ڈاکٹرشہناز نبیؔ(کلکتہ)
بنگال میں اردو صحافت کا آغاز انیسویں صدی میں ہوا۔زمانہ انگریزوں کا تھا اور اردو رابطے کی زبان ہونے کی وجہ سے دلوں کو جوڑنے اور ذہنوں کو سمجھنے کا کام کررہی تھی۔ انگریزوں نے ۱۸۰۰میں کلکتے میں فورٹ ولیم کالج کی بنیاد رکھی۔ ان کا مقصد اہلِ علم سے پوشیدہ نہیں۔وہ فورٹ ولیم کالج کے ذریعہ ہندوستان میں نو وارد انگریز افسران کو اردو اور دوسری دیسی زبانوں کی تعلیم دے کر اس قابل بنانا چاہتے تھے کہوہ اپنے زیر دستوں کے ساتھ معمولی بات چیت کر لے سکیں۔ ’ مغل اور اردو ‘ کے مصنف نصیر حسین خیالؔ کے وہ جملے جو ا نگریزوں کی مصلحت کوشی کے بارے میں لکھے گئے تھے، آج بھی زبان زد عام ہیں۔لکھتے ہیں:
گلکرسٹ، لوکٹ، اور ٹیلر( ممبرانِ سوسائٹی) کی اردو کے ساتھ وابستگی پر ہم اظہارِ خوشی کرسکتے ہیں مگر اس کے ماننے پر تیارنہیں کہ ان کی وہ سوسائٹی جو فورٹ ولیم کالج کے شاندار نام سے پکاری گئی ، ہندوستانیوں کے لئے مفید اور اردو کے حق میں ایک کارِ نمایاں تھی۔ اس انجمن کا پہلا کام، عربی و فارسی اور سنسکرت و بھاشا سے صرف ان کتابوں کا اردو میں ترجمہ کرنا تھا جن کی طرف اس وقت ہندیوں کو رغبت تھی۔ ایسے ترجموں کے کھیل تماشوں میں لگا کر ان قدیم ایشیائی زبانوں سے ہم کو چھڑانا اور ان کی ضرورت کو کم کرنا تھا۔ پھر یہ کوشش کمپنی کے اہل کاروں کی ایک خدمت تھی کہ وہ ان ترجموں کو پڑھ کراس ملکی زبان( اردو ) سے اتنے آشنا ہو جائیں کہ اپنے ہندوستانی نوکروں یا زیردستوں سے معمولی بات چیت کر لے سکیں اور بھوکوں نہ مریں۔ یہ سوسائٹی واقعی اگر اردو کو بڑھانا چاہتی تو ہارون و ما مون کی طرح اس زبان میں علوم و فنون کے ذخیرے بھی لے آتی اور اردو کو مال دار کر دیتی۔
( بحوالہ مغل اور اردو۔ نصیر حسین خیال)
اس میں شک نہیں کہ اردو کی ترویج و اشاعت میں انگریزوں کا اخلاص کم اور ان کی مصلحت انگیزی زیادہ کام کر رہی تھی تاہم اس بات سے ہم انکار نہیں کر سکتے کہ انہی ترجموں کی وجہ سے اردو نثر میں نمایاں اور حیرت انگیز اضافے ہوئے اور جدید اردو نثر کی راہیں ہموار ہوئیں۔
انیسویں صدی میں ہی میدانِ صحافت میں بھی اردو کا بول بالا ہوا اور بنگال سے ہی پہلی بار ہری ہر دت نے اردو زبان کا پہلا اخبار ’ جامِ جہاں نما‘ ۲۷؍مارچ ۱۸۲۲کونکالا۔اس کے بعد راجہ رام موہن رائے نے فارسی کا پہلا اخبار ’ مراۃا لا خبار ‘ ۲؍اپریل ۱۸۲۲کو جاری کیا۔اس طر ح بنگال میں صحافت کی وہ روایت جو ہکیؔ کی گزٹ سے شروع ہوئی تھی بنگلہ، اردو ، فارسی ہندی،گجراتی ، مرہٹی اور دوسری ہندوستانی زبانوں کے ذریعہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتی گئی۔
