۔۔۔۔۔سب سے پہلے احدکے پہاڑ پر پہنچے۔ یہاں غزوۂ احد کے ۷۳شہداءکے مزارہیں۔ حضرت حمزہؓ، حضرت حجشؓ اور حضرت معصب بن عمیرؓ کے مزارسامنے سے دکھائی دیتے ہیں، باقی ستر شہداءکے مزار آگے ہیں۔یہاں حضرت حمزہؓ سمیت تمام شہدائے احد کے لئے دعاکی۔ یہاں کے زائرین میں اکثریت اہلِ تشیع کی لگ رہی تھی۔ حضور کے چچا حضرت حمزہؓ کی شہادت کے بعد ہندہ نے جس سفّاکی کے ساتھ آپ کا سینہ چاک کرکے، کلیجہ نکال کر چبایاتھاوہ اسلامی تاریخ کاایک اندوہناک واقعہ ہے۔ آنحضرت ﷺرحمةللعالمینتھے۔آپنےاپنےخونکےپیاسوںکو بھی معاف کردیاتھالیکن ہندہ کی بہیمیت کاآپ کے دل پر گہرااثر تھا۔فتح مکہ کے موقعہ پر ہندہ نے خاموشی سے آکر اور اجتماعی بیعت میں شامل ہوکراسلام کو تسلیم کرلیاتھا۔ حضور کو جب ہِندہ نے یہ بات بتائی کہ وہ بھی بیعت کرچکی ہے تو آپ نے فرمایاٹھیک ہے، لیکن دوبارہ میرے سامنے نہیں آنا اسی ہندہ کے پوتے یزید نے بعد میں” خلیفۂ وقت“ کے لیبل کے ساتھ آلِ رسول کو میدانِ کربلا میں بے دردی کے ساتھ شہید کرایا۔ شاید اسی پس منظر کے باعث یہاں اہلِ تشیع زائرین کی کثرت تھی۔ احد کی جنگ ہی میں حضور ﷺکادندانمبارکشہیدہواتھااورآپ ﷺزخمیہوئےتھے۔
۔۔۔۔۔۔میدان احدکے بعد ہم مسجد قبلتین کی طرف گئے۔ مسجد قبلتین کا مطلب ہے دو قبلوں والی مسجد پہلے شمالی جانب (بیت المقدس کی طرف)قبلہ تھا۔ اسی مسجد میں نماز کے دوران تحویل قبلہ کا حکم ہوااور دورانِ نماز ہی حضور نے شمال سے جنوب کی طرف رُخ فرمالیاکہ خانہ کعبہ جنوب کی طرف ہے۔ اس تبدیلی سے بعض صحابہ نے شدید ٹھوکرکھائی۔ بعض نماز چھوڑ کر بھاگ گئے۔ بعض نے اسلام سے علیحدگی اختیارکرلی۔ میں مسجد قبلتین کے اندرونی حصہ میں جاکر شمالاً جنوباً دیکھنے لگا۔ میری سمجھ بوجھ کے مطابق قبلہ کی فلاسفی مجھ پر کھلنے لگی۔ خدا لامحدود ہے۔ لامحدود ہستی کسی محدود مکان میں نہہیں آسکتی بقول غالب:
ہے پرے سرحدِ ادراک سے اپنا مسجود
قبلہ کو اہلِ نظر قبلہ نما کہتے ہیں
۔۔۔۔۔۔ہاں۔۔۔خدا کسی مقام کو فضیلت بخش دے تو اس کافرمان ہی اس گھرکوبرکات و انوارکا مرکز اور منبع بنادیتاہے۔ تحویل قبلہ سے پہلے اسلام کے ابتدائی دس برس مکہ میں گذرے۔وہاں مکہ والوں کا روحانی مرکز اور محورخانہ کعبہ تھا لیکن حضور خدائی حکم کے مطابق بیت المقدس کی طرف منہ کرکے ہی نماز پڑھتے رہے۔ مدینہ تشریف آوری کے بعد بھی کچھ عرصہ تک قبلہ بیت المقدس ہی رہا۔مدینہ اور اس کے آس پاس یہودیوں اور مسیحیوں کے کئی قبائل آباد تھے مسلمانوں کا بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنا انہیں اچھالگتاتھالیکن جب قبلہ تبدیل ہواتو کئی صحابہ کوٹھوکرلگنے کے ساتھ یہودیوں اور مسیحیوں کو بھی اس سے سخت صدمہ پہنچااس سے میں نے یہ اصول سمجھاکہ خدا جب قبلہ کی تبدیلی کاحکم دیتاہے تو وہ لوگوں کے مروّجہ عقائد اور تصوّرات کے برعکس اپنا حکم صادرکرتاہے جس سے مخالفین کے دلوں میں نفرت بڑھانے والا جوش پیداہوتاہے۔ اس زمانے میں قبلہ کی تبدیلی پر متعدد اعتراضات کئے گئے جن میںایک اعتراض یہ تھاکہ اسلام تو بت پرستی کا مخالف ہے لیکن خانہ کعبہ جسے اب قبلہ بنایاگیاہے اس میں تو۳۶۰بُت پڑے ہوئے ہیں اور یہ اعتراض تو مغرب کے مستشرقین آج بھی دہراتے نہیں تھکتے کہ نعوذباللہ حضورنے قوم پرستی کے جذبہ کے تحت قبلہ تبدیل کیاتھا۔ بیت المقدس حضرت ابراہیم کے بعد حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب اور دیگر انبیائے نبی اسرائیل کی نسبت سے خصوصی اہمیت رکھتاہے۔دوسری طرف حضرت ابراہیم کے دوسرے بیٹے حضرت اسماعیل کی نسبت سے خانہ کعبہ کو اہمیت حاصل تھی۔ حضور خود حضرت اسماعیل کی آل سے تھے چنانچہ تحویل قبلہ کے وقت قوم پرستی کا اعتراض بھی جڑدیاگیا۔قطع نظر اس سے کہ قوم پرستی کاالزام لگانے والے یہودیوں اور مسیحیوں کے الزام سے خودان کی اپنی قوم پرستی ظاہرہوتی ہے، ازروئے قرآن خانہ کعبہ کی وجہ فضیلت تو سراسر ابراہیمی ہے۔ قرآن مجید سے دوحوالے یہاں درج کردینا مناسب ہوگا:
۱۔ ”اور جب ہم نے اس گھر کو (یعنی کعبہ کو)لوگوں کے لئے باربارجمع ہونے کی جگہ اور ا من کا مقام بنایاتھااور(حکم دیاتھاکہ) ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کا مقام بناؤ البقرہ:۱۲۶)
۲۔ ”سب سے پہلا گھر جو تمام لوگوں کے(فائدہ کے) لئے بنایاگیاتھاوہ ہے جو مکہ میں ہے۔وہ تمام جہانوں کے لئے برکت والا مقام اور موجبِ ہدایت ہے اس میں کئی روشن نشانات ہیں۔ وہ ابراہیم کی قیام گاہ ہے“(آل عمران:۸۹)
۔۔۔۔۔۔بہرحال وہی کعبہ جس کے حوالے سے اعتراضات کئے گئے آج دنیاکاواحد ایسا روحانی مرکز ہے جہاں سے فیض پانے والوں کا سلسلہ دن رات مسلسل جاری رہتاہے۔ جہاں خدا کی رحمتوں، برکتوں اور انوارکی ایسی بارش ہوتی رہتی ہے کہ میرے جیسا ”گمراہ“ بھی وہاں جاتاہے تو اپنے اندر حیرت انگیز پاک تبدیلیاں پاتاہے۔ جہا ںمیری ساری عقلی باتیں، ٹھوس دلائل۔۔۔۔ سب بے معنی ہوجاتے ہیں۔ اندر کی دُھلائی ہونے لگتی ہے، ساری میل کچیل نکلنے لگتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔مسجد قبلتین کے بعد ہم میدان خندق کی طرف گئے۔ وہاں سب سے پہلے مسجد فتح میں گئے۔ یہ وہ مقام تھا جہاں حضور اکرم ﷺنےجنگخندقکےدورانتیندنوںتکدعافرمائیتھیاورچوتھےدنآپکوجنگمیںفتحکیبشارتہوئیتھی۔مسجدتھوڑیاونچائیپرتھی۔یہاںآکرہمنےدونفلپڑھے۔پھر نیچے اترے اور سامنے دکھائی دینے والی مسجد سلمان فارسی میں گئے۔ یہ چھوٹی سی مسجد خاصی خستہ حالت میں تھی۔صفائی کا انتظام انتہائی خراب۔ مجھے حضرت سلمانؓ فارسی کی عظیم شخصیت یاد آنے لگی حضرت عمرفاروقؓ خلیفة الرسول اور امیرالمومنین رعب و دبدبے کے لحاظ سے بھی ڈاڈھے قسم کے تھے۔ مالِ غنیمت سے باقیوں کو ایک ایک چادر ملی تھی، حضرت عمرؓ نے دوچادریں پہن رکھی تھیں۔ بھرے دربار خلافت میں حضرت سلمان فارسیؓ کھڑے ہوتے ہیںاور خلیفۂ وقت سے سوال کرتے ہیں کہ آپ کے پاس دوچادریں کہاں سے آگئیں؟ یہ احتسابی سوال تھا۔ سرِ عام جواب طلبی حضرت عمرؓ نے بڑے تحمل سے جواب دیاکہ ایک چادرجو میرے بیٹے کوملی تھی وہ اس نے مجھے دے دی تھی یہ تھی خلیفہ وقت کی عظمت کہ اس نے خلافت کی طاقت کو خدا کی امانت سمجھا، ذاتی ملکیت نہیں بنایا بھری کچہری میں اعتراض ہوا۔