کی صرورت نہیں زارون بھائی “۔۔۔جتاتے ہوئے تنگ کے بولی تو وہ یک دم مشتعل ہوہا ۔۔۔
“میں تمہارا بھائی نہیں ہوں جتنی جلدی یہ بات ہوسکے اپنے دماغ میں بیٹھا لو” ۔۔۔وہ شدید غصے سے بولتا ایک قدم اسکے مزید قریب آیا ۔۔۔۔۔
“اور میں آپکی کوئی بھی بات نہیں مانو گی یہ بات آپ اپنے دماغ میں بیٹھا لیں “۔۔۔۔وہ دوبدو بولی ۔۔۔”اور میرے ساتھ زیادہ فری ہونے کی ضرورت نہیں ہے” ۔۔۔انگلی اٹھا کے اسے وارن کیا اور واپس اپنے کمرے کے جانب پلٹی ۔۔۔زارون نے غصے سے اسے بازو سے پکڑ کر واپس اپنی جانب کھینچا ۔۔۔وہ اچانک سے سینے سے ٹکرائی تو چکرا کے رہ گئی ۔۔۔باہیں ہاتھ سے سر پکڑ کر سیدھی ہوئی ۔۔۔اور شعلے برساتی نظروں سے اسے دیکھا ۔۔۔
“میں فری نہ ہوں اور جو باہر اسکے ساتھ بیٹھی فری ہو رہی تھی اسکا کیا؟ ۔۔۔وہ غصے سے یک دم دبا دبا عرایا ۔۔
نایاب نے زور سے جھٹک کے بازو اسکی قید سے آزاد کیا ۔۔۔
“آج تو آپ نے مجھے ٹچ کرنے کی غلطی کر دی ہے آج کے بعد اگر مجھے ٹچ کیا تو منہ توڑ دوں گی” ۔۔۔شدید غصے سے اسکی آنکھوں میں نمی آ گئی تھی ۔۔۔آواز بھی پھٹ گئی تھی ۔۔۔زارون نے مشتعل ہو کر اسکا چہرہ اپنے سحت ہاتھوں میں جکڑا ۔۔۔”کیوں میرا چھونا کیوں برا لگ رہا ہے جب اسنے چھوا تھا تو تو برا نہیں لگا ۔۔۔اسکا تو منہ نہیں توڑا “۔۔۔ وہ وحشی پن پے اتر آیا تھا ۔۔۔۔اس سے پہلے کے نایاب کچھ کہتی ۔۔۔اچانک سے کسی کے قدموں کی آواز سنائی دی تھی ۔۔۔زارون نے اسے گھما کے اسکے منہ پے سحتی سے ہاتھ رکھا اور زینوں کے نیچے چھپ گیا۔۔۔نایاب نے اتنا بے بس خود کو پہلے کبھی محسوس نہیں کیا تھا ۔۔۔منہ پر اسکے ہاتھ کی وجہ سے دم گھٹنے لگا تھا ۔۔۔ وہ دم سادھے کھڑا تھا ۔۔۔جب قدموں کی آوز دور ہوئی تو نایاب نے اسکی سانسیں اپنے کان کی لوں پر محسوس کی تھیں ۔۔۔”تم صرف میری ہو آج کے بعد مجھے ناہل کے ساتھ نظر نہ آو “۔۔۔بہک کے کہتا وہ اسے مشتعل کر گیا نایاب نے اپنے ہونٹوں پے رکھا اسکا ہاتھ بری طرح اپنے دانتوں میں جکڑ لیا ۔۔۔درد کی شدت سے وہ بلبلا اٹھا فورا اسے چھوڑا ۔۔۔نایاب نے اچھا خاصہ زحم دینے کے بعد اسے چھوڑا تھا
“مجھے کمزور سی لڑکی سمجھ کر دھونس جمانے کی کوشش کی تو انجام کے ذمہ دار آپ خود ہونگے ۔۔۔مجھ سے دور رہیں۔۔۔”آئے ایم وارنگ یو “۔۔۔۔غصے میں ایک ایک لفظ چبا کر کہا اور ایک بری نظر ہاتھ سہلاتے زارون پر ڈال کے اپنے کمرے میں چل دی ۔۔۔کمرے میں پہنچ کے فورا واش روم گھسی ۔۔۔سینک پر جھک کر ٹھنڈے پانی کے چھینٹے اپنی آنکھوں پر مارے ۔۔۔ اور آہینے میں اپنے عکس کو دیکھا ۔۔۔سرخ بھیگی آنکھیں ۔۔۔اسے شدت سے اپنی بے بسی پر رونا آیا تھا ۔۔۔مگر اسے رونا نہیں تھا ۔۔۔وہ نایاب تھی ٹوٹ نہیں سکتی تھی ۔۔۔ایسے ہی کسی مرد کے آگے کمزور نہیں پڑ سکتی تھی ۔۔۔ایک عظم سے آنکھیں رگڑیں ۔۔۔اور خود کو نارمل کر کے واپس کمرے میں آئی ۔۔۔بسماء اور فروا جانے کہاں تھیں ۔۔۔وہ بیڈ پر داہیں کروٹ لیتی لیٹ گئی تھی ۔۔۔”سب ٹھیک ہو جائے گا خود کو تسلی دیتی آنکھیں موند گئی” ۔۔۔مگر اس بات سے انجان کے اب اسکی زندگی میں کچھ ٹھیک نہیں ہونا تھا ۔۔۔۔۔۔
***************************************
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...