محققین بتاتے ہیں کہ جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے جیمس آگسٹس ہکیؔ کے بلوں کی ادائیگی روک دی تو ہکیؔ نے ناراض ہوکر ایک اخبارجاری کیا تاکہ وہ کمپنی کے عہدے داروں کے خلاف اپنے غصے کا اظہار اور اپنے احتجاج کی آواز بلند کر سکے۔ اسے صحافت سے دلچسپی تھی اور نہ ہی اس کا کوئی تجربہ رکھتا تھا۔ اس نے اخبار کے پہلے صفحے پر اس کی وضاحت کر دی تھی کہ ’ یہ ہفتہ وار تجارتی و سیاسی اخبار ہے جس کے صفحات ہر پارٹی کے لئے کھلے ہیں لیکن اخبارکا کسی پارٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے‘۔( بحوالہ تاریخِ صحافتِ اردو جلد اول، ازامداد صابریؔ،دہلی ۱۹۵۲)
ہکیؔ نے اپنا اخبار۲۹؍ جنوری ۱۷۸۰کو کلکتہ سے انگریزی زبان میں جاری کیا تھا۔ یہ ہفت روزہ اخبار ’ ہکیزگزٹ ‘ کے علاوہ ’کلکتہ جنرل ایڈورٹائزر‘ کے نام سے بھی جانا تھا۔اسطرح ہندوستان میں صحافت کی ابتدا انگریزی زبان سے ہوئی۔( بحوالہ پیش لفظ، اردو صحافت، مرتبہ انور علی دہلوی،لاہور۱۹۹۱)۔
ہکیؔ کے گزٹ میں کمپنی کے ملازمین کے ذاتی معاملات اور نجی زندگی کا بیان تک ملتا ہے۔ اس بنیاد پر اسے زرد صحافت کی مثال بھی مانتے ہیں۔ تاہم چٹپٹی اور سنسنی پھیلانے والی خبروں کے علاوہ اس میں سنجیدہ خبریں، اشتہارات اور شاعری کوبھی جگہ دی جاتی تھی۔ شاعری کا گوشہ الگ ہوا کرتا تھا جس میں شاعروں کا نادر کلام اور کمپنی کے کارناموں کو سراہنے کے لئے تہنیتی نظمیں شائع ہوا کرتی تھیں۔ ہکیؔ نے کمپنی کی بد انتظامی کا بھی پردہ فاش کیا اور گورنر جنرل وارن ہیسٹنگزؔ کی تنقید کرنے سے باز نہ آیا۔ اس نے اہم اور سر بر آوردہ لوگوں کو بھی نہیں بخشا اور پادری کیرینڈرؔپر الزام لگایا کہ وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہاتھوں گرجا کی زمین فروخت کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ وہ کبھی کبھی بد عنوانیوں پر سے پردہ اٹھانے کے لئے ڈرامے کا سہارا لیتا تھا اور ایسے کرداروں کی تشکیل کرتا تھا کہ نام نہ ہونے کے باوجود لوگ انہیں پہچان جا تے تھے جو اس طرح کی غلط کاریوں میں مبتلا تھے۔ غرض صحافت کا باقاعدہ تجربہ نہ ہونے کے باوجودہکیؔ نے ایک پختہ مدیر کی طرح اخبار کی ادارت کی ذمہ داریاں نبھائیں ۔ اس زمانے میں اس کے اخبار کی اشاعت دو سو کے لگ بھگ تھی۔
( بحوالہ اردو کے اخبار نویس،جلد اول، از ۔ امداد صابریؔ، صابری اکیڈمی، دہلی ۱۹۷۳)
ڈاکٹر طاہر مسعودؔ لکھتے ہیں کہ
’ ہکیز گزٹ ‘ کے اجراء کے ساتھ ہی ہندوستان میں صحافت کی نشو نما تیزی سے ہونے لگی۔اس اخبار کی تقلید میں دس ماہ بعد نومبر ۱۷۸۰میں انڈیا گزٹ جاری ہوا اور پھر یکے بعد دیگرے اخبارات منظرِ عام پر آنے لگے۔ (اردو صحافت انیسویں صدی میں، صفحہ۔۵۸)