پیشانی پر شکن نہیں آئی۔لہجے میں چبھن نہیں آئی۔ خندہ پیشانی سے جواب دیا۔ حضرت سلمان فارسیؓ مطمئن ہوگئے یہ خلافتِ حقہ اسلامیہ کاکردارتھادوسری طرف یزیدکی خلافت کا کردار ہے جو کسی کو اختلاف کاحق دینے کو تیارنہیں۔سرعام احتساب کی تو بات ہی الگ ہے۔ جس کے پاس طاقت کا گھمنڈ اور بائیکاٹ کاحربہ ہے اور جس نے کربلاکو لہورنگ کر رکھاہے۔ یزیدی خلافت میں انسانیت فرات کے کنارے پر پیاسی دم توڑ دیتی ہے جبکہ حضرت عمرفاروقؓ فرمایاکرتے تھے کہ اگر میری خلافت میں فرات کے کنارے تک ایک کتّابھی بھوکاپیاسا مرگیاتو قیامت کے دن عمرؓ اس کے لئے جواب دہ ہوگا۔ جو ابد ہی کایہ احساس ہی تھا جو خدا کی امانت کو اپنی ذاتی ملکیت نہیں بننے دیتاتھا مسجد سلمان فارسیؓ میں ہم دونوں نے دو دو نفل اداکئے۔
۔۔۔۔۔مسجدِ فاروقؓ کی طرف جانے لگے تو رستے میں ایک طرف بڑی سی خندق کھدی ہوئی دکھائی دی۔ میں نے سمجھاکہ شاید اُس زمانے کی خندق کاایک حصہ محفوظ کرلیاگیاہے لیکن استفسار پر پتہ چلاکہ مسجد ابوبکرکی توسیع ہورہی ہے اور جسے ہم خندق کاحصہ گمان کررہے تھے وہ اصلاً مسجد ابوبکرؓ کی توسیع کے سلسلے میں ہونے والی کھدائی تھی۔ میں نے چاہاکہ مسجد ابوبکرؓ کاپراناحصہ ہی دیکھ لیں لیکن موجودہ توسیع کے کام کے باعث ہمارا فی الوقت وہاں جانا ممکن نہیں تھا۔ مسجد ابوبکرؓ کے اندرنہ جا پانے کے باعث مجھے کچھ کھوجانے کا احساس ہوا۔ وہاں سے سیدھے گذرتے ہوئے مسجدِ عمر فاروق میں گئے۔ وہاں دو نفل اداکئے۔ مسجد عمرفاروقؓ سے آگے پھر اونچائی پرجانا پڑا۔ مسجد علیؓ چوٹی پر تھی وہاں جاکر بھی دو نفل اداکئے۔ دراصل جنگِ خندق کے دوران ان ممتاز صحابہ کرام نے اپنے اپنے مجاہدین کے ساتھ ان مقامات پر پڑاؤ کررکھاتھا۔چونکہ محاصرہ طویل تھا۔ آنحضرت ﷺمختلفوقتوںمیںاسلامیلشکرکےمعائنہکےلئےنکلتےتھے۔حضرتسلمانفارسیؓ،حضرتابوبکرصدیقؓ،حضرتعمرفاروقؓ اور حضرت علیؓ کے مجاہدین کے پڑاؤ کے مقامات پر مختلف اوقات میں حضور کے معائنہ کے دوران جس نماز کا وقت ہوگیا، حضور نے امامت فرمادی اور ان صحابہ کے پڑاؤ کی نسبت سے وہاں بعد میں مسجدیں بناکر ان کے نام سے منسوب کردی گئیں۔ مسجد علیؓ سے واپسی پر ایک چھوٹے سے کمرے جتنی” مسجد فاطمہؓ “دیکھی۔ یہاں دروازہ اتنا تنگ تھاکہ صرف دو آدمی ایک وقت میں مشکل سے گذرسکتے تھے۔ پھر وہاں رش بھی بہت زیادہ تھا۔سومبارکہ نے اور میں نے مسجد کے باہر کھڑے ہوکرہی دعاکے لئے ہاتھ اٹھالئے۔
۔۔۔۔۔۔میدانِ خندق کے بعد ہم مسجد قبامیں گئے۔ یہ دنیا کی سب سے پہلی مسجد ہے۔ مسجد الحرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ کے بعد اس مسجد کو دنیابھر کی مساجد پر فضیلت حاصل ہے روایت ہے کہ یہاں دو نفل پڑھنے کاثواب عمرہ کے ثواب کے برابرہے سنیچر اور سوموار کے دن مسجد قبامیں جانازیادہ بابرکت اور افضل سمجھاجاتاہے۔ اتفاق کی بات ہے کہ ہم جب یہاں حاضر ہوئے تو سوموار کادن تھا۔ مسجد قباکی بنیاد آنحضرت ﷺنےاپنےدستِمبارکسےرکھیتھی۔میںنےمحرابکےسامنےپہلیصفمیںکھڑےہوکردونفلاداکئے۔خداکاشکراداکیا۔
٭٭٭