انڈیا گزٹ پیٹر ریڈؔاور بی۔ میسنکؔ کی ادارت میں جاری ہوا تھا۔محمد عتیق صدیقی ’ؔ گلکرسٹ اور اس کا عہد‘ میں لکھتے ہیں کہ اس اخبار کے نکالنے کا مقصدہکیؔ کو نقصان پہنچانا تھا۔ بعض محقق کہتے ہیں کہ انڈیا گزٹ کی اشاعت کے پیچھے ایسٹ انڈیا کمپنی کا ہاتھ تھا۔ کچھ لوگ اسے ان کی سازش بتاتے ہیں جو ہکیؔ گزٹ میں اپنی کردار کشی سے برافروختہ تھے۔معاملہ کچھ بھی ہو، اس میں شک نہیں کہ ہکی گزٹ کے مقابلے پرکوئی آگیا تھااورچند سالوں کے اندر کمپنی سے اپنی وفاداری جتاتے ہوئے اس کی خاص مراعات کا حقداربن بیٹھا تھا یعنی انڈیا گزٹ کا محصول معاف ہوگیا اور اسے سرکاری اشتہارات سے سر فراز کیا گیا۔
(جامِ جہاں نما۔ بحوالہ اردو صحافت کی ابتدا، گربچن چندن،مکتبہ جامعہ لیمیٹیڈ۔۱۹۹۲)۔
جب تک ہکی گزٹ سے انڈیا گزٹ کا مقابلہ رہا تب تک اس کی دھار برقرار تھی لیکن جب جب ہکی کا گزٹ بند ہوگیا تو انڈیا گزٹ نے اپنا الگ راستہ اختیار کیا۔اس نے ہکیؔکی طرح کمپنی پر حملے کرنے اور شرفا کی پگڑیاں اچھالنے کے بجائے کمپنی کی اطاعت گذاری شروع کردی اور کمپنی کو احساس ہوا کہ اس طرح کے دو چار اخبار اور نکل آئیں تو کمپنی کی ساکھ نہ صرف بحال ہو جائے گی بلکہ اسے زیادہ سے زیادہ سیاسی و تجارتی فائدے حاصل ہو نے لگیں گے۔ اس خیال سے کمپنی نے اپنی سرپرستی میں۴؍ مارچ ۱۷۸۴کو ’ کلکتہ گزٹ ‘کے نام سے ایک اخبار جاری کیا۔اس کے مدیر مقرر ہوئے فرانسس گلیڈون ۔اس اخبار میں خبروں کے علاوہ شعر و شاعری اور مراسلے بھی چھپتے تھے نیزسپریم کورٹ کی کاروائیاں اورفیصلے، سماجی سرگرمیوں کی تفصیل ،برطانوی اخبارات کے اقتباساتوغیرہ بھی شامل کئے جاتے تھے۔محصول ڈاک معاف تھا۔ سرکاری محکموں کو اخبارات کے لئے اشتہارات فراہم کرنے کی خصوصی ہدایت دی گئی تھی۔
ان ساری تفصیلات کو دھیان میں رکھنا اس لئے ضروری ہے کہ اردو صحافت پر بات کرتے ہوئے ہم ان روایات کو فراموش نہیں کر سکتے جو انگریزی اخبارات کی قائم کردہ تھیں۔ مثلاً آج بھی اشتہارات کے بغیر اخبار کی اشاعت تقریباً نا ممکن ہے۔ سرکاری اطلاعات اخبار کی خاص زینت ہیں۔مراسلے سے عوام کے رجحان ، اخبار سے ان کی دلچسپی ، اور مختلف امور سے ان کی واقفیت کا اندازہ ہوتا ہے۔سیاسی، سماجی، ادبی،اور ثقافتی سرگرمیوں کی تفصیل اس مخصوص خطے کے ماحول سے ہمیں آگاہ کرتی ہے۔سنسر شپ بھی انگریزی دورِ حکومت کی دین ہے۔
ایسٹ انڈیا کمپنی کے مخالف صرف ہندوستانی یاد یسی مدیر ہی نہیں تھے۔ ان میں وہ انگریز بھی شامل تھے جنہیں کمپنی کی پالیسیوں پر اعتراض تھا۔ اور اپنے اعتراض کو ظاہر کرنے نیز کمپنی تک اپنی بات پہنچانے کا بہترین ذریعہ ان کے نزدیک اخبار ہی تھا۔ لیکن کمپنی ہندوستان میں پاؤں جمانا چاہتی تھی۔ اسے ہندوستان کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی ریشہ دوانیوں پر قابو پانااور سرکش قوتوں کو زیر کرنا تھا۔ ایسے میں اخبارات نے زہر اگلنا شروع کیا تو کمپنی کومزید خطرہ محسوس ہوا۔ کمپنی نے سنسر شپ عائد کرکے بمبئی اور مدراس میں سنسر شپ لگا دیا اورجن انگریز مدیروں سے مخاصمت تھی انہیں ہندوستان چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ڈاکٹر طاہر مسعودؔ مقالاتِ گارساں دتاسی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ
دی ورلڈ کے ایڈیٹر ولیم ڈواں،انڈین ہیرالڈ کے ایڈیٹرایس ہیم فرے، اور بنگال ہرکارہ کے ایڈیٹرڈاکٹر میکلین کو کمپنی کی فوج اور سرکاری محکموں کے خلاف توہین آمیز مواد شائع کرنے پر جبراً یوروپ روانہ کردیا گیا۔
ہکیزگزٹ کی اشاعت کے مقاصد اور بعد میں آنے والے مدیروں کے رویے کو سامنے رکھیں تو یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ ہندوستان میں اخبار نویسی کی ابتدا احتجاج کی لے کو تیز تر کرنے کے لئے ہوئی۔ مدیروں کا رویہ کبھی حق گوئی کی طرف مائل رہا اور کبھی مالی منفعت کی غرض سے مصلحت کوشی کا رہا ۔اخبار کے ذریعہ ذاتی بغض و عناد بھی نکالا گیا اور اسے شہرت پانے کا طریقہ بھی سمجھا گیا۔اخبار کے ذریعہ رائے عامہ ہموار کرنے کی کوششیں ہوئیں تو اس سے سیاسی و تجارتی مقاصد بھی پورے ہوتے نظر آئے۔جہاں تک اردو کے پہلے اخبار جامِ جہاں نما کی بات ہے تو ایک عرصے تک اس کی اولیت کا مسئلہ ہی نزاع کا باعث بنا رہا۔اخبار دستیاب نہ ہونے کی صورت میں اس بات کا تصفیہ کرنا بھی مشکل تھا کہ اس اخبار کی پالیسی کیا تھی یا اس کا معیار کیا تھایا اس میں کس طرح کی خبریں شائع ہوتی تھیں۔ جامِ جہاں نما کی اولیت اس وقت ثابت ہوئی جب اسکے اجرا کی رپورٹ ڈاکٹر جان برائس کے اخبار’جان بل‘ کے حوالے سے جیمس سلک بکنگھم کے اخبارکلکتہ جرنل اور پھر کلکتہ منتھلی میں منتقل ہوئی۔ جامِ جہاں نما کے مالک ہری ہر دت اور مدیر سدا سکھ لال تھے۔ چونکہ یہ وہ زمانہ تھا جب فارسی زبان کا ستارہ عروج پر تھا اور امراء و شرفاء کی زبان فارسی ہی ہو ا کرتی تھی، اس لئے اہلِ ثروت کی محفلوں میں جامِ جہاں نما کی جیسی پذیرائی ہونی چاہئے تھی ویسی نہیں ہوئی۔پانچ شماروں کے بعد ۸؍مئی ۱۸۲۲کے شمارے میں اس کی زبان میں تبدیلی لانے کی اطلاع دی گئی۔پہلے فارسی کا صرف ایک کالم شرو ع کیا گیا اور اس کے بعد اس کی پوری زبان بدل دی گئی اور پورا اخبار فارسی میں نکلنے لگا۔ایک سال بعد اخبارکے مالک نے غالباً اپنی اردو دوستی کے پیشِ نظر اس اعلان کے ساتھ کہ فارسی اخبار کے ساتھ صرف چار آنے میں اردو کا ایک ورق دستیاب ہوگا، اردو زبان میں ایک ضمیمہ شائع کرنا شروع کردیا۔اس اردو ضمیمے کو فارسی اخبار کے ساتھ خریدنے کی پابندی نہیں تھی بلکہ اگر کوئی چاہے تو اسے الگ سے بھی خرید سکتا تھا۔ اردو اخبار، فارسی جامِ جہاں نما کا ترجمہ نہیں ہوا کرتا تھا بلکہ اس کے مشمولات الگ ہوا کرتے تھے۔
جان بل کے مطابق جامِ جہا ں نما کے پہلے شمارے میں کابل اورکماؤ کی خبریں، مسٹر بیرنگٹن کی تقرری کی اطلاع،کسٹم ہاؤس کی خبریں اور سپریم کورٹ کی کاروائی کی خبریں وغیرہ شامل تھیں۔ (بحوالہ تاریخ، صحافتِ اردو۔امداد صابری )۔ اس اخبار کے لئے ،جو ایک ہفتہ وار تھا، زیادہ تر خبریں کلکتہ جرنل نامی انگریزی اخبار سے لی جاتی تھیں۔اخبار کو انگریزی سرکار کا مالی تعاون حاصل تھا۔اس کے باوجود اخبار کے مالک کو یہ احساس ہو رہا تھا کہ اخبار کے بند ہونے کی نوبت آرہی ہے۔ شاید اس کی وجہ پڑھے لکھے طبقے کی بے حسی رہی ہو۔
جامِ جہاں نما سے ہندوستان میں اردو صحافت کے باضابطہ آغاز کے بعدصرف بنگال ہی نہیں بلکہ ہندوستان کے مختلف گوشوں سے اخبارات جاری ہوئے اور انگریزی کے علاوہ دیسی زبانیں بھی اس راہ پر گامزن ہوگئیں۔ اردو میں جامِ جہاں نماجیسے ہفت روزہ کے بعد اردو کا پہلا روزنامہ ’ اردو گائڈ ‘ شائع ہونے لگا۔ بعد ازاں اسی شہر کلکتہ سے اردو کا پہلا مکمل نثری ماہنامہ ’ نورِ بصیرت ‘ منظرِ عام پر آیا۔
شانتی رنجن بھٹاچاریہ نے بنگال کی صحافت کے دو دور مقرر کئے ہیں۔پہلا انقلابی اور دوسرا بحرانی۔ ان کے نزدیک انقلابی دور کی ابتدا ۱۹۱۲سے ہوتی ہے جب کہ مولانا ابو الکلام آزادؔ نے الہلال جاری کیا۔ ۱۹۴۰سے ۱۹۴۸ کو وہ بحرانی دور مانتے ہیں جب ایک طرف دوسری جنگِ عظیم،کلکتے پر جاپانی بم باری،قحط، بنگال، کلکتے کے ہندو مسلم فسادات، تقسیمِ ملک اور دوسرے واقعات نے زندگی کے ہر شعبے کو بڑی شدت سے متاثرکر رکھا تھا۔ جنگ کی وجہ سے کاغذ کا ملنا محال تھا اوربم باری کے خوف سے بنگالی حضرات کلکتہ چھوڑکر دیہات کا رخ کر رہے تھے۔
بہار اور یو۔پی کے اردو داں حضرات بھی کلکتہ چھوڑ کر اپنے اپنے گھر لوٹ رہے تھے۔ کلکتے میں کاتبوں کی قلت ہو گئی تھی۔ تقسیمِ وطن کے بعد اردو والوں کی ایک بڑی آبادی مشرقی پاکستان چلی گئی اور صورتِ حال بد سے بد تر ہوگئی۔جہاں تک بنگال کی صحافت میں انقلابی لہجے کی تلاش کا سوال ہے ، ہمیں یہ کہنے میں باک نہ ہونا چاہئے کہ اسکی ابتدا خود اخبار نویسی کی ابتدا سے جڑی ہے اور ہکی گزٹ سے اس کی بنیاد پڑ چکی تھی۔ہکی اور دوسرے انگریز مدیروں نے ایسٹ انڈیا کمپنی پر کڑی تنقیدی نگاہ رکھی تھی اور وہ حکومت کی بد عنوانیوں کے خلاف آواز بلند کرتے رہتے تھے۔ تاریخ گواہ ہے کی ایسٹ انڈیا کمپنی نے ایسے مدیروں سے اس حد تک خطرہ محسوس کیا کہ انہیں شہر چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ پہلے بھی اس ضمن میں لکھا جا چکا ہے کہایسے بیباک مدیروں کو جبراً یوروپ روانہ کردیا جاتا تھا۔ خود ہکیؔ کے ساتھ کیا کچھ نہیں ہوا۔ پہلے اس کے اخبا ر پر ہندوستان سے باہرجانے پر پابندی لگائی گئی۔ پھر چیف جسٹس اور گورنر جنرل کی ہدایت پرہکی کی گرفتاری کے لئے اس کے پریس پر چار سو پولیس کے مسلح فوج کے ساتھ چھاپہ مارا گیا۔ بعد ازاں اسے گرفتار کر کے نظر بند کر دیا گیا۔ ضمانت کی رقم ادا نہ کرنے کی صورت میں قید کی سزا سنائی گئی۔ اس کے بعد چھاپہ خانہ بحقِ سرکار ضبط کرلیا گیا۔بالآخرشدت کی مفلسی جھیلتے ہوئے ۱۸۰۲میں کلکتے میں ہی اس نے آخری سانسیں لیں۔ انگریزی مدیروں کی سرکشی کو ہم کچھ حد تک ذاتی عناد کا نام دے سکتے ہیں لیکن اس میں دو رائے نہیں کہ حکومت ایسے اخبارات کی تنقیدی نگاہ سے خوف کھاتی تھی اور مدیروں کو خاموش کرنے کے لئے یاتو انہیں شہر بدر کر دیتی تھی یا در بدر۔انہیں اتنا توڑ دیا جاتا تھا کہ وہ بغاوت اور سر کشی کا خیال ہی چھوڑ دیتے تھے ۔ شاید ان سے عبرت حاصل کرتے ہوئے ہی بعد کے اخبارات نے دو رخی پالیسی اپنا نے میں عافیت سمجھی اور توازن بنا ئے رکھنا ضروری تصور کیا۔ لیکن اس حقیقت سے انکار کی گنجائش نہیں کہ محدود پیمانے پر ہی سہی ، بنگال میں احتجاج کی لے صحافت کے ابتدائی دنوں سے ہی سنائی دینے لگی تھی۔اس کے بعد جب اردو صحافت کا دور دورہ ہو ا تو ان میں بھی باغیانہ سر سنائی دینے لگے تھے۔ جامِ جہاں نما کا فارسی حصہ سرکاری و تجارتی ضرورتوں کے تحت فارسی میں چھپتا تھا اور اس میں سیاسی سر گر میوں کی تفصیل کچھ کم ہوا کرتی تھی تاہم اس کا اردو میں چھپنے والا حصہ الگ ہی تیور رکھتا تھا۔
اردو گائڈ اور دارالسلطنت نے بھی اپنا سر اونچا رکھا۔ ’ احرار‘ اور ’ استقلال‘ نے انگریزی سرکار کی زیادتیاں سہنے کے باوجود اپنا باغیانہ رویہ برقرار رکھا۔الہلال اور انوار الا خبار نے بھی سر نہ جھکایا۔ ان اخبارات کو حکومت کی طرف سے بار بار وارننگ ملتی تھی لیکن ان کے لہجے کی کاٹ میں کمی نہیں آتی تھی۔شانتی رنجن بھٹاچاریہ نے احرار کا ایک اقتباس ’ بنگال میں اردو صحافت کی تاریخ ‘میں نقل کیا ہے۔ اسے مختصراًیہاں پیش کیا جاتا ہے۔ اس اقتباس سے ’ احرار ‘ کے مدیر محمد اسد اللہ اسدؔ کے جوشیلے لہجے کا اندازہ کیا جاسکتا ہے:
’ ایک طرف گورنرِ بنگال ہیں جو جدید سامانِ جنگ سے مسلح ہیں۔توپ، بندوق، سنگین، ہوائی جہاز، گولے بارود،مضبوط قلعہ، جرار فوج، خوش نما محل، غرض سبھی کچھ ہے۔وہ پبلک سے کہتے ہیں آؤتم بھی صفیں باندھ کر ہماری طرف کھڑے ہو جاؤاور ہماری مد د کرو۔ کس چیز میں۔؟ آزاد قوموں کو غلام بنانے میں۔اماکنِ مقدمہ کی بے حرمتی میں۔ بزرگوں کی جلا وطنی میں۔ خلیفۂ اسلام کی محصوری میں، معصوموں کی یتیمی میں، باعصمت دیویوں کی عصمت دری میں،بے گناہ ہندوستانیوں کی خونریزی میں، خدامِ ملک و ملت کی گرفتاری میں، تحریکِ خلافت و سوراج کی پامالی میں، خلافت و کانگریس کی ڈاکہ زنی میں،تاکہ دنیا امن میں رہیاور جدیدتمدن و تہذیب سے دنیا متمتع ہو سکے؟( اداریہ۔ ۲۶؍ جنوری ۱۹۲۱)
اسدؔ کا غم و غصے میں ڈوبا یہ لہجہ اس حقیقت کا غماز ہے کہ اردو صحافت لوگوں کے دلوں میں آزادی اور قومیت کے کیسے جوت جگا رہی تھی۔بنگال کی صحافت میں انقلابی رجحان کا یہ ایک مختصر سا نمونہ ہے۔ مولانا ابو الکلام آزادؔ،اور مولانا عبدالرزاق ملیح آبادیؔ جیسی جلیل القدر شخصیتوں نے صحافت کے فرائض نبھانے کے ساتھ ساتھقومی رہنما کا کردار ادا کیا اور نئے نظام اور نئے سماج کاتصور بخشا ۔
آج بھی بنگال کی سرزمین پر اردو کے اخبارات پوری آب و تاب کے ساتھ شائع ہو رہے ہیں۔کبھی مالی تنگیوں اور کبھی ذاتی مجبوریوں کی بنا پراکثر اخبارات بند بھی ہوگئے۔ صحافت کی قدیم روایت نے ہمیں بتایا ہے کہ اخبارات کے لئے اشتہارات ضروری ہیں۔ آج جو بھی اخبار اشتہارات حاصل کرنے میں مستعدی و چستی کا مظاہرہ کرتا ہے وہ در اصل اپنی بقا کی جنگ پوری شدت سے لڑ رہا ہے۔روایتوں سے ہم نے یہ بھی سیکھا ہے کہ ہر اخبار کی اپنی پالیسی ہوتی ہے۔ آج بنگال میں اردو کا ہر اخبار اپنی ایک الگ پالیسی کا حامل ہے۔
دورِ حاضر میں کلکتہ سے شائع ہونے والے اہم اخبارات مثلاًآزاد ہند، اخبارِ مشرق، آبشار، روزانہ ہند ، اپنی پالیسیوں سے تو پہچانے جاتے ہیں ہی، ان کی پہچان بنانے میں ان کے اداریے بھی نمایا ں کردار ادا کرتے ہیں۔ اداریے میں زور پیدا کرنے کے لئے مدیر کا صاحبِ علم و اہلِ زبان ہونا شرط ہے۔ ساسرؔ کا کہنا ہے کہ انسان اور اس دنیا کے مابین جس کا وہ تجربہ کرتا ہے، علامات کا نظام قائم ہے اور یہ علامات اس دنیا کی دین ہیں۔ یہ علا ت اس وقت معنی پاتے ہیں جب انہیں کوڈ میں بدلا جاتا ہے، اور خاص کوڈ زبان ہے۔ یہ دنیا سے رشتہ قائم کرنے میں ہماری مدد کرتی ہے۔
روجر فاؤلرؔ کا کہنا ہے کہ خبرکے معنی ہیں زبان کے وسیلے سے دنیا کی نمائندگی۔کیونکہ زبان ایک علاماتی نظام ہے۔ یہ سماجی اور معاشی قدروں کے ڈھانچے کو ہر طرح کے اظہار میں برقرار رکھتا ہے اور اس لئے خبر، ہراظہار کی طرح، جو کچھ بھی کہتی ہے اس کے نقشے ترتیب دے لیتی ہے۔غرض، خبر ترتیب و تعمیر کے معنوں میں اظہار ہے یعنی وہ جو کچھ بھی بتاتی ہے وہ حقیقت کا بے معنی، بے مقصدی یا غیر معیاری اظہار نہیں ہوتا۔فاؤلرؔ کہتا ہے کہ
I assume as a working principle that each particular form of linguistic expression in a text – wording, syntactic option, etc.- has its reason. There are always different ways of saying the
same thing, and they are not random, accidental alternatives.Differences in expression carry ideological distinctions( and thus differences in expression).
Introduction, Language in News, Page- 4By, Roger Fowler. University of East Anglia.
Pub.By.Routledge.1991.
فاؤلرؔ(Fowler)کے الفاظ اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اس کے نزدیک ڈسکورس کی بہت اہمیت ہے اور اسے اس کا یقین ہے کہ خبروں میں زبان خاص کردار نبھاتی ہے۔ ہم چاہے لاکھ کہیں کہ اردو اخبار زیادہ تر ترجموں کے سہارے چلتے ہیں اور مناسب معاوضہ نہ ملنے کی صورت میں با صلاحیت لوگ اخبار نویسی سے دور بھاگتے ہیں تاہم یہ بھی اپنی جگہ سچ ہے کہ اس طرح کی مجبوریاں دکھا کر صحافت کی ذمہ داریوں سے منہ نہیں موڑا جا سکتا ۔ فاؤلر کہتا ہے کہ اسکا مقصد اخباروں پر متعصب ہونے کا الزام لگانا نہیں ہے لیکن اس کی رائے میں ایک عام لسانیاتی تھیوری ضرور ہونی چا ہئے جس کے مطابق تقریباً سارے معنی سماجی طور پر طے شدہ ہوں اور یہ مان لیا جائے کہ ہراظہار ایک سماجی پروڈکٹ اور سماجی عمل ہے۔ اس کا خیال ہے کہ اظہار کو اس وقت بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے جب اس کا سختی سے لسانیاتی جائزہ لیا جائے۔فاؤلرؔ کہتا ہے کہ
News has not been singled out as a unique instance of deliberate or negligent partiality; it is analyzed as a particularly important example of the power of all languages in the social construction of reality. Language in News, page- 4
ہمارے اطراف آج جو کچھ بھی ہورہا ہے ، ہم جس کرب اور انتشار سے گذر رہے ہیں،قدروں کی پامالی کا جس طرح شکار ہو رہے ہیں،اس کا اخبار کے صفحوں پر آنا بہت ضروری ہے۔ پوری دنیا گلوبل ویلیج میں تبدیل ہوتی جارہی ہے، صارفیت نے دم گھوٹنے کا عمل شروع کردیا ہے۔ جنگ اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی تباہیاں انسانیت پر سے اعتماد اٹھا لینے کا اشارہ کر رہی ہیں۔سستی اور گھٹیا اشیاء کا اشتہارات کے ذریعہ بازار پر چھا جانا، عام آدمی کی قوتِ خرید کا خاتمہ ہوجانا، دیسی بازاروں پر بدیسی چیزوں کا قبضہ جما لینا، بنیاد پرستوں کا مذہب کے نام پر معصوموں کے خون سے ہولی کھیلنا،دہشت گردوں کا آزادی کے نام پر علیحدگی پسندی کے جنون کو بڑھاوا دینا۔۔۔۔یہ سارے ایسے معاملات ہیں جنہیں آج کے اخبارات کو واضح طور پر سمجھا نا ہے۔زبان دوسرے کوڈ کی طرح ایک cognitiveرول نبھاتی ہے ۔وہ ہمارے تجربوں کو ایک منظم ذہنی نمائندگی عطا کرتی ہے۔ آج اخبارات سے ہم کو وہی کام لینا ہے۔
٭٭٭٭
نہ تیر کی ہے،نہ تلوار کی لڑائی ہے
ہمارے عہد میں اخبار کی لڑائی ہے (اکبرحمیدی)